قرآن اور مشتشرقین
قرآن مجید کے متعلق جارج سیل کا نظریہ :
مسیحی نقطہٴ نظر سے قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے گزشتہ مترجمین ،اسلام کے متعلق برے نظریات رکھتے تھے یا پھرتعصبات کا شکار تھے۔اور ان مترجمین نے قرآن و اسلام کے موضوع کے متعلق جو بے بنیاد باتیں کی ھیں اس کی وجہ یہ ھے کہ کسی نے بھی اس طرح کے بیھودہ و فرسودہ اظھارات و خیالات کا خطرہ محسوس نھیں کیا اور نہ ھی ان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا۔ لھذا انھوں نے موقع غنیمت سمجھتے ھوئے اپنی ھوا و ھوس کے مطابق قرآن و اسلام کے ساتھ یہ سلوک کر ڈالا۔
قرآن مجید کے متعلق ر نیالڈ نیکلسن کا نظریہ :
اسلام کی ترقی کا سب سے پھلا موثر ترین عامل قرآن مجید ھے جس میں تمام احکام الٰھی الھام یا وحی کے ذریعہ بہ شکل پیغام موجود ھیں جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ لائے گئے ھیں حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پیغامات کو حاصل کرنے کے بعد اپنے اصحاب و پیرو کاروں کے درمیان پڑھا اور ان میں سے بعض افراد کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ ان پیغامات کو خرمہ کے پتوں یا چمڑے اور ھڈیوں یا مجبوراً ھی اس محکم و مضبوط چیز جو لوگوں کی دسترس میں ھو ، پر نھایت اھتمام کے ساتھ لکھیں ، ان پیغامات الٰھی و ربانی کا سلسلہ23 /سال یعنی زمانہ ٴ بعثت پیغمبر تک جاری رھا ۔
قرآن مجید کے متعلق تھامس کا رلائل کا نظریہ :
قرآن مجید مسلمانوں کی ایک مقدس و دینی کتاب ھے ، پیروان قرآن کے نزدیک جتنا زیادہ قرآن کا احترام ھے اتنا عیسائیوں کے نزدیک انجیل کا احترام قطعاًنھیں ھے۔ قرآن کا حُسن و جمال نکھر کر سامنے اس لئے بھی زیادہ آتا ھے کہ وہ عربی جیسی فصیح زبان میں ھے ۔ یوروپین کے پاس قرآن مجید ھے لیکن اس میں وہ حسن و جمال نھیں ھے اس لئے کہ اس کا ترجمہ عربی زبان میں نھیں ھے ، عربی زبان میں ترجمہ نہ ھونے کی وجہ سے اسکی رونق ماند پڑ گئی ھے ۔ ( تاریخ ترجمہ قرآن در جھان : ص 40. )
قرآن مجید کے حکیمانہ کلمات جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنے گئے ھیں وہ اس سے کھیں زیادہ کم ھیں جو خود اس عظیم شخصیت کے وجود مقدس میں موجود تھے ۔
قرآن مجید کے متعلق ف۔ف اربوٹنٹ کا نظریہ :
تعجب اس بات پر ھے کہ قرآن مجید لغت گرامر و جملہ بندی کے اعتبار سے عربی قواعد و دستورات کے عین مطابق ھے اس کے باوجود بعض حضرات نے قرآن مجید کی ظرافت و بلاغت کے متعلق کچھ لکھنے کے لئے اپنی تمام تر قوت و طاقت صرف کردی لیکن اپنے مقصد میں آج تک کامیاب نہ ھو سکے ۔
ادبی نقطھٴ نظر سے ، عربی نثر و شعر کے درمیان قرآن مجید فصیح ترین کتاب ھے ۔
قرآن مجید کے متعلق ج۔ م روڈویل کا نظریہ :
اس بات کا یقین ھونا چاھئے کہ قرآن مجید عالی ارشادات و عمیق نظریات کا حامل ھونے کی وجہ سے لائق احترام و اھتمام کتاب ھے ۔ یہ کتاب وھی روح بخش کتاب ھے کہ جس نے ایک فقیر و نادان قوم کو منقلب کر دیا تھا۔ اپنے بال و پر کومغرب و مشرق میں اس طرح پھیلانے کہ تھوڑے ھی عرصہ میں ایک عظیم امپرا طوری حکومت وجود میں آگئی ۔ قرآن مجید کا ایک عظیم مقام یہ ھے کہ خدائے یگانہ و خالق جھان ھستی سے موسوم ھے اوراس نے اس کو ایک بت پرست قوم کے درمیان بھیجا اور اعلان کیا ۔ اھل مغرب کو یہ نھیں بھولنا چاھئے کہ وہ اسی کتاب کے مقروض ھیں جس نے آفتاب علم کوقرون وسطی کے تاریک دور میں طلوع کیا ۔
قرآن مجید کے متعلق بار سنٹ ھیلر کا نظریہ :
قرآن مجید عربی زبان کا بے مثال شاھکار ھے۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاھئے کہ قرآن کا صوری جمال اس کی عظمت معنوی سے کم نھیں ھے ، قوت الفاظ ، کلمات کا انسجام اور افکار کی تازگی میں تخلیق نو اور ظھور میں اس قدرجلوہ گر ھے کہ قبل اس کے کہ عقلیں معانی قرآن کی مسخر ھوں دل اس کے گرویدہ و تسلیم ھو جاتے ھیں۔ یہ واضح و روشن طریقہ فقط محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مختص ھے کہ جنھوں نے سامعین کو اپنے معجزانہ کلام کے ذریعہ اپنی طرف جذب کیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و دیگر انبیاء سے اس صفت میں ممتاز ھیں اور اگر بات کھی جائے تو غلط نھیں ھو گی کہ کسی بھی زمانے میں ایسا شخص پیدا نھیں ھوا جو اپنی گفتگو و کلام میں ان خصوصیات کااس قدر حامل ھو ۔
قرآن مجید اپنی ایک خاص روش کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث و متعدد فوائد کا حامل ھے۔اس میں مذھبی قصیدے بھی ھیں اور تعریف و حمد الٰھی بھی ۔ اصول و قواعد سے متضمن بھی ھے اور قوانین مدنی و جزائی کا حامل بھی ساتھ ھی ، بشیر و نذیر بھی ھے