دعا اور اس کی شرائط
خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: "وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونىِ أَسْتَجِبْ لَكمُ ْإِنَّ الَّذِینَ يَسْتَكْبرُِونَ عَنْ عِبَادَتىِ سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِین" اورتمہارےپروردگارکاارشادہےکہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقیناجولوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلّت کےساتھ جہنم میں داخل ہوں گے.
دعا کا لغوی معنی پکارنا اور آواز دینا ہے اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور بارگاہ الٰہی سے کسی اچھی یا بری شئ کا اپنے یا دوسرے کیلئے درخواست کرنے کو کہتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں دعا یعنی بندے کا خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرنا ۔
دعا کے ارکان :
دعا کے چار ارکان ہیں ۔
۱ ۔ مدعو ؛
یعنی دعا میں جس کو پکارا جاتا ہے وہ خداوند قدوس کی ذات ہے وہ آسمان اور زمین کا مالک ہے اور اسکا خزانہ جود وعطا سے ختم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح وہ اپنی ساحت و کبریائی میں کو ئی بخل نہیں کرتا کسی چیز کے عطا کرنے سے اسکی ملکیت کا دائرہ تنگ نہیں ہوتا اور وہ بندوں کی حاجتوں کو قبول کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے"أَلَم ْتَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ" کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی حکومت صرف اللہ کے لئے ہے " إِنّ َهَذَا لَرِزْقُنَا مَالَهُ مِننَّفَاد" یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے " كلاًُّ نُّمِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَ مَاكاَن َعَطَاءُ رَبِّكَ محَْظُورًا" ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سےِ ان کی اور اُن سب کی مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے
اگر کوئی بندہ اسکو پکارے تو وہ دعا کو مستجاب کرنے میں کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں کرتا ۔ خود اسی کا فرمان ہے "ادْعُونىِ أَسْتَجِبْلَكمُ" مجھ سےدعاکرومیں قبول کروں گا مگر یہ کہ خود بندہ دعا مستجاب کرانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو ۔بندہ اس بات سے آگاہ نہیں ہوتا کہ کون سی دعا قبول ہونی چاہئے اور کون سی نہیں۔فقط خدا وند عالم اس چیز سے واقف ہے کہ بندے کیلئے کون سی دعا قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے اور کون سی نہیں ۔جیسا کہ دعاء افتتاح میں آیا ہے "و لعل الذی ابطا عنی و ھوخیر لی لعلمک بعاقبہ الامور فلم اری مولا کریما اصبر علی عبدلئیم منک علی" حالانکہ تو جانتا ہے کہ میرے لئے خیر اس تاخیر میں ہے اس لئے کہ تو امور کے انجام سے با خبر ہے میں نے تیرے جیسا کریم مولا نہیں دیکھا ہے جو مجھ جیسے ذلیل بند ہ کو برداشت کرسکے ۔
۲ ۔ داعی (دعاکرنے والا یعنی بندہ ):
بندہ ہرچیز کا محتاج ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "يَأَیهَُّاالنَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلىَ اللَّهِ وَ اللَّهُ هُوَ الْغَنىِ ُّالْحَمِید" انسانوں تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابلِ حمدوثناہے۔ دعا کرنے والے کو ہمیشہ محتاج ہونے کا احساس ہونا چاہیئے جتنا بھی انسان اللہ تعالی ٰ کی بار گاہ میں محتاج رہے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب رہے گا اور اگر تکبر کرکے اپنی حاجت اور ضرورت کو اسکے سامنے پیش نہیں کرے گا اتنا ہی وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا جائےگا
٣- دعا (بندے کا خدا سے مانگنا )
دعا یعنی بندے کا اپنے آپ کو اللہ کے سامنے پیش کرنا جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: "ادْعُونىِ أَسْتَجِبْ لَكمُ" مجھ سےدعاکرو میں قبول کروں گا اور معصومین علیہم السلام کے اس بارے میں فرماتے ہیں جیسا کہ امام صادقعلیہ السلام سے منقول ہےکہ آپ نے فرمایا "علیکم بالدعا فانکم لا تقربون الیٰ الله بمثله" (تم دعا کیا کرو خدا کے قریب کرنے میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے ) ایک اور مقام پر آپ علیہ السلام سے منقول ہے کہ فرمایا : "علیکم بالدعا فان المسلمین لم یدرکوا انحاح الحوائج عند ربهم بافضل من الدعا والرغبه الیهوالتضر ع الیٰ الله۔" تم دعا کیا کرو چونکہ مسلمانوں کیلئے اللہ کے نزدیک حاجتیں پوری کرنے کیلئے دعا مانگنا اور استغاثہ سے بہتر کوئی اور چیز نہیں ہے ۔اسی طرح رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا : "ارفعوا ابواب البلاء بالدعا" دعا کے ذریعہ بلا کے دروازوں کو بندکیا کرو ۔
انسان اور رب کے درمیان رابطہ قائم کرنے کا ذریعہ دعا ہے ۔ اللہ سے مانگتے وقت انسان اپنے تمام اختیارات کا مالک خدا کو سمجھے یعنی خدا کے علاوہ کوئی اسکی دعا قبول نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے"أَمَّن یجُِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء" بھلا وہ کون ہے (سوائے خدا کے) جو مضطر کی فریاد کوسنتاہے جب وہ اس کو آواز دیتاہےاور اس کی مصیبت کو دورکردیتاہے مضطر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس دوسرا کوئی راستہ اوراختیار نہ رہے اگر کوئی اختیار ہے تو صرف ۔ صرف اللہ تعا لیٰ کا ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب ایسا ہوگا تو انسان اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں مضطر محسوس کرے گا۔ اس وقت مضطر کی دعا اور اللہ کی قبولیت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہے گا۔ دعا میں اس اضطراب اور چاہت کا مطلب خدا کے علاوہ دنیا اور اسمیں موجود اشیاء سےامیدکا ختم کرلینا ہے۔ صرف اور ٖصرف اسی کو مددگار سمجھنا ہے.
دعا کی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے۔
جب بھی انسان کی حاجت اللہ کی طرف عظیم ہوگی اور وہ اللہ کا زیادہ محتاج ہوگا اتنا ہی دعا کے ذریعہ اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوگا ۔ جتنا اللہ کی طرف متوجہ رہے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوگا ۔ اس کے برعکس بھی ایسا ہی ہےیعنی جتنا انسان اپنے کو بے نیاز محسوس کرے گا خدا سے دور ہوتا جائیگا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "كلاََّ إِنَّ الْانسَانَ لَيَطْغَی أَن رَّءَاهُ اسْتَغْنی" بےشک انسان سرکشی کرتاہےجب وہ اپنےآپ کوبےنیازخیال کرتاہے. یعنی جتنا انسان اپنے کو غنی اور بے نیاز سھتا ہے اتناہی اللہ سے روگردانی کرتا ہے یعنی خدا کی عظمت کو بھول جاتا ہے ٬وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اسکے ہر فعل پر ناظر ہے اور کل قیامت کے دن اپنے ہر کردار کو دیکھنا ہے جس کو کرام الکاتبین (کندہوں پہ موجود ملائکہ )نے نوٹ کیا ہے اسی لئے سرکش ہوتا ہے انسان اس مطلب کو ہمیشہ یاد رکھے کہ اس کا ہر عمل ٬ہر اچھائی اور ہر برائی یاد داشت ہوتا ہے اور کل قیامت کے دن انھی اعمال کو بعینہ دیکھنا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"يَوْمَئذٍيَصْدُرُالنَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْاْأ َعْمَلَهُمْ ، فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّايَرَهُ" اس روز سارےانسان گروہ درگروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں, پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسےدیکھےگا, اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسےدیکھےگا. تو خود کو کبھی بھی اللہ سے بے نیاز تصور نہیں کرسکتا ہے اس لئے جو شخص جتنا اللہ کی معرفت رکھتا ہے اتنا ہی اللہ کا محتاج سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق ہی دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرتا ہے ۔
۴ ۔ مدعو لہ (وہ حاجت اور ضرورت جو بندہ خداوند قدوس سے طلب کرتا ہے ):
بارگاہ الٰہی میں راز ونیاز اور مانگنا صرف معصومین ؑ کے الفاظ اور دعا ؤ ں پر منحصر نہیں ہے بلکہ انسان اس مقام پر آزاد ہے اور ہر حالت میں اور ہر جگہ اور ہر زبان میں اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجت کو مانگ سکتا ہے۔ انسان کیلئے خدا وند عالم سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لئے جوتا اور جانوروں کے لئے چارہ اور اپنے لئے آٹا ٬نمک بھی مانگ سکتا ہے ۔ لیکن کتنا اچھا ہے کہ انسان اہل بیت اطہار ؑ کے بتائے ہوئے کلمات اور الفاظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات کرے کیوں کہ انہیں شخصیات نے اللہ کو جتنا پہچاننا چاہیئے تھا اتنا پہچان چکے ہیں اور اس ذات کی جس طرح بندگی کرنا تھا بندگی کرچکے ہیں اور یہی لوگ جانتے ہیں کہ اللہ سے کیا مانگنا چاہیئے اور کیسے ۔
دعا کی شرایط:
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سےجو چاہے خواہ وہ شرعی ہو یا نہ ہودرخواست کر سکتے ہیں اور توقع بھی رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی جلد از جلد ان کی حاجات کو کو پو را کرے حالانکہ دعا کیلئے کچھ شرائط ہیں جب تک وہ شرائط مکمل نہ ہوں تب تک دعا قبول نہیں ہوتی ۔
1 ۔ انسان جس چیزکے بارے میں دعا کررہا ہے وہ گناہ کا نتیجہ نہ ہو :
مثال کے طور پہ ایک آدمی فی الحال بری حالت میں ہے اور وہ تمنا کرتا ہے کہ اسکی حالت بہتر ہو یعنی اسکی بری حالت اچھی حالت میں تبدیل ہوجائے حالانکہ اس کی بری حالت کچھ دینی فرائض میں کوتاہیوں کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں تو جب تک بری حالت کے عوامل اور اسباب کو ختم نہیں کرے گا اور جب تک گناہوں سے توبہ نہ کرے تب تک وہ حالت نہیں بدلے گی جیسا کہ امام علی علیہ السلامنے فرمایا کہ : امر بالمعروف کو مت بھولنا اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہنا ورنہ برے لوگ تم پر حکمرانی کریں گے پھر تم جتنا بھی دعا کروگے قبول نہیں ہو گی ۔
اب اگر معاشرہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر ترک کردے جس کے نتیجہ میں شریرلوگ حاکم بنیں تو لوگ جتنا بھی دعا کریں اللہ دعا قبول نہیں کرے گا جسکا معاشرے کے لوگ ہی سبب بنے ہیں جنھوں نے معاشرے کی تمام برا ئیوں کو دیکھتے ہوئے امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کو چواڑ دیا ہے ٬جب تک لوگ اپنی حالت بدل نہ دیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینے پر توبہ نہ کریں اس وقت تک ان کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرمارہا ہے:"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَیرُِّ مَا بِقَوْمٍ حَتىَ يُغَیرُِّواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَ مَالَهُ ممِّن دُونِهِ مِن وَال" اورخداکسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلےاورجب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتاہے اورنہ اس کےعلاوہ کوئی کسی کاولی و سرپرست ہے.
یہ تو ایک اجتماعی مسئلہ تھا معاشرے میں لوگوں کی دعا کا مقبول ہونے یا نہ ہونے میں پوری قوم کا اہم کردارہے اسی طرح انفرادی زندگی میں بھی یہی مسئلہ ہے مثلا اگر کسی آدمی نے کسی شرعی حق کو ادا نہیں کیا ہے جیسے قضا نمازیں اسکے ذمہ موجود ہیں جن کو نماز کو اہمیت نہ دینے یا کچھ مجبوریوں کی وجہ سے بر وقت ادا نہیں کرسکا ہے ٬اب جتنا بھی وہ دعا کرے کہ اے میرے اللہ میرے گناہوں کو (خصوصا وہ گناہ جن کی وجہ سے میں نمازیں ادا نہیں کرسکا ہوں )کو معاف فرما تو جب تک وہ قضا نمازوں کو نہیں پڑھے گا اس کی دعا قبول نہیں ہوگی بلکہ انسان دینی ذمہ داریوں کو فردی ہو یا اجتماعی اداکرے پھر گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کرے.
2- دعا نظام تکوین یا تشریع کے خلاف نہ ہو :
چونکہ انسان دعا کے ذریعہ نظام خلقت ٬تکوین اورقوانین الٰہی کے مقرر کردہ اہداف تک پہنچنا چاہتا ہے اسلئے انسان کی سیر بھی عالم تکوین اور نظام خلقت کے ساتھ ہماہنگ ہو نا چاہیئے اور دعا جائز اہداف تک پہنچنے کیلئے توانائی حاصل کرنے کا باعث بنتا ہے اگر دعا ہدف تکوین یا تشریع کے خلاف کسی چیز پر مشتمل ہو جیسے انسان اس دنیا میں ہمیشہ باقی رہنے کیلئے دعا کرے ٬انسان دعا کرے کہ اس کی کبھی بھی موت نہ آئے یا قطع رحم کیلئے دعا کرے تو یہ دعا استجابت کا قابل نہیں ۔
3۔ دعا زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ہماہنگ ہو :
انسان کا دل پاک ہونا چاہیئے۔ حلال رزق کمائے۔ دوسروں پرظلم نہ کرے ۔پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "من احبّ ان یستجاب دعاوہ فلیطیب مطعمہ و مکسبہ " جو شخص چا ہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو جائے ضروری ہے کہ وہ اپنی روزی اورکمائی کو پاک کرے ۔دوسری روایت میں امام جعفرصادق ؑسےمنقول ہے "اذا اراد احدکم ان یستجاب له فلیطیب کسبه ولیخرج من مظالم الناس وان الله لا یرفع الیه دعا عبد وفی بطنه حرام او عنده مظلمه لاحد من خلقه" آپ لوگوں میں سے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ کاروبار اور کمائی کو پاک کرے اور لوگو ں پر ظلم و ستم سے چھٹکارا حاصل کرے کیوں کہ اس بندے کی دعا اللہ تعالیٰ تک نہیں پہونچتی ہے جسکے پیٹ میں حرام مال گیا ہو یا اس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی کا حق ہو (اور ابھی تک اس کو ادانہ کیا ہو)۔ تعقیبات نماز عصرمیں ہم پڑھتے ہیں "اللهم انی اعوذبک من دعاءٍ لا یسمع "اے میرے اللہ میں اس دعا سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہیں جاتی ہے ٬ یعنی دعا کرنے والے انسان میں کچھ ایسی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے دعا مستجاب نہیں ہوتی ہے ۔
4۔ دعا انسان کے جد وجہد کا مانع نہ بنے :
دعا عمل سے متصل ہونی چاہئیے بغیر عمل کے دعا کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتی ۔ عمل دعا سے بے نیاز نہیں کرسکتا ہے
اس مطلب کے ذیل میں دو باتو ں پہ توجہ ضروری ہے پہلی بات یہ ہے کہ دعا عمل کے بغیر نہیں ہو سکتی جیساکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر سے فرمایا "یا ابا ذر مثل الذی یدعو بغیر عمل کمثل الذی یرمی بغیر وتر " اے ابوذر! عمل کے بغیر دعا کرنے والا اس تیر چلانے والے شخص کی مانند ہے جو بغیر کمان کے تیرچلا رہا ہو . عمر بن یزید سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق ؑ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ :"میں اپنے گھر میں بیٹھوں گا ٬نماز پڑھوںگا روزے رکھوں گا اور اپنے پروردگارکی عبادت کروں گا اور مجھے بغیر کام کئے زرق بھی ملے گا" تو آپ نے فرمایا : یہ ان تین افراد میں سے ہے جن کی دعا قبول نہیں ہوتی
اسی مضمون کی اوربھی بہت روایتیں ہیں جن سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جد وجہد اور کوشش کے بغیر صرف دعا کرنا کافی نہیں ہے لھذا اگر کوئی باپ بیٹے کی اصلاح اور ہدایت کیلئے دعا کرے لیکن عملی طور پر تربیت کیلئے اقدام نہ کرے... توان احادیث کے مطابق دعا قبول نہیں ہوگی.دوسری بات یہ ہے کہ دعا عمل سے بے نیاز نہیں ہے یعنی ایک کام جتنا بھی آسان اور ممکن ہو پھربھی اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہئیے , پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے روایت ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"یدخل الجنہ رجلان کانا یعملان عملا واحدا فیری احدھماصاحبہ فوقہ فیقول یاربّ بما اعطیتہ وکان عملنا واحدا فیقول اللہ تبارک وتعالیسألنی ولم تسئلنی ثم قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسئلواواجزلوا فانہ لایتعاظمہ شیء." جنت میں دوایسے مرد داخل ہوں گے جن کاعمل ایک ہی ہوگا ان میں سے ایک دوسرے کو برتر دیکھے گا تو کہے گا: پرور دگار اس کو مجھ سے زیادہ عطا کیوں کیا جب ہم دونوں نے ایک ہی عمل انجام دیا تھا ؟ پرور دگار عالم جواب دے گا : اس نے مجھ سے سوال کیا لیکن تم نے سوال نہیں کیا ٬پھر فرمایا اللہ کے فضل سے سوال کرو اور اسکے علاوہ کوئی اور چیز اس کے نزدیک بڑی نہیں ہے.
یہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی فرمان ہے : بے شک جن بندوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت عمل کے ساتھ کی ٬ خدا وند عالم نے ان کو عطا کیا اور دوسروں نے صدق دل سے مانگا تو ان کو بھی عطا کیا پھر ان سب کو اسنے جنت میں داخل کردیا تو عمل کرنے والے کہیں گے پرور دگا ر ہم نے عمل کیا تو تو نے ہم کو عطا کیا لیکن تو نے ان کو کیوں عطا کیا جبکہ انھوں نے عمل نہیں کیا ؟ پروردگار کہے گا اے میرے بندو! میں نے تم کو تمہارے عمل کی اجرت عطا کی اور تمہارے اعمال میں سے ذرہ برابر بھی کم نہیں کیا لیکن رہا تمھارا یہ سوال کہ ان کو کیوں عطا کیا؟ انھوں نے مجھ سے صدق دل سے مانگا تو میں نے عطا کیا اور ان کو بے نیاز کیایہ تو میرا فضل ہے جس پر ہو جائے۔ ہو سکتا ہے آپ کے ذ ہن میں یہ سوال پیدا ہوجائے کہ جب عمل اور کوشش کے بغیر للہ تعالیٰ دعا مستجاب نہیں کرتا ہے تو اس روایت میں کس طرح صرف مانگنے سے ہی عطا کیا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے استحقاق اور تفضل میں فرق ہے انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اجرت کا مستحق ہو تا ہے لیکن تفضل میں انسان کا اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی حق نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی کی وجہ سے کسی پر عطا اور بخشش کردیتا ہے اس لئے ہم دعاوؤں میں پڑھتے ہیں کہ "ربنا عاملنا بفضلک ولا تعاملنا بعدلک "اے پروردگار ہمارے ساتھ اپنے تفضل اور بخشش کے عنوان سے سلوک کر نہ عدالت سے ٬ چونکہ عدالت کو مد نظر رکھا جائے تو اس وقت ہمارے اعمال میں بہت سارے نقائص پائے جا ئیں گے جس سے ہم کسی ثواب کے حق دار نہیں ہونگے اس لئے ہم اللہ تعالیٰ سے اعمال سے قطع نظر ثواب کا درخواست کرتے ہیں تو مذکورہ روایت میں بھی آیا ہے کہ وہ میرا فضل ہے جس پر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے جس پر چاہے وہ اپنی نعمت کو نازل کرسکتا ہے ۔ آئندہ ایک اور تحریر میں دعا کے آداب ٬قبولی دعا کے عوامل اور موانع استجابت کے بارے میں تذکرہ کرنے کی ہماری کوشش رہے گی ۔
اللہ اپنے بندوں کی دعا کا مشتاق ہے :
دعا عبادت کی روح ہے انسان کی خلقت کی غرض عبادت ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے "وَمَاخَلَقْت ُالجِْن َّوَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون" اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اور عبادت کرنے کی غرض خدا وند عالم سے مضبوط رابطہ کرنا ہے جو دعا کے ذریعہ ہی پیداہوتا ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں "الدعا مخ العبادۃ ولا یہلک مع الدعاء احد ۔۔۔" دعا عبادت کی روح ہے اور دعا کرنے سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہو تاہے اور فرمایا تلاوت قرآن کے بعد میری امت کی بہترین عبادت دعا ہے اس کے بعد رسول گرامی اسلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونىِ أَسْتَجِبْ لَكمُ ْإِنَّ الَّذِینَ يَسْتَكْبرُِونَ عَنْ عِبَادَتىِ سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِین اور فرمایا : کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ دعا وہی عبادت ہے۔
اور دوسری روایت میں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمفرماتےہیں "الدعا سلاح المومن و عمادالدین " دعا مومن کا ہتیار اور دین کا ستون ہے ٬ بے شک دین کا ستون ہے اور اس کا مطلب اللہ تعالی کی طرف حرکت کرنا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنے کو پیش کرنے کانام دعا ہے ۔ امام باقر ؑ سے پوچھا گیا :کونسی عبادت سب سے افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : خدا وند عالم کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہیں کہ اس سے سوال کیا جائے اور خدا وند عالم کے نزدیک سب سے مبغوض ترین شخص وہ ہے جو عبادت کرنے پر غرور کرتاہے اور خدا وند عالم سے کچھ طلب نہیں کرتا ہے ۔ اللہ کے نزدیک دعا اور دعا کی مقدار کے علاوہ انسان کی کوئی قیمت و ارزش نہیں ہے اور خداوند عالم اپنے بندے کی اتنی ہی پروا کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے : "قل ما یعبؤبکم ربی لولا دعاؤکم"پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمآپ کہہ دیجیے کہ اگرتمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو, پروردگارتمہاری پروابھی نہیں کرتا.
جب بندہ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور کبھی کبھی خداوند عالم اپنے بندے کی دعا مستجاب کرنے میں اس لئے دیر لگا تا ہے تاکہ وہ دیر تک اس کی بارگاہ میں کھڑا رہے اور اس سے دعاکرکے گڑ گڑاتا رہے کیونکہ اسے اپنے بندے کا گڑگڑانا بھی پسند ہے اس لئے وہ دعا اور مناجات کا مشتاق رہتا ہے ۔
امام رضا ؑ سے روایت ہے کہ "ان الله عزوجل لیؤخر اجابه المومن شوقا الیٰ دعائہ و یقول : صوتا احب ان اسمعه ہ و یعجل اجابة المنافق ویقول : صوتااکره سماعة" خدا وند عالم مومن کی دعا کے شوق میں اس کی دعا کو دیر سے مستجاب کرتا ہے اورکہتا ہے : مجھے یہ آواز پسند ہے اور منافق کی دعا جلد قبول کرتا ہے اورفرماتا ہے مجھے اس کی آواز پسند نہیں ۔ امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے: جب ایک بندہ خدا وند عز وجل سے دعا مانگتا ہے تو خدا وند دو فرشتوں سے کہتا ہے :میں نے اس کی دعا قبول کرلی ہے؛ لیکن تم اسکواس کی حاجت کے ساتھ قید کرلو چونکہ مجھے اسکی آواز پسند ہے اور جب ایک منافق دعا کرتا ہے تو خداوند کہتا ہے : اس کی حاجت روائی میں جلدی کرو چونکہ مجھے اسکی آواز پسند نہیں ہے
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے منقول ہے کہ خدا وند عالم ایک چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے لیکن وہ مخلوق کیلئے پسند نہیں کرتا ہے وہ اپنے لئے اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ اس سے سوال کیاجائے اور اللہ کے نزدیک اس سے سوال کرنے کے علاوہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے پس تم میں سے کوئی اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرنے میں شرم نہ کرے اگرچہ وہ جوتے کے تسمہ کے بارے میں کیوں نہ ہو ۔
محمد بن عجلان سے مروی ہے کہ میں شدیدفقر و فاقہ کی زندگی گزار رہا تھا ۔میری تنگ دستی کو دور کرنے والا کو ئی ساتھی بھی نہیں تھا۔مجھ پر دین کی اطاعت بڑی مشکل ہو گئی تھی اور میں اپنی ضروریات زندگی کیلئے چیخ اور چلا رہا تھا۔میں نے اس وقت اپنی ذمہ داری معلوم کرنے کیلئے حسن زید (جو اس وقت مدینہ کے حاکم تھے ) کے گھر کا رخ کیا تاکہ مشکلات دور کرنے کیلئے کچھ مانگوں ۔۔۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا : خداوند عالم نے اپنے بعض انبیاء علیہم السلام کی طرف وحی نازل کی کہ مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ہے میں ہر اس شخص کی امید مایوسی میں بدل دونگا جو میرے علاوہ کسی اور سے امید لگا ئے گا ٬اسے ذلت کا لباس پہنا ؤںگا اور اسے اپنے فضل وکرم سے دور کر دوں گا کیا میرا بندہ مشکلات میں میرے علاوہ کسی اور سے امید کرتا ہے حالانکہ میں غنی جواد ہوں ؟تمام دروازوں کی کنجی میرے ہاتھ میں ہے حالانکہ تمام دروازے بند ہیں اورمجھ سے دعا کرنے والے کیلئے میرا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جس کو کوئی مشکل پیش آئے اس کی مشکل کو میرے علاوہ کوئی اور دور نہیں کرسکتا تو میں اس کو غیر سے امید رکھتے اور خود سے روگردانی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جبکہ میں نے اپنی سخاوت اور کرم کے ذریعہ وہ چیزیں عطا کی ہیں کہ جن کا اس نے مجھ سےمطالبہ نہیں کیا ہے؟ لیکن اس نے مجھ سے رو گردانی کی اور طلب نہیں کیا بلکہ اپنی مشکل میں دوسروں سے مانگا جبکہ میں ایسا خدا ہوں جو مانگنے سے پہلے ہی دے دیتاہوں۔ تو کیا ایسا ہوسکتاہے کہ مجھ سے سوال کیا جائے اور جو د وکرم نہ کروں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کیا جود وکرم میرے نہیں ہیں ؟ کیادنیاا ور آخرت میرے ہاتھ میں نہیں ہیں ؟ اگر سات زمین وآسمان کے لوگ سب مل کر مجھ سے سوال کریں اور ہر ایک کی ضرورت کے مطابق اسکو عطا کردوں تو بھی میری ملکیت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں آ ئے گی اور کیسے کمی آسکتی ہے جس کا ذمہ دار میں ہوں ۔لہٰذا میری مخالفت کرنے والے اور مجھ سے نہ ڈرنے والے پر افسوس ہے ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث کی میرے لئے تکرار فر مادیجئے تو آپ نے اس حدیث کو تین مرتبہ تکرار فرمائی ۔ میں نے عرض کیا خدا کی قسم آج کے بعد کسی سے سوال نہیں کروں گا تو کچھ ہی دیر گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھ کو اپنی جانب سے رزق عطا فرمایا۔
ماہ رمضان, دعا کی بہار:
ان روایات سے معلوم ہوا کہ دعا کی کتنی قدر ومنزلت ہے۔ اللہ تعالیٰ مومن بندے کی دعا کو کتنا پسند کرتا ہے ۔ اللہ نے وعدہ بھی کیا ہے کہ جو کچھ مجھ سے مانگو گے میں عطا کروں گا یہ خود سازی اور روح کو پاک کرنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے شب وروز کیلئے دعائیں وارد ہوئیں ہیں ۔ ان کے ذریعہ سے انسان اپنی دنیا اور آخرت کو آباد کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے راز ونیاز کرسکے ۔ شعبان المبارک کے مہینے کے آخری دنوں میں پیغبرئ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کے اجتماع سے خطاب فرمایا : یہ خطبہ شعبانیہ کےنام سے مشہور ہوا۔ اس میں فرمایا : اے لوگو خدا کا برکت اور رحمت اور مغفرت سے بھرا مہینہ آرہا ہے۔ یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے۔ اس کی ر اتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں۔ اس کے اوقات تمام اوقات سے بہتر ہیں ۔
یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کے یہاں دعوت دی گئی ہے۔تم لوگ کرامت خداکے مہمان قرار پائے ہو۔ اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت ہے۔ اعما ل مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں, لہٰذا تم سب کو اس مہینے میں نیک اور سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ اللہ سے سوال کرنا چاہیے۔ وہ تمہیں اس مہینہ کے روزے رکھنےاور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ بد بخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الٰہی سے محروم رہے ۔۔۔۔ اپنے گناہوں سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ اوقات نماز میں اپنے ہاتھوں کو اللہ کی طرف بلند کرو ۔اوقات نماز بہترین اوقات ہیں ۔اس میں خداوند اپنے بندوں کی طرف رحمت خاص کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اللہ سے مناجات کریں تو جلد جواب دیتا ہے اور اسے پکاریں تو لبیک کہتا ہے اور جب اس سے کوئی چیز مانگیں اور دعا کریں تو جواب دیتا ہے ۔
جو کوئی اس مہینہ میں مستحب نمازیں بجالائے گا خداوند اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینہ میں ایک واجب نماز پڑھے گا تو اس کیلئے دوسرےمہینوں میں ستر نمازیں پڑھنے کاثواب دے گا ۔ جو کوئی اس مہینہ میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے گا خداوند قیامت کے دن جب لوگوں کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا تو اس کے اعمال کے پلڑے کو سنگین کرے گا۔ جو اس مہینہ میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا اس کو ختم قرآن کا ثواب ملے گا ۔ اے لوگو! یقینا اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔اپنے پروردگار سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر بند نہ کرے ۔جہنم کے دروازے اس ماہ میں بند کردئے گئے ہیں۔ا پنے پروردگار سے دعا کرو کہ تمہارے لئے ان کو کھول نہ دے ۔ شیاطین اس مہینہ میں زنجیروں سے باندھے گئے ہیں اپنے رب سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔
اس مہینے کے ہر دن کیلئے خاص دعاہے۔
نماز کیلئے ٬ماہ رمضان کی چاند نظر آتے وقت کیلئے ٬دعاء ابوحمزہ ثمالی ٬دعاء افتتاح ٬ دعاء سحر ٬ شبہائےقدر میں پڑھنے والی خصوصی دعائیں جیسے دعاء جوشن کبیر ٬ وغیرہ یہ سب دعائیں اللہ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کیلئے وارد ہوئیں ہیں ۔ اورعبادت کی روح ہیں۔ اپنے مالک کی بارگاہ میں راز و نیاز کے ذریعہ ایک سرکش انسان سیاہ نامہ اعمال کو پاک کرکے فرشتہ صفت انسان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ انسان خود اپنے اندر تبدیلی ایجاد کرنے کا طالب ہو ۔ اللہ تعالیٰ تمام حق پرستوں کو روح عبادت (دعا) سے متمسک ہونے کی توفیق دے.
آ مین رب العالمین
.........................
منابع :
[1]۔ (غافر ۶۰)
[2]۔ (بقرہ ۱۰۷ )
[3]۔ (ص ۵۴ )
[4]۔ (اسراء ۲۰)
[5]۔ (غافر ۶۰)
[6]۔ (المصباح للکفعمی ٬ابراہیم ابن علی کفعمی ٬دعاء افتتاح ص ۵۷۸ )
[7]۔ (فاطر ۱۵)
[8]۔ (غافر ۶۰)
بحار الانوار ٬ علامہ مجلسی جلد ۹۰ ص 312 باب آداب ۔ الدعا[1]
[9]۔ بحار الانوار ٬ علامہ مجلسی جلد 75ص 212 باب مواعظ لصادق جعفربن محمد
[10] . قربالاسناد, عبداللہ بن جعفرحمیری, مؤسسہ آل البیت ص 117
[11]۔ (نمل ۶۲)۔
[12]۔ (علق ۶و ۷ )