امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

فرزندان مسلم بن عقیل(ع)

2 ووٹ دیں 05.0 / 5

   حمران بن اعین کہتے ہیں کہ شیخ ابو محمد کوفی نے روایت کیا کہ جب حسین بن علی (ع) کو قتل کر دیا گیا تو دو بچوں کو حضرت(ع) کےلشکر سے قید کر کے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا اس ملعون نے اس دونوں کو قید خانہ میں بھیجا اور محافظِ زندان کو طلب کر کے کہا کہ اچھی خوراک اور ٹھنڈا پانی ان کو نہ دینا اور ان پر سختی کرنا، یہ دونوں بچے روزہ رکھتے تھے اور بوقت شب دو روٹیاں جو کی اور ایک کوزہ پانی ان کے لیے لایا جاتا تھا یہاں تک ایک سال گزر گیا ایک دن ایک بھائی نےدوسرے سے کہا اے بھائی ایک مدت سے ہم اس زندان میں ہیں اور ہماری عمر ختم ہونے والی ہے قریب ہے کہ ہماری زندگی اسی غم میں ختم ہوجائے لہذا زندان کے نگران کو اپنے مقام و حسب ونسب سے آگاہ کردیں اور جو قربت ہم رسول (ص) نے رکھتے ہیں اس پر ظاہر کردیں شاید اس کو ہمارے حال پر رحم آجائے لہذا جب وہ خوراک اور پانی کا کوزہ لایا تو چھوٹے نے کہا اے شیخ کیا تو محمد(ص) کو پہچانتا ہے کہا اس نے کیوں نہیں پہچانتا وہ میرا پیغمبر(ص) ہے کہاجعفر بن ابی طالب(ع) کو بھی پہچانتے ہو کہا کیوں نہیں پہچانتا خدا نے انہیں دو پر عطا کیے ہیں کہ وہ بہشت میں فرشتوں کےساتھ جہاں چاہیں پرواز کرتے ہیں کہا علی ابن ابی طالب(ع) کو پہچانتے ہو کہا کیوں نہیں پہچانتا وہ رسول (ص) کے چچا کا بیٹا ہے اور میرے نبی کا بھائی ہے بچوں نے کہا اے شیخ ہم تیرے نبی(ص) کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی عترت ہیں مسلم بن عقیل بن ابی طالب(ع) کے بیٹے ہیں اور تیرے ہاتھوں اسیرہوئے ہیں۔ تم نے اچھی خوراک و ٹھنڈا پانی ہمیں نہ دیا اور ہمیں زندان میں سخت تنگ کیا ہے وہ شیخ گر پڑا اور ان کے پاؤں کے بوسے لینے لگا اور کہا کہ میری جان آپ قربان اے عترتِ رسول اﷲ(ص) یہ زندان کا دروازہ کھلا ہے جہاں چاہو چلے جاؤ پھر دو روٹیاں اور پانی کا کوزہ دیا اور انہیں راستہ بتا دیا اور کہا راتوں کو سفر کرنا اور دن کو چھپ جانا یہاں تک کہ خدا تمہارے لیے وسعت پیدا کردے لہذا وہ دونوں بوقتِ شب روانہ ہوئے اور کچھ دور جاکر ایک ضعیفہ کے مکان پر پہنچے وہاں اور اس سے کہا کہ ہم پریشان حال و آوارہ وطن ہیں جب کہ رات کا وقت ہے آج رات ہمیں اپنا مہمان رکھ لے ہم صبح ہوتے ہیچلے جائیں گے، اس نے کہا تم کون ہو کہ تمہارے بدن سے عطر سے زیادہ خوشبو آتی ہے بچے کہنے لگے ہم اولادِ رسول(ص) سے ہیں اور زندان ابنِ زیاد سے نکلے ہیں تاکہ وہ ہمیں قتل نہ کردے اس بوڑھی عورت نے کہا اے میرے عزیز میرا ایک داماد ہے جو بدکردار ہے اور عبیداﷲ ابن زیاد کے ساتھ واقعہ کربلا کے وقت موجود تھا ڈرتی ہوں کہ کہیں وہ یہاں آکر تم کو قید نہ کرلے اور قتل کردے کہنےلگے ہم صرف آج کی رات ہی یہاں ٹھہریں گے اور صبح اپنی راہ چلے جائیں گے عورت نے کہا اچھا میں تمہارے لیے شام کا کھانا لاتی ہوں وہ کھانا لائی انہوں نے کھانا کھایا پانی پیا اور سوگئے چھوٹے نے بڑے سے کہا جانِ برادر مجھے امید ہے کہ آج رات آرام کی رات ہوگی آؤ بغل گیر ہوکر سوجائیں اور ایک دوسرے کے بوسے لے لیں کہیں یہ نہ ہو  کہ موت ہم دونوں کو جدا کردے لہذا دونوں بغل گیر ہو کر سوگئے جب رات کا کچھ حصہ گزرا تو اس عورت کا داماد فاسق آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا بوڑھی عورت نے پاچھا کون ہے اس نے کہا فلان ہوں کہا کیوں بے وقت آئے ہو وہ باہر سے کہنے لگا وائے ہو تجھ پر میں سخب بدحواس ہوں قبل اس کے کہ میری عقل چلی جائے۔ دروازہ کھول میں سخت مایوس ہوں عورت نے کہا وائے ہو تم پر کونسی مصیبت میں گرفتار ہو اس نے کہا کہ دو بچے لشکر عبیداﷲ لعین سے نکل گئے ہیں اور امیر نے اعلان کیا ہے کہ جو کوئی ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی سر لائے گا اسے ایک ہزار درہم انعام دوں گا اور جو کوئی ان دونوں کا سر لائے گا اسے  دو ہزار درہم انعام دوں گا مجھے یہ رنج ہے کہ میرے ہاتھ نہیں آئے بوڑھی عورت نے کہا اس  بات سے ڈرو کہ روز قیامت محمد(ص) تیرے دشمن ہوں وہ کہنے لگا وائے ہو تم پر میں دنیا ہاتھ میں لیںا چاہتا ہوں اور تو آخرت کی بات کرتی ہو۔ عورت نے کہا وہ دنیا جو آخرت کے بغیر ہو تجھے کیا کام دے گی اس نے کہا تم ان کی طرف داری کیوں کرتی ہو کیا تجھے ان کی خبر ہے چل میں تجھے اپنے امیر کے پاس لے چلتا ہوں تاکہ وہ تجھ سے پوچھے وہ کہنے لگی امیر مجھ بوڑھی عورت سے جو گوشہ نشین ہے کیا چاہے گا اس نے کہا اچھا دروازہ کھولو تاکہ آرام کروں اور سوچوں کہ صبح کس راستہ پر ان کے پیچھے جاؤں عورت نے دروازہ کھولا اور اس کو کھانادیا آدھی رات کو اس نے بچوں کے سانس لینے کی آواز سنی تو وہ نہایت خشم ناک اٹھا اور اندھیرے میں دیوار کا سہارا لے کر کمرے کی جانب چلا یہاں تک کہ چھوٹے بچے کے پہلو پر ہاتھ پڑا بچے نے کہا کون ہے اس نے کہا میں خانہ ہوں تم کون ہو چھوٹے نے بڑے کو ہلایا اور کہا اٹھو اور جان لو کہ جس چیز سے ڈرتے تھے سی میں گرفتار ہوگئے  اس نے کہا تم کن ہو کہنےلگےاگر سچ کہیں تو امان دوگے کہا ہاں کہنےلگے اے شیخ خدا، رسول(ص) اور ان کے مرتبے کا واسطہ کیا ہمیں امان دو گے کہنے لگا ہاں امان ہے تو بچے کہنے لگے محمد بن عبداﷲ گواہ ہے امان دوگے اس نے کہا ہاں بچوں نے کہا کیا خدا اس پر گواہ اور وکیل ہے کہ جو کچھ عہد کررہا ہے دیوار کرے گا کہا ہاں کہنے لگے اے شیخ ہم تیرے نبی(ص) نے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس کی عترت ہیں اور زندان عبیداﷲ بن زیاد لعین سے جان کے خوف سے نکلے ہیں اس نے کہا موت سے ڈرتے ہو مگر موت میں گرفتار ہوگئے ہو حمد اس خدا کی جس نے تم کو میرے قابو میں دیا ہے وہ اٹھا اور ان کو باندھ دیا بچوں نے تمام شب بندھے ہوئے گزاری جب سفیدی ظاہر ہوئی تو اس نے ایک غلام کو جس کا نام خلیج تھا بلایا اور کہا کہ ان دونوں بچوں کے دریائے فرات کے کنارے لے جاؤ اور ان کی گردنیں کاٹ دو اور ان کے سروں کو میرے پاس لے آؤ گے کیا جب گھر سے کچھ دور ہوگئے تو ایک بچے نے کہا الشیخ ( حبشی) تم بلال موذن رسول(ص) کی مانند ہو ہم پر رحم کرو اس نے کہا میرے آقا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہاری گردنوں کو کاٹ دوں مگر یہ بتاؤ کہ تم کون ہو کہنے لگے ہم تیرے نبی محمد(ص) کی عترت ہیں اور جان کے خوف سے ابن زیاد کے زندان سے نکلے ہیں اس بوڑھی عورت نے ہمیں مہمان رکھا لیکن تیرا آقا چاہتا ہے کہ ہمیں قتل کرے اس حبشی غلام نے ان کے پاؤں کے بوسے لیے اور کہا میری جان تم پر فدا اے عترت مصطفیٰ(ص) خدا کی قسم میں نہیں چاہتا کہ محمد(ص) بروز قیامت میرے دشمن ہوں پھر تلوار کو دور پھینکا اور خود کو فرات میں گرا دیا اور دریا عبور کر گیا اس کے آقا نے آواز دی کہ تم نےمیری نا فرمانی کی ہے اس نے کہا میں تیرا اس وقت فرمانبردار ہوں جب تک تم خدا کے فرمامبردار ہو اب جبکہ تم نے خدا کی نافرمانی کی تو میں دنیا و آخرت میں تجھ سے بیزار ہوں پھر اس شقی نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا میں نے تیرے لیے حلال و حرام کو جمع کیا میں چاہتا ہوں کہ انعام وصول کروں تو ان دو بچوں کو فرات  کے کنارے لے جا اور ان کی گردنوں کا کاٹ دے اور ان کے سر میرے پاس لے آ تاکہ میں عبیداﷲ کے پاس لے جاؤں اور دو ہزار درہم معاوضہ لے آؤں اس نے تلوار لی اور بچوں کے لے کر چلا کچھ دور جا کر ان دونوں بچوں میں سے ایک نے کہا اے جوان میں تیرے دوزخ میں جانے سے خوف محسوس کرتا ہوں اس لڑکے نے کہا اے عزیز تم کون ہو وہ کہنےلگے ہم تیرے نبی(ص) کی عترت ہیںاور تیرا باپ ہمیں قتل کرنا چاہتا ہے یہ سن کر اس ملعون کا بیٹا بھی ان کے قدموں پر گر پڑا اور ان کے بوسے لیے اور انہی الفاظ کو دوہرایا جو حبشی غلام نے کہا تھا  پھر تلوار کو دور پھینکا اور خود کو فرات میںچھلانگ لگا گیا اس کے باپ نے آواز دی کہ تو میری نافرمانی کر رہا ہے اس نے کہا کہ خدا کا حکم تیرے حکم پر مقدم ہے اس شقی نے کہا اب سوائے میرے کوئی دوسرا ان کو قتل نہ کرے گا لہذا تلوار لی اور ان کو آگے کیا اور فرات کے کنارے تلوار نیام سے نکالی جب بچوں کی نظر تلوار پر پڑھی تو رونے لگے اور کہنے لگے اے شیخ ہمیں بازار میں فروخت کردے اور روز قیامت محمد(ص) کی دشمنی کو اپنے سر نہ لے اس نے کہا میں تمہارے سر کو ابن زیادہ کے پاس لے جاؤں گا اور معاوضہ ( انعام) حاصل کروں گا بچے کہنے لگے تو ہمارے رشتہ رسول(ص) کا احترام نہیں کرتا اس نے کہا تمہارا رسول اﷲ(ص) کے ساتھ کوئی رشتہ واسطہ نہیں ہے۔ کہنے لگے اے شیخ تو ہم کو عبیداﷲ کے پاس لے جا تاکہ وہ خود ہمارے بارے میں کوئی حکم دے کہا میں تمہارے خون کے بدلے اسکا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں بچے کہنےلگے اے شیخ کیا تجھے ہمارے کمسنِ ہوںے پر رحم نہیں آتا اس نےکہا خدا نے میرے دل میں رحم پیدانہیں کیا کہنے لگے پھر ہمیں اتنی مہلت دے کہ ہم چند رکعت نماز پڑھ لیں اس نے کہا اگر نماز تمہیں کوئی فائدہ دیتی ہے تو جس طرح چاہو نماز پڑھو پھر ان بچوں نے چار رکعت نماز پڑھی پھر ہاتھ اٹھائے اور اپنی نظروں کوآسمان کی طرف کر کے فریاد کی” یا حی یا حکیم یا احکم الحاکمین“ ہمارے اور اس کے درمیان حق کا فیصلہ کردے“ یہ شقی اٹھا اور اس نے بڑے کی گردن کاٹ دیاور اسکے سر کو توبرہ( تھیلا) میں رکھا ، چھوٹا بھائی غم سے نڈھال اپنے برادر کے خون میں لوٹ پوٹ ہوگیا اور کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی کے خون میں رنگین ہوکر رسول خد(ص) سے ملاقات کروں اس ملعون نے کہا کوئی باتنہیں تجھے بھی ابھی اس کے پاس پہنچاتا ہوں، پھر چھوٹے کو بھی قتل کردیا اور اس کے سرکو بھی توبرہ میں رکھا اور دونوں کے بدنوں کو دریا کے پانی میں پھینک دیا پھر ان کے سروں کو ابن زیاد کے پاس لے گیا وہ تخت پر بیٹھا تھا اور ایک چھڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس شخص نے ان کے سروں کو اس سامنے رکھا جب اس لعین کی نظر ان پر پڑی تو تین بار اٹھا اور تین بار بیٹھا اور وہ لعین بولا ای وائے ہو تم پر ان کو تم نے کہاں سے پایا کہا بوڑھی جو ہمارے خاندان سے تھی اس نے ان کو مہمان رکھا تھا۔ ابن زیاد نے کہا کیا توع نے یہ حق مہمان نوازی ادا کیا ہے؟ کیا ان بچوں نے فریاد نہیں  کی تھی؟ اس شخص  نے کہا کہ ان بچوں نے مجھ سے اس بات کا تقاضہ کیا تھا کہ ہمیں بازار میں فروخت کر کے رقم وصول کر لے اور محمد(ص) کو روز قیامت اپنا دشمن مت بنا ابن زیاد نے کہا تو پھر تو نے کیا کیا اس شخص نے کہا کہ میں نے ان بچوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے سر ابن زیاد کے پاس لے کر کر معاوضہ وصول کروں گا۔ ابن زیاد نے پوچھا اس علاوہ انہوں نے اور کیا بات کی تھی اس نے بتایا کہ بچوں نے فریاد کی تھی کہ ہمیں ابن زیاد کے پاس لے چل تاکہ وہ خود ہمارے بارے میں کوئی فیصلہ کرے ابن زیادہ نے پوچھا پھر تو نے ان سے کیا کہ اس نے بتایا کہ میں نے ان سے کہا میں تمہارے سر ابن زیاد گو دے کر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ابن زیاد نے اس شخص سے کہا کہ جب انہوں نے فریاد کی تھی تو انہیں لے کر تو میرے پاس کیوں نہیں آیا میں تجھے ان کے بدلے چار ہزار درہم دیتا اس شخص نے کہا کہ مجھے نہ یقین تھا کہ ان کیزندہ گرفتاری پر زیادہ انعام ملے گا۔ ابن زیاد نے پوچھا کہ یہ بتا جب تو انہیں قتل کرنے لگا تھا تو انہوں نے تجھے کیا کہا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب میں انہیں قتل کرنے لگا تو انہوں نے کہا اے شیخ کیا تجھے رسول خدا(ص) سے شرم نہیں آتی کیا تو ہمیں بچہ سمجھ کر بھی رحم نہیں کرتا کیا تو ہمیں تھوڑی مہلت دے گا کہ ہم نماز پڑھ لیں یہ سن کر میں نے بچوں سے کہا کہ اگر تمہیں نماز اس وقت فائدہ دیتی ہے تو پڑھ لو لہذا انہوں نے چار رکعت نماز پڑھی اور نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اس طرح دعا مانگی۔،” یا حیی یا حکیم یا احکم الحاکمین تو ہمارے اور اس کے  درمیان فیصلہ کردے“ اس کے بعد میں نے انہیں قتل کر دیا۔ ابن زیاد نے یہ سن کر کہا خدا نے تیرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیا پھر حکم دیا کہ کون ہے جو اسے ٹھکانے لگائےگا ایک شامی اٹھا ابن زیاد نے اسے کہا کہ اس کو وہیں لے جاؤ جہاں اس نے ان بچوں کو قتل کیا ہے مگر اس کاخون ان کے خون سے نہ ملنے پائے وہ شامی اسے لے کر فرات کے کنارے آیا اور اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اور پھر اس کے سر کو ایک نیزے پر آویزان کردیا۔ لوگ اس کے سر کو دیکھتے اور حقارت سے ڈھیلے اور پھتر مارتے تھے کہ اس نے ذریت رسول(ص) کو شہید کیا ہے۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک