امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شب قدر کے واقعات

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


الف: قرآن کریم کا نزول

 یہ آیہ کریمہ " انا انزلناہ فی ليلة القدر" بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پورا قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے اور چونکہ انزال کی تعبیر استعمال ہوئی ہے لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن، دفعی اور یکجا ہوا ہے نہ تدریجی یعنی دھیرے دھیرے۔
در حقیقت قرآن کریم دو طریقوں سے نازل ہوا ہے:
۱: دفعی نزول ایک ہی رات میں۔
۲: تدریجی نزول تئیس سالہ دور نبوت میں۔
کچھ آیات جیسے " قرانا فرقناہ لتقراہ علی الناس علی مکث و نزلناہ تنزیلا" ( اسراء ۱۰۶) قرآن کریم کے نزول تدریجی پر دلالت کرتی ہیں۔
قرآن کریم کا نزول دفعی موجودہ شکل و صورت میں نہیں ہوا ہے یعنی موجودہ قرآن جو سوروں اور آیتوں سے مرکب ہے اسی شکل و صورت کے ساتھ ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ اجمالی صورت میں قرآن (قلب پیغمبر) پر نازل ہوا ہے اس لیے کہ وہ آیات جو کسی شخص، واقعہ یا حادثہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں مکمل طور سے اسی شخص یا حادثہ پر منطبق ہوتی ہیں اور ایک خاص زمان و مکان میں نازل ہوئی ہیں اور معلوم ہے کہ ان آیات کے کوئی معنی نہیں رہے گے اگر ہم انہیں اس مخصوص واقعہ یا شخصیت سے جدا کر دیں۔ اور فرض کر لیں کہ یہ تمام آیات شب قدر میں ہی نازل ہوچکی تھیں۔ یقینا اس صورت میں کچھ آیات صحیح مصداق تلاش نہیں کر پائیں گی۔ پس قرآن کریم اسی شکل و صورت کے ساتھ نازل نہیں ہوا ہے بلکہ دو طریقے سے نازل ہوا ہے پہلے ایک بار اجمالی طور میں پھر دوسری بار دھیرے دھیرے ہر موقع اور محل کی مناسبت سے۔ یعنی فرق دونوں طرح کےنزول میں اجمال اور تفصیل کا ہے۔ وہی اجمال اور تفصیل جو اس آیہ کریمہ " کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر" (ھود،۱) میں جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب قدر میں قرآن کریم یکجا اور اجمالی طور پر پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔ اور تئیس سالہ دور رسالت میں دھیرے دھیرے ہر موقع اور محل کی مناسبت سے تفصیلی طور ہر نازل ہوتا رہا ہے۔

ب: امور کو مقدر کرنا

 خدا وند عالم شب قدر میں آئندہ ایک سال کے واقعات کو منجملہ زندگی ، موت ،رزق و تنگ دستی، سعادت اور شقاوت، خیر و شر، توفیق اطاعت اور معصیت وغیرہ کو مقدر اور معین کرتا ہے۔
اس آیت " انا انزلناه فی ليلة القدر" میں کلمہ قدر "تقدیر امور " پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ آیت " فیھا یفرق کل امر حکیم" (دخان،۶) کہ جو شب قدر کی تعریف میں نازل ہوئی ہے نیز تقدیر امور پر دلالت کرتی ہے۔ چونکہ کلمہ "فرق" الگ کرنے اور دو چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے معنی میں ہے۔ اور " امر حکیم "کو جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امر اور واقعہ جسے رخ پانا چاہیے اس کو معین کرتا ہے۔ تمام امور قضائے الٰہی کے اعتبار سے دو مرحلہ رکھتے ہیں: ایک اجمال اور دوسرا تفصیل۔ شب قدر میں امور کو اس مذکورہ آیت کی دلالت کے مطابق مرحلہ اجمال سے مرحلہ تفصیل میں لایا جاتا ہے۔

ج: ملائکہ اور روح کا نزول
 اس آیہ کریمہ " تنزل الملائکة و الروح فيها باذن ربهم من کل امر" (قدر۔۴) کی بنیاد پر ملائکہ اور روح اس رات پروردگار عالم کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ روح سے مراد وہ روح کہ جو عالم امر سے ہے اور خدا اس کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: " قل الروح من امر ربی" (اسراء،۸۵) ہے ۔ یہ کہ امر سے مراد کیا ہے؟ تفصیل سے کچھ بحثیں تفسیر المیزان میں بیان ہوئی ہیں کہ جن میں سے مختصر طور پر دو روایتوں کو پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:

۱: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جب شب قدر آتی ہے وہ ملائکہ جو " سدرۃ المنتھیٰ" میں رہتے ہیں اور جبرئیل بھی ان میں سے ایک ہیں نازل ہوتے ہیں۔ اس حال میں کہ جبرئیل اپنے ہمراہ ساتھیوں کے ساتھ کچھ پرچم ہاتھ میں لئے ہوتے ہیں۔
ایک پرچم میری قبر پر ایک بیت المقدس پر، ایک مسجد الحرام پر اور ایک پرچم طور سینا پر نصب کرتے ہیں۔ اور کوئی مومن مرد اور عورت ان علاقوں میں باقی نہیں رہتا مگر یہ کہ جبر ئیل اس کو سلام کرتے ہیں۔ الا وہ شخص جو دائم الخمر ہو یاسور کا گوشت کھانے کا عادی ہو یا اپنےبدن پر زعفران ملنے کا عادی ہو۔(۵)

۲: امام صادق علیہ السلام سے روح کے بارے میں سوال ہوا: حضرت نے فرمایا: روح جبرئیل سے اعظم ہے اور جبرئیل ملائکہ میں سے ہیں اور روح جنس ملائکہ میں سے نہیں ہے۔ مگر آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ خدا نے فرمایا ہے: تنزل الملائکۃ و الروح" پس معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ روح سے الگ ہے۔ (۶)

د: سلامتی اور امنیت۔

 قرآن کریم شب قدر کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: "سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر"(قدر،۵) کلمہ سلام اور سلامت ،ظاہری اور باطنی آفتوں سے عاری ہونے کے معنی میں ہے اور جملہ " سلام ھی" اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ عنایت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی رحمت تمام بندوں کے شامل حال ہووہ بندے جو اس کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اور نیز شب قدر عذاب کا دروازہ بند رہتا ہے ۔ اور شیطان کا مکر و فریب ناکارہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں نیز اس مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
البتہ بعض مفسرین نے کہا ہے: کلمہ سلام سے مراد یہ ہے کہ شب قدر ملائکہ ہر اس مومن کے پاس سے جب گذرتے ہیں جو عبادت میں مشغول ہوتا ہے تو اسے سلام کرتے ہیں۔

حوالہ جات

1- مجمع البيان، ج 10، ص‏519
2- تفسير الدرالمنثور، ج‏6
3- تفسير البرهان، ج‏4، ص‏488، ح‏26
4- فروع كافى، ج‏4، ص‏157، ح‏4
5- مجمع البيان، ج‏10، ص‏520
6- تفسير برهان، ج‏4، ص‏481، ح‏1.


آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک