نمازظہرین اور مغربین میں جمع اورتفریق کے بارے میں مناظرہ
نواب:- نواب عبد القیوم خان نے جو اہل تسنن کے شرفاءاور رؤساء میں سے اور بال کی کھال نکالنے اور جستجو کرنے والے انسان تھے ، کہا کہ قبلہ صاحب اگر آپ اجازت دیں تو جب تک حضرات چائے نوش فرمائیں میرے دل موضوع بحث سے خارج ایک سوال ہے اس کو عرض کروں۔
خیر طلب:- فرمایئے میں سننے کیلئے تیار ہوں ۔
نواب :- میرا سوال بہت مختصر ہے چونکہ مدتوں سے میرے دل میں تھا کہ باخبر شیعہ حضرات سے پوچھوں گا ، لیکن کوئی موقع ہاتھ نہ آیا اور اب اس کا مناسب محل آگیا ہے لہذا عرض کرنا چاہتاہوں کہ حضرات شیعہ سنت رسول خدا (ص)کے خلاف نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ملا کر کس لئے پڑ ھتے ہیں ؟ ۔
پیغمبر(ص)نماز ظہر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح سے پڑھتے تھے خیر طلب :- اول یہ کہ آپ حضرات (علمائے جلسہ کی طرف اشارہ) جانتے ہیں کہ فروعی مسائل میں علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے جیسا کہ آپ کے چاروں امام بھی آپس میں بہت زیادہ اختلاف رکھتے ہیں دوسرے یہ کہ آپ نے فرمایا "شیعوں کا عمل سنت رسول کے خلاف ہے "تو اس امر میں آپ کو اشتباہ ہوا ہے کیونکہ آں حضرت (ص) نمازیں کبھی یکجا اور کبھی الگ الگ ادا فرماتے تھے ۔
نواب :- (اپنے علماء کی طرف رخ کرکے ) کیا یہ صحیح ہے کہ رسول اللہ (ص)جمع اورتفریق دونوں طرح سے نماز بجا لاتے تھے ؟-
حافظ:- فقط سفر اور ،عذر کے مواقع جیسے بارش وغیرہ میں اسی طرح سے عمل فرماتے تھے ۔تاکہ امت تعصب اور مشقت میں مبتلا نہ ہو،ورنہ حضر میں ہمیشہ الگ الگ پڑھتے تھے میرا خیا ل ہے کہ قبلہ صاحب نے غلطی سے سفر کو حضر سمجھ لیا ہے ۔
خیرطلب :- نہیں مجھ کو مغالطہ نہیں ہوا ،بلکہ یقین رکھتا ہوں یہاں تک کہ آپ حضرات کی روایتوں میں بھی موجود ہے کہ کبھی حضر میں اور بغیر کسی عذر کے بھی بصورت جمع ادافرماتے تھے ۔
حافظ:- میں خیال کرتا ہوں کہ آپ نے غلط فہمی سے شیعہ روایات کو ہماری روایات سمجھ لیا ہے ۔
خیر طلب :- شیعہ راوی تو اس مقصد پر متفق ہی ہیں گفتگو ہو رہی ہے آپ کے راویوں پر ،اس بارے میں میں متعدد صحیح روایتیں صحاح اور آپ کی معتبر کتا بوں میں وارد ہیں ۔
حافظ:- ممکن ہے آپ کی نظر میں ہوں تو ان کا حوالہ بیان کیجئے –
خیر طلب :-مسلم ابن حجاج نے اپنی صحیح کے اندر "باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر " میں روایوں کا سلسلہ نقل کرتے ہوئے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا "صلّی رسول اللہ الظھر و العصر جمعا والمغرب والعشاء جمعا فی غیر خوف ولا سفر " (یعنی رسول خدا(ص) نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشا ءکو بغیر خوف اور سفر کے ملا کر ادا فرماتے تھے )۔
اور پھر ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " صلّیت مع النّبی ثمانیا جمعا و سبعا " (یعنی میں نے رسول خدا (ص) کے ساتھ آٹھ رکعت (نماز ظہر وعصر)اور سات رکعت (مغرب وعشاء) کو ملا کر پڑھتا تھا ۔ اور اسی حدیث کو اما م احمد بن جنبل نے اپنی مسند کے جزء اول صفحہ نمبر 221میں نقل کیا ہے ۔علاوہ اس دوسری حدیث کے ابن عباس نے کہا " صلّی رسول اللہ فی المدینۃ مقیما غیر مسافر سبعا وثما نیا " (یعنی رسول خدا(ص) نے مدینے کے اندر حالت اقامت میں بغیر مسافرت کے سات رکعت اور آٹھ رکعت یعنی مغرب وعشاء اور ظہر وعصر کو ملا کے نماز پڑھی )۔
امام مسلم اسی طرح کی کئی حدیثیں نقل کرتے ہیں یہاں تک کہ لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن شفیق نے کہا کہ ایک روز عبد اللہ ابن عباس عصر کے بعد ہمارے سامنے خطبہ پڑھ رہے تھے اور شریک صحبت تھے یہاں تک کہ آفتاب نے غروب کیا ستارے ظاہر ہو گئے لوگوں نے" الصّلواۃ الصّلواۃ " کی آواز دینا شروع کی لیکن ابن عباس نے اعتنا نہ کی اسی وقت بنی تمیم میں سے ایک شخص نے بلند آواز میں کہا " الصّلواۃ الصّلواۃ " ابن عباس نے کہا " اتعلّمنی بالسنّۃ لا ام ّ لک رایت رسول اللہ یجمع بین الظھر و العصر والمغرب والعشاء " (یعنی تم مجھ کو سنت کی یاد دلاتے ہو حالانکہ میں نے خوددیکھا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے نماز ظہر عصر اور مغرب وعشاء کو جمع فرمایا ) عبد اللہ کہتا ہے کہ اس کلام سے میرے دل میں خدشہ پیدا ہوا اور میں نے جاکر ابو ہریرہ سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی تصدیق کی اور کہا حقیقت وہی ہے جو ابن عباس نے بیان کی ۔
اور دوسرے طریقے سے بھی عبداللہ بن شفیق عقیل سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ منبر پر عبد اللہ ابن عباس کی تقریر نے طول کیینچ یہاں تک کہ اندھیرا پھیل گیا ،ایک شخص نے پے در پے تین بار " الصّلواۃ الصّلواۃ " کی آواز دی ۔ ابن عباس جھنجھلا گئے اور کہا "لا امّ لک اتعلّمنا بالصلواۃ وکنّا نجمع بین الصلواتین علی عھد رسول اللہ " (یعنی ۔۔۔مجھ کو نماز کی تعلیم دیتا ہے ؟حالانکہ ہم زمانہ رسو ل خدا (ص) میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھا کرتے تھے یعنی ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ ۔
زرقانی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں ،شرح موطاء مالک کے جزء اول "باب جمع بین الصلواتین "میں صفحہ 363 پر نسائی سے بطریق عمرو بن ہرم ابی شعشاء سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس بصرہ میں نماز ظہر وعصراور مغرب وعشاء پڑھتے تھے بغیر اسکے کہ ان کے درمیان کوئی فاصلہ یا کوئی چیز حائل ہوتی ہو اور کہتے تھے کہ رسول خدا (ص) اسی طرح نماز ادا فرماتے تھے (یعنی ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع فرماتے تھے )۔
نیز مسلم نے صحیح میں ، مالک نے موطاء "باب جمع بین الصلا تین میں امام احمد بن جنبل نے مسند سلسلہ روایات کو نقل کرتے ہوئے سعید ابن جبیر کرے ذریعے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا "صلّی رسول اللہ الظھر و العصر جمعا بالمدینۃ فی غیر خوف و لا مطر " (یعنی رسو ل اللہ مدینے میں نماز ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھی بغیر خوف اور بارش کے ) ابو زبیر کہتا ہے کہ میں نے ابو سعید سے سوال کیا کہ پیغمبر (ص)کس وجہ سے نماز جمع فرماتے تھے " تو ابو سعید نے کہا کہ یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ "اراد ان لا یحرج احدا من امتہ"(یعنی اسلئے جمع فرماتے تھے کہ آں حضرت (ص)کی امت میں سے کوئی شخص سختی اور مشقت میں نہ پڑے اور چند دوسری روایتوں میں بھی نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا "جمع رسول اللہ بین الظھر والعصر والمغرب والعشاء فی غیر خوف ولا مطر"(یعنی رسول اللہ(ص)نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کے درمیان جمع فرمایا بغیر اسکے کہ کوئی خوف ہو یا بارش ہوتی ہو)۔ اس بارے میں میں روایتیں کثرت سے نقل کی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے جواز پر سب سے واضح دلیل یہی جمع بین الصلواتین کے نام کے ساتھ ابواب کی تعیین اور اسی باب میں احادیث جمع کرنا ہے تا کہ یہ مطلقا جمع کے جائز ہونے کی دلیلیں بنیں ۔ ورنہ ایک مخصوص باب میں حضر میں اور ایک باب سفر میں نمازوں کو جمع کرنے پر قائم کرتے ،چنانچہ یہ منقولہ روائتیں صحاح اور آپ کی دوسری معتبر کتابو ں میں سفر وحضر دونوں میں اس کے جائزہونے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
حافظ:- ایسا کوئی باب یا نقل روایات صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے ۔
خیرطلب :-اولا جب سارے ارباب صحاح جیسے مسلم، نسائی، احمد ابن حنبل ،صحیحین مسلم وبخاری کے شارحین اور آپ کے دوسرے بڑے علماء نے نقل کیا ہے تو یہی ہمارے مطلب اور مقصد کے لئے کافی ہے ۔
دوسرے امام بخاری نے بھی انہیں روایات کو جنہیں دوسروں نے نقل کیا ہے اپنی صحیح میں درج کیا ہے لیکن پوری چالاکی کے ساتھ ان کے محل یعنی جمع بین الصلواتین سے دوسرے محل پر منتقل کردیا ہے ،چنانچہ "باب تاخیر الظھر الی العصر من کتاب مواقیت الصلواۃ" "باب ذکرالعشاء والعمتہ"اورباب "وقت المغرب " کا مطالعہ کیجیئے اور ان کا جائزہ لیجیئے تویہ جمع بین الصلواتین کی ساری حدیثیں نظر آجائیں گی نتیجہ یہ کہ جمع بین الصلواتین کی اجازت اور رخصت کے عنوان کیساتھ ان احادیث کا نقل کرنا بتا تا ہے کہ یہ جمہور علمائے فریقین کا عقیدہ ہے ۔ایسی صورت میں کہ اپنے صحاح کے اندر ان حدیثوں کی صحت کا اقرار بھی کیا ہے چنانچہ علاّمہ نووی نے شرح صحیح مسلم میں عسقلانی اور قسطلانی ،زکریا رازی نے ان شرحوں میں جو انہوں نے صحیح بخاری کی لکھی ہیں ،زرقانی نے شرح موطاء مالک میں اور آپ کے دوسرے علماءنے یہ احادیث اورخصوصا حدیث ابن عباس کو نقل کرنے کے بعد ان کی صحت اور اس کا اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیثیں حضر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ورخصت کی دلیل ہیں تا کہ امت والے حرج اور مشقت میں مبتلا نہ ہوں ۔
نواب :- یہ کیونکر ممکن ہے کہ زمانہ رسول خدا(ص)سے یہ حدیثیں جمع کے عمل پر مروی ہوں لیکن علماء حکم اور عمل میں ان کے خلاف راستہ اختیار کریں ؟۔
خیرطلب :- یہ صرف اسی موضوع سے مخصوص نہیں ہے ،بعد کو آپ کی سمجھ میں آئے گا اس کی مثالیں بہت ہیں ۔ خاص اس موضوع میں بھی حضرات فقہاء اہل تسنن نے یا تو غور وفکر کے تصور سے یا کسی اور سبب سے جو مجھ کو معلوم نہیں ہے ان معتبر حدیثوں کی ان کے ظاہری کے خلاف مہمل تاویلیں کی ہیں۔جیسا کہ کہتے ہیں "شاید یہ حدیثیں عذرکے مواقع سے تعلق رکھتی ہوں مثلا خوف وبیم ، بارش اور آندھی وغیرہ چنانچہ آپ کے اکابر متقدمین میں سے ایک جماعت جیسے امام مالک ،امام شافعی ، اور مدینے کے چند فقیہوں نے اسی تاویل کے ساتھ فتوی دیا حالانکہ اس عقیدے کو ابن عباس کی حدیث رد کررہی ہے جو صاف صاف کہتے ہیں کہ "من غیر خوف ولا مطر"یعنی بغیر خوف اور نزول باراں کے نماز کو جمع پڑھتے تھے ۔
بعض دوسروں نے یہ خیال آرائی کی ہے کہ غالبا ابر گھرا ہوا تھا اس وجہ سے وقت کو نہیں پہچانا اور جیسے ہی نماز ظہر تمام کی ابر چھٹ گیا تو دیکھا کہ عصر کا وقت ہے لہذا عصر بھی پڑھ لی اور اس طرح سے ظہر عصر باہم جمع ہوگئیں ۔
میں نہیں سوچ سکتا کہ اس سے زیادہ کمزور تاویل بھی گھڑی جاسکتی ہے گویا تاویل کرنے والوں نے غور ہی نہیں کیا کہ نماز پڑھنے والے رسول اللہ (ص) تھے اور رسول خدا(ص) کیلئے ابر کا ہونا نہ ہونا کوئی فرق نہیں رکھتا تھا ۔کیونکہ آنحضرت (ص)کا علم اسباب ظاہری کا محتاج نہیں تھا ،بلکہ اسباب و آثار پر حاوی تھا اس سے قطع نظر کہ یہ کم فہم جماعت ایسی صورت حال پید ہونے پر کوئی دلیل اپنے پاس نہیں رکھتی اور علاوہ اس کے کہ یہ بات احادیث کے کھلے ہوئے مطالب کے خلاف ہے اس تاویل کا باطل ہونا نماز مغرب وعشاء کو جمع کرنے سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس وقت ابر کے موجود ہونے اور بر طرف ہونے سے کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا حدیث ابن عباس (خیر امت) میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ان کے خطبے نے اتنا طول کھینچا کہ سامعین نے کئی مرتبہ " الصّلواۃ الصّلواۃ "کی آوازبلند کی یعنی یاد دلایا کہ ستارے ظاہر ہوگئے ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے اس کے باوجود وہ نماز مغرب میں عمدا تاخیر کرتے رہے یہاں تک کہ نماز عشاء کا وقت آگیا اور دونوں کو ملا کے ادا کیا اور ابو ہریرہ نے بھی اس کی تصدیق کی رسول اللہ (ص) اسی طرح عمل فرماتے تھے ۔یقینا اس طرح کی تاویلیں ہمارے نزدیک باطل ہیں ، بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی ان کو رد کیا ہے اور تاویلات کو ظواہر احادیث کے برخلاف جانا ہے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء میں سے شیخ الاسلام انصاری نے "تحفۃ الباری فی شرح صحیح البخاری " باب الصلواۃ الظھر مع العصر والمغرب والعشاء"آخرصفحہ 292 جزءدوم میں اسی طرح علّامہ قسطانی نے "ارشاد الساری فی شرح صحیح بخاری"صفحہ 293 جزءدوم میں اور صحیح بخاری کے دوسرے شارحین اور آپ کے علماء محققین کے ایک جم غفیر نے لکھا ہے کہ اس قسم کی تاویلیں ظواہر احادیث کیخلاف ہیں اور اس بات کی قید لگانا کہ ہر نماز حتمی طور پر الگ الگ پڑھنا چائیئے ترجیح بلا مرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے ۔
نواب :- پھر یہ اختلاف کہاں سے آیا کہ مسلماں بھائیوں کے دوگروہ آپس میں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے باہم عداوت کی نظر سے دیکھتے ہیں او راعمال کی مذمت اور قدح کرتے ہیں ؟۔
خیر طلب :- اولا ! یہ کہ آپ نے فرمایا ہے مسلمان دو گروہ آپس میں ایک دوسرے کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، تو میں مجبور ہوں کہ شیعیان اہل بیت طہارت وخاندان رسالت کی طرف سے دفاع کروں کہ ہم شیعوں کی جماعت برادران اہل تسنن کے علماء اور عوام میں کسی ایک کو بھی حقارت یا عداوت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ہے بلکہ ان کو اپنے مسلمان بھائی سمجھتی ہے البتہ ہم کو بہت افسوس ہے کہ غیروں ،خارجیوں ، ناصبیوں اور امویوں کے غلط پروپیگنڈے اور شیاطین جن وانس کی تحریکیں برادران اہل سنت کے دلوں میں کس لئے گھر کر لیتی ہیں؟یہاں تک کہ اپنے شیعہ بھائیوں کو جو قبلہ، کتاب ، نبوت ، تمام احکام اور واجبات و مستحبات پر عمل اور کبائر ومعاصی کے ترک میں ان کے ساتھ شریک ہیں رافضی ،مشرک اور کافر جانتے ہیں ۔اپنے سے جدا قراردیتے ہیں اور بغض وعداوت کی نظر سے ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔
ثانیا ! آپ نے فرمایا ہے کہ "یہ اختلاف کہاں سے آیا ؟" تو میں سوز دل کے عرض کرتاہوں :-
آتش بجاں شمع فتد کیں بنا نہاد
ابھی یہ عرض کرنے کا وقت نہیں ہے کہ اس قسم کے اختلاف کا چشمہ کہاں سے پھوٹا ۔ شاید انشا اللہ آیندہ راتوں میں موقع محل کی مناسبت سے اس کی نقاب کشائی ہو جائے اور آپ خود اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔
ثالثا ! نماز جمع و تفریق کے بارے میں حضرات فقہاء اہل تسنن نے مذکورہ روایتوں کو جو مطلقا نماز ظہر وعصر ومغرب وعشاء کو ملا کر پڑھنے کی اجازت اور جواز پر دلالت کرتی ہیں ، امت کی سہولت و راحت اور سختی ومشقت و حرج سے بچانے کے لئے نقل کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ کس وجہ سے فضول تاویلیں کرتے ہیں اور بغیر عذر کے نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کو جائز نہیں جانتے بلکہ ان میں سے بعض جیسے ابو حنیفہ اور ان کے تابعین مطلقا جمع کرنے کو منع کرتے ہیں چاہے عذر کیساتھ ہو یا بغیر عذر کے ،سفر میں ہو یا حضر میں لیکن دوسرے شافعی ،مالکی ، اور جنبلی علماء نے باوجود سارے اصول و فروع میں باہمی اختلافات کے سفر مباح کرے اندر جیسے حج ،عمرہ اور جنگ وغیرہ میں اس کی اجازت دی ہے ۔
البتہ شیعہ فقہاء ائمہ طاہرین آل محمد علیھم السلام کی پیروی میں جو ارشاد رسول (ص) کی بنا پر حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے اور عدیل قرآن ہیں مطلقا اس کے جواز کا حکم دیتے ہیں ،خواہ سفر میں یا حضر میں ،عذرکے ساتھ یا بغیر عذر کے ، چاہے تقدیم کے ساتھ جمع کرے یا تاخیر کے ساتھ اور یہ جواز اختیار مصلی کے ساتھ ہے یعنی نماز گزار اگر چاہے تو نماز ظہر وعصر اورمغرب وعشاء چاروں کو سہولت اور آرام کے لئے ایک نشست میں پڑھے یا ظہر ومغرب کو اول وقت فضیلت میں پڑھے اور نماز عصر وعشاء کو بھی انہیں کے اول وقت فضیلت میں ادا کرے اس کو اختیار ہے ہاں ہر ایک کو الگ الگ اور اپنے اپنے وقت فضیلت میں بجا لانا جمع کرنے سے افضل ضرور ہے جیسا کہ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں اس کا مکمل ذکر کیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ لوگ اکثر مشاغل اور بہت سی پریشانیوں میں گرفتار رہتے ہیں اور ممکن ہے کہ تھوڑی سی غفلت میں نماز ان سے فوت ہو جائے لہذا سہولت اور رفع زحمت وحرج کے لئے (جو شارع مقدس کا مقصد ہے ) شیعہ تقدیم یا تاخیر کے ساتھ جمع پڑھتے ہیں میرا خیا ل ہے کہ حضرات محترم کا ذہن روشن ہونے اور دوسرے برادران اہل سنت کے لئے جو ہم کو غیض وغضب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی قدر جواب کافی ہوگا چونکہ دوسرے اہم بنیادی مطالب پیش نظر ہیں ۔لہذا بہتر ہے کہ ہم لوگ سابق اصل مذاکرات کی طرف واپس ہوں کیوں کہ جب خاص خاص اصولی مطالب حل ہوجائنگے تو ان کے ساتھ فروعات خود بخود واضح ہو جائنگے ۔
حافظ:-مجھ کو بہت مسرت ہے کہ میں نے پہلی ہی نشست میں قبلہ صاحب کے معلومات کا پتہ لگالیا اور یہ جان لیا کہ میرافریق صحبت وہ شخص ہے جو زیادہ محدود نہیں اور ہماری کتابوں سے پوری طرح باخبر ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا بلکل بجا ہے کہ ہم اسی پہلی گفتگو کی طرف رجوع کریں ۔ ٭٭٭