امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

(تاریخ میں شیعہ کشی ) سنی علماء اور مولویوں کے ہاتھ بھی انکے خون سے رنگین ہیں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5
(میں نے کہا)میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں ۔ان دعاو‏ؤں کی عبارتوں میں کس مقام پر شرک کے آثار پائے جاتے ہیں ؟کیاہر جگہ خدائے تعالی کامقدس نام موجود نہیں ہے ؟ ہم نے دعا کی کون سی عبارت میں ان حضرات کو باری تعالی کا شریک قراردیا ہے ؟ آخر کس لئے آپ ہم لوگوں پر تہمت لگاتے ہیں کس وجہ سے موحد مسلمانوں کو غالی اور مشرک کہتے ہیں ؟ کس غرض سے مسلمانوں کے دلوں میں بغض وعداوت کا بیج بوتے ہیں ؟کس مقصد سے ناواقف لوگوں کی نظر میں حقیقت کو مشتبہ بناتے ہیں ؟تاکہ وہ اپنے دینی ایمانی بھایئوں کو کافر سمجھیں ۔آپ کے کتنے ناواقف اور متعصب عوام بیچارے شیعوں کو اسی خیال سے قتل کرتے ہیں کہ ہم ایک کافر کو قتل کیا لہذا جتنی ہوگئے ایسے امور کا مظلمہ آپ ہی جیسے علماء کی گردنوں پر ہے ۔
بات یہ ہے کہ شیعہ علماء او رمبلغین زہر نہیں پھیلاتے ۔شیعہ اور سنی کے درمیان عداوت کا بیج نہیں بوتے اور قتل نفس کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں ،ہم شیعہ اور سنی کے درمیان ما بہ اختلاف مسائل کو علم ومنطق کی روشنی مین بیان کرکے ان کو حقیقت مذہب سے باخبر کرتے ہیں لیکن گفتگو کے ضمن میں ان کو یہ بھی سمجھا دیتے ہین کہ سنی ہمارے مسلمان بھائی ہیں لہذا شیعہ جماعت کو ان کی طرف کینے اوردشمنی کی نظر سے نہ دیکھنا چاہیئے بلکہ برادرانہ طریقے سے آپس میں متحد رہنا چاہیئے تاکہ ہم سب مل کر لا الہ الا اللہ کاپرچم بلند کریں۔
لیکن اس کے برعکس متعصب سنّی علماء کے طرز عمل سے ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ ابو حنیفہ ،مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد ابن حنبل کے پیروؤں کو باوجود یکہ ان کے درمیان کثیر اصولی اور فروعی اختلافات ہیں ہر مقام پر آزادی دیتے ہیں اور مسلمان بھائی کہتے ہیں لیکن علی ابن ابی طالب اور امام صادق آل محمد علیھما السلام جو عترت و اہل بیت رسالت ہیں ،ان کے پیروؤں کو غالی ،مشرک اور کافر نامزد کرتے ہیں اور ان کی آزادی سلب کرتے ہیں تاکہ سنی ممالک کے اندر ان کی جان ومال محفوظ نہ رہے ،کتنے زیادہ ہیں کہ ایسے صاحبان علم وتقوی شیعہ جو سنی علماء کے فتوے سے شہید کئے گئے لیکن اس کے برعکس ایسا عمل شیعہ علماء کی طرف سے کیا بلکہ عوام شیعہ کی جانب سے بھی جن سے اس کا انجام پانا زیادہ سہل ہے کسی جاہل سنی کے لئے بھی صادر نہیں ہوا ہے آپ کے علماء بالعموم شیعوں پر لعنت کرتے ہیں لیکن شیعہ علماء کی کسی کتاب میں یہ نہیں دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے اہل تسنن لعنھم اللہ لکھا ہو۔

حافظ:- آپ زیادتی کر رہے ہیں ،کون سا صاحب علم وتقوی شیعہ ہمارے علماء کے فتوے سے قتل ہوا ہے ہے کہ آپ بلا وجہ جو ش دلا رہے ہیں؟اور کس نے ہمارے علماء میں سے شیعوں پر لعنت کی ہے ۔

خیرطلب :- اگر آپ کے علماء اور عوام کے حرکات تفصیل سے بیان کرنا چاہوں تو ایک نشست نہیں بلکہ کئی مہینے درکار ہوں گے لیکن نمونے اور اثبات کے لئے ان کے بعض اعمال اور اطوار کی طرف جو تاریخ کے صفات پر نقش ہیں کئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ جوش نہیں دلاتا ہوں بلکہ حقیقت پیش کرتا ہوں ۔
اگر آپ بڑے بڑے متعصب علماء کی کتابیں غور سے مطالعہ کیجئے تو لعنت کے مواقع خود ہی نظر آجائیں گے نمونے کے طور پر تفسیر امام فخر الدین رازی کی جلدیں ملاحظہ فرمائیے کہ جس جگہ ان کو موقع ہاتھ آیا ہے جیسے" آیت ولایت و اکمال الدین" وغیرہ کے ذیل میں مکرر ومکرر لکھتے ہیں۔
"و اما الرافضۃ لعنھم اللہ ھؤلاء الرافضۃ لعنھم ۔۔۔۔اما قول الروافض لعنھم اللہ "لیکن کسی شیعہ عالم کے قلم سے عام بردران اہل سنت کے لئے بلکہ خاص صورت میں بھی ان کے لئے ایسی عبارتیں نہیں نکلی ہیں۔


اس جماعت کے فتوے سے شہید اول کی شہادت

شیعہ ارباب علم کے ساتھ آپ کے علماء کی دردناک بدسلوکیوں میں سے ایک وہ عجیب وغریب فتوی ہے جو ایک بہت بڑے شیعہ فقیہ کے واسطے شام کے دوبڑے قاضیوں (برہان الدین مالکی و عباد بن الجماعۃ الشافعی) کی طرف سے صادر ہوا تھا وہ بزرگ فقیہ جو زہد وورع ،تقوی اور علم وتفقہ میں سارے اہل زمانہ کے سردار تھے ۔ ابواب فقہ پر احاطہ رکھنے میں اپنے دور کے اندر جواب نہیں رکھتے تھے ان کی فقہی مہارت کا ایک نمونہ کتاب لمعہ ہے جو (بغیر اس کے کہ سوا "مختصر نافع" کے اور کوئی فقہی کتاب آپ کے پاس موجود رہی ہو) صرف سات روز کے اندر تصنیف فرمائی اور حنفی ، مالکی ،شافعی اور جنبلی چاروں مذہب کے علماء ان کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہو کر فیض علم سے سیراب ہوتے تھے جناب ابو عبداللہ محمد بن جمال الدین مکو عاملی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
باوجودیکہ سنیوں کی سخت گیری کی وجہ سے آپ زیادہ تر تقیہ میں رہتے تھے ۔اور با الاعلان تشیع کا اظہار نہیں فرماتے تھے لیکن پھر بھی شام کے بڑے قاضی "عباد بن الجماعۃ" نے ایسے عالم ربانی سے حسد کابرتاؤ کرتے ہوئے والی شام (بید مر) کے پاس ان کی چغلی کھائی اور رفض و تشیع کا الزام لگا کر اس فقیہ عالم کوگرفتارکروایا ۔ ایک سال تک قید خانہ میں سخت تکلیفیں دینے کے بعد 9 یا 19 جمادی الاولی سنہ786 میں انہیں دو بڑے سنی قاضیوں (ابن الجماعۃ وبرہان الدین )کے فتوے سے پہلے آپ کو تلوار سے قتل کیا پھر آپ کا جسم سولی پر چڑھا یا گیا اس کے بعد انہیں دونوں کی تحریک سے اس نام پر ایک رافضی مشرک سولی کے اوپر ہے عوام نے آپ کے بدن کوسنگ سار کیا ۔پھر نیچے اتار کر آگ سے جلایا اور خاکستر ہوا میں اڑادی۔


خیر طلب کا اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کاتذکرہ

٭٭٭(((ان قابل ذکر واقعات میں سے جنہوں نے مجھ پر ان تاریخی وقائع کو ثابت کردیا ایک دفعہ یہ بھی ہے جسکو میں اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کرتا ہوں ۔
19جمادی الثا نیۃ سنہ 1371ھ میں جب میں زیارت بیت المقدس سے واپس ہو کر دمشق جارہا تھا ۔ ابتدائے شب میں شرق اردن کی مسجد جامع عمان میں (جو بہت خوبصورت مسجد ہے) نماز پڑھنے پہنچا ،اہل سنت مسلمانوں کی جماعت نماز ختم کرچکی تھی ۔کچھ لوگ جارہے تھے اور بعض لوگ ابھی نوافل پڑھنے میں مشغول تھے ، میں بھی مسجد کے ایک گوشہ میں جاکر فریضہ مغرب وعشاء اداکرنے میں مصروف ہوا ۔فریضہ اور نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض لوگ مجھ پر غضبناک ہیں خصوصا وہ عالم جوچند اشخاص کے ساتھ قر‏اءت قرآن میں مشغول تھے اور میری طرف شدید غصہ کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے میں تعقیبات ختم کرکے مسجد سے باہر نکل آیا اور گیراج میں جاکر موٹرچھو ٹنے کا انتظار کرنے لگا کھانا کھانے کے بعد جب مسجد میں نماز عشاءکی آذان شروع ہوئی تو مجھ کو خیال ہوا کہ روانہ ہونے کے بعد ممکن ہے موٹر راستہ میں نہ ٹھہرے اور نوافل شب پڑھنے کاموقع نہ ملے لہذا بہتر ہے کہ ابھی فراغت ہے مسجد میں جا کر نافلے ادا کرلوں پھر اطمینان سے سفر کی تیاری کروں ،چنانچہ تجدید وضو کرکے مسجد گیا اور عام بڑے پھاٹک سے داخل نہیں ہوا بلکہ عمارت کے آخری مغربی گوشے کے دروازے سے جاکر ایک بڑے ستون کے پہلو میں جو ایک اندھیری جگہ تھی وہاں جاکر مصروف نماز ہوا میں نے دیکھا کہ وہ عالم جو ایک گھنٹہ پہلے قراءت میں مشغول تھے اور غصے سے مجھ کو گور رہے تھے۔نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو جمع کئے ہوئے اور ان کے بیچ میں کھڑے ہوئے شرک اور مشرک کے بارے میں تقریر کر رہے ہیں ۔مقدمات کے بعد سلسلہ کلام اس مقام تک پہنچا کہ انتہائی جو ش اور سخن کے ساتھ کہا کہ تم سب مسلمانوں کو قیامت کے روز بازپرس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور جواب دینا پڑے گا ۔اس لئے کہ خدا نے فرمایا ہے مشرکین نجس ہیں ان کو مسجد میں نہ آنے دو لیکن ابھی ایک گھنٹہ پہلے ایک مشرک بت پرست نجس مسجد میں گھس آیا ہمارے سامنے بت کا سجدہ کیا اور تم لوگوں نے اس کو سزا نہیں دی میں قراءت میں مشغول تھا مگر تو لوگ کیامرگئے تھے ؟ کیا تمہارا فرض نہیں تھا کہ شرک کی نجاست کو مسجد سے دور کرتے اور بت پرست مشرک رافضی کو دفع کرتے یا اس کو قتل کردیتے کیونکہ اگر مشرک مسلمانوں کی مسجد میں بت پرستی کرے تو اس کو قتل کردینا واجب ہے ،بہر حال اپنی پر جوش تقریر سے ناواقف لوگوں کے جذبات اس طرح سے ابھارے کہ اگر میں اس جگہ موجود ہوتا تو یقینا قتل کردیا جاتا ۔تقری ختم ہونے کے بعد آدھے لوگ باہر جانے کے لئے عمارت کے آخری دروازے کے پاس آئے ، میں نماز وتر پڑھ رہا تھا چنانچہ بیٹھ گیا تاکہ ان لوگوں توجہ نہ ہو ،لیکن دفعتا میرے اوپر ان کی نظر پڑگئی ،فورا حملہ کرکے چاروں طرف سے گھیر لیا، بے شمار لاتیں اور گھونسے مجھ پر پڑرہے تھے اور برابر کہتے جاتے تھے کہ اٹھ اے مشرک !نکل اے مشرک! میں اپنی زندگی سے باکل مایوس ہو چکا تھا یہاں تک تشہد کا موقع آیا اور میں نے کہا" اشھد ان لا الہ الاّ اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ " اب ان کے درمیان اختلاف پید ا ہوگیا آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا مشرک ہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء کی شہادت دے رہا ہے ؟ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم نہیں جانتے قاضی کہتا تھا کہ یہ رافضی ہے اور مشرک ہے اور قاضی کی بات غلط ہوسکتی ہے وہ لوگ بحث اور اختلاف میں مصروف تھے اتنے میں میں نس سلام پڑھ کر کے نماز ختم کی کچھ جان میں جان آئی ،ہمت کرکے دفاع کے لئے آمادہ ہوا اور عربی زبان میں ایک مفصل تقریر کرکے جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ان کو قائل اور لاجواب کیا اور اپنا ہمدرد بنایا اور اس ناخداشناس قاضی کو ایک جاسوس ثابت کیا جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ظالم بیگانوں کو اہل اسلام پر غالب ،حاکم بنانے کے اسباب مہیا کرنا چاہتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ ان لوگوں نے مجھ سے معذرت کی یہاں تک مجھ کو مہمان کرنے کیلئے سخت اصرار کیا لیکن میں نے یہ عذر کر کے سفر کے لئے بلکل تیار ہوں ان سے رخصت لی اور روانہ ہوا ۔یہ تھا ایک نمونہ علمائے اہل سنت کے ان سینکڑوں اقدامات میں سے جس میں انہوں نس ہمارے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے معاملہ کو الٹ کے پیش کیا ہے اور مظلوم مسلمانوں کے قتل و اہانت کا بھی باعث ہوتا ہے ۔)))٭٭٭


"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے شہید ثانی کی شہادت

دسویں صدی ہجری میں بلاد شام کے اندر شیعہ علماء اور مفاخر فقہاء میں سے شیخ اجل فقیہ بے نظیر" زین الدین ابن نور الدین علی ابن احمد بن عاملی قد سّ سرّہ" تھے جو علم و فضل وزہد و روع اور تقوی میں دوست دشمن سبھی کے مرکز توجہ اور کافی شہرت کے مالک تھے ۔باوجودیکہ شب و روز تالیف وتصنیف میں مصروف رہتے تھے ۔ اور ہمیشہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر تے تھے آپ نے مختلف علوم میں اپنے قلم سے دو سو سے زیادہ کتابیں چھوڑدیں لیکن لوگوں سے اس کنارہ کشی کے بعد بھی علمائے اہل سنت کو عداوت پیدا ہوئی اور آپ کی مقبولیت سے ان کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی خصوصا بڑے قاضی" صیدا "نے بادشاہ آل عثمان "سلطان سلیم" کے پاس ایک شکایت نامہ اس عنوان کے ساتھ لکھا کہ "انہ قد وجد ببلاد الشام رجل مبدء خارج من المذاھب الاربعۃ "(یعنی یقینی طور پر ثابت ہوا ہے کہ بلاد شام کے اندر ایک بدعتی شخص موجود ہے جوچاروں مذہبوں سے خارج ہے )۔
"سلطان سلیم" کی طرف سے ان عالم ،فقیہ کے لئے حکم صادر ہوا کہ پیشی کے لئے اسلامبول میں حاضر کئے جائیں ۔چنانچہ مسجد الحرام کے اندر ان جناب کو گرفتار کرکے چالیس روزتک مکہ معظمہ میں قید رکھا اس کے بعد دریائی راستہ سے دار السلطنت "اسلامبول "کی طرف روانہ کیا لیکن دربار تک پہنچنے سے پہلے ہی ساحل دریا پر آپ کا سر مبارک کاٹ کے جسم کو دریا میں پھینک دیا اور سر بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔


محترم حضرات !
آپ کو خدا کی قسم انصاف کیجئے او رعادلانہ فیصلہ کیجئے ! بھلا کسی تاریخ میں آپ نے پڑھا ہے یا سنا ہے کہ علمائے شیعہ کی جانب سے کھبی کسی سنی عالم بلکہ عام انسان کے لئے بھی ایسی بدنیتی اور بد کرداری کا مظاہرہ ہواہو اور اس جرم میں کہ وہ شیعہ مذہب سے الگ ہے تو اس کو قتل کردیا ہو؟ خدا کے لئے بتائیے یہ بھی جرم وگناہ ہوگیا کہ وہ چاروں مذاہب سے خارج ہے آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص چاروں مذہبوں(حنفی،مالکی، شافعی،حنبلی)سے انحراف کرے تو کافر ہے اور اس کاقتل واجب ہے ؟آیا جو مذاہب صدیوں کے بعد رائج ہوئے ان کی اطاعت واجب ہے لیکن جو مذہب رسول خدا(ص)کے زمانے سے مرکز توجہ تھا وہ باعث کفر اور اس کے پیروؤں کاخون بہانا جائز ہے ؟
***

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک