ذریت رسول اللہ(ص) کے بارے میں مناظرہ
حافظ :- معاف فرمائے گا چونکہ آپ نے آپنی تقریر کے ضمن میں رسول اللہ(ص)کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کی۔اور اسی طرح سے مشہور بھی ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ میری گزاش قبول کرتے ہوئے ہماری مزید واقفیت کیلئے اپناشجرہ نسب بیان فرمائیے تاکہ ہم دیکھیں کہ آب کا نسب کس سلسلے سے پیغمبر تک ملتی ہے ۔
خاندانی نسب کا تعین خیرطلب:- میرے خاندان کا نسب حضرت امام موسی کاظم کے ذریعے اس سلسلے سے رسول اللہ (ص)تک منتہی ہوتا ہے ۔
محمد ابن علی اکبر(اشرف الواعظین)بن قاسم(بحرالعلوم)بن حسن ابن اسماعیل مجتہد الواعظ بن ابرہیم بن صالح بن ابی علی محمد(معروف بہ مروان)بن ابی القاسم محمد تقی بن (مقبول الدین)حسین بن ابی علی حسن بن محمد فتح اللہ بن اسحاق بن ہاشم بن ابی محمد بن ابراہیم بن ابی الفتیان بن عبد اللہ بن الحسن بن احمد(ابی الطیّب)بن ابی علی حسن بن ابی جعفر محمد الحائری(نزیل کرمان بن ابراہیم (معروف بہ مجاب)بن امیر محمد العابدین امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام ابی عبداللہ الحسین (سید الشہدا)الشہید بالطف بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام ۔
حافظ:- یہ جو شجرہ آپ نے بیان فرمایا ہے امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجھہ تک منتہی ہوتا ہے درانحالیکہ آپ نے اپنے کو رسول خدا(ص)سے منسوب کیا تھا ۔ حق تو یہ ہے اس سلسلہ نسب سے آپ کو چاہیئے تھا کہ اپنے آپ کو اقربائے رسول(ص)سے کہتے نہ کہ آں حضرت(ص)کی اولاد ،کیونکہ اولاد وہی ہے جو رسول اللہ (ص)کی ذریت سے ہو۔
خیرطلب:- ہمارا نسب رسول اللہ تک صدّیقہ کبرای فاطمہ زہرا(س)کی طرف سے پہنچتا ہے کہ جو جضرت امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہے ۔
حافظ :- تعجب ہے آپ کے اوپر کہ اہل علم وخبر ہوکر بھی ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں ،حالانکہ خود جانتے ہیں کہ آدمی کہ سلسلہ نسب اور نسل اولاد ذکور کی طرف سے ہے نہ کہ اناث کی طرف سے ، اور حضرت رسول خدا(ص)کا بیٹوں سے کوئی سلسلہ نہیں لہذا آپ رسول اللہ کے نواسے اور دخترزادے ہیں نہ آنحضرت(ص)کی اولاد ۔
خیرطلب :- مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ حضرات اس بات میں اتنی ضد کریں گے ورنہ میں جواب ہی نہ دیتا ۔
حافظ:- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میری گفتگو میں کوئی ضد نہیں تھی بلکہ میری رائے یہی ہےجیسا کہ بہت سے علما ء بھی میرے ہم خیال ہیں کہ نسل اورذریّت اولاد ذکورسےچلتی ہے اناث سے نہیں ۔
چنا نچہ شاعر کہتاہے :-
بنونا بنو ابنائنا و بنا تنا ----بنو ھن ابناء الرّجال الاباعد
(ہمارے بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں ہم سے ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے بیٹیاں دور کے مردوں سے ہیں)(یعنی ہم سے نہیں ہیں)
اگر آپ اس بات کے خلاف اس بات پر کوئی دلیل رکھتے ہوں کہ رسول (ص)کی بیٹی کی اولاد آں حضرت (ص)ہی کی اولاد شمار ہوتی ہے، تو بیان کیجئے ۔ اگر آپ کا استدلال مکمل ہوگا تو یقینا ہم لوگ مان لیں گے ،بلکہ ممنون بھی ہوں گے ۔
خیر طلب قرآن مجید اور فریقین کے اخبار معتبرہ سے بہت قوی دلیلیں موجود ہیں ۔
حافظ :- میں متمنّی ہوں کہ بیا ن کیجئے تاکہ ہم مستفیض ہوں ۔
خیرطلب :-یہ آپ کی گفتگو کے ضمن میں مجھ کو وہ مناظرہ یاد آیا جو اسی موضوع پر ہارون رشید خلیفہ عباسی اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے درمیان واقع ہوا تھا ۔اور حضرت نے ہارون رشید کو ایسا کافی جواب دیا تھ کہ خود اس نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ۔
حافظ:- وہ مناظرہ کیونکر ہوا ہے ؟!بیان کیجئے میں مشتاق ہوں ۔
ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب خیر طلب:- ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ صدوق نے جو چوتھی صدی ہجری می اکابر علماء ،فقہائے شیعہ میں سے تھے ،علم –حدیث کے نقّاد اور حالات رجال کے ماہر تھے ،علمائے قم اور خراسان کے درمیان حافظے اور کثرت علم میں ان کا مثل پیدا نہیں ہوا ۔ تین سو تصا نیف کے مالک تھے جن میں سے ایک کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ "شیعوں کی ان چار کتابوں میں سے ہے جن پر ہر زمانے میں انحصار رہا ہے ۔ سنہ 381 ھ میں ایران کے موجودہ پائتخت طہران کے قریب رے میں وفات پائی اورآپ کی قبر شریف اب تک اہل طہران اور باہر سے آنے والوں کے کی زیارت گاہ ہے ۔ اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا"میں ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب "احتجاج"میں مناظرے کی مفصّل کیفیت لکھی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک روز ہارون رشید کے دربار میں تشریف لے گئے ،اس نے چند سوالاد کئے اور ان کے جوابات سنے ۔۔الی آخر ۔من جملہ اس کے سوالوں کے یہ سوال بھی تھا کہ اس نے کہا ۔
"کیف قلتم انا ذرّیۃ النّبی والنّبی لم یعقب وانّما العقب للذّکر لا للا نثی وانتم ولد البنت ولا یکون لہ عقب "
یعنی تم یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ہم اولاد رسول ہیں ؛ حالانکہ پیغمبر (ص)کوئی نسل نہیں رکھتے تھے اور یہ مسلّم ہے کہ نسل لڑکے سی چلتی ہے ،لڑکی سے نہیں ۔تم بیٹی کی اولاد ہو اور آں حضرت (ص)نے کوئی نسل نہیں چھوڑی (یعنی اولاد ذکور سے)۔
حضرت نے اس کے جواب میں سورہ انعام کی یہ آیت نمبر)84-85) تلاوت فرمائی:-ومن ذرّیتہ داؤد وسلیمان وایّوب ویوسف وموسی وھارون وکذالک نجزی المحسنین وذکریا ویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین "
اور پھر ابراہیم علیہ السّلامکی اولاد میں داؤدعلیہ السّلام ,سلیمان علیہ السّلام ایوب علیہ السّلامً یوسفعلیہ السّلام,موسٰی علیہ السّلام ,اور ہارون علیہ السّلام قرار دئیے اور ہم ا ِسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا علیہ السّلام,یحیٰی علیہ السّلام,عیسٰی علیہ السّلام اور الیاس علیہ السّلام کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے ۔
اور استدلال فرماتے ہوئے ہارون رشید سے کہا کہ من ابو عیسٰی ؟یعنی عیسٰی کا باپ کون ہے ،ہارون رشید نے جواب دیا کہ لیس لعیسٰی اب یعنی عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ۔حضرت نے فرمایا "انّما الحقہ بذراری الانبیاء علیھم السلام من طریق مریم ولذالک الحقنا بذراری النّبی من قبل امّنا فاطمۃ ۔
یعنی سوا اس کے کوئی بات نہیں کہ خدائے تعالی نے ان کو مریم کے سلسلے سے انبیاء کی ذریّت میں داخل فرمایا اور اسی طرح سے ہم کو ہماری ماں جناب فاطمہ (س)کی طرف سے رسول خدا (ص)کی ذریّت میں قراردیا ۔ امام فخر الدّین رازی بھی تفسیر کبیر جلد چہارم میں صفحہ نمبر124میں اس آیت کے ماتحت مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن او رحسین (ع) رسول اللہ(ص)کی ذریّت ہیں کیونکہ خدانے اس آیت میں عیسٰی کو جناب ابراہیم (ع)کی ذریّت سے قرار دیا ہے ،درانحالیکہ عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ؛ یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے چنانچہ حسنین(ع)بھی اسی طرح سے ماں کی جانب سے ذریّت رسول(ص) ہوتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت باقر العلوم امام پنجم نے بھی حجّاج کے سامنے اسی آیت سے استدلال فرمایا ہے۔
پھر حضرت(امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کو)نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلیل بیان کروں ؟ہارون رشید نے عرض کیا کہ بیا ن کیجئے تو آپ نے آیت مباہلہ پڑھی جو سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت 61 ہے ۔
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (٦١)
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔
اور فرمایا کہ کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ مباہلے کے موقع پر پیغمبر (ص)نے نصاری کے مقابلے میں حکم خدا سے سوا علی ابن ابی طالب ،فاطمہ ، حسن اورحسین علھیم السلام کے کسی اور کو کساء کے نیچے داخل کیا لہذا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انفسنا سے علی ابن ابی طالب ،نسائنا سے فاطمہ زہراء اور ابنا ئنا سے حسن حسین (ع)مراد ہیں جن کو خدا نے اپنے رسول کے فرزند فرمایا ہے ۔ جوں ہی ہارون نے یہ واضح دلیل سنی بے اختیار بول اٹھا "احسنت یا ابا الحسن "چنانچہ ہارون کے مقابلے میں امام موسی کاظم کے اس استدلال سے" حسنین (ع)فرزند رسول خدا(ص)ہیں "ثابت ہوتا ہے ۔
اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں
چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی جوآپ کے سربرآوردہ علماء میں سے ہے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکررازی اپنی تفسیر میں عیسٰی کو ان کی ماں مریم کی طرف سے اولاد جناب ابراہیم میں داخل فرمایا ۔
محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب میں ،ابن حجر مکی صواعق محرقہ صفحہ 74-93 میں طبرانی سے اور وہ جابر بن عبداللہ انصاری سے اور خطیب خوارزمی مناقب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا انّ اللہ عزّوجلّ جعل ذریۃ کل نبی فی صلبہ وجعل ذریتی فی صلب علی ابن ابی طالب "یعنی خدائے عزوجل نے ہر پیغمبر کی ذریت خود اسے کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت علی ابن ابی طالب میں رکھی ہے ۔
خطیب خوارزمی مناقب میں ،میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی میں ،امام احمد بن حنبل جو آپ کے کبار علماء میں سے ہیں اور سلیمان حنفی بلخی نے ینا بیع المودۃ میں نقل کرتے ہیں کہ (الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ)کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا "ھذان ریحانتان من الدنیا ابنای لھذان امامان قاما او قعدا" یعنی میرے یہ دونوں فرزند( حسن اور حسین)دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ اور میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں خواہ امر امامت پر قائم ہوں یا خاموش اور قاعد ۔ اورشیخ سلیمان بلخی نے ینا بیع المودۃ کا باب 57 اسی موضوع کیلئے مخصوص قراردیا ہے ۔اور مختلف طریقوں سے بکثرت حدیثیں اپنے جلیل القدر علماء جیسے طبرانی، حافظ عبدالعزیز ،ابن ابی شبیہ ،خطیب بغدادی،حاکم، بیقہی،بغوی، اورطبری وغیرہ سے مختلف الفاظ اور عبارت کے ساتھ نقل کی ہیں کہ حسن اور حسین(ع)رسول خدا(ص)کے فرزند ہیں ۔ اسی باب کے آخر میں ابو صالح ،حافظ عبد العزیز الاخضر،ابو نعیم اور طبری سے ،اور ابن حجر مکّی صواعق محرقہ صفحہ 112 میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو بابوں کے بعد فصل اوّل کے آخر میں اور طبری نے ترجمہ حالات حضرت امام حسن علیہ السلام میں، خلیفہ ثانی عمر بن خطّاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "انّی سمعت رسول اللہ یقول کل حسب ونسب فمنقطع یو م القیامۃ ما خلا حسبی و نسبی وکل بنی انثی عصبتھم لابیھم ما خلا بنی فاطمۃ فانی انا ابو ھم و انا عصبتھم " یعنی میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا "ہر حسب ونسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب ونسب کے اور ہر دختری اولاد کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ہے سوائے اولاد فاطمہ (س)کے کہ میں ان کا باپ اورنسب ہوں ۔ شیخ محمد بن محمد عامر شبیراوی شافعی نے کتاب "الاتحاف لجب الاشراف "میں اس حدیث کو بیہقی سے اور دار قطنی نے عبداللہ ابن عمر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب "احیاء اہلبیت بفضائل اہلبیت "میں اوسط طبرانی سے نقل کرتے ہوئے خلیفہ عمر سے نقل کرتے ہیں اور سید ابو بکر شہاب الدین علوی نے "رشقتہ الصاد من بحر فضائل النبی الہادی" مطبوعۃ مطبع اعلامیۃ مصر سنہ 1303 ھ کے صفحہ 21 باب 3 میں صفحہ 43 تک نقل واستشہاد کیا ہے کہ اولاد فاطمہ(س) اولاد رسول (ص)ہیں لہذا شاعر کا شعر جو آپ نے پیش کیا ہے وہ تمام مضبوط دلائل کے سامنے مہمل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سویں باب کے بعد فصل کو اسی شعر کے جواب میں اس مطلب سے مخصوص کیا ہے کہ پیغمبر(ص)کے دخترزادے آں حضرت (ص)کے فرزند ہیں ۔ اور یہ شعر زمانہ کفر کے شاعر کا ہے جس نے اس کو اسلام سے قبل نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ صاحب جامع الشواہد نے نقل کیا ہے اسی قبیل سے کثرت کے ساتھ ایسی دلیلیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فرزندان فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرزندان رسول اللہ (ص)ہیں لہذا جب ہمارا سلسلہ نسب حضرت امام حسین علیہ السلام تک ثابت ہوگیا تو ہم بیان کرچکے معتبر دلائل کی بنا پر ثابت ہے کہ ہم لوگ فرزندان و اولاد رسول خدا ہیں اور ہمارا سب سے فخر اسی بات پر ہے کہ اور کسی شخص کو سو اذریت رسول (ص)کے ایسا افتخار حاصل نہیں ہے کیا خوب کہا ہے فرزدق شاعر نے :-
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم ----اذاجمعتنا یا جریر الجامع
(یعنی یہ ہیں میرے آباء واجداد پس لاؤ میرے سامنے ان کی مثل جس وقت محفلوں اور انجمنوں میں ہم اکھٹے ہوں۔)
خلاصہ یہ کہ ابنائے زمانہ اور اہل دنیا میں سے کوئی شخص اپنے اجداد کی بزرگی پر فخر مباہات نہیں کرسکتا ہے ، سوا شرفاءاور سادات کے جن کی نسبت خاتم الانبیا اور علی المرتضی صلوات اللہ وسلامہ علیھما تک منتہی ہوتی ہے ۔
حافظ :- آپ کے دلائل بہت تسکین بخش اور مکمّل تھے جن سے ضدّی اور متعصّب اشخاص کے قطعا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا میں ممنون ہوں کہ آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرکے ہم لوگوں کو مستفیض فرمایا جس سے بڑا شبہ رفع ہوگیا
٭٭٭
خاندانی نسب کا تعین خیرطلب:- میرے خاندان کا نسب حضرت امام موسی کاظم کے ذریعے اس سلسلے سے رسول اللہ (ص)تک منتہی ہوتا ہے ۔
محمد ابن علی اکبر(اشرف الواعظین)بن قاسم(بحرالعلوم)بن حسن ابن اسماعیل مجتہد الواعظ بن ابرہیم بن صالح بن ابی علی محمد(معروف بہ مروان)بن ابی القاسم محمد تقی بن (مقبول الدین)حسین بن ابی علی حسن بن محمد فتح اللہ بن اسحاق بن ہاشم بن ابی محمد بن ابراہیم بن ابی الفتیان بن عبد اللہ بن الحسن بن احمد(ابی الطیّب)بن ابی علی حسن بن ابی جعفر محمد الحائری(نزیل کرمان بن ابراہیم (معروف بہ مجاب)بن امیر محمد العابدین امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام ابی عبداللہ الحسین (سید الشہدا)الشہید بالطف بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام ۔
حافظ:- یہ جو شجرہ آپ نے بیان فرمایا ہے امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجھہ تک منتہی ہوتا ہے درانحالیکہ آپ نے اپنے کو رسول خدا(ص)سے منسوب کیا تھا ۔ حق تو یہ ہے اس سلسلہ نسب سے آپ کو چاہیئے تھا کہ اپنے آپ کو اقربائے رسول(ص)سے کہتے نہ کہ آں حضرت(ص)کی اولاد ،کیونکہ اولاد وہی ہے جو رسول اللہ (ص)کی ذریت سے ہو۔
خیرطلب:- ہمارا نسب رسول اللہ تک صدّیقہ کبرای فاطمہ زہرا(س)کی طرف سے پہنچتا ہے کہ جو جضرت امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہے ۔
حافظ :- تعجب ہے آپ کے اوپر کہ اہل علم وخبر ہوکر بھی ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں ،حالانکہ خود جانتے ہیں کہ آدمی کہ سلسلہ نسب اور نسل اولاد ذکور کی طرف سے ہے نہ کہ اناث کی طرف سے ، اور حضرت رسول خدا(ص)کا بیٹوں سے کوئی سلسلہ نہیں لہذا آپ رسول اللہ کے نواسے اور دخترزادے ہیں نہ آنحضرت(ص)کی اولاد ۔
خیرطلب :- مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ حضرات اس بات میں اتنی ضد کریں گے ورنہ میں جواب ہی نہ دیتا ۔
حافظ:- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میری گفتگو میں کوئی ضد نہیں تھی بلکہ میری رائے یہی ہےجیسا کہ بہت سے علما ء بھی میرے ہم خیال ہیں کہ نسل اورذریّت اولاد ذکورسےچلتی ہے اناث سے نہیں ۔
چنا نچہ شاعر کہتاہے :-
بنونا بنو ابنائنا و بنا تنا ----بنو ھن ابناء الرّجال الاباعد
(ہمارے بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں ہم سے ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے بیٹیاں دور کے مردوں سے ہیں)(یعنی ہم سے نہیں ہیں)
اگر آپ اس بات کے خلاف اس بات پر کوئی دلیل رکھتے ہوں کہ رسول (ص)کی بیٹی کی اولاد آں حضرت (ص)ہی کی اولاد شمار ہوتی ہے، تو بیان کیجئے ۔ اگر آپ کا استدلال مکمل ہوگا تو یقینا ہم لوگ مان لیں گے ،بلکہ ممنون بھی ہوں گے ۔
خیر طلب قرآن مجید اور فریقین کے اخبار معتبرہ سے بہت قوی دلیلیں موجود ہیں ۔
حافظ :- میں متمنّی ہوں کہ بیا ن کیجئے تاکہ ہم مستفیض ہوں ۔
خیرطلب :-یہ آپ کی گفتگو کے ضمن میں مجھ کو وہ مناظرہ یاد آیا جو اسی موضوع پر ہارون رشید خلیفہ عباسی اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے درمیان واقع ہوا تھا ۔اور حضرت نے ہارون رشید کو ایسا کافی جواب دیا تھ کہ خود اس نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ۔
حافظ:- وہ مناظرہ کیونکر ہوا ہے ؟!بیان کیجئے میں مشتاق ہوں ۔
ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب خیر طلب:- ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ صدوق نے جو چوتھی صدی ہجری می اکابر علماء ،فقہائے شیعہ میں سے تھے ،علم –حدیث کے نقّاد اور حالات رجال کے ماہر تھے ،علمائے قم اور خراسان کے درمیان حافظے اور کثرت علم میں ان کا مثل پیدا نہیں ہوا ۔ تین سو تصا نیف کے مالک تھے جن میں سے ایک کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ "شیعوں کی ان چار کتابوں میں سے ہے جن پر ہر زمانے میں انحصار رہا ہے ۔ سنہ 381 ھ میں ایران کے موجودہ پائتخت طہران کے قریب رے میں وفات پائی اورآپ کی قبر شریف اب تک اہل طہران اور باہر سے آنے والوں کے کی زیارت گاہ ہے ۔ اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا"میں ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب "احتجاج"میں مناظرے کی مفصّل کیفیت لکھی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک روز ہارون رشید کے دربار میں تشریف لے گئے ،اس نے چند سوالاد کئے اور ان کے جوابات سنے ۔۔الی آخر ۔من جملہ اس کے سوالوں کے یہ سوال بھی تھا کہ اس نے کہا ۔
"کیف قلتم انا ذرّیۃ النّبی والنّبی لم یعقب وانّما العقب للذّکر لا للا نثی وانتم ولد البنت ولا یکون لہ عقب "
یعنی تم یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ہم اولاد رسول ہیں ؛ حالانکہ پیغمبر (ص)کوئی نسل نہیں رکھتے تھے اور یہ مسلّم ہے کہ نسل لڑکے سی چلتی ہے ،لڑکی سے نہیں ۔تم بیٹی کی اولاد ہو اور آں حضرت (ص)نے کوئی نسل نہیں چھوڑی (یعنی اولاد ذکور سے)۔
حضرت نے اس کے جواب میں سورہ انعام کی یہ آیت نمبر)84-85) تلاوت فرمائی:-ومن ذرّیتہ داؤد وسلیمان وایّوب ویوسف وموسی وھارون وکذالک نجزی المحسنین وذکریا ویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین "
اور پھر ابراہیم علیہ السّلامکی اولاد میں داؤدعلیہ السّلام ,سلیمان علیہ السّلام ایوب علیہ السّلامً یوسفعلیہ السّلام,موسٰی علیہ السّلام ,اور ہارون علیہ السّلام قرار دئیے اور ہم ا ِسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا علیہ السّلام,یحیٰی علیہ السّلام,عیسٰی علیہ السّلام اور الیاس علیہ السّلام کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے ۔
اور استدلال فرماتے ہوئے ہارون رشید سے کہا کہ من ابو عیسٰی ؟یعنی عیسٰی کا باپ کون ہے ،ہارون رشید نے جواب دیا کہ لیس لعیسٰی اب یعنی عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ۔حضرت نے فرمایا "انّما الحقہ بذراری الانبیاء علیھم السلام من طریق مریم ولذالک الحقنا بذراری النّبی من قبل امّنا فاطمۃ ۔
یعنی سوا اس کے کوئی بات نہیں کہ خدائے تعالی نے ان کو مریم کے سلسلے سے انبیاء کی ذریّت میں داخل فرمایا اور اسی طرح سے ہم کو ہماری ماں جناب فاطمہ (س)کی طرف سے رسول خدا (ص)کی ذریّت میں قراردیا ۔ امام فخر الدّین رازی بھی تفسیر کبیر جلد چہارم میں صفحہ نمبر124میں اس آیت کے ماتحت مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن او رحسین (ع) رسول اللہ(ص)کی ذریّت ہیں کیونکہ خدانے اس آیت میں عیسٰی کو جناب ابراہیم (ع)کی ذریّت سے قرار دیا ہے ،درانحالیکہ عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ؛ یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے چنانچہ حسنین(ع)بھی اسی طرح سے ماں کی جانب سے ذریّت رسول(ص) ہوتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت باقر العلوم امام پنجم نے بھی حجّاج کے سامنے اسی آیت سے استدلال فرمایا ہے۔
پھر حضرت(امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کو)نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلیل بیان کروں ؟ہارون رشید نے عرض کیا کہ بیا ن کیجئے تو آپ نے آیت مباہلہ پڑھی جو سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت 61 ہے ۔
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (٦١)
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔
اور فرمایا کہ کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ مباہلے کے موقع پر پیغمبر (ص)نے نصاری کے مقابلے میں حکم خدا سے سوا علی ابن ابی طالب ،فاطمہ ، حسن اورحسین علھیم السلام کے کسی اور کو کساء کے نیچے داخل کیا لہذا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انفسنا سے علی ابن ابی طالب ،نسائنا سے فاطمہ زہراء اور ابنا ئنا سے حسن حسین (ع)مراد ہیں جن کو خدا نے اپنے رسول کے فرزند فرمایا ہے ۔ جوں ہی ہارون نے یہ واضح دلیل سنی بے اختیار بول اٹھا "احسنت یا ابا الحسن "چنانچہ ہارون کے مقابلے میں امام موسی کاظم کے اس استدلال سے" حسنین (ع)فرزند رسول خدا(ص)ہیں "ثابت ہوتا ہے ۔
اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں
چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی جوآپ کے سربرآوردہ علماء میں سے ہے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکررازی اپنی تفسیر میں عیسٰی کو ان کی ماں مریم کی طرف سے اولاد جناب ابراہیم میں داخل فرمایا ۔
محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب میں ،ابن حجر مکی صواعق محرقہ صفحہ 74-93 میں طبرانی سے اور وہ جابر بن عبداللہ انصاری سے اور خطیب خوارزمی مناقب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا انّ اللہ عزّوجلّ جعل ذریۃ کل نبی فی صلبہ وجعل ذریتی فی صلب علی ابن ابی طالب "یعنی خدائے عزوجل نے ہر پیغمبر کی ذریت خود اسے کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت علی ابن ابی طالب میں رکھی ہے ۔
خطیب خوارزمی مناقب میں ،میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی میں ،امام احمد بن حنبل جو آپ کے کبار علماء میں سے ہیں اور سلیمان حنفی بلخی نے ینا بیع المودۃ میں نقل کرتے ہیں کہ (الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ)کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا "ھذان ریحانتان من الدنیا ابنای لھذان امامان قاما او قعدا" یعنی میرے یہ دونوں فرزند( حسن اور حسین)دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ اور میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں خواہ امر امامت پر قائم ہوں یا خاموش اور قاعد ۔ اورشیخ سلیمان بلخی نے ینا بیع المودۃ کا باب 57 اسی موضوع کیلئے مخصوص قراردیا ہے ۔اور مختلف طریقوں سے بکثرت حدیثیں اپنے جلیل القدر علماء جیسے طبرانی، حافظ عبدالعزیز ،ابن ابی شبیہ ،خطیب بغدادی،حاکم، بیقہی،بغوی، اورطبری وغیرہ سے مختلف الفاظ اور عبارت کے ساتھ نقل کی ہیں کہ حسن اور حسین(ع)رسول خدا(ص)کے فرزند ہیں ۔ اسی باب کے آخر میں ابو صالح ،حافظ عبد العزیز الاخضر،ابو نعیم اور طبری سے ،اور ابن حجر مکّی صواعق محرقہ صفحہ 112 میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو بابوں کے بعد فصل اوّل کے آخر میں اور طبری نے ترجمہ حالات حضرت امام حسن علیہ السلام میں، خلیفہ ثانی عمر بن خطّاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "انّی سمعت رسول اللہ یقول کل حسب ونسب فمنقطع یو م القیامۃ ما خلا حسبی و نسبی وکل بنی انثی عصبتھم لابیھم ما خلا بنی فاطمۃ فانی انا ابو ھم و انا عصبتھم " یعنی میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا "ہر حسب ونسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب ونسب کے اور ہر دختری اولاد کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ہے سوائے اولاد فاطمہ (س)کے کہ میں ان کا باپ اورنسب ہوں ۔ شیخ محمد بن محمد عامر شبیراوی شافعی نے کتاب "الاتحاف لجب الاشراف "میں اس حدیث کو بیہقی سے اور دار قطنی نے عبداللہ ابن عمر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب "احیاء اہلبیت بفضائل اہلبیت "میں اوسط طبرانی سے نقل کرتے ہوئے خلیفہ عمر سے نقل کرتے ہیں اور سید ابو بکر شہاب الدین علوی نے "رشقتہ الصاد من بحر فضائل النبی الہادی" مطبوعۃ مطبع اعلامیۃ مصر سنہ 1303 ھ کے صفحہ 21 باب 3 میں صفحہ 43 تک نقل واستشہاد کیا ہے کہ اولاد فاطمہ(س) اولاد رسول (ص)ہیں لہذا شاعر کا شعر جو آپ نے پیش کیا ہے وہ تمام مضبوط دلائل کے سامنے مہمل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سویں باب کے بعد فصل کو اسی شعر کے جواب میں اس مطلب سے مخصوص کیا ہے کہ پیغمبر(ص)کے دخترزادے آں حضرت (ص)کے فرزند ہیں ۔ اور یہ شعر زمانہ کفر کے شاعر کا ہے جس نے اس کو اسلام سے قبل نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ صاحب جامع الشواہد نے نقل کیا ہے اسی قبیل سے کثرت کے ساتھ ایسی دلیلیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فرزندان فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرزندان رسول اللہ (ص)ہیں لہذا جب ہمارا سلسلہ نسب حضرت امام حسین علیہ السلام تک ثابت ہوگیا تو ہم بیان کرچکے معتبر دلائل کی بنا پر ثابت ہے کہ ہم لوگ فرزندان و اولاد رسول خدا ہیں اور ہمارا سب سے فخر اسی بات پر ہے کہ اور کسی شخص کو سو اذریت رسول (ص)کے ایسا افتخار حاصل نہیں ہے کیا خوب کہا ہے فرزدق شاعر نے :-
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم ----اذاجمعتنا یا جریر الجامع
(یعنی یہ ہیں میرے آباء واجداد پس لاؤ میرے سامنے ان کی مثل جس وقت محفلوں اور انجمنوں میں ہم اکھٹے ہوں۔)
خلاصہ یہ کہ ابنائے زمانہ اور اہل دنیا میں سے کوئی شخص اپنے اجداد کی بزرگی پر فخر مباہات نہیں کرسکتا ہے ، سوا شرفاءاور سادات کے جن کی نسبت خاتم الانبیا اور علی المرتضی صلوات اللہ وسلامہ علیھما تک منتہی ہوتی ہے ۔
حافظ :- آپ کے دلائل بہت تسکین بخش اور مکمّل تھے جن سے ضدّی اور متعصّب اشخاص کے قطعا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا میں ممنون ہوں کہ آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرکے ہم لوگوں کو مستفیض فرمایا جس سے بڑا شبہ رفع ہوگیا
٭٭٭