امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نبوت کے بارے میں شیعہ اور سنی کا عقیدہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


نبوت  کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت  کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ  کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں  کی طرح ہیں ۔ اس بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے کئی موقعوں پر غلط فیصلہ کیا اور صحابہ نے  آپ  کی اصلاح کی ۔جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ہوا ۔جہاں اللہ کے رسول  ص کی رائے درست نہیں تھی اور عمر کی رائے صحیح تھی ۔(1)
اسی طرح جب رسول اللہ مدینہ آئے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کجھور کے درخت میں گا بھادے رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :- گابھا دینے کی ضرورت نہیں ، ایسے بھی کجھوریں لگیں گی ، لیکن ایسا نہ ہوا ۔ لوگوں نے آپ سے آکر شکایت  کی تو آپ نے کہا :" تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے کہا : میں بھی انسان ہوں ،جب میں تمھیں دین کی کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو ۔ مگر جب میں کسی دنیا وی معاملے میں اپنی رائے دوں تو میں محض انسان ہوں ۔(2)
یہ بھی روایت  ہے کہ ایک مرتبہ آپ پر جادو کے اثر سے آپ کو یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ آپ نے کیا کیا ۔ بعض دفعہ یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے ازدواج سے صحبت کی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تھا (3)۔یا کسی اور کام کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ یہ کام کیا ہے مگر دراصل وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا (4)۔ اہل سنت کی ایک اور روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا ۔یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔(5) ایک دفعہ آپ کو نماز میں بے خبر سوگئے ،یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی ،پھر جاگ گئے اور وضو کی تجدید کے بغیر نماز پوری گی (6)۔
اہل سنت یہ بھی کہتے  کہیں کہ آپ  بعض دفعہ کسی پر بلاوجہ ناراض ہوجاتے ، اسے برابلا کہتے اور اس کو لعنت ملامت کرتے تھے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :   یا الہی ! میں انسان ہوں ، اگر میں کسی مسلمان کو لعنت ملامت کروں یا برابھلا کہوں تو تو اسے اس کے لئے رحمت بنادے (7)۔اہل سنت  کی ایک اور روایت  ہے کہ ایک دن آپ حضرت عائشہ کے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران کھلی ہوئی تھی ، اتنے میں ابوبکر آئے ، آپ اسی طرح لیٹے ہوئے ان سے باتیں کرتے رہے ۔کچھ دیر بعد عمر آئے تو آپ ان سے بھی اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ جب عثمان نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کربیٹھ  گئے اور کپڑے ٹھیک کرلیے ۔ جب عائشہ نے اس بارے میں پوچھا  تو آپ نے کہا : میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے ملائکہ بھی شرماتے ہیں ۔(8)     
اہل سنت  کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہےکہ رمضان  المبارک میں آپ جنب ہوئے تھے اور صبح ہوجاتی  تھی اور آپ کی نماز فوت ہوجاتی تھی (9)۔اسی طرح اور جھوٹ ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے ،نہ دین اور نہ شرافت اس کامقصد رسول اللہ کی توہین کرنا اور آپ  کی شان  میں گستاخی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اہل سنت ایسی باتیں رسول اللہ سے منسوب کرتے ہیں جو خود اپنے سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتے ۔
اس کے برخلاف شیعہ ائمہ اہلبیت ع کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء کو ان تمام لغویات سے پاک قراردیتے ہیں خصوصا ہمارے نبی محمد  علیہ افضل الصلاۃ وازکی السلام کو ۔شیعہ کہتے ہیں کہ آنحضرت تمام خطاؤں ،لغزشوں اورگناہوں سے پاک ہیں چاہے وہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔اس طرح آپ پاک ہیں ہر غلطی اوربھول چوک سے ،جادو کے اثر سے اور ہر اس چیز سے جس سے عقل متاثر ہوتی ہو ۔ آپ پاک ہیں ہر اس چیز سے جو شرافت اوراخلاق  حمیدہ  کےمنافی ہو جیسے راستے میں کچھ کھانا یا ٹھٹھامارنا یا ایسا مذاق کرنا جس میں جھوٹ کی آمیزش ہو ۔آپ پاک ہیں ہر اس فعل سے جو عقلاء کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یا عرف عام میں اچھا نہ سمجھا جاتا ہو ۔چہ جائیکہ  آپ دوسروں  کے سامنے اپنا رخسار بیوی کے رخسار پررکھیں اور اس کے ساتھ حبشیوں کا ناچ دیکھیں (10)۔یا بیوی کو کسی جنگ کے موقع ساتھ لے کرجائیں  اور وہاں اس کے ساتھ دوڑلگائیں  کہ کبھی وہ آگے نکل جائے اور کبھی آپ اور اس پر آپ کہیں کہ " یہ اس کے بدلے  میں "(3)۔
شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم  کی ساری روایات جو عصمت انبیاء سے متناقض ہیں امویوں  اور ان کے حامیوں  کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ مقصد ان کے دو ہیں :
  ایک تو رسول اللہ  کی عزت وتوقیر  کو کم کرنا تاکہ اہل بیت ع کی وقعت کو گھٹایا جاسکے ۔ دوسرے اپنے ان افعال بد کے لیے وجہ تلاش کرنا جن کا ذکر تاریخ میں ہے  اب اگر رسول اللہ بھی غلطیاں کرتے تھے اور خواہشات نفسانی سے متاثر ہوتے تھے  جیسا کہ اس قصے میں بیان  کیا گیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ جب زینب بنت جحش ابھی زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں  ،آپ انھیں بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے  دیکھ کر ان  پر فریفتہ ہوگئے تھے ، اس وقت آپ کی زبان سے نکلا تھا : سبحان الله مقّلب القلوب     (11)           
ایک اور سنی روایت کے مطابق آپ کی طبیعت کا زیادہ جھکاؤ حضرت عائشہ  کی طرف تھا اور بقیہ ازواج کے ساتھ ویسا سلوک نہیں تھا ۔ چنانچہ ازواج نے ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہرا س کو اور ایک دفعہ زینب بن جحش  کو عدل کا مطالبہ کرنے کے لئے  آپ کے پاس اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا تھا (12)۔             
اگر خود رسول اللہ کی یہ حالت  ہو تو معاویہ بن ابی سفیان  ،مروان بن حکم ،عمرو بن عاص ،یزید بن معاویہ  اور ان تمام اموی حکمرانوں  کو کیا الزام دیا جاسکتا  ہے جنھوں نے سنگین جرائم  کا ارتکاب کیا اور بے گناہوں کو قتل کیا ۔بقول شخصی ،اگر گھر کا مالک ہی طبلہ بجارہا ہو تو اگر بچے ناچنے لگیں تو ان کا کیا قصور !
ائمہ اہل بیت ع جو شیعوں کے ائمہ ہیں وہ حضرت رسالتمآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عصمت کے قائل  ہیں اور ظاہر ہے کہ گھر والوں سے زیادہ گھر کا حال  کون جان سکتا ہے ؟ اسی لئے وہ ان تمام آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں جن  سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو عتاب کررہا ہے جیسے " عبس وتولّی" یا جن سے گناہوں   کے اقرار کا مفہوم نکلتا ہے جیسے " ليغفر لک الله ما تقدّم من ذنبک وما تاخّر " یا ایک دوسری آیت " لقد تاب الله علی النبیّ " یا "عفا الله عنک لم اذنت لهم"  
ان تمام آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت مجروح نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ بعض آیات آپ سے متعلق ہی نہیں ہیں اور بعض آیات ظاہری الفاظ پر محمول نہیں ہیں بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے مجازا کہا گیا ہے ۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے : اے پڑوسن سن لے یہ بات تیرے لیے ہے " مجاز کا استعمال عربی زبان میں کثرت سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے بھی اس کا استعمال قرآن مجید میں کیا ہے ۔
جو شخص تفصیل معلوم کرنا اور حقیقت حال سے آگاہی حاصل کرناچاہیے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے جیسے علامہ طبا طبائی کی المیزان  ،آیت اللہ  خوئی کی البیان ،محمد جواد مغنیہ کی الکاشف ،علامہ طبرسی کی  الاحتجاج ، وغیرہ وغیرہ ۔
میں اختصار کے کام لے رہا ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف عمومی طورپر فریقین کا عقیدہ بیان کرنا ہے ۔اس کتاب سےمیرا مقصد صرف ان امور کا بیان کرنا ہے جن سے مجھے ذاتی طور پر اطمینان نصیب ہوا اور انبیاء اور ان کے بعد اوصیاء کی عصمت کا مجھے یقین ہوگیا ۔ میرا شک اورحیرت یقین میں بدل گئے اور ان شیطانی وسوسوں کا ازالہ ہوگیا جن کی وجہ سے کبھی کبھی میری خطائیں ، میرے گناہ اور میرے غلط اعمال مجھے اچھے ،صحیح اوردرست معلوم ہوتے تھے ۔ کبھی تو مجھے  افعال واقوال رسول میں بھی شک  ہونے لگتا تھااور آپ کے بتلائے ہوئے احکام  پر بھی اطمینان نہیں ہوتا تھا بلکہ نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ بعض دفعہ اللہ کے اس قول میں بھی شک ہونے لگتا تھا کہ
"ومآ اتاكم الرّسول فخذوه ومآ نهاكم عنه فانتهوا"
رسول  تمھیں جو بتلائیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کلا م اللہ  نہ ہو رسول کا اپنا ہی کلام ہو ! سنیوں کا یہ کہنا کہ " رسول اللہ صرف اللہ کے کلام کی تبلیغ کی حد تک معصوم ہیں " بالکل بیکار بات ہے ۔اس لیے کہ اس کی کوئی پہچان نہیں کہ اس قسم کا کلام تو اللہ کی طرف سے ہے اور اس طرح کا کلام خود آپ کی اپنی طرف سے ، تاکہ یہ کہا جاسکے کہ اس کلام میں تو آپ معصوم ہیں اور اس میں معصوم نہیں ، اس لیے یہاں غلطی کا احتمال ہے ۔
اللہ کی پناہ اس متضاد قول سے ! اس سے تو رسول اللہ کی شان تقدس میں شک پیدا ہوتا ہے اور آپ کی شان میں طعن  کی گنجائش نکلتی ہے ۔
اس پر مجھے وہ گفتگو یاد آگئی  جو میرے شیعہ ہوجانے کےبعد میرے اور چند دوستوں کے درمیان ہوئی تھی ۔ میں انھیں قائل  کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ رسول اللہ ص ہر بات میں معصوم ہیں اور وہ مجھے سمجھارہے تھے کہ آپ صرف قرآن کی تبلیغ  کی حد تک معصوم ہیں ۔ ان میں ایک تو زر کے پروفیسر تھے ۔ توزر منطقہ  جرید کا ایک شہر ہے (14) ۔یہاں کے لوگ علم وفن ،ذہانت وفطانت  اور لطیفہ گوئی کے لئے مشہور ہیں ۔یہ پروفیسر صاحب ذرا دیر سوچتے رہے ، پھر کہنے لگے : حضرات ! اس مسئلے میں میری بھی ایک رائے ہے ۔ہم سب نے  کہا تو فرمائیے ۔کہنے لگے :بھائی تیجانی شیعوں کی طرف سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ، ہمارے لیے یہی ضروری کہ رسول اللہ ص  کے علی الاطلاق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھیں ورنہ خود قرآن میں شک پڑجائےگا ۔ سب نے کہا : وہ کیسے ؟ پروفیسر  صاحب نے فورا جواب دیا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ کسی سورت کے نیچے اللہ تعالی کے دستخط ہوں ۔ دستخط سے ان کی مراد وہ مہر تھی جو دستاویزات  اور مراسلات کے آخر میں اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ یہ شناخت ہوسکے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ۔ سب لوگ اس لطیفے پر ہنسنے لگے مگر یہ لطیفہ بڑا معنی  خیز ہے ،کوئی بھی غیر متعصب انسان اگر اپنی عقل استعمال کرکے غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح  طور  پر سامنے آئے گی کہ قرآن کو کلام الہی تسلیم کرنے  کا مطلب یہ ہے  کہ صاحب وحی کی عصمت مطلقہ کا بھی عقیدہ بغیر کیس کاٹ چھانٹ کے رکھا جائے کیونکہ یہ توکوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ اس نے اللہ تعالی کو بولتے ہوئے سنا ہے  یا جبرئیل کو وحی لاتے ہوئے دیکھا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ " عصمت انبیاء ع" کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہی وہ محکم اور مضبوط عقیدہ ہے جس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور تمام تفسانی وشیطانی وسوسوں کی جڑکٹ جاتی ہے اور مفسدوں خصوصا یہودیوں ،عیسائیوں اور دشمنان دین کا راستہ بند ہوجاتا ہےجو ہر وقت  اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کہیں سےراستہ ملے تو اندر گھس کر ہمارے معتقدات  کو بھک سے اڑا دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالیں ۔ایسے راستے انھیں صرف اہل سنت ہی  کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ اکثر وبیشتر  ہمارے خلاف ان ہی اقوال وافعال سے دلیل  لاتے  ہیں جو بخاری ومسلم میں غلط طور پر رسول اللہ سے منسوب کیے گئے  ہیں۔ (15)
اب ہم  انھیں کیسے یقین دلائیں  کہ بخاری ومسلم میں بعض غلط روایات بھی ہیں ۔ یہ بات قدرتی طور پر خطر ناک  ہےکیونکہ اہل سنت والجماعت اسے کبھی نہیں مانیں گے  ۔ان کے نزدیک تو بخاری  کتاب باری کے بعد صحیح ترین کتاب ہے اور اسی طرح مسلم بھی ۔
------------------
(1):-البدائیہ والنہائیہ کے علاوہ صحیح مسلم ۔ سنن ابوداؤد ۔جامع ترمذی ۔
(2):-صحیح مسلم کتاب الفضائل  جلد 7 صفحہ 95 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 162 اورجلد 3 صفحہ 152
(3):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 29
(4):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 67
(5):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 123
(6):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 37 وصفحہ 44 وصفحہ 171
(7):- سنن دارمی کتاب الرقاق
(8):- صحیح مسلم باب فضائل عثمان جلد 7 صفحہ 117       
(9):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 232-234  یہ اور ایسی بے شمار روایتیں راجپال کو رنگیلا رسول  رشدی ملعون کو STANNIC VERSESاور مستشرقین کو ہتک رسول کے لئے مواد فراہم کرتی ہیں ۔ (ناشر)
(10):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 228
(11):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 75       
(12):- تفسیر جلالین " وتخفی فی نفسک ماالله مبديه " کی تفسیر کی ذیل میں ۔
(13):- صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 136 باب فضائل عائشہ ۔
(14):- منطقہ جرید تیونس کے جنوب میں قفصہ سے 92 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ عربی کے مشہور شاعر ابو القاسم شابی اور خضر حسین کا جائے والادت ہے ۔خضر حسین جامعۃ الازہر کے شیخ الجامعہ تھے ۔ تیونس کے علماء میں سے بہت سے علماء اسی علاقے میں پیدا ہوئے ہیں ۔
(15):-صحیح بخاری جلد 3 باب شہادۃ الاعمی میں عبید بن میمون کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مسجد میں ایک نابینا شخص کو قرآن  کی تلاوت  کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے اس نے فلاں سور  کی فلاں فلاں آیتیں یاد دلادیں جو میں بھول گیا تھا ۔
آپ یہ روایت پڑھیے اورحیرت کیجیے کہ رسول اللہ آیات بھول گئے اور اگر یہ نابینا شخص وہ آیات یاد نہ دلاتا تو وہ آیات غائب ہی ہوگئی ہوتیں ۔ حد ہے اس لغویت کی !
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک