حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کی نشو ونما
- شائع
-
- مؤلف:
- سید منذر حکیم اور عدی غریباوی
- ذرائع:
- اقتباس ازکتاب منارہٴ ھدایت جلد ۳ (سیرت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا)
۱-آپ کی والدہٴ محترمہ حضرت خدیجہ(علیہا السلام) کی منزلت و مرتبہ
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے پہلی زوجہ ”جناب خدیجة بنت خویلد“کے والدین کا تعلق قریش سے تھا اور دونوں ہی جزیرہ نمائے عرب کے اعلیٰ ترین نجیب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے-
اس ارفع واعلیٰ نسب کے ساتھ ساتھ،نیک نامی، بہترین اخلاق اور نیک اوصاف و خصائل نیز پاکیزگیٴ کردار کی شھرت نے آپ کو ایک خاص بلندی عطا کی تھی،آپ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی سے پہلے سے ہی طاھرہ اور قریش کی عورتوں کی سردار کے طور پر پہچانی جاتی تھیں- اس کے ساتھ ہی آپ قریش کی مالدار اور ثروت مند خاتون تھیں آپ کا جاہ جلال بہت زیادہ تھا اور آپ کو دینداری آپنے گھرانے سے ورثہ میں ہی ملی تھی
جیسا کہ جب یمن کے بادشاہ ”تُبّع دوم“نے حجر اسود کو آپنے ساتھ یمن لے جانے کی کوشش کی تو آپنی دینی غیرت وحمیت کی بدولت آپ کے والد ”خویلد“ہی اس کے سامنے اھنی دیوار بن گئے اور اس کی طاقت اورلشکرکی کثرت کو کسی طرح خاطر میں نہ لائے جو ان کے دینی جذبہ کی بہترین سند ھے- جناب خدیجہ کے جد،اسد بن عبد العزی معاھدہٴ حلف الفضول کے اھم رکن تھے جس میں قریش نے یہ معاھدہ کیا تھا کہ مکہ میں کسی پر ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا چاھے وہ مکہ کارھنے والا ھو یا کہیں با ھر سے ایا ھواور وہ لوگ اس کی مددضرور کرینگے اور اسے اس کا حق وآپس دلائیں گے اس بارے میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشادفرمایا ھے:
<لقد شهدت فی دار عبدالله بن جدعان حلفاً مااٴحبّ اٴنّ لی به حمرالنعم،ولواُدعٰی به فی الاسلام لاٴجبت>(۱)
میں نے عبد اللہ بن جد عان کے گھر پر اس معاھدہ ”حلف الفضول “کا مشاھدہ کیا کہ اس کے بدلہ میں اگر مجھے سرخ اونٹ دیئے جائیںتو میں انہیں قبول نہیں کروں اور اگر مجھے اسلام میں بھی اس کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کرلوں- آپ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل یھودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے اور ان میں سے انہیں جو کچھ بھی اچھا لگتا تھا اس پر عمل پیرا رہتے تھے جسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ عیسائیوں اور یھودیوں کے ساتھ رہتے تھے،یا مکہ ان دونوںکا وطن تھا، بلکہ وہ بتوں کی عبادت و پرستش کو حقیر سمجھتے تھے اور انہیں ایک قابل اطمینان دین کی تلاش تھی-
مختصر یہ کہ جناب فاطمہ(علیہا السلام) کا تعلق اس گھر انے سے تھاجو علم وعمل اور دینداری کے میدان میں یگانہٴ روزگار تھا اور اس گھرانے والے حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کے دین حنیف پر قائم رھنے کے ساتھ ساتھ جزیرہ نمائے عرب میں دین حق کے ظھور کا شدت سے انتظار کر رھے تھے-
حضرت خدیجہ(علیہا السلام) کی تجارتی سرگرمیاں
قریش کے بڑے بڑے لوگوں نے جناب خدیجہ(علیہا السلام) کے پاس شادی کےلئے پیغام بھیجا اور آپ کے سامنے لمہی لمہی پیش کشیںبھی کیں لیکن آپ نے کسی کارشتہ قبول نہیں کیا اور آپ نھایت سکون و اطمینان اور بڑی پاکدامنی کے ساتھ اسی طرح زندگی بسر کرتی رہیں یھاں تک کہ آپ کی عمر چالیس سال ہوگئی-
جناب خدیجہ کے پاس ہیحد دولت تھی جسے آپ نے مہربند کرکے نہیں رکھا اور نہ ہی اسے سود خوری کےلئے استعمال کیا جبکہ اس زمانے میں سود ھر طرف رائج تھا بلکہ آپ اس مال سے تجارت کیا کرتی تھیں اور اس کےلئے نیک اور ایمان دار لوگوں سے کام لیتی تھیں اور اسی تجارت کے ذریعہ آپ کے پاس ایک بڑا سرمایہ جمع ھوگیا تھا-
محدثین کا ہیان کیا ھے کہ جناب خدیجہ(علیہا السلام) مختلف لوگوں کو اجرت دے کرتجارت کےلئے شام بھیجا کرتی تھیں انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی سے کچھ عرصہ پہلے آپ(علیہا السلام) نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش کش کی تھی کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایمانداری اور صداقت و غیرہ کے چرچے اس وقت ھر مرد و عورت اور چھوٹے بڑے کی زبان پر تھے لہٰذا، اگر وہ ان کا مال تجارت لے کرشام چلے جائیں تو ان کو دوسروں کے مقابلہ میںدو ھرا سرمایہ دیا جائے گا چنانچہ انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلہ میں آپنے چچا جناب ابو طالب(علیہ السلام) سے مشورہ کیا اور خدیجہ کی پیش کش کے مطابق شام کی طرف روانہ ھوگئے اس سفر میں جناب خدیجہ(علیھا السلام) نے قافلہ کی دیکھ بھال اور آپ کا خیال رکھنے کےلئے آپنے غلام میسرہ کو بھی آپ کے ساتھ روانہ کردیا
آپ کی برکتوں سے اس سفرتجارت میں اتنا فائدہ اور اتنی برکتیں سامنے ائیں جو اس سے پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہ اتی تھیں یہی وجہ تھی کہ قافلہ کے مکہ سے قریب پھنچنے سے پہلے ہی میسرہ تیزی کی ساتھ جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کی خدمت میں پھونچ گیا اور اس نے راستہ کے تمام واقعات اور” بحیرا راھب “سے ان کی ملاقات و غیرہ کی تفصیل آپ سے ہیان کردی-
جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی ذھانت اور دورہیںنگاھوں کا یہ اثر تھا کہ آپ نے اعلان رسالت سے پہلے بھی انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کے اندر،انوار رسالت کا مشاھدہ کر لیا تھا،اور اسی وجہ سے آپ نے ھر بڑے ادمی کے پیغام ازدواج کو ٹھکرادیا آپ کی نگاہ انتخاب صرف پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہی جا کر رکی اور آپ نے اس مبارک رشتہ کےلئے خود آپنے کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا جبکہ آپ کی بہترین مالی حالت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز زندگی کے درمیان بظاھرہیحد فاصلہ تھا-
تاریخ یعقوہی میں نقل ھوا ھے کہ جناب عمار ہیان کرتے ہیں:جناب خدیجہ(علیہا السلام) اور پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی کی تفصیل سب سے زیادہ مجھے معلوم ھے کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میری دوستی تھی،اور ایک دن ھم دونوں صفا ومروہ کے درمیان چلے جارھے تھے کہ اچانک خدیجہ اور ان کے ساتھ ان کی بھن ھالہ بھی وھاں پھونچیں جب انھوں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کودیکھا تو ان کی بھن ھالہ میرے پاس ائیں اور مجھ سے بولیں،اے عمار کیا تمھارے دوست کو خدیجہ سے کوئی دلچسپی ھے؟میں نے ان سے کھا خدا کی قسم مجھے نہیں معلوم!تب میں آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کھا جاوٴ ان سے کھدو کہ ھم فلاں دن تمھارے یھاں ائیں گے،
چنانچہ اس دن میں نے جناب خدیجہ کے چچا عمر وبن اسد کے گھر کسی کو بھیجا اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ریش مبارک پر روغن کی مالش کی آپ کو ایک عبا اوڑھائی پھر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنے چچاوں کے درمیان وھاں پھونچے جن میں سب سے اگے اگے جناب ابو طالب تھے انھوں نے مجمع کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور اس کے بعد ان دونوں کی شادی ہوگئی-
عمار مزید کہتے ہیں: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جناب خدیجہ(علیہا السلام) نے تجارت کےلئے اجیر نہیں بنایا تھا اور نہ ہی آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی کی مزدوری کی ھے
۲-پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور جناب خدیجہ (علیہا السلام) کی شادی
حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے عرب کے اس گھر میں انکھ کھولی جس کی شان و شوکت،عظمت و منزلت اور عزت و شرافت میں عرب کے کسی گھر کا کوئی مقابلہ نہ تھا آپ اسی میں پروان چڑھے اور بچپنے سے جوانی کی دھلیز پر قدم رکھا تو اسی کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام ارزوئیں بھی جوان ہونے لگیں
کیونکہ خداوندعالم کا ارادہ یہ تھا کہ حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش اس انداز سے ھو کہ آپ مستقبل میں رسالت کے سنگین بوجھ کو باسانی اٹھا سکیں اور اس الٰہی امانت کو لوگوں تک پھونچا دیں،اسی لئے آپ کی اس عظیم ذمہ داری اور عالمی رسالت ونبوت کے مطابق آپ کو الٰہی اور ربانی نظر لطف آپنے حصار میں لئے ھوئے تھی-
جب آپ کی عمر شریف پچیس سال ہوئی تو آپ کو ایسی شریک حیات کی ضرورت تھی،جو آپ کے معیار کے مطابق ھو اور آپ کے عظیم مقاصد میں آپ کا ہاتھ بٹاسکے اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس جہاد اور صبر و حوصلہ کی ضرورت تھی اس میں ھر مرحلہ پر سر بلند نظر ائے آپ کےلئے عین ممکن تھاکہ آپ بنی ہاشم کی جس دوشیزہ سے شادی کرنا چاہتے کرسکتے تھے
لیکن خدا کی مشیت نے چاھا کہ جناب خدیجہ کے دل کو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف موڑ دیاجائے آپ کادل آپ کی ذات والا صفات سے وابستہ ھو جائے آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اس پیش کش کو قبول فرمالیں اور اس طرح جناب خدیجہ(علیہا السلام) اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کارشتہ قائم ھو جائے-
جناب خدیجہ(علیہا السلام) آپنے شوہر نامدار حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے پناہ محبت دی اور ھمیشہ یہی سوچا کہ وہ محبت دے نہیں رہی ہیں بلکہ ھمیشہ یہی سمجھا کہ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت پاکروہ ھر سعادت سے ھم کنار ہوگئیں ہیں،آپ نے آپنی پوری دولت انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں پر نثار کردی مگر کبھی بھی یہ خاطر میں نہ لائیں بلکہ ھمیشہ یہی سمجھا کہ اس کے بدلے آپ کو ھدایت و ایمان کی ایسی ہیش قیمت دولت نصیب ہوگئی ھے جو دنیا کے تمام خزانوں پر بھاری ھے-
یہی وجہ تھی کہ دوسری جانب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنی تمام تر محبتوں کو ان کے حوالہ کرنے کے باوجود اسے اھمیت نہ دی بلکہ ھمیشہ جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کی فدا کاری کو بھی سراھا اور اس بارے میں یہ ارشاد فرمایا:”ما قام الاسلام الا بسيف علی ومال خديجة “اسلام نے چلنا نہیں شروع کیا(اسلام قائم نہیں ھوا)مگر علی کی تلوار اور خدیجہ کے مال کے ذریعہ یہی وجہ تھی کہ جب تک جناب خدیجہ زندہ رہیں انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی عورت سے شادی نہیں کی-
رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کی شادی خانہ ابادی کا واقعہ ان کی زندگی کا ایک اھم، دلچسپ اور تابندہ وروشن موڑھے،کیونکہ جناب خدیجہ(علیہا السلام)کےاندر استقلال نفس،خود اعتمادی اور ازادی ضمیر کی حکمرانی تھی،اور آپ بڑے بڑے صاحبان عقل و رشد افراد کی طرح تجارت کیا کرتی تھیں-
آپ نے بڑے بڑے نامور اور اہل دولت و زر اورصاحبان جاہ و حشم افراد کے پیغامات کو ٹھکرادیا اور ایسی عظیم شخصیت کے رشتہٴ زوجیت میں اگئیں جو یتیم اور تھی دست تھے-بلکہ وہ شوق وولولہ کے ساتھ اگے بڑہیں تاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی کی پیش کش کریں اور آپنا مہر بھی آپنے ہی مال سے ادا کرنے پر امادہ تھیں،چنانچہ جب پیغمبر اعظم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، جناب خدیجہ ۻسے شادی کےلئے چلے تو آپ جناب ابو طالب(علیہ السلام) اور آپنے دوسرے اعزاء و اقرباء کے ساتھ جناب خدیجہ کے چچا کے گھر پر پھونچے تو سید و سردار بطحانے سرور کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہٴ عقدکا اغاز ان الفاظ سے کیا:
<الحمد لربّ هذا البيت الّذی جعلنا زرع ابراهيم وذرّية اسمعيل، واٴنزلنا حرماً اٴمناً وجعلنا الحکام علی الناس، وبارک لنا فی بلدنا الذی نحن فيه،ثمّ انّ ا بن اٴخی يعنی محمداً( ص) ممّن لايوزن برجل من قريش الّا رجح به ولا يقاس به رجل الّا عظم عنه، ولا عدل له فی الخلق وان کان مقلا ً فی المال فانّ المال رفد جار وظل زائل، وله فی خديجة رغبة، وان کان جئنا ک لنخطبها اليک برضاها واٴمرها، والمهر علي فی مالی الذی ساٴلتموه عاجله واجله، وله وربّ هذاالبيت حظّ عظيم ودين شائع وراٴی کامل >-
حمدھے اس محترم گھر(خانہٴ کعبہ)کے رب کی جس نے ھمیں جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے شجرہ(نسل)اور جناب اسماعیل(علیہ السلام) کی ذریت میں قرار دیا ھے اور ھمیں حرم امن میں سکونت عطا کی اور ھمیں لوگوں کا حاکم قرار دیا اور ھمارے لئے ھمارے اس شھر میں برکت عنایت فرمائی-
امابعد:یہ میرا بھتیجا(یعنی محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان(مردوں) میں سے ھے کہ انہیں قریش کے جس مرد کے سامنے بھی کھڑا کیا جائے گا یہ اس سے بہتر نظر ائیں گے،اور کسی مرد سے ان کا موازنہ نہیں ھوگا مگر یہ کہ یہ اس سے عظیم ہی دکھائی دیں گے اور مخلوقات میں کوئی ان کا پاسنگ بھی نہیں ھے اگر چہ ان کے پاس مال کی قلت ھے مگر مال انے جانے والا اور زائل ھوجانے والا سایہ ھے،یہ خدیجہ سے شادی کے خواھشمند ہیں
لہٰذا ھم آپ کی خدمت میں خدیجہ کی رضایت کے ساتھ اس مبارک رشتہ کےلئے حاضر ھوئے ہیں-اور مہر میرے ذمہ ھے جسے میں خود آپنے مال سے ادا کروں گا،جب چاھے آپ لے سکتے ہیں ابھی یا بعد میں،اور اس گھر(کعبہ)کے رب کی قسم یہ ایک عظیم شان حصہ مشھوردین اور کامل واستواررائے کے مالک ہیں-
جب جناب ابو طالب(علیہ السلام) خاموش ھوگئے تو جناب خدیجہ کے چچا اگر چہ ایک مردذی علم تھے مگرجناب ابو طالب(علیہ السلام) کے رعب و دبدبہ اور ہیبت کی وجہ سے ان کی زبان گنگ ہو گئی اور وہ کوئی جواب نہ دے سکے،تب جناب خدیجہ ۻنے خود اس ذمہ داری کو ادا کیا اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ(سلام اللہ علیھا) کی شادی ہوگئی-
ایک روایت یہ بھی ھے کہ یہ ذمہ داری جناب خدیجہ نے آپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے سپرد کی تھی،چنانچہ جب وہ مسکراتے ھوئے اور بشاش انداز میں جناب خدیجہۻ کے گھر میں داخل ھوئے تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھ کر کھا اے ابن عم خوش امدید،شائد تم میری خواھش پوری کرکے ائے ھو،انھوں نے کھا:ھاں اے خدیجہ(علیہا السلام) تمہیں مبارک ھو،
اور میں تمھارا وکیل ھوں اور کل صبح سویرے ان شاء اللہ حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمھاری شادی کردوں گا-
جب جناب ابو طالب(علیہ السلام) پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقد کا(مشھور و معروف)خطبہ پڑھ چکے اور عقد تمام ھوگیا تو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب ابو طالب کے ساتھ جانے کےلئے کھڑے ھوئے تو جناب خدیجہ نے کھاآپ آپنے گھرہی توجائیں گے؟تومیرا گھر آپ کا گھر ھے اور میں آپ کی کنیز(شریکہٴ حیات)ھوں-
جب اس مبارک و مسعود شادی کی تمام رسومات نھایت سادگی سے مکمل ہوگئیں تو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب خدیجہ کے گھر تشریف لےگئے یہی وہ گھر تھا جس کے در و دیوار، دین و ایمان کی مجسم اور عظیم نشانی اور آپنی بے زبانی کے باوجود پیغمبر کی تبلیغ دین،آپ کے جہاد،صبر،اور زحمتوں اور مشکلوں کا اعلان کرتے ھوئے نظر ائے-
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی منزلت ومرتبہ
حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی برکتوں سے تاریخ عالم میں ایک ایسا نیا گھرانہ عالم وجود میں سامنے ایاجو انس و محبت،سعادت و نیک بختی اور مثالی گھریلوالفت اور ھم اھنگی سے معمور تھا یہی وجہ ھے کہ عورتوں میں سب سے پہلے جناب خدیجہ(علیہا السلام) نے ہی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان کا اعلان کیا اور آپ کے اس مقدس مقصد کی خاطر آپنی تمام تر کوششیں وقف کردیں،اور آپنی دولت آپ کے قدموں میں رکھ کر یہ کہتی ہوئی نظر ائیں:میری تمام دولت آپ کی خدمت میں حاضر ھے آپ کو اس کے بارے میں مکمل اختیار حاصل ھے آپ خدا کے دین کی تبلیغ اور اسکی نشر واشاعت میں اسے جس طرح اور جہاں چاہیں خرچ کرسکتے ہیں-آپ(علیہم السلام) نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہ کر قریش کی ایذارسانیوںاور ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مشکلات کو بھی برداشت کیا،
یقیناً آپ کا یہ بے مثال اخلاص،مستحکم ایمان،اور سچی محبت اسی لائق تھی کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی آپ کو اسی کے شایان شان محبت،اخلاص اور عزت و توقیر سے نواز یں آپ نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ایسی قدر ومنزلت پیدا کرلی تھی کہ آپ کی وفات کے مدتوں بعد بھی انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب و ذھن کے صفحات سے اس کے نقوش کسی طرح بھی ھلکے نہیں ھوئے تھے اور آپ کی دوسری ازواج میں کوئی بھی اس مرتبہ کو حاصل نہیںکرسکی حتی کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف صاف ارشاد فرمایا:”وخير نساء امتی خديجة بنت خويلد“
میری امت میں سب سے بہترین خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں-
ام الموٴمنین عائشہ ہیان کرتی ہیں کہ جب کبھی بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کا تذکرہ کرتے تھے تو آپ ان کی تعریف اور ان کےلئے استغفار کرنے سے نہیں تھکتے تھے،چنانچہ ایک دن آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا ذکر کیا تو مجھ سے رھا نہ گیا میں نے کھا:وہ ایک بڑہیا کے سوا کیا تھیں؟اور اب تو خداوندعالم نے ان کے بدلے آپ کو ان سے بہترہیویاں عطا کردی ہیں!وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا سخت غصہ ایا کہ آپ کی پیشانی کے اوپر کے بالوںمیں جنبش ہونے لگی اور آپ نے فرمایا:
<والله مااٴخلف لی خيراً منها، لقد آمنت هی اذ کفرالناس، وصدّقتنی اذ کذّبنی الناس، واٴنفقتنی مالها اذ حرمنی الناس، و رزقنی الله اٴولادها اذ حرمنی اٴولاد النساء> -
”خدا کی قسم مجھے اس سے اچہی ہیوی ھرگز نہیں ملی وہ اس وقت میرےاوپرایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کررھے تھے،اور ایسے حالات میں انھوں نے میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارھے تھے،اور آپنا مال اس وقت میرے لئے خرچ کیا جب سب نے مجھے محروم کررکھا تھا اور ان کے ذریعہ خداوندعالم نے مجھے اولاد سے نوازا جبکہ کسی دوسری زوجہ سے میری کوئی اولاد باقی نہ رہی “-
وہ کہتی ہیں کہ میں نے آپنے دل میں کھا!خدا کی قسم اب کبھی بھی میں ان کی برائی نہیں کروں گی-
ایک روایت میں ھے کہ جناب جبرئیل رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ائے اور کھا:
<یا محمد! هذه خدیجة قد اٴتتک فاقراٴها السلام من ربّها، و بشّرها بهیت فی الجنة من قصب، لا صخب فیه ولا نصب > -
”اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! یہ خدیجہ کو آپنے رب کی طرف سے سلام پھنچادیجئے اور انہیں جنت میں تازہ موتیوں سے بنے ھوئے ایسے گھر کی بشارت دیدیجئے جسمیں نہ کوئی شور شرابہ ھوگا اور نہ کوئی مرض اور ہیماری ھوگی“
یہی وجہ تھی کہ انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی سہیلیوںکی بھی ہیحد عزت و توقیر کیا کرتے تھے جیسا کہ انس کا ہیان ھے:کہ جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میںکوئی ھدیہ لایا جاتا تھا تو آپ حکم دیدیتے تھے کہ:
<اذهبوا الی بيت فلانة فانها کانت صد يقة لخديجة، انّها کانت تحّبها>-
”اسے فلاںخاتون کے گھر لے جاوٴ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی ہیں،اور وہ انہیں چاہتی تھیں“-
روایت میںھے کہ جب کبھی آپ کوئی بکری ذبح کراتے تھے تو فرماتے تھے:”ارسلو الی اصدقاء خدیجة…“اسے خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بھیج دوچنانچہ ام الموٴمنین عائشہ نے ایک دن آپ سے اس بارے میں پوچھ ہی لیا،تو آپ نے فرمایا:”انی لاُحب حیبها“میں ان کی سہیلیوں سے محبت رکھتا ھوں،صرف رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں ہی جناب خدیجہ کی یہ عزت و توقیراور منزلت نہ تھی-بلکہ خداوندعالم کے نزدیک بھی آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا اس لئے اس نے آپ کو جنت میں عظیم درجہ عنایت فرمایا ھے،جس کی خبر رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں دی ھے:
<اٴفضل نساء أهل الجنة خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمد، و مريم بنت عمران، و آسية بنت مزاحم امراٴة فرعون>-
جنت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد،فاطمہ(سلام اللہ علیھا) بنت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،مریم بنت عمران،اور فرعون کی زوجہ اسیہ بنت مزاحم ہیں-
جناب خدیجہ(علیہا السلام) تبلیغ رسالت کے ھر کام میں انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور خداوندعالم نے آپ(علیہا السلام) کے ذریعہ آپ کا بوجھ بڑی حد تک ھلکا کردیا تھا کیونکہ جب کبھی بھی آپ قریش کی غنڈہ گردی،ایذارسانی، تکذیب اور مخالفتوں کی وجہ سے رنجیدہ ھوتے تھے
تو آپ ہی انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لبوں کی مسکراہٹ اور تازگی قلب وروح کا سامان فراھم کرتی تھیں چنانچہ گھر وآپس پھنچنے کے بعد انحضرت کو کسی تھکن کا احساس نہیں رہتا تھا اور آپ کےلئے یہ تمام دشوار مرحلے اسان ھوجاتے تھے،آپ جناب خدیجہ(علیہا السلام) کے ساتھ بڑے سکون سے تھے،اور ان سے آپنے اھم کاموں میں مشورہ بھی فرماتے تھے-
۳-جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کی خلقت کے بارے میں اللہ تعالی کا حکم
شہزادی کائنات کی خلقت اور پیدائش کےلئے خداوندعالم نے ایسے صالح ترین گھر کا انتظام فرمایا کہ آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور والدہٴ گرامی جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاہیں-
خداوندعالم نے آپ کی پیدائش اور خلقت کے بارے میں خاص اہتمام فرمایا تھاجس کا تذکرہ متعدد روایتوں میں موجود ھے-اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مختلف مقامات پر اس کی جانب اشارہ فرمایاھے:
ایک روایت میں ھے کہ ایک روز نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابطح کے مقام پر تشریف فرماتھے تو آپ کی خدمت میں جناب جبرئیل نازل ھوئے آپ نے اواز دی:
< يا محمد! العلي الاٴعلٰی يقرئک السلام، وهو ياٴمرک اٴن تعتزل خديجة اٴربعين صباحاً > ”اے محمد:علی و اعلیٰ(خدا)نے آپ کو سلام کھا ھے اور اس نے یہ حکم دیا ھے کہ آپ چالیس دن تک خدیجہ سے دور رہیں“چنانچہ آپ نے جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کے پاس جناب عمار یاسر کو بھیجا اور انہیں اس الٰہی حکم سے باخبر فرمایا،اس دوران آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس دن تک دن میں مسلسل روزہ رکھتے تھے اور رات بھر عبادت خدا کیا کرتے تھے،جب چالیس روز پورے ھوگئے تو جبرئیل(علیہ السلام) پھر نازل ھوئے اور کھا:< يا محمد! العلي الاٴعلٰی يقرئک السلام ياٴمرک اٴن تتأهّب لتحيته وتحفته >-
”اے محمد علی اعلیٰ(خدا)نے آپ کو سلام کھا ھے اور یہ حکم دیا ھے کہ آپ اس کے ھدیہ اور تحفہ کےلئے تیار ھوجائیں “ابھی نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح تھے کہ میکائیل ایک سینی(طبق)لئے ھوئے نازل ھوئے جس پر سُندس کارومال پڑا ھوا تھا،اسے انھوں نے انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا:تب جبرئیل نے کھا:
< يا محمد! ياٴمرک ربّک اٴن تجعل الليلة افطارک على هذا الطعام >-
اے محمد آپ کے رب نے کھا ھے کہ اج رات آپ اسی کھانے سے افطار کیجئے گا“چنانچہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیر ھوکر کھانا تناول فرمایا اور پانی پی کرجب بالکل سیراب ھوگئے،تو نماز پڑھنے کےلئے کھڑے ھوئے جبرئیل نے اگے بڑھ کر کھا:
< الصّلاة محرمة عليک فی وقتک حتی تاٴتی منزل خديجة، فانّ الله عزّوجلّ آلی علی نفسه اٴن يخلق من صلبک فى هذه اللبلة ذربة طببة >
اس وقت آپ کے اوپر نماز حرام ھے جب تک آپ خدیجہ کے گھر نہ چلے جائیں،کیونکہ اللہ تعالی عزوجل نے آپنے اوپر یہ فرض کیا ھے کہ اج رات آپ کے صلب سے ایک پاکیزہ نسل خلق فرمائے،
یہ سنکر رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کے گھر کی طرف روانہ ھوگئے-
جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) ہیان فرماتی ہیں:کہ مجھے تنہائی سے انسیت ہوگئی تھی،چنانچہ جب رات ہوگئی میں نے آپنا سر ڈھک لیآپردے ڈال دئے اور آپنا دروازہ بند کرلیا اور آپناورد پڑھنا شروع کردیا- چراغ خاموش کردیا، اور آپنے بستر پر اکر لیٹ گئی،اس رات نہ میں بالکل سوئی ہوئی تھی اور نہ ہی بالکل جاگ رہی تھی،کہ اچانک مجھے آپنا دروازہ کھٹکھٹانے کی اواز سنائی دی، میں پکارکر بولی:”کون اس دروازہ کو کھٹکھٹارھا ھے “جسے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کوئی اور نے نہیں کھٹکھٹاتا؛
…جناب خدیجہ(علیہا السلام) کہتی ہیں کہ رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتھائی شیریںانداز اور دلنشیں لہجہ میں اھستہ سے فرمایا:<افتحی يا خديجة، فانّی محمّد >-
اے خدیجہ دروازہ کھولو میں محمد ھوں،میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تشریف لے ائے،اس مالک کی قسم جس نے اسمان کو بلند فرمایااور پانی کو جاری کیا ھے ابھی نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے دور بھی نہ ہونے پائے تھے کہ مجھے آپنے شکم میں فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے وجود(کی سنگینی)کا احساس ھوگیا-
۴-جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) سے جناب خدیجہ(علیہا السلام) کی انسیت:
جب جناب خدیجہ ۻنے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی کی تھی تو مکہ کی عورتوں نے آپ سے ملنا جلنا بالکل بند کردیا تھانہ وہ آپ سے بات کرتی تھیں اور نہ ہی آپ سے ملاقات کرتی تھیں لیکن جب جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کا نور آپ کے شکم مبارک میں منتقل ھوگیا،اس کے بعد جب کبھی بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھرسے باھر تشریف لےجاتے تھے
تو جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) شکم کے اندر سے ہی آپ سے گفتگو کیا کرتی تھیں،جس سے آپ کو سکون اور راحت نصیب ھوتی تھی،اسی دوران ایک دن پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپنے گھر میں داخل ھوئے تو آپ نے سنا کہ خدیجہ کسی سے باتوں میں مشغول ہیں،آپ نے پوچھا:
<يا خديجة! من تکلّمين! >-
اے خدیجہ تم کس سے گفتگو کررہی ھو؟انھوں نے کھا یا رسول اللہ،جب میں گھر میں اکیلی رہتی ھوں تومیرے شکم میں موجود بچہ مجھ سے باتیں کرتا ھے،یہ سن کر انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے”اور فرمایا:
<يا خديجة!هذا اٴخی جبرئيل(عليه السلام)يخبرنی اٴنّها ابنتی، و اٴنّها النسمة الطاهرة المطهّرة، واٴنّ الله تعالی اٴمرنی اٴن اُسميّها((فاطمة)) و سيجعل لله تعالی من ذرّيتها اٴئمة يهتدی بهم المؤمنون>-
”اے خدیجہ،میرے بھائی جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ھے کہ یہ میری ہیٹی ھے اور یہ طاھرہ و مطھرہ ھے اور خداوندعالم نے مجھے یہ حکم دیا ھے کہ اس کا نام فاطمہ رکھنا- اور خداوندعالم اس کی نسل میں ایسے ھادی پیدا کرے گا جن سے مومنین ھدایت حاصل کریںگے- روایت ھے کہ جب کفار نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا تو اس وقت تک جناب خدیجہ کےلئے یہ واضح ھوچکا تھاکہ فاطمہ(سلام للہ علیھا) ان کے شکم مبارک میں پرورش پارہی ہیں،تو جناب خدیجہ نے کھا:جب کہ آپ بہترین رسول اور نہی ہیں تو جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے ان کے شکم کے اندر ہی ان کو یوں تسلی دی:اے والدہٴ گرامی آپ غم نہ کریں اور پریشان نہ ھوں ہیشک اللہ میرے والد کے ساتھ ھے ہیشک جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کے ابتدائی سخت ترین دور سے ہی آپ کے پہلو بہ پہلو ثابت قدم رہیں آپ نے عورتوں کے بائیکاٹ کاسامنا بھی کیا ان تمام مشکلات پر صبر و تحمل اور تبلیغ دین کےلئے راہ خدا میں آپنی پوری دولت لٹادینے کے عوض اللہ تعالیٰ نے جناب خدیجہ کی گود کو ایسی عظیم الشان ہیٹی کی دولت سے اباد کردیا جسکی نسل اور ذریت طاھرہ کی کوئی مثال کائنات میں کہیں نظر نہیں اتی ھے-
۵-ولادت حضرت فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا)
جنا ب خدیجہ(علیہا السلام) کےلئے انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں اور اس مبارک و مسعود بچی کی ولادت کا وقت بالکل نزدیک آپھنچاجو دنیا میں قدم رکھنے سے پہلےبھی(شکم مادرمیں)آپ کی انیس و مونس تھی اور جناب خدیجہ کو اس کے دیدار کا شدت سے انتظار تھا،چنانچہ جب ولادت کا وقت بالکل نزدیک اگیا تو جناب خدیجہ نے قریش کی عورتوںکو اس نازک اور سخت گھڑی میں آپنی مدد کےلئے بلایا لیکن انھوں نے آپ کو یہ صاف صاف جواب دے دیا چونکہ تم نے ھمارا کھنا نہیں مانا ھے اور ابو طالب کے یتیم حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی کرلی ھے جن کے پاس نہ کوئی دولت ھے اور نہ سرمایہ،لہٰذا ھم تمھارے یھاں نہیں اسکتے اور نہ ہی ھمیں تم سے کوئی مطلب ھے جس سے جناب خدیجہ کو شدیدملال ھوا،آپ اسی غم سے دوچار تھیں کہ آپ نے کیا دیکھا کہ چار بلند قامت ہی ہیاں ائی ہیں جو بالکل بنی ہاشم کی خواتین کی طرح ہیں آپ انہیں دیکھ کر گھبرا گئیں،ان میں سے ایک ہی ہی نے کھا،اے خدیجہ گھبرائیے نہیں،ھم کوآپ کے پروردگار نے بھیجا ھے ھم آپ کی بھنیںہیں،میں سارہ ھوں،یہ اسیہ بنت مزاحم ہیں،یہ جنت میں آپ کی سہیلی ھوں گی،اور یہ مریم بنت عمران ہیں اور یہ کلثوم جناب موسیٰ بن عمران کی بھن ہیں،ھمیں خداوندعالم نے اس نازک گھڑی میں آپ کی مدد کرنے کےلئے بھیجا ھے چنانچہ ان میں سے ایک ہی ہی آپ کے دا ھنی طرف اور دوسری آپ کے بائیں طرف،تیسری ہی ہی سامنے اور چوتھی پشت کی طرف ہیٹھ گئیں،پھر پاک وپاکیزہ انداز میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کی ولادت ہوئی زمین پر آپ کے قدم اتے ہی آپ کے جسم اطھر سے ایک ایسا نور چمکا جس کی روشنی مکہ کے گھرگھر میں پھونچ گئی،پھر آپ کے سامنے ہیٹہی ہوئی ہی ہی نے بچی کو اب کوثر سے غسل دیا،اور دو بالکل سفید کپڑے نکالے،ایک کے اندر شہزادی کو لپیٹ دیا اور دوسرے کو مقنعہ کی طرح آپ کے سر پر باندھ دیا،
پھر انھوں نے آپ سے بات کرنا چاہی تو جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے پہلے کلمہٴ شھادتین پڑھا اور پھر سب ہی ہیوں کانام لے کر ان کو سلام کیا،یہ منظر دیکھ کر وہ ھسنے لگیں اور کھا اے خدیجہ اسے آپنی اغوش میں لیجئے یہ طاھرہ و مطھرہ اور زکیہ ومبارکہ ھے خدا آپ کےلئے اسے مبارک قرار دے اور آپ کی نسل میں اضافہ فرمائے،جناب خدیجہ(علیہا السلام) نے مسکراتے ھوئے بچی کو آپنی اغوش میں لے کر اسے آپنے سینہ سے لگالیا-
شہزادی کائنات(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جب جناب خدیجہ (علیہا السلام) کو خدا نے ہیٹا عنایت فرمایا تھا تو آپ نے انہیں دودھ پلانے کےلئے دایا کے حوالہ کردیا تھا مگر جناب فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کودودھ پینے کےلئے جناب خدیجہ(سلام اللہ علیھا) نے کسی کے حوالہ نہیں کیا-
۶-تاریخ ولادت
مورخین کے درمیان آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میںقدرے اختلاف ھے البتہ شیعہ امامیہ مورخین کے نزدیک مشھوریہی ھے کہ آپ کی پیدائش ۲۰ جمادی الاخریٰ بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی تھی جبکہ بعض دوسرے مورخین نے بعثت سے پانچ سال پہلے کی تاریخ بھی ذکر کی ھے- جنا ب ابو بصیرۺ نے حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ھے کہ آپ نے فرمایا:
<ولدت فاطمة فی جمادی الآخرة يوم العشرين سنة خمس و اٴربعين من مولد النبی(صلی الل عليه وآله وسلم)، فاٴقامت بمکة ثمان سنين و بالمدينة عشر سنين، و بعد وفاة اٴبيها خمسة و سبعين يوماً، و قُبضت فی جمادی الآخرة يوم الثلاثاء لثلاث خلون منه سنة احدی عشرة من آله جرة >-
جناب فاطمہ کی ولادت ۲۰ جمادی الاخریٰ کو،پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے ۴۵ سال بعد ہوئی تھی،آپ مکہ مکرمہ میں اٹھ سال اور مدینہ میں دس سال رہیں اور آپنے والد گرامی کے بعد ۷۵دن تک زندہ رہیں،اور منگل کے دن ۳جمادی الاخریٰ ۱۱ھ میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں-
آپ(علیہ السلام) کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
صدیقہ:یعنی آپ بہت تصدیق کرنے والی تھیں کیونکہ آپ آپنے والد گرامی کی مسلسل تصدیق کرنے والی، اور آپنے قول و فعل اور ھر لحاظ سے سچی تھیں اسی لئے آپ کو صدیقہ کبریٰ کھا جاتاھے-صدیوں سے شہزادی کی یہی شناخت اور پہچان ھے- جیسا کہ آپ کے پوتے امام صادق(علیہ السلام) سے منقول ھے-
آپ کو مبارکہ اس لئے کھا جاتا ھے کہ آپ(سلام اللہ علیھا) کی وجہ سے بے حد خیر اور برکتیں نازل ہوئی ہیں اور قران مجید نے ا پ کو اسی لئے کوثر کھا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل صرف آپ ہی کے ذریعہ اگے بڑہی ھے اور آپ ائمہ اطھار اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی پاک و پاکیزہ نسل کی ماں ہیں جنھوں نے آپ کی رسالت و نبوت کی حفاظت فرمائی اور ھمیشہ ظالموں کے مقابلہ میں ڈٹے رھے اس طرح آپ ہی وہ خیر کثیر یا اس کا سب سے اھم مصداق ہیں جو خداوندعالم نے آپنے پاک رسول کو عطا فرمایا تھا اور اس کے بارے میں سورہٴ کوثر اج بھی بہترین گواہ ھے-
جناب ابن عباس سے روایت ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ھے:
<ابنتی فاطمة حوراء آدمية،لم تحض ولم تطمث، و انّما سمّاها فاطمة لاٴنّ الله فطمها و محبيها عن النار >-
میری ہیٹی فاطمہ انسانی حور ھے جو ماھواری اور ولادت کے وقت کی الودگیوں سے پاک ھے- اور اس کانام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ھے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو اور اس کے چاھنے والوں کو جھنم سے دوررکھا ھے-
آپ ہی نے یہ بھی فرمایاھے:
< اٴن فاطمة حوراء انسية، کلّما اشتقت الی الجنّة قبّلتها>-
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: فاطمہ انسانی پیکر میں ایک حور ہیں، چنانچہ مجھے جب بھی جنت کا اشتیاق ھوتا ھے تو میں انہیں پیار کرتا ھوں-
انس بن مالک کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) بدر منیر اور گھٹاوٴں کے پیچھے سے نکلنے والے سورج کی طرح ہیں، آپ(سلام اللہ علیھا) سفید رو اور سرخ رخسار والی تھیں اور آپ(سلام للہ علیھا) کے بالوں کارنگ سیاہ تھا نیز آپ تمام لوگوں میں رسول اللہ سے سب سے زیادہ مشابہ تھیں-
آپ کو اس لئے طاھرہ کا لقب دیا گیا کہ آپ ھر برائی اور گندگی سے پاک و پاکیزہ ہیں اورآپ نے کبھی بھی عورتوں کی مخصوص عادت نہیں دیکہی جیسا کہ امام محمدباقر(علیہ السلام) کی روایت ھے نیز قرآن مجید نے آیہٴ تطہیر میں ھر برائی اور گندگی سے آپ کی طھارت کی گواہی دی ھے- آپ کو اس لئے راضیہ کھا جاتا ھے کہ خداوندعالم نے آپ کےلئے دنیا کی جو تلخیاں اور مشقتیں نیز مصائب و آلام مقدر کردیئے تھے آپ اس پر راضی تھیں اور آپ کا پروردگار آپ سے خوش ھے اسی لئے آپ مرضیہ بھی ہیں جس کی صراحت قرآن کریم نے سورہٴ” دھر“ میں کی ھے کہ آپ کا پروردگار آپ کی سعی سے راضی ھوگیا اور آپ کو روز قیامت سے امان دیا اور آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جن سے اللہ راضی ھے اور وہ اللہ سے راضی ہیں”رضی اللہ عنھم و رضواعنہ“ اور آپ کے اندر خوف پروردگار بھی حد کمال تک موجود تھا جس کےلئے آپ کی سیرت کو ملاحظہ کیا جاسکتا ھے-
آپ کو اس لئے محدثہ کھا گیا ھے کہ آپ سے ملائکہ نے اسی طرح گفتگو کی تھی جس طرح جناب مریم اور مادر جناب موسیٰ جناب ابراہیم کی زوجہ جناب سارہ کی تھی کہ جب ان کو اسحاق اور پھر ان کے بعد یعقوب کی ولادت کی خوشخبری سنائی تھی-
آپ کی تعظیم کےلئے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو ”ام اہیھا “جیسی کنیت عطا فرمائی کیونکہ آنحضرت کے نزدیک محبت و رفعت میں کوئی بھی آپ کا ھمسر نہیں ھے اور آپ سے آنحضرت اسی طرح پیش آتے تھے جس طرح ایک ہیٹا آپنی والدہ کا احترام کرتا ھے
اور آپ بھی پیغمبر کے ساتھ اسی طرح پیش آتی تھیں جس طرح ایک ماں آپنی اولاد کا خیال رکھتی ھے- کیونکہ آپ ھمیشہ آنحضرت کی خدمت گذاررہیں ان کے زخموں کی مرھم پٹی اور ان کی پریشانیوں کو کم کرتی رہتی تھیں-
آپ کا ایک لقب ام ائمہ بھی ھے کیونکہ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مبارک خبر دی ھے کہ تمام ائمہ آپ کی اولاد سے ھوں گے اور مھدی آپ کی نسل میں ھوں گے-