حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) کا مختصر تعارف
- شائع
-
- مؤلف:
- سید منذر حکیم اور عدی غریباوی
- ذرائع:
- اقتباس ازکتاب منارہٴ ھدایت جلد ۳ (سیرت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا)
شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور جناب خدیجہ(علیہا السلام) بنت خویلد کی ہیٹی ھیں-
آپ نے تاریخ بشریت کے سب سے زیادہ عظیم المرتبت والدین کی اغوش میں انکھ کھولی نیز جس طرح آپ کے والدگرامی نے تاریخ کارخ موڑا ھے اور چند سال کے اندر ھی جس طرح انسانیت کو جس برق رفتاری سے راہ ترقی پر گامزن فرما دیا اسکی مثال دنیا ئے بشریت میں کہیں نظر نہیں اتی ھے اسی طرح اہل تاریخ نے آپ کی والدہٴ گرامی جیسی جری دل اور بے لوث کسی دوسری خاتون کا تذکرہ بھی نہیں کیا جنھوں نے نور ھدایت کے بدلہ آپنے عظیم الشان شوہر نامدار کے قدموں پر آپنی ساری دولت نچھاور کردی-ایسے عظیم المرتبت والدین کی شفقت و محبت کے زیر سایہ جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)نے سفر زندگی کے زینے طے کرنا شروع کئے اور انہیں کی اغوش میں پروان چڑھیں اور ایسے گھر میں پرورش پائی جو آپ کے والد گرامی کی شفقتوں اور مہربانیوں سے معمور تھا جبکہ ان کے کاندھوں پر نبوت کا ایسا بار گراں تھاجس کو برداشت کر لینا پہاڑوں کے بس کی بات بھی نہ تھی،آپ جہاں کہیں تشریف لےجاتے قریش اور ان کے بچے یا نوکر چاکر ھر جگہ آپ کی گھات لگائے ھوئے دکھائی دیتے،جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)نے آپنی کمسنی کے باوجود تمام باتوں کا مشاھدہ فرماتی تھیں،نیز آپ نے ان کمر شکن مصائب و الام کا بوجھ ھلکاکرنے کےلئے آپنی والدہٴ گرامی کا ہاتھ بٹاتی رہیں اور آپ کے اوپرجو سنگین مصیبت بھی پڑی آپ اس کا مقابلہ کرتی رہیں اس کے ساتھ آپ کو اذیت و ازار اور ظلم و بربریت کی اس وادی پُر خار سے گذرنا پڑا جس نے ابتدائی مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا-
شہزادی کائنات(علیہا السلام) نے آپنی کمسنی سے ہی تبلیغ رسالت کی ازمایشوں میں زندگی کا اغاز کیاحتی کہ آپنے والد اور والدہٴ گرامی نیز دوسرے بنی ہاشم کے ساتھ شعب ابوطالب میں اقتصادی اور سماجی محاصرہ کو بھی دیکھا جب کہ محاصرہ کی شروعات میں آپ کی عمر دو سال سے زیادہ نہیں تھی-
تین سال تک جاری رھنے والا یہ تلخ محاصرہ اٹھا ہی تھا کہ آپ کی شفیق والدہٴ گرامی اور آپ کے بابا کے مہربان چچا جناب ابوطالب(علیہم السلام) کی وفات ہو گئی- اس وقت آپ کی عمر چھ سال بھی نہیں ہوئی تھی آپ ان مشکلات اور الآم و مصائب میں آپنے والد گرامی کو تسلی دیتی تھیں اور ان کی تنہائی میں ایک مونس غم ہونے کے ساتھ ساتھ قریش کی ایذار سانیوں کو برداشت کرنے میں ہر طرح سے رسالت کی شریک کار تھیں-
آٹھ سال کی عمر میں حضرت علی(علیہ السلام) اور(فاطمہ نام کی) بنی ہاشم کی محترم خواتین(جنہیں فواطم کھا جاتا ھے)کے ساتھ مدینہٴ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور جب تک حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی شادی نہ ہوگئی آپ آپنے والد گرامی کے ساتھ رہیں اور شادی کے بعد اس گھر کی بنیاد رکھی جو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے بعد عالم اسلام کا سب سے بلند و بالا اور عظیم گھر تھا اور بعد میں یہی گھر رسول اللہ کی پاک وپاکیزہ اور طیب و طاھر ذریت اورخداوندعالم کی طرف سے عترت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے کوثر(نسل)کےلئے ایک صدف پُر گھر میں تبدیل ھوگیا-
شہزادی دو عالم(سلام اللہ علیہا)نے تاریخ اسلام کے مشکل ترین دور میں ایک نمونہٴ عمل ہیوی اور ایک عالی مرتبت ماں کا بہترین کردار پیش کیا جس میں اسلامی تاریخ قدیم اور بوسیدہ رسم و رواج اور جاہلیت زدہ انسانیت کے درمیان مستقبل کےلئے اعلیٰ اور دائمی منصوبے تیار کررہی تھی ایسی جاہلیت جس میں عورت کی انسانیت ہی زیر سوال تھی اور جس میں ہیٹی کی اوقات ذلت و خواری کے بدنما داغ سے زیادہ کچھ نہ تھی
اس میں شہزادی کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رسالت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کی لخت جگر اور دین الٰہی کی اکلوتی ہیٹی تھیں کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ آپنے انفرادی، سماجی اور گھر یلوکردار سے ایک ایسا مجسم نمونہٴ عمل پیش کردیں جس میں رسالت کی تمام قدریں ایک ہی جگہ سمٹی ہوئی ھوں-
چنانچہ آپ نے عالم انسانیت کے سامنے یہ ثابت کر دکھا یا کہ ایک خاتون ہونے کے باوجود ھر لحاظ سے ایک کامل شخصیت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کے کرشمہٴ قدرت کی ایت کبریٰ بھی ہیں کیونکہ اسی نے جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیہا)کوبے حدعظمت و جلالت اورنورانیت سے نوازا ھے-
آپ حضرت علی(علیہ السلام) کی زوجہ اور اہل جنت کے سید و سردار فرزندان رسول مختار یعنی دو عظیم المنزلت ائمہ، امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) نیز جناب زینب و ام کلثوم جیسی مجاھد و صابرہ ہیٹیوں کی والدہٴ گرامی بھی ہیں جب کہ آپ کے والد گرامی کی وفات کے بعد آپ کے گھر اور ہیت وحی و رسالت کی حرمت کی پامالی کے وقت آپ کے اخری فرزند جناب محسن(علیہ السلام) نے آپ کے شکم میں ہی شھادت پائی اور اسی طرح آپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد اس مجاھدہ و شہیدہ ماںنے رسالت الہیہٰ کی حفاظت اور امت کو انحراف وگمراہی سے بچانے کےلئے راہ خدامیں سب سے پہلے قربانی پیش فرمائی ھے-
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے سخت ترین حالات میں قدم قدم پر آپنے والد گرامی اور شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور حد درجہ سعی و کوشش اور جہد مسلسل اور زبان وہیان کے ذریعہ اسلام کی نصرت و امداد فرمائی خاص طور سے اہلہیت رسالت(علیہم السلام) کی ترہیت میں ایک مثالی کردار پیش کیا جنہیں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنے بعد اسلام کی نصرت و حمایت کا فریضہ سپرد فرمایا تھا-
بالاخر اس تلخ ترین جہاد کے بعد آپ ہی سب سے پہلے انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملحق ہوئیں مگر اس عرصہ میں مشرکین اور منافقین کی خود سری اور بربریت کے خلاف مختلف مورچوں پر جہاد کی صفوں کو منظم کردیا اور ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئیں اور جس طرح منحرفین کا مقابلہ کرنے میںآپ کا منفرد مقام ھے اسی طرح عورتوں کی تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالنے میں بھی آپ کا آپنا ایک نمایاں مقام و مرتبہ ھے اور سچ تو یہی ھے کہ آپ جہاد وشجاعت،صبر و شھادت اور ایثار وقربانی کی حقیقی علمبردار ہیں کیونکہ کہ آپنی مختصر سی عمر میں ہی آپ نے ان تمام میدانوں میں بڑے بڑے نامور اور مایہ ناز لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑدیا ھے-
لہٰذا آپ کی مقدس و مطھر بارگاہ میں ھدیہٴ اسلام پیش ھے اس دن،جب آپ دنیا میں تشریف لائیں،جب جام شھادت نوش فرمایا اور جس دن زندہ اٹھائی جائیں گی اور عظمت و جلالت،شرف و منزلت اور کرامت و بزرگی کاھر جامہ آپ کے زیب تن ھوگا-