امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام صادقؑ یونیورسٹی

1 ووٹ دیں 05.0 / 5


عنوان بالا کو سمجھنے کے لئے پہلے ’’صادق‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔ عام طور پر صادق اس کو کہتے ہیں جو سچ بولے، یعنی صادق القول ہو۔
حالانکہ یہ تعریف صحیح نہیں ہے، بلکہ حقیقی صادق وہ ہے جو اپنے قول کے ساتھ عمل میں بھی صادق ہو۔
ایسے شخص کو ’’سچا‘‘ کہا جا سکتا ہے، سچ بولنے میں اور سچے میں بہت فرق ہے۔
ایک چور نے عدالت میں یہ اعتراف کر لیا کہ میں نے یہ مال چرایا ہے، اس نے سچ تو بولا ہے لیکن وہ صحیح معنوں میں سچا نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ سچا ہوتا تو اچھا ہوتا، اچھا ہوتا تو چوری کیوں کرتا۔
بعض اوقات تو شیطان نے بھی سچ بولا ہے، اس نے کہا کہ میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا، پھر سجدہ نہیں کیا، اس نے کہا کہ میں آدم کی اولاد کو بہکاؤں گا، پھر بہکایا، لہٰذا شیطان نے سچ تو بولا لیکن اس کو اللہ کا سچا بندہ یا صادق نہیں کہا جائے گا۔
اصل میں سچا انسان وہ ہے جس کی سیرت اس کی صورت کے مطابق ہو، اگر صورت آدمی کی ہو تو سیرت بھی آدمی کی ہو، اگر ایسا ہے تو صادق ہے ورنہ کاذب ہے۔
اس نقطۂ نطر سے ایک بھیڑیا سچا ہے کیونکہ جیسا وہ باہر سے ہے ویسا ہی اندر سے ہے، ایک سؤر سچا ہے کیونکہ وہ اگر باہر سے سؤر ہے تو اندر سے بھی سؤر ہے، ایک گدھا سچا ہے کیونکہ وہ بھی جیسا باہر سے ہے ویسا اندر سے ہے۔
یہ تو صرف انسان ہے جو بسا اوقات دیکھنے میں انسان معلوم ہوتا ہے لیکن اندر سے جانور ہوتا ہے، منھ سے تو وہ یہی کہتا ہے کہ میں انسان ہوں، ہمیشہ انسانوں کی محفل میں بیٹھتا بھی ہے بلکہ کوشش یہ کرتا ہے کہ اچھی سے اچھی جگہ بیٹھے، کبھی میر مجلس بن جاتا ہے، کبھی میر قافلہ بن جاتا ہے، کبھی صدر انجمن بن جاتا ہے، کبھی رئیس مدرسہ اور شیخ خانقاہ بن جاتا ہے، کبھی وزیر کبھی شاہ بن جاتا ہے، کبھی صدر مملکت و مدیر سلطنت بن جاتا ہے، کبھی عالم دین بن جاتا ہے، کبھی زاہد مسکین بن جاتا ہے، دیکھنے میں بڑا با سلیقہ بن جاتا ہے، یہاں تک کہ کبھی خلیفہ بن جاتا ہے، لیکن بسا اوقات اندر سے ہوتا ہے جانور۔
کیونکہ اگر حرام کھاتا ہے تو باہر سے آدمی ہے اندر سے سور، اگر ظلم کرتا ہے تو باہر سے آدمی ہے اندر سے بھیڑیا، اگر پیٹ کے لئے لڑتا جھگڑتا ہے تو باہر سے آدمی ہے اندر سے کتا، گر خداداد عقل سے کام نہیں لیتا اور آخرت کی نہیں سونچتا تو تو باہر سے آدمی ہے اندر سے گدھا ہے! جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ’’کانہم حمر مستنفرۃ‘‘ گویا یہ بھاگنے والے گدھے ہیں (۱) ابھی کل کی بات ہے کہ اول رجب ۱۴۲۴؁ھ بروز جمعہ نجف اشرف میں حرم حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے دروازہ پر آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیمؒ کو مع تقریباً دو سو مومنین کے جو نماز جمعہ پڑھ کر حرم سے نکل رہے تھے بڑی بیدردی کے ساتھ کاوں کے اندر پوشیدہ بموں کے ذریعہ شہید کر دیا گیا، مرنے والوں میں عورتیں اور بچے بھی تھے جن کے بدن کے ٹکڑے ہوا میں بکھر گئے، کیا ایسا کرنے والوں کو آدمی کہا جائے گا؟


بسکہ دشوار ہے ہر چیز کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
            مرزا غالبؔ


اے صاحبان ہوش خرد! ذرا مجھ کو بتلاؤ کہ ایسے انسان کو کیونکر سچا سمجھا جائے؟ یہ تو جھوٹ کا پوٹ ہے، جس پر انسانیت کا کوٹ ہے۔
یہ بات ہر انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو دنیا میں بھیجا ہے تو صرف انسان بننے کے لئے بھیجا ہے، اللہ کہتا ہے کہ اے آدم کی اولاد! میں نے تجھ کو آدمی کی صورت میں دنیا میں بھیجا ہے لہٰذا آدمی بن! اور آدمی کی سیرت اختیار کر! صورت بنانا میرا کام ہے سیرت بنانا تیرا کام! صورت بنانے میں تیر اکوئی دخل نہیں سیرت بنانے میں میں کچھ نہ بولوں گا۔
اب سیرت کیسے بنے؟ یوں سمجھو کہ سیرت ایک سیدھی سڑک ہے جس پر چلنے سے انسانیت نکھرتی ہے، حیوانیت بکھرتی ہے، یہ سڑک سیدھی ایک جاویدانی ملک کو جاتی ہے جس کا نام ہے (جنۃ الخلد) ’’جنة الخلد اللتی وعد المتقون‘‘ یہ وہ جنت (باغ) ہے کہ جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا جس کا متقین سے وعدہ کیا گیا ہے (۲)۔
لیکن اسی سڑک پر خواہشات نفسانی کے جھکڑ چل رہے ہیں جو راہگیروں کو ڈانواں ڈول کر دیتے ہیں۔
ادھر شیطان نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ میں اسی سڑک پر چلنے والوں کو بہکاؤں گااور منزل مقصود تک پہونچنے نہ دوں گا ’’فبعزتک لاغوینهم اجمعین‘‘ تیری عزت کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں تیرے تمام بندوں کو بہکاؤں گا (۳)            لہٰذا اس نے اپنے لا تعداد چیلوں کو اس سڑک پر طرح طرح کے لباسوں میں بٹھا رکھا ہے، یہ ہر راہگیر کو دیکھ کر پکارتے ہیں ’’ادھر آؤ‘‘ بس جونہی اس نے ان کی طرف قدم بڑھایا ایسا گرے گا کہ پھر اٹھنا مشکل ہو جائے گا۔
اسی سڑک کا نام ہےشاہراہ صداقت
اسی سڑک پر تھوڑے تھوڑے فاصلے سے اللہ نے درس صداقت دینے کے لئے بہت سے مدرسے بھی بنا دئے ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے، ان میں قدرت کے پڑھائے ہوئے مدرس آئے اور انہوں نے سب کو سیرت سنوارنے کی، آدمی بننے کی تعلیم دی، انہوں نے سب سے پہلے سچ بولنے کی تعلیم دی ’’ان الله لم یبعث نبیاً الا بصدق الحدیث و اداء الامانة‘‘ اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس کی بنیادی تعلیم سچ بولنا اور امانتداری تھی (۴)
آخر میں آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ آیا آپ نے بھی ’’صدق‘‘ کا پودا لگایا ’’الذی جاء بالصدق و صدّق به‘‘ یہ محمد وہ ہے جو صدق لایا اور اس نے صدق کی تصدیق کی (۵) آپ نے مکہ کی سنگلاخ زمین پر سچائی کا ایک بہت بڑا کالج بنایا، جھوٹوں کو سچ بولنا سکھایا، پتھر میں جونک لگائی، بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی، سڑی ہوئی دلدل میں جوہی اور چمیلی کے پودے لگائے، کھاری زمین میں شہد کے چشمے بہائے، گندی فضا میں عطر کے کنٹر لنڈھائے، جس سے چاروں طرف فضا مہکنے لگی، سچائی کی کھیتی لہکنے لگی۔
آپ نے سب سے پہلے خود صداقت کا خلعت پہنا، قول سچ، بول سچ، اٹھان سچ، گمان سچ، ہنسنا سچ، رونا سچ، تجارت سچ، سیاست سچ، ریاضت سچ، عبادت سچ، صورت سچ، سیرت سچ، ادا سچ، صداسچ، سچائی رگ رگ میں اتری ہوئی، صداقت کے غازے سے صورت نکھری ہوئی، جب سامنے آئے لوگوں نے کہا صادق آرہا ہے، جب چلے گے کہا صادق جا رہا ہے، تیس سال تک لوگوں کے دلوں پر اپنی صداقت کی دھاک بٹھا دی، جھوٹوں کو سچائی کی راہ دکھا دی، سوتے ہوئے انسان کی قسمت جگا دی، آنکھوں پر سے غفلت کی پٹی ہٹا دی۔
سب نے کہا عجیب بات ہے! جھوٹوں میں سچا! کوڑے میں ہیرا! قول کا سچا، بات کا پکا!
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا ابھی ایک اور آ رہا ہے۔
کدھر سے؟
اللہ کے گھر سے، ایک مرتبہ ایک رجب کو خانۂ خدا کا دروازہ کھلا اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک چاند سا بچہ لیکر نکلے، کہا یہ میری گود میں پہلا بچہ ہے، جو میری طرح دوسرا سچا ہے، میرا نام محمد ہے اس کا نام علی ہے، یہ باغ صداقت کیء دوسری کلی ہے۔
اس بچہ کی صداقت کو دیکھ کر لوگ اور بھی حیران ہو گئے، یک نہ شد دو شد! دو سچے! ایک طرح کے سچے!۔
پیغمبرؐ نے فرمایا حیران کیا ہوتے ہو ابھی ایک سچی بچی بھی آنے والی ہے، جب فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں اور باپ کی انگلی پکڑ کر چلنے لگیں، مکہ کی عورتوں سے بات کرنے لگیں، عورتوں نے کہا یہ بچی بھی کتنی سچی ہے، صورت دیکھو تو حور، سیرت دیکھو تو نور، با کرو تو سچائی کے گوہر جھڑیں، کردار دیکھو تو عفت کے جوہر کھلیں۔
لوگوں نے کہا عجیب بات ہے، تینوں کی ایک ذات ہے۔
پیغمبرؐ نے کہا ابھی ددو بچّے بچے ہیں، دونوں صداقت کے پیکر ہیں، سچائی کے گوہر ہیں، اگر ایسے نہ ہوتے تو جنت میں جانے والے صدیقین کے سردار نہ ہوتے، قدرت کی آواز آئی ’’مرج البحرین یلتقیان و یخرج منہما اللوء لوء وا لمرجان‘‘ یہ دو دریا آپس میں مل رہے ہیں جن سے دو جواہر پارے موتی و مرجان بن کے نکلیں گے (۶)
لوگوں نے کہا بس یہی پانچ!
پیغمبرؐ نے کہا نہیں! اس ’’شاہراہ صداقت‘‘ پر ہمیشہ میرے اہل بیت سے ایک صادق گامزن رہے گا، جو اپنے کاندھے پر ’’کونوا مع الصادقین‘‘ صادقین کے ساتھ رہو؛ کا علم اٹھائے ہوئے چلے گا، ابدی صداقت کا چشمہ بن کے بہے گا، ان صداقت کے چشموں کی تعداد حضرت موسیٰؑ کے چشموں کی طرح بارہ ہوگی ’’فانفجرت منه اثنتا عشرۃ عیناً‘‘ حضرت موسیٰؑ نے جب پتھر پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (۸)
یہ سب پیغمبر کے بنائے ہوئے صداقت کے کالج کے معلم تھے جنہوں نے صداقت کے دریا بہائے، سچائی کے جوہر دکھائے، جب اس کالج کا چھٹا پرنسپل آیا تو اس نے صادق کا نام پایا، نام بھی صادق، کام بھی صادق، اس نے فضا ہموار پا کر اس کالج کو ایک عظیم یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا، کہا وہ دور جب سچ کا نام سن کر لوگ یوں بھاگتے تھیجس طرح شیر سے بکری، یوں چھٹتے تھے جس طرح نور سے ظلمت،یوں پھٹتے تھے جس طرح لیموں سے دودھ       لیکن
جب کوفہ میں صادق آل محمد علیہ السلام نے ’’صادق یونیورسٹی‘‘ بنائی تو لوگوں کی بن آئی، ہر طرف سے لوگ یوں ٹوٹ پڑے جس طرح شمع پر پروانے، یا میٹھے پانی پر پیاسے، آخر گزشتہ دوروں میں جھوٹ کی خرابیاں اور کذب کی بربادیاں دیکھ چکے تھے۔
تھوڑے عرصہ میں عراق کی مسجد کوفہ میں ہر طرف سے ’’قال الصادق قال الصادق‘‘  کی آوازیں آنے لگیں۔
حسن بن علی وشاء کہتے ہیں میں نے مسجد کوفہ میں نو سو علماء و مدرسین کو درس دیتے دیکھا ہے ان میں سے ہر ایک کہتا تھا ’’حدثنی جعفر بن محمد‘‘ مجھ سے امام جعفر صادقؑ نے بیان کیا ہے (۹)
رفاعی ے کہا: امام صادقؑ سے بڑے بڑے امام روایت کرتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام سفیان ثوری (۱۱)
سامی کا کہنا ہے: امام صادقؑ کے درس میں امام اعظم ابو حنیفہ مسلسل آتے تھے کیونکہ امام صادقؑ کو علم جبر و علم کیمیا و ہر علم میں بڑی مہارت حاصل تھی، ابو حنیفہ نے ان سے معارف ظاہریہ و باطنیہ دونوں کا درس لیا ہے (۱۲)
خود ابو حنیفہ نے اقرار کیا ہے کہ: جعفر بن محمدؑ کو میں نے تمام لوگوں سے جن کو میں نے دیکھا ہے افقہ پایا (۱۳)
نیز یہ بھی کہا ہے ’’لو لا السنتان لهلک النعمان‘‘ یعنی اگر وہ دو سال نہ ہوتے جن میں میں نے امام جعفر صادقؑ سے کسب فیض کیا تو نعمان (یعنی ابو حنیفہ) ہلاک ہو گیا ہوتا۔ (۱۴)
امام مالک نے کہا: ما رأت عین و لا سمعت اذن و لا خطر علی قلب بشر، افضل من جعفر بن محمد الصادق علماً و عبادۃً و ورعاً‘‘ یعنی کسی آنکھ نے دیکھا نہیں، کسی کان نے سنا نہیں، کسی کے تصور میں گذرا نہیں ایسا شخص جو امام جعفر صادقؑ سے علم و عبادت و تقوی میں زیادہ ہو۔ (۱۵)
خیر الدین زرکلی نے کہا: امام سادقؑ کا علمی مقام بہت بلند ہے، آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس فہرست میں امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا بھی نام آتا ہے ’’لقب بالصادق الانہ لم یعرف عنہ الکذب قط‘‘ آپ کا لقب صادق اس لئے ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، خلفاء بنی عباس کے ساتھ آپ کے کئی واقعات ہیں ان کے سامنے آپ ہمیشہ حق کہنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ (۱۶)
گرید وجدی کا بیان ہے: امام صادقؑ تمام انسانوں سے افضل تھے، علم کیمیا (Shimie) میں بھی ان کے مقالات موجود ہیں، ان کیشاگردوں میں جابر بن حیان بھی ہیں جنہوں نے ایک کتاب ہزار صفحہ کی تألیف کی جس میں امام جعفر صادقؑ کے پانچ سو رسالے ہیں۔ (۱۷)
جابر نے ان رسالوں کی ابتدا اس طرح کی ہے ’’قال سیدی و مولای جعفر صلوات اللہ علیہ‘‘ یہ پانچ سو رسالے سب کے سب ۱۵۳۰؁ء میں فرانس کے شہر سٹراسبرگ "Strasbourg" میں طبع ہو چکے ہیں۔
جابر کا نام یورپ اور امریکا میں گیبر "Geber" کے نام سے مشہور ہے اور ان کو علم کیمیا کا باپ "Father of chemistry" یعنی کیمیسٹری کا موجد سمجھا جاتا ہے، ان کی تألیفات کی تعداد تین ہزار نو سو تک معلوم ہو چکی ہے جو مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہے، ایک عام انسان اتنی کتابوں کو تمام عمر میں استنساخی طور پر بھی نہیں لکھ سکتا چہ جائیکہ ان کا تألیف کرنا! اس کا جواب جابر نے خود ہوں دیا ہے
’’فوحق سیدی جعفر صلوات الله علیه ما یکون ابداً مثل کتبی هذه فی العالم و لا کان قط مثلها‘‘ اپنے آقا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے تمام تألیفات علوم الٰہی و نبوی پر مشتمل ہیں کیونکہ مخلوقت عالم میں کوئی بھی ایسی کتابیں نہیں لکھ سکتا۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’فوحق سیدی جعفر صلوات الله علیه ما یکون ابداً مثل کتبی هذه فی العالم و لا کان قط مثلها‘‘ اپنے آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری کتابوں کے مثل کائنات میں نہ پہلے کبھی تھا اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ (۱۸)
یہ ہے ’’امام صادقؑ یونیورسٹی‘‘ جس کی داغ بیل مذہب شیعہ کے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادقؑ نے تقریباً ۱۲۵ھ؁ میں مسجد کوفہ میں ڈالی، یہ وہ زمانہ تھا کہ بنی امیہ کی حکومت جا رہی تھی، بنی عباس کی حکومت آرہی تھی، لہٰذا دونوں کی حکومتیں کمزور تھیں، امام صدقؑ نے اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور اس یونیورسٹی کو بنایا جس کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور تھوڑے عرصہ اسلام کی پیشانی چمکنے لگی، مسجد کوفہ طالب علموں سے چھلکنے لگی، اس یونہورسٹی میں امام جعفر صادقؑ کے سربرآوردہ شاگرد درس دینے لگے جیسے ابان بن تغلب، ہشام بن حکم، مؤمن طاق، ابو حمزہ ثمالی، جابر بن حیان، صفوان جمال یا برید بن معاویہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم، زرارہ بن اعین۔
ان میں سے چار مؤخر الذکر اس بلند مرتبہ پر فائز تھے کہ امام صادقؑ نے ان کے لئے فرمایا ’’اربعۃ نجباء امناء اللہ علی حلالہ و حرامہ لولا ھٰؤلاء لانقطعت آثار النبوۃ و اندرست‘‘ یہ چاروں بڑے با کردار ہیں اور حلال و حرام خدا کے امانتدار ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو نبوت کے آثار مٹ جاتے۔
خاص طور پر زرارہ کے لئے فرمایا ’’لولا زرارة لقلت ان احادیث ابی ستذهب‘‘ اگر زرارہ نہ ہوتے تو مجھ کو یہ کہنا پڑتا کہ میرے بابا کی حدیثیں عنقریب مٹ جائیں گی۔ (۱۹)
یہ سب امام صادقؑ یونیورسٹی کے بہت ہام اسکالر تھے جو اس میں درس و تدریس، تصنیف و تألیف، بحث و مباحثہ وتحقیق میں مصروف تھے، اگر ایک طرف عقائد و علم کلام کا درس ہو رہا تھا، تو دوسری طرف فقہی مسائل پر بحث ہو رہی تھی، تیسری طرف اصول فقہ بیان ہو رہے تھے، چوتھی طرف تفسیر قرآن کی مو شگافیاں ہو رہی تھیں، پانچویں طرف کیمسٹری کے مسائل حل ہو رہے تھے، چھٹی طرف ریاضیات پر گفتگو ہو رہی تھی، ساتویں طرف علم نجوم کے اسرار بیان کئے جا رہے تھے، آٹھویں طرف توحید و نبوت و امامت پر مناظرے ہو رہے تھے، غرض مسجد کوفہ کیا تھی علوم محمد و آل محمد علیہم السلام کا ایک لہلہاتا ہوا باغ تھی، تعلیمات قرآنی کا ایک روشن چراغ تھی، جس کی نورانیت آج تک برقرار ہے، آج بھی دنیا اس چراغ سے پر انوار ہے، کیونکہ اس یونیورسٹی کے اسکالروں نے چار سو کتابیں لکھیں جو چار سو پھیل گئیں، ان چار سو کتابوں سے کتب اربعہ (کافی و من لا یحضرہ و تہذیب و استبصار) لکھی گئیں، جو مذہب شیعہ کی بنیادی کتابیں ہیں، پھر ان سے وسائل و وافی و حدائق و بحار لکھی گئیں، جن سے علم کے دریا بہے اور معرفت کے چشمے پھوٹے۔
جب تک یہ کتابیں باقی ہیں امام صادقؑ یونیورسٹی باقی ہے جس میں خاص طور سے ’’صداقت‘‘ کا درس دیا گیا تھا، صداقت در نیت، صداقت در ارادہ، صداقت در قول، صداقت در فعل، صداقت درعبادت، صداقت درسیاست، صداقت درمعاشرت۔
اس یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
’’هؤلاء القوامون بالقسط، هؤلاء القوامون بالصدق، هؤلاء السابقون السابقون اولٰئک المقربون‘‘ یہ عدل کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں، یہ صدق کے ساتھ بولنے والے ہیں، یہ نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے والے ہیں اور یہ مقربان بارگاہ الٰہی ہیں۔ (۲۰) یہی وجہ ہے کہ جب قیامت کا روز ہوگا تو قدرت یہ نہیں فرمائے گی کہ آج جماز کام آئے گی، آج عبادت کام آئے گی، آج  روزہ حج و زکوٰۃ کام آئیں گے، اگر آواز آئے گی تو صرف یہ آواز آئے گی
’’هذا یوم ینفع الصاقین صدقهم لهم نجات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیها ابداً رضی الله عنهم و رضوا عنه ذٰلک الفوز العظیم‘‘ (مائده، ۱۱۹) یہ وہ دن ہے کہ جب صادقین کے لئے ان کا صدق کام آئے گا، ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۲۱)
اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ یہاں تک کہ ولایت سب بیکار ہیں جب تک کہ یہ سب چیزیں سچی نہ ہوں، جیسے سونا بیکار اگر سچا نہ ہو، ہیرا بیکار اگر سچا نہ ہو، دوا بیکار اگر سچی نہ ہو، گواہ بیکار اگر سچا نہ ہو، دنیا کی تمام چیزوں کی اس وقت قدر و قیمت ہوتی ہے جب وہ سچی یعنی صادق ہوں۔
’’امام صادقؑ یونیورسٹی‘‘ نے دنیا کو سچا بننے کا یعنی کھرا بننے کا درس دیا تاکہ لوگوں کی دنیا و آخرت سدھر جائے، بگڑی ہوئی قسمت سنور جائے، اور ہوا و ہوس میں گھرا ہوا انسان ادھر نہ جائے کہ شیطان جدھر جائے۔
۱) سورہ مدثر آیت،۵۰
۲)سورہ فرقان آیت،۱۵
۳)سورہ ص آیت،۸۲
۴)حدیث از امام صادقؑ اصول کافی ج،۲؛ ص،۱۰۴
۵)سورہ زمر آیت، ۳۳
۶)سورہ رحمان آیت، ۱۹ و ۲۲
۷)سورہ توبہ آیت، ۱۲۱
۸)سورہ بقرہ آیت، ۶۰
۹)کنیٰ و لاالقاب ج،۳؛ ص، ۲۴۶
۱۰)صحاح الاخبار ص، ۴۴
۱۱)صواعق محرقہ ص، ۱۲۰
۱۲)قاموس الاعلام ج، ۳؛ ص، ۱۸۲۱
۱۳)جامع مسانید ابو حنیفہ ج، ۱؛ ص، ۲۲۲
۱۴)مختصر تحفہ شیعہ اثنا عشریہ ص،۸
۱۵) تہذیب البلاغہ ج،۲؛ ص، ۱۰۴
۱۶)اعلام ج،۲؛ ص،۱۲۱
۱۷)دائرۃ المعارف قرن چہاردہم ج،۳؛ ص،۱۱۰
۱۸)الھیئۃ و الاسلام ص،۴۶
۱۹)منتہی الآمال ج،۲؛ ص، ۱۷۲ و ۱۷۶
۲۰) منتہی الآمال ج،۲؛ ص،۱۶۸
۲۱) سورۂ مائدہ آیت، ۱۱۹ف

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک