اہل سنت،سنتِ نبی(ص) کو نہیں جانتے
قارئین محترم ! آپ عنوان سے پریشان نہ ہوں آپ تو اللہ کے فضل سے حق پر چل رہے ہیں اور آخر کار مرضئ خدا کو حاصل کرلیں گے، شیطانی وسوسے اور انانیت آپ کو غرور میں مبتلا نہ کرے اور اندھا تعصب آپ پر طارینہ ہو کیونکہ وہ حق تک رسائی نہیں ہونے دیتا اور بہشت برین تک نہیں پہونچنے دیتا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ " اہل سنت" وہ لوگ کہلاتے ہیں جو خلفائے راشدین " ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) کی خلافت کے قائل ہیں اس بات کو آج سبھی جانتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ علی ابن ابی طالب(ع) کو اہل سنت خلفائے راشدین میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی آپ کی خلافت کو شرعی سمجھتے تھے۔
علی(ع) کو عرصہ دراز کے بعد خلفائے ثلاثہ والے زمرہ میں شامل کیا ہے۔ یعنیسنہ 220 ھ میں امام احمد ابن حنبل کے زمانہ میں علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کیا گیا۔
غیر شیعہ صحابہ خلفا، بادشاہان اور ابوبکر کے زمانے کے حکام یہاں تک کہ عباسی خلیفہ محمد بن الرشید اور معتصم کے زمانہ کے حکام بھی نہ صرف یہ کہ علی(ع) کی خلافت کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ ان میں سے بعض تو آپ پر لعنت کرتے تھے اور آپ کو مسلمان تک نہیں سمجھتے تھے۔ اگر مسلمان سمجھتے ہوتے تو پھر منبروں سے ان پر سب وشتم کرنے کے کیا معنی ؟
اس سیاست کو تو ہم سمجھ گئے کہ ابوبکر و عمر نے علی(ع) کو خلافت و حکومت سے کیوں دور رکھا ان دونوں کے بعد مسندِ خلافت پر عثمان بیٹھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں سے بھی زیادہ علی(ع) کی اہانت کرتے ہیں۔ یہاں تککہ ایک مرتبہدھمکی دی کہ آپ کو بھی ابوذر کی طرح شہر بدر کردیا جائے گا۔ اور جب بادشاہت معاویہ کے ہاتھوں میں آئی تو اس نے اس کو اور وسعت دی اور علی(ع) پر سب وشتم کرنے لگا اور لوگوں کو بھی سب وشتم کرنے پر مجبور کیا۔چنانچہ بنی امیہ کے تمام حکام نے ہر شہر اور ہر دیہات میں یہ رسم بد شروع کردی اور اسی(80 )سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ( صرف ان میں سے عمر بن عبدالعزیز مستثنی ہیں۔)
بلکہ یہ لعن طعن اور ان سے برائت اور ان کےشیعوں سے برائت کا سلسلہ اس سے بھی زیادہ زمانہ تک جاری رہا۔ عباسی خلیفہ متوکل کی عداوت و کینہ توزی دیکھئے وہ سنہ 240 ھ میں قبرِ علی(ع) و قبرِ حسین بن علی(ع) کو کھد وا ڈالتا ہے۔
اپنے زمانہکے امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک کو ملاحظہ فرمائیے جمعہ کے روز خطبہ دیتے ہوئے لوگوںسے کہتے ہیں:" رسول(ص) سے جو یہ حدیث نقل کی جاتی ہے کہ (اے علی(ع) ) تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔" صحیح ہے لیکن اس میں تحریف کردی گئی۔ کیو نکہ رسول(ص) نے ان (علی) کو مخاطب کرکے فرمایا تھاتم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لئے قارون تھاسننے والے کو اشتباہ ہوگیا۔(تاریخ بغداد ، ج8، ص266)
معتصم کے زمانہ میں زندیقوں اور ملحدوں کی اکثریت تھی ،متکلمین کا زمانہ تھا خلافت راشد ہ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا۔ لوگوں کے لئے نئ نئ مشکلات کھڑی ہوگئیں تھیں۔
امام احمد بن حنبل کو اس بات پر کوڑے لگوائے گئے تھے کہ وہ قرآن کو قدیم مانتے تھے، لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر چل رہے تھے اور قرآن کو مخلوق کہہ رہے تھے۔ چنانچہ احمد بن حنبل نے خوف کے مارے قرآن کو مخلوق کہہ کرجان بچائی لیکن متوکل کے زمانے میں حنبل کا ستارہ چمکا اور اسی زمانہ میں حضرت علی(ع) کو خلفا ثلاثہ سے ملحق کیا گیا۔ ( اہل حدیث یعنی اہلِ سنت)
شاید احمد بن حنبل کو ان احادیث نے حیرت میں ڈالدیا تھا جو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں وارد ہوئی تھیں ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں ، جتنی احادیث علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور کے متعلق وارد نہیں ہوئی ہیں۔
دلیل
طبقات حنابلہ ۔جو کہ ان کی معتبر ترین کتاب ہے اس میں ابن ابی یعلی اور دیزہ الحمصی کے اسناد سے مرقوم ہے کہ اس نے کہا :
میں اس وقت احمد بن حنبل کے پاس گیا۔ جب وہ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرچکا تھا( اس محدث کو ملاحظہ فرمائیے جو کہ علی(ع) پر سب و شتم نہیں کرتا ہے اور نہ یہ لعنت کرتا ہے بلکہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے۔ لیکن اس بات پر راضی نہیں ہے کہ علی(ع) خلفا میں شمار کئے جائیں اسی لئے احمد بن حنبل سے بحث کرتا ہے اور اس کا جمع کا صیغہ استعمال کرنے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اہل سنت کی جماعت نے احمد بن حنبل کے پاس بھیجا تھا۔) میں نے ان سے کہا اے ابو عبداللہ یہ طلحہ و زبیر پر لعن طعن ہے انھوں نے کہا تم نے بہت بری با ت کہی ہے، کیا ہم اس قوم کے جھگڑوں اور قصوں ہی میں پڑے رہیں؟ میں نے کہا! خدا آپ کی اصلاح کرے میں نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ آپ نے علی(ع) کو چوتھا خلیفہ قرار دیا ہے اور ان کی خلافت کو واجب جانا ہے جبکہ ائمہ نے ان کی خلافت کو واجب نہیں جانا ہے۔
انھوں نے کہا: اس سے مجھے کونسی چیزروک سکتی ہے؟ میں نے کہا حدیثِ ابنِ عمر انھوں نے کہا: عمر اپنے بیٹے سے افضل ہیں وہ علی(ع) کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے پر راضی تھے اور علی(ع) کو خلیفہ منتخب کرنے والی کمیٹی کا ممبر بھی بنایا تھا اور علی(ع) نے خود اپنا نام امیرالمؤمنین رکھا ہے ۔ کیا میں یہ کہوں کہ میں مؤمنوں کا امیر نہیں ہوں؟ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد میں اٹھ کر چلا آیا۔(طبقات الحنابلہ، ج1، ص292)
اس قصہ سے واضح ہو جاتا ہے " اہل سنت" علی(ع) کو خلیفہ نہیں مانتے تھے ہاں خلافت کی صحت کے احمد بن حنبل کے بعد قائل ہوئے ہیں۔
اور یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ محدثِ اہل سنت والجماعت کے سردار اور ان کے ترجمان تھے۔ کیونکہ علی(ع) کی خلافت کےرد کرنے پر عبداللہ بن عمر کے قول سے حجت قائم کرتے تھے ۔ چونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ اور اہل سنت صحیح بخاری کو کتابِ خدا کے بعد صحیح ترین کتاب کہتے ہیں۔اس لئے علی(ع) کی خلافت کا انکار کرنا ضروری ہے۔
اگر چہ ہم اس حدیث کو اپنی کتاب "فاسئلوا اہل الذکر" میں نقل کرچکے ہیں لیکن عام فائدے کے پیش نظر اسے دوبارہ نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اعادہ میں افادیت ہے۔ بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا ہم ( صحیح بخاری، ج4،ص191، کتاب بداء الخلق باب فضل ابی بکر بعد نبی(ص)) زمانہ نبیٌ(ص) میں ابوبکر کو سب سے افضل سمجھتے تھے۔ان کےبعد عمر اور ان کےبعد عثمان کا مرتبہ تھا۔
ایسے ہی بخاری نے ابن عمر سے ایک اور حدیث نقل کی ہے جو کہ پہلی حدیث سے صاف وصریح ہے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:
ہم زمانہ نبی(ص) میں کسی کو بھی ابوبکر سے افضل نہیں سمجھتے تھے۔ انکے بعد عمر کا مرتبہ تھا اور پھر عثمان تھے اور انکے بعد تو سارے اصحا ب برابر تھے ان میں سے ہم کسی کو کسی پر فضیلت ، نہیں دیتے تھے۔( صحیح بخاری، ج4، ص203، باب مناقب عثمان بن عفان من کتاب بدءالخلق)
اور اس حدیث کی رو سے کہ جس میں رسول (ص) کو رائے دینے کا بھی حق نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں ان کا کوئی کردار ہے، بلکہ عبداللہ بن عمر کی ایجاد ہے۔ جس کی علی(ع) سے عداوت و حسد مشہور ہے۔ اہل سنت والجماعت کے مذہب کی بنیاد ہی حضر ت علی(ع) کی خلافت کے نہ ماننے پر استوار ہے۔
ایسی احادیث کیبنا پر بنی امیہ نے علی(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنے کو مباح قرار دیا اور معاویہ کے زمانہ سے مروان بن محمد بن مروان کے زمانہ یعنی سنہ132ھ تک حکام کا وتیرہ تھا کہ وہ منبروں سے علی(ع) پر لعنت کرتے اور ان کے شیعوں کو تہ تیغ کرتے تھے۔( صرف عمر بن عبدالعزیز کی دو سالہ خلافت کے دوران لعنت بند رہی لیکن عمر بن عبد العزیز کے قتل کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اسی پر اکتفاء نہیں کی تھی ۔ بلکہ علی(ع) کی قبر کھود ڈالی تھی او ان کے نام پر نام رکھنے کو حرام قرار دیدیا تھا۔)
پھر سنہ132ھ میں حکومت بنی عباس کے ہاتھوں میں آئی اور متوکل کے زمانہ یعنی سنہ247ھ تک اسی خاندان میں رہی۔بنی عباس کی حکومت کے دوران بھی مختکف طریقوںسے حضرت علی(ع) اور انکے شیعوں سے مخفی طور پر برائت کا اظہار کیا جاتا رہا کیونکہ بنی عباس کو حکومت اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں سے ہمدردی کے طفیل میں نصیب ہوئی تھی اس لئے وہ اور ان کے حکام کھلم کھلا علی(ع) پر لعنت نہیں کرسکتے تھے ۔ کیونکہ حکومت کی مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ لیکن خفیہ طور پر یہ بنی امیہ سے کہیں زیادہ کھیل، کھیل رہے تھے۔ اہل بیت(ع) اور ان کےشیعوں کی مظلومیت آشکار ہوچکی تھی اور فطری طور پر لوگوں میں ان سے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا۔ لہذا حکام نے مکاری و چالاکی سے کام لے کر ائمہ اہل بیت(ع) کا تقرب ڈھوںڈا ورنہ انھیں اہل بیت(ع) سے کوئی محبت تھی اور نہ ہی ان کے حق کا اعتراف کرتے تھے بلکہ ان کی خاموشی اس اٹھنے والی شورش کے سبب تھی جو کہ ان کی حکومت کے لئے چیلنج بن سکتی تھی۔ چنانچہ مامون رشید نے بھی امام رضا(ع) کو ولی عہد بنایا تھا۔ لیکن جب داخلی حالات سے مطئن ہوگیا تو ائمہ اور ان ے شیعوں کی اہانت کرنے لگا۔ ایسے ہی متوکل نے بھی جب فضا سازگار دیکھی تو علی(ع) سے بغض و حسد کا کھل کر اظہار کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے فرزند حسین(ع) کی قبر مبارک تک کھدوا ڈالی۔
ان ہی تمام باتوں کی بناء پر ہم یہ کہتے ہیں کہ " اہل سنت والجماعت " نے علی(ع) کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا تھا ہاں احمد بن حنبل کےبعد تسلیم کرنے لگے تھے۔
یہ بات صحیح ہے کہ سب سے پہلے احمد بن حنبل علی(ع) کی خلافت کے قائل ہوئے لیکن وہ اس سے اہل حدیث کو مطمئن نہ کرسکے ، جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں، کیونکہ وہ عبداللہ بن عمر کی اقتدا کرتے رہے۔
ظاہر ہے احمد ابن حنبل کی فکر کو لوگ اتنی آسانی سے قبول نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ اس کےلئے ایک طویل زمانہ درکار تھا۔ اٌصل حنابلہ کا اہل بیت(ع) کے سلسلہ میں انصاف دربننا اور ان کا تقرب ڈھونڈنے کا بھی ایک سبب تھا ۔ اور وہ یہ کہ خود کو اپنے دیگر سنی مذاہب مالکی، حنفی اور شافعی سے ممتاز کرلیں اور اس طرح اپنی تائیدکرنے والوں کادائرہ وسیع کرلیں ظاہر ہے اس کے لئے ایک فکر کا قائل ہونا ضروری تھا۔
مرور زمان کے تحت سارے " اہل سنت والجماعت" وہی کہنے لگے جو احمد ابن حنبل نے کہاتھا اور علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرلیا ۔ اور ان کے لئے اسی چیز کو واجب سمجھنے لگے جو دیگر تین خلفا کے لئے واجب سمجھتے تھے جیسے احترام اور رضی اللہ عنہ وغیرہ کہنا۔
کیا یہ اس بات پر بہترین دلیل نہیں ہے کہ اہل سنت والجماعت کا تعلق پہلے نواصب سے تھا جو کہ علی(ع) سے بغض رکھتے ہیں ان کی توہین و تنقیص کرتے ہیں؟
جی ہاں جب زمانہ گذر گیا ، ائمہ اہل بیت(ع) دنیا سے چلے گئے اور(بظاہر) نہیں لوٹیں گے اور حکام و بادشاہوں کا خوف ختم ہوگیا اور اسلامی خلافت ٹکڑوں میں بٹ گئی، اور غلام و مٖغل اور تا تار اس پر قابض ہوگئے دین میں اضمحلال آگیا اور اکثر مسلمان شراب و کباب اور لہو ولعب میں مبتلا ہوگئے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، نماز کو انھوں نے فراموس کردیا، شہوتوں میں غرق ہوگئے۔ نیک کاموں کو برا سمجھنے لگے۔ اور برے افعال کو نیک تصور کرنے لگے خشک وتر میں فساد پھیل گیا، اب مسلمان اپنے اسلاف کو رونے لگے۔ ان کی عظمتوں کو یاد کرنے لگے۔ ان کے دنوں کا نقشہ کھینچنے لگے اور ان دنوں کو سونے کا زمانہ کہنے لگے ہر چند کہ ان کے نزدیک افضل ترین زمانہ صحابہ کا تھا کیون کہ انھوں نے ہر شہروں کو فتح کیا تھا اور مشرق ومغرب میں اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالی تھی، قیصر و کسری ان کی سامنے ہیچ تھے۔ اس لئے وہ تمام صحابہ کر رضی اللہ عنہ کہنے لگے چونکہ علی ابن ابی طالب علیہماالسلام بھی صحابہ میں شامل تھے۔ لہذا انھیں بھی رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ اور جب اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہوگئے تو ان کے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ وہ علی علیہ السلام کو صحابہ کے زمرہ سے خارج کردیں۔
اور اگر علی علیہ السلام کو صحابہ کے زمرہ سے خارج کرنے کےلئے کہتے تو مصیبت میں پھنس جاتا اور ہر عاقل پر ان کی بات کا انکشاف ہو جاتا لہذا انھوں نے عوام فریبی کے لئے خلفائے راشدین میں سے علی(ع) کو چوتھا خلیفہ، باب مدینۃ العلم، رضی اللہ عنہ اور کرم اللہ وجہہ کہنا شروع کردیا۔
اہل سنت والجماعت سے ہمارا ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ اگر تم علی(ع) کوصحیح طور پر باب مدینۃ العلم تسلیم کرتے ہو تو اپنے دینی اور دنیوی امور میں ان کا اتباع کیوں نہیں کرتے؟
تم نے جان بوجھ کر باب علمکو کیوں چھوڑدیا اور ابو حنیفہ، مالک و شافعی احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کی تقلید کیوں کی، کیا یہ لوگ علم و عمل اور فضل و شعف میں علی(ع) سے آگے بڑھ گئے تھے، چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ اگر تمھارے پاس عقل ہوتی تو کبھی علی(ع) اور معاویہ کا موازنہ ہی نہ کرتے۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی تمام نصوص سے قطع نظر اور اس چیز سے صرف نظر کرتے ہوئے جو کہ نبی(ص) کے بعد علی(ع) کا اتباع تمام مسلمانوں پر واجب کرتی ہے، خود اہل سنت والجماعت میں سے کسی کا قول ہے کہ علی(ع) کے فضل ان کے سابق الاسلام ہونے ۔ راہِ خدا مین جہاد کر کے ان کے علم ، ان کے عظیم شرف اور ان کے زہد کو سب جانتے تھے۔ بلکہ اہل سنت علی علیہ السلام سے بخوبی واقف ہیں اور وہ شیعوں سے زیادہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ ( اس زمانہ میںاس قسم کی باتیں اکثر اہلِ سنت کیا کرتے ہیں)
ان لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ:
کہاں آگے بڑھے چلےجارہے ہو ذرا اپنے اسلاف اور علما کو بھی دیکھ لو جنھوں نے دو سو سال تک منبروں سے خضرت امیر المؤمنین علیہ السلام پر لعنت کی ہے ۔ ہم نے ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں سنا اور نہ تاریخ نے ہمیں بتایا کہ فلاں شخص نے علی(ع) پرلعنت کرنے سے انکار کردیاتھا یا فلاں شخص علی(ع) کی محبت کی بنا پر قتل کردیا گیا تھا۔ علمائے اہل سنت میں سے نہ ایسا کوئی تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ جو ایسا جرأت مندانہ کارنامہ انجام دے سکے اس کے برعکس وہ سلاطین و امراء اور حکام کے مقرب رہے ہیں کیوں کہ ان کی بیعت اور رضامندی سے عطیات ملتے تھے۔چنانچہ انھوں نے بیعت سے انکار کرنے والے ان بزرگوں کے قتل کے فتوے دئیے جو علی(ع) اور ان کی ذریت کے محب تھے۔ ایسے علما ہمارے اس زمانے میں بھی موجود ہیں۔
نصاری یہودیوں کو صدیوں سے اپنا دشمن سمجھتے چلے آرہے تھے اور جنابِ عیسی بن مریم کے قتل کا جرم انھیں کے سر تھوپتے تھے۔ لیکن جب نصاری میں ضعف پیدا ہوگیا اور عقائد میں پراگندگی پیدا ہوگئی اور اکثر کا مذہب الحاد بن گیا۔ اور کلیسا اس موقف کے لئے کباڑ گھر بن گیا جو علم و علما کے خلاف تھا۔ اور یہودی مضبوط ہوگئے اور جرات بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے عرب کے اسلامی علاقوں پرقبضہ کرلیا۔مشرق و مغرب میں انھوں نے اثر ونفوذ پیدا کر لیا اور اسرئیل حکومت بنالی تو بابائے کلیسا یوحنا بولس ثانی علما (احبار) یہود کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور انھیں جنابِ مسیح کے قتل کے جرم سے بری قرار دیدیتے ہیں۔
لوگ، لوگ ہیں زمانہ، زمانہ ہے۔