عید زہراء ؐ کیوں مناتے ہیں ؟
۹ ؍ ربیع الاوّل کو عید زہرا کیوں کہتے ہیں ؟ اس کی اتنی فضیلت و اہمیت کیوں ہے ؟ اس میں آخر کون سے حقائق پوشیدہ ہیں !؟؟ یہ عیدکیوں خوشیوں کا سما لاتی ہے ؟ کس لئے شاداں فرحاں روح کو تازگی بخشتی ہے ؟؟!آیا یہ خوشی صرف ہماری ہے یا اس میں ائمہ علیھم السلام بھی شامل ہیں یقینا حتماً اس لئے کہ یہ عید اکبر ہے ، غدیر دوم سے کم نہیں اور ایسا کیوں نہ ہو ؟ اس لئے کہ نو ربیع الاوّل روز تاج پوشی مصلح و منجی عالم بشریت و آغاز روز اصلاح حقیقی انسان ہے ۔اور أن هذا الیوم هو یوم وهو افضل الأعیاد عند اهل بیت / و عند موالیهم (۱) محمد بن علاء ہمدانی و یحییٰ بن جریح بغدادی کہتے ہیں : کہ ہم لوگ عمر بن خطاب کے بارے میں شک و شبہ کرنے لگے اور پھر ہم دونوں احمد ابن اسحاق کے پاس گئے کہ جو شہر قم میں امام ہادی ؑ کی طرف سے وکیل تھے گھر پہونچے اور جب دروازہ کھٹکھٹایا تو معلوم ہوا کہ احمد بن اسحاق ارکان عید بجالارہے ہیں تو ہمیں بہت تعجب ہوا عجب !! آج اور عید !!!ہم نے کہا سبحان اللہ ! کیا چار عیدوں (عید فطر، عید قربان ، عید مباہلہ ، عید غدیر)کے علاوہ اور کوئی عید ہے ؟؟۔
احمد بن اسحاق اپنے امام سے حدیث نقل کرتے ہیں أن ھذا الیوم ھو یوم عید …… عند موالیھمہم لوگوں نے کہا کہأ ھذا یوم عید؟ تو ابن اسحاق نے کہا کہ نعم اور وہ دن نو ربیع الاوّل تھا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی جگہ پر بٹھایا اور کہا کہ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ سامرا میں امام کی خدمت میں شرفیاب ہوا کہ جس طرح سے تم لوگ میرے پاس آئے ہو پہلے امام سے اجازت لی اس کے بعد داخل ہوا ایسے ہی موقع پر کہ ۹؍ ربیع الاوّل تھی ۔
ہمارے آقا و مولا نے اپنے تمام خدمت گذاروں سے سفارش کی تھی کہ جس کے امکان میں ہونیا لباس پہنے اور آپ کے پاس آگ رکھی ہوئی تھی (مجمرہ) اس میں آپ لوبان سلگارہے تھے ۔ ہم لوگوں نے عرض کیا : بأبائنا انت و امّهتنا یابن رسول اللّٰه ! هل تجدّد لاهل البیت فی هذا الیوم فرح ؟! فقال و ای یوم اعظم حرمة منه اهل االبیتؑ من هذا الیوم ؟ و لقد حدّثنی ابی علیه السلام أن حذیفة بن یمان دخل فی مثل هذاالیوم ( وهو التاسع من عشر ربیع الاوّل ) علیٰ جدّی رسول اللّٰه (۲) ہمارے ماں باپ فدا ہو جائیں یا بن رسول اللہﷺ آیا کوئی نئی خوشی آج کے دن اہل بیت / کے لئے ہے ؟ امامؑ نے فرمایا کون سا دن ایسا ہے کہ جس کی حرمت اور اس کا احترام آج سے بہتر ہو ؟؟!!! جیسا کہ ہمارے بابا نے ہمارے لئے نقل کیا ہے کہ حذیفہ بن یمان ایسے ہی موقع پر (وہ ۹؍ ربیع الاوّل تھی ) ہمارے جد رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے قال حذیفۃ : رأیت سیّدی امیرالمومنینؑ مع ولدیه الحسن و الحسین علیهما السلام یأکلون مع رسول الله وهو یتبسّم فی وجوههم ؑ و یقول لولدیه الحسن والحسین ؑ کلا، هنیئاً لکما ببرکة هذا الیوم ، فإنه الیوم الذی یهلک اللّٰه فیه عدوّه و عدوّجدّکماا و یستجیب فیه دعاء امّکما۔ کلا ، فإنه الیوم الذی یصدق فیه قول اللّه (فتلک بیوتهم خاویة بما ظلموا ) (النمل۵۲) ۔ کلا، فإنہ الیوم الذی یتکسّر فیہ شوکۃ مبغض جدّکما۔ ( ۳) حذیفہ کہتے ہیں : کہ میں نے اپنے مولا امیر المؤمنین ؑ کو دیکھا کہ اپنے فرزند امام حسن و حسین [رسول اللہ ﷺکے ساتھ غذا نوش فرمارہے ہیں اور پیامبرﷺ دونوں کے چہروں کو دیکھکر مسکراتے ہیں اور اپنے دونوں بیٹوں سے فرماتے ہیں : کھاؤ! تم دونوں کہ آج کا دن مبارک ہو کیونکہ آج کا دن وہ دن ہے کہ خدا وند عالم اس دن تمہارے اور تمہارے جد کے دشمن کو ہلاک کریگا اور تمہاری ماں کی دعا کو قبول فرمائے گا۔ کھاؤ ! کہ آج ہی کے دن کلام خدا تحقق پائے گا ( یہی ہیں کہ جن کے گھر انکے ظلم کی وجہ سے ویران ہوگئے ) ۔ کھاؤ ! یہی وہ دن ہے مبغوض ترین شخص کی شان و شوکت خاک میں ملے گی ۔ کھاؤ ! کہ آج کے دن خدا وند عالم تمام اعمال (دشمنان ) کو لائے گا اور اس کو مثل روئی اڑادے گا ۔
آج کا دن وہ ہے کہ جس میں عمر بن خطاب مارا گیا ہے دشمن دین غارت ہوا ہے ۔(۴)
حذیفہ کہتے ہیں : یا رسول اللّٰه و فی امتک و اصحابک من ینتهک هذه الحرمة فقال رسول اللّٰه : نعم یا حذیفة جبت من المنافقین…………و یعمل علیٰ عاتقه درّة الخزیٰ و یصدّ الناس عن سبیل اللّه و یحرّف کتابه و یغیّر سنتی و یشتمل علیٰ ارث ولدی …… و یستحلّ اموال اللّٰه من غیر حلّها و ینفقها فی غیر طاعة و یکذّبنی و یکذّب اخی و وزیر یؑ و ینحیٰ ابنتی عن حقها و تدعو اللّٰه علیه و یستجیب اللّٰه دعاؤها فی مثل هذاالیوم (۵)حذیفہ کہتے ہیں : کہ میں نے عرض کی کوئی امت میں سے یا اصحاب میں سے ایسا کر سکتا ہے ؟؟! رسول ﷺنے فرمایا : جبت(بت) منافقین میں سے ایک بت ان کی ریاست کو اپنے ذمہ لے گا اور ریاکاری کو ہماری امت کے درمیان پھیلائے گا امت کو اپنی طرف بلائے گا ، ظلم کو اپنے کاندھے پر رکھے گا اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکے گا اور کتاب کو تحریف کرے گا اور ہماری سنت کو بدل دے گا ہمارے بیٹوں کی میراث کو ہڑپ لیگا اموال خدا کو ناحق تاراج کرے گا اور غیرا طاعت الھٰی میں انفاق کرے گا ہمیں جھٹلائے گا ہمارے بھائی اور وزیر اور بیٹی کو حق سے محروم رکھے گا (فاطمہ ؐ) اس کے لئے بدعا کریں گی اور خدا آج ہی کے دن بد دعا کو قبول فرمائے گا ۔ حذیفہ کہتے ہیں : یا رسول اللّٰہؐ ! الم ربّک علیہ لیھلک فی حیاتک ؟! (۶) یا رسول اللہ خود آپ کیوں نہیں دعا کرتے کہ خدا اسے غارت کرے ؟ رسولﷺ نے فرمایا اے حذیفہ!میں نہیں چاہتا کہ قضا و قدر الھٰی میں دخالت کروں وہ چیزیں جو اس کے علم میں ہیں، یقینی و حتمی ہیں ۔ لیکن میں خدا سے چاہوں گا کہ جس دن وہ ہلاک ہو اس دن کو تمام ایام پر فضیلت دے تاکہ ہمارے محب و شیعیوں اور چاہنے والوں کے لئے سنت ہوجائے ۔ (۷) فأوحی الیّ فقال لی : یا محمدؐ ! کان فی سابق علمی أن تمسک و اهل بیتک محن الدنیا و بلاؤها و ظلم المنافقین والغاصبین من عبادی من نصحتهم و خانوک …… و انتجیتهم و اسلموک ، فإنی بحولی و قوّتی و سلطانی لأفتحنّ علی روح من یغصب بعدک علیّا حقّه ألف باب من النیران من سفال الفیلوق و لاصلینه و اصحابه قعراً یشرف علیه ابلیس فیلعنه…… و لاخلدنّهم فیها ابدا الابدین(۸) خدا وند عالم نے ہم پر اس طرح وحی فرمائی ہے اے محمدﷺ! وہ چیزیں کہ جو میرے علم میں تھیں یہ ہیں کہ رنج و بلا ئے دنیا تمہیں اور تمہارے اہل بیت /کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور نیز بندوں میں سے ظلم منافقین و غاصبین کہ جن کو تم نے نصیحت کی اور انہوں نے تمہارے ساتھ خیانت کی اور تم نے خالص سچائی سے کام لیا لیکن انہوں نے خیانت کی ، انکے ساتھ سادگی و صفا کے ساتھ پیش آئے لیکن انہوں نے دشمنی کو چھپائے رکھا تم نے انہیں راضی کیا لیکن انہوں نے تکذیب کی ، تم نے انہیں نجات دی لیکن انہوں نے تمہیں ڈنسا ، مجھے قسم ہے اپنے حول وقوت و سلطنت کی کہ جنہوں نے تمہارے بعد حق علی ؑ کو غصب کیا جہنم میں ہزار درجہ نیچے کہ جس کا نام (فیلوق ) ہے ،کھول دوں گا اور اس کو اور اس کے چاہنے والوں کونچلی جگہ پر رکھوں گا کہ ان پر ابلیس کو فوقیت ہو گی اور ان پر لعنت کرے گا اور اس منافق کو قیامت میں عبرت کا پتلہ بنا کر پیش کروں گا کہ فراعین انبیاء کے لئے عبرت ہو اور اس کے دوست و احباب و تمام ظالمین و منافقین کو جہنم میں ڈال دوں گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے ۔
اے محمدﷺ!تمہارے بعد، تمہارا وصی و خلیفہ کبھی اس مقام پر نہیں پہونچ سکتا مگر یہ کہ وہ مصیبتیں جو فرعون وقت اور غاصبین کے ہاتھوں اٹھالے، وہ کہ جس نے مجھ پر جسارت کی اور ہمارے کلام کو بدل ڈالا ، اورمیرا شریک قرار دیا ،مجھ میں اور لوگوں کے راستے میں آڑے آئے گا، اور اپنے پاس کا بچھڑا (ابوبکر ) تمہاری امت کے لئے قرار دے گا …… میں نے ساتوں آسمان کے ملائک کو حکم دیا ہے کہ میں جس دن اس کو ہلاک کروں گا شیعیوں اور تمہارے محبین اس دن عید منائیں (۹)
اے محمدﷺ ! میں نے تمہارے اور تمہارے اہل بیت / کے لئے اور ہر وہ شخص کہ جو مؤمنین میں سے ہے اور ان کے شیعیوں میں سے ہے اس کے لئے اس روز کو عید قرار دیا ہے اور مجھے قسم ہے اپنی عزت و جلالت کی کہ ہر وہ شخص کہ جو آج کے دن عید مناتے ہیں اگر وہ اپنے رشتہ داروں کے لئے شفاعت کرے گا تو اس کے ثواب میں اس کی شفاعت کو قبول کروں گا (۱۰) قال حذیفة : ثم قام رسول اللّٰه ؐ فدخل الی بیت ام سلمة و رجعت منه و انا غیر شاکّ فی امر الشیخ ، حتی ترأس بعد وفاة النبی ؐ و اتیح الشرّ و عاد الکفر و ارتدّ عن الدین ، و تشمّر للملک ، و حرّف القرآن ، و احرق بیت الوحی ، و ابدع السنن و غیّر الملّة ، و بدّل السنّة و ردّ شهادة امیر المؤمنین ؑ و کذّب فاطمة بنت رسول اللّٰه و اغتصب فدکا، و ارضی المجوس و الیهود والنصاریٰ والسخن قرّة عین المصطفیٰؐ و لم یرضها و غیّر السنن کلّها ، و دبر علی قتل امیر المؤمنین ، و اظهر الجور ، وحرم ما أحل اللّٰه ، و احل ما حرّم اللّٰه ، و القی الی الناس ان یتخذوا من جلود الابل دنانیر ، و لطم وجه الزکیة و صعد منبر رسول اللّٰه غصباً و ظلماً ، و افتریٰ علی امیر المؤمنین ؑ و عانده و سفه رأیه (۱۱)حذیفہ کہتے ہیں : کہ اس کے بعد پیامبرﷺ اٹھے اور ام سلمیٰ کے گھر میں چلے گئے اور میں بھی واپس ہو گیا اور اس پیر مرد (عمر ) کے بارے میں کوئی شک نہیں اس وقت تک کہ پیامبرﷺ کے بعد ریاست کو ہاتھ میں لیا اور شر پھیل گیا اور کفر پھر پلٹ آیا اور وہ (عمر ) مرتد ہوگیا حکومت کے لئے ہاتھ پیر پھیلائے اور قرآن کو تحریف کیا اور خانۂ وحی کو پھونک دیا سنتوں کو بدل دیا ، شہادت امیر المؤمنین کو رد کر دیا ، فاطمہ ؐ بنت رسولﷺ کو جھٹلادیا فدک کو غصب کر لیا مجوسی و یہودی اور نصاریٰ کو راضی رکھا قرّۃ عین مصطفی کو ناراض کیا اور راضی نہ کیا اور تمام سنتوں کو بدل دیا اور قتل امیر المؤمنین کا نقشہ کھینچا ، ظلم کو سرعام کیا، حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کیا، اور لوگوں کو سکھایا کہ کس طرح سے اونٹ کی کھال سے دینار بنائیں ، فاطمہ زکیہ ؐ کے رخسار پر طمانچہ لگایا ، منبر رسول ﷺ پر غاصبانہ و ظالمانہ قبضہ کیا ،اور امیر المؤمنینں پر بہتان لگایا، اور اس سے حسد کیا، اور ان کے مشورے کو سفاہت بتلایا۔ قال حذیفة : فاستجاب اللّٰه دعاء مولاتی ؐ علی ذلک المنافق ، و اجریٰ قتله علی ید قاتله فدخلت علی امیر المؤمنین ؑ لأهنه بقتل المنافق و رجوعه الیٰ دار الانتقام(۱۲) حذیفہ کہتے ہیں : کہ خدا وند عالم نے جناب فاطمہ ؐ کی بد دعا اس منافق کے حق میں قبول فرمائی اور اس کو (کہ قاتل پر رحمت ہو) قتل کرو ایا میں بھی امیرالمؤمنینں کے پاس آیا ہوں تاکہ میں منافق کے قتل کی خوشخبری اور اس کے دیار انتقام میں بازگشت کی تبریک و تہنیت پیش کروں ۔
حضرت علی ں نے فرمایا : اے حذیفہ ! اس دن کو یاد کرو کہ جس روز سید و سردار حضرت رسول اللہ ﷺ کے پاس وارد ہوئے تھے میں اور ان کے دونوں نواسے کھانے میں مشغول تھے کہ آنحضرت اس روز کی فضیلت کہ جب ان کے پاس آئے تھے ، تمہارے لئے بیان کیا ۔ (حذیفہ) میں نے کہا! ہاں اے برادر رسول اللہﷺ علی ں نے فرمایا : بخدا آج کا وہی دن ہے کہ جس کی وجہ سے خدا وند عالم آل پیغمبرﷺکی آنکھوں کو روشن فرمائے گا میں آج کے دن کے بہتر ۷۲ نام جانتا ہوں ۔
قال حذیفه : قلت : یا امیر المؤمنین! احب ان تسمعنی اسماء هذالیوم (و کان یوم التاسع من شهر ربیع الاول)(۱۳) حذیفہ کہتے ہیں : کہ میں نے کہا اے امیر المومنین ں میں چاہتاہوں کہ ان اسماء کو سنوں ( اور وہ دن نو ربیع الاول تھا ) ! فقا ل امیر المؤمنین : یوم الاستراحۃ آج آرام کرنے کا دن ہے، یوم تنفیس الھم و الکرب آج کا دن غم کے چھٹنے کا دن ہے ،و یوم غدیر الثانی اور روز غدیر دوم ہے ، و یوم الحباۃ ، و یوم العافیۃ روز عافیت ہے ، و یوم البرکۃ برکت کا دن ہے ، یوم عید الاکبر آج کا دن عید اکبر ہے ، و یوم یستجاب فیہ الدعوات دعا کی قبولیت کا دن ہے ، و یوم الموقف الاعظم بہترین ٹھہرنے کی جگہ ہے ، یوم التوافی وفا کے عہد کرنے کا دن ہے ، و یوم نفی الھموم غموں کے برطرف ہونے کا دن ہے ، و یوم عرض القدرۃ روز ظہور قدرت ہے ، و یوم فرح الشیعۃ شیعوں کے خوشحالی کا دن ہے ، و یوم التوبۃ توبہ کرنے کا دن ہے ، یوم الانابۃ خدا کی طرف پلٹنے کا دن ہے ، و یوم الزکاۃ العظمیٰ روز زکات عظیم ہے ، و یوم الفطر الثانی روز فطر دوم ہے ، و یوم سیل الغناب دشمنوں کی پریشانی کادن ہے ، ویوم تجرع الریق منافقوں کے گلے میں پانی کا پھندہ پڑنے کا دن ہے ، و یوم الرضا روز رضایت ہے ، ویوم عید اھل بیت اہل بیت کی خوشی کا دن ہے ، ویوم تقدیم صدقۃ صدقہ دینے کا دن ہے ، و یوم الزکاۃ روز زکات ہے ، ویوم قتل المنافق منافق کے قتل ہونے کا دن ہے ، و یوم وقت المعلوم وقت معلوم ہے ، و یوم سرور اھل بیت اہل بیت /کے شادمان ہونے کا دن ہے ، و یوم الشاھد ، و یوم المشہود ، و یوم یعض الظالم علیٰ یدیہ وہ دن ہے کہ جب ظالم اپنی انگلیوں کو دانتوں میں دبائیں گے ، و یوم التنبه ، و یوم الترصید ، و یوم الشهادت ، و یوم المستطاب به ، و یوم ذهاب سلطان المنافق منا فق کی سلطنت کی تباہی کا دن ہے ، و یوم التسدید ، و یوم یستریح فیہ المؤمن مومن کے آرام کرنے کا دن ہے ، و یوم المباھلۃ روز مباہلہ ہے ، و یوم المفاخرۃ فخر و مباہات کرنے کا دن ہے ، و یوم قبول الاعمال اعمال کے قبول ہونے کا دن ہے ، و یوم اذاعۃ السر پول کھولنے کا دن ہے ، و یوم نصرالمظلوم مظلوم کی مدد کرنے کا دن ہے ، و یوم الزیارۃ زیارت کرنے کا دن ہے ، و یوم التودّد دوستی کے اظہار کرنے کا دن ہے ، و یوم التحبب ایک دوسرے سے محبت کے اظہار کا دن ہے، و یوم الوصول ملنے کا دن ہے ، و یوم التزکیۃ نفس کی پاکیزگی کا دن ہے ، و یوم کشف البدع بدعتوں کے چھٹنے کا دن ہے ، و یوم التزاور ایک دوسرے کی زیارت کرنے کا دن ہے ، و یوم الموعظۃ نصیحت کرنے کا دن ہے ، و یوم العبادۃ یوم عبادت ہے ،و یوم الھدیٰ ہدایت کا دن ہے ، و یوم العقیقہ روز عقیقہ ہے ، و یوم التولیۃ ، و یوم الشرط ، و یوم نزع السوار ، و یوم ندامۃ الظالمین ظالمین کے نادم و شرمندہ ہو نے کو دن ہے ، و یوم الفتح فتح و ظفر کا دن ہے ، و یوم العرض ، ویوم الترویۃ ، و یوم ظفرت بہ بنو اسرائیل بنی اسرائیل کے فتح کا دن ہے ، ویوم قبل اللہ اعمال الشیعۃ خدا آج کے دن شیعوں کے اعمال کو قبول کرے گا ، و یوم النحیل ، و یوم المنادیٰ ندا کرنے کا دن ہے۔(۱۴)
قال حذیفة: فقمت من عنده (امیر المؤمنین) و قلت فی نفسی : لو لم ادرک من افعال الخیر وما ارجو به الثواب الّا فضل هذ ا الیوم لکان منالی ۔
حذیفہ کہتے ہیں : امیر المؤمنین ؑکے پاس سے اٹھے اور اپنے آپ سے کہا کہ اگر افعال خیر میں سے کہ جس کے ثواب و پاداش کی آرزو و تمنا ہے درک نہ کیا مگر آج کے روز کی برکت سے اپنی آرزوؤں کو پایا ہے ۔
قال محمد بن اعلاء الهمدانی ، و یحییٰ بن محمد بن جریح : فقام کل واحد منّا و قبّل راس احمد بن اسحاق بن سعید القمی و قلنا : الحمد للّٰه الذی قیضّک لنا حتی شرّفتنا بفضل هذا الیوم ، ورجعنا عنه ، و تعیّد نا فی ذالک الیوم ۔ (۱۵)
محمد بن اعلاء ہمدانی و یحییٰ بن جریح کہتے ہیں : پس اس کے بعد ہم لوگ اٹھے اور احمد بن اسحاق کے ماتھے کا بوسہ لیا اور کہا : اس پروردگا ر کا شکر کہ جس نے تم کو ہمارے لئے بچا کر رکھا تھا کہ آج کے دن کی فضیلت کو ہمارے لئے باعث افتخار بنایا اور ان کے پاس سے نکلے اور اس دن کو عید منایا ۔
حوالے اور حواشی
(۱) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۰۹ ، بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۱ و جلد ۳۱ صفحہ ۳۵۱
(۲) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۱ و ۱۲۲ و جلد۹۸ صفحہ ۳۵۱و ۳۵۲ ،الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ۱۱۰ ،
(۳) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ ، بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۲ و جلد۹۸ صفحہ۳۵۲
(۴) تاریخ خلفاء جلد ۳ صفحہ ۵۰ ،الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۰۸ ، بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ۹ ۱۱و ۱۲۰ و جلد ۹۸ صفحہ ۳۵۱ ،
(۵) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ ، بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۳ ۱۲ و جلد۹۸ صفحہ۳۵۲
(۶ ) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۳ ۱۲ و جلد۹۸ صفحہ۳۵۲ ،الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ ،
(۷ ) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۰
( ۸ ) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۰ و ۱۱۱، بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۳ ۱۲و ۱۲۴ و جلد۹۸ صفحہ۳۵۲ و ۳۵۳
(۹ ) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۴ ، الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۱،
( ۱۰ ) الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۱، و بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۴
( ۱۱ ) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۵ و جلد ۹۸ صفحہ۳۵۳،الانوار النعمانیہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۱،
( ۱۲ ) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۶ و جلد ۹۸ صفحہ۳۵۴
(۱۳) بحار الانوار جلد ۹۸ صفحہ۳۵۴ و جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۶ تا ۱۲۹
(۱۴) بحار الانوار جلد ۹۸ صفحہ۳۵۴و ۳۵۵و جلد ۳۱ صفحہ ۱۲۷ و ۱۲۸
(۱۵) بحار الانوار جلد ۳۱ صفحہ۱۲۹ و جلد ۹۸ صفحہ۳۵۵