امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

  شوہر کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ نمبر 1

--{یہ بات طے کرلیں کہ بیوی ،ماں اور بہنوں کی ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں سنیں گے }--

بیوی سے سنی ہوئی بات سے والدہ یا چھوٹے بھائی بہنوں کو کچھ نہ کہئے اور والدہ اور بہنوں کی شکایت سن کر بلا تحقیق بیوی کو کچھ نہ کہئے ۔
خدا را بیوی سے سنی ہوئی باتوں کی وجہ سے اپنی والدہ کو کبھی کچھ نہ کہئے گا والدہ کی آہ نکلنے سے دنیا وآخرت دونوں برباد ہونے کا اندیشہ ہے ۔ والدہ کی واقعی غلطی سامنے آبھی جائے توپیار ومحبت سے سمجھانے کی کوشش کریں یا بڑی بہن کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو تحفے دلوائیں ۔
حدیث میں بھی ہے کہ "تھادو اتحابوا"( ہدیہ لیا دیا کرو اس سے آپس میں محبت بڑھے گی )۔
آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا والدہ ،بہنیں یا بھابیاں آپ کی شکایت لگائیں تو اس وقت قصدا کوئی عملی قدم نہ
اٹھائیں اس وقت بیوی کو کچھ نہ کہیں ،کم از کم اتنا صبر کرلیں جس میں دو نمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی بات ظہرین کے وقت سننے میں آتی ہے تو مغربین کے بعد سمجھائیں او راگر مغرب کے وقت سننے میں آتی ہے تو فجر کے بعد سمجھائیں ۔
اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشا ءاللہ تعالی آپ کے گھر میں بہت زیادہ نمایاں تبدیلی رونما ہوگی ۔آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی اور آپ کی بردباری اور عقلمندی کا سکہ جمے گا اور بیوی آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔
اگر سمجھانا بھی ہوتو کوشش کریں کہ براہ راست نہ سمجھائیں ہر گز فورا جا کر بیوی سےیہ نہ کہیں کہ تم نے کیوں کہا ؟ بہن یہ کہہ رہی تھیں ۔تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا ؟وغیرہ غیرہ ۔بلکہ یادرکھئیے کہ رسول اسلام کے سمجھانے کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی عیب کسی شخص میں دیکھتے تو اس کا نام نہ لیتے بلکہ یوں فرماتے کہ (ما بال الناس) لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں"۔
تو ہمیں بھی سیرت رسول پر عمل کرتے ہوئے عمومی بات کہنا چاہئے مثلا کہیں ،دیکھو بہت سی عورتوں کویہ بری عادت ہوتی ہے کہ وہ ادھر کی بات ادھر لگاتی ہیں یہ بہت نامناسب بات ہے کہ مجھے ایسا کرنے والیوں سے بہت چڑ ہوتی ہے لہذا تم اس سے ذرا بچنا ۔
ارے بھئی کوئی اپنے گھر کی بات دوسروں کو بتاتا ہے ۔یہ تو حد درجہ حماقت ہے تم کبھی ایسا نہ کرنا ۔۔۔ بلکہ مجھے تو تم پر پورا عتماد ہے کہ تم تو کبھی
ایسا نہ کرتی ہوگی ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔
ایک اہم بات اور یہ ہے کہ کبھی دوسروں کے سامنے بیوی ،ماں یا بہنوں کو نہ سمجھائیں نہ دوسروں کےسامنے ان کی توہین کریں ۔اور اکیلے سمجھاتے ہوئے بھی اس کو دوسری عورتوں کی مثالیں دے کر سمجھائیں ۔کہ دیکھو فلاں بھابی ۔۔۔ سب سے مل جل کر رہتی ہے ، میری بہن کو دیکھا بچوں کی کیسی اچھی تربیت کررہی ہے اور تم ؟۔۔۔
۔۔۔ اس طرح کہنے سے اصلاح نہیں ہوا کرتی ۔اصلاح کے لئے محبت ،اپنا ئیت ،نصیحت ، برداشت اور ہمدردی اور نرم کالامی ہونی چاہیے ،تلخ کلامی اور سخت بیانی سے وقت اصلاح اتنا ہی دور ہونا چاہیے جتنا مشرق ومغرب میں فاصلہ ہے ۔

نسخہ نمبر 2

--{بیوی کے سلسلے مین اپنے معیار کونیچے لائیے}--

آپ کی اکثر سوچ یہ ہوتی ہے کہ بیوی میرے معیار پر پوری نہیں اتری ۔تو قصور اس غریب کانہیں بلکہ جناب عالی کےبلندمعیار کا ہے اوراس کا علاج فقط یہ ہے کہ آپ اپنے کو ذرا نیچے کیجئے ۔
آپ جب گھر آتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ اس نے آپ کا پر جوش اسقبال نہیں کیا ۔کیا آپ کو احساس ہے کہ وہ بیچاری گھر گر ہستی کے کاموں میں کتنا مصروف رہی ؟
ذرا ایک دن گھر کا مکمل چارج سنبھال کردیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ آپ کے تمام کام مشین کی طرح انجام دیتی ہے ۔
آپ کھانا پکانے کے لئے ایک خانساماں رکھیئے ،گھر کی صفائی کے لئے ایک ملازم ،کپڑے دھونے کے لئے ایک لانڈری ،اور بچوں کی نگہداشت کے لئے ایک ملازمہ اور گھر کی نگرانی کے لئے ایک چوکیدار ۔۔۔۔۔۔۔مقرر کیجئے ۔
ان تمام ملازمین کی فوج کے باوجود گھر کا نظم و نسق ایسا نہیں چلے گا جیسا کہ یہ مشین چلارہی ہے لیکن آپ کے ذہنی معیار میں اس کی ان خدمات کی کوئی قیمت نہیں
سالہا سال گزرنے کے باوجود آپ نے اپنے خود ساختہ معیار کی بلندیوں سے نیچے اتر کر بیوی کے پوشیدہ کمالات کو جن کو خدا نے حیا کی چادر سے ڈھانک رکھا ہے ،کبھی جھانکا ہی نہیں ۔
آپ کبھی اپنے عرش سے نیچے اتر تے تو اس فرشی مخلوق کو سمجھتے ۔

نسخہ نمبر 4

--{اخلاق میں بہترین اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین بن جائیں }--

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں کہ : مومنین میں کامل ترین ایمان والا و ہ ہے جو اخلاق میں بہترین ہو اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین ہو"-
نیکی اور بزرگی کا معیار یہ نہیں ہے کہ دفتروں میں ، دوستوں کے مجمع میں ، مجالس میں ،مدرسوں اور مساجد میں کون کیسا نظرآتا ہے بلکہ یہ کہ بیوی اور گھر والوں کے ساتھ نرم برتاؤ کس کا ہے ،گھر کے اندر صبر وتحمل کا ثبوت کون دیتا ہے ۔
جلوت میں نہیں خلوت میں کون کیسا ہے ؟
یہ مسکرانا ،ہنسنا ،بولنا اس کی کوتاہیوں پر صبر کرنا ، اس کی غلطیوں کو معاف کرنا ،غصّہ برداشت کرنا ، اس کی تکالیف وراحت کی باتیں سننا ،دلجوئی کی باتوں سے اس کے دل کو خوش رکھنا ،اس کو شرعی حجاب کے ساتھ پاکیزہ تفریح کے لئے لے جانا ،اس کو جیب خرچ اپنی وسعت کے اعتبار سے دے کراس کا حساب نہ لینا کہ جہاں چاہے وہ خرچ کرے ۔یہ تمام باتیں بھی عبادت میں شامل ہیں ۔
بیوی کو تھوڑا بہت تو روٹھنے کاحق ہے آخر وہ آپ کے سوا کس پر ناز کرے ؟غور کیجئے جب یہ بچی تھی تو اس کا منہ بسور ا دیکھ کر ماں باپ سو کام چھوڑ کر اس کو اٹھاتے تھے جب یہ بڑی ہوگئی اور کبھی اس کی طبیعت بجھی بجھی لگی توقریبی سہیلیاں اس کے دل کا راز جان کر اس کو تسلی دیتی تھیں ۔
اب ۔۔۔ یہ آپ کے پاس سب رشتے ناتوں سے دور ہوکر آئی ہے اگر وہ کوئی بات منوائے ،یا اپنی طرف آپ کو متوجہ کرنے یا صرف اپنے وجود کی آپ کے قلب ونظر میں مزید اہمیت اجاگر کرنے کے لئے روٹھتی ہے تو آپ اس کا ہرگز برانہ مانیں ۔
آخر وہ کس کے سامنے یہ چھوٹا موٹا ناز نخرہ کرے ‏؟ گھر والوں کو تو دور چھوڑآئی ہے ۔۔۔گال تھپتھپانے والا باپ
بال سنوارے والی ماں
مہندی لگانے والی ہمجولیاں تو اب بہت دور ہیں تو اب وہ کس سے اپنی قیمت پوچھو ائے ؟ کس کے سامنے منہ بسورے کہ کوئی اس کومنائے ؟۔۔۔
اے شوہر محترم! اب آپ ہی اس کا سب کچھ ہیں ۔ آپ کامیاب ترین شوہر ہوں گے اگر آپ نے اپنی بیوی کے مزاج کو سمجھ لیا اور اس کے مزاج کے مطابق اس کو چلانا آگیا ۔

نسخہ نمبر 4

--{"گڑنہ دیں تو گڑجیسی بات تو کریں" }--

آپ اس آسان نسخہ کا تجربہ تو کرکے دیکھئے انشااللہ آپ کی تمام خانگی پریشانیاں کافور ہوجائیں گی ۔ بیوی آپ سے دلی محبت کرنے لگے گی بچے بھی آپ کے لہجے اور میٹھی زبان سے متاثر ہوکر باہر بھی یہ ہی زبان استعمال کریں گے ،کتنا ہی اہم معاملہ ہو کوشش کریں کہ آپ کا نرم لہجہ چھوٹنے نہ پائے ۔
بڑی سے بڑی تادیبی کاروائی بعض اوقات اتنی مفید ثابت نہیں ہوتی جتنی خوشگوار اور نرم لہجے میں سمجھادینے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
آج ہی سے آپ اپنا نرم بنا لیجئے ۔اپنی زبان میٹھی بنالیجئے ۔وقتا فوقتا دوستوں ،اٹھنے بیٹھنے والوں اور بیوی وگھر والوں کو کہہ دیجئے کہ اگر میرا لہجہ سخت یازبان دلخراش ہو تو مجھے بعد میں بتا دینا پھر ان کے بتانے کے بعد اپنی اصلاح کی کوشش کرتے رہئے ۔
اپنے گھر کے ایک فرد ،مسلم معاشرے کے ایک رکن اور خاندان اہل بیت سے تمسک کے دعوی کرنے والوں پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھیوں کے لئے اپنا لہجہ نہایت ہی پر سکون اور پر مسرت رکھیں ۔

کوّا کس کی دولت چھینتا ہے ؟
کوئل کسی کو کیا دیتی ہے؟
صرف شیریں کلامی کے باعث سب کادل موہ لیتی ہے

نسخہ نمبر 5

--{بیوی کے کاموں کی اکثر تعریف کیجئے }--

سچ پوچھئے تو کام کی زیادتی سے بیوی اتنا نہیں تھکتی جتنا حوصلہ شکنی سے تھکتی ہے ۔ اس کا سارا جوش وولولہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اوراعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اس کی زندگی بے مصرف ،بے جان کولہو کی بیل کی طرح ہو کر رہ جاتی ہے ۔
جس کے دل میں ہی احساس ہو کہ بیوی کھانے پکانے کی جوخدمت انجام دے رہی ہے یہ اس کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے ۔تو وہ اس کے کھانے پکانے اور گھر داری کی تعریف کرے گا ،اس کی ہمت بندھوائے گا اور اس کا حوصلہ بڑھائے گا ۔
لیکن جو شخص اپنی بیوی کو نوکرانی یا خادمہ سمجھتا ہو اس کو تو یہ کام ضرور انجام دینا ہیں ، کھانا پکانا اس کا فرض ہے ،اگر اچھا کھانا پکا رہی ہے تو اس پر اس کی
تعریف کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ایسا شخص اس کی کبھی تعریف نہ کرے گا ،اچھا کھانا پکانے پر اور کسی معمولی کوتاہی پر ، نمک کی زیادتی یا چینی کی کمی پر گھر میں طوفان بد تمیزی برپا کرے گا اور لمبا چوڑا جھگرڑا شروع کردے گا ۔
یاد رکھئے ! یہ انسانی طبیعت ہے کہ اس کی اچھے کاموں کی حوصلہ ا‌فزائی کی جائے اور حوصلہ افزائی کی خواہش جب ہی زیادہ ابھرتی ہے جب کہ اس کی اعلانیہ حوصلہ شکنی ک جارہی ہو خصوصا دیوار انی ، جیٹھانی اور نندیں وغیرہ مسلسل اس کے کام میں رخنہ ڈال رہی ہوں اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی پکڑ کی جاتی ہو ۔
یہ ایک ظلم کی کے مترادف ہے ، جس کام کی ستائش نہیں کی جاتی اور اس کو شاباش نہیں کہا جاتا یا ایک لفظ شکریہ کا ادا نہیں کیا جاتا اس کی دل شکنی کی جاتی ہے ،وہ اکثر ہمت چھوڑبیٹھتی ہے اور اس کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں ۔
آج ہی سے اپنا معمول بنا لیجئے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی مثلا چائے بنانے پر ، پانی کا گلاس دینے پر ، دل وزبان سے اس کا شکریہ ادا کریں ۔ پھر دیکھئے کہ بیوی کیسے آپ کے قدرداں بنتی ہے اور گھر میں ہی جنت کا نمونہ بن جائے گا ۔

نسخہ نمبر 6

--{بیوی کو دوست سمجھیں نوکر نہیں }--

یہ بات یادرکھیں کہ بیوی کے برابر دنیا میں مرد کا کوئی کارآمد دوست نہیں ۔ آپ غور کریں کہ آپ اپنے دوستوں پر ویسا رعب جماسکتے ہیں جیسا نوکروں پر جمایا جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ ایسا کرکے تو دیکھیں ،سارے دوست آپ کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں گے ۔دوستوں کے ساتھ نوکروں جیسا برتاؤ کوئی عقلمند انسان نہیں کرسکتا ۔
پھر حیرت کی بات ہے کہ ایسا برتاؤ آپ اپنی بیوی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دوست نہیں ہوسکتا ۔تجربہ ہے کہ فلاں ومحبت میں سب دوست واحباب الگ ہوجاتے ہیں ، رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں مگر بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتے ہے ۔
اسی طرح بیماری میں جیسی راحت بیوی سے پہنچتی ہے ،کسی دوست سے تو کیا پہنچتی بعض اوقات اولاد سے بھی نہیں پہنچتی ۔لہذا ایسا رعب جمانا درست نہیں اگر آپ اپنی بیوی سے دوستوں جیسا سلوک روا کھیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ کو گھر میں ایک نمایاں خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوگا ۔

نسخہ تمبر 7

--{بیوی کی خدمات کا احساس کریں}--

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر عورت خود بھی بیمار پڑی ہو ، اٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو اور ایس حالت میں شوہر بھی بیمار پڑجائے تو عورت اپنی بیماری بھول جاتی ہے ۔ اب اپنا آرام ۔۔۔۔اپنی راحت ،اپنی بیماری چھوڑ کر شوہر کی تیمارداری میں مشغول ہوجاتی ہے ۔
یہ تو عام بات ہے کہ عورتیں خود کھانا سب سے آخر میں کھاتی ہیں ۔ پہلے مردوں کو کھلاتی ہیں اور اگر اس وقت اچانک کوئی مہمان آجائے تو اپنا کھانا بھی مہمان کے لئے بھیج دیں گی ۔اگر شوہرآدھی رات کو سفر سے واپس آجائے تویہ وفا شعار عورت اپنا آرام اور اپنی نیند قربان کرکے ، اس کی خدمت میں لگ جائے گی ۔ اے شوہر محتر ! بیوی تو آپ پر اپنا سب کچھ قربان کردے اور آپ اس سے بے نیاز رہیں ۔ اس نے تھوڑی سی زبان چلادی اورآپ کبدلہ لینے پر اتر آئے اور اس کی دلداری چھوڑدی ۔آپ کے لئے یہ طریقہ کسی بھی طرح مناسب نہیں بلکہ اس کی ہر وقت خدمات کے صلے میں آپ کو بیوی کی نامناسب باتوں کو برداشت کرنا ہوگا ۔

نسخہ تمبر 8

--{اگر بیوی کی یہ کوتاہیاں آپ کی بہن یا بیٹی میں ہوتیں ۔۔تو؟}--

ان کی شکا یتیں ان کے سسرال سے آتیں تو جو عذر ان کے لئے یا جو آپ ان کی صفائی میں کہتے وہ بیوی کے لئے کیوں نہیں سوچتے صرف اس لئے کہ وہ آپ کی بیوی ہے ؟ اور کسی دوسرے کی بیٹی یا بہن ہے ؟
اس کی کوتاہیوں کے لئے بھی تو آپ کو عذر پیش کرنے چاہئیں کہ ابھی نئی نئی آئی ہے اتنی جلدی سسرال کے رنگ میں کیسے رنگ جائے ،بھول چوک ہوہی جاتی ہے ،برداشت کرنا چاہئیے وغیرہ وغیرہ ۔
بہن اور بیٹی کو بھی چھوڑیں ۔ذرا سوچیں کہ آپ جو دنیا کی ساری خوبیاں اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا کردار ساری کوتاہیوں سے مبرّا دیکھنا چاہتے ہیں ۔سوچیں کہ جس نے آپ کو بیٹی دی ہے ۔ اگر وہ بھی اور دنیا میں بسنے والے تمام باپ اپنے داماد کے لئے کوئی ایسا معیار ذہن میں مقرر کرلیتے ہیں کہ :
لڑکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد ہو۔
تقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں مقدس اردبیلی جیسا ہو۔
دنیاوی تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم ڈاکٹر عبد القدیر جتنی ہو ۔
اخلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ملامحسن فیض کاشانی کی طرح ہو۔
علم دین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے علامہ حلی جنتا علم رکھتا ہو ۔
دین ودنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے بو علی سینا جیسا ہو ۔
تو فرمائیے آپ محترم کس کے داماد بن سکتے تھے ؟ اگر لوگ اپنے بلند معیارات پر اپ کو پرکھنے لگیں اور جب آپ اس معیار پر پورا نہ اتریں تو وہ بات بات پر نکتہ چینی کرکے آپ کا جینا دوبھر کردیں تو آپ ان لوگوں کے متعلق کیا کہیں گے ؟۔۔۔۔۔۔اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑ تے ہیں ۔
شوہر محترم!
یہی کچھ آپ کو بیوی کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ہر عمل کو تنقیدی چشمہ لگا کر دیکھا جاتا ہے اور اچھائی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں ۔اگر اس سے کوئی معمولی غلطی بھی سرزد ہوجائے تو گھر میں عدالت کا سا سماں ہوتا ہے ۔ ساس و سسر قاضی بن کر بیٹھ جاتے ہیں ، بھاوج اور بڑی نندیں وکیل بنتی ہیں اور گھر کی ماسی اور چھوٹی نندیں گواہ بن جاتی ہیں اور پھر اس کی معمولی غیطل کو ناقابل معافی جرم قراردے کر سینکڑوں طعنے اور دل چھلنی کرنے والےجملے سزا کے طور پر کہے جاتے ہیں اور اس پر بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ اس معصوم کے ماں باپ ،بہن بھائی اس کے پورے خاندان کو بھی نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔
اب یہی تمام باتیں آپ کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہوتیں تو آپ ان شکوہ شکایات کرنے والوں کے متعلق کیارائے قائم کرتے ؟

نسخہ نمبر 9

--{اپنے غصّہ کو برداشت کرنا سیکھئے }--

آج ہی سے فیصلہ کرلیں کہ میں دفتر ،دکان ،ملازمت وکاربار اور باہر والی زندگی کے مسئلے گھر سے باہر چھوڑ کرآؤں گا ۔ اگر کبھی کسی بات پر غصّہ آبھی جائے تو فورا خاموش ہوجائیں ۔
رسول اسلام(ص) فرماتے ہیں :
" جب تم میں سے کسی کو غصّہ آجائے تو وہ فورا خاموش ہو جائے "
یا وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں اور تنہائی میں آجائیں ۔
غصّہ قابو کرنے کا ایک عجیب علاج یہ بھی ہے کہ ایک کاغذ پر ایک عبارت لکھ کر ایسی جگہ لگادی جائے جہاں بار بار اس پر نگا ہ پڑتی ہو ۔
"اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت ہے جتنی تجھ کو اپنے بیوی ،بچوں اور ماتحتوں پر قدرت ہے ۔"
کیونکہ آدمی کوغصّہ اسی پر آتا ہے جس کو اپنے نے کمزور پاتا ہے اگر دوسرا طاقتور ہو تو غصہ نہیں آتا لہذا جب بار بار اس تحریر پرنگاہ پڑے گی تو دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کا استحضار ہوگا غصّہ کہاں آئے گا ؟
یاد رکھئیے کہ اگر میاں بیوی اور گھر والوں کی یہ تو تو ،میں میں اور بگ بگ ختم ہو جائے تویہ گھر کے معصوم بچوں پر بہت بڑا رحم ہوگا ۔ورنہ جھگڑوں کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر پلنے والے بچے سہمے سہمے رہتے ہیں ،خود اعتمادی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
جس معصوم کے ذہن پر ہر وقت باپ کا طمانچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں کے بہتے ہوئے آنسو۔۔۔۔۔۔کا تصور رہتا ہو جس کے کانوں میں دادی اور پھوپھی کی جھڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باورچی خانے میں روتی ہوئی ماں کی سسکیاں ۔۔۔گونجتی رہیں تو اس بچہ کی خدا داد صلاحتیں اور قابلیت جن سے وہ نجانے دین ودنیا کے اعلی سے اعلی کیا کیا کام کرجائے ۔ختم ہوجاتی ہیں ۔
٭ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے آگاہ ہو کہ اللہ تعالی طالب علم کو دوست رکھتا ہے ۔

نسخہ نمبر 10

--{اپنا مقام پہچانئے ،زن مرید نہ بنئے}--

یہ جو آپ سے بیوی سے نرم رویہ اختیار کرنے ، اس کی دلجوئی کرنے اور نامنا سب بات کی تحمل سے برداشت کرنے کی استدعا کی گئی ہے اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ بیوی آپ پر حاکم ہے ،آپ محکوم ہیں ، وہ آپ کو ڈانٹ سکتی ہے اور جھڑک سکتی ہے آپ کچھ نہیں سکتے اور آپ اس کے غلام ہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ لہذا خدا را زن مرید نہ بنئے گا ۔ آپ کا ایک مردانگی والا مقام ہے گھر کے سربراہ والی ایک ذمہ داری ہے ۔
آپ کے ڈھیلے پن سے گھر کا نظام اندھیرنگری چوپٹ راج والا ہوسکتا ہے ۔ بچے کہیں کے کہیں نکل سکتے ہیں ۔
بیٹیاں آپ کے ہر وقت جی حضوری کے رویہ کو دیکھ کر اپنے شوہروں سے بھی ویسے ہی رویہ کی متمنی ہوجائین گی اور گھرانے کے گھرانے اجڑیں گے ۔جس کے صرف آپ ذمہ دار ہوں گے ۔
بے شک شفقت کا معاملہ رکھئیے کہ اس میں جو رعب ہے وہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈاپٹ میں نہیں ہے ۔ بیوی سے ڈرے سہمے مت رہیں اللہ سے اپنا
معاملہ صاف رکھیں گھر میں تعلیم عام کریں ۔
دنیا کی رغبتی اور آخرت کی ترقی کے تذکرے ضرور کریں ۔
تجربہ کار عالم دین بیوی کے گھر کے بڑوں سے بھی ضروری احوال کا مشورہ برائے گھریلو اصلاح (نہ کہ بطور شکایت یا غیبت )کرتے رہیں ۔
یہ بات یادرکھیئے کہ آپ ہاں جی ، والے غلام بنتے ہیں تو آپ کائنات کےنظام میں فساد کا بیج بورہے ہیں ۔
٭ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :" لوگ تین قسم کے ہیں ایک تم عالم ،دوسرے طالب علم ، تیسرے کوڑا کرکٹ (یعنی وہ لوگ جو نہ عالم ہیں نہ طالب علم ، وہ کوڑے کچرے کی طرح بے مقصد اور بیکار لوگ ہیں )۔"

نسخہ نمبر 11

--{بیوی کو دیندار بنا ئیے مگر خود دینداری چھوڑ ے بغیر}--

یعنی طعنہ دے کر ،یاچڑ کر ،برا بھلا کہہ کر نہیں ۔ اپنی بات منوانا اصل کام نہیں بلکہ اسلامی ذہن بنانا اصل کام ہے ۔یعنی آپ اس کے دل کی زمین پر

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ
ایمانیت کا جڑ
عبادت کا تنا
اور فرائض واجبات کے برگ وبار
اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو
پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں
اخلاص کا رس ہو ۔
اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔
گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بماںر ہے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :
"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"
لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین
سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔
شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔
اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔
اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔
اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔
کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :
"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔
امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :
"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔
تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :
" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"
تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔
٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

نسخہ نمبر 12

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔
یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ
"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"
قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔
اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر 13

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔
جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :
"وعاشر ھنّ بالمعروف"
"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء 19)
تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم
کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر 14
--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگنے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔
آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :
"لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ "
" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک