امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) اپنے شوہر نامدار کے گھر میں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

جب حضرت علی(علیہ السلام) اور جناب فاطمہ(علیھا السلام) کی شادی ہوگئی تو حضور اکرم نے حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمایا: ”اطلب منزلاً “ایک گھر تلاش کرو، تو حضرت علی(علیہ السلام) نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے ذرا فاصلہ پر ایک جگہ تلاش کی اور وھاں آپناگھر تعمیر کرلیا-  
تو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن آپنی ہیٹی کے گھر تشریف لائے اور ان سے فرمایا: ” انّی اريد اٴن احوّلک الي“میں یہ چاہتا ھوں کہ تمہیں آپنے نزدیک منتقل کرلوں، تو آپ نے رسول اللہ سے عرض کی:”فکلِّم حارثة بن النعمان اٴن يتحوّل عنّی “ آپ حارثہ بن نعمان سے بات کرلیں تاکہ وہ ھم سے آپنا گھر تبدیل کرلیں تو رسول اللہ نے فرمایا:”قد تحوّل حارثة عنّاحتٰی قد استحيیت منه“ حارثہ سے ھم پہلے ہی آپنی جگہ تبدیل کرچکے ہیں لہٰذا اب مجھے ان سے شرم آئے گی، ادھر یہ خبر اڑتی اڑتی حارثہ تک پھنچ گئی وہ نبی اکرم کے پاس آئے اور عرض کی: یا رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ مجھے اطلاع ملی ھے کہ آپ فاطمہ(علیہا السلام) کو آپنے پاس منتقل کرنا چاہتے ہیں اس کےلئے آپ کی خدمت میں میرے یہ گھر حاضر ہیں جو بنی نجار کے گھروں میں آپ کے گھر سے سب سے زیادہ نزدیک ہیںمیں اور میرا مال سب کچھ اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بخدا جو مال آپ مجھ سے لیں گے وہ مجھے اس مال سے زیادہ پیارا ھے جسے آپ میرے لیے چھوڑ دیں گے تو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے فرمایا:  ”صدقت، بارک الله علیک “تم صحیح کہہ رھے ھو اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عنایت فرمائے-  تو رسول اللہ نے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کو جناب حارثہ کے گھر میں منتقل کرادیا- 
جناب فاطمہ(علیہا السلام) آپنے بابا کے گھر سے آپنے شوہر  گرامی کے گھر میں منتقل ہوئیں یا یہ کھا جائے کہ آپ نبوت و رسالت کے گھر سے امامت و ولایت کے گھر تشریف لے آئیں آپ کی زندگی سراسر قداست و پاکیزگی کا پیکراور اس میں ھر طرف عظمت،زھد اور سکون حیات کی جلوہ نمائی تھی،آپ آپنے شوہر  نامدار کے دین اور آخرت میں ان کی معاون و مددگار دکھائی دیتی ہیں-  
حضرت علی(علیہ السلام) جناب فاطمہ(علیھا السلام) کا احترام ھمیشہ ان کے شایان شان انداز سے کیا کرتے تھے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ آپ کی شریکہٴ حیات تھیں بلکہ اس لئے کہ وہ پوری کائنات میں رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی سب سے زیادہ چہیتی، عالمین کی عورتوں کی سرور و سردار تھیں اور ان کا نور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور کا حصہ تھا نیز یہ کہ آپ مجموعہٴ فضائل و کمالات تھیں-  
حضرت علی(علیہ السلام) اور جناب فاطمہ(علیہا السلام)، حارثہ بن نعمان کے گھر میں کتنے دن تک مقیم رھے تاریخ میں اس کی کوئی حتمی مدت نہیں لکہی ھے البتہ اتنا ضرور ھے کہ جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنی مسجد سے ملا کر آپ کا گھر بنوا دیا، اور ازواج نہی کے حجروں کی طرح اس کا دروازہ بھی مسجد نبوی کے اندر کی طرف کھول دیا تو جناب فاطمہ(علیہا السلام) آپنے اس نئے گھر میں منتقل ہوگئیں جو اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے گھر کے پڑوس میں اور ان سے بالکل ملا ھوا تھا-  
یقینا ایساھرگزنہیں تھا کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اس گلدستہٴ نبوت کو یونہی چھوڑ دیتے اور اس کی دیکھ بھال نہ کرتے اور اس کا خیال نہ رکھتے، بلکہ ان دونوں حضرات نے ھمیشہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے زیر سایہ بلکہ آپ کے آنگن میں ہی زندگی کی بھاریں دیکہی ہیں، بلکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توجناب فاطمہ(علیہا السلام) کو ان کی شادی کے بعد بھی اس درجہ آپنی شفقت و محبت اور نصیحت سے نوازا
کہ کسی اور پر آپ کی ایسی عنایتیں نہ تھیں آپ کے بابا نے آپ کو زندگی کے معنی سمجھائے اور آپ کو یہ تعلیم دی کہ انسانیت ہی زندگی کا جوھر ھے اور ازدواجی زندگی کی بنیادیں مال و دولت، جواھرات و محلات اور فضول رسم و رواج کے بجائے ھمیشہ اخلاقیات اور اسلامی اقدار پر قائم ھوتی ہیں-  
آپنے شوہر  نامدار کے ساتھ جناب فاطمہ(علیھا السلام) نھایت سکون و اطمینان اور خوشی و مسرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگیں، سادگی آپ سے کبھی جدا نہیں ہوئی اور آپ کا گھر ھمیشہ سادہ زیستی کا نمونہ بنا رھا، واقعا آپ ایک مثالی ہیوی ہیں، حضرت علی(علیہ السلام) کی زوجہ جو مسلمانوں کے سورما، رسول اکرم کے وزیر، آپ(ص) کے سب سے پہلے مشاور اور فتح و جہاد کے علم بردار تھے اسی اعتبار سے آپ کی ذمہ داریاں بھی بے حد اھم تھیں چنانچہ آپ(س) نے حضرت علی(علیہ السلام) کےلئے بالکل اسی کردار کا مظاھرہ کیا جو کردار جناب خدیجہ نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےلئے پیش کیا تھا یعنی آپ نے ان کے ساتھ جہاد میں شرکت فرمائی، زندگی کی دشواریوں اور تبلیغی مشکلات میں صبر و ھمت سے کام لیا-  
یقینا یہ آپ کی قربانیوں کا ہی صلہ تھا جس کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو منتخب فرمایا تھا اور ہیشک آپ کے انہیں اھم کارناموں کی وجہ سے اس نے آپ کاانتخاب فرمایا تھا اورآپ ایک مسلمان نمونہٴ عمل عورت کے طور پر تمام مردوں اور عورتوں کےلئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہیں-  

الف-خانگی ذمہ داریاں اور پر مشقت زندگی

دنیا کا وہ تنھا گھر جس کی چار دیواری کے اندر پاک و پاکیزہ اور ھر طرح کی برائیوں سے دور، تمام انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے پیکر،دو معصوم زوجہ و شوہر  ایک ساتھ زندگی گذار رھے تھے وہ صرف حضرت علی(علیہ السلام) اور جناب فاطمہ(علیہاالسلام) کا گھر تھا- 
 حضرت علی(علیہ السلام) اسلام میں مرد کامل ہونے کا نمونہ اور جناب فاطمہ زھرا(علیہم السلام) اسلام میں زن کاملہ ہونے کا نمونہ ہیں جو دونوں ہی رسول اکرم کے سایہ میں پروان چڑھے اور آپ ہی نے ان دونوں کو علم کے ساتھ دوسرے فضائل و کمالات کی غذا مرحمت فرمائی ان کے باشعور کان بچپنے سے ہی قرآن مجید سے مانوس تھے، کیونکہ رات دن بلکہ ھر لمحہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کی شیریں آواز ان کے کانوں میں رس گھولتی رہتی تھی، انھوں نے علم غیب اور اسلامی علوم و معارف کو اس کے اصل اور شیریں چشمہ سے حاصل کیا تھا اور آپنی آنکھوں سے یہ مشاھدہ کیا تھا کہ گویا دین اسلام پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی شکل میں متحرک ھے تو پھر ان کا گھر مسلمان گھرانوں کےلئے کیسے نمونہ عمل نہ ھوتا-  ہیشک حضرت علی(علیہ السلام) و فاطمہ(علیھا السلام) کا گھر صفاء و اخلاص اور مودت و رحمت کا ایک بہترین نمونہ تھا جس میں دونوں بالکل خندہ پیشانی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے رہتے تھے-  کیونکہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازہ کے اندر کی ذمہ داری جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے حوالے کردی تھی جب کہ دروازہ کے باھر کے کام حضرت علی(علیہ السلام) کے سپرد کئے تھے-
جناب فاطمہ(علیہا السلام) فرماتی ہیں: ”فلا يعلم ما داخلنی من السرور الّا الله، بکفايتی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) تحمّل رقاب الرجال“اس وقت اللہ کے علاوہ میری خوشی کو اور کوئی نہیں جان سکتاکہ جب رسول اللہ نے مجھے ان ذمہ داریوں سے الگ رکھا جن کا بوجھ مرد ہی برداشت کرسکتے ہیں-  
چونکہ جناب فاطمہ زھرا، مدرسہٴ وحی کی سند یافتہ تھیں لہٰذا آپ کو بخوہی معلوم تھا کہ عورت کا قلعہ(گھر) اسلام کا بہت اھم مورچہ ھے اگر اس نے اسے خالی کردیا اور وہ اسے چھوڑ کر دوسرے میدانوں میں چلی گئی تو پھر آپنے بچوں کی ترہیت کا حق ادا نہیں کرسکتی ھے
 اسی وجہ سے رسول اللہ کا فیصلہ سن کر آپ کارخ انور خوشی کے مارے چمک اٹھا-  بنت نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنے گھر والوں کی آسائش اور ان کے آرام کےلئے کسی قسم کی محنت و مشقت سے دریغ نہیں کیا اور تمام سختیوں اور مشکلات کے باوجود بھی آپ کے یھاں گھر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں آئی یھاں تک کہ آپ کی اس جفا کشی کو دیکھ کر حضرت علی(علیہ السلام) کو آپ کے اوپر ترس آتا رہتا تھاچنانچہ انھوں نے بنی سعد کے کسی شخص سے آپ کے کاموں کی یوں وضاحت فرمائی:” اٴلا احدّثک عنّی و عن فاطمة؟ انّها کانت عندی و کانت من اٴحبّ اٴهله(صلی الله عليه وآله وسلم) اليه، و انّها استقت بالقربة حتی اٴثّر فی صدرها، و طحنت بالرحیٰ حتٰی مجلت يداها، و کسحت البيت حتی اغبرّت ثيابها،واٴوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثيابها، فاٴصابها من ذلک ضرر شديد فقلت لها: لو اٴتيت اٴباک فساٴلتيه خادماً يکفيکِ ضرّ ما اٴنت فيه من هذا العمل،فاٴتت النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) فوجدت عنده حدّاثاً فاستحت فانصرفت“کیا میں تمہیں آپنے اور فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے حالات بتاوٴں؟ اگرچہ وہ میری اور نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریم کی سب سے زیادہ محبوب اور چہیتی ہیں مگر مسلسل مشک اٹھانے کی وجہ سے ان کے سینہ پر اس کا نشان پڑگیا ھے، اور مسلسل چکی چلانے سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں، گھر میں جھاڑو دینے کی وجہ سے کپڑے غبار آلود ھوگئے ہیں، چولھے میں اتنی آگ پھونکی ھے کہ ان کے کپڑے سیاہی مائل ھوگئے ہیں جس سے ان کو شدید تکلیف ھے
 تو میں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اگر تم آپنے بابا کے پاس جاکر ان سے ایک خادمہ کا سوال کرلو تو تم ان کاموں کے ممکنہ ضرر سے بچ سکتی ھو، چنانچہ وہ نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم کے پاس تشریف لے گئیں جب ان کے پاس آپ کو کچھ لوگ ہیٹھے ھوئے دکھائی دئے، تو آپ شرم و حیاء کی بنا پر کچھ کھے بغیر وآپس چلی آئیں-
حضرت علی کا ہیان ھے:” فعلم النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) اٴنها جاء ت لحاجة، قال(عليه السلام): فغدا علينا رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) و نحن فی لِفاعنا، فقال(صلی الله عليه وآله وسلم): السلام عليکم، فقلت: و عليک السلام يا رسول الله اُدخل، فلم يعد اٴن يجلس عندنا، فقال(صلی الله عليه وآله وسلم): يا فاطمة،ما کانت حاجتک اٴمس عند محمّد؟ قال: فخشيت ان لم تجبه اٴن يقوم، فاٴخبره علي بحاجتها، فقلت: اٴنا و الله اُخبرک يا رسول الله انّها استقت بالقربة حتی اٴثّرت فی صدرها و جرّت بالرحی حتی مجلت يداها و کسحت البيت حتی اغبرّت ثيابها و اٴوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثيابها، فقلت لها: لو اٴتيتِ اٴباکِ فساٴلتيه خادماً يکفيک ضرّ ما اٴنت فيه من هذا العمل، فقال(صلی الله عليه وآله وسلم): اٴفلا اُعلّمکما ما هو خيرلکما من الخادم؟ اذا اٴخذتما منامکما فسبّحا ثلاثاً و ثلاثين و احمدا ثلاثاً و ثلاثين و کبّرا اٴربعاً و ثلاثين “جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو یہ معلوم ھوا کہ آپ کسی کام سے آئی تھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی ھم لوگ آپنے بستر پر ہی تھے کے صبح سویرے ھمارے یھاں رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تشریف لے آئے آپ نے اس طرح سلام کیا: السلام علیکم میں نے کھا و علیکم السلام،یا رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اندر تشریف لائیں، مجھے امید نہیں تھی کہ آپ ھمارے پاس ہیٹہیں گے، تو آپ نے فرمایا: اے فاطمہ(علیہا السلام) کل تم میرے پاس کس کام سے آئی تھیں؟ حضرت علی(علیہ السلام) کہتے ہیں کہ مجھے یہ خوف محسوس ھوا کہ اگر فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے ان کا جواب نہ دیا تو کہیں ایسا نہ ھو کہ آپ وآپس تشریف لے جائیں، لہٰذا حضرت علی(علیہ السلام) نے انہیں آپ کی پریشانی سے اس طرح باخبر کیا: خدا کی قسم یا رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ آپ کو میں یہ بتادوں کہ انھوں اتنی مشک اٹھائی ھے کہ ان کے سینہ پر اس کا نشان پڑ گیا ھے
 اور اتنی چکی چلائی ھے کہ ان کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں، گھر میں چھاڑو دیتے دیتے لباس گرد آلود ھوگیا ھے، مسلسل چولھے میں آگ پھونکنے کی وجہ سے کپڑے سیاہی مائل ھوگئے ہیں
 اسی بنا پرمیں نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر تم آپنے باباسے ایک خادمہ حاصل کرلو تو اس کام کی وجہ سے تمہیں جو ضرر پھنچ رھا ھے تم اس سے بچ جاوٴگی، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی تعلیم نہ دیدوں جو تم دونوں کےلئے خادم سے بہتر ھے؟ جب تم لوگ سونے کےلئے بستر پر لیٹ جاوٴ تو ۳۳بار سبحان اللہ، ۳۳بار الحمد اللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھا کرو-
دوسری روایت میں ھے کہ جب شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو آپنا احوال سنایا اور ایک خادمہ کی خواھش ظاھر کی تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور آپ نے فرمایا:”يا فاطمة والذی بعثنی با لحق، انّ فی المسجد اٴربعمائة رجل ما لهم طعام و ثياب و لو لا خشيتی لاٴعطيتک ما ساٴلتِ، يا فاطمة و انّی لا اريد اٴن ينفک عنک اٴجرک الی الجارية، و انّی اٴخاف اٴن يخصمک علی بن اٴهی طالب(عليهما السلام) يوم القيامة بين يدی الله - عزوجل - اذا طلب حقّه منک، ثم علّمها صلاة التسبيح “ اے فاطمہ(علیھا السلام) اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ھے، اس وقت مسجد میں ایسے چار سو آدمی ہیں جن کے پاس کھانا اور کپڑے نہیں ہیں، اور اگر مجھے ڈر نہ ھوتا تو میں تمھاری خواھش ضرور پوری کردیتا، اے فاطمہ(علیھا السلام) میں نہیں چاہتاکہ تمھارا ثواب تمھاری خادمہ کو مل جائے اور مجھے یہ ڈر ھے کہ جب روز قیامت خداکے سامنے، علی تم سے تمھارا حق طلب کریں تو وہ تمھارے امنے سامنے ھوں-  پھر آپ نے ان کو تسہیح کی تعلیم دی-  تو مولائے کائنات نے کھا:”  مَضَيتِ تريدين من رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) الدنيا فاٴعطانا الله ثواب الآخرة“تم رسول اللہ سے دنیا لینا چاہتی تھیں مگر اللہ نے ھمیں آخرت کا ثواب عنایت کردیا ھے-   
ایک روز رسول اللہ مولائے کائنات کے گھر پھنچے تو کیا دیکھا کہ وہ اور جناب فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلہ پیس رھے ہیں،
 تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تم دونوں میں کون زیادہ تھکا ھے؟ تو مولائے کائنات(علیہ السلام)نے کھا:یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ(علیھا السلام)، تو آپ نے ان سے کھا: اے ہیٹی تم اٹھ جاوٴ، چنانچہ وہ اٹھ گئیں اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی جگہ ہیٹھ کر مولائے کائنات کے ساتھ آٹا پیسنے لگے-   
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: ایک دن نہی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام) کو دیکھا کہ ان کے اوپر اونٹ کے بالوں کی بنی ہوئی چادر ھے اور وہ آپنے ہاتھ سے آٹا پیس رہی ہیں اور آپنے ہیٹے کو دودھ بھی پلا رہی ہیں یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور آپ نے فرمایا:”يا بنتاه، تعجّلی مرارة الدنيا بحلاوة الآخرة“”اے ہیٹی! فی الحال آخرت کی حلاوت کے بدلے دنیا کی تلخی کا مزہ چکھ لو “ تو آپ نے کھا: ” یا رسول الله، الحمد لله علی نعمائہ، و الشکر لله علیٰ آلائه“  یا رسول اللہ، اللہ کی حمد ھے اس کی نعمتوں پر، اور اللہ کا شکر ھے اس کے انعامات پر- تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی   ” ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ“اور عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی ھوجائیں گے-   
ایک روایت میں امام جعفر صادق(علیہم السلام) نے فرمایا ھے:”کان امير المومنين(عليه السلام) يحتطب و يستقی و يکنس، و کانت فاطمة(عليها السلام) تطحن و تعجن و تخبز“ امیر المومنین لکڑیاں اور پانی لاتے تھے اور جھاڑو لگاتے تھے اور جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا)آٹا پیستی تھیں اور اسے گوندھ کر روٹی پکاتی تھی-   
انس سے روایت ھے: ایک دن جناب بلال صبح کی نماز میں تاخیر سے پھنچے تو نہی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا ”ماحبسک“تم کھاں پھنسے رہ گئے تھے؟
  انھوں نے کھا میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے گھر کے پاس سے گذرا تو دیکھا وہ چکی چلا رہی ہیں اور ان کا بچہ رو رھا ھے تو میں نے ان سے کھا: آپ چاہیں تو میں چکی چلادوں اور آپ بچہ کو دیکھ لیں یا اگر آپ اجازت دیں تو میں بچہ کو لے لوں اور آپ چکی چلا لیں تو آپ نے کھا: میں آپنے بچے کےلئے تم سے زیادہ مہربان ھوں،یا رسول اللہ تو بس مجھے اسی وجہ سے دیر ہوئی ھے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”فرحمتها، رحمک الله“تم نے ان پر رحم کھایا ھے، اللہ تعالی تم پر رحمت نازل کرے-   
اسماء بنت عمیس جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا)سے نقل کرتی ہیں:”اٴنّ الرسول(صلی الله عليه وآله وسلم) اٴتی يوماً فقال: اٴين ابنای؟يعنی حسنا وحسينا“  ایک دن رسول اکرم میرے گھر تشریف لائے اور انھوں نے دریافت کیاکہ میرے دونوں بچے(یعنی حسن(علیہ السلام) اور حسین(علیہ السلام))کھاں ہیں؟
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے جواب دیا:”اٴصبحنا و ليس عندنا فی بيتنا شيء يذوقه ذائق، فقال علی:اذهب بهما الی فلان؟ آج صبح سے ھمارے گھر میں چکھنے کےلئے بھی کوئی چیز نہیں تھی تو علی(علیہ السلام) نے کھا کہ میں انہیں فلاں جگہ لے جا وٴں؟ چنانچہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ بھی اسی جگہ تشریف لےگئے تو آپ نے دیکھا وہ دونوں ایک کنویںکے پاس کہیل رھے ہیں اور ان کے سامنے کچھ سوکہی ہوئی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں،   رسول اللہ نے فرمایا:”يا علي، اٴلا تقلب ابني قبل اٴن يشتدّ الحرّ عليهما“ اے علی(علیہ السلام) خیال رکھنا میرے دونوں ہیٹوں کو دھوپ تیز ہونے سے پہلے وآپس لیتے آنا تو مولائے کائنات(علیہ السلام) نے کھا:؟” اٴصبحنا و لیس فی ہیتنا شیء، فلوجلست یا رسول الله حتی اٴجمع لفاطمة تمرات “صبح ھمارے گھر میں کھانے کےلئے کچھ بھی نہیں تھا، یا رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اگر آپ ذرا ہیٹھ جائیں تو میں فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کےلئے کچھ کھجوریں جمع کرلوں،
 جب ان کے پاس کسی مقدار میں کھجوریں اکٹھا ہوگئیں تو وہ انہیں آپنے دامن میں رکھ کر گھر وآپس آگئے-  
عمران بن حصین کہتے ہیں: میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیٹھا ھوا تھا کہ وھاں فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) آگئیں اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں آپ نے ان کی طرف دیکھا تو ان کا چھرہ بالکل زرد تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے گویا بدن میں خون نہیں رہ گیا تھاتو آپ نے فرمایا:”اُدنی یا فاطمة“اے فاطمہ  سلام اللہ علیھا میرے نزدیک آوٴ آپ ان سے قریب ہوگئیں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا:”اُدنی یا فاطمة“ اے فاطمہ (علیھا السلام) میرے نزدیک آجاوٴ، تو وہ اورنزدیک چلی گئیں یھاں تک کہ ان کے بالکل نزدیک کھڑی ہوگئیں تو آپ نے ان کی گردن کے نیچے آپنا دست مبارک رکھا اور انگلیوں کو کھول دیا اور یہ دعا فرمائی: ” اللهمّ مشبع الجاعة و رافع الوضعة لا تجع فاطمة بنت محمّد“اے بھوکوں کو شکم سیر کرنے والے اور گرے ھوئے کو اوپر اٹھانے والے پروردگار فاطمہ(علیھا السلام) کو بھوکا نہ رکھنا-   
بے پناہ زحمتوں اور مشکلات نیز مسلسل بھوک برداشت کرنے کے باوجود دختر پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب فاطمہ زھرا(علیھا السلام) کی نظروں میں دنیا کی کل اوقات یہی تھی، اور اس میں بھی ھر جگہ صبر و ایثار کی شیرینی اور حلاوت کی آمیزش نمایاں ھے کیونکہ اس کے بعد نامحدود نعمتیں ہیں جو اس دن کا حصہ ہیں جس دن صابرین کسی حساب کے بغیر آپنا اجر حاصل کریں گے-  
جناب فاطمہ زھرا(علیھا السلام) کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ھمارے سامنے بالکل واضح ھو جاتا ھے کہ آپ کے یھاں اس جفا کشی کی زندگی میں،آپ کے مالی حالات بہتر ہونے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی(جب کہ بنی نضیر اورجنگ خیبر کی فتح کے بعد تو فدک وغیرہ آپ کی ملکیت میں آگئے تھے)اور آپ کے پاس وافر مقدار میں غلہ وغیرہ موجود تھا کیونکہ روایت میں ھے
 کہ فدک کی سالانہ آمدنی چوہیس ہزار دینار اور دوسری روایت کے مطابق ستر ہزار دینار تھی-   مگر پھر بھی جناب فاطمہ(علیھا السلام) نے نہ گھر بنائے، نہ محل تعمیر کئے، نہ حریر و دیباج کے کپڑے پھنے اور نہ ہی آسائش و آرام کو آپنے قریب آنے دیا، بلکہ آپ آپنی پوری دولت فقراء و مساکین کی امداد اور اسلام کی تبلیغ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں،- --اور بالکل یہی حال آپ کے شوہر  نامدار مولائے کائنات(علیہ السلام) کا تھا، کہ آپ نے ینبع نامی جگہ پر آپنے ہاتھ سے سو(۱۰۰) کنویں کھود کر انہیں حاجیوں کےلئے وقف کردیا تھا  -
اور آپ کے اموال کی زکات(صدقہ) ایک سال میں چالیس ہزار دینار تک پھنچ جاتی تھی-  
 اور اگر ھم یہ مان لیں کہ یہ مقدار ایک پوری قوم کےلئے ناکافی ھو تی،تب بھی یہ بنی ہاشم کےلئے تو یقینا کافی رہتی کیونکہ اس وقت ایک خادمہ کنیز بآسانی تیس درھم میں مل جاتی تھی اور ایک درھم اچھا خاصا سامان خریدنے کےلئے کافی ھوتا تھا-  

ب: حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی خوش گوار زندگی

حضرت زھرا(علیھا السلام) نے ایسی عظیم شخصیت کے گھر میں زندگی گذاری ھے جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ھر لحاظ سے دنیا کی سب سے عظیم شخصیت کے حامل تھے ایسی شخصیت جن کا عھدہ و منصب اور کل ھمّ وغم اسلام کی علمبرداری اور اس کا دفاع کرنا تھا-
اس دور کی سیاسی صورتحال اتنی نازک اور حساس تھی کہ اسلامی لشکر کو ھر لمحہ کسی نہ کسی طرف سے حملہ کا خطرہ لاحق رہتا تھا، اور اسے ھر سال متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑرھا تھا جن میں اکثر جنگوں میں امیر المومنین(علیہ السلام) نے شرکت فرمائی تھی- 
جناب فاطمہ(علیھا السلام) نے آپنے گھر میں لطف و محبت اور گھریلو کام کاج اور دوسرے ضروریات زندگی کوفراھم کر کے اس مشترک گھر کے ماحول اور اس کی فضا کو ھمیشہ خوشگوار بنائے رکھا اور اس طرح آپ حضرت علی(علیہ السلام) کے جہاد میں برابر سے شریک رہیں کیونکہ” عورت کا جہاد شوہر  کی بہترین خدمت کرنا ھے“- جیسا کہ حدیث میں وارد ھوا ھے-  
حضرت علی(علیہ السلام) کو جوش شجاعت دلانا، ان کی شجاعت وبھادری اور ایثار و قربانی کی تعریف کرنا، آئندہ جنگوں کےلئے ان کی حوصلہ افزائی، ان کے زخموں کی مرھم پٹی، مصیبتوں کا ازالہ،اور انہیں تھکن کا احساس نہ ہونے دینا یہ سب بھی آپ ہی کے کارنامے ہیں یھاں تک کہ آپ کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) نے یہ فرما دیا:”ولقد کنت اٴنظر اليها فتنجلی عنّی الغموم و الاٴحزان بنظرتی اليها“”جب میں فاطمہ(علیھا السلام) کی طرف دیکھتا تھا تو ان پر نظر پڑتے ہی میرے تمام ھمّ و غم دور ھوجاتے تھے-  
آپ کو آپنی ازدواجی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے والھانہ شوق تھا، آپ نے ایک دن بھی آپنے شوہر  کی اجازت کے بغیر گھر سے باھر قدم نہیں نکالا، نہ کبھی ان سے ناراض ہوئیں اور نہ ہی کسی قسم کے حیلہ و حوالہ سے کام لیا نہ کسی معاملہ میں ان کی نافرمانی کی، یہی وجہ تھی کہ حضرت علی(علیہ السلام) بھی آپ کا اُسی طرح احترام کرتے تھے کیونکہ آپ شہزادی کے مرتبہ و منزلت سے بخوہی واقف تھے، جس کی تائید آپ کے ان الفاظ میں موجود ھےفوالله ما اٴغضبتها و لا اٴکربتها من بعد ذلک حتی قبضها الله اليه،و لا عصت لی اٴمرا“ ” اللہ کی قسم شادی کے بعد میں نے انہیں نہ کبھی ناراض کیا اور نہ ہی کوئی اذیت دی، یھاں تک کہ انہیں اللہ نے آپنی بارگاہ میں بلا لیا، اس طرح نہ انھوں نے کبھی مجھے ناراض کیا اور نہ ہی میری نافرمانی کی- 
پھر امام(علیہم السلام) نے جناب فاطمہ(علیھا السلام) کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کی اس وصیت کا تذکرہ فرمایا جس میں آپ نے یہ فرمایا تھا:”يا ابن عمّ! ما عهد تنی کاذبة و لا خائنة، و لا خالفتک منذ عاشرتنی“ اے ابن عم! آپ نے مجھ سے جھوٹا وعدہ نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی خیانت کی اور جب سے میں آپ کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ھوں میں نے آپ کی مخالفت نہیں کی، مولائے کائنات(علیہ السلام) نے فرمایا:” معاذ الله، اٴنتِ اٴعلم بالله و اٴبرّ و اٴتقٰی و اٴکرم و اٴشدّ خوفاً منه، و الله جدّدت علي مصيبة رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) و قد عظمت وفاتکِ و فقدک،فانّا لله و انّا اليه راجعون“ معاذ الله:(یہ کیسے ھوسکتا ھے)تم اللہ کی ہیحد معرفت رکھنے والی، نھایت نیک، متقی، کریم النفس اور اس سے حد درجہ خوف رکھنے والی ھو، اللہ کی قسم تم نے میرے لئے رسول اللہ کی مصیبت تازہ کر دی ھے اور تمھاری وفات اور جدائی بہت عظیم ھے، اور ھم تو اللہ کےلئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں-   
ابو سعید خدری کہتے ہیں: ایک دن صبح کے وقت حضرت علی(علیہ السلام) بالکل بھوکے تھے، تو آپ نے شہزادی سے کھا:” یا فاطمة ھل عندک شیء تغذینیہ “اے فاطمہ(علیھا السلام) کیا تمھارے پاس کھانے کےلئے کوئی چیز ھے؟ تو آپ نے کھا:لاوالذی اٴکرم اٴهی بالنبوة واٴکرمک بالوصية مااٴصبح الغداة عندی شيء وماکان شيء اُطعمناه مذ يومين الّا شيء کنت اُؤثرک به علی نفسی وعلی ابني(هذين الحسن والحسين)“” نہیں “ اس ذات کی قسم جس نے میرے والد بزرگوار کو نبوت کے ذریعہ شرف بخشا اور آپ کو وصایت کے ذریعہ شرف عطاکیا، آج صبح سے ھمارے گھر میں کوئی غذا نہیں ھے اور پورے دو دن ھوگئے ہیں میں نے کچھ نہیں کھایا بلکہ گھر میں جو کچھ تھا وہ میں آپ کو اور آپنے ان دونوں(حسن(علیہ السلام) و حسین(علیہ السلام)) کو کھلا رہی تھی آپ نے کہا”يا فاطمة اٴلا کنت اٴعلمتنی فاٴبغيکم شيئاً“     
  اے فاطمہ(سلام اللہ علیھا)! تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا، تاکہ میں تمھارے لئے کسی چیز کا انتظام کردیتا، تو شہزادی نے کھا:”يااٴباالحسن انّی لاٴ ستحی من الهی اٴن اٴکلّف نفسک ما لا تقدر عليه“ مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ میں آپ کو اس بات کی زحمت دوں کہ جو آپ کےلئے ممکن نہیں ھے-  
مختصر یہ کہ اسلام کے ان دونوں نمونہٴ عمل زوجہ و شوہر  نے اس طرح ایک خوشگوار زندگی گذاری، اور آپنے آپنے فرائض کو بخوہی ادا کیا کہ اعلیٰ اسلامی اخلاق و اقدار کےلئے ایک ضرب المثل بن گئے اور بھلا ایسا کیوں نہ ھوتا؟ کہ جب شب عروسی میں ہی پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولائے کائنات(علیہ السلام) سے یہ فرمادیا تھا:”ياعلی نِعم الزوجة زوجتک“ اے علی(علیہ السلام) تمھاری ہیوی بہترین زوجہ ھے اور شہزادی دو عالم سے یہ کہہ دیا تھا:  ”یافاطمة نعم البعل بعلُک“ اے فاطمہ(سلام اللہ علیھا) تمھارا شوہر  سب سے بہترین شوہر  ھے-   
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا:”لولا علي لم يکن لفاطمة کفو“اگر علی نہ ھوتے تو فاطمہ(علیھا السلام) کا کوئی ھمسر نہ  ھوتا- 

ج:جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا)، بحیثیت مادر

ایک ماں ہونے کے اعتبار سے بھی جناب فاطمہ(علیھا السلام) کے کاندھوں پر ایک اھم ذمہ داری تھی، کیونکہ خداوندعالم نے آپ کو پانچ اولادوں سے نوازا تھا-  یعنی امام حسن(علیہ السلام)امام حسین(علیہ السلام)، جناب زینب(علیہا السلام) اور جناب ام کلثوم، جب کہ جناب محسن کو ان کی ولادت سے پہلے ہی ظالموں نے آپ کے شکم مبارک میں شہید کردیا تھا- 
اللہ تعالیٰ کی یہی مشیت تھی کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم کی نسل طیبہ جناب فاطمہ(علیھا السلام) زھرا کے ذریعہ آگے بڑھے جس کی اطلاع رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم نے آپنے اس قول میں بھی دی ھے:”انّ ا لله جعل ذرية کل نہی فی صلبه وجعل ذريتی فی صلب علی بن اٴہی طالب“ اللہ تعالیٰ نے ھر نہی کی نسل کو اس کے صلب سے قرار دیا ھے اور میری نسل کو علی(علیہ السلام) کے صلب میں رکھا ھے “  
شہزادی کائنات چونکہ خود بھی وحی و نبوت کی پروردہ تھیںلہٰذا آپ اسلامی ترہیت کے اصولوں سے بخوہی واقف تھیں اسی لئے آپ نے آپنی اولاد کی ایسی ترہیت کی کہ وہ بھی سب کےلئے مشعل بن گئی جس کےلئے سامنے کا ایک نمونہ حضرت حسن(علیہ السلام) ہیں جن کی پرورش آپ نے اس طرح فرمائی تھی کہ وہ مسلمانوں کی قیادت و رھبری کا بوجھ آپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں اور راہ شریعت میں سخت حالات اور ھر طرح کے مصائب کا مقابلہ خندہ پیشانی کے ساتھ کرسکیں اور جب دین اسلام کی سلامتی اور مومنین کی جان خطرہ میں پڑ جائے تو درد اور خون کے گھونٹ پی کر معاویہ سے صلح کرلیں اور دنیا کے سامنے یہ اعلان کردیں کہ دین اسلام امن و سلامتی کا مذھب ھے اور وہ آپنے دشمنوں کو اس بات کی ھرگز اجازت نہیں دے سکتاکہ وہ اس کی اندرونی مشکلات سے غلط فائدہ اٹھا کر اسے کمزور کر ڈالیں یا اسے کسی قسم کا نقصان پھنچا سکیں، جس کی بنا پر معاویہ کی ساری پلاننگ فیل ہوگئی اور اس نے دور جاہلیت کو زندہ کرنے کےلئے جو منصوبے بنا رکھے تھے ان پر پانی پھر گیا، اور کچھ دنوں کے بعد خود بخود اس کے چھرہ سے نقاب الٹ گئی-  
یہ جناب فاطمہ(علیھا السلام) کی ترہیت کا ہی اثر تھا کہ امام حسین(علیہ السلام) نے ظلم اور ظالمین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کےلئے خدا کی راہ میں آپنی قربانی کے ساتھ ساتھ آپنے اعزاء و اقرباء اور چاھنے والوں کی قربانی پیش فرمائی اور آپنے خون سے اسلام کے مرجھاتے ھوئے درخت کو سینچ دیا- 
اسی طرح جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) نے جناب زینب و ام کلثوم جیسی ہیٹیوں کی پرورش بھی کی اور انہیں بھی جذبہٴ ایثار و قربانی کے ساتھ ظالموں کو منھ توڑجواب دینے کی ایسی تعلیم دی کہ وہ کسی بھی ظالم و جابر کے سامنے نہ جھکنے پائیں اورانھوں نے بنی امیہ کے جلادوں اور خونخواروں کے مقابلہ میں حق کے پرچم کو سربلند کر کے دین اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف ان کے تیار کردہ تمام منصوبوں کو بے نقاب کر ڈالیں-  
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک