اولوالامر،حضرت علی(ع اور ان کی اولاد سے بارہ امام ہیں
اولوالامر، حضرت علی(ع) اور ان کی اولاد سے بارہ امام ہیں۔
مذکورہ متواتر اور متظافر روایات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ حضرت علی(ع) مومنین کے مولیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے ولی امر ہیں۔ ان کے علاوہ یہ روایات قرآن کریم کی آیت:
ياَيها الَّذِينَ اٰمَنُوْٓ اَطِيعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الاْ َمْرِ مِنْکُمْ۔ ۱
میں اولی الامر کے مفہوم کی بھی تفسیر کرتی ہیں: اس کے علاوہ درج ذیل احادیث بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں:
الف۔ شواہد التنزیل میں حضرت علی(ع) سے مروی ہے کہ آپ(ع) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا اور کہا:
اے اللہ کے نبی (ص) وہ (اولوالامر) کون ہیں؟
فرمایا:تم ان کے پہلے ہو۔
ب۔ مجاہد سے اولی الامر منکم کے بارے میں منقول ہے کہ اس نے کہا:
اس سے مراد علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ(ص) کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کو اس وقت ولی امرمقرر فرمایا جب آپ(ص) نے مدینہ میں انہیں اپنا جانشین بنایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔
ج۔ حضرت ابو بصیر نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے خدا کے قول:
اَطِيعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الاْ َمْرِ مِنْکُمْ۔
کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:
یہ علی ابن ابی طالب (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
میں نے عرض کیا:
لوگ کہتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت علی(ع) اوران کے اہل بیت (ع) کے ناموں کا ذکر اپنی کتاب میں کیوں نہ کیا؟
آپ نے فرمایا:
تم لوگ ان سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول(ص) پر نماز کا حکم اتارا لیکن تین یا چار کا ذکر نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی اس کی تفسیر کی نیز قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حج کا حکم اتارا لیکن یہ نہیں بتا یاکہ سات بار طواف کرو یہاں تک کہ آپ(ع) نے اس کی تشریح فرمائی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اَطِيعُوا اللهَ وَاطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ نازل فرمائی۔ یہ آیت حضرت علی(ع)، امام حسن اور امام حسین کے بارے میں اتری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اوصیکم بکتاب اللہ واہل بیتی انی سالت اللہ ان لا یفرق بینھا حتیٰ یردا علی الحوض فاعطانی ذالک۔میں تمہیں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان دونوں کے درمیان جدائی نہ ڈالے یہاں تک کہ یہ دونوں حوض پر میرے ہاں حاضر ہو جائیں۔ پس اللہ نے میری یہ دعا قبول کی۔
اہل بیت کشی نوح اور باب حطہ کی مثل ہیں
صحابہ اور اہل بیت میں حضرت علی(ع)، حضرت ابوذر،حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابن عباس اور انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مثل اہل بیتی کسفینة نوح من رکبھا نجیٰ ومن تخلف عنھا غرق
میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔
ان میں سے بعض نے نقل کیا ہے:
مثل باب حطة فی بنی اسرائیل۔
ان کی مثال بنی اسرائیل کے باب حطہ کی سی ہے۔
ان احادیث کے مآخذ حسب ذیل ہیں۔
۱۔ محب طبر ی کی ذخائر العقبیٰ ص۲۰ طبع قاہرہ
۲۔ مستدرک الحاکم ج۲ ص۳۴۳، ج۳ ص۳۰۶۔ طبع حیدر آباد دکن
۳۔ ابو نعیم کی حلیة الاولیاء ج۴ ص۳۰۶۔ طبع المطبعة السعادہ مصر
۴۔ تاریخ خطیب بغدادی ج۱۲ ص۱۹۔ طبع مدینہ منورہ
۵۔ ہیثمی کی مجمع الزوائد ج۹ ص۱۶۸۔ طبع بیروت
۶۔ سیوطی کی الدر المنثور (آيه اُدْخُلُو الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَغْفِرْلَکُمْ خَطَاياکُمْ کی تفسیر میں)۔
۷۔ کنز العمال طبع اول ج۶ ص۱۵۳ اور ۲۱۶۔ طبع دکن
۸۔ صواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۵۔ طبع قاہرہ (ابن حجر نے اسے دار قطنی، طبرانی، ابن جریر اور احمد بن حنبل وغیرہ سے نقل کیا ہے۔)
حضرت علی(ع) اور آپ(ع) کی معصوم اولاد رسول(ص) کے مشن کے مبلغ ہیں
قرآن کریم نے کئی ایک آیات میں رسولوں کی ذمہ داری کو تبلیغ (پہنچانے) کی حد تک محدود قرار دیا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات میں:
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ 2
رسول اللہ(ص) کی ذمہ داری بس حکم پہنچا دینا ہے۔
وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ 3
اور رسول(ص) کی ذمہ داری تو صرف یہ ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کریں۔
اَنَّمَا عَلَی رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ4
ہماری رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے۔
فَهلْ عَلَی الرُسُلِ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِين 5
کیا رسولوں پر واضح انداز میں تبلیغ کے سوا کوئی اور ذمہ داری ہے؟
اسی طرح خاص طور سے خاتم الرسل کی ذمہ دری کو بھی تبلیغ کے دائرئے میں محدود کرتے ہوئے فرمایا ہے:
فَاِنَّمَا عَلَيکَ الْبَلَاغُ 6
آپ کی ذمہ داری تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔
اِنْ عَلَيکَ اِلَّا الْبَلَاغُ 7
آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے۔
یاد رہے کہ تبلیغ کی کئی قسمیں ہیں:
۱۔ بلا واسطہ تبلیغ
۲۔ بالواسطہ تبلیغ
۳۔ اس چیز کی تبلیغ جس کا وقت عمل آچکا ہو۔
۴۔ اس چیز کی تبلیغ جس کا وقت عمل ابھی نہ آیا ہو:
مثلاً! مومنوں کے ان دو گروہوں کا حکم جو ایک دوسرے سے لڑیں اور ظالم حکمران کے مقابلے میں مسلمانوں کی ذمہ داری۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس چیز کی تبلیغ کرتے ہیں (جسے اللہ کی طرف سے پہنچاتے ہیں) وہ دو طرح کی ہیں:
الف۔ جو لفظاً اور معناً بذریعہ وحی نازل ہو۔ یہ کتاب اللہ سے عبارت ہے۔ کتاب اللہ کا نام اس امت کے ہاں قرآن کریم ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
وَاُوْحِیَ اِلیَّ هذَا الْقُرْاٰنُ لِاُ نْذِرَکُمْ بِه وَمَنْم بَلَغَ۔ 8
اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔
ب۔ معناً بذریعہ وحی نازل ہو، لیکن لفظاً نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک الفاظ میں ان کو پہنچایا ہو۔ مثال کے طور پر احکام شریعت کی تفصیلات۔ اللہ فرماتا ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَينَآ اِلَيکَ وَمَا وَصَّينَا بِه اِبْرٰهيمَ وَ مُوْسٰی وَ عِيسٰٓی اَنْ اَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيهط۔ 9
اس نے تمہارے لئے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم و موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا۔ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کی رکعتوں کی تعداد، اذکار کی تعداد اور باقی احکام بیان کرتے ہیں نیز شریعت اسلامی کے دیگر احکام کی تشریح فرماتے ہیں یا سابقہ امتوں کے واقعات اور آئندہ کے غیبی حالات خواہ اس دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے بیان فرماتے ہیں تو گویا آپ اس وحی کی تبلیغ فرماتے ہیں جو قرآن میں نہیں ہوئی جیسا کہ فرمایا گیا: وَمَاينْطِقُ عَنِ الْهوٰی اِنْ هوَاِلّاَوَحْیٌ يوْحٰي ۔10
وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
اس قسم کی تبلغ کو امت مسلمہ کے ہاں حدیث نبوی(ص) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
گزشتہ آیات نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داریوں کو تبلیغ کے ساتھ مختص کیا۔ بنابریں رسول(ص) کی امتیازی صفت تبلیغ قرار پائی۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کے بارے میں فرمائیں: انہ منی ”وہ مجھ سے ہے“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تبلیغ کے کام میں مجھ سے منسلک ہے۔ ہم یہ دعویٰ بلاوجہ اور اپنی طرف سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض احادیث میں اس بات کی تصریح فرماتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ سورة برأة کی آیات کی تبلیغ سے مربوط واقعے میں آپ(ص) نے فرمایا:
------------------------------------------------------------------------