شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟
- شائع
-
- مؤلف:
- سید شرف الدین عاوملی رحمۃ اللہ علیہ
- ذرائع:
- (کتاب المراجعات سے اقتباس )
ایک سنی عالم دین اور ایک شیعہ عالم دین کے درمیان خط وکتابت
شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟
مولانائے محترم ! تسلیمات زاکیات!!
اس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں کہ آخر آپ لوگ بھی وہی مذہب کیوں نہیں اختیار کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مذہب ہے؟
جمہور مسلمین کا مذہب یہ ہے کہ وہ اصول دین اور عقائد میں اشاعرہ کے ہم خیال ہیں اور فروع دین میں ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے مقلد ہیں۔ آپ بھی اصولِ دین میں اشاعرہ کا مسلک اختیار فرمائیں اور فروعِ دین فرائض و عبادات میں مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پابند ہوجائیے، چاہے امام ابو حنیفہ کی تقلید کیجیے یا امام شافعی کی یا امام مالک کی ایا احمد بن حنبل کی ۔ کیونکہ یہی مذہب ایک ایسا مذہب ہے کہ سلف صالحین بھی اسی کے پابند رہے اور اسی کو بہتر و افضل سمجھتے رہے۔ نیز ہر زمانہ اور ہر خطہء ارض کے جملہ مسلمانوں کا مذہب بھی یہی رہا اور سب کے سب ان ائمہ اربعہ کی عدالت ، اجتہاد، زہد و ورع ، تقدس و پرہیز گاری، پاکیزہ نفسی، حسنِ سیرت اور علمی و عملی جلالتِ قدر پر ابتدا سے لے کر آج تک بیک دل و زبان متفق رہے ہیں۔
اتحاد و اتفاق کی ضرورت
یہ بھی غور فرمائیے کہ اس زمانے میں ہم لوگوں کے لیے اتحاد و اتفاق کس قدر ضروری ہے۔ دشمنانِ اسلام ، ہم مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے ہیں، ایذا رسانی پر کمر باندھ لی ہے دل و دماغ اور زبان کی ساری طاقتیں ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔
اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔
ہم لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور فرقہ بندی سے اپنے خلاف دشمنوں کی مدد کررہے ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں ہم لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایک مرکز پر جمع ہوجائیں۔ ایک نقطہ پر سمٹ آئیں اور یہ اتفاق و اتحاد جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارا مسلک و مذہب بھی ایک ہو، آپ لوگ بھی اس مذہب کو اختیار کر لیں جسے عامة المسلمین اختیار کیے ہوئے ہیںِ۔
کیا میرا رائے سے آپ کو اختلاف ہے ؟ خدا کرے اس پراگندگی اور فرقہ واریت سے نجات کی راہ نکلے اور ہم لوگوں کے متحد ہوجانے ی سبیل پیدا ہو۔
س
جواب مکتوب
شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے
مکرمی تسلیم !
گرامی نامہ ملا۔ عرض یہ ہےکہ ہم جو اصولِ دین میں اشاعرہ کے ہم خیال نہیں اور فروع دین میں اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تو یہ کسی تعصب یا فرقہ پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شرعی دلیلیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم مذہب اہلبیت(ع) ہی کو اختیار کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہم جمہور سے الگ ہو کر اصول و فروع دین میں بس ارشاداتِ ائمہ طاہرین(ع) ہی کے پابند ہیں۔ کیونکہ ادلہِ و براہین کا یہی فیصلہ ہے اور سنتِ نبوی کی پابندی بھی بس اسی صورت سے ہوسکتی ہے اگر دلیلیں ہمیں ذرا بھی مخالفت اہل بیت(ع) کی اجازت دیں یا ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پابندی میں تقربِ الہی ممکن ہوتا تو ہم ضرور جہمور ہی کی روش پر چلتے تاکہ باہمی رشتہء اخوت اچھی طرح استوار رہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ قطعی اور محکم دلیلیں سنگِ راہ بنی ہوئی ہیں اور کسی طرح مذہب اہلبیت(ع) چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی
اس کے علاوہ چاروں مذاہب کو کسی قسم کی ترجیح بھی تو نہیں۔ ان مذاہب کی پابندی کا واجب ولازم ہونا تو اور چیز ہے، ان کے بہتر اور قابل ترجیح ہونے پر جمہور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو جمہور مسلمین کے ادلا کو پوری تحقیق سے دیکھا۔ ہمیں تو ایک دلیل بھی ایسی نہ ملی جو ان ائمہ اربعہ کی تقلید و پیروی کو واجب بتاتی ہو۔ بس لے دے کے یہی ایک چیز ملی ہے جسے آپ نے بھی ذکر کیا ہے یعنی یہ کہ وہ مجتہد و عادل اور بڑے جلیل القدر علماء تھے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اجتہاد ، امانت، عدالت، جلالتِ علمی، یہ ان ہی چاروں پزرگوں کے ساتھ مختص تو نہیں، انھیں میں منحصر تو نہیں لہذا معین طور پر فقط ان ہی کی پیروی اور ان ہی کے مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب ہوجائے گا؟ اور میرا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے گا جو یہ کہہ سکے یہ چاروں ائمہ اہلسنت ائمہ علیہم السلام سے علم یا عمل کسی ایک چیز میں بڑھ کر تھے۔ ہمارے ائمہ تو اہل بیت طاہرین(ع) ہیں۔ جو سفینہ نجات ہیں۔ امتِ اسلام کے لیے بابِ حطہ ہیں۔ ستارہ ہدایت ہیں اور ثقل پیغمبر(ص) ہیں۔ امت میں رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی نشانی ہیں۔ جن کے متعلق رسول(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ
“ دیکھو ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ انھیں پیچھے کردینا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں سکھانا پڑھانا نہیں ، یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”
لیکن کیا کہا جائے کہ رسول (ص) کے مرنے کے بعد سیاست نےکیا کیا کرشمے دکھائے اور کیا سلوک کیا گیا اہلبیت(ع) کے ساتھ؟
آپ کے اس جملہ نے کہ سلفِ صالحین بھی اسی مسلک پرگامزن رہے اور انھوں نے اسیی کو معتدل و معتبر مذہب سمجھا، مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں میں تقریبا آدھی تعداد شیعوں کی ہے اور شیعیان آل محمد(ص) کے سلف و خلف اس زمانے کے شیعہ ہوں یا اس زمانے کے پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک مذہب اہلبیت(ع) کے پابند ہیں۔ شیعہ مسلک اہلبیت(ع) کی اتباع عہدِ امیرالمومنین(ع) اور جناب سیدہ(س) سے کررہے ہیں جب کہ نہ اشعری کا وجود تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی عالم وجود میں آیا تھا۔
پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے
اس کے علاوہ زمانہ پیغمبر(ص) سے قریب زمانہ کے مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنی انھوں نے ان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کو اختیار ہی نہیں کیا۔ ان میں سے کسی ایک کے پابند ہی نہیں ہوئے اور ان مذاہب کو وہ اختیار بھی کرتے تو کیسے جب کہ ان مذاہب کا اس زمانے میں وجود بھی نہ تھا۔ اشعری( اصول دین میں آپ لوگ جن کے پیرو ہیں) سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۳۲۰ھ میں انتقال کیا۔ ظاہر ہے کہ سنہ۲۷۰ھ کے قبل کے مسلمان عقائد میں اشعری کیسے کہے جاسکتے ہیں۔ احمد بن حنبل سنہ۱۶۴ھ
میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۴۱ھ میں انتقال کیا۔ شافعی سنہ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۰۴ھ میں انتقال کیا۔ امام مالک سنہ۹۵ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۱۶۹ھ میں انتقال کیا۔ امام ابو حنیفہ سنہ ۸۰ ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۵۰ھ میں انتقال کیا۔
خدا کے لیے انصاف تو فرمائیے کہ جب اصول دین میں آپ کے پیشوا اشعری سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوں اور فروع دین میں آپ کے ائمہ اربعہ ابتداء زمانہ اسلام سے اتنے زمانہ کے بعد عالمِ وجود میں آئیں ، پھر اس سے پہلے کے مسلمانوں کے متعلق ، یہ کہنا کیونکر روا ہے کہ وہ بھی ان ہی مذاہب اربعہ کے پابند تھے اور ان کا مذہب بھی وہی تھا جو آج کل جمہور مسلمین کا ہے۔
ہم شیعیان اہلبیت(ع) تو ائمہ اہلبیت(ع) کے پیرو ہیں اور آپ لوگ یعنی جمہور مسلمین ، اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر صحابہ اور تابعین صحابہ کے پیرو ہیں۔ تو دورِ اول کے بعد کے تمام مسلمانوں پر ان مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کو اختیار کرلینا۔ کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب کیونکر ہوگیا اور ان چاروں مذاہب سے پیشتر جو مذاہب رائج تھے ان میں کیا خامی تھی کہ ان سے کنارہ کشی کر لی گئی اور آپ کے ان مذاہب میں جو بہت بعد میں عالمِ وجود میں آئے ایسی کیا خوبی تھی کہ اہلبیت(ع) سے روگردانی کی گئی جو ہم پایہ کتابِ الہی کشتی نجات اور معدن رسالت ہیں۔
اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے
یہ بھی غور طلب امر ہے کہ اجتہاد کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا جب کہ ابتدائے زمانہء اسلام میں پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ ہاں اب اگر اپنے کو بالکل عاجز قرار دے لیا جائے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم اجتہاد کرنا بھی چاہیں تو اب ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس شرف سے محروم ہی رہیں گے تو یہ دوسری بات ہے ورنہ کون شخص اس کا قائل ہونا پسند کرسکتا ہے کہ خداواند عالم نے حضرت خاتم المرسلین(ص) کو بہترین شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام کتب سماویہ سے افضل و اشرف کتاب قرآن مجید نازل کی۔ دین کو مکمل اور اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور آںحضرت(ص) کو آئیند و گزشتہ باتیں بتا کر بھیجا تو وہ صرف اس لیے کہ یہی ائمہ اربعہ شریعت کے مالک و مختار ہو رہیں۔ انھیں سے پوچھے ، انھیں سے معلوم کرے ، ان کو چھوڑ کر دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہے خود جدوجہد کرکے معلوم کرنا چاہے تو نہ معلوم کرسکے۔ مختصر یہ کہ پوری شریعتِ اسلامیہ قرآنِ مجید، سنتِ رسول(ص) تمام دلائل و بینات سمیت ان کی جاگیر ہوجائے، ملکیتِ خاص بن جائے، ان کے حکم و رائے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کی کسی کو اجازت ہی نہ ہو۔
کیا یہی ائمہ اربعہ وارثِ نبوت تھے یا انھیں پر خداوند عالم نے ائمہ و اوصیاء کا سلسلہ ختم کیا، کیا انھیں کو آیندہ و گزشتہ کے علوم ودیعت کیے اور کیا بس انھیں کو وہ صلاحیتیں ملیں جو دینا بھر میں کسی اور کو نہیں ملیں، میرے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کا قائل نہ ملے گا۔
اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے
آپ نے جس اہم امر کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے یعنی یہ کہ فرقہ واریت ختم کی جائے اور تمام مسلمان شیعہ سنی ایک ہوجائیں تو بسم اﷲ یہ بہت مستحسن
اقدام ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا ہونا بس اسی پر موقوف و منحصر نہیں کہ شیعہ اپنا مذہب چھوڑ دیں یا اہلسنت اپنے مذہب سے الگ ہوجائیں اور خاص کر شیعوں سے یہ کہنا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ در حقیقت مرجح کو ترجیح دینا ہے۔ ہاں یہ پراگندگی تب ہی دور ہوسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق جب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب آپ مذہب اہلبیت(ع) کو بھی مذہب سمجھیں اور اس کو بھی ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک جیسا قرار دیں تاکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ کو بھی ان ہی نظروں سے دیکھیں جن نظروں سے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔اگر آپ جائزہ لیں تو خود مذاہب اہلسنت میں جتنے اختلاف موجود ہیں وہ شیعہ سنی اختلافات سے کم نہیں ۔ لہذا صرف غریب شیعوں پر عتاب کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت کے برخلاف ہیں۔ حضرات اہلسنت کو بھ شیعوں کی مخالفت پر سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ خود اہلسنت میں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں کوئی حنفی ہے کوئی شافعی، کوئی مالکی ہے کوئی حنبلی تو انھیں اختلاف سے منع کیوں نہیں کیا جاتا لہذا جب ملتِ اسلامیہ میں چار مذہب ہوسکتے ہیں۔ چار مذہب ہونے پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا تو پانچ ہونے میں کیا قیامت ہے؟ کس عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ چار مذاہب تک ہونے میں کوئی خرابی نہیں، چار مذہبوں میں بٹ کر مسلمان متحد رہ سکتے ہیں اتحاد و اتفاق باقی رہ سکتا ہے لیکن اگر چار سے برھ کر پانچ ہوجائیں تو اتحاد رخصت ہوجائے گا۔ جمعیت اسلام پراگندہ و منتشر ہوجائے گی۔
آپ نے ہم شیعوں کو مذہبی وحدت کی طرف جو دعوت دی ہے کاش کہ آپ یہی دعوت مذاہب اربعہ کے دیتے یہ دعوت آپ کے لیے بھی آسان تھی اور ان کے لیے بھی یہ ہمیں کو مخصوص کر کے دعوت کیوں دی گئی ؟
کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اہلبیت(ع) کی اتباع و پیروی میں اتحاد رخصت ، رشتہء اخوت منقطع ، اہلبیت(ع) کی پیروی کرنے والوں کا دیگر مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں، کوئی رابطہ نہیں اور اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر جس کی بھی پیروی کی جائے جسے بھی امام بنا لیا جائے دل ملے رہیں گے۔ عزائم ایک رہیں گے چاہے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ رائیں ایک دوسرے کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں، خواہشیں ایک دوسرے سے متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی یہ خیال نہ ہوگا اور نہ آپ کو رسول(ص) کے اہلبیت(ع) سے اتنی پرخاش ہوگی آپ تو دوستدار قرابت داران پیغمبر(ص) ہیں۔
ش