حج کی قسمیں
(۱۴۳) حج کی تین قسمیں ہیں۔ تمتع، افراد اور قران۔ حج تمتع ان افراد کا فریضہ ہے جن کے وطن اور مکہ کے درمیان سولہ فرسخ سے زیادہ فاصلہ ہو جبکہ افراد و قران مکہ کے رہنے والوں اور ان لوگوں کا فریضہ ہے جن کے وطن اور مکہ میں سولہ فرسخ سے کم فاصلہ ہو ۔
(۱۴۴) جن کا فریضہ حج تمتع ہو ان کے لیے حج افراد و قران اور اسی طرح جن کا فریضہ قران و افراد ہو ان کے لیے حج تمتع کافی نہیں ہے لیکن کبھی کھبی حج تمتع والے کا فریضہ تبدیل ہو کر حج افراد ہو جاتا ہے جس کا ذکر آگے آئیگا اور یہ حکم حج الاسلام کا ہے جب کہ مستحب حج نذر کردہ اور وصیت کردہ وہ حج جن کی قسم معین نہ کی ہو تو دور والوں اور قریب والوں کو تینوں اقسام حج میں اختیار ہے اگر چہ حج تمتع افضل ہے۔
(۱۴۵) دور کا رہنے والا اگر مکہ میں رہائش اختیار کر لے تو جب وہ تیسرے سال میں داخل ہوگا فریضہ تمتع سے تبدیل ہو کر افراد یا قران ہو جائے گا۔ لیکن تیسرے سال میں داخل ہونے سے پہلے اس پر حج تمتع واجب ہوگا اور اس حکم میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ مکہ میں رہائش سے پہلے مستطیع ہوا ہے اور حج اس پر واجب ہوا ہے یا رہائش کے دوران مستطیع ہوا ہے اور حج اس پر واجب ہوا ہے اسی طرح اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ مکہ کو وطن قرار دے کر یا قرار نہ دے کر رہائش اختیار کرے اور یہی حکم ان افراد کیلیے بھی ہے جو مکہ کے اطراف سولہ فرسخ میں رہائش اختیار کریں ۔
(۱۴۶) اگر کوئی شخص مکہ میں رہائش اختیار کرے اور اپنا فریضہ تبدیل ہونے سے پہلے حج تمتع کرنے کا ارادہ کرے تو کہا گیا ہے اس کے لیے حرم سے باہر قریب ترین مقام سے احرام باندھنا جائز ہے لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے اور احوط یہ ہے کہ وہ کسی میقات پر جاکر احرام باندھے، بلکہ احوط یہ ہے کہ ان شہر والوں کے میقات پر جائے ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم ہر اس شخص کا ہے جو مکہ میں ہو اور حج تمتع کا ارادہ کرنا چاہے حج مستحب ہی ہو ۔
۱۔ حج تمتع ۔ (۱۴۷) یہ حج دو عبادتوں حج اور عمرہ سے مل کر بنتا ہے۔ کبھی کبھی صرف حج کو حج تمتع کہتے ہیں حج تمتع میں عمرہ تمتع کو پہلے انجام دینا واجب ہے ۔
(۱۴۸) عمرہ تمتع میں پانچ چیزیں واجب ہیں۔
۱۔ کسی ایک میقات سے احرام باندھنا جس کی تفصیل آگے آئیگی ۔
۲۔ خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا۔
۳۔ نماز طواف
۴۔ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا ۔
۵۔ تقصیر۔ یعنی سر، داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بال کٹوانا۔
جب حاجی تقصیر انجام دیدے تو احرام سے فارغ ہو جاتا ہے لہذا احرام کی وہ چیزیں جو اس پر حرام ہوئی تھیں وہ اس پر حلال ہو جائیں گی ۔
(۱۴۹) مکلف پر واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کے نزدیک ہونے پر خود کو اعمال حج کے لیے تیار کرے ۔
واجبات حج تیرہ ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
۱۔ مکہ سے احرام باندھنا جس کی تفصیل آگے آئیگی ۔
۲۔ وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کے دن زوال آفتاب کے بعد غسل اور ظہر و عصر کی اکٹھی نماز ادا کرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک عرفات کے مقام پر قیام کرے۔ عرفات مکہ سے چار فرسخ کے فاصلے پر ہے ۔
۳۔ وقوف مزدلفہ یعنی شب عید قربان کے کچھ حصے سے طلوع آفتاب سے کچھ پہلے تک مزدلفہ (مشعر ) میں قیام کرنا۔ مزدلفہ عرفات و مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
۴۔ رمی جمرہ عقبہ (کنکر مارنا) عید قربان کے دن منی کے مقام پر رمی کرنا، منی مکہ سے تقریبا ایک فرسخ کے فاصلے پر ہے ۔
۵۔ عید کے دن یا ایام تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ) میں منی کے مقام قربانی کرنا ۔
۶۔ سر منڈوانا یا سر، داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بال کاٹنا (حلق یا تقصیر) اور اس کے بعد احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں حلال ہو جائیں گی سوائے احیتاط واجب کی بنا پر عورت، خوشبو اور شکار کے ۔
۷۔ مکہ واپس آنے کے بعد خانہ خدا کی زیارت کا طواف کرنا ۔
۸۔ نماز طواف ادا کرنا۔
۹۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ اس عمل کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جائے گی ۔
۱۰۔ طواف النساء ۔
۱۱۔ نماز طواف النساء۔ اس عمل کے بعد عورت (بیوی) بھی حلال ہوجائیگی ۔
۱۲۔ گیارہ اور بارہ کی رات منی میں گزارنا بلکہ بعض صورتوں میں تیرھویں کی شب بھی منی میں گزارنا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
۱۳۔ رمی جمرات گیارہ اور بارہ کو دن کے وقت تینوں جمرات (اولی، وسطی اور عقبہ) کو کنکریاں مارنا بلکہ اظہر یہ ہے کہ جو شخص تیرھویں رات منی میں گزارے وہ تیرھویں کے دن بھی رمی کرے۔ (۱۵۰) حج تمتع میں ذیل میں درج چیزیں شرط ہیں:
۱۔ نیت۔ یعنی حج تمتع کو ادا کرنے کی نیت کرے لہذا اگر کسی دوسرے حج کی نیت کرے یا نیت میں تردد کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہوگا۔
۲۔ عمرہ اور حج دونوں کو حج کے مہینوں (شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ) میں انجام دے لہذا اگر عمرہ کا ایک حصہ شوال سے پہلے انجام دے تو عمرہ صحیح نہیں ہوگا۔
۳۔ عمرہ اور حج ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے لہذا اگر ایک سال عمرہ تنتع اور دوسرے سال حج تمتع انجام دے تو حج تمتع صحیح نہ ہوگا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اگلے سال تک مکہ میں قیام کرے یا عمرہ کے بعد وطن واپس لوٹ جائے اور دوبارہ آئے اور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ عمرہ کے بعد، تقصیر کے بعد احرام کھول دے یا آئندہ سال تک حالت احرام میں باقی رہے۔
۴۔ حالت اختیار میں حج کا احرام شہر مکہ سے باندھے اور بہترین مقام مسجدالحرام ہے لیکن اگر کسی وجہ سے مکہ سے حرام نہ باندھ سکے تو جہاں سے ممکن ہو وہاں سے باندھ لے۔
۵۔ ایک شخص کی طرف سے عمرہ تمتع اور حج تمتع کے تمام اعمال ایک ہی شخص انجام دے سکتا ہے۔ لہذا اگر دو افراد کو اس طرح سے نائب بنایا جائے کہ ایک کو عمرہ تمتع کے لیے اور دوسرے کو حج کے لیے تو یہ صحیح نہیں ہوگا۔ چاہے منوب عنہ زندہ ہو یا مردہ اسی طرح اگر ایک ہی شخص عمرہ و حج دونوں کرے لیکن عمرہ ایک کی جانب سے اور حج دوسرے کی جانب سے تو یہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔
(۱۵۱) مکلف کا عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد حج تمتع ادا کیے بغیر مکہ سے نکلنا بنابر احوط جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اسے کوئی کام ہو چاہے وہ ضروری نہ بھی ہو تا ہم اعمال حج کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو لہذا اسے معلوم ہو کہ وہ مکہ واپس آکر حج کیلیے احرام باندھ سکے گا تو اظہر یہ ہے کہ بغیر احرام کے مکہ سے نکلنا جائز ہے ورنہ حج کے لیے احرام باندھ کر اپنے کام کے لیے جائے اس صورت میں ظاہر یہ ہے کہ اس پر مکہ واپس آنا واجب نہیں ہے بلکہ وہ اپنی جگہ سے ہی عرفات جا سکتا ہے۔ اگر کوئی عمرہ تمتع انجام تو اس کے لیے حالت اخیتار میں حج تمتع کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ چاہے حج مستحب ہی ہو لیکن اگر حج انجام دینا ممکن نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ عمرہ تمتع کو عمرہ مفردہ قرار دے کر طواف النساء انجام دے۔
(۱۵۲) اظہر یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والے کیلیے عمرہ کے اعمال مکمل کرنے سے پہلے مکہ سے باہر جانا جائز ہے جبکہ مکہ واپس آنا ممکن ہو اگر چہ احوط یہ ہے کہ نہ جائے۔
(۱۵۳) عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد مکہ سے باہر کسی دوسری جگہ جانا حرام ہے نہ کہ ان نئے محلوں میں جو اب شہر مکہ کا حصہ شمار ہوتے ہیں اور قدیم محلوں کا حکم رکھتے ہیں لہذا حاجی کا عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد ان نئے محلوں میں کسی کام سے یا بغیر کام کے جانا جائز ہے۔
(۱۵۴) جب حاجی عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد بغیر احرام کے مکہ سے باہر جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱) جس مہینے میں عمرہ کیا تھا اس کے تمام ہونے سے پہلے اگر مکہ واپس آئے تو ضروری ہے کہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور مکہ سے حج تمتع کا احرام باندھ کر عرفات جائے۔
(۲) جس مہینے میں عمرہ کیا ہو اس کے ختم ہونے کے بعد مکہ واپس آئے تو ضروری ہے کہ مکہ واپس آنے کیلیے عمرہ کا احرام باندھے۔
(۱۵۵) جس شخص کا فریضہ حج تمتع ہو اگر حج افراد یا قران انجام دے تو اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوگا اس حکم سے وہ شخص مستثنی ہے جو عمرہ تمتع شروع کرے لیکن پورا کرنے کا وقت باقی نہ رہے۔ اور یہ شخص اپنی نیت کو حج افراد کی طرف پھیر لے اور حج کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے وقت اتنا تنگ ہو جس کی وجہ سے حج افراد کی طرف عدول جائز ہوتا ہےو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اظہر یہ ہے کہ عدول اس وقت واجب ہوگا جب عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے عمرہ کے اعمال کو پورا نہ کر سکتا ہو لیکن اگر زوال آفتاب سے پہلے اعمال کو مکمل کرنا ممکن ہو چاہے یوم ترویہ (۸ ذی الحجہ) میں یا اس کے بعد تو اس صورت میں عدول کا جائز ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے۔
(۱۵۶) وہ شخص جس کا فریضہ حج تمتع ہو اور وہ عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے جانتا ہو کہ وہ عرفات کے دن زوال آفتاب تک عمرہ کے اعمال مکمل نہیں کر سکے گا تو اس کا افراد یا قران کی طرف عدول کرنا کفایت نہیں کرے گا۔ بلکہ اگر حج اس کے ذمہ قرار پائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ آئندہ سال حج تمتع انجام دے۔
(۱۵۷) اگر کوئی وسیع وقت میں حج تمتع کا احرام باندھے لیکن طواف اور سعی میں جان بوجھ کر عرفہ کے دن زوال آفتاب تک تاخیر کرے تو اس کا عمرہ باطل ہوجائیگا اور اظہر یہ ہے کہ حج افراد کی طرف عدول کرنا کافی نہیں ہوگا اگر چہ احوط یہ ہے کہ رجاء حج افراد کے اعمال انجام دے بلکہ طواف نماز طواف سعی اور حلق یا تقصیر کو عمرہ میں بنابر احوط عمومی نیت (یعنی حج افراد اور عمرہ مفردہ دونوں کو شامل کرنے والی) سے انجام دے ۔
۲۔ حج افراد ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حج تمتع کے دو جز ہیں ایک عمرہ تمتع اور دوسرا حج۔ اس کا پہلا جز دوسرے جز سے ملا ہوا ہے اور عمرہ، حج پر مقدم کیا جاتا ہے۔ جبکہ حج افراد خود ایک مستقل عمل ہے اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ مکہ اور اس کے اطراف سولہ فرسخ میں رہنے والوں کا فریضہ ہے اور مکلف کو اخیتار ہے کہ حج افراد انجام دے یا قران۔ جب مکلف حج افراد کے ساتھ عمرہ مفردہ بھی انجام دے سکتا ہو تو مستقل طور پر عمرہ مفردہ بھی واجب ہو جائے گا۔ لہذا اگر کوئی حج افراد و عمرہ میں سے کوئی ایک عمل انجام دے سکتا ہو تو صرف وہ عمل واجب ہوگا جو خود انجام دے اور اگر ایک وقت میں ایک عمل کو انجام دے سکتا ہو اور دوسرے وقت میں دوسرے عمل کو تو اس پر واجب ہے کہ ان اوقات میں اپنے فریضہ کو انجام دے۔ اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو انجام دینا ممکن ہو تو دونوں کو انجام دینا واجب ہے۔ اس صورت میں فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ حج افراد کو عمرہ مفردہ سے پہلے انجام دے اور یہی احوط ہے ۔
(۱۵۸) حج افراد اور حج تمتع کے تمام اعمال درج ذیل چند چیزوں کے علاوہ مشترک ہیں۔
(۱) حج تمتع میں عمرہ اور حج کو حج کے مہینوں (شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ) میں ایک ہی سال میں انجام دینا معتبر ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے جبکہ حج افراد میں واجب نہیں ہے ۔
۲۔ حج تمتع میں قربانی واجب ہے جبکہ افراد میں نہیں ہے۔
۳۔ طواف کو سعی اور وقوف عرفات و مشعر سے پہلے انجام نہ دیا جائے سوائے کسی عذر کے جیسا کہ مسئلہ ۴۱۲ میں آئے گا ۔ جب کہ افراد میں جائز ہے۔
۴۔ حج تمتع کا احرام مکہ سے باندھا جاتا ہے۔ جبکہ افراد کا احرام کسی ایک میقات سے باندھا جاتا ہے ۔ یہ مسئلہ میقات کی بحث میں آئیگا۔
۵۔ عمرہ تمتع کا حج تمتع سے پہلے انجام دینا واجب ہے۔ جبکہ حج افراد میں ایسا نہیں۔
(۱۵۹) مستحب حج کا احرام باندھنے والے کے لیے عمرہ تمتع کی طرف عدول کرنا جائز ہے۔ لہذ اگر وہ تقصیر کرے اور احرام کھول دے لیکن اگر سعی کے بعد تلبیہ پڑھ چکا ہو تو پھر عمرہ تمتع کی طر ف عدول نہیں کر سکتا۔
(۱۶۰) حج افراد کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب طواف کرنا جائز ہے لیکن جس مورد میں عمرہ تمتع کی طرف عدول کرنا جائز ہو اور یہ عدول کا قصد نہ رکھتا ہو تو احوط اول یہ ہے کہ وہ نماز طواف سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہے۔ یہ احتیاط واجب طواف میں بھی جاری ہوگی ۔
۳۔ حج قران۔ (۱۶۱) حج قران حج افراد کے ساتھ تمام پہلو میں مشترک ہے۔
سوائے اس کے کہ حج قران میں احرام باندھتے وقت حاجی کو قربانی ساتھ رکھنا ہوتی ہے اور اسی لیے اس پر قربانی واجب ہے۔ حج قران میں احرام تلبیہ کہنے کے علاوہ اشعار (حیوان پر علامت لگانا) اور تقلید (حیوان کی گردن میں کسی چیز کا لٹکانا) سے بھی منعقد ہو سکتا ہے اور جب کوئی حج قران کا احرام باندھ لے تو اس کے لے حج تمتع کی طرف عدول جائز نہیں ہے۔