امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھااپنے بابا کے بعد

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

۱- سقیفہ کا المیہ

امت اسلامیہ کی تاریخ کا سب سے سنگین واقعہ، جس کی سلگائی ہوئی آگ کی لپٹیں اور جس کے دھماکوں کی گونج آج تک باقی ھے اگر چہ وہ واقعہ رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی وفات کے فورا بعد ہی رونما ھوگیا تھا-  
اس وقت کی پدلہ ہ صورتحال پر کچھ بنیادی اور انفرادی عوامل حاوی تھے،رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خداوندعالم کی طرف سے لائے ھوئے دین کی تبلیغ ھر لحاظ سے مکمل کردی اور آپ کا وجود پر نور، ایمانی شعاعوں کی ضو فشانی کا عنصر اور استقرار و تعمیر کا بہترین ذریعہ تھا، لیکن اسلامی سماج کے اندر جو گھرا فاصلہ پیدا ھوچکا تھا اور اس کی انتھا کا کوئی سرا نہیں تھا یہ فاصلہ کبھی کبھی ایسے متعدد لوگوں کی عقلوں اور ان کی حرکتوں سے بالکل مجسم شکل میں سامنے آجاتا تھا جو جزیرہ نمائے عرب کے اندر اسلام کی تروتازہ تحریک اور قدرت و طاقت کے اصل مرکز سے قریب تھے اور ان کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان ردّ وقدح(نوک جھونک)  پیغمبر کی وفات کے فوراً بعد ہی بالکل کھل کر سامنے آگئی تھی-
امت اسلامیہ کے درمیان جو اختلاف ظاھر ھوا یہ اس بات کی دلیل ھے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس صحیح اسلامی عقیدہ کما حقہ موجود نہیں تھا اور دوسرے یہ کہ اسی اختلاف کی بنیاد پر اسلامی حکومت میں کجروی پہیلی اور مسلمانوں کے درمیان آج تک اس کے جو مھلک نتائج سامنے آرھے ہیں وہ سب اسی کی دین ہیں-
جس دور میں رسول اکرم کی وفات ہوئی ھے اس کے فورا بعد متضاد قسم کے حادثات اچانک رونما ھوتے چلےگئے- لہٰذا اس دور میں جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے درخشندہ کردار کا جائزہ لینے کےلئے پہلے ھمیں اس وقت کے عام حالات کے ساتھ ساتھ ان حادثات کا بھی گھرائی سے مطالعہ کرنا ھوگاتاکہ اس کے ذریعہ اس دور میں امت اسلامیہ کی صحیح صورتحال اور اس کے اندر موثر اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے والی طاقتوں کا بخوہی اندازہ لگایا جاسکے،جن کی وجہ سے بطور عموم اور اہل ہیت طاھرین(علیہم السلام) اورخاص طور سے شہزادی کائنات(علیہاالسلام) پرجو ظلم و ستم اورزیادتی ہوئی ان پر اس کا کیا اثر ھوا، اس سلسلہ میں سب سے پہلے سقیفہ کا واقعہ سامنے آتا ھے اور اس کے بعد رونما ہونے والے تمام واقعات میں اس کا بنیادی کردار ھے-  
ادھر مولائے کائنات(علیہ السلام)، اہل ہیت(علیہم السلام) پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، بنی ہاشم(علیہم السلام) اور ان کے سب چاھنے والے تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غسل و کفن اور دفن میں ہی مصروف تھے کہ اس موقعہ سے ان عناصر نے غلط فائدہ اٹھالیا کہ جن کے منھ میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی خلافت کو دیکھ کر پانی آچکا تھا، اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے جو اوامر و نواہی پھنچائے تھے انہیں ان کی کوئی پرواہ بھی نہیں تھی-

اب ھمارے سامنے دو طرح کے طرز عمل ہیں:

۱-عمر بن خطاب پیغمبر اکرم کے گھر کے چاروں طرف موجود، غمزدہ مسلمانوں کے درمیان چیخ چیخ کر یہ کہہ رھے ہیں: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال نہیں ھوا ھے اور اس کے ساتھ ساتھ جو ایسی بات آپنی زبان سے نکالے اسے،دھمکی بھی دے رھے ہیں اور وہ آپنی اس بات پر اس وقت تک اڑے رھے جب تک ابوبکر مدینہ کے باھر سے وھاں نہیں پھنچ گئے-

۲-دوسری طرف سقیفہ بنی ساعدہ کے اندر انصار، سعد بن عبادہ خزرجی کی سرکردگی میں اکٹھا ہیں-
اس بات پر مورخین و محدثین کااتفاق ھے کہ عمر کا یہ انداز اس وقت تک باقی رھا جب تک ابوبکر نہ آگئے اور انھوں نے یہ آیت پڑھ کر نہیں سنادی:<وما محمد الّا رسول قد خلت من قبله الرسل اٴفان مات اٴو قتل انقلبتم علی اٴعقابکم ومن ينقلب علی عقبيه  فلن يضرّالله شيئاً و سيجزی الله الشاکرين>اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذرچکے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ھوجائیں تو تم الٹے پاوٴں پلٹ جاوٴگے جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروں کو ان کی جزا دے گا-
جس سے عمر کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ ابوبکر کے ساتھ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکل کر چلےگئے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جنازہ کو ان کے غمزدہ گھر والوں کے درمیان یونہی چھوڑ دیا-
قرائن اور تاریخ و سیرت سے اس بات کی تائید ھوتی ھے کہ یہ دونوں وھاں سے نکل کر سیدھے اس جگہ پھنچے جسے انھوں نے وقت ضرورت اور ھنگامی پایسی تیار کرنے کےلئے پہلے سے طے کر رکھا تھا، دوسری طرف اکثر انصار، جن میں سعد بن عبادہ بھی شامل تھے ان کے حساب سے تو رسول اکرم کے بعد صرف حضرت علی کو ہی خلیفہ ھونا چاہیئے تھا جب کہ عام مسلمانوں کا خیال بھی یہی تھا کہ خلافت حضرت علی کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں جاسکتی ھے-
لیکن جب انصار کو یہ معلوم ھوا کہ بڑے بوڑھے(پرانے)مھاجرین نے اس کارخ موڑنے اور اس پر قبضہ کرنے لئے باقاعدہ ایک گروپ تیار کر رکھا ھے اور وہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تاکیدوں کو پس پشت ڈال کر خلافت کی باگ ڈور کو راہ حق سے منحرف کر کے اس میں آپنے اس نئے قرشی معاھدہ(پلاننگ) کے ذریعہ جاہلیت کی روح پھونکنے اور قبائیلی تنازعات کو دوبارہ زندہ کرنے کے درپے ہیں تو وہ بھی خلافت کی دوڑمیں کود پڑے کیونکہ انھوں نے پیغمبر اسلام اور آپ کی تبلیغ کےلئے آپنی جان و مال کی ایسی قربانی دی تھی کہ اتفاقا خلافت پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنانے والے مھاجرین میں سے کسی ایک نے بھی ایسی قربانی پیش نہیں کی تھی چنانچہ جب انصار کو اس بات کا پورا یقین ھوگیا تو ان میں سے کچھ لوگ سعد بن عبادہ کی سر کردگی میں خلافت کے بارے میں غور و خوض کرنے کےلئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوگئے اور انہیں میں سے کچھ لوگوں نے خلافت کےلئے سعد بن عبادہ کا نام پیش کرنا شروع کردیا-  اُدھرجب یہ خبر بعض ایسے انصار کے ذریعہ مھاجرین تک پھنچ گئی جن کی سعد سے ان بن رہتی تھی اور وہ سعد کے مفاد کے خلاف کام کیا کرتے تھے تو مھاجرین آپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی کے ساتھ سقیفہٴ بنی ساعدہ میں پھنچ گئے، چنانچہ انصار کی طرف سے ایک مقرِر کھڑا ھوا اور اس نے اسلا م کی راہ میں انصار کے ایثار و قربانی کے ساتھ ساتھ مھاجرین کے اوپر ان کے احسانات کا تذکرہ کرنے کے بعد ان سے یہ خواھش کی کہ وہ ان کی تمام جانفشانیوں سے چشم پوشی نہ کریں اور اس میں ان کا بھی کچھ حق ھونا چاہئے اس کے بعد ابوبکر کھڑے ھوئے اور انھوں نے قریش کی عظمت و بزرگی کی تعریف کے پل باندھنا شروع کر دئے اوران کے ذھنوں کواسلام سے پہلے عربوں کے درمیان رائج طریقوں اورحسب و نسب پر فخر ومباھات کی طرف موڑ دیا-
عقد الفرید کی روایت کے مطابق انھوں نے یہ کھا: ھم مھاجرین سب سے پہلے اسلام لانے والے حسب و نسب کے اعتبار سے ھر ایک سے برتر،بستی کے ہیچوں و ہیچ رھنے والے، اور سب سے زیادہ خوبصورت اور رشتہ داری کے لحاظ سے رسول اللہ سے سب سے قریب ہیں پھر مزید یہ کھا:
 عرب قریش کے اس قہیلہ کے علاوہ کسی کی فرمانبرداری قبول نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے تمھارے مھاجر بھائیوں کو فضیلت بخشی ھے اس میں ان سے مقابلہ نہ کرو، لہٰذا میں تمھارے لئے ان دونوں میں کسی ایک کےلئے راضی ھوں یہ کہہ کر انھوں نے عمر بن خطاب اور ابو عہیدہ جراح کی طرف اشارہ کیا ابوبکر نے فرصت کو غنیمت سمجھا اور وہ اسی طرح قریش اور خاص طور سے مھاجرین کی تعریفوں کے پل باندھتے رھے-  کیونکہ بشیر بن سعد خزرجی کو آپنے ابن عم(سعد بن عبادہ)سے حسد تھا لہٰذا ایک کونے سے ان کی یہ آواز ابھری: اے لوگو: یہ دہیان رھے کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق قریش سے ھے لہٰذا ان کے قہیلہ والے ان کی جانشینی کے زیادہ حقدار ہیں اور خدا کی قسم، اللہ مجھے کبھی بھی اس معاملہ میں ان سے اختلاف کرتے ھوئے نہیں دیکھے گا-  
حباب بن منذر خزرجی کو آپنے ابن عم کی یہ دھوکہ بازی اور حسد بھرا انداز ہیحد ناگوار گذرا تو انھوں نے کھا: بشیر بن سعد کو یہ جلن ہوگئی ھے کہ نہی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سعد بن عبادہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین اور خلیفہ بن جائیں لہٰذا انھوں نے ایسا انداز آپنایاکہ جس کے بارے میں کوئی بھی سعد کے استحقاق اور ان کی اولویت پر انگلی نہیں اٹھا سکتا پھر انھوں نے بشیر کی طرف رخ کرکے کھا: اے بشیر تمہیں یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یقینا تم نے امت کی سر براہی کے معاملہ میں آپنے ابن عم سعد بن عبادہ سے حسد کیا ھے-
یہ اختلافات یہیں ختم نہیں ھوئے بلکہ قہیلہٴ اوس کے ایک سردار اسید بن حضیر نے کھڑے ھوکر دور جاہلیت کے دبے ھوئے کینے ابھارنا شروع کردئے اور قہیلہ اوس و خزرج کے درمیان جن اختلافات کو اسلام نے دبا دیا تھا اس نے وہ گڑے مردے پھر سے اکھاڑنا شروع کردئے اور اوس کو مخاطب کرکے یہ کھا: اے اوس کے ہیٹو! اللہ کی قسم اگر تم نے ایک بار بھی سعد کو آپنا حاکم تسلیم کرلیا تو خزرج والوں کو تم پر فوقیت حاصل ھوجائے گی اور وہ تمہیں کبھی بھی اس میں حصہ دار نہیں ہونے دیں گے-
ابوبکر نے بشیر بن سعد کے بھڑکانے والے ان جملات کو غنیمت سمجھا اور ایک ہاتھ سے عمر اور دوسرے ہاتھ سے ابوعہیدہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ آواز لگائی اے لوگو! یہ عمر ہیں اور یہ ابو عہیدہ ہیں لہٰذا تم ان میں سے جس کی ہیعت کرنا چاھو کرسکتے ھو، ان تینوں کی رچی ہوئی پالیسی کو دیکھ کر حباب بن منذر نے کھڑے ھوکر کھا: اے میرے انصار بھائیو! آپنے ہاتھ کہینچ لو اور اس کے اور اس کے ساتھیوں کی بات ھرگز نہ سنناورنہ وہ تمھارے حق پر قبضہ کرلیں گے، یہ سن کر عمر بن خطاب کو غصہ آگیا انھوں نے جھلا کر کھا: ھم(حضرت) محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوست اور ان کے خاندان والے ہیں ان کی حاکمیت و سلطنت میں ھمارے مدمقابل کون اسکتا ھے؟ مگر یہ کہ جو ناحق طریقہ سے گناہ کا سھارا لیتے ھوئے ھلاکت میں پڑجائے؟
 حباب بن منذر نے دوٹوک انداز میں جب عمر بن خطاب کا یہ چیلنج سنا تو ایک بار پھر انصار کی طرف رخ کرکے کھا: اگر یہ تمھارا مطالبہ نہ مانیں تو انہیں اس شھرسے باھر نکال دو، اللہ کی قسم تم اس کے ان سے زیادہ حقدار ھو تمھاری تلواروں کے زور پر ہی لوگوں نے اسلام قبول کیا ھے یہ کہہ کر انھوں نے تلوار نکال لی اور اسے ھوا میں لھراتے ھوئے کھامیں باتجربہ اور واقف کار ھوں، اس کے اوپر بوجھ روکنے والا ھوں اور اللہ کی قسم اگر تم چاھو تو میں اسے اس کی پرانی شکل میں پلٹادوں گا-
یہ سن کر عمر بن خطاب کا غصہ بھڑک اٹھا اور ابھی دونوں کے درمیان فتنہ کی آگ بھڑکنے ہی والی تھی کہ     ابو عہیدہ جراح نے کھڑے ھوکر کھا: اے گروہ انصار: آپ ہی لوگ وہ تھے جنھوں نے سب سے پہلے مدد اور پشت پناہی کی لہٰذا سب سے پہلے رخ پہیرنے اور بدل جانے والے نہ ھوجانا اور پھر وہ ان سے ایسے پر التماس اندازمیں گذارش کرتے رھے کہ جس سے انصار کچھ ٹھنڈے پڑگئے اور انصار اسی طرح دو دھڑوں میں بٹے ھوئے تھے کہ اس گفتگو کے بعد حضرت عمر بڑی تیزی کے ساتھ ابوبکر کی طرف بڑھے اور ان سے کھا اے بوبکر آپنا ہاتھ بڑھایئے،
کسی کو یہ حق نہیں ھے کہ اللہ نے تمہیں جو مقام اور مرتبہ عنایت فرمایا ھے اسے کم کرسکے، اس کے بعد ابو عہیدہ نے یہ کھا: تم مھاجرین میں سب سے افضل ھو اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یار غار اور نماز میںرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ھو، تو ابوبکر صاحب نے ان دونوں کے سامنے آپنے ہاتھ پہیلادئے اور ان دونوں نے ابوبکر کی ہیعت کرلی اس کے فورا بعد بشیر بن سعد اور کچھ خزرجیوں نے بھی ہیعت کرلی اورپھر       اسید بن حضیر اور اوس کے کچھ لوگوں نے بھی ان کی ہیعت کرلی اور ابوبکر کا نعرہ لگاتے ھوئے سقیفہٴ بنی ساعدہ سے باھر نکل گئے اور راستہ میں جس کے پاس سے بھی گذرتے تھے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے ابوبکر کی ہیعت کرنے کےلئے کہتے تھے اور جو کوئی انکار کرتا تھا عمر اس پر کوڑے برساتے تھے اور ان کے ساتھی اس پر ٹوٹ پڑتے تھے یھاں تک کہ اسے ہیعت کرنے پر مجبور کردیتے تھے اور اس انداز سے ابوبکر کی ہیعت لی جاتی رہی جو اکثر لوگوں کےلئے بالکل اتفاقی اور غیر متوقع تھی-  
اس پوری صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ واضح ھوجاتا ھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو خلافت و حکومت سے دور رکھنے کا منصوبہ صرف ان چند گھنٹوں کا کرشمہ نہیں تھا، جس کی تائیدموجود شواھد سے بھی ہوئی ھے نیز یہ کہ سعد بن عبادہ کےلئے ان کی پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی جس کا اظھار ان کے درمیان موجود اختلاف سے بھی ھوتا ھے جیسا کہ یہ بھی ظاھر ھے کہ تینوں سربراہ(لیڈر)یعنی ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعہیدہ جراح قریش کے اس گروہ کے سربراہ تھے جو خلافت پر قبضہ کرکے مولائے کائنات(علیہ السلام) کو اس سے دور کردینا چاہتے تھے اور انصار کے مقابلہ میں ان کے پاس کل دو دلیلیں تھیں: پہلی یہ کہ مھاجرین پہلے اسلام لائے، اور دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریہی رشتہ دار ہیں اور اس طرح ان سربراھوں نے آپنے لئے اس دلیل کو سھارا بنالیا کیونکہ اگر خلافت کا معیار واقعا سابق الاسلام ھونا یا رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قربت کاھوناھوتاجیسا کہ وہ اس کے مدعی تھے تب تو یہ صرف حضرت علی(علیہ السلام) کا حق تھا، کیونکہ تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق سب لوگوں سے پہلے آپ نے ہی   رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تصدیق کی اور ان پر ایمان رکھنے کا اعلان کیا
نیزجب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں مھاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو اس وقت حضرت علی(علیہ السلام) کو آپ نے آپنا بھائی قرار دیا تھا اس طرح وہ نسہی اعتبار سے آپ کے ابن عم اور دوسروں کے بالمقابل آپ سے بے حد قریب تھے-  
اس طرح توابوبکر نے اس وقت آپنی ہی مخالفت میں ہیان دیا تھا کہ جب انھوں نے انصار کے مقابلہ میں قرابت داری اور پہلے اسلام لانے کو دلیل بنا کر پیش کیا تھا اور اسی وجہ سے انھوں نے سابق الاسلام اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار ہونے کی بنا پر عمر بن خطاب اور ابو عہیدہ کا نام تو خلافت کےلئے پیش کردیا مگر حضرت علی(علیہ السلام) کے حق کے بارے میں بالکل انجان بن گئے جن کے ہاتھوں پر غدیر خم کے میدان میں صرف دو تین مہینے پہلے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان حاجیوں نے ہیعت کی تھی، اور آپ(علیہ السلام) نے ہی سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا نیز آپ(علیہم السلام) نسب کے اعتبار سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم اور برائے خدا ان کے تنھا بھائی تھے جس کے بارے میں تمام مورخین اور محدثین کا اجماع ھے اور انہیں کے جہاد، ایثار و قربانی کے کارناموں کی وجہ سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور اس کے پیر جم گئے اور وہ شرک و بت پرستی اور قریش کے مقابلہ میں کامیاب ھوا-  
مختصر یہ کہ جب ابوبکر نے ان دونوں باتوں کو صحیح و سالم اور مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا تھا اور خلافت کےلئے دو نام بھی پیش کردئے تواس وقت ان کی نظروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا بلکہ بات در اصل یہ ھے کہ وہ اور ان کے ساتھی اس بارے میں پہلے ہی پورا نقشہ تیار کرچکے تھے اور بعض انصار و مھاجرین کے ساتھ مل کر حضرت علی(علیہ السلام) کو خلافت سے دور کرنے اور خود خلافت پر ھر طرح سے تسلط قائم کرنے کے بارے میں متفق ھوچکے تھے دوسری طرف انصار سے تعلق رکھنے والے اس دوسرے فریق کے ساتھ گفتگو بھی جاری تھی جنھوں نے ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی پوزیشن کو خطرہ میں ڈال دیا تھا
 اور وہ سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ھوکر خلافت کے بارے میں بات چیت میں مشغول تھے، ابوبکر اور ان کے ساتھیوں نے انصار کی اُس پارٹی سے طاقت کی زبان استعمال کی اور کسی نہ کسی طرح حقائق پر پردہ ڈال کر اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سہی انہیں زیر کرلیا جو آپنے دوسرے دھڑے پرغلبہ پانے کی کوشش کررھے تھے-  
جس کا ثبوت یہ ھے کہ جب ابوبکر نے یہ اشارہ کیا کہ تم لوگ عمربن خطاب اور ابو عہیدہ میں سے جس کی ہیعت کرنا چاھو کرسکتے ھو تو عمر نے فوراً یہ کھا: تمھاری زندگی میں یہ کیسے ممکن ھے؟کسی کو ھرگز یہ اختیار نہیں ھے کہ رسول اللہ نے تمہیں جو مقام عنایت کیا ھے کوئی تمہیں اس مقام سے نیچے اتار دے-  
یہ جواب ان دونوں کے تیار کردہ اس منصوبہ کی طرف بہترین اشارہ ھے جس کے نتیجہ میں ابوبکر کی ہیعت لی گئی تھی، اور یہ کہ عین اسی وقت حضرت عمر نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ھوئے رائے عامہ کو اس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ جیسے انہیں پیغمبر اکرم نے ہی آپنا جانشین منتخب کیا ھو جیسا کہ ان کے اس جملہ ” کسی کو یہ حق نہیںھے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں جو مقام عطا کیا ھے وہ تم کو اس سے پیچھے ڈھکیل دے “ کیونکہ ھمیں معلوم ھے کہ حیات پیغمبر لکھنے والے تمام قدیم مورخین و محدثین اور وہ موثق حضرات جنھوں نے آپ کی حدیثوں کی حفاظت کی ھے اور انہیں آپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کیا ھے ان میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ھے کہ وہ عھدہ جس کےلئے ابن خطاب اور ان کے ھم نواوٴں نے یہ سب کچھ کیا ھے اس کےلئے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے(چاھے دور سے ہی سہی)ان کے حق میں کبھی کوئی اشارہ کیا ھو- بلکہ ان کے ساتھ تو پیغمبر کا برتاوٴ کچھ اس کے برخلاف ہی نظر آتا ھے یعنی آپ نے نہ ہی ان کو کوئی عھدہ دیا ھے اور نہ ہی کوئی ایسی ذمہ داری سونپی ھے جسے دوسروں پر ان کا کوئی امتیاز قرار دیا جاسکے اور بالفرض اگر انہیں کسی جنگ میں بھیج بھی دیا جیسے غزوہٴ ذات السلاسل یا کسی جنگ میں لشکر کا علم ان کے حوالہ کردیا جیسے جنگ خیبر میں دیکھنے میں آیا تو وہ وھاں سے مغلوب ھوکر سرجھکائے ھوئے وآپس پلٹ آئے-
آپنی عمر کے تقریبا بالکل آخری دور میں جب انحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو آپنی موت کے نزدیک ہونے کا یقین تھا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اور عمر دونوں کو ہی اسامہ بن زید کی سرداری مدینہ چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا جو ایک عام سپاہی تھے اس وقت اسامہ بن زید کی عمر(آخری اندازہ کے مطابق)ہیس سال سے زیادہ نہیں تھی-  رھا پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض الموت میں ابو بکر کے نماز پڑھانے کا قصہ جس کی طرف ابو عہیدہ نے انصار سے گفتگو کے دوران اشارہ کیا تھا، تو یہ کوئی خاص بات نہیں ھے کیونکہ یہ ھمیشہ سے ایک عام بات رہی ھے کہ چھوٹا، بڑا اور فاضل و مفضول ایک دوسرے کی امامت اور اقتداء کرتے رھے ہیں اور اگر امامت کی بھی ھو تو اس سے کسی پر کوئی فوقیت پیدا نہیں ھوتی ھے، اور یہ شرف انہیاء و مرسلین یا قدیسین سے مخصوص نہیں ھے، اور اس کےلئے بھی انہیں ان کی ہیٹی عائشہ نے اس وقت بلایا تھا کہ جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بستر سے نہیں اٹھ پارھے تھے اور جب آپ کو اس کا علم ھوا تو حضرت علی(علیہ السلام) اور عباس کے کاندھوں کا سھارا لیتے ھوئے مسجدمیں تشریف لے آئے اور انہیں محراب سے ہٹا دیا اور اسی حالت میں نماز پڑھائی جب کہ ہیماری کی وجہ سے آپ کو سخت تکلیف تھی-  
اورسب سے عجیب بات جو عقل و منطق کے کسی معیار پر پوری نہیں اترتی یہی ھے مگر اسے محدثین و علمائے اہلسنت نے حضرت ابو بکر کی ایسی فضیلت بنادیا جو انہیں خلافت کا اہل بنادیتی ھے جب کہ اسی کے ساتھ وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شب ہجرت میدان احد، جنگ خندق، صلح حدیہیہ، جنگ خیبر، حنین، تبوک، اور غدیر خم نیزمکہ و مدینہ میں مواخات جیسے اھم واقعات میں حضرت علی(علیہ السلام) نے حضور اکرم کے ساتھ اھم کردار ادا کیا ھے اور وہ ان تمام باتوں کو حضرت علی(علیہ السلام) کےلئے نہ صرف یہ کہ خلافت کی دلیل کے طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ اسے اس کا اشارہ تک قرار نہیں دیتے جب کہ حضرت ابوبکر کی دو رکعت کی امامت کو مسلمانوں کی خلافت،قیادت و رھبری اور انہیں اس کے لائق قرار دینے کی واضح دلیل بنادیتے ہیں-
نیز یہ کہ سقیفہ میں انصار کا اجتماع در اصل مھاجرین کے اس منصوبہ کارد عمل تھا جس کے تحت وہ خلافت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، اس کی ایک دلیل وہ روایت بھی ھے جس میں زہیر بن بکار کا یہ قول نقل ھے جیساکہ وہ کہتے ہیں:
جب کچھ لوگوں نے ابوبکر کی ہیعت کرلی، تو وہ انہیں مسجد میں اس طرح لے کر آئے جیسے کسی دلھن کو لایا جاتا ھے، جب شام ہوئی تو کچھ انصار اور کچھ مھاجرین جمع ھوئے اور اس بارے میں بات کرنے لگے، تو      عبد الرحمٰن بن عوف نے کھا: اے گروہ انصار، اگرچہ تم اہل فضل و نصرت اور سابقین میں سے ھو لیکن تمھارے درمیان میں کوئی بھی ابوبکر،عمر،علی(علیہ السلام) اور ابو عہیدہ جیسا نہیں ھے-
تو زید بن ارقم نے کھا: اے عبد الرحمٰن جن کے فضائل کا تم نے تذکرہ کیا ھے ھم ان کے منکر نہیں ہیں مگر ھم میں سے انصار کے سردار سعد بن عبادہ ہیں اور جسے اللہ نے آپنے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سلام کھلوایا ھے اور یہ کھا ھے کہ اس سے قرآن لے لیں یعنی اہی بن کعب ہیں، اور اسی طرح جو روز قیامت علماء کا امام بن کر آئے گا یعنی معاذبن جبل اور جن کی ایک گواہی کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواھوں کے برابر قرار دیا ھے یعنی خزیمہ بن ثابت انصاری، اور ھمیں معلوم ھے کہ قریش کے جن لوگوں کا تم نے نام لیا ھے ان کے درمیان وہ بھی ھے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس بارے میں کوئی ان کا پاسنگ بھی نہیں ھے اور وہ علی بن اہی طالب(علیہما السلام) ہیں-
تاریخ طبری میں ھے کہ جب ابوبکر نے خلافت کےلئے دو افراد یعنی ابو عہیدہ اور عمر بن خطاب کا نام پیش کیا اور وہ دونوں ابوبکر کےلئے اصرار کرنے لگے تو انصار نے کھا: ھم علی بن اہی طالب کے علاوہ کسی کی ہیعت نہیں کریں گے-
یہ دونوں روایتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اگر مھاجرین کی طرف سے حضرت علی کا نام پیش کیا جاتا تو وہ آپ(علیہ السلام) کے مقابلہ میں نہ کھڑے ھوتے جس کا مطلب یہ ھے کہ سقیفہ میں ان کا ابوبکر کے مقابلہ میں کھڑا ھونا در اصل ان کے اس منصوبہ کی مخالفت میں تھا
جسے قریش نے خلافت پر قبضہ کرنے اور اس کے شرعی حقداروں سے چہین لینے کےلئے تیار کیا تھا-  استاد توفیق ابو علم آپنی کتاب ”اہل البیت(علیہم السلام) “ میں کہتے ہیں: کوئی بعید نہیں ھے کہ جب سعد بن عبادہ نے مھاجرین کا یہ پختہ ارادہ بھانپ لیا کہ وہ حق کو صاحبان حق تک نہیں جانے دیں گے تو انھوں نے اس کےلئے آپنا نام پیش کردیا ھو-
بھر حال اصل حقیقت چاھے جو کچھ بھی ھو، لیکن حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل اور مختلف مواقع پر آپ کی تصریحات کی بنا پر آپ جمھور مسلمین کے ایک بڑے حصہ کے نظریہ کے مطابق ان کے حاکم تھے حتی کہ حضرت علی(علیہ السلام) بھی اس بارے میں پر اعتماد تھے کہ خلافت انہیں کا حق ھے-
ابن اہی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تحریر کیا ھے: حضرت علی(علیہ السلام) کو اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ خلافت ان کا حق ھے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی ان کا مد مقابل نہیں ھے، وہ مزید کہتے ہیں:
اور ان سے ان کے چچا عباس نے کھا: آپنا ہاتھ بڑھاوٴ تاکہ یہ کھا جاسکے کہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا نے رسول کے ابن عم کی ہیعت کرلی ھے تاکہ تمھارے بارے میں کوئی دو آدمی بھی اختلاف نہ کریں تو انھوں نے کھا: اے چچا، کیا میرے علاوہ بھی کوئی اس کا دعوے دار ھے؟
تو انھوں نے کھا جلد ہی تمہیں معلوم ھوجائے گا پھرآپ نے فرمایا: اس درد سری میں مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ھے-
چنانچہ وہ اور ان کے ساتھی اس وقت انگشت بدنداں رہ گئے کہ جب انھوں نے اس عجیب و غریب حادثہ کی خبر سنی اور یہ دیکھا کہ لوگ ابوبکر کو اس طرح مسجد میں لارھے ہیں جیسے کسی دلھن کو لایا جاتا ھے جب کہ حضور اکرم کا جنازہ ابھی تک آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں ہی موجود تھا
 اور آپ کے اہل خانہ اور ازواج آپ کو سپرد خاک کئے جانے کے منتظر تھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کو یہ معلوم ھوا کہ ابوبکر نے آپنے مخالف انصار کے سامنے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپنی قرابت اور آپنے سابق الاسلام ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا تو ان کےلئے بھی یہ ضروری تھا کہ وہ بھی ان کو انہیں دلیلوں سے لاچار کر دیتے جو انھوں نے دوسروں کے سامنے پیش کی تھیں اور اگر وہ ان دلائل کو صحیح تسلیم نہ کرتے یا انہیں قبول کرنے سے انکار کرتے تو آپ کےلئے عین ممکن تھا کہ ان کے سامنے ایسی دسیوں دلیلیں پیش کردیتے جن میں کسی قسم کے بحث و مباحثہ اور غور و فکر کی گنجائش نہیں تھی البتہ اگر ان کے پاس دلیل ومنطق کا کوئی خانہ ھوتا!اور آپ ان کوان کے ان ہی دلائل سے خاموش کردیتے جن پر وہ خود مصر تھے، اگرچہ اس کے باوجود بھی آپ نے انہیں باتوں کو دلیل بناکر پیش کیا جن کے ذریعہ انھوں نے انصار پر غلبہ حاصل کرلیا تھا، نیز آپنے بارے میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال، نصوص آپنا ماضی، جہاد، رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخوت جیسے دلائل بھی پیش کئے اور مسلسل آپنے حق کا مطالبہ کرتے رھے اور آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ سیدہٴ نساء عالمین جناب فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا) فدک کے ساتھ آپنے شوہر  نامدار کی خلافت کا مطالبہ بھی کرتی رہیں-
اکثر راویوں نے نقل کیا ھے کہ ابو سفیان نے حضرت علی(علیہ السلام) کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی اور آپ کو ان سے ڈراکر سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتے ھوئے یہ کھا: خدا کی قسم میں ان کے خلاف مدینہ کو گھوڑوں اور سواروں سے بھردوں گا، اور حضرت علی کو بخوہی معلوم تھا کہ یہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ کو ھوا دے کر انہیں آپس میں لڑانا چاہتا ھے تاکہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو جنھوں نے آپنے دلوں میں شرک و نفاق کو چھپا رکھا ھے موقع مل جائے اور وہ آپنے اسلام دشمن مقاصد کے تحت ان مسلمانوں سے آپنا بدلہ چکاسکیں جن سے ہیس سال تک ابو سفیان نے جنگ کی تھی، اور اسی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر اس کااور اس کی ہیوی ھندہ جگر خوارہ کا اسلام مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ ناگواری میں قبول کیا جانے والا اسلام تھا-
  کیونکہ یہ اس مغلوب کاا سلام تھا جس کے اوپر ھر طرف سے راستے بندھوچکے تھے اور اس کےلئے مسلمانوں کی صف میں داخل ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہٴ کار باقی نہیں رہ گیاتھا جب کہ ان دونوں کے دل کینے سے بھرے ھوئے تھے جو اس قسم کے حالات میں اکثرظاھر ھوتارہتا تھا-  
طبری اور کامل ابن اثیر کی روایت میں ھے: امیر المومنین نے ابو سفیان کو ڈانٹتے ھوئے اس سے یہ کھا: خدا کی قسم فتنہ و فساد کے علاوہ تیرا کوئی ارادہ نہیں ھے اور اللہ کی قسم توھمیشہ سے اسلام کا بدترین دشمن رھا ھے ھمیں تیری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ھے-  

۲-سقیفہ کے نتائج

واقعہٴ سقیفہ میں تین قسم کے مخالف سامنے آئے:
۱-انصار: جنھوں نے سقیفہ میں خلیفہ اور ان کے دونوں ھمنواوٴں کی جم کر مخالفت کی یھاں تک کہ ان کے درمیان زبانی تکرار کے ساتھ لڑائی کی نوبت تک آگئی اور بالآخر عربوں کی دینی وراثت والی ذھنیت اور انصار کے دو دھڑوں میں تقسیم ھوجانے اور ان کے پرانے جھگڑوں کے سر ابھارنے کی وجہ سے اس کا خاتمہ قریش کی کامیاہی پر ھوا-   
در اصل آپنے دفاع کےلئے ان کا سارا زور اسی نکتہ پر تھا جو ان کے خیال میں ان کا حق تھا اور بہت سے لوگوں کی نظر میں عزت و شرف کا ذریعہ بھی تھا کیونکہ قریش رسول اللہ کے خاندان والے اور ان کے اقرباء تھے لہٰذا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں آپ کی خلافت و حکومت کے زیادہ حقدار تھے اسی وجہ سے ابوبکر اور ان کی تائید کرنے والوں نے سقیفہ میں انصار کے اجتماع سے دوھرا فائدہ اٹھایا:
پہلے یہ کہ: انصار نے ایسا راستہ(طریقہٴ کار)آپنایا تھا جو انہیں حضرت علی(علیہ السلام) کی صف میں کھڑے ہونے اور آپ کی لیاقت و حکومت اور استحقاق کو آپنے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا-

دوسرے یہ کہ:ابوبکر کا ان حالات نے اس طرح ساتھ دیا کہ انہیں انصار کے مجمع میں مھاجرین کے حقوق کا تنھا مدافع بنا ڈالا اور انہیں آپنی مصلحتوں کےلئے سقیفہ سے بہتر پلیٹ فارم نہیں مل سکتا تھا کیونکہ اس وقت اس پلیٹ فارم پر ایسے بڑے بڑے مھاجرین موجود نہیں تھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی وھاں موجود ھوتا تو پھر اس دن سقیفہ کا قصہ تمام نہیں ھوسکتا تھا-  
جب ابوبکر سقیفہ سے باھر نکلے تو ان کی ہیعت صرف ان بعض مسلمانوں نے کی تھی جنہیں اس میں کچھ حصہ مل چکا تھا یا پھروہ اس پر کسی طرح بھی سعد بن عبادہ کا قبضہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے-

۲- بنی امیہ: جن کا ارادہ یہ تھا کہ انہیں بھی حکومت میں کچھ حصہ مل جائے تاکہ وہ آپنی کہوئی ہوئی  اس سیاسی طاقت کی تلافی کرسکیں جواسلام آنے کے بعد ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی-  ان میں سب سے آگے آگے ابو سفیان تھا اور حاکم جماعت(یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھی) کوبنی امیہ کی مخالفت خاص طور سے ابوسفیان کی دھمکیوں اور اس کو پیغمبر اکرم نے اموال جمع کرنے کےلئے جس سفر پر بھیجا تھا اس سے وآپسی پر اس نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی جو دھمکی دی تھی انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی، کیونکہ وہ بنی امیہ کی فطری دولت پرستی سے بخوہی واقف تھے اور اس طرح بنی امیہ کو حکومت کی طرف جھکانا بہت آسان تھا جیسا کہ ابوبکر نے یہی کیا تھا کہ انھوں نے آپنے بلکہ(ایک نقل کے مطابق) عمر نے ان کےلئے یہ جائز کردیا تھا کہ مسلمانوں کے جو اموال اور زکات ابوسفیان کے پاس ھےں انہیں اسی کے حوالہ کردیا جائے اور اس کے علاوہ بھی بنی امیہ کےلئے حکومت کے کئی اھم دروازوں سے کچھ حصے مخصوص کردئے گئے-

۳-بنی ہاشم اور ان کے قریہی چاھنے والے: جیسے جناب سلمان، ابوذر، مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم جو یہ سمجھتے تھے کہ فطری اور سیاسی اعتبار سے ہاشمی گھرانہ ہی پیغمبر اکرم کا اصل وارث ھے-   
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حاکم طبقہ کو انصار اور بنی امیہ کے ساتھ رکھ رکھاوٴ اور ان سے امتیاز حاصل کرنے میں کسی طرح کامیاہی ملی-  لیکن اسی کامیاہی نے اسے ایک واضح سیاسی ٹکراوٴ سے دوچار کردیا کیونکہ سقیفہ کے حالات کا تقاضا تو یہی تھا کہ حاکم طبقہ رسول اللہ کی قرابت کو مسئلہ خلافت کی اھم گوٹ قرار دے دے اور دینی قیادت کےلئے وراثت کے راستہ کو پختہ کردے لیکن سقیفہ کے بعد یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی اور اس مسئلہ نے اس انداز سے دوسرا رنگ اختیار کرلیا کہ اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کی وجہ سے آپ کی خلافت کےلئے قریش تمام عربوں سے اولیٰ ہیں تو بنی ہاشم بقیہ قریش کے مقابلہ میں اس کے زیادہ سزاوار اور مستحق ہیں-  
اس کا اعلان حضرت علی(علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کیا تھا:جب ان کے اوپر مھاجرین نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کو حجت بنا کر پیش کیا تھا تو یہی پہلو مھاجرین کے اوپر ھماری حجت ھے اور اگر ان کی دلیل ناقص ھو جائے تو بھی ھمارے پاس دلیل موجودھے نہ کہ ان کےلئے ورنہ انصار کا مطالبہ آپنی جگہ پر باقی ھے-
اسی بات کی وضاحت جناب عباس نے حضرت ابوبکر سے آپنی ایک گفتگو میں اس طرح فرمائی ھے: اور تمھارا یہ کھنا کہ ھم رسول اللہ کے شجرہ سے ہیں “ تو پھر ”تم تو اس شجرہ کے پڑوسی ھو اور ھم اس کی شاخیں ہیں “-  
نیز حضرت علی(علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ حاکم طبقہ کے دلوں میں موجودہ دھشت کی بنیاد بنی ہاشم کی مخالفت ھے کیونکہ ان کے مخصوص حالات اور(وسائل)اس نو مولود حکومت کے خلاف دو مثبت پہلووٴں سے مددگار ثابت     ھوں گے-


۱-حکومت کی دشمن پارٹیوں کو آپنے ساتھ ملا لیا جائے جیسے بنی امیہ اورمغیرہ بنی شعبہ وغیرہ جنھوں نے آپنی حمایت کی نیلامی کی بولی لگانا شروع کردی تھی اور وہ ھر رخ کو نظر میں رکھ کر اس کی بھاری سے بھاری قیمت وصول کرنا چاہتے تھے، جس کا پتہ ھمیں ابو سفیان کی اس بات سے لگتا ھے جو اس نے مدینہ پھنچتے ہی سقیفائی خلافت کے سامنے رکھی تھی، نیز اس نے حضرت علی(علیہ السلام) کو اکسانے کی کوشش کی اورجب خلیفہ نے اسے مسلمانوں کے وہ تمام اموال بخش دئے جنہیں وہ آپنے سفر کے دوران وصول کرکے لایا تھا تو پھر وہ خلیفہ کی طرف جھک گیا کیونکہ اس زمانہ میں عام طور سے لوگوں کی ایک جماعت کے اوپر زرپرستی کا غلبہ تھا-
اور یہ واضح ھے کہ رسول اللہ نے جو خمس، یا مدینہ کی اراضی کے غلات یا فدک جیسے سرمائے چھوڑے تھے اور ان کی ایک بڑی آمدنی تھی حضرت علی(علیہ السلام) ان کے ذریعہ ان تمام لوگوں کے منھ بند کرسکتے تھے-
 دوسرے یہ کہ حضرت علی(علیہ السلام) کے پاس ان کے مقابلہ کےلئے آسان حربہ یہ تھا جس کی طرف آپ نے خود بھی یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ھے: ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “ انھوں نے شجرہ(پیڑ)کو تو حجت بنا لیا مگر اس کے پہل کو ضائع کر ڈالا-  یعنی چونکہ اس وقت رائے عامہ اہل ہیت(علیہم السلام) کی تقدیس اور ان کے احترام کے بارے میں متفق تھی اور انہیں رسول اللہ کی قرابتداری کی بنا پر ایک خاص امتیاز حاصل تھا اور یہی ان کی مخالفت کے برحق ہونے کی ایک مضبوط سند تھی-

برسر اقتدارپارٹی کے اقدامات

پہلا اقدام؛ حضرت علی(علیہ السلام) کی مالی قوت کمزور کرنا

بر سر اقتدار طبقہ کے سامنے بڑی سخت صورتحال پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اسلامی مملکت کے جن ثروتمند طبقوں سے حکومت کا خزانہ چلتاتھا انھوں نے اس وقت تک نئی حکومت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا تھا

جب تک کہ خود مدینہ کے اندر اس کی پوزیشن مستحکم نہ ھوجائے، اور مدینہ والے سو فیصد اس کے اوپر متفق نہیں ھوسکتے تھے، کیونکہ مثلا اگر ابو سفیان یا اس جیسے لوگوں نے اگرچہ باقاعدہ سودے بازی کر کے حکومت کی حمایت کی تھی مگر پھر بھی یہ ممکن تھا کہ کل اگر کوئی دوسرا انہیں اس سے زیادہ مال کی پیش کش کرتا تو وہ پرانا سودا ختم کردیتے اور یہ کام حضرت علی(علیہ السلام) کےلئے ھر وقت آسان تھا، تو جب یہ صورتحال تھی، تواس وقت حضرت علی(علیہ السلام) سے ان کی مالی طاقت ختم کرنا حکومت کےلئے یقینا ضروری تھا کیونکہ وہ اس وقت تومقابلہ کےلئے آمادہ نہیں تھے-  مگر ان کا سرمایہ جو کسی بھی وقت بر سر اقتدار طبقہ کے مصالح کو خطرات سے دوچار کرسکتاتھاتاکہ اس کے ذریعہ انصار حکومت کی حمایت پر باقی رہیں اوراس کے مخالفین اہل حرص و طمع لوگوں کو ایک
پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک پارٹی کی شکل میں ان کے مقابلہ کےلئے سر ابھارنے کے لائق نہ رہ جائیں-
اس تجزیہ کو بر سر اقتدار طبقہ کی سیاست سے بعید قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ تجزیہ ان کی اس سیاست کے عین مطابق ھے جس کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہٴ کار نہیں تھا اور خاص طور سے جب کہ ھمیں یہ معلوم ھے کہ ابوبکر نے بنی امیہ کو اس وقت دولت و حکومت دونوں کے ذریعہ خرید لیا تھا جب ابو سفیان کے ہیٹے کو گورنر بنایا تھا جیسا کہ روایت میں ھے کہ جب ابوبکر خلیفہ بنادئے گئے تو ابو سفیان نے کھا: ھمیں اور ابو فصیل کو کیا ملے گا؟ کہ وہ بھی اولاد عبد مناف میں سے ھے، تو اسے یہ جواب دیا گیا، اس نے تمھارے ہیٹے کو گورنری دے دی ھے تو اس نے کھا تم نے صلہٴ رحم کیا ھے-

دوسرا اقدام؛ امام(علیہ السلام) کی مخالفت کا سامنا

بر سر اقتدار طبقہ اس کشمکش میں پڑگیا کہ دوسرے پلیٹ فارم کا سامنا کس طرح کیا جائے اور اس کے مقابلہ کےلئے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کون سا طریقہٴ کار زیادہ مستحکم رھے گا؟-

۱-رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت داری کو کوئی اھمیت نہ دی جائے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ابوبکر کی خلافت کے اوپر سے وہ شرعی لبادہ اتار دیا جائے جو اس نے سقیفہ کے دن زیب تن کیا تھا-

۲- آپنی ہی بات کاٹ کر خود آپنی مخالفت کر ہیٹہیں یعنی سقیفہ میں جن چیزوں کا اعلان کیا گیا ھے ان پر ثابت قدم رہیں لیکن بنی ہاشم کو کسی قسم کا کوئی حق اور امتیاز نہ دیا جائے اور اگر انہیں کوئی رعایت دی بھی جائے تو وہ ایسی ھو کہ ان لوگوں نے جو حکومت تیار کی ھے اور اس بارے میں جو معاھدے ھوئے ہیں اس سے ان کے ٹکراوٴ کا کوئی امکان نہ ھو اور جب ایسا ھوگا تو پھر کوئی بھی بنی ہاشم کی مدد نہیں کرے گا-
چنانچہ اقتدار پر قابض طبقہ نے یہی ترجیح دی کہ انصار کی میٹنگ میں انھوںنے جن نظریات کی ترویج کی تھی انہیں کو مزید مستحکم بنایا جائے اور آپنے مخالفوں پر یہ اعتراض کردیا جائے کہ خلیفہ کی ہیعت کے بعد ان لوگوں کی مخالفت صرف ایک نیا فتنہ ھے جو اسلام میں حرام ھے-  

آل محمد(علیہم السلام) کے مقابلہ کےلئے دوسرے عملی اقدامات

جب ھم سلاطین سقیفہ کی سیاست پر مزید غور و فکر کرتے ہیں تو ھمیں یہ معلوم ھوتا ھے کہ ان لوگوں نے آپنے اقتصادیات مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ شروع سے ہی آل محمد(علیہم السلام) کے مقابلہ میں ایک خاص قسم کی سیاست آپنائے رکھی تاکہ اس طرز فکر پر کنٹرول کیا جاسکے جس کی پشت پناہی کی بنا پر بنی ہاشم ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے جس طرح کہ انھوں نے آپنی مخالفت کا ہی گلا گھونٹ دیا تھا-  اور یہ سب اس کے باوجودتھا کہ جب     بنی ہاشم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے زیادہ قریہی رشتہ دار تھے-  
ھم اس سیاست کا اس طرح تجزیہ کرسکتے ہیں کہ اس سیاست کا اصلی مقصد ہاشمی گھرانہ کی تمام مراعات کو ختم کرکے ان کے تمام چاھنے والے مخلصوں کو اھم حکومتی عھدوں سے دور رکھنا تھا
اور مسلمانوں کے درمیان ان کی جو قدر و منزلت تھی اسے بالکل ختم کردینا تھا چنانچہ ھمارے اس نظریہ کی تائید مندرجہ ذیل تاریخی حادثات سے ھوتی ھے-

۱-حضرت علی(علیہ السلام) کے ساتھ خلیفہ اور ان کے ھمنواوٴں کا ہیحد سخت رویہ حتی کہ عمر کی یہ دھمکی کہ ان کے گھر کو آگ لگا کر جلا دیا جائے گا چاھے اس کے اندر فاطمہ(سلام اللہ علیھا) ہی کیوں نہ ھوں! جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ چاھے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) یا بنی ہاشم کی اور کوئی محترم شخصیت ہی کیوں نہ ھو اس کا احترام ان کے راستہ میں حائل نہیں ھوسکتا اور وہ اس کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی سلوک کریں گے جو سقیفہ کے دن سعد بن عبادہ کے ساتھ کیا تھا  لوگوں کو ان کے قتل کرنے کا حکم تک دے دیا تھا اور اس تشدد کی ایک اور شکل، حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں خلیفہ کا یہ کھنا ھے کہ وہی سارے فتنہ کی جڑہیں یا ان کی یہ مثال دینا کہ وہ ایک لومڑی کی طرح ہیں(معاذاللہ)یا عمر نے حضرت علی(علیہ السلام) سے یہ کھا تھا: رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھم میں سے اور تم میں سے ہیں-

۲-خلیفہ اول نے کسی بھی ہاشمی کو حکومت کے کسی اھم کام میں دخیل نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان کو اتنی وسیع مملکت اسلامیہ کی کسی ایک بالشت زمین کا حاکم(گورنر)بنایا جب کہ بنی امیہ کا اس میں ایک وافر حصہ تھا بلکہ خلیفہٴ دوم اور ابن عباس کی گفتگو سے ھم بآسانی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب ایک سوچی سمجہی سیاست کے تحت کیا گیا تھا جب انھوں نے ان کو ” حمص“ کا گورنر بنایا تو اس خوف کا اظھار کیا تھا کہ اگر بنی ہاشم اسلامی مملکت کے مختلف علاقوں کے حاکم ھوگئے اور اسی دوران خلیفہ کا انتقال ھوگیا تو اس سے خلافت کی بری طرح کایا پلٹ ھوسکتی ھے جو انہیں ھرگز پسند نہیں ھے-  

۳-خلیفہٴ اول کا خالد بن سعید بن عاص کو فتح شام کےلئے بھیجے جانے والے لشکر کی سپہ سالاری سے معزول کرنا جس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھی
 کہ عمر نے خالدکے ہاشمیوں اور اہل ہیت(علیہم السلام) پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی  طرف ان کے رجحان اور وفات پیغمبر کے بعد ان کے بارے میں ان کے دوستانہ رویہ کی وجہ سے خلیفہٴ اول کے کان بھر دئے تھے-  
مختصر یہ کہ برسر اقتدار طبقہ کی ساری کوشش یہ تھی کہ بنی ہاشم اور دوسرے تمام مسلمانوں کو ھر لحاظ سے ایک صف میں کھڑا کردیا جائے اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو جو خاص نسبت ھے اس کی اھمیت کو ختم کردیا جائے تاکہ اس طرز تفکر کا خاتمہ ھوجائے جس کے بل بوتے پر بنی ہاشم کی مخالفت میں سارا زور ھے اور حتی کہ اگر ارباب خلافت کویہ اطمینان بھی ھوتاکہ حضرت علی(علیہ السلام) اس وقت اسلام کو درپیش خطرات کے پیش نظر ان کے خلاف انقلاب برپا نہیں کریں گے مگر اس کے باوجود ان کادل اس طرف سے ھرگز مطمئن نہیں تھا کہ وہ کسی بھی وقت ان کے خلاف قیام کرسکتے ہیں، لہٰذا یہ ایک فطری تقاضا تھا کہ جب تک سکون کا ماحول ھے اور اس سے پہلے کہ آپ ان کے خلاف انہیں نگل جانے والی مھم شروع کرےں وہ آپ کی مادی طاقت(فدک)اور معنوی طاقت(خلافت) پر آپنا کنٹرول قائم کرلیں-

۴- لہٰذا اس کے بعد یہ ایک سمجھ میں آنے والی بات ھے کہ خلیفہ وہ تاریخی حکم صادر کردیں جو حقِ  جناب فاطمہ(س) یا ”قصہٴ فدک “ کے نام سے مشھور ھے-  اور یہ ایسا ہتھکنڈہ تھا جس سے خلافت کے دونوں سیاسی منصوبے ایک ساتھ پورے ھوگئے کیونکہ جن اسباب کی بنا پر انھوں نے آپنے کارندے بھیج کر   جناب فاطمہ(س) سے فدک کا علاقہ چہینا تھا ان کا تقاضا یہی تھا کہ آپنے مخالف سے اس کی وہ دولت چہین لی جائے جو اس دور کے لحاظ سے ایک مضبوط اسلحہ تھا اور اس کی بنا پر ان کی حکومت کو ھر لمحہ خطرہ لاحق رہتا، ورنہ اگر یہ وجہ نہ ھوتی تو انہیں فدک جناب فاطمہ(س) کے حوالہ کرنے میں کون سی پریشانی تھی
کہ جب آپ نے ان سے یہ پختہ وعدہ کرلیا تھا کہ آپ اس کی آمدنی کو صرف کارخیر اور عوام کی بھلائی کے راستوں میں خرچ کریں گی؟ مگر کیا کیاجائے کہ خلیفہ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں
 وہ(معاذ اللہ)وعدہ خلافی نہ کرہیٹہیں اور فدک کا کل سرمایہ سیاسی میدان میں پانی کی طرح نہ بھادیا جائے اور مزید یہ کہ اگر بالفرض یہ ثابت بھی ھوجائے کہ فدک مسلمانوں کا حق تھا تو انھوں نے جناب فاطمہ(س) کو اس میں سے ان کا وہ حق کیوں نہیں دیا جو تمام صحابہ کو دیا گیا تھا؟ جسکے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ اس کے ذریعہ آپنی خلافت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے-
نیز یہ کہ ھمیں بخوہی معلوم ھے کہ جناب فاطمہ(س) آپنے شوہر  نامدار کی حقانیت کی ایک زندہ دلیل تھیں اور  حضرت علی(علیہ السلام) کے چاھنے والے آپ کو باقاعدہ ایک زندہ سند کے طور پر پیش کرتے تھے اس سے ھمارے لئے یہ بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ فدک سے متعلق حضرت فاطمہ(س) کے دعوے کے مقابلہ میں خلیفہ کی پوری کوشش یہی تھی کہ وہ آپنے سیاسی منصوبہ کے تحت بالکل اسی راستے پر چلتے رہیں جس پر چلنا اس وقت کا تقاضا تھا، چنانچہ خلیفہ نے اس موقع کوغنیمت سمجھا اور نھایت زیرکی کے ساتھ بالواسطہ انداز میں عام مسلمانوں کے ذھن میں یہ بات بٹھا دی کہ جناب فاطمہ(س) عام عورتوں کی طرح ایک خاتون ہیں لہٰذا فدک جیسے عام معاملات میں ان کی رائے یا ان کا دعویٰ قبول کرنا صحیح نہیں ھے چہ جائےکہ خلافت جیسے اھم مسئلہ میں؟!
اور جب وہ ایک ایسی زمین کا مطالبہ کرسکتی ہیں جو ان کا حق نہیں ھے تو پھر عین ممکن ھے کہ وہ آئندہ آپنے شوہر  کےلئے پوری مملکت اسلامیہ کا مطالبہ کرہیٹہیں جب کہ وہ اس کے حقدار نہیں ھےں-  
۳-فدک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)کے درمیان:

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھے:<فآت ذا القرهیٰ حقّه و المسکين و ابن السبيل ذلک خير لّلذين يريدون وجه الله و اولئک هم المفلحون>
ھمیں اچہی طرح معلوم ھے کہ اس آیت میں خداوندعالم نے نہی اکرم کو یہ حکم دیا ھے کہ قرابتداروں کو ان کا حق دے دیں، تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آپ کے قرابتدار کون لوگ ہیں؟ اور ان کا حق کیا ھے؟

تو اس بارے میں مفسرین کا اتفاق ھے کہ قرابتداروں سے آپ کے قریہی رشتہ دار یعنی حضرت علی(علیہ السلام) فاطمہ(س) اور حسن(علیہ السلام) و حسین(علیہ السلام) مراد ہیں، جس کے یہ معنی ھوں گے کہ آپنے ان قرابتداروں کو ان کا حق دے دیجئے-
سیوطی کی تفسیر در المنثور میں ابو سعید خدری سے روایت ھے کہ: جب یہ آیت(فآت ذا القرہیٰ حقّه---) نازل ہوئی تو رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے جناب فاطمہ(س) کو بلایا اور انہیں فدک عطا کردیا-   
ابن حجرمکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ھے کہ عمر نے کھا: میں تمہیں اس امر کے بارے میں بتائے دیتاھوں کہ خداوندعالم نے یہ حصہ آپنے پیغمبر کےلئے مخصوص کردیا تھا اور اس میں سے ان کے علاوہ کسی کو کچھ بھی نہیں دیا ھے جیسا کہ اس کا ارشاد ھے:” و ما اٴَفاء الله علٰی رسوله منهم فما اٴوجفتم عليه من خيل و لا رکاب و لکنّ الله يسلط- --“اس طرح یہ(یعنی فدک) صرف اور صرف رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا حق تھا-  
تاریخی اسناد سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ فدک جناب فاطمہ(س) کے قبضہ میں اور آپ کے زیر تصرف تھا،
نیز فدک کے آل رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبضہ میں ہونے کی ایک بہترین دلیل حضرت علی(علیہ السلام) کا وہ خط بھی ھے جو آپ نے بصرہ میں آپنے گورنر عثمان بن حنیف کے نام لکھا تھا جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ھے:”بلیٰ کانت فی اٴيدينا فدک من کلّ ما اٴظلّته السماء فشحّت عليها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قومٍ آخرين، و نعم الحکم الله- ---“
”آسمان کے نیچے ھمارے پاس کل ایک فدک ہی تھا جس پر ایک قوم کے کچھ لوگوں کی رال ٹپک گئی اور دوسرے لوگ اس کی وجہ سے ناراض ھوگئے اور بہترین قاضی اللہ ھے-   

بعض روایات میں اس طرح کا اشارہ ھے کہ جب ابوبکر کی حکومت مضبوط ہوگئی تو انھوں نے جناب فاطمہ(س) سے فدک چہین لیا   جس کے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے ہی فدک حضرت فاطمہ(س) کے قبضہ اور آپ کے تصرف میں تھا اور خلیفہ اول نے اسے آپ سے چہین لیا تھا-  
علامہ مجلسی کی روایات میں ھے: فدک پر قبضہ ہونے کے بعد جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پھنچے تو جناب فاطمہ(س) کے پاس تشریف لےگئے اور ان سے فرمایا: ”يا بنية انّ الله قد اٴفاء علی اٴبيکِ بفدک و اختصّه بها،فهي له خاصة دون المسلمين، اٴفعل بها ما اٴشاء و انّه قد کان لاُمک خديجة علیٰ اٴبيک مهر، انّ اٴباک قد جعلها لک بذلک، واٴنحلها لک ولولدک بعدک“
اے ہیٹی! خداوندعالم نے تمھارے بابا کو فدک عطا فرمایا ھے اور اسے ان کےلئے مخصوص کردیا ھے لہٰذا وہ صرف انہیں کا حق ھے نہ کہ مسلمانوں کا، مجھے اس کے بارے میں ھر طرح کا اختیار ھے اور چونکہ تمھارے بابا پر تمھاری والدہ خدیجہ کا مہر تھا لہٰذا تمھارے بابا نے ان کے بدلے یہ تمہیں دے دیا ھے اور اسے تمھارے لئے اور تمھارے بعد تمھاری اولاد کےلئے آپنی طرف سے عطیہ قرار دیا ھے-
 پھر آپ نے ایک کھال منگائی اور حضرت علی(علیہ السلام) کو طلب کرکے ان سے فرمایا:”اُکتب لفاطمة بفدک نحلة من رسول الله“ ”فاطمہ(س) کےلئے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ھبہ نامہ لکھ دو“ پھر اس کے اوپر حضرت علی(علیہ السلام) اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خادم نیز ام ایمن نے  گواہی دی-  

۴-غصب فدک

جب رسول اکرم کی وفات ہوگئی، ابوبکر خلافت نشین ھوگئے اوردس دن گذرنے کے بعد ان کی پوزیشن مضبوط ہوگئی تو انھوں نے آپنے کارندوں کو بھیج کر فدک سے جناب فاطمہ(س) کے وکیل کو باھر نکلوادیا-  
روایت میں ھے کہ جناب فاطمہ(س) نے کسی کو خلیفہ کے پاس بھیج کر ان سے یہ پوچھا: تم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ھو یا ان کے گھر والے؟ تو انھوں نے کھا: ان کے گھر والے،تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کا حصہ(میراث) کیا ھوا؟ تو خلیفہ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے”انّ الله اٴطعم نبيّه طعمة “ ” ہیشک خداوندعالم نے آپنے نہی کو(ان کارزق)کھلادیا پھر ان کی روح قبض کرلی اور اسے اس کےلئے قرار دے دیا جو ان کی جگہ خلیفہ بنا ھو لہٰذا میں ان کے بعد خلیفہ ھوں تاکہ اسے مسلمانوں کو وآپس پلٹادوں-  
ام المومنین عائشہ سے روایت ھے کہ شہزادی کائنات نے کسی کو بھیج کر خلیفہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث کا مطالبہ کیا جس میں مدینہ میں موجود پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی تمام ملکیتوں کے علاوہ فدک اور خیبر کے باقی ماندہ خمس کا مطالبہ کیا تھا، تو خلیفہ نے کھا کہ حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایاھے: ھم کسی کو آپنا وارث نہیں بناتے ہیں بلکہ ھم جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ھے اور ہیشک آل محمد(علیہم السلام) اس مال سے کچھ نہیں کھاسکتے ہیں-
 اور(خداکی قسم)میں    رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات میں سے کسی چیز کو تبدیل نہیں کرسکتا ھوں بلکہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جس طرح تھے ان کو اسی طرح رھنے دوں گا اور اس کا وہی مصرف کروں گا جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کیا کرتے تھے-
  چنانچہ ابوبکر نے ان میں سے کچھ بھی فاطمہ(س) کے حوالہ کرنے سے انکار کردیا-  
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے کہ حضرت علی(علیہ السلام) نے جناب فاطمہ(س) سے کھا:” انطلقی فاطلہی ميراثک من اٴبيک رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) فجائت الی اٴہی بکر و قالت:  لم تمنعنی ميراثی من اٴہی رسول اللهٰ؟ و اٴخرجتَ وکيلی من فدک و قد هجعلها لی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) باٴمر الله تعالی؟“جاوٴ آپنے بابا کی میراث میں سے آپنے حق کا مطالبہ کرو تو آپ ابوبکر کے پاس گئیں اور ان سے کھا: تم نے میرے بابا کی میراث سے مجھے کیوں محروم کردیا ھے؟ اور میرے کارندوں کو فدک سے کیوں نکال دیا؟ جب کہ مجھے وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے عنایت فرمایا تھا-  تو انھوں نے کھا کہ انشاء اللہ آپ حق کے سوا کچھ نہیں کہہ رہی ہیں لیکن آپ اس کےلئے گواہ پیش کریں، تو ام ایمن آئیں اور انھوں نے خلیفہ سے کھا: اے ابوبکر میں اس وقت تک گواہی نہ دوں گی جب تک تمھارے سامنے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول سے حجت تمام نہ کردوں میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتی ھوں کہ بتاوٴ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایاھے: ام ایمن اہل جنت کی خواتین میں سے ہیں “ تو خلیفہ نے جواب دیا ھاں یہی فرمایا تھا تو وہ بولیں، تو اب میں یہ گواہی دیتی ھوں کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو یہ تاکید فرمائی <فآت ذا القربی حقّه>تو آپ نے فدک کاعلاقہ فاطمہ(س) کو بخش دیا اور پھر علی(علیہ السلام) نے بھی یہی گواہی دی، تو ابوبکر نے ایک نوشتہ لکھ کر اسے آپ کے حوالہ کردیا اتنے میں عمر آگئے اور بولے یہ نوشتہ کیسا ھے؟
تو خلیفہٴ اول نے کھا کہ فاطمہ(س) نے فدک کا دعویٰ کیا تھا اور ام ایمن نیز علی(علیہ السلام) نے ان کے حق میں گواہی دی ھے لہٰذا میں نے ان کےلئے یہ نوشتہ لکھ دیا تو عمر نے اسے جناب فاطمہ(س) کے ہاتھ سے لے کر پہلے اس پر تھوکا اور پھر اسے پھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیا،تو شہزادی کائنات وھاں سے روتی ہوئی باھر نکل آئیں-  
روایت میں ھے کہ ایک بار مولائے کائنات خلیفہٴ اول کے پاس گئے اس وقت وہ مسجد میں تھے تو آپ نے خلیفہ سے کھا: ”يا اٴبا بکر لِمَ منعت فاطمة ميراثها  من رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) و قد ملکته فی حياة رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم)؟“”اے ابوبکر تم نے فاطمہ (س) کواو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی میراث سے کیوں محروم کردیا جب کہ وہ رسول اللہ کی زندگی سے ہی اس کی مالک تھیں؟“ تو ابوبکر بولے، یہ مسلمانوں کا حق ھے، لہٰذا اگر اس بارے میں گواہی پیش ھوجائے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فدک انہیں دے دیا تھا تو ٹہیک ھے ورنہ اس میں ان کا کوئی حق نہیں ھے تو مولائے کائنات(علیہ السلام) نے جواب دیا:” یااٴبابکر اٴ تحکم فینا بخلاف حکم الله     فی المسلمین؟“اے ابوبکر کیا تم ھمارے لئے مسلمانوں کے برعکس اللہ کا جو حکم ھے اس کے برخلاف فیصلہ کر رھے ھو؟ تو انھوں نے کھا نہیں تب آپ نے فرمایا:” فان کان فی يد المسلمين شيء يملکونه، ثم ادّعيت اٴنا فيه، من تساٴل البينة؟“(تو یہ بتاوٴکہ)اگر کسی مسلمان کے ہاتھ میں کوئی چیز ھو اور میں اس کے اوپر دعویٰ کرنے لگوں تو تم کس سے گواھوں کا مطالبہ کروگے؟ تو خلیفہ بولے تم سے گواہی پیش کرنے کا مطالبہ کروںگا-تو آپ نے فرمایا:”فما بال فاطمة ساٴلتها البيّنة علی ما فی يدھا و قد ملکته فی حياة رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) و بعدہ، و لم تساٴل المسلمين بيّنة علی ما ادّعوا شهوداً کما ساٴلتنی علی ما ادّعيت عليهم؟
 “ تو کیا وجہ ھے کہ جو چیز رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی فاطمہ(س) کے قبضہ میں تھی اور وہ ان کی ملکیت بھی تھی تم ان سے گواہی پیش کرنے کو کہہ رھے ھو، اور جو مسلمان دعویٰ کر رھے ہیں ان سے کیوں گواہی طلب نہیں کرتے ھو؟ جیسا کہ تم نے میرے دعوے کے موقع پر مجھ سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا! تو خلیفہ بالکل چپ رہ گئے- تو عمر نے کھا: اے علی(علیہ السلام)!ھمیں آپنی باتوں سے دور ہی رکھو!ھمارے اندر تمھاری حجتوں کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں ھے
 اگر تم عادل گواہ لے آئے تو ٹہیک ورنہ وہ مسلمانوں کا حق ھے اور اس میں نہ تمھارا کوئی حق ھے اور نہ ہی فاطمہ(س) کا حق ھے-  
 حضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:”يااٴبابکر تقراٴ کتاب الله؟“اے ابوبکر کیا تم کتاب خدا کی تلاوت کرتے ھو؟ وہ بولے ھاں!آپ نے فرمایا: تم مجھے یہ بتاوٴ کہ یہ آیت <انّما يريد الله ليذهب عنکم الرجس أهل البيت و يطهّرکم تطهيراً >کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ھے؟ ھماری شان میں یا ھمارے علاوہ کسی اور کی شان میں؟ کھنے لگے، تم لوگوں کے بارے میں، تو آپ نے فرمایا:”فلو اٴنّ شهووداً شهدوا علیٰ فاطمة بنت رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) بفاحشة ما کنت تصنع بها؟“ ذرا یہ بتاوٴ کہ اگر چند گواہ تمھارے سامنے آکر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیٹی فاطمہ(س) کے بارے میں کسی غلط بات کی گواہی دیں تو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟ تو ابوبکر نے کھا ان پر اسی طرح حد جاری کروں گا جس طرح دوسری مسلمان عورتوں پر حد جاری کرتا ھوں-  تو مولائے کائنات(علیہم السلام) نے جواب دیا:”کنتَ اذن عند الله من الکافرين“ تب تو تم خدا کے نزدیک کافر ھوجاوٴگے وہ بولے کس لئے؟ آپ نے فرمایا:”لاٴنّک رددت هادة الله بالطهارة و قبلت شهادة الناس عليها، کما رددت حکم الله و حکم رسوله اٴن جعل لها فدکاً و زعمت اٴنّها فيء للمسلمين، و قد قال رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم): البيّنة علی من ادّعیٰ و اليمين علی من اٴنکر“
اس لئے کہ تم نے ان کی طھارت و پاکدامنی کے بارے میں اللہ کی گواہی کو ٹھکرادیا اور اس کے بالمقابل لوگوں کی گواہی مان لی، بالکل اسی طرح جس طرح تم نے فدک کے معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی گواہی کو ٹھکرادیا اور آپنے خیال خام میں اسے مسلمانوں کا حق قرار دے دیا- جب کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ھے کہ گواہی پیش کرنا اس کی ذمہ داری ھے جو مدّعی ھو اور قسم اس کےلئے ھے جو منکر ھے “ یہ سنکر لوگ چلانے لگے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے اوریہ کھنے لگے، خدا کی قسم علی(علیہ السلام) سچ کہہ رھے ہیں-  

۵-مسجد نہی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ

جب شہزادی کو یہ اطلاع ملی کہ ارباب خلافت نے یہ طے کرلیا ھے کہ ان کو فدک سے محروم ہی رکھا جائے تو آپ نے مسجد میں جاکر آپنی مظلومیت کا اعلان کرنے اور لوگوں کے درمیان ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمانے کا پختہ ارادہ کرلیا چنانچہ پورے مدینہ اور اس کے اطراف میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پہیل گئی کہ بضعة الرسول، ریحانہٴ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنے بابا کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمانے والی ہیں، یہ خبر پاکر آپ کا تاریخی خطبہ سننے کےلئے ھر طرف سے لوگ جوق در جوق مسجد نبوی میں پھنچنے لگے چنانچہ ھم سے عبد اللہ بن الحسن نے آپنے آبائے کرام کے ذریعہ سے اس خطاب کی تفصیل یوں ہیان کی ھے:
جب ابو بکر اور عمر نے مل کر جناب فاطمہ(س) سے فدک وآپس نہ کرنے کا پختہ فیصلہ کرلیا اور آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے آپنی چادر سر پر اوڑہی، مقنعہ کو درست کیا، اور آپنے خاندان نیز بنی ہاشم کی خواتین کے حلقہ میں گھر سے باھر تشریف لائیں اس وقت آپ کی چادر کے گوشے زمین پر خط دے رھے تھے، اور آپ کے چلنے کا انداز بالکل رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انداز سے مشابہ تھا-  یھاں تک کہ آپ(س) اس خلیفہ کے پاس پھنچ گئیں جو اس وقت مھاجرین و انصار کے مجمع میں ہیٹھے ھوئے تھے پھر آپ کے اور ان کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا گیا اور آپ(س) اس کے پیچھے ہیٹھ گئیں،
اس کے بعد آپ نے ایک ایسی آہ و فریاد کی کہ جس سے پورا مجمع دھل گیا اور ھر طرف گریہ کی آوازیں بلند ہوگئیں اور مجلس پر لرزہ طاری ھوگیا، آپ نے تھوڑی دیر انتظار کیا یھاں تک کہ لوگوں کی ہچکیاں رک گئیں اور رونے کی آوازیں دہیمی پڑگئیں، آپ نے حمد و ثنائے الٰہی اور اس کے پیغمبر پر صلوات سے خطبہ کا آغاز کیا-  جس سے لوگوں کی آواز گریہ دوبارہ بلند ہوگئی-  جب سب خاموش ھوگئے تو آپ نے آپنے سلسلہٴ کلام کا دوبارہ یوں آغاز کیا:

 الحمد لله علی ما اٴنعم، و له الشّکر علی ما اٴلهم، و الثناء بما قدّم من عموم نعمٍ ابتدأها،و سبوغ آلاء اٴسداها، و تمام مننٍ اٴولاها، جمّ عن الاحصاء عددها، و ناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُها، و تفاوت عن الادراک اٴبدُها، و نَدَبّهم لا ستزادِتها بالشُّکرِ لاتّصالها،  و استحمَدَ الی الخلائِقِ باجزالها، و ثنی بالندب الی اٴمثالها، و اٴشهد اٴن لا اله الّا الله    و حده لا شريک له، کلَمَة ً جعل الاِخلاصَ تاٴويلّها، و ضَمَّنَ القلوبَ مَوصولّها، و اٴنارَ فی التفکُّرِ معقولّها-
الممتنع من الاٴبصار رؤيته، و من الاٴلسُنِ صفَته، و من الاٴوهامِ کيفيتهُ، ابتدع الاٴشياء لا من شيءٍ کان قَبلها، اٴنشأها بلا احتذاءِ اٴَمثلةٍامتثَلّها، کوَّنها بقدرته، و ذَرَاٴها بمشيَته، من غير حاجةٍ منه الی تکوينها، و لا فائدة له فی تصويرِها، الّا تثبيتاً لحکمته، و تنبيهاً علی طاعته، اظهاراً لقدرته و تعبُّداً لبريته اعزازاً لدعوته، ثمّ جعل الثواب علی طاعته، و وضع العقاب علی معصيته، ذِيادة لعباده عن نقمته، و حياشة لهم الی جنّته-
و اٴشهد اٴنّ اٴہی محمّداً عبده و رسوله اختاره قبل اٴن اٴرسله، و سمّاه قبل اٴن اجتباه، و اصطفاه قبل اٴن ابتعثه، اذ الخلائق بالغيب مکنونة، و بستر الاٴهاويل مصونة، و بنهاية  العدم مقرونة، علماً من الله تعالی بمآيل الُامُورٍ،و احاطةً بحوادث الدهور، و معرفةً بمواقع الاُمور، ابتعثه الله اتماماً لاٴمره، و عزيمة علی امضاء حکمه، انفاذاً لمقادير حتمه، فراٴی الاُمم فِرَقاً فی اٴديانها، عُکَّفاً علی نيرانها، عابدة لاٴوثانها، منکرة لله مع عِرفانِها-
فَاٴَنَاراللهُ باٴہی محمّد(صلی الله عليه وآله وسلم) ظُلَمها، و کَشَفَ عن القلوب بُهَمَها، و جَلٰی عن الاٴبصارِ غُمَمَها، وقام فی النّاس بالهداية، فاٴنقذهم من الغواية،و بصّرهم من العماية، و هداهم الی الدين القويم، و دعاهم الی الطريق المستقيم-
ثمّ قبضه الله اليه قبض راٴفة و اختيار، و رغبة و ايثار، فمحمّد(صلی الله عليه وآله وسلم) من تعب هذه الدار فی راحة، قد حفّ بالملائکة الاٴبرار، و رضوان الربّ الغفّار، ومجاورة الملک الجبّار، صلّی الله علی اٴہی نبيه، و اٴمينه، و خيرته من الخلق وصفيه، و السّلام عليه و رحمة الله و برکاته>-  
ثمّ التفتت الی اٴهل المجلس و قالت: < اٴنتم عباد الله نصب اٴمره و نهيه، و حملة دينه و وحيه، و امناء الله علی اٴنفسکم، و بلغاؤه الی الامم، زعيم حق له فيکم، و عهد قدّمه اليکم، و بقية استخلفها عليکم، کتاب الله الناطق، و القرآن الصادق، و النور الساطع، و الضياء اللامع،
 بينة بصائره، منکشفةً سرائره، منجلية ظواهره، مغتبطةً به اٴشياعه، قائداً الی الرضوان اتّباعه، مؤدٍّ الی النجاة استماعه، به تنال حجج الله المنوّرة،و عزائمه المفسّرة، و محارمه المحذّرة، و بيناته الجالية، و براهينه الکافية،و فضائله المندوبة، و رخصه الموهوبة، و شرائعه المکتوبة-  
فجعل الله الاٴيمان تطهيراً لکم من الشرک ، و الصلاة تنزيهاً لکم عن الکبر، و الزکاة تزکية للنفس، و نماء فی الرزق، و الصيام تثبيتاً للاخلاص، و الحجّ تشيیداً للدين،    و العدل: تنسيقاً للقلوب، و طاعتنا نظاماً للملّة، وامامتنا اٴماناً للفرقة، و الجهاد عزّاً للاسلام، و الصبّر معونةً علی استيجاب الاٴجر، و الاٴمر بالمعروف مصلحة للعامّة،و برّ الوالدين و قاية من السخط، وصلة الاٴرحام منساٴة فی العمر و منماة للعدد، و القصاص حقناً للدماء و الوفاء بالنذر تعريضاً للمغفرة، و توفية المکايیل و الموازين تغيیراً للبخس، و النهی عن شرب الخمر تنزيهاً عن الرجس، و اجتناب القذف حجاباً عن اللعنة، و ترک السرقة ايجاباً للعفّة، و حرّم الله الشرک اخلاصاً له بالربوبية-  
فاتّقوا الله حقّ تقاته، ولا تموتنّ الّا و اٴنتم مسلمون، اٴطيعوا الله فيما اٴمرکم به و نهاکم عنه، فانّه يخشی الله من عباده العلماء-  
ثمّ قالت: اٴيها الناس! اعلموا اٴنّی فاطمة و اٴہی محمّد، اٴقول عوداً و بدواً، و لا اٴقول ما اٴقول غلطاً، و لا اٴفعل ما اٴفعل شططاً <لقد جائکم رسول من انفسکم عزيزٌ عيه ما عنتم حريص عليکم بالمومنين رووف رحيمٌ>فان تعزوه و تعرفوه تجدوه اٴہی دون نسائکم، و اٴخا ابن عمّی دون رجالکم، و لنعم المعزّی اليه، فبلّغ الرسالة صادعاً بالنذارة مائلاً عن مدرجة المشرکين، ضارباً ثبجهم آخذاً باٴکظامهم داعياً الی سبيل ربّه بالحکمة و الموعظة الحسنة، يجف الاٴصنام و ينکث الهام، حتّی انهزم الجمع     و ولّوا الدبر،حتّی تفرّی اللّيل عن صبحه، و اٴسفر الحقّ عن محضِه، ونَطَقَ زعيم الدّين، و خرست شقاشق الشياطين، وطاح وشيظ النفاق، وانحلّت عقد الکفروَ الشقاق، و فُهتُم بکلمة الاخلاص فی نفرٍمن البيض الخِماصِ و کنتم علی شفا حفرة ٍمن النار،مِذقَةَ الشاربِ و نَهزَة الطامع، و قَبْسَةَ العجلان، و موطئ الاٴقدام تشربون الطرق، و تفتاتون القدّ اٴذلّة خاسئين، تخافون اٴن يتخطّفکم النّاس من حولکم، فاٴنقذکم الله تبارک و تعالی بمحمد(صلی الله عليه وآله وسلم)، بعد اللتيا و الّتی، و بعد اٴن مُني ببهُم الرجال و ذؤبان العرب، و مردة اٴهل الکتاب، کلّما اٴوقدوا ناراً للحرب اٴَطفاٴَها الله، اٴونَجَمَ قرنُ الشيطان، اٴو فَغَرت فاغِرة من المشرکين قذف اٴخاه فی لهواتها،
 فلا ينکفئ حتّی يطاٴ جناحها باٴخمصه، و يخمد لهبها بسيفه، مکدوداً فی ذات الله، مجتهداً فی اٴمر الله، قريباً من رسول الله، سيداً فی اٴولياء  الله،مشمّراً ناصحاً، مجدّاً کاحداً،لا تاٴخذه فی الله لومة لائمٍ، و اٴنتم فی رفاهية من العيش، و ادعون فاکهون آمنون،تتربّصون بنا الدوائر و تتوکّفون الاٴخبار و تنکصون عند النزال،و تفرّون من القتال-  
فلمّا اختار الله لنبيه(صلی الله عليه وآله وسلم) دار اٴنبيائه  وماٴویٰ اٴصفيائه ظهر فيکم حَسَکَةُ النفاق،و سَمُلَ جِلبابُ الدين، و نطق کاظم الغاوين، ونَبَغَ خامِلُ الاٴقلّين، و هَدَرَ فَنيقُ المبطلين، فَخَطَر فی عَرصَاتکم، و اٴطلع الشيطان راٴسه من مَغرِزِه هاتفاً بکم فاٴلفاکُم  لدعوته مستجيبين، وللغرة فيه ملاحظين،
ثم ّ استنهضکم فوجد کم خفافا، واٴحشمکم فاٴلفاکم غضاباً، فَوَسمتُم غَيرَ ا بلکم، ووردتم غير مَشرَبکم، هذا والعهد قريب، والکلم رحيب، والجُرحُ لمّا يندَمِل، وَالرَّسول لمّا يقبَر، ابتدارا زعمتم خوف الفتنة-<الَا في الفِتنَةِ سَقَطُوا وَاِنَّ جَهَنَّم لَمُحِيطَةٌ بالکافرين>
فهيهاتَ منکم، وکيف بکم، واٴنّیٰ تؤ فکون، وکتاب الله  بين اٴظهرکم، امورُه ظاهرة،  واٴحکامه  زاهرة، واٴعلامه باهرة، واٴعلامه وزواجره لايحة، واٴوامره واضحة،  وقد خلّفتموه وراء  ظهورکم، اٴرغبةً عنه تريدون؟ اٴم بغيره تحکمون؟،
<بِئسَ للظالمين بدلاً>         
< وَمن يبتغ غير السلام ديناً فلن يقبل منه و هو في الاخرةِ من الخاسرين>
ثمّ لم تلبثوا الّا ربث اٴن تسکن نِفرتها ويسلس قيادها، ثمّ اٴخذتم تورون وقدتها، وتهيّجون جمرتها،  وتستجيبون لهتاف الشيطان  الغويّ واطفاء اٴنوار الدين الجلي، واهمال سنن النبيّ الصفيّ(صلی الله عليه وآله وسلم)، تشربون حسوا في ارتغاء وتمشون لاٴهله ووُلده فی الخمرة والضرّاء ونصبر منکم علی مثل حَزِّ المُدیٰ وَوَخْزالسِنان فی الحشا، واٴنتم الآن تزعمون:اٴن لاارث لنا، اٴفحکم الجاهلية تبغون؟ ومن اٴحسن من الله حکما لقوم يوقنون!  اٴ فلا تعلمون؟ بلی قد تجلّی لکم کالشمس الضاحية: اٴنّی ابنته، اٴيها المسلمون اٴاُغلَبُ علی ارثی؟-
يابن اٴہی قُحافة اٴفی کتاب الله تَرِثُ اٴباک ولااٴ َرِثُ اٴہی؟ لقد جئتَ شيئا فريا اٴفعلیٰ عمد ٍترکتم کتاب الله  ونبذتموه وراء ظهورِکم؟ اذ يقول:
 <وورث سليمان داود>، وقال فيما اقتص من خبر يحيی بن زکريا اذ قال: فهب لی من لدنک ولياً- يرثنی و يرثُ من ال يعقوبَ-
وقال:<و اولوالارحام بعضهم اولیٰ ببعضٍ فی کتاب اللّه>  وقال:<يوصيکم اللّه فی اولادکم للذکر مثل حظّ الانثيین> وقال:<ان ترک خيراً الوصيةُ للوالدين و الاقربين بالمعروف حقاً علی المتقين >
وزعمتم اٴن لاحُظْوَة لی ولا ارث من اٴہی ولا رحم بيننا، اٴفخصّکم الله بآية اٴخرج اٴہی منها؟ اٴم هل تقولون: انّ  اٴهل ملّتين لا يتوارثان؟ اٴوَلستُ اٴنا واٴہی من اٴهل ملّة واحدة؟  اٴم اٴنتم اٴعلم بخصوص القرآ ن وعُمومه من اٴہی وابنِ عمّی؟-
 فدونکها مخطومة مرحولة تلقاک يوم حَشْرِک، فنعم الحَکَمُ الله، والزعيم محمد(صلی الله عليه وآله وسلم)والموعد القيامة، وعند الساعة يخسر المبطلون، ولا ينفعکم اذتندمون، ولکلّ نباٴ مستقرّ وسوف تعلمون من ياٴتيه عذاب يخزيه ويحِلّ عليه عذاب مقيم >
 ثمّ رمت بطرفها نحوالاٴنصار فقالت: <يامعشرالنقيبة واٴعضاد الملّة وحَضَنَةَ الاسلام، ماهذه الغَمِيزَة ُفی حقی والسنِةُ عن ظُلَامَتِی؟ اٴماکان رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) اٴہی يقول:<المرء يحفَظُ فی وُلْده >؟ سرعان ما اٴ حدثتم،وعجلان ذا اهالَةٍ ولکم طاقة بما اُحاول، وقوّة علی ما اٴطلُب واُزاول، اٴتقولون مات محمد(صلی الله عليه وآله وسلم)؟ فخطب جليل استوسع وهنُه واستنهر فَتقُهُ وانفتق رَتقُهُ واظلمّت الاٴرض لغيبته، وکُسِفَتِ الشمسُ وَالقَمَرُ،وانکدرت النجوم لمصيبته و اکدت الامالُ و خَشَعْتِ الجِبالُ و اضيع الحريم واُزيلت الحرمة عند مماته، فتلک والله النازلة الکبری، والمصيبة العظمی، لامثلها نازلة، ولابائقة عاجلة،  اٴعلن بها کتاب الله جلّ ثناؤه فی اٴفنِيتِکم، ولقَبلِه ما حلّ باٴنبياء الله ورسله حکمٌ فصلٌ، وقضاءٌ حتم:
 <و ما محمدٌ الا رسول قد خلت من قبله الرسل افان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ينقلب علیٰ عقبيه فلن يضرَّ الله شيئا و سيجزی اللّه الشاکرين >
ايهاً بنی قيلَةُ اٴاُهضَمُ تُراث اٴہی؟ و اٴنتم بمراٴي منّی و مَسمَع و مُنتَدي و مَجمَع، تُلبسُکُم الدَعوَة، و تشملکم الحيرَةُ، اٴنتم ذوو العدد و العُدّة، و الاٴداة و القوّة،         
و عندکم السلاح و الجُنة، توافيکم الدعوَةُ فلا تجيبون، و تاٴتيکم الصَرخة فلا تغيثون، واٴنتم موصوفون بالکِفاح، معروفون بالخير و الصّلاح، و النُخبة الّتی انتُخِبت،والخيرة التی اختيرت لنا اٴهل البيت، قاتلتم العرب،و تحمّلتم الکدّ و التعب،و ناطحتم الامم و کافحتم البُهَمَ، لا نبرح اٴو تبرحون، ناٴمرکم فتاٴتمرون حتّی اذا دارت بنا رحی الاسلام، و درَّ حَلَبُ الاٴَيامِ، و خَضَعتْ ثَغْرةُ الشِّرک، و سکنت فَوَرةُ الافکِ، و خمدت نيران الکفر، و هداٴت دعوة الهَرَج، واستَوسَقَ نظام الدّين، فاٴنی حزتم بعد البيان؟ و اٴسررتم بعد الاعلان؟ و نکصتم بعد الاٴقدام؟ و اٴشرکتم  بعد الايمان؟-  
بُؤساً لقوم نکثوا اٴيمانهم من بعد عهدهم، و همّوا باخراج الرّسول، وهُم بداٴوکم اٴوّل مرّة، اٴتخشونهم فالله اٴحقّ ان تخشوه ان کنتم مومنين الا و قداریٰ انقداخلدتم الیٰ الخفض و ابعدتم من هو احقُّ بالبسط و القبض، و خلوتم بالدعة و نجوتم بالضّيق من السعة، فمججتم ما وعيتم، و دسعتم الذی تسوّغتم فانّ تکفروا اٴنتم و من فی الاٴرض جميعاً فانّ الله لغنی حميد-
اٴلا و قد قلتُ ما قلتُ هذا علی معرفة منّی بالخذلة الّتی خامرتکم و الغدرة التی استشعَرَتْها قلوبکم، و لکنّها قَضْيةُ النفس و نفثة الغيظ، وخور القناة و بثةُ الصدر و تَقدِمةُ الحجّة، فدونکموها فاحتقِبوها دَبَرةَ الظَهر، نَقِبَةَ الخُفّ باقيةَ العار، موسومةً بغضب الجبّار و شنارِ الاٴبد، موصولة بنار الله الموقدة، الّتی تطّلع علی الاٴفئدة، فبعين الله ما تفعلون <و سيعلم الذين ظلموا اٴي منقلب ينقلبون >- و اٴنا ابنة نذير لکم بين يدی عذاب شديد فاعملوا انّا عاملون، و انتظروا انّا منتظرون >-
<سبحان الله ما کان اٴہی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) عن کتاب الله صادفاً ولا لاٴحکامه مخالفاً! بل کان يتّبع اٴثره، و يقفو سوره، اٴفتجمعون الی الغدر اعتلالاً عليه بالزُور، و هذا بعد وفاته شبيه بما بُغی له من الغوائل فی حياته، هذا کتاب الله حکماً عدلاً،و ناطقاً فصلاً يقول: <يرثنی و يرث من آل يعقوب> و يقول: <و ورث سليمان داود> و بين عزّوجلّ فيما وزّع من الاٴقساط، و شرع من الفرائض و الميراث، واٴباح من حظّ الذُکران و الاناث ما اٴزاح به علّة المبطلين، اٴزال التظنّی و الشبهات فی الغابرين، کلّا بل سوّلت لکم انفسکم اٴمراً فصبرٌ جميل و الله المستعان علی ما تصفون>-  
<ثمّ التفتت فاطمة() الی الناس و قالت: <معاشر المسلمين المسرعة الی قيل الباطل، المغضية علی الفعل القبيح الخاسر، اٴفلا تتدبّرون القرآن اٴم علی قلوب اٴقفالها؟
 کلّا بل ران علی قلوبکم ما اٴساٴتم من اٴعمالکم-  فاخذ بسمعکم و اٴبصارکم و لبئس ما تاٴوّلتم، و ساء ما به اٴشرتم، و شرّ ما منه اغتصبتم، لتجدنّ و الله محمله ثقيلاً، وغبّه وبيلاً، اذا کشف لکم الغطاء و بان ما وارء ه الضرّاء و بدا لکم من ربّکم ما لم تکونوا تحتسبون <و خسر هُنالک المبطلون >-
ثم عطفت علی قبر النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) و قالت:
قد کان بعدک اٴنباء وهنبثة
لو کنت شاهدها لم تکثر الخُطب
انّا فقد ناک فقْد الاٴرض و ابلها
و اختلّ قومک فاشهدهم و لا تغب
و کلّ اٴهل له قربی و منزلة
عند الاله علی الاٴدنين مقترب
اٴبدت رجال لنا نجوی صدورهم
لمّا مضيت و حالت دونک الترب
تجهّمتنا رجال و استخفّ بنا
لمّا فقدت و کل الاٴرض مغتصب
و کنت بدراً و نوراً يستضاء به
عليک ينزل من ذی العزة الکتب
و کان جبريل بالآيات يؤنسنا
فقد فقدت و کل الخير محتجب
فليت قبلک کان الموت صادفنا
لمّا مضيت و حالت دونک  الکتب


ترجمہ :ساری تعریف اللہ کے لئے ھے اس کے انعام پر اور اس کا شکر ھے اس کے الھام پر-  وہ قابل ثنا ھے کہ اس نے بے طلب نعمتیں دیں اور مکمل نعمتیں دیں اور مسلسل احسانات کٴے جو ھر شما ر سے(۱)بالا تر ھر معاوضہ سے بعید تر اور ھر ادراک سے بلند تر ہیں-
 بندوں کو دعوت دی کہ شکر کے ذریعہ نعمتوں میں اضافہ کرائیں پھر ان نعمتوںکو مکمل کرکے مزید حمد کا مطالبہ کیا اور انہیںدھرایا-میں شھادت دیتی ھوں کہ خدا وحدہٴ لاشریک ھے اور اس کلمہ کی اصل اخلاص ھے،
اس کے معنی دلوںسے پیوست ہیں-  اس کا مفھوم فکر کو روشنی دیتا ھے-وہ خدا وہ ھے کہ آنکھوںسے جس کی رویت،زبان سے تعریف اور خیال سے کیفیت کا ہیان محال ھے-اس نے چیزوں کو بلا کسی مادہ اور نمونہ کے پیدا کیاھے صر ف آپنی قدرت اور مشیت کے ذریعہ،اسے نہ تخلیق کے لئے نمونہ کی ضرورت تھی،نہ تصویر میںکوئی فایدہ تھا سوائے اس کے کہ آپنی حکمت کو مستحکم کردے اور لوگ اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ھوجائیں- اس کی قدرت کا اظھار ھو اور بندے اس کی بندگی کا اقرارکریں-وہ تقاضاٴے عبادت کرے تو آپنی دعوت کو تقویت دے-چونکہ ا س نے اطاعت پر ثواب رکھا اور معصیت پر عذاب رکھا تاکہ لوگ اس کے غضب سے دور ھوںاور جنت کی طرف کھنچ آئیں-
میں شھادت دیتی ھوں کہ میرے والد حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور وہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کو بھیجنے سے پہلے چنا گیا اور بعثت سے پہلے منتحب کیا گیا-اس وقت جب مخلوقات پردہٴ غیب میں پوشیدہ اور حجاب عدم میں محفوظ اور انتھا ئے عدم سے مقرون تھیںآپ مسائل امور اورحوادث زمانہ اور مقدرات کی مکمل معرفت رکھتے تھے-
اللہ نے آپ کوبھیجا تاکہ اس کے امر کی تکمیل کریں،حکمت کو جاری کریں اور حتمی مقررات کونافذ کریںمگر آپ نے دیکھا کہ امتیں مختلف ادیان میں تقسیم ہیں آگ کی پوجا،بتوں کی پرستش اور خدا کے جان بوجھ کر انکار میں مبتلا ہیں- آپ نے ظلمتوں کو روشن کیا، دل کی تاریکیوں کو مٹایا،آنکھوں سے پردے اٹھائے،
 ھدایت کے لئے قیام کیا،لوگوں کو گمراہی سے نکالا، اندھے پن سے با بصیرت بنایا،دین قویم اور صراط مستقیم کی دعوت دی-
 اس کے بعد اللہ نے انتھایی شفقت و مہربانی اور رغبت کے ساتھ انہیں بلالیااور اب وہ اس دنیا کے مصا ئب سے راحت میں ہیں،ان کے گرد ملا ئکہ ا برار اور رضائے الہی ھے اور سر پر رحمتِ خدا کا سایہ ھے خدا میرے اس بآپ پر رحمت نازل کرے جو اس کا نہی،وحی کا امین،مخلوقات میں منتخب، مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مرتضیٰ(علیہ السلام) تھا-
  اس پر سلام و رحمت و بر کتِ خدا ھو- بندگان خدا:
تم اس کے حکم کا مرکز،اس کے دین ووحی کے حامل،آپنے نفس پر اللہ کے امین،اور امتوں تک اس کے پیغام رساں ھو-
تمھارا خیال ھے اس پر تمھارا کوئی حق ھے حا لانکہ تم میں اس کا  وہ عھد موجود ھے جسے اس نے بھیجا ھے اور بقیہ ھے جسے آپنی خلافت دی ھے-
 وہ خدا کی کتاب قرآن ناطق قرآن صادق،نور ساطع اور ضیاٴروشن ھے جس کی بصیرتیں نمایاں اور اسرار واضح ہیں،  ظواھر منور ہیں اور اس کا اتباع قابل رشک ھے- وہ قاید رضاٴے الہی ھے اور اس کی سماعت ذریعہ نجات ھے- اسی سے اللہ کی روشن حجتیں،اسکے واضح فرایض،مخفی محرمات روشن ہینات کافی دلایل، مندوب فضایل، لازمی  تعلیمات اور قابلِ رخصت احکام کا انداز ھوتا ھے-
اس کے بعد خدا نے ایمان کو شرک سے تطہیر،نماز کو تکبر سے پاکیزگی، زکوةٰکو نفس کی صفائی اور رزق کی زیادتی، روزہ کو خلوص کے استحکام،حج کو دین کی تقویت،عدل کو دلوں کی تنظیم،ھماری اطاعت کو ملت کے نظام،ھماری امامت کو تفرقہ سے امان،
جہاد کو اسلام کی عزت،صبر کو طلب اجر کا معاون،امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت،والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو عذاب سے تحفظ، صلہ رحم کو عدد کی زیادتی، قصاص کو خون کی حفاظت، ایفاٴ نذر کو مغفرت کا وسیلہ، نآپ تول کو فریب دہی کا توڑ،حرمت شراب خوری کو رجس سے پاکیزگی،تھمت سے پرہیز کو لعنت سے محافظت اور ترک سرقت کو عفت کا سبب قرار دیا ھے،اس نے شرک کو حرام کیا تاکہ ربوہیت سے اخلاص پیدا ھو-لہٰذااللہ سے با قاعدہ ڈرو اور بغیر مسلمان ھوٴے نہ مرنا،اس کے امر ونہی کی اطاعت کرواس لئے کہ اس کے بندوں میں خوف رکھنے والے صرف صاحباِن علم ومعرفت ہی ھوتے ہیں-
لوگو: یہ جان لو کہ میں فاطمہ(س) ھوں،اور میرے بآپ محمد مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں-یہی اول وآخر کہتی ھوں اور نہ غلط کہتی ھوں نہ بے ربط-وہ تمھارے پاس رسول بن کر آئے،ان پر تمھاری زحمتیں شاق تھیں،وہ تمھاری بھلائی کے خواھاںاور صاحبانِ ایمان کےلئے رحیم ومہربان تھے-اگر تم انہیں اور ان کی نسبت کو دیکھوتو تمام عرب میں صرف میرے بآپ،اور تمام مردوں میں صرف میرے ابن عم کوان کا بھائی پاوٴ گے،اور اس نسبت کا کیا کھنا؟
میرے پدر بزرگوار نے کھل کر پیغام خدا کو پھنچایا،مشرکین سے بے پرواہ ھو کر ان کی گردنوں کو پکڑ کر اور ان کے سرداروں کو مار کر د ین خدا کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دی-وہ مسلسل بتوں کو توڑ رھے تھے اور مشرکین کے سرداروں کو سر نگوںکر رھے تھے یھاں تک کہ مشرکین کو شکت ہوئی اور وہ پیٹھ پہیر کر بھاگ گئے-
رات کی صبح ہو گئی، حق کی روشنی ظاھر ہو گئی، دین کا ذمہ دار گویا ھو گیاشیاطین کے ناطقے گنگ ھوگئے،نفاق تباہ ھوا، کفر و افتراٴ کی گرہیں کھل گئیںاور تم لوگوں نے کلمہٴ اخلاص کو ان روشن چھرہ فاقہ کش لوگوں سے سیکھ لیا،جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا تھااور انہیں حق طھارت عطا کیا تھا تم جھنم کے کنارے پرتھے میرے بآپ نے تم کو بچایا،

تم ھر لالچی کےلئے مال غنیمت اور ھر زود کار کےلئے چنگاری تھے ھر پیر کے نیچے پامال تھے،گندہ پانی پیتے تھے،پتے چباتے تھے،ذلیل اور پست تھے، ھر وقت چار طرف سے حملہ کا اندیشہ تھالیکن خدا نے میرے بآپ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ تمہیں ان تمام مصیبتوں سے بچا لیا-
خیر ان تمام باتوں کے بعد بھی جب عرب کے نامور سرکش بھادر اور اہل کتاب کے باغی افراد نے جنگ کی آگ بھڑکایی تو خدا نے اسے بجھا دیا یا شیطان نے سینگ نکالی یا مشرکوں نے منھ کھولا تو میرے بآپ نے آپنے  بھائی کو ان کے حلق میں ڈال دیا اور وہ اس وقت تک نہیں پلٹے جب تک ان کے کانوں کو کچل نہیں دیا اور ان کے شعلوں کو آب شمشیر سے بجھا نہیں دیا-
وہ اللہ کے معاملہ میں زحمت کش اور جد وجہد کرنے والے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے قریہی،اولیاء اللہ کے سردار، پند و نصیحت کرنے والے سنجیدہ اور کوشش کرنے والے اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنے والے تھے-
اور تم عیش کی زندگی،آرام سکون چین کے ساتھ گذار رھے تھے،ھماری مصیبتوں کے منتظر اور ھماری خبر بد کے خواھاں تھے-تم لڑائی سے منہ موڑلیتے تھے اور میدان جنگ سے بھاگ جاتے تھے-
پھر جب اللہ نے آپنے نہی کےلئے انہیاٴ کے گھر اور اصفیاٴ کی منزل کو پسند کر لیا تو تم میں نفاق کی روشنی ظاھر ہوگئی گمراھوں کا منادی بولنے لگا- اہل باطل کے دودھ کی دھاریں بہ بہ کر تمھارے صحن میں آگئیں، شیطان نے سر نکال کر تمہیں آواز دی تو تمہیں آپنی دعوت کا قبول کرنے والا اور آپنی بارگاہ میں عزت کا طالب پایا- تمہیں اٹھایا تو تم ھلکے دکھایی دئے،بھڑکایا تو تم غصہ ور ثابت ھوٴے،تم نے دوسروں کے اونٹ پر نشان لگا دیا اور دوسروں کے چشمہ پر وارد ھوگئے حالانکہ ابھی زمانہ قریب کا ھے اور زخم کشادہ ھے جراحت مندمل نہیں ھو ئی ھے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبر میں سو بھی نہیں سکے ہیں-یہ جلدی بازی تم نے فتنہ کے خوف سے کی حالانکہ تم فتنہ ہی میں پڑ گئے اور جھنم تو تمام کفار کو محیط ھے-
افسوس تم پر تمہیں کیا ھو گیا ھے، تم کھاں بھک رھے ھو؟تمھارے درمیان کتاب ِخدا موجود ھے جس کے امور واضح، احکام اشکار،علایم روشن، نواہی تا بندہ اور اوامر نمایاں ہیں تم نے اسے پس پشت ڈال دیا-     یا کوئی دوسرا حکم چاہتے ھو تو یہ بہت برابَدَل ھے اور جو غیر اسلام کو دین بناٴے گا اس سے وہ قبول بھی نہ ھوگا اورآخرت میں خسارہ بھی ھوگا-
اس کے بعد تم نے صرف اتنا انتظار کیا کہ اس کی نفرت ساکن ھو جاٴے اور مھار ڈہیلی ھو جاٴے،پھر آتش جنگ کو روشن کرکے شعلوں کو بھڑکانے لگے،شیطان کی آواز پر لہیک کھنے اور دین کے انوار کو خاموش کرنے اور سنت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بر باد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں
تم پانی ملے ھوئے دودھ کو بار بار پنے میں آپنی سیری سمجھتے ھو اور رسول کے اہل واہلہیت(علیہم السلام) کےلئے پوشیدہ ضرر رسانی کر تے ھو-ھم تمھاری حرکات پر یوں صبر کرتے ہیں جیسے چھری کی کاٹ اور نیزے کے زخم پر-تمھارا خیال ھے کہ میرا میراث میں حق نہیں ھے-کیا تم جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ھو،جب کہ ایمان والوں کےلئے اللہ سے بہتر کوئی حاکم نہیں ھے کیا تم نہیں جانتے ھو؟جی ھاں! تمھارے لئے روز روشن سے زیادہ عیاں ھے کہ میں ان کی پارہٴ جگر ھوں-اے مسلمانو! کیا مجھے میری میراث سے محروم کر دیا جائے گا؟
اے ابو بکر!کیا قران میں یہی ھے کہ تو آپنے بآپ کا وارث بنے اور میں آپنے بآپ کی وارث نہ بنوں-یہ کیسا افتراٴ ھے؟
کیا تم نے قصداً کتاب ِخدا کو پس پشت ڈال دیا ھے جب کہ اس میں سلیمان(علیہم السلام) کے وارث داوٴد(علیہ السلام) د ہونے کا ذکر ھے  اور جناب زکریا(علیہ السلام) کی یہ دعا خدا یا مجھے ایساولی دیدے جو میرا اورآل یعقوب(علیہم السلام) کا وارث ھو-
اور یہ اعلان ھے قرابتدار بعض بعض سے اولیٰ ہیں-
اور یہ ارشاد ھے خدا اولاد کے بارے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ھے کہ لڑکے کو لڑکی کا دوگنا ملے گا  اور یہ تعلیم ھے کہ مرنے والا آپنے والدین اور اقربا کے بارے میں وصیت کرے-یہ متقین کی ذمہ داری ھے-  اور تمھارا خیال ھے کہ نہ میرا کو ئی حق ھے اور نہ میرے بآپ کی کو ئی میراث ھے اور نہ میری کو ئی قرابتداری ھے-کیا تم پر کوئی خاص آیت نازل ھو ئی ھے جس میں میرا بآپ شامل نہیں ھے؟
یا تمھارا کھنا یہ ھے کہ میں آپنے بآپ کے مذ ھب سے الگ ھوں اس لئے وارث نہیں ھوں-کیا تم عام وخاص قرآن کو میرے بآپ اور میرے ابن عم سے زیادہ جانتے ھو- خیر ھوشیار ھو جاوٴ: آج تمھارے سامنے وہ سےم رسیدہ ھے جو کل تم سے قیامت میں ملے گی جب اللہ حاکم اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طالب حق ھوں گے-
موعد قیامت کا ھوگا اور ندامت کسی کے کام نہ آے گی اور ھر چیز کا ایک وقت مقرر ھوگا-عنقریب تمہیں معلوم ھوجاٴے گا کہ کس کے پاس رسوا کن عذاب آتا ھے اور کس پر مصیبت نازل ھوتی ھے-
(اس کے بعد آپ انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا)
اے جواں مرد گروہ: ملت و قوم کے بازوو! اسلام کے ناصرو!
 یہ میرے حق سے چشم پوشی میری ھمدردی سے غفلت کیسی ھے؟کیا وہ رسو(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ل میرے بآپ نہ تھے جنھوں نے یہ کھا تھاانسان کا تحفظ اس کی اولاد میں ھوتا ھے-تم نے بہت جلدی خوف زدہ ھو کر یہ اقدام کیاحالانکہ تم میں وہ حق والو ںکی طاقت تھی جس کےلئے میںکوشاں ھوںاور وہ قوت تھی جس کی میں طالب اور تگودو میں ھوں-کیا تمھارا یہ بھانہ ھے رسو(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ل کا انتقال ھو گیاھے! تو یہ توبہت بڑا حادثہ رونما ھوگیا ھے-
 جس کارخنہ وسیع،شگاف کشادہ ھوگیا ھے،زمین ان کی غیبت سے تاریک، ستارے بے نور،امیدیں ساکن،پھاڑسرنگوں،حریم زایل اور حرمت برباد ہو گئی ھے-یقیناً یہ بہت بڑا حادثہ اور بہت عظیم مصیبت ھے،نہ ایسا کو ئی حادثہ ھے اور نہ سانحہ-خود قرآن نے تمھارے گھروں میں صبح وشام بہ آواز بلند تلاوت والحان کے ساتھ اعلان کر دیا تھا کہ اس سے پہلے جو انہیاٴ پر گذ را و ہ اٹل حکم تھا اور حتمی قضا تھی اور یہ بھی ایک رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہیں موت آٴے گی تو کیا تم الٹے پاوٴ ںپلٹ جاوٴ گے؟
ظاھر ھے کہ اس سے اللہ کا کو ئی نقصان نہ ھوگا،اور وہ اہل شکر کو جزا دے کے رھے گا ھاں اے انصار: کیا تمھارے دیکھتے سنتے اور تمھارے مجمع میں میری میراث ہضم ھو جاٴے گی؟تم تک میری آواز بھی پھنچی-تم با خبر بھی ھو-تمھارے پاس اشخاص،اسباب، آلات، قوت، اسلحہ اور سپر سب کچھ موجود ھے-لیکن تم نہ میری آواز پر لہیک کہتے ھو،اور نہ میری فر یاد کو پہچنتے ھو،تم تو مجاھد ھو، خیر وصلاح کے ساتھ معروف ھو،منتخب روزگار اور سر آمد زمانہ تھے-تم نے عرب سے جنگ میں رنج وتعب اٹھایا ھے،امتوں سے ٹکراٴے ھو، لشکروں کا مقابلہ کیا ھے،
ابھی ھم دونوں اسی جگہ ہیں جہاںھم حکم دیتے تھے اور تم فر مانبر داری کرتے تھے- یھاں تک کی ھمارے دم سے اسلام کی چکی چلنے لگی-زمانہ کا دودھ نکال لیا گیا،شرک کے نعرے پست ھو گئے،افتراٴ کے فوارے دب گئے،کفر کی آگ بجھ گئی،فتنہ کی دعوت خاموش ہوگئی،دین کا نظام مستحکم ھو گیا،تو اب تم اس وضاحت کے بعد کھاں چلےگئے اور اس اعلان کے بعد کیوں پر دہ پوشی کر لی؟
 آگے بڑھ کے قدم کیوں پیچھے ہٹا دٴے؟
 ایمان کے بعد کیوں مشرک ھوٴے جا رھے ھو؟
برا ھو اس قوم کا جس نے آپنی قسموں کو عھد کرنے کے بعدتوڑا اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالنے کی فکر کی اور پہلے تم سے مقابلہ کیاکیا تم ان سے ڈرتے ھو جب کہ خوف کا مستحق صرف خدا ھے-
اگر تم ایمان دار ھو- خبر دار:
میں دیکھ رہی ھوں کہ تم دا ئمی پستی میں گر گئے اور تم نے بست وکشاد کے صحیح حق دار کو دور کر دیا،آرام طلب ھو گئے اور تنگی سے وسعت میں آگئے،جو سنا تھا اسے پہینک دیا اور جو بادلِ نخواستہ نگل لیا تھا اسے اُگل دیا-خیر تم کیا اگر ساری دنیا بھی کافر ھو جاٴے تو اللہ کو کسی کی پرواہ نہیں ھے-خیر مجھے جوکچھ کھنا تھا وہ کہہ چکی،تمھاری بے رخی اور بے و فائی کو جانتے ھوٴے جس کو تم لوگوں نے شعار بنا لیا ھے-لیکن یہ تو ایک دل گرفتگی کا نتیجہ اور غضب کا اظھار ھے،ٹوٹے ھوٴے دل کی آواز ھے،ایک اتمام حجت ھے چاھے تو اسے ذخیرہ کر لو-مگر یہ پیٹھ کا زخم ھے،پیروں کا گھاؤ ھے
ذلت کی بقا اور غضب ِخدا اور ملامتِ دا ئمی سے موسوم ھے اور اللہ کی اس بھڑکتی آگ سے متصل ھے جو دلوں پر روشن ھوتی ھے- خدا تمھارے کرتوت کو د یکھ رھا ھے اور عنقریب ظالموں کو معلوم ھو جاٴے گا کہ وہ کیسے پلٹائے جائیں گے-میں تمھارے اس رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیٹی ھوں جس نے عذاب شدید سے ڈرایا ھے-
اب تم بھی عمل کرو میں بھی عمل کرتی ھوں-
تم بھی انتظار کرو اور میں بھی وقت کا انتظار کر رہی ھوں-
اس کے جوا ب میں ابو بکر(عبد اللہ بن عثمان)نے لوگوں کو گمراہ اور غافل کرنے کےلئے یوں تقریر شروع کی تاکہ آپنے موقف کو بچا سکے-
دختر رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): آپ کے بابا مومنین پر بہت مہربان-رحم وکرم کرنے والے اور صاحب عطوفت تھے-وہ کافروں کےلئے دردناک عذاب اور سخت ترین قھرالہی تھے-آپ اگر ان کی نسبتوں پر غور کریں تو وہ تمام عورتوں میں صرف آپ کے بآپ تھے اور تمام چاھنے والوں میں صرف آپ کے شوہر  کے چاھنے والے تھے اور انھوں نے بھی ھر سخت مر حلہ پر نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سا تھ دیا ھے-آپ کا دوست نیک بخت اور سعید انسان کے علاوہ کوئی نہیں ھو سکتا ھے او ر آ پ کا دشمن شقی اور بد بخت کے علاوہ کوئی نہیں ھوسکتا-
آپ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاکیزہ عترت اور ان کے منتخب پسندیدہ افراد ہیں-آپ ہی حضرات راہ خیر میں ھمارے رھنما اور جنت کی طرف ھمیںلے جانے والے ہیں-اور خود آپ اے تمام خواتین عالم میں منتخب اور خیر الانہیاء کی دختر-یقیناًآپنے کلام میں صادق اور کمال عقل میں سب پر مقدم ہیں-آپ کو نہ آپ کے حق سے روکا جا سکتا ھے اور نہ آپ کی صداقت کا انکار کیا جا سکتا ھے
مگر خدا کی قسم میں نے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راٴے میں عدول نہیں کیا ھے اور نہ کو ئی کام ان کی اجازت کے بغیر کیا ھے اور میر کارواں قافلہ سے خیانت بھی نہیں کر سکتا ھے-میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ھوں اور وہی گواہی کےلئے کافی ھے
کہ میں نے خود رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ھے کہ ھم گر وہ انہیاٴ- سونے چاندی اور خانہ وجایداد کا مالک نہیں بناتے ہیں-ھماری وراثت کتاب، حکمت، علم ونبوت ھے اور جو کچھ مال دنیا ھم سے بچ جاتا ھے وہ ھمارے بعد ولی امر کے اختیار میں ھوتا ھے-وہ جو چاھے فیصلہ کر سکتا ھے-
اور میں نے آپ کے تمام مطلوبہ اموال کو سامان جنگ کےلئے مخصوص کر دیا ھے جس کے ذریعہ مسلمان کفار سے جہاد کریں گے اور سرکش فاجروں سے مقابلہ کریں گے اور یہ کام مسلمانوں کے اتفاق راٴے سے کیا ھے - یہ تنھا میری راٴے نہیں ہیں اور نہ میں نے ذاتی طور پر طے کیا ھے- یہ میرا ذاتی مال اور سرمایہ آپ کےلئے حاضر ھے اور آپ کی خدمت میں ھے جس میں کو ئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی ھے-
آپ تو آپنے بآپ کی امت کی سردار ہیں اور آپنی اولاد کےلئے شجرہٴ طیبہ ہیں-آپ کے فضل وشرف کا انکار نہیں کیا جا سکتاھے اور آپ کے اصل وفرع کو گرایا نہیں جا سکتا ھے-آپ کا حکم تو میری تمام املاک میں بھی نافذ ھے تو کیسے ممکن ھے میں اس مسٴلہ میں آپ کے بابا کی مخالفت کر دوں-یہ سن کر جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام) نے فرمایا:
سبحان اللہ- نہ میرا بآپ احکام خدا سے روکنے والا تھا اور نہ اس کا مخالف تھا-وہ آثار قرآن کا اتباع کرتا تھا اور اس کے سوروں کے ساتھ چلتا تھا- کیا تم لوگوں کا مقصد یہ ھے کہ آپنی غداری کا الزام اسکے سر ڈال دو- یہ ان کے انتقال کے بعد ایسی ہی سازش ھے جیسی ان کی زندگی میں کی گئی تھی-
دیکھو یہ کتاب خدا حاکم عادل اور قول فیصل ھے جو اعلان کر رہی ھے کہ خدایا وہ ولی دیدے جو میرا بھی وارث ھو اور آل یعقوب کا بھی وارث ھو اورسلمان(علیہ السلام) داوٴد(علیہ السلام) کے وارث ھوئے-
خدائے عز وجل نے تمام حصے اور فرا ئض کے تمام احکام ہیان کر دیے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کر دی ھے اور اس طرح تمام اہل باطل کے بھانوں کو باطل کر دیا ھے اور قیامت تک کے تمام شبھات اور خیالات کو ختم کر دیا ھے- یقینایہ تم لوگوں کے نفس نے ایک بات گڑھ لی ھے تو اب میں بھی صبر جمیل سے کام لے رہی ھوں اور اللہ ہی تمھارے ہیانات کے بارے میں میرا مدد گار ھے-
(اس کے بعد ابوبکر نے پھر تقریر شروع کی)
اللہ، رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور رسول کی ہیٹی سب سچے ہیں-آپ حکمت کے معادن، ھدایت ورحمت کا مرکز، دین کے رکن، حجت خدا کا سر چشمہ ہیں-میں نہ آپ کے حرف راست کو دور پہینک سکتا ھوں اور نہ آپ کے ہیان کا انکار کر سکتا ھوں-مگر یہ ھمارے اورآپ کے سامنے مسلمان ہیں-جنھوں نے مجھے خلافت کی ذمہ داری دی ھے اور میں نے ان کے اتفاق رائے سے یہ عھدہ سنبھالا ھے-اس میں نہ میری بڑا ئی شامل ھے نہ خود را ئی اور نہ شوق حکومت-
 یہ سب میری اس بات کے گواہ ہیںیہ ابو بکر کی پہلی کشش تھی جس میں انھوں نے مسلمانوں کے جذبات اور ان کی رائے کو حضرت زھرا(علیہا السلام) کی نصرت سے منحرف کیا اور اس کےلئے انھوں نے امت کی صلاح و فلاح اور سنت رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا حوالہ دے کر رائے عامہ کو آپنی ظاھر داری کے ذریعہ گمراہ کیا-
جسے سن کر جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اورفرمایا:
اے گروہ مسلمین جو حرف باطل کی طرف تیزی سے سبقت کرنے والے اور فعل قہیح سے چشم پوشی کرنے والے ھو- کیا تم قرآن پر غور نہیں کرتے ھواور کیا تمھارے دلوں پر تالے پڑے ھوٴے ہیں-یقینا تمھارے اعمال نے تمھارے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ھے اور تمھاری سماعت اور بصارت کو آپنی گرفت میں لے لیا ھے-تم نے بد ترین تاویل سے کام لیا ھے-
اور بدترین راستہ کی نشان دہی کی ھے اور بد ترین معاوضہ پر سودا کیا ھے- عنقریب تم اس بوجھ کی سنگینی کا احساس کرو گے اور اس کے انجام کو بہت درد ناک پاوٴ گے جب پردے اٹھا ئے جائیں گے اور پس پردہ کے نقصانات سامنے آجا ئیں گے اور خدا کی طرف سے وہ چیزیں سامنے آجاٴے گی جن کا تمہیں وھم گمان بھی نہیں ھے اور اہل باطل خسارہ کو بر داشت کریں گے-
اس کے بعد قبر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کارخ کرکے فریا د کی:
بابا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بڑی نئی نئی خبریں اور مصیبتیں سامنے آئیں کہ اگر آپ سامنے ھوتے تو مصا ئب کی یہ کثرت نہ ھوتی-ھم نے آپ کو ویسے ہی کھو دیا جیسے زمین ابر کرم سے محروم ھو جاٴے- اور اب آپ کی قوم بالکل ہی منحرف ہو گئی ھے-
ذرا آپ آکر دیکھ تو لیںدنیا کا جو خاندان خدا کی نگاہ میں قرب ومنزلت رکھتا ھے وہ دوسروں کی نگاہ میں محترم ھوتا ھے مگر ھمارا کوئی احترام نہیں ھے کچھ لوگوں نے آپنے دل کے کینوں کا اس وقت اظھار کیا جب آپ اس دنیا سے چلےگئے اور میرے اورآپ کے درمیان خاک قبر حائل ہوگئی-لوگوں نے ھمارے اوپر ہجوم کرلیا اور آپ کے بعد ھم کو بے قدر وقیمت سمجھ کر ھماری میراث کو ہضم کر لیا-
آپ کی حیثیت ایک بدر کامل اور نور مجسم کی تھی جس سے روشنی حاصل کی جاتی تھی اور اس پر ربِّ عزت کے پیغامات نازل ھوتے تھے-
 جبریل آیات الہی سے ھمارے لئے سامان انس فراھم کرتے تھے مگر آپ کیا گئے کہ ساری نیکیاں پس پر دہ چلی گئیں- کاش مجھے آپ سے پہلے موت آگئی ھوتی اور میں آپ کے اور آپنے درمیان خاک کے حا ئل ہونے سے پہلے مر گئی ھوتی-
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے آپنا خطاب مکمل کیا اور حق کو بالکل واضح و آشکار فرمادیا، آپ(س) نے خلیفہ سے جواب طلب کیا-خلیفہ کو منھ کی کھانی پڑی، اور مستحکم و واضح ادلہ و براہین سے، ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا  اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے اسلام کے حقیقی خلیفہ کے فضائل و کمالات کا تذکرہ بھی کردیا جس سے مدینہ کی سیاسی فضا بالکل بدل گئی اور رائے عامہ شہزادی کی موافق ہوگئی اور ابوبکر کے سامنے مشکلات کھڑی ہوگئیں اور ان کےلئے اس سے چھٹکارے کے تمام راستے بند نظر آنے لگے-
ابن اہی الحدید کا ہیان ھے: میں نے مدرسہٴ غرہیہ بغداد کے مدرس ابن الفارقی سے پوچھا: کیا فاطمہ(س) واقعاًسچی تھیں؟ انھوں نے کھا ھاں! میں نے کھا تو پھر ابوبکر صاحب نے ان کو فدک کیوں وآپس نہیں کیا تھا؟ جب کہ وہ ان کے نزدیک بھی صادقہ تھیں یہ سنکر وہ مسکرائے اور انھوں نے ایک حسین اور پرلطف بات کہی:
 اگر وہ آج صرف ان کے دعوے کی بنا پر فدک ان کے حوالے کردیتے تو وہ اگلے روز ان کے پاس پھر تشریف لاتیں اور آپنے شوہر  کےلئے خلافت کا دعوی پیش کردیتیں اور ان کو ان کے مقام سے ہٹا دیتیں اور پھر ان کےلئے کسی قسم کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہتی، کیونکہ انھوں نے خود آپنے قلم سے صادقہ لکھا ھے لہٰذا اب وہ جو دعویٰ بھی کرتیں اس کےلئے کسی ہینہ اور گواہی کی ضرورت نہیں تھی-  
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) کے خطبہ پر خلیفہ کارد عمل
دربارخلافت بالکل تہ وبالاھوگیا، لوگ منتشر ھوگئے، ھر طرف آوازیں بلند ہوگئیں لوگوں کی زبان پر صرف شہزادی کے خطبے کا چرچا رہتا تھا چنانچہ اس کے اثرات کو دبانے کےلئے خلیفہ نے طاقت اور دھمکیوں کا سھارا لیا-
روایت میں ھے کہ جب خلیفہ نے لوگوں پر شہزادی کے خطبہ کا یہ اثر دیکھا تو عمر سے کھا: تیرے دونوں ہاتھ شل ھوجائیں اگر تونے مجھے چھوڑدیا ھوتا تو تمھارا کیا بگڑجاتا؟ نہ جانے کتنے بے وقوف مرگئے اور کتنے شگاف بھر گئے کیا وہ ھم سے زیادہ حقدار نہیں تھے؟ تو خلیفہٴ دوم نے جواب دیا اس سے تو تمھاری حکومت کمزور ھوتی، اور تم سب کی سبکی تھی، اور مجھے تو صرف تمھارا خیال تھا، انھوں نے کھا: تم پر وائے ھو، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ہیٹی کا کیا جواب دیں؟ سب لوگوں کو معلوم ھوگیا ھے کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دے رہی ہیں اور ھم نے کیاکیا غداری کی ھے؟ عمر بولے یہ تو ایک ریلا تھا جو گذر گیا اور ایک گھڑی تھی جوچلی گئی اور یہ تو ایسا ہی ھے جیسے کچھ تھا ہی نہیں،تو خلیفہ نے عمر کے کندھے پر ہاتھ مارتے ھوئے کھا: اے عمر تم نے کتنی مشکلات آسان کردی ہیں-  پھر نماز جماعت کا اعلان ھوا، اور تمام لوگ جمع ھوگئے اور انھوں نے منبر پر جاکر یہ تقریر کی:
ایھا الناس اے لوگو! ھر نقص نکالنے والی کی طرف یہ جھکاوٴ کیسا ھے؟رسول اللہ کے زمانے میں یہ سب باتیں کھاں تھیں؟ یاد رکھو جو سن رھا ھے وہ ہیان کردے جو موجود ھے وہ دوسروں کو بتا دے یہ وہ لومڑی ھے جس کے ساتھ اس کی دم چپکی ہوئی ھے ھر فتنہ کی جڑ یہی ھے جو یہ کہتا ھے
 اس کوکمزور ہونے کے بعد تناور بناکر مضبوط کردو یہ کمزوروں سے مدد مانگتے ہیں عورتوں کی نصرت حاصل کرتے ہیں اس لومڑی کی طرح جو آپنے گھر والوں کےلئے بغاوت ہی پسند کرتی ھے یاد رکھو اگر میں چاھوں تو کہہ سکتا ھوں اور اگر کھوں گاتو کچھ بھی کہہ دوں گاہیشک میں ساکت ھوں جب تک مجھے خاموش رھنے دیا گیا-
پھر وہ انصار کی طرف متوجہ ھوئے اور کھا اے گروہ انصار مجھے تمھارے نادانوں کے بارے میں معلوم ھوا ھے اور جو رسول اللہ کے ساتھ رھا ان میں تم سب سے زیادہ حقدار ھو وہ تم لوگوں کے پاس آئے تو تم نے انہیں پناہ دی ان کی نصرت و امداد کی یاد رکھو کہ جو شخص ھماری نظر میںکسی چیز کا مستحق نہیں ھے میں اس کو ھرگز آپنے ہاتھ یا زبان سے وہ چیز عطا نہیں کرسکتا پھر وہ منبر سے نیچے اتر آئے-
ابن اہی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلام نقیب ابو یحییٰ جعفر بن ابو یحییٰ ابن ابو زید بصری کے سامنے پڑھا اور ان سے کھا کہ یہ کس سے کنایہ ھے تو انھوں نے جواب دیا:بلکہ صاف صاف کہہ رھے ہیں تو میں نے کھا: اگر انھوں نے صاف صاف کھا ھوتا تو میں آپ سے سوال نہ کرتا تو وہ ھنسے اور کھا علی ابن اہی طالب(علیہما السلام) کے بارے میں، تو میں نے کھا تو انصار نے اس کا کیا جواب دیا؟تو انھوں نے کھا تو وہ حضرت علی(علیہ السلام) کی بات پر تیار ھوگئے لیکن آپ حالات کے بگڑجانے کی بنا پر خوف زدہ ھوگئے اور انہیں اس سے منع کردیا-  

ام سلمہ اور جناب فاطمہ(علیہا السلام) کے حق کا دفاع

مسجد نبوی میں شہزادی کائنات کے خطبہ اور ابوبکر کے جواب کے بعد جناب ام سلمہ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے کھا: کیا پیغمبر کی ہیٹی فاطمہ(س) جیسے لوگوں کو بھی اس طرح کا جواب دیا جاتا ھے؟ اللہ کی قسم وہ انسانوں کے درمیان ایک حور ہیں،متقین کی آغوش کی پروردہ، ملائکہ کے ہاتھوں کی نازبردار پاکیزہ گودیوں میں پروان چڑھنے والی، بہترین نشو و نما کے دائرہ میںبڑی ہونے والی اور اعلیٰ ترہیت گاہ کی ترہیت یافتہ ہیں، کیا تم یہ سوچتے ھو کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اوپر آپنی میراث حرام کردی تھی
 اور انہیں اس کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں تھا، جب کہ خداوندعالم نے یہ ارشاد فرمایا ھے:”و انذر عشيرتک الاقربين“ آپنے قریہی رشتہ داروں کو ڈراؤ،یا پیغمبر نے ان کو حکم خدا بتادیا مگر یہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، جب کہ یہ خیر النساء، جوانان جنت کے سرداروں کی ماں اور مریم کی ھم رتبہ ہیں،
 ان کے بابا پرخداوندعالم کی رسالت تمام ہوئی ھے اللہ کی قسم وہ ان کو سردی اور گرمی سے بچایا کرتے تھے، آپنے داھنی طرف بٹھاتے تھے اور بائیں جانب سلاتے تھے بہت جلد تمہیں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حاضر ھونا ھے اور اللہ کی بارگاہ میں پلٹائے جاوٴگے، تمھارے اوپر وائے ھو کہ تمہیں عنقریب پتہ چل جائے گا-  کھا جاتا ھے کہ اس سال آپ کو ہیت المال کے وظیفہ سے محروم کردیا گیا-

مولائے کائنات(علیہ السلام) سے شکوہ

جب مسجد نبوی میں آپ کا خطبہ تمام ھوگیا تو آپ نے قبر رسول پر جاکر اتنا گریہ فرمایا کہ وہ آنسووں سے تر ہوگئی اس کے بعد آپ گھر وآپس آگیٴں جہاں امیر المومنین(علیہ السلام) آپ کا انتظار کر رھے تھے اور حالات معلوم کرنے کےلئے بے چین تھے-
  لیکن آپ نے گھر میں داخل ھوتے ہی فریاد شروع کر دی یا ابن اہی طالب! آپ تو گھر میں پس پر دہ رہ گئے اور خوف تھمت سے ہیٹھ گئے-حالانکہ آپ نے بڑے بڑے شاہینوں کے بال وپر توڑ د ئے ہیںتو آپ کےلئے ان کمزوروں کے بال وپر کی کیا حیثیت ھے دیکھئے یہ ابو قحافہ کا فرزند-میرے بآپ کے عطیہ اور میرے بچوں کے وسایل کو ہضم کرنا چاہتا ھے-اس نے کھل کر مجھ سے جھگڑا کیا ھے اور میں نے اسے گفتگو میں بد ترین دشمن پایا ھے یھاں تک کہ انصار نے بھی آپنی مدد کو روک لیا ھے اور مھاجرین نے بھی تعلقات توڑ لئے ہیں اور ساری قوم نے میری طرف سے چشم پوشی کرلی ھے- اب نہ کو ئی دفاع کرنے والا ھے اور نہ کوئی روکنے والا ھے میں بڑے صبرو ضبط کے ساتھ گھر سے نکلی تھی مگر بغیر کسی نتیجہ کے وآپس آگئی-
 آپ نے آپنی شمشیر کو نیام میں رکھ لیا تو گویا ھر ذلت کو برداشت کر لیا-
بڑے بڑے بھیڑ یوں کو فنا کر دیا اور اب خاک پر ہیٹھ گئے- نہ کسی بولنے والے کو روکتے ہیں اور نہ باطل پر ستوں کو ہٹا تے ہیں اور خود میرے پاس بھی کو ئی اختیار نہیں ھے- اے کاش میں اس مصیبت اور ذلت کو دیکھنے سے پہلے مر گئی ھوتی-اللہ میرے اس کام کو معاف کر دے کہ آپ کے علاوہ کو ئی مدد گار نہیں ھے-
 میرے حال پر افسوس ھے ھر صبح وھر شام- میرا سھارا چلا گیا- میرا بازو کمزور ھوگیا-اب میری فر یاد میرے بابا کی خدمت میں ھے اور میرا تقاضاٴے نصرت بھی میرے پر ور د-----گار سے ھے- خدایا! تو ان ظالموں سے زیادہ قوت وطاقت کا مالک ھے اور تو شدید عذاب کرنے والا ھے-
یہ سن کر امیر المومنین(علیہ السلام) نے فرمایا:
 دختر پیغمبر!(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ویل تمھارے لئے نہیں ھے-تمھارے دشمنوں کےلئے ھے- آپنے غصہ کو روک لیجیے آپ مختار کائنات کی ہیٹی اور نبوت کی یاد گار ہیں-میں نے دین میں کو ئی سستی نہیں کی اور آپنے امکان بھر کو ئی کوتاہی نہیں کی اگر آپ سامان معیشت چاہتی ہیں تو آپ کے رزق کا ذمہ دار پروردگار ھے اور آپ کا ذمہ دار امین ھے- اور پروردگار نے آپ کےلئے جو اجر فراھم کیا ھے وہ اس مال دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ھے جس سے آپ کو محروم کیا گیا ھے آپ خدا کےلئے صبر کیجیے-
( جسے سن کر آپ نے فرمایا - یقینا میرے لئے میرا خدا کافی ھے)

۶-بائیکاٹ کا اعلان

شہزادی(س) دو عالم کا یہ جہاد آپ کے خطبہ پر ہی تمام نہیں ھوا بلکہ آپ نے خلیفہ سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کرکے کھلے عام یہ اعلان کردیا: ”
 و اللّه لا اکلمک بکلمة ما حییت “ اللہ کی قسم میں جب تک زندہ رھوںگی تم سے کوئی بات نہیں کروں گی “  
ظاھر سی بات ھے کہ حضرت فاطمہ(س) کی حیثیت ایک عام انسان جیسی تو نہیں تھی کہ جن کے تعلقات توڑ لینے سے خلیفہ پر کوئی اثر نہ پڑے،اور اس قطع تعلق میں کوئی دم نہ ھوتا بلکہ جناب فاطمہ(س) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پارہٴ جگر اور آپ کی عزیز القدر ہیٹی تھیں نیز آپ کے بارے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص اہتمام اور آپ سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والھانہ محبت کسی سے پوشیدہ امورنہیں تھے اور آپ ہی کے بارے میں آنحضرت نے یہ فرمایا تھا:” فاطمة بضعة منّی، من آذاها فقد آذانی“” فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے تکلیف پھنچائی  “
چنانچہ یہ خبر آھستہ آھستہ ھر طرف پہیل گئی کہ حضرت فاطمہ(س)، ابوبکر سے اتنی ناراض ہیں کہ آپ نے خلیفہ سے بات کرنا بھی بند کردی ھے جب اس کی اطلاع مدینہ کے اندر اور اس کے باھر چھوٹے بڑے سب کو ہوئی تولوگ ایک دوسرے سے اس کی وجہ پوچھنے لگے، ھر روز لوگوں کے دلوں میں خلیفہ سے نفرت میں اضافہ ھوتا رھا اور اگرچہ خلیفہ نے جناب فاطمہ(س) سے مصالحت کرکے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر اس سے انہیں کچھ بھی حاصل نہ ھوا اور آپ نے ان کے خلاف آپنا جہاد جاری رکھا اور آپ آپنے طرز عمل پر اُسی طرح ثابت قدم رہیں- اورآخرکار شہیدہ و مظلومہ آپنے پروردگار کی بارگاہ میں پھنچ گئیں-

فدک کی سیاسی حیثیت(سیاسی راز)

مولائے کائنات(علیہ السلام) اور شہزادی(س) دو عالم نے خلافت اسلامیہ کو راہ راست پر لانے کےلئے جو اصلاحی تحریک شروع کی تھی وہ مختلف شکلیںاور رنگ اختیار کرتی چلی گئی، اس اعلانیہ سیاسی تحریک کی قیادت   جناب فاطمہ(س) کے ہاتھوں میں تھی اسی لئے آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت کی حقانیت کےلئے مختلف قسم کے مطالبات سامنے رکھے جن میں سے ایک مطالبہٴ فدک بھی تھا-  جو بعد میں مختلف صورتیں اختیار کرگیا-  
اس کشمکش اور رسہ کشی میں اضافے یا اس کی مختلف شکلوں کی تبدیلی کے بارے میں بنیادی بحث یہ نہیں ھے کہ یہ صرف ایک زمین کا مطالبہ تھا، بلکہ اس سے صاف ظاھر تھا کہ اس کا مفھوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ھے اور اس کے اندر ایسے بلند عزائم پوشیدہ ہیں جن سے انقلاب پیدا ھوسکتا ھے اور اس کا مقصد غصب شدہ حق اور مجدو عظمت کی وآپسی نیز امت اسلامیہ کو صحیح راستہ پر لگانا تھا جو الٹے پاوٴں پلٹ گئی تھی، چنانچہ بر سر اقتدار طبقہ کو اس کا احساس ھوگیا تھا اسی وجہ سے اس نے آپنی پوزیشن کو بچانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا-   یہی وجہ ھے کہ فدک کے بارے میں جتنے تاریخی اسناد موجودہیں ھم ان کے بارے میں چاھے جتنی تحقیق اور غور و فکر کرلیں ھمیں کہیں یہ نظر نہیںآتاکہ یہ ایک ایسا مادی مسئلہ تھا جو فدک کے دائرہ تک محدود تھا بلکہ یہ منحرف حکومت کے خلاف ایک تحریک اور ایسی فریاد تھی جسے جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام)، دنیاکے گوشہ گوشہ میں پھنچانا چاہتی تھیں تاکہ اس کے ذریعہ سقیفہ کے دن رکھے جانے والے سنگ بنیاد کواکھاڑ پہینکیں-
ھمارے اس مدعیٰ کو ثابت کرنے کےلئے دربار خلافت میں انصار ومھاجرین کے مجمع کے درمیان شہزادی کائنات کے خطبہ پر ایک گھری نظر ہی کافی ھے کہ آپ نے آپنے اس خطبہ کے اکثر حصوں میں حضرت علی(علیہ السلام) کی تعریف و تمجید کے ساتھ راہ اسلام میں آپ کے خالصانہ ایثار اورآپ کی فداکاریوں کا تذکرہ فرمایااور اہل ہیت(علیہم السلام)کی شرعی حقانیت کو دامن تاریخ پر یہ کہہ کر ثبت کردیا کہ یہی لوگ خدا اور مخلوقات کے درمیان وسیلہ، خاصان خدا،اس کے مقرب بارگاہ اور اس کی حجت نیز خلافت و حکومت میں اس کے انہیاء کے وارث ہیں-  
شہزادی کائنات(علیہاالسلام) کی یہی کوشش تھی کہ مسلمان جس غفلت میں مبتلا ہیں اور ھدایت پانے کے بعد جتنی تیزی کے ساتھ الٹے پاوٴں پلٹ گئے ہیں اور ان کی زندگی میں کتنا خطرناک انقلاب آیا ھے انہیں اس کے بارے میں    ا چہی طرح متنبہ کردیں-
  اور جو چشمہ ان کی پیاس بجھا سکتا ھے وہ اس کے بجائے غیر شفاف جگہ پھنچ گئے اور انھوں نے آپنے امور کی نسبت نااہلوں کی طرف دے دی ھے
اور وہ ایک فتنہ اور ان محرکات میں گھر چکے ہیں جن کی بنا پر انھوں نے مسئلہ خلافت و امامت میں کتاب خدا کی مخالفت کی ھے اور اسے پس پشت ڈال دیا ھے-  
لہٰذایہ مسئلہ میراث اور عطیہٴ پیغمبر کی تقسیم کاتھا بھی تو صرف اسی حد تک کہ جس حد تک اس کا تعلق اس اھم اور اعلیٰ مقصد کے موضوع سے تھاورنہ یہ گھربار اور زمین جائداد کا جھگڑانہیں تھا بلکہ جناب فاطمہ(علیہا السلام) کی نظر میں یہ اسلام اور کفر کی لڑائی تھی، ایمان و نفاق کی جنگ تھی اور نص و شوریٰ کا مسئلہ تھا-
اسی طرح ھم یہ دیکھتے ہیں کہ اس بلند و بالا اور صاف گو سیاسی شخصیت نے آپنی عیادت کےلئے آنے والی انصار و مھاجرین کی عورتوں کے سامنے بھی یہ آشکار کردیا کہ برسر اقتدار حاکموں کے قبضہ کے بعد خلافت آپنے شرعی راستہ سے بھٹک چکی ھے اور وہ جذبات میں آکر کسی کی طرفداری یا پرانی دشمنی اور کینہ کی بنیاد پر ایسا نہیں کہہ رہی ہیں بلکہ اگر وہ لوگ اس خلافت کو اسی مقام پر رھنے دیتے جہاں اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکہاتھا اور زمام خلافت کو امام کے حوالے کردیتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور دنیا و آخرت کی سعادت سے ھمکنار ھوجاتے-  
بلکہ بہت قرین قیاس یہ ھے کہ شہزادی کائنات کو امیر المومنین کے شیعوں اور آپ کے چیدہ اصحاب کے درمیان ایسے افراد یقینا مل جاتے جنہیں آپ کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا اور وہ حضرت علی(علیہ السلام) کی گواہی کی بنیاد پر آپ کے حق میں فدک کی گواہی پیش کرسکتے تھے جس سے فدک کے معاملہ میں مطلوبہ گواہیاں بآسانی پوری ھوسکتی تھیں-
یہ اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ جناب فاطمہ(س) کا اصل مقصد جسے سب جانتے ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عطیہ اور میراث کو ثابت کرنا نہیں تھا
بلکہ درحقیقت آپ سقیفہ کے نتائج کا فیصلہ چاہتی تھیں اور یہ معاملہ صرف فدک کے بارے میں گواہ پیش کرکے حل نہیں ھوسکتا تھا
 کیونکہ اس صورت میں ان کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود رہ جاتا بلکہ آپ یہ چاہتی تھیں کہ تمام لوگوں کو یہ معلوم ھوجائے کہ وہ گمراہ ھو چکے ہیں اور راہ راست سے منحرف ھوچکے ہیں تاکہ شائد اس کے ذریعہ انہیں دوبارہ ھوش آجائے اور وہ اہل ہیت(علیہم السلام) کی ھمراہی اختیار کرکے صحیح راستہ پر لگ جائیں-  
اس کا اندازہ ھمیں اس بات سے ھوجاتا ھے کہ جب شہزادی خطبہ تمام کرکے مسجد سے تشریف لےگئےں تو خلیفہ کے اوپر آپ کے خطبے کی دھشت طاری ہوئی اور انھوں نے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے آپ کے جواب میں جو تقریر کی تھی اس سے بھی صاف ظاھر ھے کہ جناب فاطمہ(س) سے ان کے اختلاف کی بنیاد کیا تھی؟ کیونکہ اتنا تو ان کی بھی سمجھ میں آگیا تھا کہ شہزادی میراث اور جائیداد کےلئے حجت پیش کرنے نہیں آئی ہیں بلکہ یہ ایک سیاسی جنگ اور حضرت علی(علیہ السلام) کے حق میں ہونے والے مظالم کا شکوہ ھے اور امت کے درمیان ان کے عظیم کردار نیز خلیفہ اور ان کے ساتھیوں نے دنیائے اسلام میں ان کے جس واقعی مقام و مرتبہ سے انہیں دور کرنے کی کوشش کی ھے یہ اس کا اعلان ھے-  
یہی وجہ ھے کہ ھمیں صاف دکھائی دے رھا ھے کہ خلیفہ صاحب نے آپنے جواب میں براہ راست    حضرت علی(علیہ السلام) پر حملہ کیا اور آپ کو(معاذ اللہ) لومڑی سے تشہیہ دی اور آپ کوہی ھر فتنہ کی جڑ بتایا اور فاطمہ(س) تو ان کی تابع ہیں اوراس میں انھوں نے کہیں سے کہیں تک میراث یا عطیہٴ پیغمبر کا ذکر نہیں کیا ھے-
ھمیں معلوم ھے کہ شہزادی کائنات(علیہاالسلام) نے میراث کے معاملہ میں خلیفہ کی مخالفت اسی وقت کی جب انھوں نے فدک کو غصب کرلیا، کیونکہ لوگوں کا عام دستوریہ تھا کہ وہ آپنی میراث پر قبضہ کرنے کےلئے یا میراث کو ان کے مستحقین تک پھنچانے کےلئے خلیفہ سے اجازت نہیں لیتے تھے بلکہ عام طور سے وہ آپنے معاملات آپنے ہی درمیان آسانی سے حل کرلیتے تھے،
لہٰذا جناب فاطمہ(س) کو بھی نہ ارباب خلافت کے پاس جانے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ ہی اس بارے میں ان کی رائے معلوم کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ آپ کی نظر میں پہلے سے ہی ظالم و غاصب تھے- لہٰذا میراث کا یہ مطالبہ خلیفہ کے اس ظلم و تعدی کا جواب تھا جس کے ذریعہ اس نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث میں شہزادی کے حق پر قبضہ جما لیا تھا-
اور ھمیں یہ بھی معلوم ھے کہ شہزادی کائنات(علیہاالسلام)آپنا حق غصب کئے جانے سے پہلے اس کامطالبہ نہیں کرسکتی ہیں لہٰذا اس مطالبہ کی بنا پر مخالفت کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند ھوگئے اور انھوں نے میراث کے ترو تازہ مسئلہ کا موقع غنیمت سمجھا اور اسے غیرشرعی خلیفہ کے مقابلہ کا ایسا بہترین مواد(ایشو) قرار دے دیا کہ اس کے ذریعہ اس دور میں اسلام کی مصلحتوں کے عین مطابق نھایت صحیح اور صاف ستھرے انداز میں غاصبان خلافت کو غاصہیت، احکام شریعت سے کھلواڑ اور قانون کی بالا دستی کے استخفاف جیسے جرائم کے کٹھرے میں لاکر کھڑا کردیا-  

۷- نئے حالات میں مولائے کائنات کا طرز عمل

تیزی کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات،گمراہ کن اقدامات، متعدد رجحانات کے ظھور نے کہ جو اسلام کے خلاف دشمنوں کی چالیں تھیں نیز نئے نئے فتنوں کے سر ابھارنے اور دینی شعور کے خاتمہ کے خطرے کے پیش نظر نیز صحیح عقیدہ کی حفاظت کے خیال نے مولائے کائنات(علیہ السلام) کو ایک ایسے سہ راھے پر لاکر کھڑا کر دیا تھا جس میں ھر ایک راستہ نھایت دشوار اور خطرناک تھا:

۱-بغیر کسی چون وچرا کے ابوبکر کی ہیعت کرلیں اور دوسرے مسلمانوں کی طرح ھوجائیں، بلکہ ارباب سلطنت کے نزدیک ایک ممتاز حیثیت حاصل کرکے آپنا وجود اور آپنے منافع اور حیثیت کی حفاظت کرلی جائے اور دین و شریعت کے انجام کا کا کوئی خیال نہ رہ جائے مگر یہ ناممکن تھا کیونکہ اس کا مطلب اس ہیعت پر مہر تصدیق ثبت کرنا تھا جو پیغمبر اکرم کے احکام کے سراسر خلاف تھی-

۲-اس طرح خاموشی اختیار کر لیں کہ آنکھوں میں کانٹے اور حلق میں لقمہ پھنسا رھے اوروہ نااہل حکومت سے ایندہ سرزد ہونے والی متضاد حرکتوں کے درمیان کوشش کر کے ایک ایسا معتدل راستہ تلاش کرلیں جس سے اسلام کی حقیقی شکل باقی رہ سکے اور اسلامی عقیدہ بالکل بے راہ روی سے محفوظ ھو جائے-

۳-لوگوں کو جمع کر کے انہیں خلیفہ کے خلاف مسلح انقلاب برپا کرنے کےلئے تیار کیا جائے-

مسالمت امیز مقابلہ اور حضرت زھرا(علیہا السلام) کا کردار:

مولائے کائنات(علیہ السلام) نے یہ قطعی فیصلہ کرلیا کہ جب تک خلیفہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کے خلاف رائے عامہ ھموار نہ ھوجائے اور آپ کو آپنی قدرت پر اطمینان نہ ھوجائے آپ اہل حکومت کے خلاف کھلم کھلا یا  براہ راست انقلاب کی آواز بلند کر کے مسلح اقدام نہیں کریں گے-
اسی لئے آپ خاموشی  کے ساتھ بڑے بڑے مسلمانوں اور مدینہ کے بااثر لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں نصیحت کرتے تھے اور ان کے سامنے آپنی حقانیت کے ثبوت اور اس کے دلائل پیش کرتے تھے، اور جس کےلئے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیٹی اور آپ کی شریکہٴ حیات بھی آپ کے اس خفیہ جہاد میں سایہ کی طرح آپ کے ساتھ رہتی تھیں، جس سے آپ کا مقصد آپنے لئے کوئی جماعت تیار کرنا نہیں تھا کیونکہ ھمیں بخوہی معلوم ھے کہ حضرت علی(علیہ السلام) کے ایسے چاھنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی جو آپ کے گرد ھمیشہ حلقہ زن اور آپ کے نام پر ھر قربانی کےلئے تیار تھی اس سے آپ کا مقصد ارباب خلافت کے مقابلہ میں اجماع مسلمین اور رائے عامہ کو ھموار کرنا تھا-
اس نازک موڑ پر جدید علوی سیاست میں مسئلہ فدک نے کلیدی حیثیت اختیار کرلی اور فاطمی کردار بھی ھارون نبوت کی تیار کردہ اس پختہ حکمت عملی کے عین مطابق تھا کہ جس کے تحت راتوں کو گھروں میں جاکر صورتحال کا پانسہ خلافت کے خلاف پلٹ دیا جائے
 اور خلیفہٴ اول کی خلافت کا انجام بھی وہی ھو جو قصہٴ تمثیل کا ھوا تھا اور اس حکومت کی طرح اس کا خاتمہ نہ کیا جائے جس کا دارمدار طاقت اور تعدادپر ھوتا ھے-
اس دوران شہزادی کائنات(علیہاالسلام) کے کردار کا خلاصہ یہ ھے کہ خلیفہ نے جو اموال آپ سے چہین کر غصب کر لئے تھے آپ نے برسر عام ان کا مطالبہ کر کے اس مطالبہ کو خلافت کے اساسی اور بنیادی مسئلہ کے اختلافات کی طرف موڑ دیا اور لوگوں کو یہ سمجھا دیا کہ جس وقت انھوں نے حضرت علی(علیہ السلام) سے منھ پہیر کر ابوبکر کی طرف رخ کیا تھا اس وقت وہ ھوس اور انحراف  کا شکار تھے اور انھوں نے یہ بہت بڑی غلطی کی ھے اور کتاب خدا کی خلاف ورزی کے مرتکب ھوکر ساحل مراد سے بھٹک گئے ہیں-
اور جب یہ فکر جناب فاطمہ(س) کے ذھن میں پختہ ہوگئی تو آپ اس وقت کے حالات کے سدھار کےلئے اسے بروئے کار لائیں اور اسلامی حکومت کے دامن کو جس کیچڑ نے سقیفہ کے پہلے ہی دن آلودہ کردیا تھا اسے وضاحت کے ذریعہ صاف کرنا شروع کردیا کہ خلیفہ کی نظر میں اسلامی قانون کی کوئی اھمیت نہیں ھے اور انھوں نے مہینہ طور پر خیانت کی ھے اور جس انتخاب(الیکشن)میں ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا گیا ھے وہ کتاب خدا اور راہ صواب کے سراسر خلاف تھا-  
جناب فاطمہ(س) کی اس مخالفت میں مندرجہ ذیل ایسے دو رخ پائے جاتے ہیں کہ اگرآپ کی جگہ پر حضرت علی(علیہ السلام) ھوتے تو ان رخوں کا کوئی امکان نہیں تھا:

۱-کیونکہ آپ آپنے بابا کی رحلت کی وجہ سے سوگوار تھیں لہٰذا اس سے لوگوں کی ھمدردی حاصل کرنا اور اس مغموم فضا کا سھارا لے کر لوگوں کے نفسیات کو کرنٹ جیسے جھٹکے دینا اور اہل ہیت(علیہم السلام)کے حق کی وصول یاہی کےلئے ان کے شعور کو جھنجھوڑنا آپ کےلئے نھایت آسان تھا-

۲-آپ خلافت کے مقابلہ کےلئے جو صورت بھی اختیار کرلیتیں اسے مسلحانہ کاروائی قرار دینا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کی باگ ڈور آپ جیسی خاتون کے ہاتھوں میں تھی اور دوسری طرف مولائے کائنات(علیہ السلام) اس وقت تک صلح و آشتی کے ساتھ گھر میں ہیٹھے ھوئے تھے کہ جب تک لوگ ان کے اوپر چڑھائی نہ کردیں-  اور وہیں سے آپ پوری صورتحال پر دقیق نظر رکھے ھوئے تھے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو اس میں مداخلت بھی کرسکیں اور جب یہ تحریک آپنی آخری منزل تک پھنچ جائے تو اس کی قیادت سنبھال لیں اور اگر حالات آپ کا ساتھ نہ دے سکیں تو اس فتنہ کو ہی دبا دیا جائے-
مختصر یہ کہ شہزادی کائنات(علیہاالسلام) آپنی مقاومت کے ذریعہ یا تو غاصہین خلافت کے خلاف اجتماعی انقلاب قائم کرنے میں کامیاب ھوجائےں اور اگر ایسا نہ ھوسکے تو پھر آپ زبانی اختلاف اور لفظی کشمکش کو فتنہ و فساد کارنگ اختیار نہ کرنے دیں- اس طرح حضرت علی(علیہ السلام) کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ آپنی آواز کو شہزادی کائنات(علیہاالسلام) کی زبان سے لوگوں کے کانوں تک پھنچادیں اور خود کو اصل معرکہ سے دور رکھیں اور کسی خاص رد عمل کےلئے مناسب موقع کے انتظار میں
 رہیں اور دوسرے یہ کہ پوری امت قرآن کے سامنے اس فاطمی مخالفت کو غاصہی خلافت کے ناجائز ہونے کی مضبوط اور مستحکم سند میں تبدیل کردیں اور بالآخر آپ نے جو ارادہ کیا تھا اسے منزل تکمیل تک پھنچا دیا کیونکہ شہزادی کائنات نے علوی حق کے اثبات کےلئے ایسی واضح تعہیرات استعمال کیں کہ جن میں     سر فروشی اور جہد مسلسل کے مختلف راگ بھرے ھوئے تھے-  
مختصر یہ کہ اس فاطمی جہاد کو مندرجہ ذیل شکلوں میں پیش کیا جاسکتا ھے:

۱-آپنی میراث اور دوسرے حقوق کا مطالبہ کرنے کےلئے ابوبکر کے پاس کسی دوسرے کو بھیجنا  در حقیقت خود براہ راست میدان عمل میں اترنے کےلئے شہزادی کا یہ پہلا قدم تھا-

۲-خصوصی نشست میں  جاکر براہ راست آپنے حقوق کا مطالبہ کرنا تاکہ اس سے خمس اور فدک وغیرہ کے معاملہ میں شدت پیدا کی جاسکے اور اس سے خلیفہ کی قوت استقامت کا اندازہ لگا لیا جائے-

۳-وفات پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دس دن بعد مسجد نبوی میں خطبہ دینا جس کا تذکرہ شرح نہج البلاغہ میں موجود ھے-   

۴-جب ابوبکر اور عمرآپ کی عیادت کےلئے آئے توپہلے توآپ نے ان کی طرف سے منھ پہیر لیا اور جب ان سے گفتگو کی تو اس میں بھی ان سے آپنی ناراضگی کا واضح لفظوں میں یہ اعلان کردیا کہ ان دونوں نے اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کیا ھے-  

۵-مھاجرین و انصار کی عورتوں کے درمیان آپ کا خطبہ جب وہ اکٹھا ھوکر آپ کے پاس آئی تھیں

۶-یہ وصیت کہ آپ کو تکلیف پھنچانے والے آپ کی تشییع جنازہ میں شریک نہ ہونے پائیں چنانچہ یہ وصیت ارباب خلافت سے آپ کی ناراضگی کا آخری پیغام تھا-
اس طرح اس فاطمی تحریک کو ایک اعتبار سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور دوسرے لحاظ سے اسے کامیاہی مل گئی، ناکامی اس اعتبار سے کھا جاسکتا ھے کہ وفات پیغمبر کے دس دن کے بعد آپنی آخری دوڑ دھوپ میں یہ تحریک خلیفہ کی حکومت پر روک نہیں لگا سکی-  
ھمارے لئے یہ ہیان کرنا تو ممکن نہیں ھے کہ شہزادی کو اس معرکہ میں کون سے نقصانات برداشت کرنا پڑے،
البتہ اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ ان تمام مواقع پر خلیفہ کا ہی سب سے اھم اور کلیدی رول رھا ھے کیونکہ وہ ایک سیاسی آدمی تھے جس کا ثبوت ھمیں اسی بات سے مل جاتا ھے کہ جب مسجد نبوی میں شہزادی نے آپنے خطبہ کارخ انصار کی طرف موڑ دیا تو خلیفہ نے نھایت زیرکی سے نرم لہجہ میں اس کا جواب دیا:
مگر! ابھی وہ آپنے اس نرم اور پھسلانے والے جواب میں ہی غرق تھے کہ جناب فاطمہ(س) کے مسجد سے باھر نکلتے ہی جو پلٹا کھایا تواسی منھ سے ان کے خلاف آگ اگلنا شروع کردی اور یھاں تک کہہ دیا:
”ھر توہین کرنے والی کی طرف یہ تمھارا غلط جھکاوٴ کیسا ھے؟(معاذ اللہ)یہ تو وہ لومڑی ھے جو آپنی دم کو آپنے ساتھ لئے ھے “(جیسا کہ یہ پوری تقریر پہلے گذر چکی ھے)  اس نرمی اور دباوٴ کے بعد اچانک آگ اگلنے لگنا،
یہ انقلاب اس بات کی دلیل ھے کہ خلیفہ میاں کو آپنے اعصاب اور نفسیات نیز ھر طرح کے حالات کے ساتھ چلنے پر کتنا کنٹرول تھا-اور جناب فاطمہ(س) کی تحریک اس اعتبار سے کامیاب رہی کہ اس کے ذریعہ حق کو اچہی طرح تقویت مل گئی اور مذھہی اختلاف کے میدان میں اترنے کےلئے اسے نئی طاقت مل گئی اور آپ نے آپنے پورے جہاد اور تحریک کے دوران اور خاص طور سے اس وقت کہ جب شیخین آپ کی عیادت کےلئے آئے تو آپ نے آپنی اس کامیاہی کو یہ کہہ کر دامن تاریخ پر ھمیشہ ھمیشہ کےلئے قلمبند کردیا:
”آپ دونوں صرف اتنا بتادیں کہ اگرمیں رسول اللہ کی کوئی حدیث ہیان کروں تو کیا آپ اس حدیث سے واقف ہیں یا نہیں؟ تو دونوں نے کھا؛ضرور، تو آپ نے یہ فرمایا:”نشد تکما الله، اٴلم تسمعا من رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) يقول:” رضا فاطمة من رضای، و سخط فاطمة من سخطی، فمن اٴحبّ فاطمة فقد اٴحبّنی، و من اٴرضی فاطمة فقد اٴرضانی، و من اٴسخط فاطمة فقد اٴسخطنی“ میں تمہیں خدا کی قسم دیتی ھوں کیا تم نے رسول اللہ کی یہ حدیث نہیں سنی ھے؟ فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشی میری خوشی ھے
 اور فاطمہ(س) کی ناراضگی میں میری ناراضگی ھے لہٰذا جس نے فاطمہ(س)  کو دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے فاطمہ(س) کو خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے فاطمہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ھے-   
دونوں نے کھا! جی ھاں! ھم نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی ھے تب آپ نے فرمایا:-  
”فانّی اشهد الله و ملائکته اٴنّکما اٴسخطتمانی و ما اٴرضيتمانی ولئن لقيت النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) لاٴ شکونّکما عنده“میں اللہ اور اس کے ملائکہ کو گواہ بناتی ھوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ھے اور ملاحظہ فرمائیے: صحیح مسلم:۴/ح/۱۹۰۲:ج/۹۳ح/۲۴۴۹-مطبوعہ دار احیاء تراث، مستدرک حاکم ۳/۱۵۸،ذخائر العقہیٰ ۴۷مسند امام حنبل؛ ۴/۳۲۳و ۳۲۲؛ جامع ترمذی:۵/۶۹۹، مطبوعہ دار احیاء التراث عرہی ہیروپ، صواعق محرقہ، ابن حجر:۱۹۰-
مجھے راضی نہیں کیا اور اگر رسول اللہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں ان سے تم دونوں کی شکایت کروں گی-  
اس حدیث سے ھمارے سامنے یہ پوری تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ھے کہ آپ نے کس حسین انداز سے آپنے دونوں مخالفوں کو آپنے اعتراضات کی گرفت میں لے لیا اور ان کے بارے میں آپنی ناراضگی اور غم و غصہ کو بالکل آشکار کردیا-  تاکہ دین و عقیدہ کے میدان میں آپ اس تنازع کے وقت ھر لحاظ سے کامیاب و کامران نظر آئیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ خلیفہ نے آپ کو ناراض کرکے   خدا اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی مول لے لی ھے اور ان دونوں نے آپ کو تکلیف دے کر اللہ اور رسول کو اذیت پھنچائی ھے کیونکہ وہ دونوں آپ کے غضب کی وجہ سے غضبناک اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ھوتے ہیں-  اور اس کےلئے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی صحیح حدیث کی صراحت موجود ھے لہٰذا یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلیفہ نہیں ھوسکتے ہیں  کیونکہ خداوند تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ھے-
” <---و ما کان لکم اٴن توٴذوا رسول اللّه و لا اٴن تنکحوا ازواجه من بعده ابدا ان ذلکم کان عند اللّه عظيما>
اور تمہیں حق نہیں ھے کہ رسول اللہ کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ھے-   
<ان الذين يوٴذون اللّه و رسوله لعنهم اللّه فی الدنيا و الآخرة و اعد لهم عذابا مهينا>
یقینا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ھے اور خدا نے ان کےلئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ھے-  
<و الذين يوٴذون رسول اللّه لهم عذاب اٴليم>
اور جو لوگ پیغمبر کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ھے-   
<يا ايها الذين آمنوا لا تتولوا قوما غضب اللّه عليهم >            
ایمان والو خبردار اس قوم سے ھرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ھے-  
<و من يحلل عليه غضبی فقد هویٰ>
اور جس پر میرا غضب نازل ھوگیا وہ یقینا برباد ھوگیا-  

۸-جناب فاطمہ(س) کے گھر پر چڑھائی

حضرت علی(علیہ السلام) نے ابوبکر کی ہیعت نہیں کی اور حکومت سے آپنی ناراضگی کا اعلان بھی کردیا تاکہ دنیا کے اوپر یہ واضح ھوجائے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام کی سب سے اھم شخصیت نے چونکہ خلافت کی مخالفت کی ھے لہٰذا یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی واقعی خلافت نہیں ھوسکتی اور بالکل یہی رویہ شہزادی کائنات نے بھی آپنایا،
تاکہ مسلمانوں کو اچہی طرح پتہ چل جائے کہ ان کے نہی کی ہیٹی ان لوگوں سے ناراض تھیں اور وہ آپنے بابا کے دین کی پابند تھیں لہٰذا اس حکومت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ھے-
دوسری طرف مولائے کائنات نے آپنے شرعی حق کے غاصہین کے خلاف منفی(سلہی) جہاد چہیڑ دیا اور آپ کے ساتھ ایسے بعض جلیل القدر مھاجرین و انصار بھی اٹھ کھڑے ھوئے کہ جن کی تعریف پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی تھی اور یہ حضرات تمام معاملات سے بخوہی واقف تھے جیسے عباس بن عبد المطلب، عمار یاسر، ابوذر غفاری، سلمان فارسی، مقداد، خزیمہ ذوالشھادتین، عبادہ بن صامت، حذیفہٴ یمانی، سھل بن حینف، عثمان بن حنیف، ابو ایوب انصاری وغیرہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں
 جن پر اس شور شرابہ کا کوئی اثر نہیں ھوا اور خلافت پر قابض جماعت جن میں عمر بن خطاب سب سے پیش پیش نظر آتے ہیں کی دھمکیاں ان کے اوپر ذرہ برابر کارگر ثابت نہ ہوئیں-  
کچھ اصحاب نے باقاعدہ خلیفہٴ اول کی ہیعت پر اعتراض بھی کیا اور اس بارے میں مسجد نبوی کے علاوہ دوسرے مقامات پر متعدد بحثیں بھی ہوئیں اور وہ لوگ حکومت کی دھمکیوں کے سامنے بالکل نہیں جھکے جن سے کچھ لوگوں کے توھوش اڑ گئے اور وہ اسی دھارے کے ساتھ بہہ گئے-
جن میں سے کچھ لوگ تو راہ راست پر وآپس آگئے اور انھوں نے جلد بازی میں ہڑبڑا کرابوبکر کی جو ہیعت کرلی تھی یا ان کی طرف سے اہل ہیت کی کھلی دشمنی کا اظھار ھوگیا تھا وہ ان سب باتوں پر نادم ھوگئے-
اسی طرح مدینہ کے اطراف میں بعض مومن قہیلے بھی تھے جیسے اسد، فزارہ اور بنی حنیفہ، وغیرہ جو ”غدیر خم“ کے دن اُس ہیعت کے چشم دیدگواہ تھے جو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے حضرت علی(علیہ السلام) کے ہاتھوں پر لی تھی اور آپنے بعد آپ(علیہ السلام) کو ان کا امیر بنایا تھا اور ابھی کچھ عرصہ بھی نہیں گذرا تھا کہ انہیں یہ اطلاع ملی کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور ابوبکر کی ہیعت کرلی گئی ھے اور وہ منصب خلافت پر ہیٹھ گئے ہیں چنانچہ اس حادثہ کی بنا پر وہ بالکل حیران رہ گئے
 اور انھوں نے ابوبکر کی ہیعت کرنے سے بالکل انکار کردیا   اور نئی حکومت کو اس لئے زکات نہیں دی کہ یہ غیر شرعی ھے-  یھاں تک کہ(دھول چھٹ گئی)اور صورتحال بالکل واضح ہوگئی اور وہ آپنے اسلام کے مطابق نماز پڑھتے تھے اور اسی طرح تمام مذھہی اعمال انجام دیتے رھے-  
لیکن بر سر اقتدار طبقہ نے یہ پالیسی اختیار کی کہ جب تک حضرت علی(علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کی مخالفت حکومت کےلئے اندرونی خطرہ کی شکل میں باقی ھے
 اس قسم کے جتنے لوگ بھی اس حکومت کےلئے خطرہ بن سکتے ہیں ان پر کسی طرح روک لگادی جائے ورنہ اگر اس بڑھتی ہوئی مخالفت کی آگ کو فوراً کنٹرول نہ کیا گیا اور اس پر روک نہ لگائی گئی تو ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ھوجائے گا چنانچہ اس کا یہ طریقہٴ کار آپنایا گیا کہ اس مخالفت کے سربراہ حضرت علی(علیہ السلام) کو ابوبکر کی ہیعت کےلئے مجبور کیا جائے-
بعض مورخین نے نقل کیا ھے کہ   عمر بن خطاب خلیفہ اول کے پاس آئے اور ان سے کھا: کیا تم اس خلاف ورزی کرنے والے سے ہیعت نہیں لوگے؟ اے بھائی تم اس وقت تک کچھ نہیں کرسکتے جب تک  علی بن اہی طالب تمھاری ہیعت نہ کرلیں، لہٰذا ان کے پاس کسی کو بھیجدو تاکہ وہ ہیعت کرلیں، تو ابوبکر نے قنفذ کو بھیجا، چنانچہ قنفذ نے امیر المومنین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کھا، آپ کو خلیفہٴ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا ھے، تو حضرت علی(علیہ السلام) نے فرمایا: کتنی جلدی تم نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی طرف جھوٹی نسبت دیدی “ یہ سن کر وہ وآپس چلا گیا اور اس نے یہ پیغام پھونچادیا، توابوبکر بہت دیر تک روئے عمر نے ان سے پھر کھا اس خلاف ورزی کرنے والے کو ہیعت نہ کرنے کی چھوٹ نہ دو توابوبکر نے قنفذ سے پھر کھا: کہ ان کے پاس وآپس جاوٴ اور کھو کہ خلیفہٴ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں آپنی ہیعت کرنے کےلئے بلایا ھے تو قنفذ نے دوبارہ آکر آپ تک ان کایہ پیغام پھنچادیا تو حضرت علی(علیہ السلام) نے بلند آواز سے فرمایا سبحان اللہ وہ اس چیز کا مدعی ھوگیا ھے جو اس کا حق نہیں ھے،
 اس طرح قنفذ پھر پلٹ کر وآپس آگیا اور اس نے ابوبکر کو آپ کا جواب سنا دیا، جس سے ابوبکر تادیر روتے رھے، تو عمر نے کھا اٹھو اور ان کے پاس چلو چنانچہ ابوبکر، عمر، عثمان، خالد بن ولید، مغیرہ بن شعبہ، ابو عہیدہ جراح اور     ابو حذیفہ کا غلام سالم اٹھ کر چل دئے-
جناب فاطمہ زھر(س) ا کو یہ یقین تھا کہ آپ کے گھر میں کوئی بھی آپ کی اجازت کے بغیر گھسنے کی ھمت نہیں کرے گا چنانچہ جب یہ سب آپ کے دروازے پر پھنچ گئے اور انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور آپ نے ان کی آوازیں سنیں تو بلند آواز سے یہ فریاد کی:يا اٴبت يا رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) ماذالقينا بعدک من ابن الخطاب و ابن اٴبی قحافة، لا عهد لی بقوم حضروا اٴسواٴ محضر منکم، ترکتم رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) جنازة باٴيدينا و قطعتم اٴمرکم بينکم، لم تستاٴمرونا، و لم تردّوا لنا حقاً”اے بابا! اے اللہ کے رسول ھمیں آپ کے بعد ابن خطاب اور ابوقحافہ کے ہیٹے کے ہاتھوں کیسے کیسے دن دیکھنا پڑے، ان لوگوں سے مجھے کوئی سروکار نہیں جو بدترین شکل میں یھاں حاضر ھوئے ہیں تم لوگوں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنازہ ھمارے ہاتھوں پر چھوڑ دیا اور آپنے امور کو آپنے درمیان تقسیم کرلیا، نہ ھم سے کوئی اجازت مانگی اور نہ ہی ھمیں ھمارا حق وآپس پلٹایا “
جب لوگوں نے حضرت فاطمہ زھرا(علیہا السلام) کی آواز کے ساتھ آپ کے ہین بھی سنے تو وہ روتے ھوئے وآپس چلےگئے اور ایسا لگتا تھا جیسے ان کے دل پھٹ جائیں گے اور ان کے کلیجے پارہ پارہ ھوجائیں گے البتہ عمر اور ان کے ساتھ کچھ لوگ وہیں رکے رھے اور عمر نے لکڑیاں منگائیں اور چیخ کر کھا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ھے-  یا تو باھر نکلو ورنہ سب کو جلاکر راکھ کردوں گا تو کسی نے ان سے کھا اے ابوحفص: اس میں فاطمہ(س) ہیں، کھا چاھے کوئی بھی ھو-
چنانچہ جناب فاطمہ زھرا(علیہا السلام) نے دروازہ کے پیچھے کھٹرے ھوکر لوگوں سے کھا:”  و يحک يا عمر ما هذه الجراٴة علی الله و علی رسوله؟ تريد اٴن تقطع نسله من الدنيا و تفنيه و تطفئ نور الله؟ و الله متّم نوره“
”اے عمر!تمھارے اوپر تف ھو، اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر تیری یہ جراٴت؟ کیا تم ان کی نسل کو منقطع کرکے انہیں دنیا سے مٹانا چاہتے ھو اور خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ھو اور اللہ آپنے نور کو پورا کرنے والا ھے “ اتنے میں عمر نے دروازہ پر لات ماری، تو شہزادی کائنات(علیہاالسلام) پردے کی وجہ سے دروازے اور دیوار کے درمیان درپردہ پس گئیں، اس کے بعد وہ سب گھر میں گھس آئے جس کی وجہ سے شہزادی(علیہم السلام) کی چیخ نکل گئی اور اسی وجہ سے آپ کے شکم میں موجود بچہ کی شھادت واقع ہوگئی-
پھر وہ سب حضرت علی(علیہ السلام) کے اوپر ٹوٹ پڑے اس وقت آپ آپنے بستر پر ہیٹھے ھوئے تھے، ان سب نے مل کر آپ کے کپڑوں کو گھسیٹتے ھوئے آپ کو باھر نکالا اور سقیفہ کی طرف لے کرچلے تو جناب فاطمہ(علیہاالسلام) ان کے اور آپنے شوہر  کے درمیان حائل ہوگئیں اور آپ نے یہ فریاد کی:”و الله لا اٴدعکم تجرّون ابن عمّی ظلماً، ويلکم ما اٴسرع ما خنتم الله و رسوله، فينا اٴهل البيت، و قد اٴوصاکم رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) باتّباعنا و مودّتنا و التمسّک بنا“ اللہ کی قسم! میں نہیں چھوڑوں گی کہ تم میرے ابن عم کو ظلم کے ساتھ کہینچتے ھوئے لے جاوٴ تمھارے اوپر تف ھو، تم کتنی جلدی ھم اہل ہیت(علیہم السلام) کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیانت کر ہیٹھے جب کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو ھماری پیروی، اور مودت اور ھم سے متمسک رھنے کا حکم دیاتھا- “
تو عمر نے قنفذ کو آپ کے اوپر ہاتھ اٹھانے کا حکم دیا چنانچہ قنفذ نے آپ کے بازو پر ایسا کوڑا مارا کہ جس سے بازو پر نیلانشان بن گیا-   
وہ سب مولائے کائنات کو کہینچتے ھوئے سقیفہ میں لےگئے جہاں اس وقت ابوبکر ہیٹھے ھوئے تھے آپ دائیں بائیں دیکھ کر یہ کہتے جارھے تھے: و احمزتاه و لا حمزة لی اليوم، واجعفراه و لا جعفر لی اليوم “!!”آہ اے حمزہ! آج میرے لئے کوئی حمزہ نہیں ھے، آہ اے جعفر!آج میرے لئے کوئی جعفر نہیں ھے“
 اور جب وہ آپ کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی قبر کے پاس سے لے کر گذرے تو آپ نے کھا:”يا ابن امّ انّ القوم استضعفونی و کادوا يقتلوننی“” اے میرے مانجائے اس قوم نے مجھے کمزور بنا ڈالا ھے اور یہ مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں “
عدی بن حاتم کہتے ہیں: خدا کی قسم! مجھے کسی کے اوپر اتنا رحم نہیں آیا جتنا رحم علی بن اہی طالب(علیہ السلام) کے اوپر اس وقت آیا جب انہیںان کے کپڑوں سے گھسیٹتے ھوئے لایا گیا تھا، اور انہیں ابوبکر کے سامنے پیش کیا گیا اور ان سے کھا گیا کہ ہیعت کرو تو انھوں نے کھا: ”فان لم افعل فمه“اگر میں نہ کروں تو کیا ھوگا؟ تو عمر نے کھا: خدا کی قسم، میں تمھاری گردن اڑادوں گا، تو حضرت علی(علیہ السلام) نے کھا:”اذن و الله تقتلون عبدالله و اٴخا رسوله“اللہ کی قسم تو تم اللہ کے بندہ اور رسول اللہ کے بھائی کو قتل کروگے، تو عمر نے کھا خدا کا بندہ یہ تو ٹہیک ھے لیکن رسول اللہ کا بھائی یہ درست نہیں تو آپ نے فرمایا:”اٴتجحدون اٴنّ رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) آخی بينی و بينه؟!“کیا تم اس کے منکر ھو کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آپنا بھائی بنایا تھا، اس کے بعد امام(علیہ السلام) اور برسر اقتدار طبقہ کے درمیان اس طرح گرما گرم بحث ھوتی رہی-
اس وقت تک جناب فاطمہ(س) امام حسن(علیہ السلام) اور حسین(علیہ السلام) کے ہاتھ پکڑے ھوئے وھاں پھنچ گئیں کوئی ہاشمی خاتون ایسی نہیں تھی جو آپ کے ساتھ وھاں نہ پھنچی ھو اور وہ سب فریاد و بکاء اور آہ و واویلا کر رہی تھیں پھر جناب فاطمہ(علیہا السلام) نے فرمایا:”خلوا عن ابن عمّی!! خلوا عن بعلی!! و الله لاٴکشفن راٴسی و لاٴضعنّ قميص اٴبی علی راٴسی و لاٴدعونّ عليکم، فما ناقة صالح باٴکرم علی الله منّی، و لا فصيلها باٴکرم علی الله من ولدی“-میرے ابن عم کو چھوڑ دو، میرے شوہر  کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم!میں آپنا سر کھول دوں گی اور آپنے بابا کی قمیص آپنے سر کے اوپر رکھ کر تمھاے لئے بد دعا کروں گی خدا کے نزدیک ناقہٴ صالح مجھ سے زیادہ محترم نہیں
 اور نہ ہی اس کا بچہ میرے ان دونوں بچوں سے زیادہ خدا کے نزدیک محترم ھے-  
عیاشی کی روایت میں ھے کہ آپ نے یہ فرمایا تھا:” يا اٴبابکر، اٴ تريد اٴن ترملنی عن زوجی و تيتّم اٴولادی؟ و الله لئن لم تکفّ عنه لاٴنشرنّ شعری و لاٴشقّنّ جيبی و لآتينّ قبر اٴبی و لاٴصرخنّ الی رہبی “اے ابوبکر، کیا تو میرا سھاگ اجاڑنا چاہتا ھے؟ اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ھے؟ اللہ کی قسم! اگر تم آپنے عمل سے باز نہیں آوٴگے، تو میں آپنے سر کے بال پریشان اور آپنا گریبان چاک کردوںگی، اور آپنے بابا کی قبر پر جاکر خدا سے فریاد کروں گی، پھر آپ امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر آپنے بابا کی قبر کی طرف بڑہیں یہ منظر دیکھ کر لوگ چاروں طرف سے ابوبکر کی طرف اشارہ کرکے چلانے  لگے: تم ان سے کیا چاہتے ھو؟ کیا تم یہ چاہتے ھو کہ اس امت پر عذاب نازل ھوجائے؟
 ادھر شہزادی آپنے بابا کی قبر مبارک کی طرف جاتے ھوئے ان سے یوں مدد طلب کررہی تھیں:”يا اٴبتا رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) ماذا لقينا بعدک من ابن الخطاب و ابن اٴبی قحافة؟ اے بابا، یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے بعد ھمیں خطاب کے ہیٹے،پسر ابوقحافہ کے ہاتھوں کیا کیادن دیکھنا پڑے چنانچہ ہی ہی کی آہیں سننے کے بعد کوئی دل ایسا نہیں تھا جو غمزدہ نہ ھواس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہ ھوئے ھوں-  

۹-آمنے سامنے کا مقابلہ

جناب فاطمہ(علیہا السلام) کو ھرگز یہ توقع نہیں تھی کہ انہیں اتنے برے دن دیکھنا پڑیں گے، اگرچہ آپ کے والد ماجد نے پہلے سے آپ کو اس کی اطلاع دے رکھی تھی مگر سننے اور دیکھنے میں بڑا فرق ھے خاص طور سے مصیبت سھنے کا اثر تو دیکھنے اور سننے دونوں سے مختلف ھوتا ھے جیسا کہ آپ نے آپنے والد گرامی سے یہ ضرور سن رکھا تھا کہ زمانہ ان کا مخالف ھوجائے گا اور چھپے ھوئے کینے آپ کی وفات کے بعد کھل کر سامنے آجائیں گے چنانچہ آپ نے آپنی آنکھوں سے ان تمام باتوں کا مشاھدہ کرلیا اور لوگ آپ کے شوہر  نامدار کے اوپر ٹو ٹ پڑے
اور اس گھر میں درانہ گھس آئے جس میں پیغمبر اکرم بھی جناب فاطمہ(س) سے اجازت مل جانے کے بعد ہی داخل ھوتے تھے-  
جناب فاطمہ(علیہا السلام) کو بخوہی یاد تھا کہ رہیبہٴ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب زینب، آپنے بابا کے پاس جانے کےلئے تیار ہوئیں اور اونٹ پر ھودج میں ہیٹھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئیںتواس وقت ھبّار بن اسود انہیں پکڑنے کےلئے آیا اور اس نے انہیں ڈرانے کےلئے ھودج پر آپنا نیزہ مارا،توچونکہ اس وقت زینب حاملہ تھیں اس کے خوف سے ان کا حمل ساقط ھوگیا تھا اس لئے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن ھبّار بن اسود کا خون مباح کردیاتھا-  
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ اگر پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ لیتے تو کیا کہتے؟ ان کے امتیوں نے آپ کی چہیتی اور اکلوتی ہیٹی کے گھر کی حرمت کا بھی کوئی خیال نہیں کیا؟ حتی کہ آپ کے اس جگر کے ٹکڑے کا بھی کوئی لحاظ نہ رکھا اور ان کی جراٴتیں اتنی بڑھ گئیں کہ وہ درانہ گھر میں گھس آئے اور آپ کو درو دیوار کے درمیان پیس دیا جس کی بنا پر آپ کے شکم میں آپ کے بچہ کی شھادت ہوگئی اور آپ اس کی وجہ سے مسلسل مریض رھنے لگیں اور اسی کی وجہ سے آپ کی شھادت بھی ہوئی؟
جناب فاطمہ(س) کے گھر پر جو آمنے سامنے کا مقابلہ ھوا اگرچہ وہ ایک مختصر سی مدت اور بظاھر ایک گھر کی حدوں تک محدود تھا مگر اس کے باوجود اس کی صدائے بازگشت نسل در نسل آج تک سنائی دیتی چلی آرہی ھے اور آل محمد(علیہم السلام) کے چاھنے والوں کو ان پر ہونے والے مظالم کی تلخیوں کا ایسا احساس ھوتا جیسے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی وفات کو ابھی چند دنوں سے زیادہ نہ گذرے ھوں-  
اس آمنے سامنے کی صورتحال میں شہزادی کی شخصیت کے بعض اھم پہلوؤں کو بآسانی ملاحظہ کیا جاسکتا ھے-

۱-شہزادی کائنات وصی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفاع کےلئے پیش پیش رہیں-
اور انتھائی صلابت کے ساتھ دروازے کے پیچھے جم کر کھڑی ہوگئیں اور ایسے دلائل سے لوگوں کو للکارا کہ ظالم لرزہ براندام ھوگئے اور ان کی دھمکیوں کے باوجود بھی آپ خاموش نہیں رہیں کیونکہ آپ حق بجانب تھیں اور آپ کے گھر پر دھاوا بولنے والے خلافت شرعیہ کے غاصب تھے-

۲- جب وہ لوگ حضرت علی(علیہ السلام) کو گھسیٹ کر لےگئے تو آپ دوبارہ ان کی سینہ سپر ہوگئیں اور اس سے پہلے آپنے گھر میں تمام مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود آپ دربار خلافت میں پھنچ گئیں تاکہ کسی طرح مولائے کائنات(علیہم السلام) کو ان کے چنگل سے چھڑا سکیں، کیونکہ آپ دوھرے حق کی مالک تھیں، ایک تو وصی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق کا دفاع اور ان کی خلافت کا مطالبہ اور دوسرے آپ کا حق مظلومیت یعنی جو کچھ دیر پہلے لوگوں نے آپ کے گھر پر دھاوا بول کر آپ کی حرمت کا بھی خیال نہ کیاتھا جب کہ آپ ان کے رسول کی ہیٹی تھیں-
اور جب آپ کو ھر چارہٴ کار مسدود نظر آیا اور آپ کی کوئی تدہیر کار گر نہ ھوسکی تو سب کے سامنے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی قبر کی طرف فریاد و بکا کرنے کےلئے روانہ ہوگئیں تاکہ ھر حق کے متلاشی کےلئے یہ واضح ھوجائے کہ خلافت آپنے اصل راستہ اور شرعی حقداروں سے بھٹک چکی ھے-  اور اس طرح آپ نے خلافت کے شرعی حقدار یعنی مولائے کائنات(علیہ السلام) کو ان کا حق دلانے کی کوششوں میں اھم کردار ادا کیا اور کم سے کم اسلامی تجربہ کو اس کے صحیح راستہ پر لگا دیا ھے اور قوم کے شعور کو بلند کرکے غاصہین خلافت کو رسوا کرکے رکھ دیا اور ھمیشہ ھمیشہ کےلئے یہ واضح کردیا کہ ان کے اندر قوم کی قیادت و رھبری کی بالکل لیاقت نہیں ھے-  
امامت کی حقانیت اور اہلہیت(علیہم السلام)کی مظلومت کے بارے میں آپ کا ارشاد:
محمود بن لہید کا ہیان ھے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد جناب فاطمہ(س) شھدائے احد اور جناب حمزہ کی قبر پر تشریف لاتی تھیں،
 ایک دن آپ کو میں نے جناب حمزہ کی قبر پر گریہ کرتے ھوئے دیکھا، میں انتظار کرتا رھا اور جب آپ خاموش ہوگئیں تو میں نے آگے بڑھ کر آپ کو سلام کیا اور آپ سے دریافت کیا، اے تمام عورتوں کی سردار آپ نے تو آپنے انداز گریہ سے میرے دل کو پارہ پارہ کردیا ھے تو آپ نے فرمایا:”يا اٴبا عمر! لحقّ لی البکاء فلقد اٴصبت بخير الآباء رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) و اشوقاه الی رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم) “-
اے ابو عمر! میرا یہ گریہ و بکا بالکل بجا ھے میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے بہترین بآپ کی آغوش میں آنکھ کھولی ھائے مجھے رسول خدا کا کتنا اشتیاق ھے پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:

اذا مات ميت قلّ ذکره
و ذکر اٴبی مذ مات و الله اٴکثر

”جب کوئی مرجاتا ھے تو اس کا ذکر کم ھوجاتا ھے لیکن میرے بابا جب سے دنیا سے گئے ان کے ذکر میں اضافہ ھوگیا “-
میں نے عرض کی، اے شہزادی میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ھوں جو میرے ذھن میں رہ رہ کر ابھرتا ھے آپ نے فرمایا،دریافت کرو میںنے عرض کی: کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپنی وفات سے پہلے حضرت علی(علیہ السلام) کی امامت کی کہیں صراحت کی ھے؟ آپ نے فرمایا، ھائے تعجب ھے! کیا تم غدیر خم کا واقعہ بھول گئے؟ میں نے کھا یہ تو ٹہیک ھے مگر آپ مجھے اس بارے میں مطلع فرمائیں جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے رازدارانہ انداز میں فرمایا ھے-
 آپ نے فرمایا: ” اشهد الله تعالی لقد سمعته يقول: علی خير من اخلّفه فيکم، و هو الامام و الخليفة بعدی و سبطای و تسعة من صلب الحسين اٴئمة اٴبرار، لئن اتّبعتموهم و جدتموهم هادين مهديين، و لئن خالفتموهم ليکون الاختلاف فيکم الی يوم القيامة“اللہ تعالیٰ گواہ ھے کہ میں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد باقی رہ جانے والوں میں علی(علیہ السلام) سب سے بہتر ہیں اور وہ میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں، اور میرے دونوں نواسے اور حسین(علیہ السلام) کی نسل سے نو(فرزند)ائمہ ابرار ہیں اگر تم ان کی پیروی کروگے تو ان کو ھدایت دینے والا اور ھدایت یافتہ پاوٴگے اور اگر تم ان کی مخالفت کروگے تو قیامت تک تمھارے درمیان اختلاف باقی رھے گا “
میں نے عرض کی!اے شہزادی: پھر انھوں نے آپنا حق کیوں نہیں لیا؟ آپ نے فرمایا:”يا اٴبا عمر، لقد قال رسول الله(صلی الله عليه وآله وسلم): مثل الاٴمام مثل الکعبة اذ تؤتی و لا تاٴتی - اٴو قالت مثل علی - ثم قالت: اٴما و الله   لو ترکوا الحقّ علی اٴهله و اتّبعوا عترة نبيه لما اختلفا فی الله اثنان، و لورثها سلف عن سلف و خلف عن خلف حتی  يقوم قائمنا التاسع من ولد الحسين، ولکن قدّموا من اٴخّره الله و اٴخّروا من قدّمه الله، حتی اذا اٴلحدوا المبعوث و اٴودعوه الجدث  المجدوث اختاروا بشهوتهم، و عملوا بآرائهم، تبّاً لهم، اٴولم يسمعوا الله يقول: < و ربّک يخلق ما يشاء و يختار ما کان لهم الخيرة > بل سمعوا و لکنّهم کما قال الله سبحانه:< فانّها لاتعمی الاٴبصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور> هيهات بسطوا فی الدنيا آمالهم، و نسوا آجالهم“
رسول اللہ کا یہ ارشاد ھے کہ امام کی مثال کعبہ جیسی ھے کہ لوگ اس کے پاس جاتے ہیں اور کعبہ کسی کے پاس نہیں جاتا(یا شہزادی نے یہ فرمایا: علی(علیہ السلام) کی مثال)پھر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم اگر لوگ حق کو اس کے اہل کے اوپر چھوڑ دیتے اور اس کے نہی کی عترت کی پیروی کرتے تو خدا کے بارے میں دو لوگ بھی اختلاف نہ کرتے اور اسلاف،اسلاف کے اور اخلاف،اخلاف کے وارث ھوتے رہتے یھاں تک کہ ھمارے قائم، حسین(علیہ السلام) کی نسل کے نویں فرزند کا قیام ھوتا، لیکن ان لوگوں نے اسے آگے بڑھا دیا جسے اللہ نے موخر کیا تھا
اوراسے پیچھے ڈھکیل دیا،جسے اللہ نے مقدم فرمایا تھا یھاں تک کہ وہ پیغمبر کا انکار کرہیٹھے-  
کیا انھوں نے خدا کا یہ قول نہیں سنا <و ربک يخلق ما يشاء و يختار ما کان لهم الخيرة> اور آپ کا پروردگار جسے چاہتا ھے پیدا کرتا ھے اور پسند کرتا ھے اور لوگوں کو کسی کا انتخاب کرنے کا حق نہیں ھے-  
 انھوں نے اسے سنا تو ھے مگر وہ ایسے ھوگئے جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایاھے:
<فانها لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور>  ”در حقیقت آنکہیں اندہی نہیں ھوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ھوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں“-
افسوس انھوں نے آپنی دنیاوی آرزوں کا دامن کتنا وسیع کردیا اور آپنی موت کو بھول گئے اور ان کے اعمال بے راہ روی کا شکار ھوگئے بار الٰھا! میں تجھ سے تیری پناہ چاہتی ھوں-  
اور عائشہ بنت طلحہ کے جواب میں آپ(علیہا السلام) نے فرمایا:
”اٴتساٴلينی عن هنة حلّق بها الطائر، و حفي بها السائر، رفعت الی السماء اٴثراً،و رزئت فی الاٴرض خبراً؟ انّ قحيف تيم، و احيول عدی جاريا اٴباالحسن فی السباق،  حتی اذا تفرّيا فی الخناق فاٴسرّا له الشنآن، و طوياه الاعلان، فلمّا خباٴ نور الدين و قبض النبي الاٴمين نطقا بفورهما، ونفثا بسورهما، و اٴدالا فدکاً، فيالها کم من ملک ملک، انّها عطية الربّ الاٴعلی للنجي الاٴوفی، و لقد نحلينها للصبية السواغب من نجله و نسلی،و انّها لبعلم الله و شهادة اٴمينه، فان انتزعا منی البلغة و منعانی اللمظة فاٴحتسبها يوم الحشر، و ليجدن آکلها ساعرة حميم فی لظی جحيم“-
” اے طلحہ کی ہیٹی اس مصیبت اور ھولناک واقعہ کے بارے میں پوچھتی ھو کہ جو ھر جگہ پہیل چکا ھے جس طرح سے کہ پرندوں کے پروں پر تحریر ھو کے پوری دنیا میں بکھر جائے اور ایک چابک سوار ایلچی تیز رفتار گھوڑے پر سوار ھو کر پوری دنیا میں پھونچا دے،ایسی مصیبتیں کہ جس کے غبار اسمان تک پھونچ گئے ھو ں اور جس کی تیرگی نے زمین و زمان کو آپنی لپیٹ میں لے لیا ھو- عرب کے پست ترین قبیلہ،قبیلہ تیم(ابو بکر) اور عرب کے پُر فریب ترین قبیلہ،قبیلہ”عدی“(عمر بن خطاب) نے ابو الحسن امیر المومنین(علیہ السلام) پر مصیبتوں کے پھاڑ توڑے
 اور ان پر سبقت کرنے کےلئے دوڑ لگائی، لیکن جب وہ کامیاب نہیں ھوئے(اور ان کو کوئی فضیلتیں حاصل نہیں ہوئیں) تو انھوں نے کینہ و حسد کو آپنے دلوں میں چھپا لیا جب نور دین و ھدایت خاموش ھو گیا یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کہ وفات ہو گئی،تو وہ چھپا ھوا کینہ ان کے منھ تک اگیا اور وہ آپنی ھوا و ھوس کی سواری پر سوار ھو گئے اور ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا اور ”فدک“ کو غصب کر لیا، بہت سے بادشاہ و سلاطین کہ جو سر زمین ”فدک“ کے مالک ھوئے لیکن اج ان کا کوئی اثر باقی نہیں ھے،”فدک“ خدا کی طرف سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےلئے ایک ھدیہ تھا-اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے میری اولاد کی مخارج زندگی کےلئے،مجھے سپرد کیا تھا، فدک کا پیغمبر کو مجھے ھبہ کرنا حکم خدا اور جبرئیل امین کی گواہی کے تحت ھے،لہذا اگر( ابو بکر و عمر) نے ظلم کر کے اسے غصب کر لیا ھے اور وسائل زندگی کو میری اولاد سے قطع کر دیا ھے تو روز قیامت تک میں اس مصیبت پر صبر کرتی ھوں،اور عنقریب فدک کو غصب کر کے کھانے والے جھنم میں عذاب الٰہی کا مزہ چکہیں گے “-

۱۰-زندگی کے آخری دن

شہزادی کائنات آپنے بابا کی وفات کے بعد کچھ مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رھےں اور یہ دن بھی اکثر آہ و بکا اور گریہ و زاری میں گذرے ہیں اور اس دوران آپ کو کبھی ھنستے ھوئے نہیں دیکھا گیا اسی لئے آپ کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ گریہ کرنے والوں میں ہونے لگا-  
آپ کے اس گریہ و بکاء کے مختلف اسباب تھے جن میں سب سے اھم وجہ مسلمانوں کا صراط مستقیم سے بھٹکنا اور ایسی پستیوں میں گرنا تھا جس کے نتیجہ میں ان کے درمیان ھر روز اختلافات کی خلیج کا وسیع سے  وسیع تر ھونا لازمی تھا-  
اور چونکہ شہزادی کائنات نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور دین کی نشر و اشاعت نیز اس کی ترقی کے دور میں نہ صرف یہ کہ زندگی بسر کی تھی بلکہ اس کےلئے ہیحد قربانیاں بھی پیش کی تھیں لہٰذا آپ کی خواھش یہی تھی کہ
اسلام کو ھر لحاظ سے کامیاب و کامران اور سربلند دیکہیں اور اس کے ذریعہ دنیا کے چپے چپے میں عدل و انصاف کا مستحکم تسلط قائم ھوجائے-  لیکن خلافت کے غصب ھوتے ہی آپ کی آرزووں کا یہ محل چور ھوگیا اور آپنے بابا کے فراق جیسی عظیم مصیبت کے فورا بعد آپ کو آپنے دل پر یہ سنگین بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا-  
ایک دن جناب ام سلمہ نے آپ سے دریافت کیا: آج تمھاری صبح کیسی ہوئی، تو آپ(علیہ السلام) نے فرمایا: ”اٴصبحت بين کمد و کرب، فقد النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) و ظلم الوصي(عليه السلام)، هتک و الله حجاب من اٴصبحت امامته مقبضة علی غيرما شرع الله فی التنزيل اٴو سنّها النبي(صلی الله عليه وآله وسلم) فی التاٴويل، و لکنّها اٴحقاد بدرية و ترات احدية“اس حال میں صبح ہوئی کہ  کرب و بے چینی ھے، نہی کا فراق ھے ان کے وصی کے اوپر مظالم ڈھائے گئے ہیں، اس کی حرمت کے پردے چاک کردئے گئے جس کی امامت پر خدا کی نازل کردہ شریعت اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیان کردہ سنت کے برخلاف قبضہ کر لیا گیا، لیکن(کیا کیا جائے)یہ سب بدر کے کینے اور احد کی میراث ھے “-
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:”غسلت النبي فی قميصه، فکانت فاطمة تقول:  اٴرنی القميص فاذا شمّته غشی عليها، فلمّا راٴيت ذلک غيبته“ میں نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو ان کی قمیص میں غسل دیا: تو فاطمہ(س) مجھ سے یہ کہتی تھیں کہ مجھے وہ قمیص دکھا دیجئے اور جب ان کی نگاہ اس پر پڑتی تھی تو وہ غش کھا جاتی تھیں جب میں نے ان کی یہ حالت دیکہی تو اس قمیص کو چھپا دیا-  
روایت میں ھے کہ جب پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی وفات ہوگئی تو جناب بلال نے اذان دینابند کردی اور کھا کہ میں رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کےلئے اذان نہیں کھوں گا، مگر جب ایک دن شہزادی نے یہ خواھش ظاھر کی:”انّی اٴشتهی اٴن اٴسمع صوت مؤذّن اٴہی(صلی الله عليه وآله وسلم) بلال“ ”مجھے آپنے بابا کے موذن بلال کی آواز سننے کا اشتیاق ھورھا ھے “
چنانچہ جناب بلال کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے گلدستہ ٴ اذان پر جاکر اذان شروع کردی جب انھوں نے اللہ اکبر کھا تو شہزادی کو آپنے بابا اور ان کا دور یاد آگیا اور آپ آپنے گریہ پر قابو نہ پاسکیں، جب جناب بلال نے یہ جملہ کھا: ” اشهد ان محمداً رسول اللّه “ تو آپ نے ایک چیخ ماری اور بے ھوش ھوکر منھ کے بل گر پڑیں- تو لوگوں نے کھا: اے بلال رک جاوٴ کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیٹی اس دنیا سے گذرگئی ہیں، کیونکہ وہ لوگ یہ سمجھے کہ آپ کا انتقال ھوگیا ھے “تو بلال نے درمیان سے ہی آپنی اذان ختم کردی، جب شہزادی(علیہا السلام) کی طہیعت بحال ہوگئی تو آپ نے ان سے اذان مکمل کرنے کو کھا تو انھوں نے اذان مکمل نہیں کی بلکہ آپ کی خدمت میں یہ عرض کی: مجھے آپ کے بارے میں خطرہ ھے کیونکہ میری اذان کی آواز سن کر آپ آپنے اوپر قابو نہیں رکھ پاتی ہیں لہٰذا آپ مجھے اس سے معاف رکھیں-   
شہزادی(علیہا السلام) کے گریہ و بکا کا سلسلہ دن اور رات میں کسی وقت نہیں رکتا تھا، جس کی بنا پر آپ کے پڑوسی بھی ہیتاب ھوگئے اور مدینہ کے سر کردہ افراد کو لے کر امیر المومنین(علیہ السلام) سے یہ شکایت کی: اے ابوالحسن، فاطمہ(س) دن رات گریہ کرتی رہتی ہیں جس کی بنآپر ھمیں بھی راتوں کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی دن میں ھم آپنے کام کاج کرپاتے ہیں لہٰذا آپ ھماری طرف سے ان سے یہ گذارش کردیں کہ یا صرف دن میں رولیا کریں یآپھر رات میں-  
چنانچہ حضرت علی(علیہ السلام) نے شہزادی تک ان کی یہ گذارش پھنچادی: ”يا بنت رسول الله انّ شيوخ المدينة يساٴلوننی اٴن اٴساٴلک امّا اٴن تبکی اٴباکِ ليلاً اٴو نهاراً “مدینہ کے بڑے بڑے حضرات نے مجھ سے یہ کھا ھے کہ میں تم سے ان کی یہ گذارش کردوں کہ آپنے بابا پر یا دن میں رو لیا کرو یا رات میں،تو آپ نے فرمایا:”یا اٴباالحسن، ما اٴقلّ مکثی ہینھم، و ما اٴقرب مغیبی من بین اٴظهرهم“ اے ابو الحسن ان کے درمیان میرا قیام کتنا کم رہ گیاھے اور میں بہت جلد ہی ان کے درمیان سے رخصت ھوجاوٴں گی-
چنانچہ امیرالمومنین(علیہ السلام) کو مجبورا مدینہ سے باھر اور بقیع کے پیچھے ایک حجرہ بنوانا پڑا جسے ” ہیت الاحزان “ کھا جاتا ھے چنانچہ ھر روز صبح کو آپ امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کا ہاتھ پکڑ کر روتی ہوئی بقیع سے گذرکر وھاں چلی جاتی تھیں اور شام کو جاکرامیر المومنین آپ کو وھاں سے آپنے گھر وآپس لے آتے تھے-   
انس کہتے ہیں: جب ھم رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین سے فارغ ھوگئے تو میں شہزادی کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا: ”کیف طاوعتکم اٴنفسکم علی اٴن تھیلوا التراب علی وجہ رسول الله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)؟“تم نے یہ کیسے گوارا کرلیا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چھرہ کے اوپر مٹی ڈال سکو؟ اور یہ کہہ کر آپ رونے لگیں-  
امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں:”وحزنت فاطمة(عليها السلام) حزناً شديداً اٴثّر علی صحتها،  والمرّة الوحيدة التی ابتسمت فيها بعد وفاة اٴبيها(صلی الله عليه وآله وسلم) عندما نظرت الی اٴسماء بنت عميس و هی علی فراش الموت و بعد اٴن لبست ملابس الموت، فابتسمت و نظرت الی نعشها الذی عمل لها قبل وفاتها و قالت: ستر تمونی سترکم الله“ شہزادی کائنات(علیہاالسلام) اتنی زیادہ مغموم رہتی تھیں کہ اس سے آپ کی صحت خراب ہوگئی تھی اور آپ آپنے بابا کے بعد صرف ایک بار اس وقت مسکرائی تھیں کہ جب آپ رحلت کے کپڑے پھنے ھوئے آپنے بستر شھادت پر لیٹی ہوئی تھیں اور اس وقت آپ اسماء بنت عمیس کو دیکھ کر مسکرائی تھیں جنھوں نے آپ کےلئے تابوت بنایا تھا، اور آپ نے ان سے فرمایا تھا: تم نے میرے پردہ کا انتظام کیا ھے، اللہ تمھارا پردہ قائم رکھے-

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک