رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل سنت او ر اہل تشیع کی نظر میں
سنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہرقول، فعل اورتقریرشامل ہے۔ یہ مسلمانوں کےنزدیک اعتقادات، عبادات اوراحکامات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے
اہل سنت والجماعت سنت نبوی کے ساتھ خلفائے راشدین یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اورعلی ع کی سنت کا بھی اضافہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں ایک حدیث ہے کہ
"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ.(1)
اس کی ایک بہت واضح مثال نماز تراویح ہے جس سے رسول اللہ نے منع کردیا تھا (2)،
مگرسنّی، سنت عمرکی پیروی میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔
بعض اہل سنت والجماعت سنّت رسول کے ساتھ سنت صحابہ (تمام صحابہ بغیرکسی تفریق کے) کا بھی اضافہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے یہاں ایک روایت ہے کہ
"أصحابي كالنّجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم.(3)
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے فرارممکن نہیں کہ حدیث اصحابی کالنجوم شیعہ حدیث(4)
"الأئمة من أهل بيتي كالنجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم"
کے مقابلے پر وضع کی گئی ہے۔ شیعہ حدیث کی معقولیت میں تو اس لئے شک نہیں کیونکہ ائمہ اہل بیت ع علم وزہد اور ورع وتقوی کے اعلی ترین معیار پر فائز تھے۔ ان کے پیروکاروں کو تو چھوڑئیے، اس کی گواہی تو ان کے دشمن بھی دیتے ہیں اور پوری تاریخ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے۔ لیکن حدیث اصحابی کالنجوم ایسی حدیث ہے جسے عقل سلیم قبول نہیں کرتی، کیونکہ صحابہ میں تو وہ لوگ بھی ہیں جو رسول اللہ کے بعد مرتد ہوگئے تھے (5)
نیز
یہ کہ اصحاب بہت سے امور میں ایک دوسرے کے خلاف تھے اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالتے تھے (6)، ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے ،(7) بلکہ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے (8)، حتی کہ بعض صحابہ پر تو شراب نوشی ،زنا اور چوری وغیرہ کے الزام م میں حد جاری کی گئی تھی۔ ان حالات میں کیسے کوئی عاقل اس حدیث کو قبول کرسکتا ہے جس میں ایسے لوگوں کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور کیسے کوئی امام علی ع کے خلاف جنگ میں معاویہ کی پیروی کرسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے معاویہ کو امام الفئۃ الباغیہ کہا تھا (9)۔
وہ شخص کیسے ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے جو عمروبن عاص ،مغیرہ بن شعبہ اور بسر بن ارطاۃ کی پیروی کرے جنھوں نے اموی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔کوئی بھی باشعور قاری جب حدیث اصحابی کالنجوم پڑھے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے ۔ کیونکہ اس حدیث کے مخاطب صحابہ ہیں ۔ اور رسول اللہ یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ " اے میرے اصحاب !
میرے اصحاب کا اتباع کرنا ۔لیکن دوسری حدیث کے " اے میرے اصحاب ! ان ائمہ کا اتباع کرنا جو میرے اہل بیت ع میں سے ہیں کیونکہ میرے بعد وہ تمھاری رہنمائی کریں گے " بالکل حق ہے ۔اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ اس کے متعدد شواہد سنت رسول ص میں پائے جاتے ہیں ۔
شیعہ کہتے ہیں کہ حدیث
"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ"
سے مراد ائمہ اثنا عشر ہیں ۔ ان ہی سے تمسک اور انہی کا اتباع، کلام اللہ سے تمسک اور کلام اللہ کے اتباع کی طرح ہے (10)
میں نے عہد کررکھا ہے کہ جن روایات سے شیعہ استدلال کرتے ہیں میں ان میں سے صرف وہی روایات نقل کروں گا جو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں پائی جاتی ہیں ، ورنہ شیعوں کی کتابوں میں تو اس سے کئی گنا زیادہ احادیث موجود ہیں اور ان کی عبارت بھی زیادہ واضح اور صاف ہے (11)۔
یہ بھی واضح کردوں کہ شیعہ یہ نہیں کہتے کہ ائمہ اہلبیت ع کو تشریع کا حق حاصل ہے یا ان کی سنت ان کا اپنا اجتہاد ہے بلکہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ کے بیان کیے ہوئے سب احکام یا تو قرآن سے ماخوذ ہیں یا اس سنت سےجس کی تعلیم رسول اللہ نے امام علی ع کو دی تھی نے اپنی اولاد کو۔ اس طرح ائمہ کا علم متوارث ہے ۔
اس ضمن میں شیعوں کے پاس بہت سے دلائل ہیں جن کی بنیاد ان روایات پر جو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح ، مسانید اور تاریخوں میں نقل کی ہیں ۔ یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہےجو بار بار ذہن میں آتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کیوں ان آیات کے مضمون پر عمل نہیں کرتے جو خود ان کے نزدیک صحیح ہیں ؟؟؟
پھر جس طرح اہل سنت اوراہل تشیع کے درمیان قرآن کی تفسیر میں اختلاف ہے اسی طرح ان کے درمیان احادیث کے معانی میں بھی اختلاف ہے۔ مثلا خلفائے راشدین کے الفاظ آئے ہیں اوراس حدیث کو فریقین نے صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے مراد وہ چار خلیفے ہیں جو رسول اللہ ص کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ان سے مراد بارہ خلفاء ہیں اور وہ ائمہ اہل بیت ع ہیں ۔
یہی اختلاف ان تمام اشخاص کے بارے میں ہے جن کو قرآن یا رسول ص نے پاک قرار دیا ہے اورمسلمانوں کو ان کے اتباع کا حکم دیا ہے۔
اس کی مثال رسول اللہ کا یہ قول ہے کہ
" علماء امتی افضل من انبياء بنی اسرائيل "
(میری امت کےعلماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سےافضل ہیں ) یا یہ قول کہ:
" العلماء ورثة الأنبياء"
(علماء انبیاء کے وارث ہیں )(12)۔
اہل سنّت کےنزدیک یہ حدیث عام ہے اوراس کا مصداق سب علمائے امت ہیں ۔
جبکہ شیعوں کے نزدیک یہ حدیث صرف بارہ اماموں سے مخصوص ہے اور اسی بنا پر وہ ائمہ اثناعشر کو اولوالعزم انبیاء کو چھوڑ کر سب انبیاء سے افضل قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عقل کارجحان بھی اسی تخصیص کی طرف ہے :
اوّل تواس لئے کہ کلام الہی کے مطابق قرآن کی تاویل کا علم صرف راسخوں فی العلم سے مخصوص ہے ۔
اسی طرح قرآن کےعلم کا وارث بھی اللہ تعالی نے اپنے چیدہ وچنیدہ بندوں کو ہی قراردیا ہےاورظاہر ہے کہ یہ تخصیص ہے ۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت ع کو
" سفینۃ النجاۃ ۔ ائمۃ الھدی" اور"مصابیح الدجی"
کہا ہےاوروہ ثقل ثانی قراردیا ہے جو گمراہی سے بچانے والا ہے ۔
دوسرے اس لئے کہ اہل سنت والجماعت کا قول اس تخصیص کے منافی ہے جو قرآن اور حدیث نبوی سے ثابت ہے۔ عقل بھی اس قول کو قبول نہیں کرتی کیونکہ اس میں ابہام ہے اس لئے کہ اس میں حقیقی علماء اوربناوٹی علماء میں فرق نہیں کیا گیا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ یہاں وہ علماء بھی جنھیں اللہ تعالی نے ہمہ اقسام رجس سے پاک رکھا ہے اور وہ علماء بھی ہیں جنھیں اموی اورعباسی حکمرانوں نے امّت پرسوارکردیا تھا ۔
زیادہ واضح الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ دوقسم کے علماء ہیں:
ایک وہ جن کو علم لدنی عطا ہوا ہے۔
اوردوسرے وہ جنھوں نےاستادوں سے راہ نجات کی تعلیم حاصل کی۔
یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تاریخ کسی ایسےاستاد کا ذکر نہیں کرتی جس سےائمہ اہلبیت علیہم السلام نے تعلیم حاصل کی ہو۔
بجزاس کے کہ بیٹے نے باپ سےعلم حاصل کیا ہے۔
اس کے باوجود خود علمائے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں ان ائمہ کی علمیت کی حیرت انگیز داستانیں بیان کی ہیں ۔خصوصا امام باقر، امام صادق علیہما السلام
اورامام رضا علیہ لسلام سے متعلق۔ امام رضاعلیہ السلام کا تو ابھی لڑکپن ہی تھا جب انھوں نے اپنی کثرت معلومات چالیس قاضیوں کو مبہوت کردیا تھا جنھیں مامون نے ان کے مقابلے کے لئے جمع کیاتھا (13)۔
اسی سےیہ راز بھی آشکارہوجاتا ہے کہ سنیوں کے مذاہب اربعہ کے اماموں میں تو ہر مسئلے میں اختلاف ہے اوراہل بیت علیہم السلام کے بارہ اماموں میں کسی ایک مسئلہ میں بھی اختلاف نہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر اہلسنت کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ آیات اوراحادیث بلا امتیازعلمائےامت کے بارے میں ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آراء اور مذاہب کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاجائےگا۔
شاید علمائے اہل سنت نے اپنی رائے کی اسی کمزوری کو بھانپ لیا تھا جس کی وجہ سے انھوں نےعقیدے کی تفریق سے بچنے کی خاطرائمہ اربعہ کے وقت سے ہی اجتہاد کا دروازہ بندکردیا ۔
اس کے بر عکس ، شیعوں کا نظریہ یہ اتفاق اوران ائمہ سے وابستگی کی دعوت دیتا ہے۔ جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے خصوصی طورپر ان سب علوم ومعارف سے نوازا ہے جن کی ہرزمانے میں مسلمانوں کوضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اب یہ کسی مدعی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے کوئی غلط بات منسوب کرکے کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالے اور لوگوں کو اس کے اتباع پرمجبور کرے ۔
اس مسئلے میں شیعہ، سنی اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو مہدی موعودسے متعلق احادیث کے بارے میں ان کے اختلاف کی ہے۔ مہدی موعود سے متعلق حدیث کی صحت کے د ونوں فریق قائل ہیں ۔
شیعوں کےیہاں مہدی کی شخصیت معلوم ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ ان کے باپ دادا کون ہں ۔لیکن اہل سنت کے خیال میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ مہدی کون صاحب ہوںگے۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتک
بہت سے لوگ مہدی ہونے کا دعوی کرچکے ہیں ۔خود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہادفی نے کہا کہ وہ منتظر مہدی ہیں۔ یہ بات انھوں نے میرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہی جو اس وقت انکا مرید تھا ۔بعد میں شیعہ ہوگیا۔
بہت سے اہل سنت اپنے بچے کا نام مہدی اس امید میں رکھتے ہیں کہ شاید وہی امام منتظر وموعود ہو ۔لیکن شیعوں کے یہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ اب پیدا ہونے والا کوئی شخص ایسا دعوی کرسکے۔ کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام مہدی برکت کے لئے ضرور رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام محمد یا احمد یا علی رکھتے ہیں ۔شیعوں کے نزدیک مہدی کا ظہور خود ایک معجزہ ہے کیونکہ وہ اب سےبارہ سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، اس کے بعد غائب ہوگئے۔ اس طرح شیعہ خود بھی آرام سے ہوگئے اور انھوں نے مہدی ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے بھی راستہ بند کردیا ۔
اسی طرح بہت سی صحیح احادیث کے معنی میں بھی شیعوں اورسنیوں کےدرمیان اختلاف ہے ۔ حتی کہ ایسی احادیث کے معنی میں اختلاف ہے جن کا تعلق اشخاض سے نہیں مثلا ایک حدیث ہے :
"إختلاف اُمتي رحمة"
سنی کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی فقہی مسئلہ فقہاء کے مابین اختلاف مسلمان کے لئے رحمت ہےکیونکہ اس طرح وہ مسئلہ کا وہ حل اختیار کرسکتا ہے جو اس کے حالات کےمناسب ہو اور اسے پسند ہو۔
مثلا اگر کسی مسئلہ میں امام مالک کا فتوی سخت ہو تو وہ مالکی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ کی تقلید کرسکتا ہے اگر اسے ان کا مذہب سہل اورآسان معلوم ہو۔
مگر شیعہ اس حدیث کا مطلب کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ ان کےیہاں روایت ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام سے اس حدیث کےبارےمیں پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ نے صحیح فرمایا ۔ سائل نے پوچھا کہ اگر اختلاف رحمت ہے تو کیا اتفاق مصیبت ہے ؟ امام صادق ع نے کہا :
نہیں یہ بات نہیں تم غلط راستے پر چل پڑے اوراکثر لوگ اس حدیث کا مطلب غلط سمجھتے ہیں۔
رسول اللہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ"حصول علم کے لئے ایک دوسرے کے پاس جانا اور سفر کرنا رحمت ہے" آپ نے
اپنے قول کی تائید میں یہ آیت پڑھی:
" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"
ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ تحصیل علم کے لئے نکلا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرے، پھر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس آکر ان کوڈرائے۔ کیا عجب کہ وہ غلط کاموں سے بچیں(14)۔
پھر فرمایا کہ اگر لوگ دین میں اختلاف کریں گے تو وہ شیطانی جماعت بن جائیں گے ۔
جیسا کہ ظاہر ہے، یہ تفسیر اطمینان بخش ہے کیونکہ اس میں عقائد میں اختلاف کے بجائے اتحاد کی تعلیم دی گئی ہے ۔ یہ نہیں کہ لوگ جماعتوں اورگروہوں میں بٹ جائیں ایک اپنی رائے کے مطابق کسی چیز کو حلال قراردے تو دوسرا اپنے قیاس کی بنا پر اسی چیز کو حرام دے دے۔ ایک اگر کراہت کا قائل ہو تو دوسرا استحباب کا تیسرا وجوب کا (15)
عربی زبان میں دومختلف ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں۔
"إختلفت إليك "اور"إختلفت معك"
دونوں کےمعنی میں فرق ہے ۔
"إختلفت إليك "
کے معنی ہیں: میں تیرے پاس آیا " اور
"إختلفت معك"
کے معنی ہیں" میں نے تیری رائے سے اختلاف کیا "۔
اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت نے حدیث کا جو مفہوم اختیارکیا ہے وہ اس لحاظ سے بھی نامناسب ہے کہ اس اختلاف اور تفرقہ کی دعوت ہے جو قرآن کریم کی اس تعلیم کے منافی ہے جس میں اتحاد واتفاق اورایک مرکزپرجمع ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
" وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ "
اور یہ تمھاری امت ایک امت ہے اورمیں تمھارا پروردگار ہوں اس لئے مجھ سے ڈرتے رہو۔(سورہ مومنون ۔آیت 52)
" وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ "
اللہ کی رسی کو مضبوطی سےتھامے رہو اور نااتفاقی نہ کرو۔(سورہ آل عمران ۔آیت 103)
" وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "
آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ناکام رہوگےاورتمھاری ہوا اکھڑجائےگی ۔(سورہ انفال ۔آیت 46)
اس سے بڑھ کراورکیا پھوٹ اور تفرقہ ہوگا کہ امت واحدہ ایسے مختلف فرقوں اور گرہوں میں بٹ جائے جو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں، ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کا خون بہانا جائز سمجھتے ہوں۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ مختلف ادوارمیں فی الواقع ایسا ہوتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی گواہ تاریخ ہے اورامت میں پھوٹ کے اسی انجام سے خود اللہ تعالی نے ڈرایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
" وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ "
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو دلائل آجانےکے باوجود آپس میں بٹ گئےاورایک دوسرے سےاختلاف کرنےلگے۔
(سورہ آل عمران ۔آیت 105)
" إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ میں بٹ گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ۔(سورہ انعام ۔آیت 160)
" وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ "
مشرکوں میں سے نہ بن جاؤ نہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اورخود فرقےفرقے ہوگئے ۔سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ۔(سورہ روم ۔آیت 31-32)
یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ لفظ شیعا کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ ایک سادہ لوح شخص نے سمجھا تھا جو ایک دفعہ میرے پاس آکرمجھے نصیحت کرنے لگا :
"بھائی جان! خدا کے واسطے ان شیعوں کوچھوڑیئے، اللہ ان سے نفرت کرتا ہے :
اس نے اپنے رسول کو متنبہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ نہ ہوں "۔
میں نے کہا : یہ کیسے ؟
اس نے یہ آیت پڑی دی :
" إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "
میں نے اسے سمجھانے کی بہیتری کوشش کی کہ شیعا کے معنی ہیں گروہ ، جماعتیں، پارٹیاں۔ اس کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ شیعہ کا لفظ تواچھےمعنی میں آیا ہے مثلا :
"وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ"
یا حضرت موسی ع کے قصے میں آیا ہے کہ
"فوجد فيها رجلين يقتتلان هذا من شيعته وهذا من عدوه"
مگر افسوس ! یہ شخص کسی طرح میری بات مان کر نہ دیاکیونکہ اسے تومسجد کے امام صاحب نے شیعوں کے خلاف سکھا پڑھا دیا تھا ۔ پھر وہ کوئی اور بات کیوں سنتا ؟
اب میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں شیعہ ہونے سے پہلے سخت شش وپنچ میں تھا۔
جب میں یہ حدیث پڑھتا تھا کہ :
"إختلاف اُمتي رحمة"
اوراس کا مقابلہ اس دوسری حدیث سے کرتا تھا جس میں آیا ہے کہ
"میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو ایک کوچھوڑکرسب جہنم میں جائیں گے" (16)
تو میں دل ہی دل میں حیران ہوتا تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو امت کا اختلاف ہواورساتھ ہی وہ دخول جہنم کا موجب بھی ہو ؟؟
پھر جب میں نے اس حدیث کی وہ تشریح پڑھی جو امام جعفرصادق علیہ السلام نے کی ہے تومیری حیرت دور ہوگئی کیونکہ معما حل ہوگیا تھا۔ اس وقت میں سمجھا کہ ائمہ اہل بیت علیہ السلام واقعی بہترین رہنما ،اندھیروں میں چراغ اور صحیح معنی میں قرآن وسنت کے ترجمان ہیں۔
جب ہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :
"مثل أهل بيتي فيكم كسفينة نوحٍ من ركبها نجا ومن تخلّف عنها غرق لاتقدّمواهم فتهلكوا و لاتتخلّفوا عنهم فتهلكوا,ولا تعلّموهم فإنّهم أعلم منكم"
میرے اہل بیتعلیہم السلام کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہوگیا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑگیا ڈوب گیا۔
ان سے نہ توآگے نکلو نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ انھیں کچھ سکھانےکی کوشش نہ کرو کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں (17)۔
امام علی ع نے بھی ان کے حق میں فرمایا ہے:
" اپنے نبی کے اہل بیت پر نظر جمائے رکھو، ان ہی کے رخ پران کے پیچھے پیچھے چلتے رہو وہ تمھیں راستے سے بھٹکنے نہیں دیں گے نہ تمھیں کسی گڑھے میں گرنے دیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہرجاؤ اوراگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ نکلو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ تباہ ہوجاؤ گے (18)
ایک اور خطبے میں اہل بیت علیہم السلام کی قدر ومنزلت بیان کرتے ہوئے امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
"وہ علم کی زندگی اورجہالت کی موت ہیں۔ ان کا حلم ان کےعلم کی اوران کا ظاہران کے باطن کی خبردیتا ہے۔
ان کی خاموشی ان کی عاقلانہ گفتگوکی غمازی کرتی ہے۔ وہ نہ حق کے خلاف کرتے ہیں اور نہ امر حق میں اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ اسلام کے ستون ہیں ۔ تعلق مع اللہ ان کی فطرت ہے۔
ان کی وجہ سے حق کا بول بالا ہوا، باطل کی جڑیں کٹ گئیں اور اس کی زبان گدی سے کھینچ گئی ان کے پاس وہ عقل ہے کہ انھوں نے دین کو سمجھا اور برتا، یہ نہیں کہ سنا اور بیان کردیا۔علم کو بیان کرنے والے بہت ہیں اور اسے سمجھنے اور برتنے والے کم ہیں " (19)
جی ہاں سچ فرمایا امام علی ع نے ، کیونکہ وہ شہرعلم کا دروازہ ہیں۔ بڑا فرق ہے اس عقل میں جو دین کو سمجھتی اور برتتی ہے اور اس عقل میں جو سنتی اور بیان کردیتی ہے۔ سننے اور بیان کردینے والے بہت ہیں کتنے صحابہ ہیں جنھیں رسول اللہ ص کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے۔ وہ احادیث سنتے تھے اور بغیر سمجھے بوجھے نقل کردیتے تھے جس سے حدیث کے معنی کچھ کےکچھ ہوجاتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو مطلب بالکل الٹا ہوجاتا تھا ۔یہاں تک کہ صحابی کے سخن شناس نہ ہونے اور اصل مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے بات کفر تک جاپہنچی (20)۔
لیکن جو علم پر پوری طرح حاوی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔آدمی اپنی پوری
عمر تحصیل علم میں صرف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات اسے بہت ہی کم علم حاصل ہوتا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ وہ علم کی کسی ایک شاخ یا کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرپاتا ہے لیکن علم کی تمام شاخوں پرحاوی ہوجانا یہ بالکل ناممکن ہے مگر جیسا کہ معلوم ہے ائمہ اہل بیت علیم السلام مختلف علوم سے کماحقہ، واقف تھے اور ان میں مہارت رکھتے تھے۔ اس چیز کو امام علی ع نے ثابت کردیا تھا جس کی شہادت مورخین نے بھی دی ہے۔
اسی طرح امام محمد باقراورامام جعفرصادق علیما السلام سے ہزاروں علماء کو مختلف علوم میں تلمذ حاصل تھا، جیسے فلسفہ، طب، کیمیا اور طبیعیات وغیرہ ۔
--------------------
(1):- تم میری سنت اورمیرے خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں سے مضبوط پکڑنا۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 126)
(2):- صحیح بخاری جلد 7 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ ۔
(3):-میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ اور مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 398)
(4):- قاضی نعمان بن محمد ،دعائم الاسلام جلد 1 صفحہ 86 دارالمعارف ،مصر،
(5):- جیسے اہل ردّہ جن سے حضرت ابو بکر نے جنگ کی تھی ۔
(6):- جیسے اکثر صحابہ حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ عثمان کو قتل کردیا گیا ۔
(7):- جیسے معاویہ نے امام علی ع پر لعنت کرنے کا حکم دیا تھا ۔
(8):- جیسے جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان وغیرہ ۔
(9):- حدیث کہ " عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا "
(10) صحیح ترمذی جلد 5 صفحہ 328 ۔صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 362 ۔خصائص امیرالمومنین ،امام نسائی ،کنز العمال جلد 1 صفحہ 44۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 189 ۔مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 148 ۔صواعق محرقہ صفحہ 148۔ طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 194 ۔الطبرانی جلد 1 صفحہ 131
(11):- میں صرف ایک مثال دوں گا ۔ شیخ صدوق نے اکمال الدین میں بسند امام صادق عن ابیہ عن جدہ ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"میرے بعد بارہ امام ہوں گے : پہلے امام علی ع اورآخری امام قائم ہوںگے"
(12):-صحیح بخاری جلد اول کتاب العلم اور صحیح ترمذی کتاب العلم
(13):-العقدالفرید ابن عبد ربہ اور الفصول المہمہ ابن صباغ مالکی جلد 3۔
(14):-سورہ توبہ آیت 122
(15):- مالکیوں کے نزدیک نماز میں بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ شافعیوں کے نزدیک واجب ہے۔ حنفیوں اورحنبلیوں کے نزدیک مستحب ہے مگر کہتے ہیں کہ جہری نماز میں بھی آہستہ پڑھی جائے ۔
(16):-سنن ابن ماجہ کتاب الفتن جلد 2۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 120 ۔جامع ترمذی کتاب الایمان ۔
(17):- صوعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔جامع الصغیر سیوطی جلد 2 صفحہ 157 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 17 وجلد 4 صفحہ 266
(18):-نہج البلاغہ خطبہ 95
(19):-نہج البلاغہ خطبہ 236
(20):- اس کی مثال ابو ہریرہ کی یہ روایت ہے کہ "انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ" اس کی وضاحت امام جعفر صادق ع نے کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ص نے سنا کہ دو آدمی ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے ہیں ۔ایک نے کہا " تیری شکل پر پھٹکار اور تیرے جیسی جس کی شکل ہو اس پر بھی پھٹکار ۔"
اس پر رسول اللہ ص نے فرمایا :" انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ " مطلب یہ کہ اس کی شکل تو حضرت آدم ع جیسی ہے ۔گویا تو حضرت آدم کو گالی دے رہا ہے کیونکہ ان کی شکل اس جیسی تھی ۔

