سقیفائی حکومت کا دوسرا چہرہ
ب :- حضرت عمر بن الخطاب
اما والله لقد تقمّصها ابن ابی قحافة و انّه لیعلم انّ محلّی منها محلّ القطب من الرحی ینحدر عنی السیل ولا یرقی الی الطیر فسدلت درنها ثوبا وطویت عنها کشحا وطفقت ارتای بین ان اصول بید جذآء او اصبر علی طخیه عمیاء یهرم فیها الکبیر و یشب فیها الصغیر ویکدح فیها مومن حتی یلقی ربّه فرایت انّ الصبر علی هاتا اجحی فصبرت وفی العین قذی وفی الحلق شجا اری تراثی نهیا حتی مضی الاول لسبیله فادلی بها الی ابن الخطاب بعدہ ثم تمثل بقول الاعشی "
شتّان ما یومی علی کورها ۔۔۔۔۔ویوم حیّان اخی جابر
فیا عجبا بینا هو یستقیلها فی حیاتہ اذ عقدها لاخر بعد وفاته لشد ماتشطرّا ضرعیها "(1)۔
خدا کی قسم ؛ فرزند ابو قحافہ نے پیراہن خلافت پہن لیا ۔حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جوچکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے ۔میں وہ (کوہ بلند) ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گراجاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مارسکتا ۔(اس کے باجود ) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مومن اس میں جد وجہد کرتاہوا اپنے
پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا ۔ لہذا میں کیا ۔حالانکہ آنکھوں میں غبار اندوہ کی خلش تھی اور حلق میں غم ورنج کے پھندے لگے ہوئے تھے ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔پھر حضرت نے بطور تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا :
"کہاں یہ دن جو ناقہ ی پالا ن پہ کٹتا ہے اور کہا وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا ۔"
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا ۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا "۔
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لیے استوار کرتا گیا ۔بے شک ان دو نوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا "۔
بے شک ایسا ہی ہوا ۔حضرت عمر کی محنت سے جو خلافت ابوبکر کو ملی تھی ۔انہوں نے وہ خلافت حضرت عمر کے حوالے کی ۔
حضرت عمر کی نا مزدگی سے پہلے انہوں نے حضرت عثمان بن عفان اور عبد الرحمان بن عوف کو بلایا اور ان سے حضرت عمر کی باقاعدہ نامزدگی کے لیے مشورہ طلب کیا ۔تو عبدالرحمان بن عوف نے کہا " آپ اس کے متعلق جو سوچتے ہیں وہ اس سے بہتر ہیں "عبدالرحمان یہ جانتے تھے کہ خلیفہ اول کے دور میں بھی مرکزی کردار عمر ہی ادا کرتے رہے ۔جب کہ وہ حضرت ابو بکر کے تصورات سے بھی زیادہ بہتر تھے یعنی چہ معنی دارد؟ اور حضرت عثمان بن عفان کا جواب یہ تھا کہ "ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے اور ہماری بزم میں ان جیسا کوئی اور نہیں ہے ۔"
اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بالکل بجا فرمایا ہے کیوں کہ سقیفائی حکومت کے کرداروں میں خلیفہ ثانی لاجواب شخصیت کے حامل تھے ۔ ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ ان دونوں مشیروں نے یہ مشورہ اپنے ضمیر کی آواز پر دیا تھا یا خلیفہ صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا ؟
خلیفہ اول کی حضرت عمر کے لئے وصیت
بہر نوع حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو حکم دیا کہ وہ حضرت عمر کی نامزدگی کی وصیت تحریر کریں ۔
مورخین رقم طراز ہیں کہ حضرت ابو بکر اپنی وصیت تحریر کراتے گئے اور حضرت عثمان لکھتے گئے ۔ابھی حضرت عمر کا نام تحریر نہیں ہوا تھا کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور حضرت عثمان نے اپنی فہم و فراست سے حضرت عمر کا نام تحریر کردیا اور جب حضرت ابو بکر کو ہوش آیا تو حضرت عثمان نے انہیں حضرت عمر کا نام پڑھ کر سنایا جسے حضرت ابوبکر نے درست قراردیا اور مذکورہ نام لکھنے پر حضرت عثمان کو آفرین وتحسین کہی ۔
1:- آج تک ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ حضرت عثمان نے متوفی کی وصیت میں از خود حضرت عمر کا نام داخل کیوں کیا ؟
2:- اور کیا یہ کارنامہ ان کی اولیات میں شمار کیا جائے گا ؟
3:- اور کیا اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر اسی بے ہوشی کے دورہ سے ہی جانبرد نہیں ہوئے تھے تو اس وصیت نامہ کی شرعی حیثیت کیا قرار پائے گی ؟
4:- حضرت عمر کی نامزدگی کے لئے پوری جماعت صحابہ میں سے صرف دوافراد وکو ہی مشہورہ کے قابل کیوں سمجھا گیا ؟
5:- ان دونوں بزرگواروں میں آخر وہ کون سی خاصیت تھی جس سے دوسرے صحابہ محروم تھے ؟
6:- حضرت ابو بکر کے اس اقدام کے متعلق یہ کہہ کر امت اسلامیہ کو مطمئن کردیا جاتا ہے کہ انہوں نے امت اسلامیہ کی ہمدردی کے لئے ایسا کیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول خدا کو اپنی امت س اتنی ہمدردی بھی نہ تھی جتنی حضرت ابو بکر کو تھی ؟
7:-حضرت ابو بکر عالم نزع میں حضرت عمر کی نامزدگی تحریر کرائیں وہ تو درست ہے اور اگر جناب رسول خدا(ص) اپنے مرض موت میں کوئی وصیت تحریر کرانا چاہیں تو اسے ہذیان کہا جائے ؟
8:- اگر سینکڑوں بر س بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جسارت کرے کہ وہ وصیت نامہ حضرت ابو بکر کی بے ہوشی اور ہذیان کی حالت میں تحریر کیا گیا تھا ۔ تو کیا ایسا کہنے والے شخص کو دین اسلام کا دوست کہا جائے گا یا دشمن ؟ اور اس کے ساتھ امت اسلامیہ یہ فیصلہ بھی کرے کہ اگر کوئی شخص یہی الفاظ رسول خدا (ص) کے متعلق کہے تو اس کے لئے کیا کہاجائے ؟
9:- حضرت ابو بکر و عمر کا نظریہ یہ تھا کہ رسول خدا نے کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں کیا تھا اور اگر حضرت ابو بکر بھی رسول خدا کی پیروی کرتے ہوئے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کرتے تو کیا یہ عمل سنت رسول کی اتباع نہ کہلاتا ؟
10:-اگر حضرت علی کے لئے مشورہ کرلیا جاتا اور اس کے لئے مہاجرین و انصار سے رائے طلب کی جاتی تو اس میں آخر کیا قباحت تھی ؟
ان تمام سوالات کا سادہ سا اور حقیقت پسندانہ جواب یہی ہے کہ حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنانے میں حضرت عمر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔
حضرت ابو بکر اس طرح سے حضرت عمر کے مقروض احسان تھے ۔چنانچہ انہوں نے یہ قرض اپنی وفات کے وقت ادا کردیا ۔
شوری
حتیّ اذا مضی الثانی لسبیله جعلها فی جماعة زعم انی احدهم فی ا لله و للشوری حتی اعترض الریب فی مع الاول منهم حتی صرت اقرن الی هذه النظائر لکنی اسغفت اذا اسفوا وطرت اذا طارو فصغی رجل منهم لضغنه ومال الاخر لصهر مع هن وهن (الامام علی بن ابی طالب )
اور دوسرا جب جانے لگا تو خلافت کو ایک جماعت میں محدود کرگیا اور مجھے بھی اسی جماعت کا ایک فرد خیال کیا ۔اے اللہ مجھے اس شوری سے کیا لگاؤ ؟استحقاق وفضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں بھی شامل کرلیا ہوں ۔مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ویسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں ۔یعنی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا "(2)۔
ابن اثیر عمربن میمون کی زبانی شوری کی داستان یوں بیان کرتے ہیں :-
جب حضرت عمر قاتلانہ حملہ کی وجہ سے زخمی ہوئے تو انہیں کہا گیا کہ آپ کسی کو اپنا جانشین بنائیں ۔ تو انہوں نے کہا کسے اپنا جانشین بناؤں ؟
اگر آج ابو عبیدہ زندہ ہوتا تو میں اسے جانشین بنا تا اور اپنے رب کے حضور عرض کرتا کہ پروردگار میں اسے جانشین بنا کر آیاہوں جس کے متعلق میں نے تیرے حبیب سے سنا تھا کہ ابو عبیدہ میر ی امت کا امین ہے ۔
اگر آج سالم مولی حذیفہ زندہ ہوتا تو میں اسے اپنا جانشین بناتا اور اگر میرا رب مجھ سے پوچھتا تو میں عرض کرتا کہ خداوند ا! میں نے اسے جانشین بنا کر آیا جس کے متعلق میں نے تیرے رسول (ص) سے سنا تھا کہ سالم اللہ سے بڑی محبت کرنے والا ہے "(3)۔
ہاں ہمیں بھی یقین ہے کہ اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو حضرت عمر انہیں ہی خلیفہ بناتے ۔شاید امین امت کی وجہ سے تو نہ بناتے البتہ اس لئے انہیں خلیفہ ضرور بناتے کہ وہ ان کے ساتھ سقیفہ میں شامل تھے اور اگر ایسا ہوتا تو خلفائے راشدین کی تعداد بھی اج چار کی بجائے پانچ ہوتی ۔بشرطیکہ خلافت اگر حضرت علی (علیہ السلام )کو ملتی۔
تاریخ کا طالب علم اس روایت کو دیکھ کر انتہائی متعجب ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی زندگی کے آخری لمحات میں تو مسلمانوں نے ان ے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ہمیں بے وارث چھوڑ کرم ت جائیں لیکن رسول خدا (ص) کی خدمت میں کسی نے یہ درخواست نہیں کی کہ آپ بھی اپنا جانشین بناکر جائیں ۔
اور اہل سنت کے نظریہ کے مطابق جناب رسول خدا (ص) کو امت کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں تھی ۔اسی لئے انہوں نے خلیفہ کا انتخاب امت کے افراد کے کاندھوں پہ ڈال دیا تھا اور انہیں اس بات سے قطعا سروکار نہ تھی کہ اس حساس مسئلہ کی وجہ سے امت میں کتنی خون ریز لڑائیاں ہوں گی اور امت کتنے فرقوں میں بٹ جائے گی ۔
ہاں اللہ بھلا کرے شیخین حضرات کا کہ انہوں نے اس مسئلہ کا بروقت ادراک کرلیا تھا اور امت کوممکنہ تباہی سے بچالیا ۔اگر ابو عبیدہ بن جراح یا سالم مولی حذیفہ اتنے ہی لائق وفائق تھے تو حضرت عمر نے سقیفہ مین انہیں خلیفہ کیوں نہ بنالیا تھا ؟ اور ان کا حق تھا کہ انصار سے کہتے کہ تم ابو عبیدہ کی بیعت کرو اور سب
سے پہلے میں بھی اس کی بیعت کرتاہوں کیونکہ رسول خدا (ص) نے انہیں اس امت کا امین قرار فرمایا تھا ؟
یا ان کی بجائے سالم مولی حذیفہ کی بیعت کر لیتے اور فرماتے کہ یہ اللہ سے شدید محبت رکھنے والے بزرگ ہیں؟
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے ابو عبیدہ کو "امین الامت " قرار دیا تھا جب کہ حضرت ابو بکر کے لئے اس قسم کا کوئی لقب موجود نہ تھا تو پھر افضل کو چھوڑ کر مفضول کی بیعت کیوں کی گئی ؟اور اگر سقیفہ میں یہ کار خیر نہ ہوسکا تھا تو حضرت ابو بکر جب حضرت عمر کو نامزد کر رہے تھے تو حضرت عمر کا حق تھا کہ وہ خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کردیتے کہ آپ میری بجائے ابو عبیدہ کو اپنا جانشین مقرر فرمائیں کیونکہ وہ " امین الامت "ہیں ۔
علاوہ ازیں حضرت عمر نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر سالم زندہ ہوتے تو میں آج انہیں اپنا جانشین بناتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے سقیفہ میں ایک حدیث پڑھی تھی اور اسی کی وجہ سے انصار کے لئے خلافت کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا تھا ، اس حدیث کے الفاظ یہ تھے :- الائمۃ من قریش" امام قریش سے ہوں گے ۔
تو کیا حضرت سالم کا تعلق بھی قریش سے تھا ؟
اگر نہیں تھا تو حضرت عمر نے ان کی خلافت کیلئے اپنی حسرت کا اظہار کیوں فرمایا تھا ؟
اگر سالم کا تعلق قریش سے نہ تھا تو حضرت عمر کی اس حسرت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کے لئے قریشی ہونا غیر ضروری ہے تو کیا اس صورت دونوں خلفاء کا موقف جداگانہ نہ تھا ؟ اور اگر دونوں کا موقف الگ الگ تھا تو ان میں سے کس کا موقف صحیح تھا اور کس کا موقف غلط تھا ؟۔
حضرت سالم کے خلیفہ بنانے کی حسرت اس لئے تھی کہ وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق خلافت صرف اسے حاصل ہے جو اللہ سے شدید محبت رکھتا ہو ۔
آیا حضرت عمر کے ذہن سے اس وقت یہ حدیث محو ہوچکی تھی جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ۔
"لااعطین ھذه الرّایة غدا رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه "
کل میں علم اسے عطا کروں گا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہوگا اور اللہ اور رسول کا محبوب ہوگا ۔اللہ اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کرے گا (4)۔
اس حدیث میں رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے محب ہیں اور اللہ اور رسول (ص) کے محبوب ہیں ۔حضرت سالم کے متعلق تو صرف یہی حدیث تھی کہ وہ محب خدا ہیں لیکن ان کے محبوب خدا ہونے کی گواہی کسی حدیث میں نہیں ملتی ۔جب سالم صرف محب خدا ہونے کی وجہ سے مستحق خلافت قرار پائے تو علی (ع) جو کہ محب خدا بھی تھے اور محبوب خدا بھی تھے انہیں حضرت عمر نے اپنا خلیفہ نامزد کیوں نہ کیا ؟ بہر نوع حضرت عمر نے ایک شوری تشکیل دی جس میں حضرت علی (ع) ،حضرت عثمان ،سعد ابن اب وقاص اور عبدالرحمان بن عوف اور زبیر بن عوام کے ساتھ طلحہ بن عبیداللہ کو شامل کیا گیا ۔اور ان سے فرمایا میری وفات کے بعد تم تین دن مشورہ کرنا اور اسی دوران صہیب لوگوں کو نماز پڑھا ئیں گے ۔چوتھے دن تمہارا امیر ضرور ہونا
چاہئیے۔میرا بیٹا عبداللہ بن عمر تمہارے اجلاس میں بطور مشیر شریک ہوگا لیکن اس کا خلافت میں کوئی حصہ نہ ہوگا ۔بعد ازاں حضرت عمر نے ابوطلحہ انصاری کو بلا کر فرمایا کہ :- "تم پچاس افراد کا گروہ لے کر افراد شوری کی نگہبانی کرتے رہنا ۔یہاں تک کہ یہ لوگ کسی کو اپنا میر بنالیں ۔"
اس کے بعد مقداد بن اسود کو بلا کر فرمایا کہ :-
"میری تدفین کے بعد تم ان لوگوں کو اکٹھا کرنا یہاں تک کہ وہ اپنا حاکم مقرر کرلیں ۔اگر پانچ افراد ایک رائے پر جمع ہوں اور ایک انکار کررہا ہو تم تم تلوار سے اس کا سر قلم کردینا اور اگرچار ایک رائے ہوں اور دو مخالف ہوں تو دو کے سر قلم کردینا اور اگر ایک طرف بھی تین افراد ہوں اور دوسری طرف بھی تین ہوں تو میرے فرزند عبداللہ بن عمر کو حکم بنالینا ، اور اگر وہ لوگ میرے فرزند کے فیصلے کو قبول نہ کریں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں ،تم اسی کی حمایت کرنا اور دوسرے تین افراد کو قتل کردینا ۔
قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اس مقام پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں اور سوچیں کہ حضرت عمر نے اپنی وصیت میں فرمایا کہ خلیفہ کا انتخاب میری تدفین کے بعد کیا جائے ۔تو کیا حضرت عمر نے رسول خدا کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی کیا تھا ؟
جب کہ اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ رسول خدا(ص) کا جسد اطہر ابھی گھر میں ہی موجود تھا کہ سقیفہ کی کاروائی شروع ہوگئی ۔
تو جو شخصیت خلیفہ کے انتخاب کو اتنا اہم تصور کرتی تھی کہ رسول خدا کی تدفین پر بھی اسے فوقیت حاصل ہے ۔اپنی باری آنے پر انہیں سقیفائی تعجیل کا حکم کیوں نہ دیا ؟
یہ ایک جملہ معترضہ تھا ۔اب واقعات تاریخ کی جانب آئیں ۔اسکے بعد
حضرت عمر کی وفات ہوگئی اور صہیب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔جب حضرت عمر دفن ہوگئے تو مقداد نے اصحاب شوری کو جمع کیا جن میں طلحہ غیر حاضر تھے ۔
شوری کی کاروائی
شوری کی کاروائی شروع ہوئی ۔عبدالرحمن بن عوف نے کہا :- تم میں سے کوئی جو اپنے آپ کو خلافت سے علیحدہ کرلے اور اپنے سے بہتر شخص کا انتخاب کرے " عبدالرحمن کی تجویز پر کسی نے بھی لبیک نہ کی ۔انہوں نے خود کہا کہ میں اپنے آپ کو خلافت سے علیحدہ کررہا ہوں ۔ حضرت عثمان نے کہا :- "میں تمہارے اس اقدام کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں " باقی لوگوں نے کہا کہ ہم بھی عبدالرحمن کے اس کام پر راضی ہیں ۔ اس دوران علی( علیہ السلام )خاموش بیٹھے یہ سب دیکھتے اور سنتے رہے ۔ عبدالرحمن نے حضرت علی (علیہ السلام) سے کہا :- ابو الحسن ! آپ کیا کہتے ہیں ؟ حضرت علی نے فرمایا " پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم حق کو ترجیح دوگے اور خواہشات کی اتباع نہ کروگے اور امت اسلامیہ کی پوری خیر خواہی کروگے ۔"
"عبد الرحمن بن عوف نے ان باتوں کا حضرت علی (علیہ السلام ) سے وعدہ کر لیا ۔"(5)
اس طویل بحث ومباحثہ کے بعد ابن عوف نے حضرت علی (علیہ السلام ) کی طرف دیکھ کر کہا کہ :- " میں آپ کی بیعت کرتاہوں اس کے لئے آپ کو اللہ کی کتاب ، رسول خدا (ص) کی سنت اور سیرت شیخین پر عمل کرنا ہوگا ۔
حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایا :- " میں اللہ کی کتاب اور سنت رسول (ص) اور اپنے ذاتی اجتہاد پر عمل کروں گا "-
اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عثمان سے کہا کہ میں آپ کی بیعت کرتاہوں مگر آپ کو اللہ کی کتاب ،سنت رسول (ص) اور سیرت شیخین پر عمل کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا مجھے یہ تینوں شرائط منظور ہیں ۔
عبدالرحمن بن عوف نے تین مرتبہ حضرت علی کے سامنے اپنی شرائط پیش کیں لیکن حضرت علی (علیہ السلام) نے ہر مرتبہ سیرت شیخین ماننے سے انکار کردیا ۔
جب عبدالرحمن کو یقین ہوگیا کہ علی سیرت شیخین کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تو اس نے حضرت عثمان کی بیعت کرلی اورکہا :- السلام علیک یا امیر المومنین "۔
یہ دیکھ کر حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے علم تھا کہ تجھے خلیفہ گر کا کردار اسی لئے سونپا گیا تھا اور تو نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ پر حرف بحرف عمل کیا (6)۔
چند سوال
اس مقام پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ
1:- کیا عبدالرحمن نے اتفاقی طورپر حضرت عثمان کی بیعت کی تھی یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انہوں نے ایسا کیا تھا ؟
2:-کیا سیرت شیخین کا لاحقہ شامل کرنے کا مقصد حضرت علی کو خلافت سے علیحدہ کرنا تھا یا اس کا کوئی اور مقصد بھی تھا ؟
اس مقام پر ہم شوری پر وارد ہونے والے سوالات سے قبل دو امور کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں :
1:-مورخ طبری رقم طراز ہیں کہ "جب حضرت عمر زخمی تھے تو انہیں ابو عبیدہ اور سالم کی بے وقت موت کا شدید احساس تھا اور بار بار اس حسرت کا انہوں نے ذکر بھی کیا کہ کاش اگر وہ زندہ ہوتے تو ان میں سے کسی ایک کو خلافت کی مسند پر متمکن کردیتے ۔صحابہ کی ایک جماعت ان کی عیادت کیلئے آئی ،ان میں حضرت
علی (علیہ السلام ) بھی موجود تھے ۔ حضرت عمر نے عیادت کرنے والوں سے کہا :میں چاہتاتھا کہ میں کسی ایسے شخص کو حاکم بنا کر جاؤں جو تم لوگوں کو حق کی راہ پر چلاسکے ۔یہ کہہ کر انہوں نے علی کی طرف اشارہ کیا ۔
پھر مجھے نیند آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا اور اس مین پودے لگائے اورپودوں پر لگنے والے پھولوں کو اس نے چن چن کر اپنے رکھنا شروع کیا ۔ اس خواب کی تعبیر میں نے یہ لی کہ اللہ عنقریب عمر کو موت دینے والا ہے ۔
اب میں زندہ اور مردہ تمہارا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہوں ؟لہذا اب تم میرے میں اسے خلافت کے امیداواروں میں داخل نہیں کرنا چاہتا ۔ویسے میرا خیال یہ ہے کہ حکومت عثمان یا علی (ع) میں سے کسی ایک کو ملے گی ۔
اگر عثمان حاکم بن گئے تو ان میں نرمی بہت ہے ۔
اور اگر علی (ع) حاکم بن گئے تو ان میں مزاح ہے لیکن وہ لوگوں کو حق پر چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں (7)"۔
ارکان شوری کے متعلق حضرت عمر کی رائے
2:- ایک اور مورخ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ طلحہ ۔زبیر۔ سعد،عبدالرحمن ،عثمان ،اور علی (علیہ السلام) کو بلایا اور کہا :
زبیر!تو کیا چیز ہے؟ایک دن انسان ہے اور دوسرے دن شیطان ۔
طلحہ ! تو کیا ہے ؟رسول خدا (ص) تیری اس گفتگو کی وجہ سے تجھ سے وقت وفات تک ناراض تھے اور تیری گفتگو کی وجہ سے ہی ازواج محمد(ص)کے ساتھ نکاح کی حرمت والی آیت نازل ہوئی ۔
ایک اور دوسری روایت کے لفظ یہ ہیں۔
طلحہ! کیا تو وہی شخص نہیں ہے جس نے یہ کہا تھا کہ اگر محمد کی وفات ہوگئی تو میں ان کی بیویوں سے شادی کروں گا ۔اللہ نے محمد(ص) کو ہماری چچا زاد لڑکیوں کا ہم سے زیادہ وارث نہین بنایا ۔اور تیری اسی گستاخی کی وجہ سے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی :- ما کان لکم ان توذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا" تمہیں رسول خدا کو اذیت نہیں دینی چاہیے اورنہ ہی ان کی بیویوں سے تم کبھی نکاح کرسکتے ہو(8)
"ہمارے شیخ ابو عثمان جاحظ کہاکرتے تھے کہ کہ کاش اس وقت کوئی شخص حضرت عمر سے کہہ دیتا کہ جب ان ہستیوں کی حقیقت یہ تھی تو پھر آپ نے ان کے متعلق یہ کیوں فرمایا تھا کہ رسول خدا (ص) بوقت وفات ان سے راضی تھے ؟ اور اگر ایسا ہوتا تویقینا حضرت عمر لاجواب ہوجاتے ۔
بعد ازاں سعد ابن ابی وقاص کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ۔تو تو لوٹنے والی جماعت کا امیر ہے ،تو ایک شکاری شخص کے تیر کمان سے کھیلنے والل انسان ہے ۔قبیلہ زہرہ کا خلافت اور عوام کے امور سے کیا تعلق ہے ؟
پھر عبد الرحمن بن عوف کی جانب متوجہ ہوکر کہا :" جس شخص میں تمہاری جتنی کمزوری پائی جائے وہ خلافت کے لئے ناموزوں ہوتا ہے اور پھر "زہرہ" کا خلافت سے تعلق ہی کیا ہے ؟"
پھر علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا :اگر تمہارے اندر مزاح نہ ہوتی
تو خدا کی قسم ! تم ہی خلافت کے حق دار تھے ۔ خدا کی قسم ! اگر حاکم بن گئے تو لوگوں کو واضح اور روشن راہ پر چلاؤگے ۔
پھر حضرت عثمان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا : میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ قریش تمہیں حاکم بنالیں گے اور تم کنبہ پرور انسان ہو ۔ تم بنی امیہ اور ابی معیط کی اولاد کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کروگے اور مسلمانوں کا بیت المال ان کے ہی حوالہ کردوگے (9)۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):-نہیج البلاغہ ۔خطبہ شقشقیہ ۔
(2):- نہج البلاغہ ۔خطبہ شقشقیہ سے اقتباس ۔
(3):- ابن اثیر۔الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ص 34۔
(4):-صحیح مسلم /جلد دوم ۔ص 224
(5):- ابن اثیر ۔الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ص 35-36
(6):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ۔ص 50-67
(7):-مورخ طبری ۔تاریخ الامم والملوک ۔جلد دوم ۔ص 34-35
(8):- الاحزاب ۔53
(9):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہیج البلاغہ ۔جلد سوم ص 170