"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " صنائعنا" کا تحقیقی جائزہ(پہلا حصہ)
بسمہ تعالی
مقدمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لاہلہ والصلوات لاہلھا
امابعد اگرچہ بعض مرتبہ ہرچیز کی بحث عموم الناس کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ" لکل قول مقال " ہر قول کے لئے ایک خاص محل وموقع ہے یا معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں" کلموالناس علی قدر عقولهم "لیکن مذکورہ عنوان میں جوکلمات ہیں کچھ ایسے ہیں جو بہت سوں کے لئے مورد سوال بنے ہوئے ہیں اور انٹر نیٹ پر کئی مقاصد کے لئے ردوبدل ہوتے نظر آتے ہیں ،مخالفین شیعہ سے لیکر خودبعض شیعہ حضرات کو یہ کلمات( جو معصومین علیھم السلام کی زبان مبارک سے نکلے ہیں )کے معنی و مفہوم کو صحیح نہ سمجھنے کی وجہ سے مورد سوال اور آج کل مورد نزاع بھی بنے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں یہ بات نئی نہیں بلکہ زمان ائمہ علیھم السلام سے لیکر اب تک اسم قسم کے سلسلے جاری رہے ہیں تو ایک طرف وہ حضرات جو معصومین علیھم السلام کو عام دیگر لوگوں کی طرح قرار دیتے ہیں ان کے لئے یہ کلمات باعث الجھن بنیں تو دوسری طرف بعض حضرات انہی کلمات کی تفسیر میں کچھ افراط کرنے لگے اسی وجہ سے ہم نے اس تحریر کے ذریعے ان کلمات کے اصل معنی ومفہوم کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ سعی بھی کی ہےکہ ان کلمات کو خود معصومین علیھم السلام کے کلام کی روشنی میں تفسیر وتشریح کریں۔ امید اور دعاءہے کہ خداوند ہماری اس مختصر سعی وتلاش کوتمام ترکمی وکاستی کے باوجود قبول ومنظور فرمائے " آمین (الاحقر الحافظی )
لفظ "صنائع" لغت میں
سب سے پہلے ہمیں ان کلمات کے معنی ومفہوم کو سمجھنا ہوگا اور تاکہ ان کلمات کے صحیح معنی اور تفسیر وتشریح کرنا ہمارے لئے آسان ہوجائے ۔تمام اہل لغت نے اس کلمہ کو " صنیعة " کا جمع بیان کیا ہے جس کا معنی کسی نے "مخلوق " نہیں لیا ہے بلکہ اس کے معنی کو تربیت یافتہ ،اورنعمتوں سے نوازا ہوا "منتخب " وغیرہ قرار دیے ہیں ذیل میں بعض لغت کی کتابوں سے اس لفظ کے معنی کو بیان کرینگے۔
کتاب مفردات راغب اصفہانی میں اس طرح ذکر ہوا ہے" قال الراغب : (الاصطناع في المبالغة في اصلاح الشيء وقوله ( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي ) راغب نے کہا " اصطناع( جو مادہ صنیعۃسے ہے) کسی چیز میں اصلاح اورتربیت کے کمال کرنےکو کہا جاتا ہے جیسا کہ خدواوند کا ارشاد ہے "اور میں نے تمھاری اصلاح اور تربیت کی اپنے لئے یا تمھیں اپنے لئے انتخاب کیا ہے"
کتاب " معجم المعاني الجامع "میں اس طرح ذکر ہوا ہے : صَنيعة: ( اسم ) الجمع : صنيعات و صَنائِعُ ،الصَّنِيعَةُ : كلُّ ما عُمِلَ من خيرٍ أَو إِحسان والجمع : صَنائعُ هو صَنيعة فلان : ثمرة تربيته وربيب نعمته" صنعیۃ اسم ہے اور اس کی جمع صنیعات اور صنائع ہے اور صنیعۃ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس پر احسان کیا گیا ہو اور نیکی کی گئی ہو صنائع یعنی کہا جاتا ہے وہ فلان کی صنیعہ ہے یعنی اسکی کی تربیت کا ثمرہ ہے اور اس کی نعمت کا پروردہ ہے-
کتاب" قاموس المعاني" میں یوں بیان ہوا ہے"صَنِيعَةٌ کی جمع صَنَائِعُ ہے اور یہ مادہ ( ص ، ن ، ع) سے ہے 1:- مثلا کہا جاتا ہے قَدَّمَ لَهُ صَنِيعَةً لَنْ يَنْسَاهَا اس پر ایسا احسان اور فضل کیا گیا ہے قابل فراموش نہیں ہے 2:- هُوَ صَنِيعَتِي :- : أَيْ أَنَا الَّذِي رَبَّيْتُهُ وَاصْطَنَعْتُهُ ۔ یعنی میں ہوں جس سے اس کی تربیت کی اوراس کا انتخاب کیا ،ان کے علاوہ تمام مشہور اہل لغت علماء نے اپنی کتابوں جیسے "قاموس المحيط للفيروز آبادي " لسان العرب لابن منظور ""تاج العروس مع القاموس " وغیرہ میں بھی اسی معنی کے ذریعے ان کلمات کی توضیح اور تشریح کردی گئی ہیں ۔مزید برآں عرف میں بھی یہ کلمات استعمال ہوتے رہتے ہیں جیسے آج کل عربی میڈیا پر"داعش " بارے میں یہ کلمات واضح طور پر سامنے آتے ہیں "الداعش صنيعة الشيطان الاكبریا الداعش صنيعة الامریکا " یعنی داعش شیطان یا امریکہ کے تربیت یافتہ ہیں کیونکہ امریکہ جو حقیقت میں شیطان بزرگ ہے اس خیثة اور منحوس گروہ کو ہرقسم کے سپورٹ کرکے آج دنیا کے سامنے دین مبین اسلام کو بدنام کرنے لئے استعمال کررہا ہے حقیقت میں اس گروہ کے ولی نعمت اسرائیل وامریکہ ہیں- اب یہان تک لفظ " صنائع " کامعنی کسی حد تک واضح ہوجاتا ہے "جس کےمعنی تربیت یافتہ یا انتخاب شدہ یا نعمتوں سے پرورش پالنے والے ہیں"
"نحن صنائع اللہ" یا" ربنا ""و المخلوق بعد صنائع لنا "یا "صنائعنا" وغیرہ کے کلمات معصومین علیھم السلام کے کلام میں
یہاں ہم مختصر طور پر مذکورہ جملے کو جزئی اختلاف کے ساتھ جن معصومین علیھم السلام کے زبان مبارک پر جاری ہوئے ہیں ان کا تذکرہ کرینگے اور اصل روایت کا عربی متن حاشیہ میں ذکر کرینگے اہل تحقیق حضرات مراجعہ کرسکتے ہیں
1:-پہلامقام: حضرت ختم الرسل فخرانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت عضمت وطہارت علیھم السلام کی فضیلت اور مقام کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا " ثم خلق الله الخلائق من نورنا فنحن صنائع الله ، والخلق كلهم صنائع لنا"(1) یعنی پھر خداوند متعال نے تمام خلائق کو ہمارے نور کے توسط سے خلق فرمایا پس ہم خداوند کے متنحب اور پرورش و تربیت یافتہ ہیں اور باقی سارے مخلوقات اور ممکنات ہمارے توسط سے پرورش اور تربیت یافتہ ہیں "
2:- دوسرامقام : حضرت سیدالاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے بنی ہاشم خصوصا اہلبیت عصمت وطہارت کے مقام ومنزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ جملہ استعال فرمایا جب معاویہ ابن ابی سفیان نے آپ علیہ السلام کو خط لکھا جس میں یہ مضمون تھا یہ آپ پر فلان اور فلان فضیلت رکھتے ہیں اور مقدم ہیں تو امام علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں ایک خط لکھا جو نہج البلاغہ کے خطوط میں 28 ویں خط کی صورت میں موجود ہے جس میں امام علیہ السلام نے فرمایا " فدع عنك من مالت به الرمية. فإنّا صنائع ربّنا والناس بعد صنائع لنا."(2) اے معاویہ چھوڑیں ایسی باتوں کو تمھاری تیر خطاء گئی ہے بتحقیق ہم اپنے پروردگار کے براہ راست تربیت یافتہ اور نعمت دریافت کرنے والے اورمنتخب ہیں اورلوگ ہمارے تربیت یافتہ ہیں یعنی ہمارے واسطے سے تربیت اور نعمت پانے والے ہیں"
3:- تیسرا مقام :حضرت خاتم الاوصیاء ، ولی العصر والزمان عج اللہ فرجہ الشریف نے اس وقت ایک توقیع مبارک کے ذریعے اہل بیت علیھم السلام کے مقام ومنزلت کو بیان فرمایا جب حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد جانشین امامت کے حوالے سے فتنہ کھڑا ہوا اور مختلف شیطان صفت لوگوں نے شک وشبہات کی آگ بھڑکائی تو آپ نے تمام شیعیان جہان کو اس توقیع مبارک کے ذریعے پیغام دیا اور اس میں یہ جملہ پایا جاتا ہے " ونحن صنائع ربّنا، والخلق بعد صنائعنا."(3) یعنی ہم اپنے پرودرگار کے تربیت یافتہ اور براہ راست نعمتوں کو دریافت کرنے والے ہیں اور باقی مخلوقات بعد میں ہمارے تربیت یافتہ اور ہمارے توسط سے نعمتوں کو دریافت کرنے والے ہیں
صنائع کے معنی کی تفسیر میں اختلافات
کلمہ "صنائع" اپنے ضمن میں بہت سارے اسرار کے حامل ہونے کے سبب بہت سارے لوگ اس کلمے کی تفسیر میں گومگو کےشکار ہوئے ہیں ،ہم یہاں پر بعض کا تذکرہ کرتے ہیں
1:- پہلا معنی :" بعض نے" صنائع " کا معنی "مصنوعات" لیا یعنی مخلوق کے ذریعے تفسیر کی اور اس کے مطابق معنی اس طرح بنے گا " ہم خدا کے مخلوق ہیں اور باقی لوگ ہمارے مخلوق ہیں یعنی ہمیں براہ راست خدا نے خلق کیا ہے اور باقی لوگوں کو خدا کے اذن سے ہم نے خلق کیا ہے اس بات کو یقین کامل کے ساتھ یاسر الحبیب نے اختیار کیا ہے اہل تحقیق حضرات انکی آفیشل سائٹ القطرہ پر مراجعہ کرسکتے ہیں- پس معلوم ہوتا ہے" صنائع لنا "کی تفسیر میں بعض افراد کی طرف سے افراط واضح طور پر سامنے آتا ہے جس کا معنی مخلوق اورخلق سے لیا گیا ہے جومشہور لغت کے اعتبارسے بھی صحیح نہیں ہے اور نص قرآنی کے بھی خلاف ہے جیسا کہ خدوند متعال نے یہ کلمہ حضرت موسی کے لئے استعمال کیا ہے " وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسي"(سورہ (طه آیت 41) یعنی میں نے تمھیں اپنے لئے پرروش اور تربیت کی ہے یہاں معنی خلقتک لنفسی کے معنی میں نہیں ہے اس کے علاوہ توحید خالقیت میں جتنی بھی آیات ہیں وہ اس معنی کے منافی بھی ہیں
2:- دوسرا معنی: ہم خدا کے لئے خلق ہوئے ہیں اور باقی مخلوقات ہمارے لئے خلق ہوئے ہیں دوسرے الفاظ میں " عبید یا عبد " جس کا معنی بندہ یا غلام کے ہیں اس معنی کے مطابق مذکورہ کلمات کے معنی اسطرح ہوگا " ہم خدا کے بندے ہیں اور باقی مخلوقات اور لوگ ہمارے بندے ہیں اس معنی میں بھی اشکال وارد ہوتی ہے اور پہلے معنی سے زیادہ مختلف نہیں ہے حقیقت میں نہج البلاغہ کے خط کی تشریح میں" عبید "کی تعبیر سب سے پہلے ابن ابی الحدید المعتزلی نے کی ہے وہ کہتا ہے " یہ ایک عظیم کلام ہے جو دیگر کلاموں سے بلند اور اسکے معانی دیگر کلاموں کے معانی کے مقابلے مین اعلی ہیں." صنیعۃ الملک "بادشاہ کا منتخب کردہ وہی ہوتا ہے جسے وہ چنے اور اسکی شان بلند بڑہائے"فرماتے ہیں. " انسانوں میں سے کسی کی ہم پر کوئی نعمت نہین ہے.بلکہ یہ صرف اللہ عزوجل ہے جس نے ہمین اپنی نعمت سے نوازا ہے . پس ہمارے اور اسکے درمیاں کوئی واسطہ نہیں اور باقی سارے لوگ ہمارے تربیت یافتہ ہیں. ہم لوگوں اور خدا کے درمیاں وسیلہ ہین" ( یہ باعزت کلام ہے جسکا ظاہر تم نے سنا. مگر اسکا باطن یہ ہے کہ یہ اللہ کے مطیع بندے ہین. اور لوگ ان کے مطیع بندے ہیں ہیں) "(4) یہاں پر ایک روایت جو امام رضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ذکر وں تاکہ ہم اس معنی کو بھی اس کے ذریعے رد کرکے تیسر ے معنی کی طرف جائینگے
عیون اخبار الرضاء علیہ السلام میں ایک روایت اباصلت سے نقل ہوئی ہے اباصلت امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اے فرزند رسول یہ کیا چیز ہے جو لوگ آپ سے نقل کرتے ہیں ؟ امام نے فرمایا " کیا چیز؟" اباصلت نے عرض کی " آپ نے فرمایا ہے کہ سارے لوگ آپ کے بندے ہیں " امام علیہ السلام غضبناک ہوئے اور فرمایا ""اللَّهُمَّ فاطِرَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ عالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهادَةِ أَنْتَ شَاهِدٌ بِأَنِّي لَمْ أَقُلْ ذَلِكَ قَطُّ وَ لَا سَمِعْتُ أَحَداً مِنْ آبَائِي عليهم السلام قَالَ قَطُّ وَ أَنْتَ الْعَالِمُ بِمَا لَنَا مِنَ الْمَظَالِمِ عِنْدَ هَذِهِ الْأُمَّة وَ انِّ هَذِهِ مِنْهَا"خدواند متعال خالق زمین وآسمان ہے اور عالم غیب ،حاضر ہے تم گواہ ہو کی میں کبھی اسطرح کا کچھ نہیں کہا اور نہ میں نے کبھی اپنے کسی اباء واجداد سے اس طرح کاسنا ہے اور تم جانتے ہو کہ اس امت نے ہمارے اوپر کیا یا مظالم روا کررکھی ہے اور یہ بھی انہی مظالم میں سے ہے"
3:-تیسرا معنی :" تربیت یافتہ " پرورش کردہ " "نعمتوں کا پانے والا " انتخاب شدہ" مورد عنایت " یہ معانی مختلف تعبیروں کے باوجود ایک مصداق پر دلالت کرتے ہیں اگر ہم مذکورہ جملے کو معصومین علیھم السلام کے ذکر شدہ روایات کو سامنے رکھ کر دقت کریں تو مقام و مقال کے قرینےسے اس معنی کی تائید ہوتی ہے ساتھ ساتھ یہ لفظ صنائع کی لغوی مشہوری معنی کے مطابق بھی ہے اب اس معنی کے مطابق جہاں ائمہ معصومین علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے منصوص من اللہ ہونا بھی اسی کلمات عالیہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اب جہاں بعض افراد جو پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کو صرف تبلیغ دین اور ہدایت میں منحصر کرتے ہیں ان پر بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے نہ صرف ان چیزوں میں محدود نہیں بلکہ موجودات کے ذرہ ذرہ کے اسباب اور وجہ بقاء بھی معصومین علیہم السلام ہیں اوراسی طرح کائینات کی بقاء کے لئے بھی ان میں سے کسی کا وجود ضروری ہے کیونکہ یہ وہ ذوات مقدسات ہیں جو فیض الہی مخلوقات تک پہنچانے کے واسطے اور وسیلے ہیں چاہیے وہ فیض معنوی ہوں یا مادی " پس معصومین علیھم السلام کے مذکورہ جملوں کا مطلب یہ ہے کہ" خداوند متعال ہمارا منعم ہے براہ راست کسی مخلق کے واسطے کے بغیر لکن باقی تمام لوگ ہر طبقے اور گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں توخدا کی نعمت ان تک پہنچنے کے لئے ہم واسطہ ہیں ان لوگوں اور خدا وند کے درمیان اس لحاظ سے ہم ان کے منعم بھی ہیں اور یہ نسبت صحیح بھی ہے" اس سلسلے کی تائید کے لئے ایک روایت نقل کرتے ہیں" معصوم فرماتے ہیں" ما من ملك يهبطه الله في أمر مما يهبط له إلا بدأ بالامام فعرض ذلك عليه " کوئی بھی فرشتہ ایسا نہیں ہوتا جو کسی ماموریت سے نازل ہوتا ہے مگر پہلے امام کی خدمت میں حاضر ہوکر وہ ماموریت پیش کرتا ہے وإن مختلف الملائكة من عند الله تبارك وتعالى إلى صاحب هذ الامر " فرشتے خدا کی طرف سے اترنے کا مقام صاحب الامر کی بارگاہ ہوتی ہے(1) اس بنا پر ان فیوضات الہی سے استفادہ جو مادی اور معنوی صورت میں ہوتی ہیں ولی اور حجت خدا کی زیرنظر اور اس کی اجازت سے ہوتا ہے اگر انہوں نے کسی مورد میں اجازت دی تو فرشتے بھی اس مورد میں نازل ہوتے ہیں اور اگر مصلحت نہیں سمجھی تو نازل نہیں ہوتے ہیں اس حساب سے ائمہ اطہار علیھم السلام ان نعمتھائی الہی کے اولیاء ہیں جو اس نظام ہستی میں پھیلی ہوئی ہیں اورہر کوئی ان فیوضات سے بہرمند ہوتے ہیں"
آیت اللہ جوادی آملی (حفظہ اللہ ) اپنی کتاب" ادب فناي مقربان، کی پہلی جلداورصفحہ نمبر 229" پر جو "زیارت جامعہ کبیرہ"کی شرح ہے" ائمہ اطہار علیھم السلام کے ولی نعمت ہونے کے متعلق تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا ہے ۔ خلاصہ کے طور پر ہم اس طرح پیش کر سکتے ہیں کہ "اولیاءنعمھم " یعنی" ان کی نعمتون کے اولیاء" اس میں دونوں قسم کی نعمتیں(مادی او رمعنوی) شامل ہیں اور فیوضات الہی وہی مادی اور معنوی نعمتیں ہیں جن کو ملائکہ کے ذریعے سے جو"مدبرات امر(سورہ نازعات آیت 5" ہیں( یعنی نظام کائینات کو چلانے کے لئے مامور ہوتے ہیں)بندگان اور مخلوقات اور موجودات تک پہنچادیتے ہیں تو ہرزمانے میں ایک ولی اور حجت خدا ہوتا ہے اور تمام ملائکہ کو خداوند نے اپنی بے پایاں حکمت کے تقاضے سے اس ولی کے زیرفرمان قرار دیا ہے لہذا ملائکہ ہرکام کو انجام دینے سے پہلے خدا کے اسی ولی یا حجت کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہیں اور ان کی اجازت سے اپنی ماموریت کو انجام دیتے ہیں اسی زیارت جامعہ کبیرہ کے دیگر کلمات سے بھی ائمہ طاہرین علیھم السلام کے ولی اور اور واسطہ الہی ہونے کی صراحت طور پر تائید ہوتی ہے ہم صرف مثال طور چند جملے یہاں نقل کرتے جیسے "موضع الرسالة" "مختلف الملائكة""مهبط الوحى"" خزّان العلم"" أبواب الإيمان"" محالّ معرفة الله""معادن حكمة الله"" حفظة سرّ الله"" حملة كتاب الله"" أوصياء نبىّ الله"" الدّعاة إلي الله، الأدلاّء علي مرضات الله"" المظهرين لامر الله ونهيه" وغیرہ ساتھ ساتھ ان ذوات مقدسہ کے ولی نعمت مادی ہونے کے بارے میں یہ جملے بھی زیارت جامعہ کبیرہ میں موجود ہیں" بكم ينزّل الغيث، بكم يُمْسك السّماء أن تقع عليَ الأرض إلاّ بإذنه، بكم ينفّس الهمّ ويكْشف الضُرّ، بكم أصلح ما كان فسد من دنيانا" یعنی آپ لوگوں کے توسط سے خداوند بارش برساتا ہے ،اور آپ حضرات گرامی کے توسط سے آسمان زمین پرگرنے سے محفوظ ہے مگر خدا کے اذن سے ، آپ حضرات گرامی کے توسط سے حزن و ملال اورغم دور ہوتے ہیں اور آپ ذوات مقدسہ کے توسط سے ہی ہماری دنیاوی خراب شدہ یا بگڑے ہوئے کام سنورجاتے ہیں " یہی جملے تواتر کی حد تک دیگرمعصومین علیھم السلام کی روایات میں ذکر ہوئے ہیں بعض کا تذکرہ ہم کرینگے
ائمہ معصومین علیھم السلام واسطہ فیض الہی
اعتقادات شیعہ میں سے ایک اہم اعتقاد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام جو ان کے برحق جانشین ہیں وہ " واسطہ فیض الہی "ہیں (6) اس معنی میں کہ کوئی بھی مدد یا رحمت یا قدرت خداوند کی طرف سے تمام موجودات ہستی تک پہنچتے ہیں تو ان مقدس ذوات کے ذریعے سے ہی پہنچتے ہیں اس کی مثال یہ ہے جیسے گھروں میں پینے والے پانی کا منبع اور سرچشمہ سے پائپ لائن کے ذریعے گھروں تک پہچنا ہے اور وہ پائپ لائن اصل منبع اور شرچشمہ سے پانی دریافت کر کے ہرجگے تک پہنچادیتی ہیں(7)
اس بناپر انبیاء اور ائمہ طاہرین علیھم السلام ایسے مقامات پر فائز ہیں کہ خداوند سے فیض کو بغیر کسی واسطے سے دریافت کرتے ہیں لیکن باقی موجودات عالم اس مقام ومرتبے پر نہیں ہیں پس موجودات عالم ان کے اس ولایت کے ماتحت ہیں جو باذن پردگار خود رب العزت کی ولایت کی ماتحت ہے اور ان سے کسب فیض کرتے ہیں ۔اور امام وہ فرد کامل ہے جو تمام عقائد حقہ الہی کے معتقد اور تمام اخلاق وصفات حسنہ سے مزین اور تمام کمالات کو خداوند کی طرف سے کسی انسان میں ممکن ہو تحقق پیدا کرے ان تمام کمالات کے حامل ہیں پس امام فیوض الہی جاری ہونے والے مقام کا نام ہے اور انسان اور عالم غیب کے درمیان واسطہ ہے۔امام یا حجت خدا قافلہ انسانیت کو تکامل تک لے جانے والے قافلے کا سالار ہے اور ضروری ہے انسانوں کے درمیان ہمیشہ اس قسم کا کوئی فرد موجود ہوں اور امام کا مقدس وجود بغیر واسطے کے عالم غیب سے رابطہ برقرار کرتا ہے اور کمالات غیبی کے دروازے اس پر کھلے ہوئے ہیں اور ہمیشہ براہ راست خدا وند کی ہدایت اور ولایت کے ماتحت زندگی گزارتا ہے۔اور یہ اعتقاد بہت ساری روایات سے ماخوذ ہے جو اسی باب میں خود ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی ہیں ان روایات کی تعداد اس حد تک زیادہ ہے کہ اس بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا انہی میں روایا ت صحیح السند بھی ہیں تو ان کو غالیوں کی طرف نسبت نہیں دی جاسکی کیونکہ ان روایات کو نقل کرنے والے ایسے افراد بھی ہیں جو ائمہ علیھم السلام کے تائید کردہ افراد ہیں چند روایات نمونے کے طور پر یہاں ذکر کرتے ہیں
1:-اصول کافی میں ایک روایت اس انداز میں ملتی ہے"خداوند نے ہمیں خلق کیا اور بہترین انداز میں خلق کیا. اور ہمیں شکل و صورت سے نوازا اور بہترین شکل وصورت دے دیاور ہمیں اپنے بندوں میں اپنی آنکھیں قراردیں. اوراپنے خلق میں بولنے کے لئے اپنی زبان قرار دیااوراپنے بندون پر شفقت اور رحمت کرنے کے لئے ہمیں اپنا کھلا ہوا ہاتھ قراردیا ، اور ہمیں اپنا چہرہ کہا جس سے اس کی طرف ایا جاتا ہے.اور ہمیں اپنا دروازہ قراردیا جو اسی کی طرف راہنمائی کرتا ہے. ،اور زمین وآسمان میں ہمیں اپنا خزانہ قرار دیااور ہمارے واسطے سے ہی درخت پھل دیتے ہیں اور میوہ دار ہوتا ہے.اور ہمارے طفیل سے ہی دریائیں چلتی ہیں ، اور ہمارے واسطے سے ہی آسمان بارش برساتا ہےاور زمین سے پودے اگ آتے ہیں اور ہماری عبادت کو کو دیکھ کر اسکی عبادت کی جاتی ہے ، اوراگر ہم نہ ہوتے تو کوئی خدا کی عبادت نہ کرتا"(8)
2:- قال الامام الصادق علیه السلام «لَوْ بَقِيَتِ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَت" امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " اگر زمین بغیر امام کے رہے تو متلاشی ہوگی" یعنی درھم برہم ہوگی (9)
3:- زیارت جامعہ کبیرہ میں یہ جملے ملتے ہیں " أنتم نورالأخیار -------- بکم فتح الله و بکم یختم و بکم ینزل الغیث و بکم یمسک السماء أن تقع علی الأرض إلاّ بإذنه" یعنی آپلوگ ہی منتخب انوار ہیں آپ کے توسط سے خدا نے آغاز فرمایا اور آپ لوگوں کے توسط سے خداوند ختم کریگا ، اور آپ لوگوں کے واسطے سے خداوند بارش برساتا ہے اور آپ لوگوں کے توسط سے ہی آسمان زمین پر پڑنے سے بچا ہوا ہے لیکن اذن پرورگار سے "
4: حضرت ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت علیھم السلام کے حق میں فرمایا ":«بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسک السماء أن تقع علی الأرض إلاّ بإذنه و بهم یمسک الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات" یعنی خدوند متعال نے ان کے توسط سے عذاب کو اہل زمین سے دورکرتا ہے اور ان کے توسط سے ہی آسمان خدا کے اذن سے زمین پر نہیں گرتا اور ان کے توسط سے پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہلتی اور ان کے توسط سے خدا اپنے خلق کے اوپر بارش برساتا ہے اور ان کے واسطے سے پودے اگ آتے ہیں "(10)
پس ان روایات کے ملحوظ نظر رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ معصومین علیھم السلام جو انسان کامل ہیں خدا کے فیض کے واسطے ہیں یعنی خداوند نے پہلے تمام موجودات سے پہلے ان بزرگواروں کے ارواح کو پیدا کیا پھر ان کے توسط سے مس کرتے ہوئے باقی تمام ممکنات کو خلق فرمایا اور یہی وہ مطلب ہے جو " نحن صنائع الله و۔۔۔۔۔" والی روایات دلالت کرتی ہیں ان کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ معصومین علیھم السلام نے دوسری مخلوقات کو خلق کرنا شروع کیا ہو جیسا کہ بعض غالی فکر رکھنے والے سمجھتے ہیں
" لولا الحجة لساخت الأرض بأهلها یعنی"" اگر حجت خدا نہ ہو تو زمین اس پر رہنے والوں کے ساتھ متلاشی ہوجائیگی"
دوسری طرف سے کائنات اور تمام ممکنات اپنی بقاء کے لئے فیض الہی کےمحتاج ہیں اور ایک لحظہ بھی خداوند کے فیض سے محروم ہوجائے تو فناء ہوجائنگے تو یہ ذوات مقدسہ وہی فیض الہی مخلوقات اور موجودات عالم تک پہنچنے کا واسطہ ہیں لہذا ہر زمانے میں اور ہرآن زمین وآسمان سمیت تمام موجودات انکے محتاج ہیں اگر ایک لحظہ بھی ان میں سے کوئی موجود نہ ہوں تو آسمان زمین پر گرسکتا ہے اور زمین بھی متلاشی ہوسکتی ہے اسی بات پر یہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں "
چند روایات ملاحظہ ہو
1:-"نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں" ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں اور میرے اہل بیت اہل زمین کے لئے امان ہیں.اگر ستارے آسمان سے غایب ہوجائیں تو اہل آسمان پر وہ مصیبت آئے گی جو وہ پسند نہیں کرتے. اور اگر میرے اہل بیت زمین سے چلے جائیں تو اہل زمین پر بھی وہ مصیبت آئے گی جن سے وہ لوگ کراہت رکھتے ہیں "(11)
2:- "امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں "زمین خداکے منصوب و معین کردہ حجتوں سے خالی نہیں ہوتی یا ظاہر اور مشہور صورت میں یا غایب اورپنھان صورت میں"(12)
3:-امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے"اگر امام کو زمین سے اٹھالیا جائے تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں سمیت غرق ہو جائےگی جس طرح سمند ر میں غرق ہونے والے موجوں کے درمیان غرق ہوتے ہیں"(13)
ان کے علاوہ بہت ساری روایت انہی مضامین پر موجود ہیں کتب احادیث میں مستقل ابواب کی صورت میں مذکور ہیں ہم انہی چند روایات پر اکتفاء کرتے ہیں
یہاں تک مطالب کے نتائج
مندرجہ بالا بیانات سے ہم چند نتائج اور فائدے ذیل میں درج کرتے ہیں
1:- بتحقیق اہل بیت علیھم السلام عقائد اور اعمال دینی میں کسی بھی شخص کی طرف محتاج نہیں ہیں بلکہ خداوند سے براہ راست وصول کرتے ہیں جبکہ امت اور باقی لوگ ان معاملات میں اہل بیت علیھم السلام کے محتاج ہین
۲:-.خداوند متعال کی نعمتیں اہل بیت علیھم السلام پر بغیر واسطے کے نازل ہوتی ہیں یعنی وہ لوگ فیض الہی کو براہ راست دریافت کرتے ہیں جبکہ باقی انسان اور تمام کائینات کے موجودات اہل بیت علیھم السلام کے واسطے سے خدا وند کی نعمات اور فیض الہی کو دریافت کرتے ہیں اور یہی " صنائع اللہ صنائع ربنا اور والخلق یا والناس بعد صنائع لنا یا صنائعنا "کا صحیح معنی ہے اگر چہ بعض نے ان مختلف تعبیرات کی بھی معانی مختلف کیا ہے لیکن حقیقت میں اگر چہ تعبیرات مختلف ہیں مگر معنی ومراد ایک ہے۔
3:- زمین حجت خدا سے کبھی خالی نہیں ہے کیونکہ اقتضائے مصلحت الہی اس بات پر قائم ہے کہ کائنات کو اپنے فیض پہنچانے نے کے لئے زمین پر اپنا ایک ولی اور حجت منصوب ہوتا ہے حتی ملائککہ بھی ماموریت میں اس کے زیرفرمان ہیں
4:- وجود نازنین حضرت صاحب الامر والزمان عج اللہ فرجہ الشریف کے پردہ غیبت میں ہونے کے فوائد کے بارے میں جو سوالات بہت سوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کے قانع جوابات مذکورہ روایات سے مل جاتے ہیں ساتھ ساتھ امام زما ن عج اللہ فرجہ الشریف ہی روی زمین پر وہ ولی ،حجت خدا ہیں جسکے وہ جود مبارک سے خدا کی فیوضات مخلوقات عالم تک پہنچ رہی ہے اور یہی وہ مقام امامت ہے جس کی معرفت ضروری ہے یہاں پر ہم اس دعا کے ساتھ (اس تحریر کو ایک مطلب کو مکمل کراس ضمن میں دوسرے مباحث کی طرف جاتے) جس کے عصر غیبت میں زیادہ پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے
"اللهم عرفني نفسک فانک ان لم تعرفني نفسک لم اعرف نبيک ،اللّهم عرفني نبيک فانک ان لم تعرفني نبيک لم اعرف حجتک،اللهم عرفني حجتک فانک ان لم تعرّفني حجتک ضللت عن ديني"(14)
حوالہ جات
1:- عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " كنت وعلي نوراً بين يدي الرحمن قبل أن يخلق عرشه بأربع عشرة ألف عام فلم يزل يتمحض في النور حتى إذا وصلنا إلى حضرة العظيمة في ثمانين ألف سنة ثم خلق الله الخلائق من نورنا فنحن صنائع الله ، والخلق كلهم صنائع لنا ."(یہ راویت کم وبیش اختلاف کے ساتھ اہل سنت کی معتبرکتب جیسے مسند امام حنبل میں بھی ذکر ہوئی ہے)
2:- إنّ قوماً استشهدوا في سبيل اللّه تعالى من المهاجرين والأنصار ـ ولكلّ فضل ـ ، حتى إذا استشهد شهيدنا، قيل سيد الشهداء، وخصّه رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله بسبعين تكبيرة عند صلاته عليه، أَوَلاترى أنّ قوماً قُطعت أيديهم في سبيل اللّه ـ ولكلّ فضل ـ حتى إذا فعل بواحدنا ما فعل بواحدهم، قيل: الطيّار في الجّنة وذوالجناحين.ولولا ما نهى اللّه عنه من تزكية المرء نفسه لذكر ذاكر فضائل جمّة، تعرفها قلوب المؤمنين، ولا تمجّها آذان السامعين، فدع عنك من مالت به الرمية. فإنّا صنائع ربّنا والناس بعد صنائع لنا.لم يمنعنا قديم عزّنا ولا عادي طولنا على قومك أن خلطناكم بأنفسنا، فنكحنا وأنكحنا، فعل الأكفاء، ولستم هناك فنحن مرّة أولى بالقرابة، وتارة أولى بالطاعة. ولما احتجّ المهاجرون على الأنصار يوم السقيفة برسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله فلجوا عليهم، فإن يكن الفلج به، فالحقّ لنا دونكم، وإن يكن بغيره فالأنصار على دعواهم تا آخر اس میں بنی ہاشم کے فضائل اور مقام بہت خوبصورت اور جامع انداز بیان فرمائیے ہیں اہل تحقیق حضرات رجوع فرماسکتے ہیں(نهج البلاغة نامہ 28)
3:- عجّل اللّه تعالى فرجه ـ إلى الشيعة قال عليه السّلام: «بسم اللّه الرحمن الرحيم، عافانا اللّه وإياكم من الفتن، ووهب لنا ولكم روح اليقين، وأجارنا وإيّاكم من سوء المنقلب.إنّه اُنهي إليّ ارتياب جماعة منكم في الدين، وما دخلهم من الشكّ والحيرة في ولاة أمرهم، فغمّنا ذلك لكم لا لنا، وساءنا فيكم لا فينا، لأنّ اللّه معنا، فلا فاقة بنا إلى غيره، والحقّ معنا فلن يوحشنا من قعد عنّا، ونحن صنائع ربّنا، والخلق بعد صنائعنا.يا هؤلاء، ما لكم في الريب تتردّدون، وفي الحيرة تنعكسون، أوما سمعتم اللّه يقول: (يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللّهَ وَأَطيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي اْلأَمْرِ مِنْكُمْ)؟! أوَ ما علمتم ما جاءت به الآثار ممّا يكون ويحدث في أئمّتكم، على الماضين والباقين منهم السلام؟!أوَما رأيتم كيف جعل اللّه لكم معاقل تأوون إليها وأعلاماً تهتدون بها، منم لدن آدم عليه السّلام إلى أن ظهر الماضي عليه السّلام؟! كلّما غاب علم بداعلم، وإذا أفل نجم طلع نجم»(2) (2)( الإحتجاج طبرسی 2 / 277، بحار الأنوار 53 / 178)( کتاب الغیبۃ للطوسی، ص ۲۸۵، ح ۲۴۵)
4:- "هذا كلامٌ عظيمٌ عالٍ علي الكلام و معناه عالٍ علي المعانى و صنيعة الملِك مَن يصطنعه الملِك و يرفع قدره. يقول: ليس لأحدٍ من البشر علينا نعمة بل الله تعالي هوالذى أنعم علينا فليس بيننا و بينه واسطةٌ والناس بأسْرهم صنائعنا، فنحن الواسطة بينهم و بين الله تعالي و هذا مقامٌ جليلٌ ظاهره ما سمعتَ و باطنه أنهم عبيد الله و أنّ الناس عبيد هم (شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد، ج 15، ص 132، ذيل نامه 28)
5:- (بحارالانوارجلد26 صفحہ557 اس باب میں ذکر ہوا ہے جس میں آئم معصومین علیھم السلام پر ملائک نازل ہوتے ہیں اس کی ایکسویں حدیث ہے)
6:-. خواجه نصیرالدین طوسی، آغاز و انجام، ص 102.
7:- آیت الله مکارم شیرازی، يكصد و هشتاد پرسش و پاسخ، ص 294
8:- "إن اللّه خلقنا فأحسن خلقنا، وصوّرنا فأحسن صورنا، وجعلنا عينه في عباده، ولسانه الناطق في خلقه، ويده المبسوطة على عباده بالرأفة والرحمة، ووجهه الذي يؤتى منه، وبابه الذي يدلّ عليه، وخزّانه في سمائه وأرضه، بنا أثمرت الأشجار وأينعت الثمار وجرت الأنهار، وبنا ينزل غيث السماء ونبت عشب الأرض، وبعبادتنا عُبد اللّه، ولولا نحن ما عُبداللّه"( اصول كافي ج ا ص 144)
9:- اصول افي، ج 1، ص 179
10:- سید ہاشم بن سلیمان البحرانی، الإنصاف فى النص على الأئمة، ص 483
11:-وقال النبيّ(صلّى الله عليه وآله وسلّم)"النجوم أمان لأهل السماء، وأهل بيتي أمان لأهل الأرض، فإذا ذهبت النجوم أتى أهل السماء ما يكرهون، وإذا ذهب أهل بيتي أتى أهل الأرض ما يكرهون" ( علل الشرائع ج 1ص 123" العلّة التي من أجلها يحتاج إلى النبيّ والإمام"ليهما السلام "(سبط بن جوزى، تذكرة الخواص الامه (ط س 1285) ص 182)
12:- عن امیر المومنین علیہ السلام "لا تخلو الأرض من قائم لله بحجّة، إمّا ظاهر مشهوراً، وإمّا خائفاً مغموراً"(نهج البلاغة ومن كلام له(عليه السلام) لكميل بن زياد)
13:- عن الإمام الباقر(عليه السلام)، قال"لو أنّ الإمام رُفع من الأرض ساعة لماجت بأهلها، كما يموج البحر بأهله"( الكافي 1: 179 الحديث (12) كتاب الحجّة، باب أنّ الأرض لا تخلو من حجّة)
14:- (مصباح المتهجد/411)( الكافي:1/337)