امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کل یوم عاشورا کل ارض کربلا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


اے کاش ! لوگ اس کلام کی حقیقت کو سمجھ لیتے اور جس سرزمین پرپہنچتے اور جو دن بھی دیکھتے اس اسلامی حق کو ادا کرتے جس کے لیے امام حسین(ع) نے اپنی شہادت دی اور اگر ایسا کرتے تو بلاشبہ دنیا میں مسلمانوں کی حالت بالکل بدلی ہوئی ہوتی۔ اور غلام ہونے کے بجائے آقا ہوتے لکن افسوس کہ بہت سے لوگوں نے امام حسین(ع)  کی شہادت اور ان کے انقلاب کو صرف سال کے چند دنوں میں فقط رونے رلانے، زنجیر و قمع و شبیہ وغیرہ میں منحصر سمجھ لیا ہے کہ چند دن اس واقعہ کی یاد تازہ کی جائے اور باقی سال میں تمام  چیز فراموش کردی جائے۔
بہت سے اہل سنت شیعوں کے ان اعمال پر تنقید کرتے ہیں اور افسوس یہ کہ بعض عربی و مغربی پروپگنڈہ ایجنسیاں اس زمانہ میں ایام عاشورا میں ایران کے شیعوں کو اس طرح پیش کرتی ہیں گویا وہ ایسے درندے ہیں جو شدت و بربریت میں ایسے ہیں جو بس لوگوں کو خون بہانا جانتے ہیں۔ اگر چہ زنجیر و قمع ہندوستان و پاکستان میں شدت سے ہوتی لیکن اغیار کے ریڈیو ٹیلیویژن صرف ایرانی شیعوں پر اپنے کیمرہ کو مرکوز کئے ہوئے ہیں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تحقیق کرنے والا ہر انسان اس کے اسباب سے بخوبی آگاہ ہے۔
یہ پروپگنڈہ ایجنسیاں آخر تہران کی نماز جمعہ کو منعکس کیوں نہیں کرتیں جس میں بیس لاکھ سے زیادہ نمازی شرکت کرتے ہیں؟ یہ ایجنسیاں ایران میں شب جمعہ منعقد ہونے والی دعائے کمیل کا منظر کیوں نہیں پیش کرتیں جن میں سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے شب کی تاریکی اور سکوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنے پروردگار سے رو رو کر گناہوں کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے ہیں؟
کیوں صرف مراسم پر ہی توجہ دیتے ہیں اور چند قمع لگانے والوں پ رہی زیادہ نگاہ رکھتے ہی۔ حق یہ ہے کہ بعض شیعہ ان اعمال کو انجام دیتے ہیںجن کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ بعض افراد کے جذبات کا اظہار تھا جو بلا تحقیق مرور ایام سے وراثت میں منتقل ہوگیا اور رائج ہوگیا یہاں تک کہ بعض عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ قمع و زنجیر سے خون بہانا خدا سے قرب حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور بعض تو اس سے آگےبڑھکریہبھیکہتےہیں کہ جو شخص یہ اعمال انجام نہدے وہ امام حسین(ع) کو دوست نہیں رکھتا!!
میں جب بھی ان امور پر غور کرتا ہوں اگر چہ حقیقی شیعہ ہوں تو اس منظر سے مطمئن نہیں ہو پاتا جو ایک عام انسان کو متنفر اور بد دل کردیتاہے۔ آخر اس کے کیا معنی ہیں کہ ایک نیم برہنہ انسان تلوار لے کر حسین(ع) حسین(ع) کرتا ہوا اپنے ہاتھ سے خود کو مارےاور اپنے خون میں نہائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان اعمال اور مراسم عزاداری کے تھوڑی دیر بعد بجائے  اس کے کہ غمزدہ نظر آئیں ہنستے کھیلتے مٹھائیاں اور پھل کھانے نظر آتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بعض افراد ( بلکہ زیادہ تر افراد) کو دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ لہذا میں نے خود کئی موقعوں پر براہ راست ان پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا عمل اندھی تقلید سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ہاں! یہ کچھ سمجھ شیعوں کا عمل ہے لیکن بہر حال امام حسین(ع) سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے جیسا کہ یہ لوگ سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص نے ایک عالم دین سے کہا تھا: میں نے حضرت عباس(ع) کی عزاداری کے لیے کھانا تیار کیا اور اس دوران ایک منٹ کے لیے بھی جوتو نہیں اتارا تو اس عالم نے اس سے پوچھا کہ اس دوران تم نے وضو کیسے کیا اور نماز کیسے پڑھی؟ اس نے سرے سے عالم کی بات پر توجہ نہیں دی کیوں کہ وہ معتقد تھا کہ مجھے حضرت عباس(ع) سے اس کی جزا مل جائے گی۔
بہر حال میں یاد دہانی کراتا ہوں کہ یہ تمام امور وہ ہیں جن کو استعمار ہی نے رائج کیا اور ان کا پروپگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات ہم شیعوں کے یہاں کم ہوتی جارہی ہے۔ خدا بخشے حضرت آیة اللہ شہید سید باقر الصدر(رح) کو کہ جب میں نے ان سے (شیعہ ہونے سے پہلے) ان اعمال کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا تھا۔
”یہ عوام کے اعمال ہیں تم ہم میں سے کسی بھی عالم کو انھیں انجام دیتے نہ دیکھو گے بلکہ علماء ہمیشہ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں۔“
سب سے بڑھ کر رسول(ص) خدا کا کردار ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔ کیوں کہ جب ان کے حامی و مددگار چچا حضرت ابوطالب(ع) دنیا سے اٹھے تو آپ بہت غمزدہ ہوئے۔ آپ کی عزیز زوجہ وفات پائی، آپ کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے اور آپ نے شہادت کے بعد ان کا پارہ پارہ جگر دیکھا۔ حضرت اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر روئے اور جب جبرئیل(ع) نے حضرت امام حسین(ع) کی شہادت کی خبر آپ کو دی تو بہت روئے اسی طرح اپنے بھائی علی(ع) پر آیندہ آنے ہونے والی مصیبت پر روئے۔
حضرت رسول خدا(ص) بہت روتے تھے بلکہ مسلمانوں کو حکم دیتےتھے کہ اگر رو نہ سکو تو خود کو غمزدہ بناؤ اور ان آنکھوں سے پناہ مانگتے تھے جن سے آنسو نہ جاری ہوں، لیکن اس بات سے روکتے تھے کہ غم میں کوئی بے قابو ہو جائے چہ جائے کہ قمع اور تیغ سے خود کو زخمی کرے اور بدن سے خون جاری کرے۔
ہمارے پہلے امام حضرت علی(ع) نے حضرت رسول خدا(ص) کی  وفات کا داغ اٹھایا اور اس عظیم مصیبت کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی مہربان زوجہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے غم میں مبتلا ہوئے اگرچہ آپ کے جسم نحیف میں ان دونوں عظیم مصیبتوں کو برداشت کرنے کی توانائی نہ تھی۔ لیکن آپ نے ہرگز ایسے کام نہ کئے جسے آج عوام الناس عزاداری میں کرتے ہیں۔
اسی طرح امام حسن(ع) نے اپنے نانا حضرت رسول خدا(ص) اور اپنی مادر گرامی کی وفات کے بعد حضرت علی(ع) جیسے مہربان باپ کو جو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد بہترین شخص تھے محراب عبادت میں ابن ملجم ملعون کی ضربت کھاتے دیکھا لیکن ایسے اعمال انجام نہ دیئے۔
امام زین العابدین(ع) نے بھی عزا میں ایسے اعمال انجام نہ دیئے جب کہ انھوں نے کربلا کا درد ناک واقعہ اپنی نگاہوں سے دیکھا کہ کس طرح ان کے پدر بزرگوار اور ان کےچچا اور بھائی قتل کر ڈالے گئے اور اس کے بعد ان پر ایسے مصائب پڑے کہ اگر پہاڑوں پر پڑتے تو لرزجاتے۔ اور سرے سے یہ تاریخ نے لکھا ہی نہیں ہے کہ کسی بھی امام نے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں یا اپنے اصحاب کو ان کا حکم دیا ہو۔ ہاں جو باتیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ نوحہ و مرثیہ پڑھنے والے اشعار پڑھیں اور اس پر ائمہ(ع) خود بھی روتے تھے اور لوگوں کو بھی اہل بیت(ع) کے غم میں رونے کا حکم دیتے تھے اور یہ ایک مستحب عمل ہے اگر چہ واجب نہ ہو۔
میں نے خود مختلف موقعوں پر دنیا کے مختلف علاقوں میں عاشورا اور عزاداری کے مراسم میں شرکت کی ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شیعہ علما اس طرح سے عزاداری کرتے ہوں۔ گویا اہل علم ان کاموں کو پسند نہیں کرتے اور انھیں ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
پس ہمیں اہل بیت(ع) کے کردار اور ان کی معرفت سے آگاہی کےبعد عوام الناس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں ہر سال عاشورائے حسینی(ع) کی یاد منانا چاہئے اور ان کے مصائب بیان کر کے گریہ و بکا اور فریاد کرنی چاہئے۔ حق تو یہ ہے کہ دل بھی زبان سے ہم آہنگ ہو اور آنکھوں کے ساتھ گریہ کرے۔ تمام اعضاء و جوارح روئیں اور خدا کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم بھی امام حسین(ع) کی راہ پر جو در حقیقت رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع) کی راہ ہے، گامزن ہوںگے۔
اسی طرح عاشورا اپنی عزا، غم واندوہ، گریہ و زاری، اپنی یاد عظیم اقدار کی شکل میں نمونہ عمل بن کر اپنی پاکیزہ شکل میں مخلص شیعوں اور پیغمبر(ص) نیز ائمہ معصومین(ع) کی پیروی کرنے والوں کےلیے باقی رہے گا۔ لیکن افسوس عوام الناس کے اعمال کو ان لوگوں کی طرف سے ہوا دی جاتی ہے جو شیعوں کے عقائد کو برا ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور انھیں اہل بیت(ع) سے دور کر کے ان کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔
بارالہا! تیری بے شمار حمد اور شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں شیعوں اور آگاہ انسانوں میں قرار دیا کہ جو بحث و تحقیق کے ذریعہ راہ حق کی طرف آئے اور عوام اور ناواقف شیعوں میں قرار نہ پائے۔ قارئین کرام پر لازمی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی سنت جو ائمہ اہلبیت(ع) کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے اسے اپنے نمونہ عمل قرار دیں۔
اس کا ذکر بھی ضروری ہےکہ بہت سے علماء مثلا آیت اللہ امینی مرحوم اور آج کل رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ علی خامنہ¬ای اور حضرت آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے قمع لگانے کو ناجائز قرار دیا ہے اور جنھوں نے جائز بھی جانا ہے اس پر دو شرطیں لگائی ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے انسان کو ضرر اور نقصان نہ ہو اور دوسرے اس سے مذہب کی توہین نہ ہوتی ہو۔
گذشتہ علماء میں سے بزرگ فرماتے تھے کہ جو تلوار شیعہ ماضی میں اپنے دشمنوں پر بلند کرتے تھے آج خود اپنے سروں پر مار رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انگریز عزاداری کے دستوں کو بڑی مقدار میں تلواریں اپنی طرف سے تقسیم کرتے تھے! اگر چہ یہ قمع زنی ہندوستان سے یہاں آئی تھی لیکن انھوں نے کربلا میں بھی اسے رائج کردیا اور رفتہ رفتہ یہ عزاداری کا جزو شمار ہونے لگی۔ لیکن الحمد للہ آج مسلمانوں کے افکار میں وسعت اور علماء کے فتوؤں کے ذریعہ قمع زنی کم ہونے لگی ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ ایران میں ۹۷ فیصد ختم ہوگئی ہے اسی طرح عراق اور لبنان میں بھی اس میں بہت کمی آئی ہے۔ بہر حال یہ ناواقف اور سادہ لوح افراد کی روش ہے کہ امام حسین(ع) کے قضیہ کو علماء و مراجع دین کے فتوؤں سے بالاتر جانتے ہیں۔ اور اس اہم ترین قضیہ یعنی عزائے حسین(ع) کو اپنی مرضی کے مطابق من مانے ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں اور ایسے نہیں کرتے جیسے ائمہ، اہل بیت(ع) اور علماء مراجع چاہتے اور بتاتے ہیں۔

 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک