آل محمد علیھم السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بارے میں مناظرہ
حافظ:- آپ اپنے بیانا ت میں بار بار یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود وملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جا رہے ہیں کہ آپ ہی کی بیان کئے ہوئے قواعد کی رو سے وہ حضرات اس قسم کے امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں ۔
خیر طلب :- میں خشک و تنگ نظر اور متعصّب و جاہل نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش ہو پائی جا تی ہو تو اس کی یاد دہانی فرمادیجیئے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتو ں میں جو کچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو کہ ائمہ ہدی علیھم السلام کیخلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرما ئیے۔
حافظ:- میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کے نام لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رضی اللہ عنھم کہیں ،سلام اللہ علیھم کہا ہے ،درآنحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کہ یہ آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے " انّ اللہ وملائکتہ یصّلون علی النّبی یا ایھا الّذین آمنوا صلّو علیہ وسلّموا تسلیما "(یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر (ص) پاک پر درود بھیجتے ہیں اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو(اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو)آیت 56 سورہ مبارکہ احزاب ۔ سلام اور صلواۃ رسول خدا صلعم سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانا ت میں اماموں کیلئے بھی صلوات اور سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی نص صریح کیخلاف ہے ۔آپ کے اوپر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں ۔
آل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں اشکال اور اس کا جواب خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہرگز کوئی عمل نص کے خلاف نہ کیا ہے نہ کرتے ہیں ۔ ہوا یہ کہ گذشتہ صدیوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پیرووں نے حیلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہل بدعت نامزد کرنے کیلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے بڑے شیعہ علماء نے مکمل جواب دیا اور ثابت کیا ہے کہ ہم اہل بد عت نہیں ہیں ۔ چونکہ دشمن کے ہاتھوں میں قلم ہے لہذا تنہا قاضی بن کر جو چاہتے ہیں لکھتے ہیں ۔اس موضوع پر بھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔لیکن چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ۔ لہذا تفصیلی جواب سے قظع نظر کرتا ہوں محض اس لئے کی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے نہ رہ جائے اور حضرات اہل جلسہ اور میرے برادران عزیز کے سامنے حقیقت امر مشتبہ نہ رہے مختصر طور سے عرض کرتا ہوں، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات بھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔فقط حکم دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ آں حضرت (ص) پر صلوات بھیجیں ۔
دوسرے جس خدائے بر تر نے یہ آیت نازل فرمائی ہے وہی سورہ 37 (صافات)آیت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام علی آل یاسین (یعنی سلام ہو یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں ہرجگہ مخصوص طور پر انبیائے کرام پر سلام ہے وہ فرماتا ہے ۔"سلام علی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھارون" (سورہ صافات ) لیکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے لیئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانبیاء کے جن کے لئے ارشاد الہی ہے ، سلام علی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔
"یس "کے معنی اور یہ کہ "س"پیغمبر صلّی اللہ علیہ وآلہ کا نام مبارک ہے
آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید میں پیغمبر(ص)کے بارہ ناموں میں سے پانچ نام امت کی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبداللہ، نون اور یاسین ہیں ۔سورہ نمبر 36 کے شروع میں فرماتا ہے "یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہری وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔
نواب:- اس کا کیا سبب ہے کہ حروف تہجّی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟
خیر طلب :- میں نے عرض کیا کہ آنحضرت(ص) کے عالم معنوی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ کیونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پہنچا ہوا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا ظاہر وباطن یکساں ہو اور یہ مرتبہ آں حضرت (ص) کے وجود مقدس کو حاصل تھا ،لہذا حرف "س" کے ساتھ اس حیثیت کا اظہار فرمایا ۔
عام عقلوں سے قریب تر بیان یہ ہے کہ حروف تہجّی کے درمیان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظاہر وباطن برابر ہے اس معنی سے کہ اٹھائیس حرفوں میں سے ہر ایک کے لئے علمائے علم اعداد کے نزدیک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف کے زبر و بیّنہ کا تطابق کرنے میں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہوتا ہے یا بیّنہ ۔
نواب :- قبلہ معاف فرمائیے گا میں جسارت کر رہا ہوں ۔ چونکہ میں گہرے مضامین کو سمجھنے سے معذور ہوں لہذا استدعا ہے کہ ان راتوں میں مطالب کو سادہ اور واضح طریقے سے بیان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئے لائق توجہ اور قابل قبول ہوں چونکہ ہم لوگوں نے زبر وبیّنہ کے معنی نہیں سمجھے ،لہذا میں متمنی ہوں کہ سادہ بیان کے ساتھ وضاحت فرمائیے تاکہ یہ معمّا حل ہو جائے ۔
خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف کی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لکھی جاتی ہے اور بیّنہ سے وہ زیادتی ہے جو بولنے کے وقت ظاہر ہوتی ہے "س" کاغذ کے اوپر ایک حرف ہے لیکن تلفظ کے وقت تین حرف ہوجاتے ہیں ۔س۔ی ۔ن۔بولنے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہوجاتا ہے ۔اوراٹھائیس حروف تہجی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے کہ حساب کی مطابقت کرنے میں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہتا ہے "س" کے عدد ساٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے "ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے "ی" کے (10)اور"ن"کے (50)مل کر ساٹھ ہوئے اسی وجہ سے قرآن مجید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظاہر و باطن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "یس"کہہ کر مخاطب کیا ۔یعنی اے وہ شخص جو ظاہر وباطن دونوں حیثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔
آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے لہذا اس آیہ مبارکہ میں فرماتا ہے "سلام علی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔
حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو بیانی سے ثابت کرنا ہتے ہیں ورنہ علماء کے درمیان اس کا ذکر نہیں آیا ہے کہ آل یا سین پر سلام ہو۔
خیر طلب :- میں متمنی ہوں کہ انکار کے مواقع پر قطعی طور سے کوئی بات نہ کہہ دیا کیجیئے بلکہ تردید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب کے وقت آپ کو پچھتانے کی ضرورت نہ ہو ۔اگر آپ اپنے علماء کی کتابو ں سے بے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے کے خلاف سمجھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں سے باخبر ہوں اور حق سے منہ بھی نہیں موڑتا ہوں ۔
آپ کے بڑے بڑے علماء کی کتابوں میں کثرت سے اس معنی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،منجملہ ان کے متعصب ابن حجر نے صواعق محرقہ کے اندر جو آیات فضائل اہل بیت علیھم السلام میں نقل کی ہے ان میں سے تیسری آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ مفسّرین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خیر امّت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ "المراد بذالک سلام علی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لکھتے ہیں کہ اما م فخر الدین رازی نے ذکر کیا ہے ۔ان اہل بیتہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یساوونہ فی خمسۃ اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایھا النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواۃ علیہ علیھم فی التشھد وفی الطھارۃ قال اللہ تعالی "طہ یا طاھر "وقال " یطھرکم تطھیرا "،و فی تحریم الصدقۃ ،وفی المحبۃ قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ وقال قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی" ۔
(یعنی رسول کے اہل بیت علیھم السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔)دوسرے صلوات میں تشہد نماز میں۔ تیسرے طہارت میں خدائے تعالی نے فرمایا ہے طہ یعنی اے طاہر اور ان حضرات کے بارے میں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔چوتھے تحریم صدقہ میں کیونکہ پیغمبر اور ان کے اہل بیت پر صدقہ حرام ہے ،پانچویں محبت میں،کیوں کہ خدائے تعالی نے فرمایا (محمدص) کہہ دو(امت سے )میں تم سے کوئی اجر اور مزدوری نہیں چاہتا ہوں سوا میرے ذوی القربی اور اہلبیت سےمحبت کے )۔
سید ابو بکر بن شہاب الدین علوی کتاب "شفتہ الصادی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھادی(مطبوعہ مطبعہ اعلامیہ مصر سنہ 1303ھ کے باب اول صفحہ 24 پر مفسرین کی ایک جماعت سے بروایت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفحہ 42 پر نقل کیا ہے کہ آیت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 163 میں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آیت کے معنی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم میں کہا ہے کہ الیا سین سے مراد آل محمد سلام اللہ علیھم اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرقہ میں ذکر کیا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل کیا ہے ، انہوں نے کہا "سلام علی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔
لیکن اہل بیت علیھم السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فریقین کے درمیان مسلم ہے یہاں تک کہ بخاری اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا میرے اور میرے اہل بیت علیھم السلام کے دومیان صلواۃ میں جدائی نہ ڈالو ۔
آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہد نماز میں واجب ہے مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق میں اور آپ کے دوسرے بڑے علماء کعب بن عجزہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب آیت "انّ اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہوئی تو ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرنے کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہوا لیکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت نے فرمایا صلوات اس طریقے سے بھیجو" اللھم صلّ علی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ "کما صلّیت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) سے لوگوں نے سوال کیا کہ ہم آپ پر کس طرح سے صلواۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا کہو" اللھم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراھیم وعلی آل ابرا ھیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انّک حمید مجید۔
اور ابن حجر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ یہی روایت حاکم سے نقل کی ہے اس کے بعد اپنے عقیدے اوررائے کا اظہار کرتے ہوے کہتے ہیں ۔"وفیہ دلیل ظاھر علی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھلی ہوئی دلیل ہے کہ پیغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئے ہے ۔نیز روایت کی ہے کہ فرمایا "لا تصلّوا علیّ الصلواۃ البتراء"یعنی مجھ پر بترا اور دم بریدہ صلوات نہ بھیجو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلواۃ بتراء کون ہے ؟ فرمایا اگر کہو"اللھم صلّ علی محمد "لہذا یوں کہو"اللھم صلّ علی محمدو علی آل محمد۔
اس کے علاوہ دیلمی نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حتی یصلی علی محمد وآلہ"۔دعا پردے میں رہتی ہے (اور قبول نہیں ہوتی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ بھیجیں ۔اور اما م شافعی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :
یا اھل بیت رسول اللہ حبکم ۔۔۔۔فرض من اللہ فی القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدر انکم۔۔۔۔من لم یصل علیکم لا صلواۃ لہ
(یعنی اے اہل بیت رسول اللہ(ص) تمہاری دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تمہاری بزرگی ،منزلت اور مرتبے کیلئے یہی کافی ہے کہ جو شخص تم پر صلواۃ نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ، شافعی کی مراد تشہد نماز میں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کردیں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)
رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ "الصلواۃ عمود الدین ان قبلت قبل ما سواھا وان ردّت ردّ ما سواھا "(یعنی نماز دین کا نگہبان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہوجائے تو اس کے علاوہ دوسرے تمام اعمال بھی قبول ہوجاتے ہیں ، اور اگر نماز رد ہوجائے تو دوسرے اعمال بھی رد ہوجاتے ہیں ۔ تمام اعمال کی قبولیت نماز سے وابستہ ہے اور جو روایتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہوئے نماز کی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے جیسا کہ شافعی نے خود اقرار کیا ہے ۔
سید ابو بکر شہاب الدین نے کتاب " رشفة الصادی من بحر فضائل بنی النبی الهادی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات بھیجنے کے وجوب میں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائی سے دارقطنی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوسی سے انہوں نے ابو اسحاق مروزی اور سمہودی سے، نووی نے تنقیح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل کیا ہے کہ نماز کے تشہد میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے بعد آل محمد پر صلوات بھیجنا واجب ہے ۔
چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے لہذا مفصل بیان سے قطع نظر کرتا ہوں اور فیصلہ آپ حضرات کے پاک ضمیر پر چھوڑ تا ہوں ۔
چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ اہل بیت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ایسی عبادت ہے جس کے لئے خود رسول (ص) کی تاکید ہے اور اس کی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھم اللہ )کے جنہوں نے اصلی بات کو برادران اہل سنت کی نگاہوں پر مشتبہ بنا دیا ہے اور بناتے رہتے ہیں ۔
یہ بدیہی بات ہے کہ جو ہستیاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قریب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر قیاس کرنا اور دوسروں کو ان کے اوپر ترجیح دینا سوا سفاہت اور جہالت یا تعصب کے وبے خبری کے اور کیا ہے ؟
٭٭٭