حضرت عمر کے بعض اجتہادات
1:- جناب رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر اپنے اپنے دور میں تمام مسلمانوں کو یکساں طورپر عطیات وروزینے دیا کرتے تھے اور حضرت ابو بکر نے سابقین اولین کو بھی زیادہ روزینہ انکار کردیا تھا۔ لیکن حضرت عمر نے اس مسئلہ میں ان دونوں کی مخالفت کی اور اپنے زمانہ خلافت میں یکساں وظیفہ دینے کے طریقے کو ختم کردیا اور کسی کا وظیفہ کم اور کسی کا زیادہ مقررکیا (1)
حضرت عمر ایک عجیب نفسیات رکھتے تھے" کبھی سلام پہ ناراض اور کبھی دشنام پہ خوش " تو ان کے کردار کو خلافت کے لئے شرط قرار دینا کسی طرح سے بھی قرین دانش نہیں تھا ۔حضرت عمر کی اس سیمانی فطرت کے واقعات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔
1:- ایک شخص ان کے پاس آیا اور فریاد کی ہے کہ : فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے آپ مجھے انصاف فراہم کریں ۔
حضرت عمر نے اپنا درہ فضا میں بلند کیا اور فریادی کے سر پر دے مارا اور کہا جب عمر نکما ہوتا ہے تو تم اس وقت نہیں آتے اور جب عمر امور مسلمین میں مصروف ہوتا ہے تو تم فریاد یں لے کر اس کے پاس آجاتے ہو۔
فریادی بے چارہ آہ زاری کرتا ہوا چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا کہ اس فریادی کو دوبارہ لایا جائے اور جب وہ آیا تو درہ اٹھا کر اس ہاتھوں میں دیا اور کہا اب تم مجھ سے قصاص لے لو ۔
فریادی نے کہا میں نے اللہ اور تمہاری خاطر تمہیں معاف کیا ہے ۔
حضرت عمر نے کہا کہ : تم یا اللہ کے لئے معاف کردیا صرف مجھے میری خاطر معاف کرو ۔فریادی نے کہا تو پھر میں اللہ کے لئے تمہیں معاف کرتا ہوں ۔
اس کے بعد فریادی سے کہا کہ اب تم واپس چلے جاؤ (2)
"عدل فاروقی " سیمابی کیفیت کا حامل تھا جہاں فریادی کو انصاف کی جگہ بعض اوقات کوڑے کھانا پڑتے تھے ۔
2:- حضرت عمر نے نعمان بن عدی بن نفیلہ کو علاقہ "میسان" کا عامل مقرر کیا کچھ دنوں بعد حضرت عمر کو کسی نے نعمان کی ایک نظم سنائی ۔ جس میں رنگ تغزل وتشبیب نمایاں تھا۔ حضرت عمر نے انہیں لکھا کہ میں نے تجھے تیرے عہدہ سے معزول کردیا ہے ۔لہذا تم واپس آجاؤ ۔
جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے کبھی نہ تو شراب پی ہے اور نہ ہی کبھی عورتوں سے عشق لڑایا ہے ۔ یہ تو صرف شاعر انہ رنگ تھا جس کا اظہار میرے اشعار سے ہوا ہے ۔
حضرت عمر نے کہا درست ہے لیکن تم آج سے میری حکومت کے لئے کوئی کا م سرانجام نہیں دوگے ۔
3:- ایک قریشی کو حضرت عمر نے عامل بنایا ۔اسکا ایک شعر حضرت عمر کو سنا یا گیا
اسقنی شربۃ تروی عظامی ۔۔۔۔۔۔۔۔واسق باللہ مثلھا ابن ھشام
مجھے ایک گھونٹ پلا جس سے میری ہڈیاں سیراب ہوں اور اس جیسا ایک پیالہ ابن ہشام کو بھی پلا ۔
شعر سن کر حضرت عمر نے بلا یا ۔شاعر صاحب بڑے کایاں تھے جب آئے تو حضرت عمر پوچھا ۔مذکورہ شعرتم نے کہاتھا؟
اس نے کہا جی ہاں !کیا اس کے ساتھ والا دوسرا شعر آپ نے نہیں سنا ؟
کہا نہیں ۔ شاعر نے کہاکہ اس کا دوسرا شعر یہ ہے ۔
عسلا باردا بمآء غمام ۔۔۔۔۔۔اننی لااحب شرب المدام
بارش کے ٹھنڈے پانی میں شہد ملا کر مجھے پلا ۔میں شراب پینے کو پسند نہیں کرتا ۔
اس کی اس حاضر جوابی کو سن کر حضرت عمر بڑے محفوظ ہوئے اور کہا تم اپنے فرائض بدستور سرانجام دیتے رہو۔
4:- حضرت عمر نے ایک عامل سے قرآن واحکام کے متعلق سوالات کئے تو اس نے تسلی بخش جواب دئیے تو اسے کہا تم اپنا کام سرانجام دیتے رہو ۔جاتے ہوئے وہ واپس آیا اور رات میں نے ایک خواب دیکھاہے کہ آپ اس کی تعبیر بتائیں ۔حضرت عمر نے کہا خواب بیان کرو ۔اس نے کہا ۔رات میں نے سورج اور چاند کو ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا اور ہر ایک کے پاس لشکر بھی تھا ۔ حضرت عمر نے پوچھا تم کس لشکرمیں تھے ؟ اس نے کہا کہ میں چاند کے لشکر میں شامل تھا ۔
حضرت عمر نے کہا۔ میں نے تجھے معزول کردیا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "وجعلنا اللیل والنھار ایتین فمحونا آیۃ اللیل وجعلنا آیۃ النھا ر مبصرۃ " ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ۔ہم نے رات کی نشانی کو مٹایا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا (3)
5:- مقام حدیبیہ پر رسول خدا اور سہیل بن عمرو کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا جس میں ایک شرط یہ تھی کہ :مکہ کا جو فردمسلمانوں کے پاس جائے گا مسلمان اسے واپس کریں گے مسلمانوں کا کوئی شخص اگر مکہ والوں کے پاس پناہ لےگا تو واپس نہ کیا جائے گا ۔
اس شرط کو دیکھ کر حضرت عمر بہت ناراض ہوئے اور حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور ان کے سامنے احتجاج کیا پھر رسول خدا کے پاس آکر بیٹھے اور کہا ۔آپ ہمیں دین میں کیوں رسوا کرنا چاہتے ہیں ؟
رسول خدا (ص) نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کرونگا ۔
حضرت عمر ناراض ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا خدا کی قسم !اگر آج میرے پاس مددگار ہوتے تو میں رسوائی کبھی برداشت نہ کرتا (4)
حضرت عمر ایک رات عبدالرحمن بن عوف کو ساتھ لے کر شہر میں چل رہے تھے انہوں نے چند افراد کو شراب پیتے ہوئے دیکھ لیا ۔ عبدالرحمن سے کہا میں انہیں پہچان چکا ہوں ۔جب صبح ہوئی تو ان لوگوں کو بلا کر کہا ۔رات تم شراب نوشی کیوں کر رہے تھے ؟
ان میں سے ایک شخص نے کہا :- آپ کو کس نے بتایا ؟
حضرت عمر نے کہا:- رات میں نے تمہیں اپنی آنکھوں سے مے نوشی کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اس شخص نے کہا ۔ کیا اللہ نے آپ کو تجسس سے قرآن میں منع نہیں کیا ؟حضرت عمر نے اسے معاف کردیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔