امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کمسنی میں امامت کے جلوے

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


عالم اسلام میں عہدۂ امامت کا نواں راہنما، مالک شخصیت یگانہ، فضیلتوں کا دریکتا، پیکر عصمت وطہارت، تاجدار کرامت وشرافت، صاحب باب المراد، حضرت امام محمد جوادعلیہ السلام نے شیخ کلینی، مفید اور طوسی کی نقل کے مطابق ماہ مبارک رمضان میں آنکھیں کھولی اور آنحضرت کی رحلت ذی قعد کے آخر میں ٢٢٠ھ میں ہوئی۔
آپ کا ہی یہ بے نظیر طرہ امتیاز رہا ہے کہ آپ سب سے پہلے بچپن میں درجہ امامت پر فائز ہوئے اور آپ سے پہلے کوئی دوسرا ایسی کمسنی میں عہدۂ امامت پر فائز نہ ہوا تو ایسی حالت میں طبیعتاً یہی سوالات سامنے آتے ہیں کہ اک نوجواں ایسی حساس اور سنگین عظیم المرتبت مسلمانوں کی رہنمائی اور امامت کی ذمہ داری کا عہدہ دار کیسے ہوسکتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی بچہ انتہائی کمسنی کے عالم میں اس حد کمال پر فائز ہوجائے کہ جانشین پیغمبر خداۖ بننے کا اسے مستحق دیا جائے اور کیا گذشتہ امتوں میں بھی کبھی ایسا واقعہ رونما ہوا ہے یا نہیں؛ اس لئے کہ جب امام رضا کی شہادت ٢٠٣ھ میں واقع ہوئی تو امام جواد کی عمر ٨سال سے زیادہ نہیں تھی لہٰذا شیعہ حضرات بھی حیرت زدہ تھے کہ ایک بچہ کیسے درجۂ امامت پر فائز ہوگیا۔
اور بعض مورخوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے عبد الرحمن بن حجاج کے گھر جمع ہوکر گریہ وزاری برپا کی چونکہ شیعوں کے لئے مشکل مرحلہ یہ تھا کہ اعتقاد شیعہ اثناعشری کے مطابق امام معصوم کی اطاعت ایمان کا ایک اہم رکن ہے۔ اور دینی وفقیہی مسائل ومشکلات میں امام ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے البتہ امام کے شیعوں کے لئے یہ بات بھی مسلم تھی کہ امام رضا نے اپنا جانشین اپنے فرزند ارجمند امام محمد تقی جواد کو ہی مقرر فرمایا ہے مگر آنحضرت کی کمسنی کی وجہ سے کچھ مشکلات ایجاد ہوگئیں لیکن امام رضا کی محکم ومستحکم تائیدات اور امام جواد میں پائے جانے والے امامت کے کمالات سے ثابت ہوا کہ یہ ایک نقص نہیں بلکہ امام شان اقدس میں بے بہا عظمت کا ایک گوشہ ہے جس کی طرف امام رضا نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔
جس وقت امام ثامن الائمہ نے اپنے فرزند ارجمند امام محمد تقی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور آپ کی جانشینی پر اصرار وتائید فرمائی تو کچھ اصحاب نے کمسنی کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے جوا ب میں اس طرح فرمایا: کمسن ہونا عہدۂ الٰہی کی اہلیت کے لئے رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتا اور پھر اس طرف اشارہ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ شیرخوارگی کے زمانے میں ہی درجہ نبوت پر فائز ہوگئے تھے جبکہ وہ تو میرے بیٹے سے بھی چھوٹے تھے لہٰذا امام محمد تقی کی امامت دو چیزوں سے ثابت ہوتی ہے:
١۔ امام رضا کی فرمودات۔
٢۔ آپ کی علمی صلاحیت اور استعداد۔
لہٰذا آپ سے اسی لئے بہت سے مناظرہ کئے گئے ہیں۔
١۔ شیعوں کی خواہش کے مطابق چونکہ وہ امام کے اندر علم الٰہی کا نظراہ کرنا چاہتے اور دوسرے حکومت کے دو خلیفہ معتصم اور مامون کی سازش کے تحت کہ بڑے بڑے دانشمندوں کو دعوت دے کر سب لوگوں کو جمع کرکے کمسن امام سے مناظرے کئے جائیں تاکہ کسی ایک دانشمند کے سوال میں الجھ کر امام رسوائی کے (معاذاﷲ) شکار ہوجائیں اور خلفاء معاصر کی عزت افزائی ہوجائے لیکن ہمیشہ علم الٰہی کے مد مقابل بڑے بڑے دانشوروں کا علم بحر بیکراں کے سامنے قطرہ کی مانند نظر آیا۔
جس قت مامون نے قصد کیا کہ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد نکاح امام محمد تقی کے ساتھ کرے تو خاندان بنی عباس کے لوگ پریشان ہوگئے اور انھوں نے سخت وحشت زدگی کا اظہار کیا اور اجتماع کرکے اعتراض آمیز لہجہ میں مامون کو کہا: یہ تمہارا کیا قصد ہے ابھی تو علی بن موسی ٰ نے دنیا سے کوچ ہی کیا ہے اور خلافت کی باگ ڈور بنی عباس کے ہاتھوں لگی ہے تو اب کیا تم دوبارہ آلِ علی کی طرف خلافت پلٹانا چاہتے ہو۔
اب تمھیں یہ معلوم ہوناضروری ہے کہ ہم اس عمل کو قالب وجود میں نہیں ڈھلنے دیں گے۔
مامون نے ان سے ی سوال کیا کہ تمھارا اعتراض کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یہ نوجوان کمسن ہے اور علم ودانش سے فیضیاب نہیں ہے ۔
مامون نے کہا کہ تمھیں اس خاندان کی معرفت نہیں ہے، ان کے کمسن اور سن رسیدہ سب علم الٰہی کے حامل ہوتے ہیں اور اگر تمھیں میری بات پر اعتماد نہیں ہے تو تم میں سے کو ئی بھی اس نوجوان کو سوالات کے ذریعہ آزمالے۔
بنی عباس کے لوگوں نے دانشوروں سے یحییٰ بن اکثم (کہ جو علم ودانش کے اعتبار سے مشہور زمانہ سمجھا جاتا تھا) کومعیّن کیا۔
مامون نے اسی کے مطابق ایک جلسہ منعقد کیا، اس جلسہمیں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کیا اور کہا کہ اگر اجازت ہوتو نوجوان سے سوال کی ابتداء کروں۔
مامون نے کہا: خود انھیں سے اجازت لیجئے، یحییٰ نے امام جواد سے اجازت لی۔
امام نے فرمایا: جو سوال تم کرنا چاہتے ہو کرو، یحییٰ نے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں بتائیے کہ جس نے حالت احرام میں شکار کیا ہو اس کا کیا حکم ہے۔
امام جواد نے اس سوال کے پیچ وخم کو اس طرح کھولنا شروع کردیا کہ پہلے تم یہ بتلائو کہ اگر اس شخص نے حالت احرام میں شکار کیا ہے تو کیا وہ حرمت شکار کو جانتا تھا یا مسئلہ سے نا آشنا تھا، عمداً قتل کیا ہے یا خطا سے، آزادی کی حالت میں، یا غلامی کے عالم میں، شکار کرنے والا چھوٹا تھا یا بڑا، اس نے پہلی بار یہ کام انجام دیا ہے یا چند بار انجام دے چکا تھا، اس نے شکار پرندہ کا کیا ہے یا غیر پرندہ کا، کسی چھوٹے جانور کا شکار کیا ہے یا بڑے جانور کا، وہ اسے انجام دینے کے بعد لاپرواہی کااظہار کررہا ہے یا اپنے کیے پر پشیمان ہے، کیا اس نے دن میں شکار کیا ہے یا رات میں، شکار کی حالت میں احرام عمرہ میں یا احرام حج میں؟
یحییٰ ابن اکثم اس مسئلہ کی اتنی فروع واقسام سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔
اور آثار ناتوانی اس کے چہرہ سے نمایاں ہونے لگے، زبنان میں لکنت پیدا ہوگئی اور اس طریقے سے پیدا ہوئی کہ حاضرین مجلس بھی آنحضرت کے مد مقابل اس کی ناتوانی کو سمجھ گئے۔
مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر گذار ہوں کہ جو میں نے سوچا تھا وہی واقع ہوا، پھر اپنے خاندان کے افراد پر نگاہ ڈالی اور کہا: جس کو تم نہیں جانتے تھے کیا اس سے واقف ہوگئے.... اور اس کے بعد جب سب لوگ پراکندہ ہوگئے اور خلیفہ کے حوالیوں کے علاوہ کوئی جلسہ میں باقی نہ رہ گیا تو مامون نے امام جواد کی طرف رخ کیا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان جائوں کیا خوب ہے کہ اگر حالت احرام میں شکار کی ان فروع واقسام کے احکام کو آپ ہی بیان فرمادیںتاکہ ہم بھی اس سے استفادہ کریں۔
امام جواد نے فرمایا: ہاں، اگر کوئی شخص مُحرم حل (احرام سے باہر) میں شکار کرے اور شکار بڑے پرندوں سے ہو تو اس کا کفارہ ایک بھیڑ ہے اور اس نے حرم کے اندر شکار کیا تو اس کا کفارہ ایک دو برابر ہے اور اگر حرم سے باہر کسی پرندے کا شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ بھیڑ کا ایک بچہ کہ جس کادودھ کچھ ہی دن پہلے چھڑایا گیا ہو اور اگر اس کو حرم قتل کیا ہو تو بھیڑ کے بچہ کے ساتھ بچہ پرندہ کی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی۔
اور اگر شکار کسی گور خر (گدھے کے مانند جانور) کا کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک گائے ہوگا اور شتر مرغ کو قتل کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک اونٹ اور اگر ہرن ہو تو کفارہ ایک بھیڑ ہوگا۔
اور اگر ان میں سے ہر اک کو حرم میں قتل کیا ہو تو کفارہ دو گنا ہوگا۔
اور شخص حالت احرام میں کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے اس کے اوپر قربانی واجب ہوجائے تو اگر احرام حج تھا تو قربانی منی کرے اور اگر احرام عمرہ میں اس نے یہ ارتکاب کیا تھا تو مکہ میں قربانی کرے، عالم وجاہل کے لئے کفارہ شکا حکم برابر ہے۔
لیکن اگر جان بوجھ کر اس نے ایسا کیا ہو تو وجوب کفارہ کے علاوہ ارتکاب گناہ بھی کیا ہے لیکن خطا کی صورت میں گناہ اس کے ذمہ ہے لیکن غلام کا کفارہ اس کے مالک کے اوپر ہے اور کمسن پر کفارہ نہیں ہے بلکہ بڑے آدمی پر کفارہ ہوگااور جو اپنے کیے پرپشیمانی کا اظہار کررہا ہے اس شخص نے عذاب آخرت اٹھالیا گیا ہے اور جو پشیمان نہیں ہے وہ مستحق سزا ہوگا۔
قاضی القضات مات پڑگیا، مامون نے عرض کیا: احسنت اے ابو جعفر! خدا آپ کے نیکی کرے، لیکن کیا بہتر ہوگا اگر آپ بھی یحیی ابن اکثم سے سوال کرے۔
یحییٰ ابن اکثم سے حصول اختیار کے بعد ابو جعفر سے نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں بتلائیے کہ جس کا وقت ایک عورت کے اوپر نگاہ کرنا حرام تھا، قبل از ظہر وہ عورت اس پر حلال ہوجاتی ہے اور جب وقت ظہر ہوتا ہے تو اس پر حرام ہوجاتی ہے اور وقت عصر اس پر حلال ہوجاتی ہے، غروب آفتاب کے وقت اس پر حرام ہوجاتی ہے، وقت عشا اس پر حلال ہوجاتی ہے آدھی رات گذرنے پر پھر حرام ہوجاتی ہے اور طلوع فجر کے وقت پھر اس پر حلال ہوجاتی ہے تو یہ کیسی عورت ہے اور کس چیز سے حلال وحرام ہوتی ہے؟
یحییٰ نے امام کے سامنے عجزو ناتوانی کا اظہار کیا اور امام سے ان سوالات کے جوابات کی درخواست کی۔
تو امام جواد نے فرمایا:یہ عورت وقت صبح ایک مرد کی کنیز تھی، کوئی دوسرا شخص اس پر نگاہ کرتا ہے تو وہ حرام ہوتی ہے، قبل از ظہر وہ شخص کنیز کو اس کے آقا سے خرید لیتا ہے تو وہ اس پر حلال ہوجاتی ہے اور وقت ظہر پہنچتے ہی اس کو آزاد کردیتا ہے تو پھر اس پر حرام ہوجاتی ہے۔
جب عصر کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اپنے حبالہ نکاح میں لے لیتا ہے تو اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
مغرب کے وقت اس کو ظہار کردیتا ہے تو اس پر حرام ہوجاتی ہے۔
وقع عشاء کفارہ دے دیتا ہے مجدداً پھر اس پر حلال ہوجاتی ہے اور جب رات کا نصف حصہ گذر جاتا ہے تو اس کو طلاق دے دیتا ہے اور وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے اور طلوع فجر کے ہنگام اس طرف رجوع کرلیتا ہے تو وہ اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
لہٰذا کمسنی کے عالم ہی میں کمالات کی خاطر اور رضا نص وفرمودات کے سبب امام کی اماتت آفتاب روز کی طرح سب کے اوپر روشن وواضح ہوگئی۔
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک