امام صادق علیہ السلام اور علوم جدید
قریب دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے کہ کسی یونیورسٹی کے ایک لکچرار نے مجھ سے کہا کہ یہ آج مولوی حضرات اس قدر علم و سائنس کے گن گا رہے ہیں ،تو کیا اسلام کا نظریہ بدل گیا ہے؟یا سائنس کی چمک دمک نے ان لوگوں کو محاذ بدلنے پر مجبور کر دیا ہے؟!پہلے تو جدید علوم کی بڑی مذمت کیاکرتے تھے ،اسے الحاد کے مترادف قرار دیتے تھے،اب کیا ہوگیا کہ ․․․
اس وقت میں نے جواب میں یہی کہا تھاکہ اسلام کبھی بھی علم و دانش کا مخالف نہیں رہا بلکہ ہمیشہ علم و آگہی کا علم بردار رہا ہے ․․․ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ وہ اہل مغرب جن کا ماضی جز تاریکی،بربادی،اندھرا،جمود،تعصب،جہالت،لجاجت کے کچھ نہیں تھا،آج رنسینس (Renaissance ) ۱ کے بعد متمدن بنے انہیں کو ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں،جن سے علم وحکمت و ہنر و ادب کا چراغ لیکر اپنے گھر کے گھنگھور اندھروں کو روشن کیا تھا! آج انہیں کو پسماندہ کہہ رہے ہیں جن کی دولت پہ خود متمدن بنے ہیں․․․!!
اور اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم مسلمان ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے ،اپنے مفاخر و منابع سے بے خبر، ان کی باتوں کو مان لیتے ہیں! اور احساس کمتری میں گرفتار ہو کر،علم و دانش کے کاروان سے پچھڑے ہوئے ہیں۔
جناب ختمی مرتبت صلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے پہلا پیغام وحی جو سنایا وہ پڑھنے پڑھانے سے متعلق تھا، اقرء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرء و ربک الاکرم ، الذی علّم بالقلم ، علّم الانسان ما لم یعلم․․․ ۲
آپؐ کی بعثت کاسبب تعلیم و تربیت تھا، هوالذی بعث فی الامیین رسولا منهم یتلوا علیهم اٰياته و یزکّیهم و لیعلّم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلٰل مبين ۳
پیغمبر اسلامصلّی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ہر مسلمان پرتحصیل علم واجب کردیا ، طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة۴ ؛ حالانکہUN کے منشور انسانیت میں تحصیل علم ہر انسان کا حق ہے ،صرف حق !اور اہل بصیرت جانتے ہیں کہ حق اورفرض میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
پیغمبر نے تحصیل علم کے لئے عمر کی قید نہیں رکھی، اطلبوا العلم من المهد الی اللحد۵ ، حالانکہ یہاں ہر اسکول ،انسٹیٹیوٹ،یونیورسیٹی ․․․میں Age کی قید ہوا کرتی ہے۔
پیغمبر نے فرمایا:اطلبوا العلم و لو بخوض اللجج و شق المهج۶
اطلبوا العلم و لو بالصین؛۷
اطلبوا العلم و لومن کافر/ منافق/ مشرک؛۸
العلم ضالة المؤمن این وجدها أخذها ۹
بعض لوگ کہتے ہیں علم سے مراد صرف علم دین ہے،لیکن مذکورہ احادیث میں علم بصورت مطلق بیان ہوا ہے؛ اس کے علاوہ ''من المهد'' ''و لو من کافر'' ''و لو بالصین'' کا قرینہ بتا رہا ہے کہ علم سے مراد اپنے اصطلاحی معنی میں صرف علم دین نہیں ہے، اس لئے کہ جھولے میں بچہ، نجاست و طہارت کے مسائل کو کیا سمجھے گا؟! اور کافر، نماز و روزہ اور قبلہ کے مسائل کو بھلا کیا سمجھائے گا؟! اور چین میں کوئی حوزہ علمیہ نہیں کھلا ہواتھا!!
یا بقول ایک دانشور خطیب ۱۰ کے کہ یہ سارے علوم جو انسانی سماج کے لئے مفید ہیں،در حقیقت علم دین ہیں،یہاں علم دنیا کچھ نہیں،کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فیزیکس، کمیسٹری، بایولوژی کا علم ہمارے ائمہ کو نہیں تھا ؟ ہرگز نہیں!پس جس جس چیز کا علم ائمہ کو تھا،اس کا جاننا ہر شیعہ پر واجب ہے،اور واجب کی ادئیگی ایک دینی فریضہ ہے،بس نیت کی شرط ہے؛اور نیت میں اگر کھوٹ ہو تو وہ علوم جو قانونی طور پر علم دین کہے جاتے ہیں وہ بھی علم دنیاکہلائے جائیں گے؛ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
من أراد الحدیث لمنفعة الدنیا لم یکن له فی الآخرۃ نصیب و من أراد به خیر الآخرة اعطاه اﷲ خیر الدنیا و الآخرة ۱۱
․․․اس وقت وہ تو میرے اس جواب سے مطمئن ہوگئے،لیکن میرے اندر ایک تڑپ پیدا ہو گئی کہ کاش علوم جدیدہ کے سلسلہ میں اسلامی متون میں کوئی کاوش کر سکوں،لیکن کبھی فرصت نہ ہو سکی؛ہاں!فاران نے یہ موقع دیا؛ اب جو میں نے مراجعہ کیا تو حیران ہو کر رہ گیا کہ اس مختصر سے مقالہ میں کیا بیان کروں ؟!اس موضوع کے لئے تو کئی جلدوں پر مشتمل ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے ۔
امام صادق علیہ السلام کے فضائل علمی کے بارے میں لکھنا آسان نہیں ہے جن کے سلسلہ میں امام مالک کہتے ہیں:ما رأت عین ولاسمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل من جعفر الصادق فضلا و علما و عبادۃ و ورعا۱۲،امامؑ کی دانشگاہ میں نہ جانے کتنے افراد مختلف مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانوں کے مالک ۱۳ آپ ؑکے دریائے علم سے فیضیاب ہوئے،لیکن ان میں سے جنہوں نے کچھ کارنامے انجام دئے،اور جن کا تذکرہ تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیا،وہ قریب ۴ہزار سے زائدہیں،جن میں سے بہت سے افراد نے سینکڑوں کتابیں تحریر کی ہیں۔امامؑ کی علمی کاوشوں کا کسی حد تک احاطہ تبھی ہو سکتا ہے،جب کم سے کم ان ۴ہزار شاگردوں کے علمی کارناموں کا اور ان کی کتابوں کا احاطہ کرلیا جائے،اور یہ مشکل ہی نہیں کسی حد تک محال بھی ہے،کیونکہ بہت سی کتابیں دشمنوں کے ہاتھوں ضائع بھی ہو چکی ہیں؛بہر حال اس اقرار کے ساتھ کہ دریائے علم کے چند قطرے بھی ہم نہیں پا سکے،یہاں ہم صرف چند امور پر سرسری سا اشارہ کریں گے۔
مارچ 1968 میں Strasbourg University میں فرانس، برطانیہ،اٹلی،امریکا،بیلژیم․․․ کے فلسفہ،سائینس،تاریخ،ادب،اقتصاد،سیاست، سماجیات․․ ․ میں مہارت رکھنے والی برجستہ شخصیتوں پر مشتمل ، ۲۵ افراد کی ایک علمی کمیٹی بیٹھی جس میں امام موسی صدر اور سید حسین نصر بھی موجود تھے،نشست کا موضوع تھا(علوم پرامام صادق علیہ السلام کے احسانات، تجزیہ و تحلیل )۔ اس نشست کا حاصل،پیرس یونیورسٹی کے رسالہ کے خاص نمبر میں شائع بھی ہوا،اس کاترجمہ عربی اور فارسی میں بھی دستیاب ہے ۱۴،جس میں جدید علوم کے مختلف شعبوں کے موضوعات پر مبسوط ،مستدل،اور تحقیقی بحث ہوئی ہے۔اس مضمون میں انہیں موضوعات میں سے کچھ ،مختصر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
علم کیمیا اور امام صادق
اس ترقی یافتہ دنیا میں،ہوا میں اڑتے جہاز ،خلاء میں منڈلاتے سفینوں سے لیکر سمندروں میں تیرتی کشتیاں،خشکیوں میں دندناتی گاڑیاں تک،جگمگاتے شہروں کی روشنیاں،کارخانوں کو چلانے والی توانائیاں،ری ایکٹر کی حرارتیں،بلکتے ہوئے مریضوں کی دوائیں ․․․ غرض ہر چیز علم کیمیا (Chemistry)کے مرہون منت ہے،گویا اگر علم کیمیا کو زبان مل جائے تو یوں بول اٹھے گا:
عمارات فلک پیما سے جا کے پوچھ میرا نام
مری پرواز سے ہے عالم افلاک میں کہرام
تماشہ کر مرے فن کا مرے برقی شراروں سے
ری اکٹر کی حرارت سے ،توانائی کے دھاروں سے
اور اس علم کیمیا کے واضع امام صادق علیہ السلام کے شاگرد جابر ابن حیان الطرطوسی ہیں جنہوں نے قریب پانچ سو کتابیں صرف اس علم میں تحریر کی ہیں۱۵؛ان کی کتابیں آج بھی دنیا بھر کے تحقیقی مراکز میں مأخذشمار کی جاتی ہیں
ہشام ابن حکم (متوفی ۱۹۹ھ)کا اعراض کے سلسلے میں نظریہ تھا کہ اعراض جیسے رنگ و بو اور طعم وغیرہ جسمیت رکھتے ہیں؛اس نظریہ کو ہشام کے شاگرد ابراہیم ابن سیار نے اور وضاحت سے پیش کیا؛ اور آج جدید علوم نے اسی نظریہ کی صحت کو ثابت بھی کیا کہ ''روشنی'' نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات کے مجموعہ سے بنتی ہے جو خلاء اور شفاف اجسام سے عبور کر سکتے ہیں؛اور ''بو'' اجسام سے بخار کی صورت میں اٹھنے والے نہایت چھوٹے ذرات ہیں جو قوّہ ٔشامّہ کو متأثر کرتے ہیں ․․․ ۔ یاد رہے کہ ہشام ابن حکم،جابر ابن حیان کی طرح علم کیمیا کے ماہر نہیں ہیں !بلکہ علم کلام کے ماہر ہیں! اس کے باوجود․․․
یہ دانشگاہ امام صادق علیہ السلام کی خصوصیت تھی کہ امامؑ استعداد اور ذوق و شوق کے مطابق علوم و فنون کے مختلف شعبوں میں مہارت کی حد تک تربیت فرماتے تھے؛جو جتنا سوال کرتا تھا ،جسکا جتنا اور جیسا ظرف تھا،امام اسی کے مطابق اسے فیضیاب کرتے تھے؛کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ امام بتانا چاہتے تھے لیکن ظرف قابل ہی نہیں ہوتا تھا، چنانچہ ایک شخص امامؑ کے ہمراہ مختلف امور پرباتیں کرتا چل رہا تھا،اسی اثنا ء میں ان کا گزر مسگروں کے بازار سے ہوا،اس نے پوچھا:مس کسے کہتے ہیں ؟امامؑ ؑنے فرمایا:فاسد شدہ چاندی ہے،لیکن اس کی ایک خاص دوا ہے،جس کے ذریعہ دوبارہ اسے خالص چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ․․․؛سائل نے اس دوا کے بارے میں نہیں پوچھا !․․․ ایک جرمنی محقق نے سائل کی اس حرکت پر نہایت افسوس کا اظہار کیا !!․․․۱۶
اوکسیجن
مشہور ہے کہ برطانیہ کا سائنسداں جوزف پرسٹیلی ۱۷نے سب سے پہلے اوکسیجن کا انکشاف کیا، حالانکہ اس کے بہت سے خصوصیات اور ترکیبات کاپتا نہیں لگا سکا، جس کا بعد کے سائنسدانوں نے پتا لگایا؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے بہت پہلے اکسیجن کے خصوصیات کی طرف اشارہ کیا،اور بتایا کہ ''ہوا'' عنصر بسیط نہیں بلکہ مختلف عناصر سے مرکب ہے،جس میں سے بعض اجزاء،ہرزندہ موجود کے سانس لینے میں مدد کرتے ہیں، اور بعض اجزاء آگ پیدا کرنے مین معاون ہوتے ہیں،اگر ہوا کے اندرموجود عناصرکا تجزیہ کردیاجائے تووہ اجسام میں نفوذ کرسکتے ہیں،اور لوھے کو پگھلا سکتے ہیں ․․․
پرسٹیلی نے اوکسیجن کا انکشاف تو کیا،لیکن عملا اوکسیجن کے ذریعہ لوھے کو پگھلا نہ سکا؛بلکہ یہ بعد کے سائنسدانوں نے کشف کیاکہ اگر لوھے کو گرم کرکے (یہاں تک کہ لال ہو جائے)خالص اوکسیجن میں رکھ دیا جائے تو اس میں شدت پیدا ہو جاتی ہے،اس طرح اس سے روشنی ساطع ہو سکتی ہے ․․․اور اسی نظریہ کے تحت آج کے بلب تیا ر کئے جاتے ہیں،جس میں لوھے کے ایک تار کو بجلی کے ذریعہ گرمایا جاتا ہے،جو کہ شیشے میں موجود خالص اوکسیجن کی مدد سے چمک اٹھتاہے ۔۱۸
نورکے انعکاس کانظریہ
انعکاس نور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کے افاضات کی بدولت اسلامی علماء کا یہنظریہ تھا کہ نور اجسام سے منعکس ہوکر انسان کی آنکھوں سے ٹکراتا ہے تو دیکھنے کا عمل انجام پاتا ہے،اور چونکہ دور کے اجسام سے پوری طرح نور منعکس نہیں ہوپاتا لہذا ہم اسے صحیح طریقہ سے نہیں دیکھتے،چنانچہ اگر کسی آلہ کے ذریعہ اس نور کو آنکھ کے قریب کیا جاسکے تو ہم اسے واضح طور سے دیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نظریہ زمانے کے عام نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے،یہ نہیں کہا کہ نور آنکھوں سے منعکس ہوکر اجسام پر پڑتا ہے،بلکہ برعکس ․․․اجسام سے منعکس ہوکر آنکھوں پر پڑتا ہے،دلیل یہ ہے کہ آنکھیں اندھرے میں نہیں دیکھ پاتیں،اور اگر نور آنکھوں سے منعکس ہوتا تو چاہے اندھرا ہو یا اجالا آنکھیں بہرحال دیکھتیں ․․․
انعکاس نور کے علاوہ ،حرکت نور اور سرعت نور کے بارے میں بھی امام ؑ کے افاضات ہماری کتابوں میں موجود ہیں ․․․
صلیبی جنگوں کے دوران یہ نظریات یورپ گئے،وہاں کے علمی درسگاہوں میں بحث و تحقیق ہوئی، آکسفورڈ کے استاد روجر بیکن (1294)نے اس سلسلہ میں کا فی جانفشانی کے ساتھ تحقیقات کیں،جس کی بنیاد پر لیپرشی فلامنڈی نے ٹلسکوپ تیار کیا،جس کی مدد سے گالیلؤفلک کامطا لعہ کیا کرتا تھا ․․․
اس مقام پر بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود امام ؑنے ہی ٹلسکوپ کیوں نہیں تیار کرلیا؟!تو اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سے امکانات کی ضرورتھی،جو اس وقت کی حکومت جور کی وجہ سے مہےّا نہیں تھے،اورمعجزہ کے ذریعہ امام ؑ کوئی چیز بنانا نہیں چاہتے تھے، اور کاروان علم و حکمت تو بتدریج منزل بہ منزل آگے بڑھتا ہے؛بہرحال اس زمانے میں ٹلسکوپ نہ بننے سے اس نظریہ کی اہمیت میں کمی نہیں آتی؛جس طرح نیوٹن کے قانون جاذبیت کی اہمیت میں کمی نہیں آتی یہ کہہ کر کہ خود نیوٹن نے خلائی سفینے اور سےّارے کیوں تیار نہیں کیا!!حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ سےّارے جو زمین کے ارد گرد گھوم رہے ہیں وہ نیوٹن کے قانون جاذبیت کے مرہون منّت ہیں۔
نسبیت زمان کانظریہ
بعض فلاسفہ ٔ یونان کے نزدیک ''زمان'' وجود خارجی نہیں رکھتا اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ'' زمان'' دو حرکتوں کے درمیان فاصلہ کو کہا جاتا ہے،اور انہیں میں سے کچھ قائل تھے کہ'' زمان'' ذاتا وجود خارجی رکھتا ہے اور وہ دو قسم کا ہوتا ہے،ایک متحرک و رواں،دوسرا غیر متحرک و ثابت،''زمان ثابت'' خداؤں کے لئے ہے اور''روان'' مخلوقات کے لئے؛ یہ نظریہ عام طور سے رواقی فلاسفہ کا تھا جس میں زنون کا نام قابل ذکر ہے۔
لیکن آج کے جدید سائنسدانوں نے ''زمان'' کے سلسلہ میں جو نظریہ دیا،امام صادق علیہ السلام کے ارشادات سے نہایت قریب ہے،آپ کے نزدیک ''زمان'' دو اکائیوں کے درمیان حدّ فاصل کو کہتے ہیں جو بالذات نہیں بلکہ بالطبع وجود رکھتا ہے اور اپنی حقیقت کو ہمارے شعور و احساسات کے ذریعہ کسب کرتا ہے ؛اسکے علاوہ آپ کے نزدیک دن و رات ''زمان'' کو تشخیص دینے کے معیار نہیں،بلکہ یہ دومستقل حقیقتیں ہیں ،جن کی مقدار بھی ثابت نہیں،بلکہ موسم کے اعتبار سے متغیر ہے۔
''زمان'' سے ملتا جلتا نظریہ ''مکان'' کے سلسلہ میں بھی ہے تفصیلی بحث فی الحال میسر نہیں ہے،اس سلسلہ میں متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔
علم نجوم و فلکیات
امام صادق علیہ السلام نے علم نجوم و فلکیات کے بارے میں بھی مستعد شاگردوں کی تربیت فرمائی ہے چنا نچہ آپ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات و افاضات کی بدولت اس علم میں بھی نہایت اہم کارنامے انجام دئے،رصد،تنجیم،تقویم، اور علم نجوم کے دیگر فروعات میں گرانقدر کتابیں تألیف و تصنیف کی،رصد خانے اورتجربہ گاہیں تأسیس کئے ․․․
امام صادق علیہ السلام کے شاگرد ابواسحاق ابراہیم بن حبیب الفزازی (متوفی ۱۶۱ھ)نے اسطرلاب۱۹ کے سلسلہ میں نہایت گرانقدر کتابیں تحریر کی،جس میں کتاب العمل بالاسطرلاب ذوات الحلق اور کتاب العمل بالاسطرلاب المسطح،قابل ذکر ہیں۔
دوسرے شاگرد احمد بن حسن بن ابی الحسن الفلکی الطوسی ہیں ،جنہوں نے علم فلک میں مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ اسی نام سے مشہور بھی ہوئے،متعدد کتابیں تحریر کی،علم نجوم میں آپ کی کتاب ریحانۃ المجالس و تحفۃ المؤانس، قابل ذکر ہے؛سید ابن طاؤوس نقل کرتے ہیں:ابن أبی الحسن فلکی کی کتاب فرج المہموم کا خطی نسخہ میرے پاس موجود ہے،جس میں انہوں نے کواکب اور اس کے اسرار و رموز کے بارے میں لکھا ہے․․․
دوسرے شاگرد محمد بن مسعودتمیمی ہیں جن کے بارے میں ابن ندیم کاکہنا ہے:من فقہاء الشیعۃ الامامیۃ․․․،اور جو علم و حکمت و وسعت معلومات میں یکتائے روزگار تھے،آپ نے بھی جہاں علم طبّ، علم قیافہ و نفسیات ․․․وغیرہ کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں،وہاں ان کی کتاب النجوم و الفأر نہایت گرانقدر ہے۔
․․․اسی طرح سے اگر صرف نام پر ہی اکتفاء کیا جائے تو ان فہرست کئی صفحوں پر تمام ہوگی․․․!
حرکت اور کرویت زمین
حالانکہ حرکت زمین کے نظریہ کی نسبت گالیلؤ(1642)،یا اس سے بھی پہلے کپلر(1631)یاکوپرنیک(1543)کی طرف دی جاتی ہے ،اور کرویت زمین کو کسی ملا ّح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے؛اور یہ نسبت مغربی دنیا کی حد تک صحیح بھی ہے،لیکن اگر اسلامی دانشمندوں کے آثار میں ملاحظہ کریں تو اس قسم کے جدید نظریات ان کی کتابوں میں پہلے سے پائے جاتے تھے۔
امام صادق علیہ السلام کے اپنے شاگردوں،یا بعض ہمعصر دانشمندوں،خاص طور سے حماد و أزدی سے منقول،امامؑ اورہشام الخفاف کے درمیان علمی مباحثات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ۱۳۰۰سال پہلے بھی دانشگاہ امام صادق علیہ السلام میں زمین اور سورج کی حرکت اور کرویت کے بارے میں بحث و گفتگو ہوا کرتی تھی،ان کا نظریہ یہ تھا کہ زمین گول ہے جو اپنے گرد چکّرلگاتی ہے اور گردش لیل و نہار زمین کی حرکت کے سبب ہے،نہ کہ سورج کے؛آپ سورج کی حرکت کو مستدل طریقہ سے محال ثابت کرتے ہوئے ۲۰فرماتے ہیں کہ زمین کی اپنے گرد حرکت کی وجہ سے زمین کا نصف حصہ روشن اور دوسرا حصہ اندھیرے میں ڈھکا ہوتا ہے ․․․
علم طب اور دانشگاہ امام صادق
امام علیہ السلام کے شاگرد وں نے طب کو فروغ دینے کے سلسلہ میں بھی نہایت گرانقدر سرمائے عالم بشریت کو دیئے ہیں،جسے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں اکٹھا کیا جیسے علامہ مجلسی نے بحار الانور میں ،شیخ حر ّ عاملی نے وسائل الشیعہ میں ․․․اور دیگر کتابوں میں بھی درد و امراض کے علاج ،خواص اشیاء اور ان کے فوائد،طبائع و مزاج، پرہیز، عوامل امراض،اشیاء کے منافع ومضرات․․․کے سلسلہ میں احادیث و اقوال درج ہیں، جیسے کافی ،تہذیب الاسلام مجلسی وغیرہ ․․․ اور بعض علماء نے توطب میں مستقل طور پر ، طب الصادق یا طب الائمۃپرانسائکلوپیڈیا تیار کئے ہیں۔
ابن ماسویہ اپنے زمانے کا مشہورطبیب امام ؑ کی خدمت میں ز انوئے ادب تہہ کرتا ہے، اور طبّ و حکمت کے سلسلہ میں آپ کے خرمن علم سے فیضیاب ہوتاہے،ایک مرتبہ ابو ہفان اور ابن ماسویہ کے درمیان طبائع کے سلسلہ میں علمی مباحثہ کے دوران ، ابو ہفان نے ا مام ؑ کی تعلیم کردہ تشریح کو بیان کیا تو ابن ماسویہ خوشی سے کھڑے ہوکر کہنے لگا،اعدّ علیّ، فواللّہ ما یحسن جالینوس ان یصف ہذا الوصف ۲۱
اپنے زمانے کا مشہور و معروف طبیب المنصور امامؑ کی خدمت میں آتاہے، طبّ وحکمت کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے،امام ؑ اس سے فرماتے ہیں: تمہیں کیا لگتا ہے،میں نے کہیں طبّ پڑھا ہے؟ جواب دیا:ہاں، بالکل! فرمایا:نہیں خدا کی قسم!․․․ اچھا یہ بتاؤ طب کے سلسلہ میں تم زیادہ جانتے ہو یا میں؟ کہا:تب تو میں زیادہ جانتا ہوں؛امامؑ نے فرمایا: پوچھوں؟کہا:پوچھئے․․․؛ امامؑ نے تقریبا ۲۰ سوال کئے اور وہ کسی کا جواب نہ دے سکا؛ اس کے بعد امامؑ نے شرح و تفصیل کے ساتھ ایک ایک کا جواب بتا یا جوکتب مآخذمیں مذکور ہے؛
اس سلسلہ میں عین احادیث کا ذکر کرنا مقصود نہیں، ورنہ یہ تحریر کتاب کی صورت اختیار کرجائے گی،حسن ختام کے طور پر بس ایک حدیث پر اکتفاء کرتے ہوئے بلا ترجمہ نقل کررہے ہیں:سالم الصریر سے روایت ہے کہ ایک نصرانی نے امام ؑسے اعضاء جسم کے بارے میں سوال کیا،تو امام ؑنے فرمایا:
ان اﷲ تعالی خلق الانسان علی اثنی عشر وصلا، و علی مائتی و ستة و اربعین عظما،و علی ثلاثة مائة و ستین عرقا، فالعروق هی التی تسقی الجسد کله،و العظام تمسکها،الشحم تمسک العظام،والعصب یمسک اللحم،و جعل فی یدیه اثنین و ثمانین عظما،فی کل ید واحد و اربعون عظما،ومنها فی کفه خمسة و ثلاثون، و فی ساعده اثنان، و فی عضده واحد، و فی کتفه ثلاثة و کذالک الاخری․․․و فی رجله ثلاثة و اربعون عظما، منها فی قدمه خمسة و ثلاثون عظما، و فی ساقه اثنان، و فی رکبته ثلاث، و فی فخذه واحد، وفی ورکه اثنان، و کذالک فی الاخریٰ․․․ و فی صلبه ثمانی عشرة فقارة، و فی کل واحد من جنبیه تسعة اضلاع، و فی عنقه ثمانیة، وفی رأسه ستّة و ثلاثون عظما، و فی․․․ الحدیث ۲۲
حوالے
۱ : Renaissance : نشاۃ ثانیہ، نیا جنم․․․ ؛(قرون وسطیٰ کے جہل و جمود و تعصب کے پر ہول گھٹن سے عاجز آکر سترہویں صدی میں مغرب کے دانشمندوں اور سائنسدانوں نے اس جہل و جمود کے خلاف ایک ہمہ گیر ثقافتی ،سماجی․․․انقلاب برپا کیاجسے نشاۃ ثانیہ(Renaissance) کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔اس سلسلہ میں ڈکارٹ(Descartes )گالیلؤ(Galileo) کپلر(Kepler) کپرنیک(Copernicus) فرانسیس بیکن(Francis Bacon)ویلیام گیلبرٹ(William Gilbert)اوراسحاق نیوٹن(Isaac Newton)جیسے دانشمندوں کا نام قابل ذکر ہے ۔البتہ یاد رہے کہ یہ نیا،جنم صلیبی جنگوں کے دوران اسلامی علماء و حکماء کی کتابوں کے ترجموں کا مرہون منّت ہے۔)
۲ : پارہ ۳۰، سورۂ علق/۱ ۵؛ (پڑھو!اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا،اس نے انسان کو خونِ بستہ سے پیدا کیا،پڑھو!اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی،اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں کانتا تھا)
۳ :پارہ ۲۸ ،سورۂ جمعہ/۲؛ (وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک و پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس پہلے یہ صریح گمراہی میں تھے)
۴: بحار الانوار ،ج۱،ص۱۷۷؛غوالی اللئالی،۲،ص۳۲۔(علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وزن پر واجب ہے۔)
۵:میزان الحکمۃ ، باب ع (علم)۔(جھولے سے قبر تک علم حاصل کرو۔)
۶: بحار الانوار ،ج۱،ص۱۷۷۔(علم حاصل کرو چاہے گہرائیوں کی تہہ میں جانا پڑے اور چاہے خون بہانا پڑے۔)
۷:بحار الانوار،ج۱،ص۱۸۰؛(علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔)
۸:میزان الحکمۃ ، باب ع (علم)۔(علم حاصل کرو چاہے کافر/منافق/مشرک سے ہی کیوں نہ ہو۔)مختلف احادیث کے مختلف الفاظ
۹:بحار الانوار ،ج۱،ص۱۶۸۔(علم مومن کا گمشدہ ہے جہاں مل جائے لے لو۔)
۱۰:جناب فیروز حیدر صاحب مرحوم،(نقل از شہید مطہری)
۱۱:بحار الانوار،ج۲،ص۱۵۸؛کافی،ج۱،ص۴۶۔(جو علم حدیث دنیا کے خاطر سیکھے اسے آخرت میں کچھ نہیں ملے گا،اور جو آخرت کے لئے سیکھے خدا اسے خیر دنیاو آخرت عطاء کریگا۔)
۱۲:ازمقدمۂ محمد عبد المنعم الخفاقی استاد جامعہ الازہر بر کتاب الامام الصادق کما عرفہ علماء الغرب، (فضیلت،علم،عبادت اور تقواے الہی میں امام جعفر صادق ؑ سے افضل نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے،نہ کسی کان نے سنا ہے ،نہ کسی کے ذہن میں خطور ہوا ہے)
۱۳:یوں تو امام ؑہر زبان جانتے تھے،لیکن کتابوں امام ؑسے دوسری زبانوں میں اقوال بہت محدود ہیں پھر بھی فارسی،عبری،نبطی اور چند دیگر زبانوں میں بھی آپؑ کے مکالمات کتب میں درج ہیں،(رجوع کریں:بصائر الدرجات،الاختصاص،بحارالانوار،المناقب،الدمعۃ الساکبۃ․․․)
۱۴:جسے نورالدین آل علی نے عربی میں ترجمہ کیا اور مشہورو معروف ادیب استاد ودیع فلسطین نے اس کی تصحیح کی ، یہ ترجمہالامام الصادق علیہ السلام کما عرفہ علماء الغرب نامی کتاب کی شکل میں شائع بھی ہوا،فارسی ترجمہ استاد ذبیح اﷲ منصوری نے کیا۔علمی کمیٹی کے افراد کے نام مذکورہ کتاب میں ان کے مختصر بایوڈیٹا کے ساتھ درج ہے۔
۱۵:نقل از ابن خلکان فی احوال الصادق ۱:۱۵۰، وکتاب الفہرست․․․( جناب جابر ابن حیان نے علم کیمیا کے علاوہ دیگر علوم میں بھی جیسے طبّ،فلسفہ،کلام․․․کے سلسلہ میں بھی بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں)
۱۶:سیرۂ امام صادقؑ در آثار علامہ حسن زادہ آملی ،ص۸۵
۱۷: جوزف پرسٹیلی(173 3- 1804) پہلے راہب تھا،لیکن علم و دانش کا ایسا شیدائی ہوا کہ اس نے رہبانیت کے لباس کو اتار پھینکا، کتابخانوں اور آزمایشگاہوں کو اپنا مسکن بنالیا،شب و روز تحقیق اور مطالعہ میں گذارا کرتا تھا،اور اپنے تحقیقات کو آیندہ نسلوں کے لئے مسودوں میں لکھا کرتا تھا،لیکن یہ بھی دیگر بہت سے سائنسدانوں کی طرح کلیسا کے مذہبی شرپسندوں کے غیظ و غضب کا شکار ہوا،چنانچہ اس کاگھر مسمار کردیا گیا،سارے مسودے جلاکے راکھ کر دئے گئے،اور پرسٹیلی کو جان بچاکر مجبورا وطن چھوڑ کر انگلستان سے امریکاجانا پڑا،اس دانشمند نے اپنے آخری ایام کسی دورافتادہ قلعہ میں عالم عزلت میں گذارے․․․
۱۸: افسوس ہے جب مغرب کے سائنسداں کسی چیز کا انکشاف کرلیتے ہیں،تب ہمیں ہوش آتاہے کہ اسکا اشارہ تو ہماری کتابوں میں بھی موجود ہے!ہم اگر اپنے متو ن کے سلسلہ میں جمود کو چھوڑ کر تحقیق و کاوش و تجربہ کی روش اپنائیں تو ہمیں افسوس نہ کرنا پڑے؛ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :إنّ الماء الذی یطفی النار،یستطیع ان یوقدہا بفضل العلم؛پانی کو جلایا جاسکتاہے،کیونکہ پانی مجموعہ ہے اوکسیجن اور ہیڈروجن کا،اورہیڈروجن نہایت سریع اور شدید الاشتعال مادہ ہے،لیکن پانی سے چلنے والا انجن ممکن ہے پہلے غیر مسلم ہی بنائیں!
۱۹: '' اسطرلاب ''اسطر :+ لابون: سے مرکب ،یونانی لفظ ہے ،جس کے معنی ہیں:ستارہ کا آئینہ،(اسطر:ستارہ ، لابون:آئینہ)کہا جاتا ہے یہ لفظ در اصل فارسی کے لفظ''ستارہ یاب ''سے لیا گیا ہے۔
۲۰: استدلال،کتب مصادر میں بطور تفصیل درج ہے؛ اصل مباحثہ کو،اس مختصرمقالہ میں نقل نہیں کیا جاسکتا، تفصیل کے لئے کافی ج۸ ص ۳۵۱،المناقب ج۴ص۲۶۵پر رجوع فرمائیں
۲۱:ذرا پھر سے بیان کرو(شاید تحریرکرنے کے لئے)خدا کی قسم اس سے بہتر تو جالینوس نے بھی بیان نہیں کیا(جالینوس طبّ کی دنیا میں افسانوی مہارت رکھنے والانہایت حاذق یونانی طبیب تھا)
۲۲:المناقب ،ج۴،ص۲۵۵ ۲۵۶