امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

سیرت امام علی (ع)سے چند اقتباسات

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ہم سابقہ فصول میں بہت سے واقعات کی جانب اشارہ کرچکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امام عالی مقام کتاب اللہ اور سنت رسول (ص) کے کتنے شیدائی تھے اورآپ نے ہمیشہ کتاب اللہ اور سنت رسول (ص) کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا تھا ۔
آپ کی صلح اور جنگ ہمیشہ احکام قرآنی کے تابع تھی اور آپ نے ہمیشہ اپنے دوستوں اور دشمنوں سے وہی سلوک کیاجس کا حکم قرآن مجید اور سنت رسول نے دیا تھا ۔
اس فصل میں ہم آپ کی سیرت کے چند ایسے گوشے اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جنہیں عظیم مسلمان مورخین نے نقل کیا ہے ۔

1:آئین حکومت

درج ذیل دستاویز کو مالک اشتر نخعی کے لئے تحریر فرمایا ۔قارئین کرام سے ہم التماس کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کی اس دستاویز کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں کیونکہ اس خط میں آپ نے اسلام کے آئین جہانبانی کی مکمل وضاحت کی ہے ۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
یہ ہے وہ فرمان جس پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے خدا کے بندے علی امیر المومینن نے مالک بن حارث اشتر کو جب مصر کا انہیں والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں اور دشمنوں سے لڑیں ،رعایا کی فلاح وبہبود اور شہروں کی آبادی کا انتظام کریں ۔انہیں حکم ہے کہ اللہ کا خوف کریں ، اس کی اطاعت کو مقدّم سمجھیں اورجن فرائض وسنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ،ان کا اتباع کریں کہ انہیں کی پیروی سے سعادت اور انہیں کے ٹھکرانے اور برباد کرنے سے بد بختی دامن گیر ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے دل اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے اللہ کی نصرت میں لگے رہیں کیوں کہ خدائے بزرگ وبرتر نے ذمہ لیا ہے ،جو اس کی نصرت کرےگا اور جو اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہوگا ، وہ عزت و سرفرازی بخشے گا ۔
اس کے علاوہ اہنین حکم ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے وقت اپنے نفس کو کچلیں اور اس کی منہ زوریوں کے وقت اسے روکیں ۔کیونکہ نفس برائیوں ہی کی طرف لے جانے والا ہے مگر یہ کہ خدا کا لطف وکرم شامل حال ہو۔
اے مالک! اس بات کو جانے رہو کہ تمہیں ان علاقوں کی طرف بھیج رہا ہوں ۔جہاں تم سے پہلے عادل اور ظالم کئی حکومتیں گذر چکی اور تمہارے طرز عمل کو اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے تم اپنے اگلے حکمرانوں کے طور
طریقے کو دیکھتے رہے ہو اور تمہارے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو تم ان حکمرانوں کے بارے میں کہتے ہو۔
یہ یاد رکھو کہ خدا کے نیک بندوں کا پتہ اسی نیک نامی سے چلتا ہے جو انہیں بندگان الہی میں خدا نے دے رکھی ہے ۔ لہذا ہر ذخیرہے سے زیادہ پسند تمہیں نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہئیے تم اپنی خواہشوں پر قابو رکھو اور جو مشاغل تمہارے لئے حلال نہیں ہیں ۔ ان میں صرف کرنے سے اپنے نفس کےساتھ بخل کرو کیونکہ نفس کے ساتھ بخل کرنا ہی اس کے حق کو ادا کرنا ہے چاہے وہ خود اسے پسند کرے یا ناپسند ۔
رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم ودرافت اور لطف ومحبت کو جگہ دو اور ان کے لئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں : ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہاری جیسی مخلوق خدا ۔ان کی لغزشیں بھی ہوں گی ۔خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی ۔تم ان سے اسی طرح عفودرگذر س کام لینا ۔جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفودرگذر کر پسند کرتے ہو اس لئے کہ تم ان پر حاکم ہو ۔ اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ہے اور جس امام نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اللہ ہے اور اس نے تم سے ان لوگوں کے معاملات کی انجام دہی چاہی ہے اور ان کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی ہے اور دیکھو خبردار ! اللہ سے مقابلہ کے لئے نہ اترنا اس لئے کہ اس کے غضبکے سامنے تم بے بس ہو ،اور اس کے عفو رحمت سے بے نیاز نہیں ہوسکتے تمہیں کسی معاف کردینے پر پچھتانا اور سزا دینے پر اترنا نہ چاہیے ۔
غصّہ میں جلد بازی سے کام نہ لو جبکہ اس کے ٹال دینے کی گنجائش ہو کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں ۔لہذا میرے حکم کے آگے سر
تسلیم خم ہونا چاہیے کیونکہ یہ تصور دل میں فساد پیدا کرنے ،دین کو کمزور بنانے اور برباد دیوں کو قریب لانے کاسبب ہے ۔
اور کبھی حکومت کی وجہ سے تم میں غرور و تمکنت پید ہو تو اپنے سے بالاتر اللہ کے ملک کی عظمت کو دیکھو اور خیال کرو کہ وہ تم پر قدرت رکھتا ہے کہ جو تم خود اپنے آپ پر نہیں رکھتے ،یہ چیز تمہاری رعونت وسرکشی کو دبا دے گی ۔اور تمہاری طغیانی کو روک دےگی ۔
خبردار! کبھی اللہ کے ساتھ اس کی عظمت میں ہ ٹکرو اور اس کی شان و جبروت سے ملنے کی کوشش نہ کرو ،کیونکہ اللہ ہر جبار و سرکش کو نیچا دکھاتا ہے اور ہرمغرور کے سر کا جھکا دیتا ہے ۔
اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں سے اپنے دل پسند افراد سے معاملے میں حقوق اللہ کو اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھہروگے اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتاہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کا حریف ودشمن بن جاتا ہے ،اور جس کا اللہ حریف ودشمن ہو ،اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا اور وہ اللہ سے بر سر پیکار رہے گا یہاں تک کہ بازآئے اور توبہ کر لے ،اور اللہ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی ،اور اس کی عقوبتوں کو جلد بلاوا دینے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے کیوں کہ اللہ مظلوموں کی پکار سنتا ہے اور ظالموں کیلئے موقع کا منتظر رہتا ہے ۔
تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہیئے جو حق کے لحاظ سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بے اثر بنادیتی ہے اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی ہے ۔
اور یہ یاد رکھو ! کہ رعیت میں خواص سے زیادہ کوئی ایسا نہیں کہ جو
خوش حالی کے وقت حاکم پر بوجھ بننے والا ، مصیبت کے وقت امداد سے کتراجانے والا ، انصاف پر ناک بھوں چڑھانے والا ،طلب وسوال کے موقعہ پر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑجانے والا ، بخشش پر کم شکر گزار ہونے ہونے والا ،محروم کردئیے جانے پر بمشکل عذر سننے والا ، اور زمانہ کی ابتلاؤں پر بے صبری دکھانے والا ہو ۔ اور دین کا مظبوط سہارا ، مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں سامان دفاع یہی امت کے عوام ہوتے ہیں ۔
لہذا تمہاری پوری توجہ اور تمہارا پورا رخ انہی کی جانب ہونا چاہئیے اور تمہاری رعایا میں تم سے سب سے زیادہ دور اور سب سے تمہیں زیادہ ناپسند وہ ہونا چاہیئے جو لوگوں کی عیب جوئی میں زیادہ لگا رہتا ہو ۔ کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں ۔ حاکم کے لئے انتہائی شایان یہ ہے کہ ان پر پردہ ڈالے لہذا جو عیب تمہاری نظروں سے اورجھل ہوں ، انہیں نہ اچھالنا ۔کیونکہ تمہارا کا م انہی عیبوں کو مٹانا ہے کہ جو تمہارے اوپر ظاہر ہوں ،اور جو چھپے ڈھکے ہوں ، ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔اس لئے جہاں تک بن پڑے ،عیبوں کو چھپاؤ تاکہ اللہ بھی تمہارے ان عیوب کی پردہ پوشی کے جنہیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو۔
لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کو کھو ل دو اور دشمنی کی ہر رسی کاٹ دو اور ہر ایسے رویہ سے جو تمہارے لئے مناسب نہیں بے خبر بن جاؤ اور چغل خور کی جھٹ سے ہاں میں ہاں نہ ملاؤ کیونکہ وہ فریب کاراہوتا ہے اگر چہ خیر خواہوں کی صورت میں سامنے آتاہے ۔
اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا ، اور فقرو افلاس کاخطرہ دلائے گا اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کردے گا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کی تمہاری نظروں میں سج دے گا ۔
یاد رکھو ! کہ بخل ،بزدلی ، اور حرص اگر چہ الگ الگ خصلتیں ہیں مگر اللہ سے بد گمانی ان سب میں شریک ہے ۔ تمہارے لئے سب سے بد تر وزیر وہ ہوگا ۔جو تم سے پہلے بد کرداروں کا وزیر اور گناہوں مں ان کا شریک رہ چکا ہے ۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں ۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تدبیرو رائے اور کارکردگی کے اعتبار س ان کے مثل ہوں گے مگر ان کی طرح گناہوں کی گر انباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں ۔جنہوں نے نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گنہگار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو ۔ان کا بو جھ تم پر ہلکا ہوگا اور یہ تمہارے بہترین معاون ثابت ہوں گے اور تمہاری طرف محبت سے جھکنے والے ہوں گے اورتمہارے علاوہ دوسروں سے ربط ضبط رکھیں گے ۔ انہی تو تم خلوت وجلوت میں اپنا مصاحب خاص ٹھہرانا ۔ پھر تمہارے نزدیک ان میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ہونا چاہئے کہ جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کھل کر کہنے والے ہوں اور ان چیزوں میں کہ جنہیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لئے ناپسند کرتاہے ۔ تمہاری بہت کم مدد کرنے والے ہوں چاہے وہ تمہاری خواہشوں سے کتنی ہی میل کھاتی ہوں ۔پرہیزگاروں اور راست مازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنانا کہ وہ تمہارے کسی کارنامہ کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کردیتی ہے اور تمہارے نزدیک نیکوکار اور بد کردار دونوں برابر نہ ہوں ۔ اس لئے کہ ایسا کرنا نیکوں کو نیکی سے بے رغبت کرنا اور بدوں کوبدی پر آمادہ کرنا ہے ۔
ہر شخص کو اسی کی منزلت پر رکھو ،جس کاوہ مستحق ہے اور اس بات کو یاد رکھو کہ حاکم کو اپنی رعایا پر پورا اعتماد اسی وقت کرنا چاہیئے جب کہ وہ ان سے
حسن سلوک کرتا ہو اور ان پر بوجھ نہ لادے اور انہیں ایسی ناگوار چیزوں پر مجبور نہ کرے ۔جو ان کے بس میں نہ ہوں ۔
تمہیں ایسا رویہ اختیار کرنا چاہئیے کہ اس حسن سلوک سے تمہیں رعیت پر پورا اعتماد ہوسکے ۔کیونکہ یہ اعتماد تمہاری طویل اندرونی الجھنوں کو ختم کردےگا اور سب سے زیادہ تمہارے اعتماد کے وہ مستحق ہیں جن کے ساتھ تم نے اچھا سلوک کیا ہو اور سب سے زیادہ اعتمادی کے مستحق وہ ہیں جن سے تمہارا برتاؤ اچھا نہ رہا ہو۔
اور دیکھو ! اس اچھے طور طریقے کو ختم نہ کرنا کہ جس پر اس امت کے بزوگ چلتے رہے ہیں اور جس سے اتحاد و یک جہتی بیدر اور رعیت کی اصلاح ہوئی ہو۔
اور ایسے طریقے ایجاد نہ کرنا جو پہلے طریقوں کو کچھ ضرر پہنچائیں اگر اینا کیا گیا تو نیک روش کے قائم کرجانے والوں کو ثواب تو ملتا رہے گا ۔مگر انہیں ختم کردینے کا گناہ تمہاری گردن پر ہوگا ۔اور اپنے شہروں کے اصلاحی امور کو مستحکم کرنے اور ان چیزوں کے قائم کرنے مں کہ جن سے اگلے لوگوں کے حالات مضبوط رہے تھ ےعلماء وحکماء کے ساتھ باہمی مشورہ اور بات چیت کرتے رہنا ۔
اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رعایا میں کئی طبقے ہوتے ہیں جن کی سود و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے ۔اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے ۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی وخصوصی تحریروں کا کام انجام دیتاہے ۔ تیسرا طبقہ انصاف کرنے والے قضاۃ کا ہے ۔ چوتھا حکومت کے وہ عمال جن سے امن وانصاف قائم ہوتاہے ۔پانچواں خراج دینے والے مسلمانوں اور جزیہ دینے والے ذمیوں کا ۔چھٹا تجارت واہل حرفہ کا ۔ساتواں فقرا ء ومساکین کا وہ طبقہ ہے جو
سب سے پست ہے ۔اوراللہ نے ہر ایک کا حق معین کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اس کی حد بندی کردی اور وہ دستور ہمارے پاس محفوظ ہے ۔
(پہلا طبقہ) فوجی دستے یہ بحکم خدا رعیت کی حفاظت کا قلعہ وفرمان رواؤں کی زینت ،دین ومذہب کی قوت اور امن کی راہ ہیں ۔ رعیت کا نظم ونسق انہی سے قائم وہ سکتا ہے اور فوج کی زندگی کا سہارا وہ خراج ہے جو اللہ نے ان کے لئے معین کیا ہے ۔کہ جس سے وہ دشمنوں سے جہاد کرنے میں تقویت حاصل کرتے اور اپنے حالات کو درست بناتے اور ضروریات کو بہم پہنچاتے ہیں ۔پھر ان دونوں طبقوں کے نظم وبقاء کے لئے تیسرے طبقے کی ضرورت ہے کہ جو قضاہ عمال اور منشیان دفاتر کا ہے جس کے ذریعہ باہمی معاہدوں کی مضبوطی اور خراج او ردیگر منافع کی جمع آوری ہوتی ہے اور معمولی اور غیر معمولی معاملوں میں ان کے ذریعے وثوق واطمینان حاصل کیا جاتا ہے اور سب کا دارو مدار سوداگروں اور صناعوں پر سے ان کی ضروریات کو فراہم کرتے ہیں ۔بازار لگاتے ہیں اور اپنی کاوشوں سے ان کی ضروریات کو مہیا کرکے انہیں خود مہیا کرنے سے آسودہ کردیتے ہیں اس کے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ہے جن کی اعانت ودستگیری ضروری ہے اللہ تعالی نے ان سب کے گزارے کی صورتیں پیدا کر رکھی ہیں اور ہر طبقے کا حاکم پر حق قائم ہے کہ وہ ان کے لئے اتنا مہیا کرے جو ان کی حالت درست کرسکے اور حاکم خدا کےان تمام ضروری حقوق سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا مگر اسی صورت میں کہ پوری طرح کوشش کرے اور اللہ سے مدد مانگے اور اپنے کو حق پر ثابت وبرقرار رکھے اور چاہے اس کی طبیعت پر آسان ہو یا دشوار بہر حال اس کو برداشت کرے ۔فوج کا سردار اس کو بنانا جو اپنے اللہ کا اور اپنے رسول کااور تمھارے امام کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہو سب سے زیادہ پاک دامن ہو ۔اور بردباری میں نمایاں ہو ۔جلد غصہ میں نہ آجاتا ہو عذر معذرت پر مطمئن ہوجاتا ہو ۔کمزوروں پر رحم کھاتا
ہو اور طاقتوں کے سامنے اکڑجاتا ہو۔ نہ بد خوئی اسے جوش میں لے آتی ہو اور نہ پست ہمتی اسے بٹھادیتی ہو،پھر ہونا چاہئے کہ تم بلند خاندان ،نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والے اور ہمت وشجاعت اور سخاوت کے مالکوں سے اپنا ربط وضبط بڑھاؤ کیونکہ یہی لوگ بزرگیوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہوتے ہیں ۔پھر ان کے حالات کی اسطرح دیکھ بھال کرنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی دیکھ بال کرتے ہیں ۔ اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرو کہ جوان کی تقویت کا سبب ہو تو اسے بڑا نہ سمجھنا ،اور اپنے کسی معمولی کو بھی غیر اہم نہ سمجھ لینا (کہ اسے چھوڑ بیٹھو)کیونکہ اس حسن سلوک سے ان کی خیر خواہی کا جذبہ ابھرے گا اور حسن اعتماد میں اضافہ ہوگا اور اس خیال سے کہ تم نے ان کی بڑی ضرورتوں کو پورا کردیا ہے ۔کہیں ان کی چھوٹی ضرورتوں سے آنکھ بندنہ کرلینا کیونکہ یہ چھوٹی قسم کی مہربانی کی بات بھی اپنی جگہ فائدہ بخش ہوتی ہے اور وہ بڑی ضرورتیں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اور فوجی سرداروں میں تمہارے یہاں وہ بلند منزلت سمجھا جائے ،جو فوجیوں کی اعانت میں برابر کا حصہ لیتا ہو اوراپنے روپے پیسے سے اتنا سلوک کرتا ہو کہ جس سے ان کا اور ان کے پیچھے رہ جانے والے بال بچوں کا بخوبی گزار ہوسکتا ہو۔ تاکہ وہ ساری فکروں سے بے فکر ہو کر پوری یکسوئی کے ساتھ دشمن سے جہاد کریں ۔ اس لئے فوجی سرداروں کے ساتھ تمہارا مہربانی سے پیش آنا ان کے دلوں کو تمھاری طرف موڑدے گا ۔
حکمرانوں کے لئے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ شہروں میں عدل وانصاف برقرار رہے اور رعایا کی محبت ظاہر رہے اور ان کی محبت اسی وقت ظاہر ہوا کرتی ہے کہ جب ان کے دلوں میں میل نہ ہو اور ان کی خیر خواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کیلئے گھیرا ڈالے رہیں ان کا اقتدار سر پر بو جھ نہ سمجھیں اور نہ ان کی حکومت
کے خاتمے کے لئے گھڑیاں گئیں ۔ لہذا ان کی امیدوں میں وسعت وکشش رکھنا ،انہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اور ان میں کے اچھی کارکردگی دکھانے والوں کے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہنا ۔اس لئے ان کے اچھے کارنا موں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لے آتا ہے اور پست ہمتوں کو ابھارتا ہے ۔جو شخص جس کارنامے کو انجام دے اسے پہچانتے رہنا اور ایک کا کارنامہ دوسرے کی طرف منسوب نہ کردینا اور اس کی حسن کارکردگی کا صلہ دینے میں کمی نہ کرنا اور کبھی ایسا نہ کرنا کسی شخص کی بلندی ورفعت کی وجہ سے اس کے معمولی کام کو بڑا سمجھ لو یا کسی کے بڑے کام کو اس کے خود پست ہونے کی وجہ سے معمولی قراردے لو۔
جب ایسی مشکلیں تمہیں پیش آئیں کہ جن کا حل نہ ہوسکے اور ایسےے معاملات کو جو مشتبہ ہوجائیں تو ان میں اللہ اور رسول (ص) کی طرف رجوع کرو ۔کیونکہ خدانے جن لوگوں کو ہدایت کرنا چاہی ہے ان کے لئے فرمایا ہے " اے ایماندارو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور ان کی جو تم میں صاحبان امر ہوں " تو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کتاب کی محکم آیتوں پر عمل کیا جائے اور رسول (ص) کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ان متفق علیہ ارشادات پر عمل کیا جائے جن میں کوئی اختلاف نہیں ۔
پھر یہ کہ لوگ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمھارے نزدیک تمھاری رعایا میں سب سے بہتر ہو جو واقعات کی پیچید گیوں سے ضیق میں نہ پڑجاتا ہو ۔اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو ۔نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو ۔نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتاہو نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو ، اور ہ بغیر پوری طرح چھان بین کئے ہوئے سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتاہو ۔شک وشبہ کے موقعہ پر قدم روک لیتا ہو اور دلیل وحجت کو سب سے زیادہ
اہمیت دیتاہو ۔ فریقین ک بخشا بخشی سے اکتا نہ جاتا ہو ۔معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر وضبط سے کام لیتاہو ۔ اور جب حقیقت آئینہ ہوجاتی ہو تو بے دھڑک کردے ۔اگر چہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں ۔ پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کابار بار جائزہ لیتے رہنا ۔دل کھول کر انہیں اتنا دینا کہ جو ان کے ہر عذر کو غیر مسموع بنا دے اور لوگوں کی انہیں کوئی احتیاج ن رہے ۔اپنے ہاں انہیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمہارے دربار میں لوگ انہیں ضرر پہنچانے کاکوئی خیال نہ کرسکیں ،تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگوں ک سازش سے محفوظ رہیں ۔
اس بارے میں انتہائی بالغ نظری سے کام لینا ۔ کیونکہ (اس سے پہلے ) یہ دین بدکرداروں کے پنجے کا اسیر رہ چکا ہے جس میں نفسانی خواہشوں کی کارفائی تھی ۔اور اسے دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا گیا تھا ۔
پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا ۔ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا ۔کبھی صرف رعایا اور جانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطانہ کرنا اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ہیں ۔اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ اور غیرت مند ہوں ۔ ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں ۔کیوں کہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں ،حرص وطمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب ونتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں پھر ان کی تنخواہوں کا معیار بلند رکھنا ۔کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مددملےگی اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو ان کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا ۔ اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم ک خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں تم تمہاری حجت ان پر قائم ہوگی ،پھر ان کے کاموں کو دیکھتے بھالتے رہنا اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر
چھوڑ دینا ، کیونکہ خفیہ طورپر ان کے امور کی نگرانی انہیں امانت کے برتنے اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا باعث ہوگی ۔ خائن مددگاروں سے اپنا بچاؤ کرتے رہنا ۔اگر ان میں سے کوئی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور متفقہ طورپر جاسوسوں کی اطاعات تم تک پہنچ جائیں ۔ تو شہادت کے لئے بس اسے کافی سمجھنا ۔اسے جسمانی طور پر سزا دینا اور جو کچھ اس نے اپنے عہدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمیٹا ہے ۔اسے واپس لے لینا اور اسے ذلت کی منزل پر کھڑا کردینا ۔اور خیانت کی رسوائیوں کے ساتھ اسے روشناس کرانا اور ننگ ورسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا ۔
مال گزاری کے معاملہ میں مال گزاری کا مفاد پیش نظررکھنا ،کیونکہ باج اور باج گزاروں کی بدولت دوسروں کے حالات درست کئے جاسکتے ہیں ۔سب اسی خراج اور خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ہین اور خراج کی جمع آوری سے زیادہ زمین کی آبادی کا خیال رکھنا ۔کیونکہ خراج بھی تو زمین کی آبادی سے حاصل ہوتا ہے ۔اور جو آباد کئے بغیر خراج چاہتا ہے وہ ملک کی بربادی اور بندگان خدا کی تباہی کا سامان کرتا کہے اور اس کی حکومت تھوڑے دنوں سے زیادہ نہیں رہ سکتی ۔
اب اگر وہ خراج کی گراں باری یا کسی آفت ناگہانی یا نہری و بارانی علاقوں میں ذرائع آپ پاشی کے ختم ہونے یا زمین کے سیلاب میں گھر جانے یا سیرابی کے نہ ہونے کے باعث اس کے تباہ ہونے کی شکایت کریں تو خراج میں اتنی کمی کر دو جس سے تمہیں ان کے حالات سدھر نے کی توقع ہو ۔اور ان کے بوجھ کو ہلکا کرنے سے تمہیں گرانی محسوس نہ ہو ۔کیونکہ انہیں زیرباری سے بچانا ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ جو تمہارے ملک کی آبادی اور تمہارے قلم رو حکومت کی زیب وزینت کی صورت میں تمہیں پلٹادیں گے ارو اس کے ساتھ تم ان سے
خراج تحسین اور عدل قائم کرنے کی وجہ سے بے پایاں مسرت بھی حاصل کر سکو گے ۔ اور اپنے اس حسن سلوک کی وجہ سے کہ جس کا ذخیرہ تم نے ان کے پاس رکھ دیا ہے تم (آڑے وقت پر)ان کی قوت کے بل بوتے پر بھروسہ کرسکوگے ۔ اور رحم ورافت کے جلو میں جس عادلانہ سیرت کا تم نے انہیں خو گر بنایا ہے اس کے سبب سے تمہیں ان پر وثو ق و اعتماد ہوسکے گا ۔
اس کے بعد ممکن ہے کہ ایسے حالات بھی پیش آئیں کہ جس میں تمہیں ان پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہو تو وہ انہیں بطیب خاطر جھیل لے جائیں گے کیوں کہ ملک آباد ہے تو جیسا بو جھ ان پر لادوگے ،وہ اٹھالے گا " اور زمین کی تباہی اس سے آتی ہے کہ کاشت کارواں کے ہاتھ تنگ ہوجائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال ودولت کے سمٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔
پھر یہ کہ اپنے منشیان دفاتر کی اہمیت پرنظر رکھنا ۔اپنے معاملات ان کے سپرد کرنا جو ان میں سے بہتر ہوں اور اپنے ان فرامین کو جن میں مخفی تدابیر اور (مملکت کے ) اسرار ورموز درج ہوتے ہیں خصوصیت کے ساتھ ان کے حوالے کرنا جو سب سے اچھے اخلاق کے مالک ہوں ۔جنہیں اعزاز کا حاصل ہونا سرکش نہ بنائے کہ وہ بھری محفلون میں تمہارے خلاف کچھ کہنے کی جرات کرنے لگیں اور ایسے بے پروانہ ہو کہ لین دین کے بارے میں جو تم سے متعلق ہوں تمہارے کارندوں کے خطوط تمہارے سامنے پیش کرنے اور ان کے مناسب جوابات روانہ کرنے میں کوتاہی کرتے ہوں اور وہ تمہارے حق میں جو معاہدہ کریں اس میں کوئی خامی نہ رہنے دیں اور نہ تمہارے خلاف کسی سازباز کا توڑ کرنے میں کمزور ی دکھائیں اور وہ معاملات میں اپنے صحیح مرتبہ اور مقام سے ناآشنا نہ ہوں کیونکہ جو اپنا صحیح مقام
نہیں پہنچانتا وہ دوسروں کے قدرو مقام سے بھی زیادہ واقف ہوگا ۔ پھر یہ کہ ان کا انتحاب تمہیں اپنی فراست ،خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بنا پر نہ کرنا چاہیئے ۔کیونکہ لوگ تصنع اور حسن خدمات کے ذریعہ حکمرانوں کی نظروں میں سما کر تعارف کی راہیں نکال لیا کرتے ہیں ۔حالانکہ ان میں ذرا بھی خیر خواہی اور امانت داری کا جذبہ نہیں ہوتا لیکن تم انہیں ان خدمات سے پر کھو ،جو تم سے پہلے وہ نیک حاکموں کے ماتحت وہ کر انجام دےچکے ہوں توجو عوام میں نیک نام اور امانت داری کے اعتبار سے زیادہ مشہور ہوں ان کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرو اس لئے کہ ایسا کرنا اس کی دلیل ہوگا کہ تم اللہ کے مخلص اور اپنے امام کے خیرخواہ ہو ۔تمہیں محکمہ تحریر کے ہر شعبہ پر ایک ایک افسر مقرر کرنا چاہیئے جو اس شعبے کے بڑے سے بڑے کام سے عاجز نہ ہو اور کام کی زیادتی س بوکھلا نہ اٹھے ۔
یاد رکھو ! ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا ۔اور تم اس سے آنکھ بند رکھو گے تو اس کی ذمے داری تم پر ہوگی ۔
پھر تمہیں تاجروں اور صناعوں کے خیال اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی ہدایت کی جاتی ہے اور تمہیں دوسروں کو ان کے متعلق ہدایت کرنا ہے خواہ وہ ایک جگہ رہ کر بیوپار کرنے والے ہوں یا پھیری لگا کر بیچنے والے ہوں یا جسمانی مشقت (مزدوری یا دستکاری ) سے کمانے والے ہوں کیوں کہ یہی لوگ منافع کا سرچشمہ اور ضروریات کے مہیا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔
یہ لوگ ان ضروریات کو خشکیوں ،تریوں ،میدانی علاقوں اور پہاڑوں ایسے دور اقتادہ مقامات س درآمد کرتے ہیں اور ایسی جگہوں سے جہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے او ر نہ وہاں جانے کی ہمت کرسکتے ہیں ۔
یہ لوگ امن پسند اور صلح جو ہوتے ہیں ۔ ان سے کسی فساد اور شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ۔یہ لوگ تمہارے سامنے یا جہاں جہاں دوسرے شہروں میں
پھیلے ہوئے ہوں ۔تم ان کی خبر گیری کرتے رہنا ۔ ہاں اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر اور بڑے کنجوس ہوتے ہیں جو نفع اندوزی کے لئے روک رکھتے ہین اور اونچے نرخ معین کرلیتے ہیں ۔ یہ چیز عوام کے لئے نقصان دہ اور حکام کے لئے بدنامی کا باعث ہوتی ہے ۔ لہذا ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا کیونکہ رسول خدا (ص) نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور خرید وفروخت صحیح ترازوؤں اور مناسب نرخوں کے ساتھ بسہولت ہونا چاہئے کہ نہ بیچنے والے کا نقصان ہو اور نہ خرید نے والے کا خسارہ ہو۔
اس کے بعد بھی کوئی ذخیرہ اندوزی کرے جرم کا مرتکب ہو تو اسے مناسب حد تک ‎سزا دینا ۔پھر خصوصیت کے ساتھ اللہ کا خوف کرنا ۔پسماندہ اور افتادہ طبقہ کے بارے میں ۔جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ۔وہ مسکینوں ،محتاجوں ،فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلا کرمانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ صورت سوال ہوتی ہے ۔اللہ کی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس ک اس نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے ۔
ان کے لئے ایک حصہ بیت المال سے معین کردینا اور ایک حصہ ہر شہر کے اس غلہ سے دینا جو اسلامی غنمیت کی زمینوں سے حاصل ہواہو ۔کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہ ےجتنا نزدیک والوں کا ہے اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو ۔
لہذا تمہیں دولت کی سرمستی ان سے غافل نہ کردے ۔کیونکہ کسی معمولی بات کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نے بہت سے اہم کاموں کو پورا کردیا ہے ۔ لہذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا اور نہ تکبر کے ساتھ ان کی طرف سے اپنا رخ پھیرنا اور خصوصیت کے ساتھ ایسے افراد کی خبر رکھو جو تم تک نہیں پہنچ سکتے ۔
جنہیں آنکھیں دیکھنے سے کراہت کرتی ہے ہوں گی اور لوگ انہین حقارت سے ٹھکراتے ہوں گے ۔تم ان کے لئے اپنے کسی بھروسے کے آدمی کو جو خوف خدا رکھنے والا اور متواضع ہو ۔مقرر کرنا کہ وہ ان کے حالات تم تک پہنچاتا رہے ۔ پھر ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا جس سے قیامت کے روز اللہ کےسامنے حجّت پیش کرسکو ۔کیونکہ رعیت میں دوسروں س زیادہ یہ انصاف کے محتاج ہیں اور یوں تو سب ہی ایسے ہیں کہ تمہیں ان کے حقوق سے عہدہ برآ ہو کر اللہ کے سامنے سرخرو ہونا ہے ۔
اور دیکھو یتیموں اور سال خوردہ بوڑھوں کا خیال رکھنا کہ جو نہ کوئی سہارا رکھتے ہیں اور نہ سوال کے لئے اٹھتے ہیں اور یہی کام ہے جو حکام پر گراں گزرا کرتاہے ۔ہاں خدا ان لوگوں کے لئۓ جو عقبی کے طلب گار ہوتے ہیں اس کی گرانیوں کو ہلکا کردیتا ہے ۔ وہ اسے اپنی ذات پر جھیل لے جاتے ہیں اور اللہ نے جو ان سے وعدہ کیا ہے اس کی سچائی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔
اور تم اپنےاوقات کا ایک حصہ حاجب مندوں کے لئے معین کردینا جس میں سب کام چھوڑ کر انہی کے لئے مخصوص ہوجانا انو ان کے لئے ایک عام دربار کرنا اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے لئے تواضع وانکساری سے کام لینا اور اس موقع پر فوجیوں ۔نگہبانوں اور پولیس والوں کو ہٹا دینا تاکہ کہنے والے بے دھڑک کہہ سکیں ۔کیوں نکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کئی موقعوں پر فرماتے سنا ہے کہ " اس قوم میں پاکیزگی نہیں آسکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا "
پھر یہ کہ ان کے تیور بگڑیں یا صاف صاف مطلب نہ کہہ سکیں تو اسے برداشت کرنا اور تنگ دلی اور نخوت کو ان کے مقابلہ میں پاس نہ آنے دینا ۔اس کی وجہ سے اللہ تم پر اپنی رحمت کے دامنوں کو پھیلا دے گا اور اپنی فرماں برداری
کا تمہیں ضرور اجر دے گا اور جو حسن سلوک کرنا اس طرح کہ چہرے پر شکن نہ آئے اور نہ دینا تو اچھے طریقے سے عذر خواہی کرلینا ۔پھر کچھ امور ایسے ہیں جو خود تم ہی کو انجام دینا چاہئیں ۔
ان میں سے ایک حکام کے ان مراسلات کاجواب دینا ہے جو تمہارے منشیوں کے بس میں نہ ہوں اور ایک لوگوں کی حاجتیں جب تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہارے عملہ کے ارکان ان سے جی چرائیں ،تو خود انہیں انجام دینا ہے ۔ روز کا کام اسی روز ختم کردیا کرو ۔ کیوں کہ ہر دن اپنے ہی کام کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور اپنے اوقات کا بہتر اور افضل حصہ اللہ کی عبادت کے لئے خاص کردینا ۔
ان مخصوص اشغال میں سے کہ جن کے ساتھ تم خلوص کے ساتھ اللہ کے لئے اپنے دینی فریضہ کو ادا کرتے ہو ان واجبات کی انجام دہی ہوناچاہئیے جو اس کی ذات س مخصوص ہیں ۔ تم شب وروز کے اوقات میں اپنی جسمانی طاقتوں کا کچھ حصہ اللہ کے سپرد کردو اورجو عبادت بھی تقرب الہی کی غرض سے بجا لانا وہ ایسی ہو کہ نہ اس میں کوئی خلل ہو ، اور نہ کوئی نقص ۔چاہے اس میں تمہیں کتنی جسمانی زحمت اٹھانا پڑے ۔
اور دیکھو ! جب لوگوں کو نماز پڑھانا تو ایسی نہیں کہ (طول دے کر) لوگوں کو بے زاری کردو اور نہ ایسی مختصر کہ نماز برباد ہوجائے ۔اس لئے کہ نمازیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی جنہیں کوئی ضرورت پیش ہوتی ہے ۔
چنانچہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف روانہ کیا تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ انہیں نماز کس طرح پڑھاؤں ؟ تو فرمایا کہ جیسی ان میں کے سب سے زیادہ کمزور و ناتواں کی نماز ہوسکتی ہے اور تمہیں مومنوں کے حال پر مہربان ہونا چاہئیے ۔
اس کے بعد یہ خیال کہ رعایا سے عرصہ تک روپوشی اختیار نہ کرنا ، کیونکہ حکمرانوں کا رعایا سے چھپ کر رہنا ایک طرح کی تنگ دلی اور معاملات سے بے خبر رہنے کا سبب ہے اور یہ روپوشی انہیں بھی ان امور پر مطلع ہونے سے روکتی ہے کہ جن سے وہ ناواقف ہیں ۔ جس کی وجہ سے بڑی چیز ان کی نگاہ میں چھوٹی اور چھوٹی چیز بڑی ، اچھائی برائی اور برائی اچھائی ہوجایا کرتی ہے اور حق وباطل کے ساتھ مل جل جاتا ہے اور حکمران بھی آخر ایسا ہی بشر ہوتا ہے وہ بھی ان معاملات سے ناواقف رہے گا جو لوگ پوشیدہ رکھیں گے اور حق کی پیشانی پر کوئی نشان تو ہوا نہیں کرتے کہ جس کے ذریعے سے جھوٹ سے سچ کی قسموں کو الگ کر کے پہچان لیا جائے اور پھر تم دوہی طرح کےآدمی ہوسکتے ہو ۔ یا تو تم ایسے ہو کہ تمہارا نفس حق کی ادائیگی کے لئے آمادہ ہے تو پھر واجب حقوق اداکرنے اور اچھے کا م کرگزرنے سے منہ چھپانے کی ضرورت کیا ؟ اور یا تم ایسے ہو کہ لوگوں کو تم سے کورا جواب ہی ملنا ہے تو جب تمہاری عطا سے مایوس ہوجائیں گے تو خود ہی بہت جلد تم سے مانگنا چھوڑدیں گے اور پھر یہ کہ لوگوں کی اکثر ضرورتیں ایسی ہوں گی جن سے تمہاری جیب پر کوئی بار نہیں پڑتا ۔جیسے کسی کے ظلم کی شکایت یا کسی معاملے میں انصاف کا مطالبہ ۔
اس کے بعد معلوم ہونا چاہئے کہ حکام کے کچھ خواص اور سرچڑھے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ جن میں خود غرضی ،دست درازی اور بد معاملگی ہواکرتی ہے ۔ تم کو ان حالات کے پید ا ہونے کی وجوہ ختم کرکے اس گندے مواد کو ختم کردینا چاہئے ۔
اور دیکھو! اپنے کسی حاشیہ نشین اور قرابت دار کو جاگیر نہ دینا اور اسے تم سے توقع نہ بندھا چائیے ۔کسی ایسی زمین پر قبضہ کرنے کی جو آبپاشی یا کسی مشترکہ معاملہ میں اس کے آس پاس لوگوں کے لئے ضرر کا باعث ہو یوں کہ اس کا بوجھ دوسرے پر ڈال دے ۔اس صورت میں اس کے خوش گوار مزے تو
اس کے لئے ہوں گے نہ تمہارے لئے ۔مگر اس کا بدنما دھبہ دنیا وآخرت میں تمہارے دامن پر رہ جائے گا ۔
اور جس پر جو حق عائد ہوتا ہو ، اس پر اس حق کو نافذ کرنا چاہئے ۔وہ تمہارا اپنا ہو یا بیگانہ ہو اور اس کے بارے میں تحمل سے کام لینا اور ثواب کے امید وار رہنا ،چاہئے اس کی زد تمہارے کسی قریبی عزیز یا کسی مصاحب خاص پر کیسی ہی پڑتی ہو اور اس میں تمہاری طبیعت کو جو گرانی محسوس ہو ، اس کے اخروی نتیجہ کو پیش نظر رکھنا کہ اس کا انجام بہرحال اچھا ہوگا ۔
اگر رعیت کو تمہارے بارے میں کبھی یہ بد گمانی ہوجائے کہ تم نے اس پر ظلم وزیادتی کی ہے تو اپنے عذر کو واضح طور پر پیش کرو اور عذر کرکے ان کے خیالات کو بدل دو ۔اس سے تمہارے نفس کی تربیت ہوگی اور رعایا پر مہربانی ثابت ہوگی ۔ اور اس عذر آوری سے ان کو حق پر استوار کرنے کا تمہارا مقصد پورا ہوگا۔ اگر دشمن ایسی صلح میں تمہارے لشکر کے لئے آرام وراحت اور خود تمہارے لئے فکر وں سے نجات اور شہروں کے لئے امن کا سامان ہے ۔ لیکن صلح کے بعد دشمن سے چوکنا اور خوب ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قرب حاصل کرتا ہے تاکہ تمہاری غفلت سے فائدہ اٹھائے ۔ لہذا احتیاط کو ملحوظ رکھو اور اس بارے میں حسن ظن سے کام نہ لو اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو ، یا اسے اپنے دامن میں پناہ دو تو اپنی جان کو سپر بنادو ۔کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی بناء پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف رایوں کے باوجود یک جہتی سے متفق ہو ۔ اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان معاہدوں کی پابندی کی
ہے اس لئے عہد شکنی کے نتیجہ میں انہوں نے تباہویں کا انداز کیا تھا ۔ لہذا اپنے عہد وپیمان میں غداری اور قول وقرار میں بدعہدی نہ کرنا اور اپنے دشمن پر اچانکہ حملہ نہ کرنا ۔ کیونکہ اللہ پر جراءت جاہل بدبخت کے علاوہ دوسرا نہیں کرسکتا اللہ نے عہد وپیمان کی پابندی کو امن کا پیغام قراردیا ہے کہ جسے اپنی رحمت سے بندوں میں عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنا یا ہے کہ جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے اور اس کے جوار میں منزل کرنے کے لئے وہ تیزی سے بڑھتے ہیں ۔ لہذا اس میں کوئی جعل سازی ،فریب کاری اور مکاری نہ ہونا چاہیے اورایسا کوئی معاہدہ سرے سے ہی نہ کرو جس میں تاویلوں کی ضرورت پڑنے کا امکان ہو اور معاہدہ کے پختہ اور طے ہوجانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ کے دوسرے معنی نکال کر فائدہ اٹھا نے کی کوشش نہ کرو اور اس عہد وپیمان خداوندی میں کسی دشواری کا محسوس ہونا تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہونا چاہئے کہ تم اسے ناحق منسوخ کرنے کی کوشش کرو ۔ کیونکہ ایسی دشواریوں کو جھیل لے جانا کہ جن سے چٹکارے کی اور انجام بخیر ہونے کی امید ہو ۔اس بد عہد ی کرنے سے بہتر ہے جسکے برے انجام کا تمہیں خوف اور اس کاا ندیشہ ہو کہ اللہ کے یہاں تم سے اس پر کوئی جواب دہی ہوگی اور اس طرح تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کی تباہی ہوگی ۔
دیکھو ! ناحق خونریزیوں سے دامن بچائے رکھنا کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمے کا سبب ناحق خونریزی سے زیادہ کوئی شے نہیں ہے ۔
قیامت کے دن سبحان سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا ہوگا جو بندگان خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔ لہذا خون ناحق بہا کراپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلا کردینے والی ہوتی ہے بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلا کر دوسروں کو
سونپ دینے والی ۔اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا نہ میرے سامنے ،کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ،اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہوجاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جائے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بے خود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوں تک پہنچانے میں کوتا ہی نہ کرنا ۔
اور دیکھو! خود پسندی سے بچنے رہنا اور اپنی جو باتیں معلوم ہوں ان پر نہ اترانا اور نہ لوگوں کے بڑھاچڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ،ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکو کاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے اور رعایا کے ساتھ نیکی کرکے کبھی احسان نہ جتانا اور جو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسے زیادہ نہ سمجھنا اور ان سے وعدہ کرکے بعد میں وعدہ خلافی نہ کرنا ۔کیونکہ احسان جتانا نیکی کو اکارت کردیتا ہے اور اپنی بھلائی کو زیادہ خیال کرنا حق کی روشنی ختم کردیتا ہے اور وعدہ خلافی سے اللہ بھی ناراض ہوتاہے اور بندے بھی چنانچہ اللہ تعالی خود فرماتا ہے ۔
"خدا کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی چیز ہے کہ تم جو کہو اسے کرو نہیں ۔"
اور دیکھو ! وقت سے پہلے کسی کام میں جلد بازی نہ کرنا اور جب اس کا موقع آجائے تو پھر کمزوری نہ دکھانا اور جب صحیح صورت سمجھ میں نہ آئے تو اس پر اصرار نہ کرنا ۔ اور جب طریق کا ر واضح ہوجائے تو پھر سستی نہ کرنا ۔مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھو اور ہر کام کو اس کے موقع پر انجام دو ۔
اور دیکھو! جن چیزوں میں سب لوگوں کا حق برابر ہوتا ہے ۔اسے اپنے لئے مخصوص نہ کرلینا اور قابل لحاظ حقوق سے غفلت نہ برتنا جو نظروں کے سامنے نمایاں ہوں ۔کیونکہ دوسروں کے لئے یہ ذمہ داری تم پر عائد ہے اور مستقبل قریب میں تمام معاملات سے پردہ ہٹادیا جائے گا اور تم سے مظلوم کی داد خواہی کرلی جائے گی ۔
دیکھو! غضب کی تندی ،سرکشی کے جوش ،ہاتھ کی جنبش اور زبان کی تیزی پر ہمیشہ قابو رکھو، اور ان چیزوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ جلد بازی سے کام نہ لو اور سزا دینے میں دیر کرو ۔ یہاں تک کہ تمہارا غصہ کم ہوجائے اور تم اپنے اوپر قابو اور کبھی یہ بات تم اپنے نفس میں پورے طورپر پیدا نہیں کرسکتے جب تک اللہ کی طرف بازگشت کو یاد کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ان تصورات کو قائم نہ رکھو ۔
اور تمہیں لازم ہے کہ گزشتہ زمانے کی چیزوں کویاد رکھو ۔خواہ کسی عادل حکومت کا طریق کا ر ہو ، یا کوئی اچھا عمل درآمد ہو ۔ یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث ہو یا کتاب اللہ میں درج شدہ کوئی فریضہ ہو ۔ تم ان چیزوں کی پیروی کرو جن پر عمل کرتے ہوئے ہمیں دیکھا ہے اور ان ہدایات پر عمل کرتے رہنا جو میں نے اس عہد نامہ میں درج کی ہیں اور ان کے ذریعہ سے میں نے اپنی حجت تم پر قائم کردی ہے ۔تاکہ تمہارا نفس اپنی خواہشات کی طرف بڑھے تو تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہو ۔اورمیں اللہ تعالی سے اس کی وسیع رحمت اور ہرحاجت کے پورا کرنے پر عظیم قدرت کا واسطہ دے کر اس سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں اس کی توفیق بخشے جس میں اس کی رضا مندی ہے کہ ہم اللہ کے سامنے اور اس کے بندوں کے سامنے ایک کھلا ہوا عذر قائم کرکے سرخرو ہوں اور ساتھ ہی بندوں میں نیک نامی ملک میں اچھے اثرات اور اس کی نعمتوں میں فراوانی اور اروز افزوں عزت کو قائم رکھیں ۔اور یہ میرا اور تمہارا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو ۔بے شک ہمیں اس کی طرف پلٹنا ہے ۔
والسلام علی رسولہ صلّی اللہ علیہ وآلہ والطیّبین الطاھرین وسلّم تسلیما کثیرا ۔ والسلام

قارئین کرام!
آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے عہد نامہ کا مطالعہ فرمایا ۔اس عہد نامہ کو اسلام کا دستور اساس کہا جاتا ہے یہ اس ہستی کاترتیب دیا ہوا ہ ےجو قانون الہی کا سب سے بڑا واقف کار اور سب سے زیادہ اس پر عمل پیرا تھا ۔ ان اوراق سے امیرا لمومینن کے طرز جہانبانی کا جائزہ ل ےکہ یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پیش نظر صرف قانون الہی کا نفاذ اور اصلاح معاشرت تھا ۔ نہ امن عامہ میں خلل ڈالنا نہ لوٹ کھسوٹ سے خزانوں کا منہ بھرنا اور نہ توسیع سلطنت کے لئے جائزہ و ناجائز مسائل سے آنکھ بند کرکے سعی وکوشش کرنا ان کا مقصود تھا۔

2:بیت المال اور علی (ع)

حضرت علی علیہ السلام بیت المال کے معاملہ میں انتہائی حساس تھا ۔ انہوں نے بیت المال کو ہمیشہ مسلمانوں کامال تصور کیا اور اپنے ذاتی تصرف میں اسے کبھی نہ لائے ۔
سابقہ اوراق میں ہم حضرت عقیل کا واقعہ بیان کرچکے ہیں ۔حضرت علی نے اپنے سگے بھائی کو ان کے حق سے زیادہ ایک درہم دینا بھی گوارا نہ فرمایا ۔ اور شہید کے لئے اپنے فرزند کو نصیحت فرمائی ۔
درج بالا واقعات کے علاوہ اور واقعات بھی بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہارون بن عنترہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے موسم سرما میں مقام خورنق پر علی علیہ السلام کو دیکھا ۔انہوں نے بوسیدہ لباس پہنا ہوا تھا اور سردی کی وجہ سے کانپ رہے تھے ۔میں نے ان سے کہا ۔
امیر المومنین ! بیت المال میں اللہ نے آپ کا اور آپ کے خاندان کا حصہ رکھا ہے مگر اس کے باوجود آپ نے کوئی گرم چادر تک نہیں خریدی جو آپ
کو سردی کی شدت سے بچائی ؟
میرے الفاظ سن کر حضرت علی نےفرمایا ۔میں اس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتا میں یہ معمولی چادر مدینہ سے لے کر آیا تھا (1)۔
حضرت علی (ع) نے کوفہ کے دارالامارہ میں قیام نہیں کیا تھا ۔انہوں نےایک کچے مکان میں رہائش اختیار کی تھی اور دارالامارہ میں غرباء کو رہائش دی تھی اور آپ نے کپڑے اور غذا خریدنے کے لئے کئی مرتبہ اپنی تلوار فروخت کی تھی ۔ عقبہ بن علقمہ بیان کرتے ہیں کہ میں علی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے انہیں خشک روٹی کا ٹکڑا کھاتے ہو ئے دیکھا ۔ میں نے کہا ۔:
امیر المومنین ! آپ روٹی کے خشک ٹکڑے کھارہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا : ابو الجنوب ! رسول خدا اس سے بھی زیادہ سوکھی روٹی کھایا کرتے تھے اور میرے کپڑوں کی بہ نسبت زیادہ کھردرے کپڑے پہنا کرتے تھے اور اگر میں نے حضور اکرم کے طریقہ کو چھوڑ دیا تو ڈر ہے کہ میں ان سے بچھڑ جاؤں گا ۔(2)
ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ علی کے پاس اصفہان سے مال لایا گیا تو آپ نے اس کے سات حصے کئے اور اس کے بعد قرعہ اندازی کی کہ پہلے حصہ کسے دیا جائے (3)۔
یحی بن مسلمہ راوی ہیں کہ حضرت علی نے عمرو بن مسلمہ کو اصفہان کا والی مقرر کیا ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ بہت سا مال لے کر دربار خلافت میں آیا اور اس مال میں چند مشکیں بھی تھیں جن میں شہد اور مکھن تھا ۔
امیر المومنین کی صاحبزادی ام کلثوم نے عمرو کو پیغام بھیجا کہ ان کے پاس مکھن اور شہد بھیجا جائے ۔
عمرو نے دو مشکیزے روانہ کردیئے ۔دوسرے دن حضرت علی علیہ السلام آئے اور مال کی گنتی کی تو اس دومشکیزے کم نظر آئے ۔عمرو سے ان کے متعلق دریافت کیا تو وہ خاموش رہا ۔ آپ نے اسے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے دو مشکیزے آپ کی صاحبزادی کے پاس بھجوائے ہیں کہ آپ نے اپنی بیٹی کے گھر سے دونوں مشکیزے طلب کئے ۔مشکیزے جب واپس آئے تو اس میں تین درہم کی مقدار کم ہوچکی تھی ۔ آپ نےتین درہم کی مقدار میں بازار سے شہد اور مکھن خرید کر انہیں پورا کیا اور بعد ازاں مستحقین میں تقسیم کردیا ۔"
سفیان کہتے تھے کہ علی علیہ السلام نے محلات نہیں بنائے اور نہ ہی جاگیر یں خریدیں اور نہ ہی کسی کا حق غصب کیا ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے تلوار فروخت کی اور فرمایا کہ " اگر آج میرے پاس چار درہم ہوتے تو میں اپنی تلوار نہ بیچتا ۔"
آپ کا دستور تھا کہ آپ واقف دکان دار سے سودا نہیں خریدتے تھے اور آپ جو کے آٹے کی تھیلی پر مہر لگادیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں صرف وہی غذا کھانا پسند کرتا ہوں جس کے متعلق مجھے علم ہوتا ہے کہ یہ بلکل طیب وحلال ہے ۔مشتبہ غذا کھانا مجھےپسند نہیں ہے ۔(4)

3: ۔آپ کی تواضع اور عدل

ابن اثیر شعبی کی زبانی رقم طراز ہیں :
حضرت علی (ع) کی زرہ گم ہوگئی ۔آپ نے وہ زرہ ایک نصرانی کے پاس
دیکھی تو اس نصرانی کو لے کے قاضی شریح کی عدالت میں آئے اور قاضی کے ایک سمت بیٹھ کر نصرانی سے مباحثہ کرنے لگے اور فرمایا کہ یہ میری زرہ ہے اسے نہ تو میں نے فروخت کیا اور نہ ہی ہبہ کیا ہے ۔
شریح نے نصرانی سے کہا کہ تم امیر المومنین کے دعوی کے جواب میں کیا کہنا چاہتے ہو؟
تو نصرانی نے کہا ! زرہ میری ہے لیکن امیر المومنین جھوٹے نہیں ہے ۔
شریح حضرت علی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیاآپ کے پاس کوئی ثبوت ہے ؟
حضرت علی علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
شریح نے زرہ نصرانی کے حوالے کردی اور وہ زرہ لےکر چل پڑا لیکن چند قدم چلنے کے بعد پھر واپس آیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ انبیا ء کافیصلہ ہے ۔
امیرالمومنین قدرت رکھنے کے باوجود مجھے قاضی کی عدالت میں لائے اور ان کے قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ دیا اور انہوں نے کشادہ روئی سے فیصلہ قبول کرلیا ۔
یہ زرہ امیرالمومنین کی ہے اور پھر نصرانی نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا ۔
ڈاکٹر طہ حسین لکھتے ہیں کہ :-
حضرت علی علیہ السلام کی عادت تھی کہ واقف دکاندار سے سودا نہیں خرید تے تھے ۔ تاکہ وہ آپ کو حاکم وقت سمجھ کر رعایت نہ کرے ۔حضرت علی رات کے وقت کھانے کی چیزیں اپنی پشت پر اٹھاتے اور غرباء ومساکین کے گھروں میں پہنچاتے اور انہیں آپ نے کبھی یہ علم نہیں ہونے دیا کہ رات کے وقت ان کی دست گیری کرنے والا کون ہے ۔ جب آپ کی شہادت ہوئی تو پھر فقراء ومساکین کو علم ہوا کہ تاریکی شب میں ان کی مدد کرنے والے علی تھے ۔
لوگوں کی دینی خدمت کا فرض جب تک ادا نہ کرلیتے حضرت علی مطمئن نہ ہوتے چنانچہ لوگوں کو نماز پڑھاتے ،اپنے قول وعمل سے انہیں تعلیم دیتے ،فقراء ومساکین کو کھانا کھلاتے اور ضرورت مندوں اور مسکینوں کو تلاش کرکے ان کو سوال سے بے نیاز کردیتے اور پھر جب رات ہوتی تو لوگوں سے الگ ہوجاتے اور تنہائی میں معمولات عبادت میں مشغول ہوجاتے ۔تہجد کی نماز اداکرتے اور رات زیادہ ہوجانے پر آرام فرماتے اور پھر صبح اندھیرے ہی مسجد میں چلے آتے اور فرماتے رہتے ۔ نماز نماز اللہ کے بندو نماز ! گویا مسجد کے سونے والوں کو بیدار کرتے ،اس طرح آپ رات میں کسی بھی وقت اللہ کی یاد سے غافل نہ رہتے ۔
خلوت میں بھی یاد کرتے اور اس وقت بھی جب لوگوں کے مختلف معاملات کے لئے تدبیریں کرتے رہتے اور اس بات کی طرف لوگوں زیادہ متوجہ کرتے کہ آپ سے دینی مسائل دریافت کریں ۔
آپ کو اس کا بے حد خیال تھا کہ مال تقسیم کرتے وقت آپ اپنے قول وفعل میں اپنے ارادے اور تقسمی میں مساوات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔بلکہ سوال کرنے پر جو کچھ آپ دیتے تھے اس میں بھی مساوات کا سخت خیال رکھتے ۔ ایک دن آپ کے پاس دو عورتیں آئیں اور اپنی محتاجی کا اظہار کرکے سوال کیا ۔ آپ نے مستحق جان کر حکم دیا کہ ان کو کپڑا اور کھانا خرید کردیا جائے مزید برآں کچھ مال بھی دے دیا لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کو کچھ زیادہ دیجئے کہ وہ عرب ہے اور اس کی ساتھی غیر عرب ۔
آپ نے تھوڑی سی مٹی ہاتھ میں لی اسے دیکھ کر کہا مجھے معلوم نہیں کہ اطاعت اور تقوی کے علاوہ کسی اور وجہ سے بھی اللہ نے کسی کو کسی پر فوقیت دی ہے ۔(5)

4:۔آپ کی سیاست عامہ کا تجزیہ

حضرت علی علیہ السلام کی حقیقت وفضیلت سےناآشنا افراد کا یہ خیال ہے کہ حضرت عمربن خطاب حضرت علی (ع) سے زیادہ سیاست دان تھے ۔ اگرچہ کہ علی علیہ السلام ان سے علم رکھتے تھے ۔
ابو علی سینا اور اس کے ہم مکتب افراد کا یہی نظریہ ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ علی سیاست کے میدان میں اس لئے کا میاب نہیں ہوسکے کیونکہ وہ ہمیشہ شریعت کی حدود وقیود کی پابندی کرتے تھے اور انہوں نے صلح وجنگ اور سیاست عامہ میں مصلحت عامہ کو مد نظر رکھا جبکہ حضرت عمر مصلحت عامہ کو مد نظر رکھ کر اجتہاد کیا کرتے تھے اور موقع کی مناسبت کے مطابق نص عمومی میں تخصیص کرتے تھے ارو اپنے مخالفین کے ساتھ حیلہ وفریب کرتے تھے اور درہ اور کوڑے کا بے تحاشہ استعمال کرتے تھے اور بعض اوقات مصلحت کے پیش نظر مجرمین سے در گزر کرتے تھے ۔اور حضرت علی کا طرز عمل اس سے بالکل جداگانہ تھا ۔ آپ نصوص شرعیہ سے سر مو انحراف نہیں کرتے تھے اور اجتہاد اور قیاس کے روادار نہیں تھے ۔ اور دنیاوی امور کی مطابقت ہمیشہ دینی امور سے کیا کرتے تھے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے تھے اور ہرمعاملہ میں کتاب وسنت کی پیروی کرتے تھے ۔ دینی اور دنیاوی سیاست کی خاطر شریعت کی مخالفت کو جائز نہیں سمجھتے تھے ۔
دنیاوی سیاست کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس نے یہ بات کئی لوگوں کے سامنے بھی کہی تھی اور جب اس ملزم کو علی علیہ السلام کی عدالت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کسی کو جرم سے پہلے سزا نہیں دے سکتا ۔
دینی سیاست کی مثال ملاحظہ فرمائیں ۔ایک شخص کو چوری کی الزام میں
آپ کی عدالت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا : جب تک واضح ثبوت یا ملزم کی طرف سے اقرار نہ ہومیں محض شک کی بنا پر اس پر حد جاری نہیں کرسکتا ۔
حضرت علی (ع) کی نظر میں کسی فاسق کو والی مقرر کرناجائز نہیں تھا اور آپ معاویہ بن ابی سفیان کو فاسق سمجھتے تھے ۔ اور انہیں ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں تھے ۔
مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے سیاست مداروں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ فی الحال معاویہ سے تعرض نہ کریں اور جب دیکھیں کہ حکومت مستحکم ہوگئی ہے تواسے معزول کردیں ۔
آپ نے فرمایا کہ میں ایک سال اسلامی صوبہ پر معاویہ جیسے فاسق کی حکومت برداشت نہیں کرسکتا اور میں اس کے لئے کسی مداہنت اور فریب کاری کو جائز نہیں سمجھتا ۔طلحہ وزبیر نے حضرت علی (ع) کی بیعت کی اور پھر وہ نقض عہد پر تل گئے ۔حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا پہلے تو وعدہ کرو کہ مسلمانوں میں تفریق پیدانہ کروگے جب انہوں نے وعدہ کرلیا تو آپ نے انہیں جانے کی اجازت دی ۔
حضرت علی (ع) نے انہیں محض شک وشبہ کی بنا پر مدینہ میں رہنے پر مجبور نہیں کیا ۔
یہ حضرت علی (ع) نے ہمیشہ اصول عدل کی سربلندی کے لئے کا م کیا ۔آپ کے اقتدار کا عرصہ اگرچہ قلیل تھا لیکن دنیا نے سیاست الہیہ کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تاریخ انسانی نے مسجد کوفہ سے قرآن کے سائے میں قائم ہونے والی ایک عظیم فلاحی ریاست کا نقشہ عملی طورپر دیکھ دلیا ۔

5:- آپ کے چند اقوال زریں

1:- جب دنیا کسی پر مہربان ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے دے دیتی ہے اور جب کسی سے منہ موڑتی ہے تو اس کی ذاتی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے ۔
2:- میرے بعد تم پر ایسا زمانہ آئے گا جس میں حق سے زیادہ مخفی کوئی چیز نہ ہوگی ۔اور باطل سے زیادہ کوئی چیز واضح نہ ہوگی اور اس دور میں اللہ پر زیادہ جھوٹ بولے جائیں گے ۔نیکی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھا جائے گا ۔
3:- لوگوں سے ایسی معاشرت رکھو اگر تم مرجاؤ وہ تم پر روئیں اور اگر تم زندہ رہو تو تم سے ملاقات کے خواہش مند ہوں ۔
4:- بھوکے شریف اور شکم سیر کمینے کے حملہ سے بچو ۔
5:- میرے متعلق دو شخص ہلاک ہوں گے ۔ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے ۔
6:- منافقین سے بچو کیونکہ وہ گمراہ کنندہ ہیں ۔
7:- حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائیدار نہیں ہوئی ۔اسے چھوٹا سمجھا جائے تاکہ وہ بڑی قراری پائے اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو ۔ اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوش گوار ہو ۔
8:- ہر اس عمل سے بچو جس کا کرنے والا اسے اپنے لئے پسند کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے ناپسند کرے اور ہر اس عمل سے بچو جسے خلوت کی گھڑیوں میں کیا جائے اور جلوت میں اس سے پرہیز کیا جائے اور ہر اس عمل سے بچو جب اس کے عمل کرنے والے سے اس کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ اس کا انکار کرے اور معذرت پیش کرے ۔
9:-نیکی کے والا نیکی سے بہتر اور برائی کرنے والی برائی سے بدتر ہے۔
10:- صبر دوطرح کا ہے ۔ایک ناپسند امر پر صبر کرنا اور دوسرا پسندیدہ امر سے صبر کرا ۔
11:- مقام رہنمائی پر فائز ہونے والے کوچاہئے کہ دوسروں کی تعلیم سے قبل خود تعلیم حاصل کرے اور لوگوں کو اپنی زبان سے ادب سکھانے نے قبل خود ادب حاصل کرے -
12:- دنیا اور آخرت ایک دوسر ے کی ضد اور نقیض ہیں اور علیحدہ علیحدہ راستے ہیں ۔ جو دنیا سے محبت کرتا ہے وہ آخرت سے نفرت کرتا ہے ۔ اور دنیا اور آخرت مشرق ومغرب کی طرح ہیں جتنا کوئی کسی کے قریب ہوتا ہے اتنا ہی دوسرے سے دور ہوتا ہے ۔
13:- شاہ کا مصاحب شیر پر سواری کرنے والے کی مانند ہوتاہے لوگ تو اس پررشک کرتے ہیں جب کہ اسے خود معلوم ہوتاہے کہ وہ کس پر سوال ہے ۔
14:- جس کی نظر میں اس کے نفس کی عزت ہوتی ہے ، اسے خواہشات کم قیمت نظر آتی ہیں ۔
15:- عدل کی ایک صورت ہے اور ظلم کی کئی صورتیں ہیں اسی لئے ظلم کا ارتکاب آسان اور عدل کا جاری کرنا مشکل ہے اور عدل وظلم کی مثال تیرکے نشانے پرلگنے اور خطا ہوجانے کی مانند ہے ۔
صحیح نشانہ کے لئے کافی محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے جبکہ غلط نشانے کے لئے محنت اور ریاضت کی ضرورت نہیں ہے ۔
16:- دنیا دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے ۔دنیا دار جب ایک چیزحا صل کرلیتا ہے تو اسے دوسروی چیز کا حرص لاحق ہوجاتا ہے ۔
17:- تم ایسے زمانے میں رہ رہے ہو جس میں اچھائی منہ موڑ رہی ہے اور برائی
آگے بڑھ رہی ہے ۔
لوگوں کے مختلف طبقات پر نگاہ ڈال کر دیکھو تو تمہیں ایسے فقیر نظر آئیں گے جو اپنے فقر کی شکایات کرتے ہوں گے اور تمہیں ایسے دولت مند نظر آئیں گے جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کررہے ہوں گے ۔تمہیں ایسے بخیل نظر آئیں گے جو حقوق الہی میں کنجوسی کرتے ہوں گے اور ایسے سرکش نظر آئیں گے جن کے کان مواعظ کے سننے سے بہرے ہوچکے ہوں گے ۔ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے ۔اور برائی سے ورکتے ہیں لیکن خود اس پر عمل کرتے ہیں ۔
18:- مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے اور منافق کا دل ان کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے ۔کیونکہ مومن جب کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس پر خوب غور وخوص کرتا ہے ۔اگر بات اچھی ہوتی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اگر بات اچھی نہ ہو تو اسے چھپا لیتا ہے ۔اور منافق ہر وہ بات کہتا ہے جو اس کی زبان پر آتی ہے اور وہ اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا فائدہ کس بات میں ہے اور نقصان کس بات میں ہے ۔
19:- خدا کی قسم ! معاویہ مجھ سے زیادہ دانا نہیں ہے لیکن وہ غداری اور مکر وفریب سے کام لیتاہے ۔

حسن علیہ السلام کو وصیت

20:- صفّین سے واپسی پر اپنے فرزند حسن مجتبی کو درج ذیل وصیت لکھائی ،جس کے چیدہ چیدہ نکات ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں :
یہ وصیت ہے اس باپ کی جو فنا ہونے والا اور زمانے کی چیرہ دستیوں کا اقرار کرنے والا ہے ۔ جس کی عمر پیٹھ پھرائے ہوئے ہے اور جو زمانے کی سختیوں
سے لاچار ہے اور دنیا کی برائیوں کو محسوس کرچکا ہے اور مرنے والوں کے گھروں میں مقیم اور کل کو یہاں سے رخت سفر باندھ لینے والا ہے ۔
اس بیٹے کے نام ۔جو نہ ملنے والی باتوں کا آرزو مند ،جادہ عدم کا راہ سپار ،بیماریوں کا ہدف ۔زمانے کے ہاتھ گروی ،مصیبتوں کا نشانہ ، دنیا کا پابند اور اس کی فریب کاریوں کا تاجر ، موت کا قرض دار ،اجل کا قیدی غموں کا حلیف ،حزن وملال کا ساتھی ،آفتوں میں مبتلا ،نفس سے عاجز اور مرنے والوں کا جانشین ہے ۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،اس کے احکام کی پابندی کرنا اور اس کے ذکر سے قلب کو آباد رکھنا اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ۔تمہارے اور اللہ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط اور رشتہ ہو بھی کیا سکتاہے ؟
بشرطیکہ مضبوطی سے اسے تھامے رہو ۔وعظ وپند سے دل کو زندہ رکھنا اور زہد سے اس کی خواہشوں کو مردہ اور یقین سے اسے سہار دینا اور حکمت سے اسے پر نور بنانا ۔موت کی یادہ سے اسے قابو میں کرنا ۔فنا کے اقرار پر اسے ٹھہرانا ۔ دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا ۔گردش روزگار سے اسے ڈرانا ۔ گزرے ہوؤں کے واقعات اس کے سامنے رکھنا ۔تمہارے والے لوگوں پر جو بیتی ہے اسے یاد لانا ۔ان کے گھروں اور کھنڈروں میں چلنا پھرنا ۔
اپنی اصل منزل کا انتظام کرو اور اپنی آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرو اور جس بات کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ اور جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھاؤ ۔نیکی کی تلقین کرو تاکہ خود بھی اہل خیر میں محسوب ہو ۔ہاتھ اور زبان کے ذریعہ سے برائی کو روکتے رہو اور جہاں تک ممکن ہو بروں سے الگ رہو ۔خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اثر نہ لو ۔حق جہاں ہو ۔
سختیوں میں پھاند کر اس تک پہنچ جاؤ ۔دین میں سوجھ بوجھ پیدا کرو سختیوں کو جھیل لے جانے کے خو گر بنو ۔اپنے ہر معاملہ میں اللہ کے حوالے کردو ۔
میرے فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ یقین رکھو کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے اور جو پیدا کرنے والا ہے ۔وہی مارنے والا بھی ہے ۔اور جو نیست ونابود کرنے والا ہے ،وہی دوبارہ پلٹانے والا بھی ہے ، اورجو بیمار کرنے وال ہے وہی صحت عطا کرنے والا بھی ہے ۔
اے فرزند ! اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قراردو اورجو اپنے لئے پسند کرتے ہو ،وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور جو اپنے لئے نہیں چاہتے ، وہ دوسروں کے لئے بھی نہ چاہو ۔ جس طرح چاہتے ہو کہ تم پرزیادتی نہ ہو ۔یو نہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ ہو۔ اور جس طرح چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک ہو ،یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ دوسروں کی جس چیز کو برا سمجھتے ہو اسے اپنے میں بھی ہو تو برا سمجھو اور لوگوں کے ساتھ تمہارا جو رویہ ہو اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو ۔دوسروں کے لئے وہ بات نہ کہو ۔جو اپنے لئے سننا پسند نہیں کرتے ۔دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محنت مزدوری کرلینا بہتر ہے ۔جو زیادہ بولتا ہے وہ بے معنی باتیں کرنے لگتا ہے ۔اور سوچ وبچار سے کام لینے والا صحیح راستہ دیکھ لیتا ہے ۔نیکوں سے میل جول رکھوگے تو تم بھی نیک ہوجاؤ گے ۔ بروں سے بچے رہوگے تو ان کے اثرات سے محفوظ رہو گے ۔
بد ترین کھانا وہ ہے جو حرام اور بد ترین ظلم وہ ہے جو کسی کمزور اور ناتوان پر کیا جائے ۔خبردار امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھنا ۔کیونکہ امیدیں احمقوں کا سرمایہ ہوتی ہیں ۔ تجربوں کو محفوظ رکھنا عقل مندی ہے ۔بہترین تجربہ وہ
ہے جو پندو نصیحت دے ۔ جو تم سے حسن ظن رکھے ،اس کے حسن ظن کو سچا ثابت کرو ۔باہمی روابط کی بنا پر اپنے کسی بھائی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ پھروہ بھائی کہاں رہا جس کا حق تم تلف کرو ۔یہ نہ ہونا چاہیئے کہ تمہارے گھر والے تمہارے ہاتھوں دنیا جہاں میں سب سے زیادہ بد بخت ہوجائیں ۔جو تم سے تعلقات قائم رکھنا پسند ہی نہ کرت ہو۔ اس کے خواہ مخواہ پیچھے نہ پڑو تمہار دوست قطع تعلق کرے ۔تو تم رشتہ محبت جوڑنے میں اس پر بازی لے جاؤ اور وہ برائی سے پیش آئے تو تم حسن سلوک میں اس سے بڑھ جاؤ ۔
اے فرزند ! یقین رکھو رزق دو طرح کا ہوتاہے ۔ایک وہ جس کی تم جستجو کرتے ہو اور ایک ہو جو تمہاری جستجو میں لگا ہوا ہے ۔ اگر تم اس کی طرف نہ جاؤگے تو بھی وہ تم تک آکر رہے گا ۔
پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو ۔ اور جو حق سے تجاوز کرجاتا ہے اس کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے ۔ جو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھتا ۔اس کی منزلت برقرار رہتی ہے ۔ جاہل سے علاقہ توڑنا ، عقل مند سے رشتہ جوڑنے کے برابر ہے ۔جو دنیا پر اعتماد کرکے مطمئن ہوجاتا ہے ۔ دنیا اسے دغا دے جاتی ہے جو اسے عظمت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے وہ اسے پست وذلیل کرتی ہے ۔
راستے سے پہلے شریک سفر اور گھر سے پہلے ہمسایہ کے متعلق پوچھ گچھ کرلو ۔ خبردار ! اپنی گفتگو میں ہنسانے والی باتیں نہ لاؤ ۔اگر چہ وہ نقل قول کی حیثیت سے ہوں ۔عورتوں سے ہرگز مشورہ نہ لو کیونکہ ان کی رائے کمزور اور ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں بٹھا کران کی آنکھوں کو تاک جھانک سے روکو ۔کیونکہ پردہ کی سختی ان کی عزت وآبرو کو برقرار رکھنے والی ہے ۔ان کا گھر وں سے نکلنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا کسی ناقابل اعتماد کو گھر میں آنے دینا اور اگر بن پڑے تو ایسا کرنا تمہارے علاوہ کسی اور کو وہ پہچانتی ہی نہ ہو ۔
عورت کو اس کے ذاتی امور کے علاوہ دوسرے اختیارات نہ سونپو کیونکہ عورت ایک پھول ہے وہ کارفرما اور حکمران نہیں ہے ۔
21:- انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے ۔
22:- جو شخص اپنی قدر ومنزلت کو نہیں پہنچانتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے ۔
23:- جو شخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بد ظن ہو ۔
24:- جو خود رائی سے کام لے گا وہ تباہ وبرباد ہوگا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہوجائے گا ۔

6:- حضرت علی (ع) اور انطباق آیات

حضرت علی علیہ السلام کے حق میں قرآن مجید کی بہت سے آیات نازل ہوئیں ۔بقول ابن عباس ان کے حق میں تین سو ساٹھ آیات نازل فرمائیں ۔
حضرت علی (ع) کی زندگی پر درج ذیل آیات مکمل طورپر منطبق ہوتی ہیں :
1:- ومن یطع اللہ والرسول فاولآءک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولآءک رفیقا "۔
اور جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے تعمتیں نازل فرمائیں یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین اور وہ بہت اچھے رفیق ہیں (سورۃ النساء)
2:-ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتزل علیھم الملائکۃ الّا تخافوا ولا تحزنو! وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیاء وکم فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تد عون ۔"
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ ) تم نہ ڈرو اور نہ گھبراؤ اور تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا ۔ ہم دنیا اور آخرت کی زندگی میں تمہارے دوست ہیں ۔ اور تمہارے لئے جنت میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی خواہش تمہارے دل کریں اور جو کچھ تم پکارو وہ سب موجود ہے (سورۃ فصّلت )
3:- "واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فانّ الجنۃ ھی الماوی "۔
اور جو کوئی اپنے رب کے مقام عظمت سے خوف کرے اور نفس کو خواہشات سے روک لے تو بے شک جنّت (اسکا ) ٹھکانہ ہے (سورۃ النازعات)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- استاد عقاد ۔عبقریۃ الامام علی ۔ص 13۔ و کامل ابن اثیر
(2):- عباس محمود عقاد ۔ عبقریۃ الام علی ۔ ص 20
(3):- الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ ص 200-202
(4):- الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔203۔
(5):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ۔ص۔109

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک