امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

قضاء وقدر الہی(حصہ دوم)

1 ووٹ دیں 05.0 / 5


قضاء وقدر قرآن کریم کی نگاہ میں

گذشتہ بحثوں میں ہم نے قضاءوقدر کے معنی اور مفہوم اور ان کی اقسام  کے اوپر بحث کی آج انشاءاللہ قرآن کی نگاہ میں قضاءقدر  پر کچھ مطالب بیان کرنے   کی کو شش کرینگے
جب ہم قرآن کی آیات  میں غورو فکر اور تدبر کرتے ہیں تو بہت ساری ایسی آیات  ہمارے سامنے آتی ہیں جو قضاءوقدر پر بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں  اور ہم دیکھتے ہیں کہ  قضاءوقدر کے مسئلہ  کو قرآن کریم  میں قضاء وقدر کا مقام بلند وبالا ہے اسی لئے  اس مسئلے کو اہمیت بھی دی ہے  ہم یہاں پر قرآن کی  چند آیات  کو نمونے  کے طور پر پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں  ارباب تحقیق اس باب میں بیشتر ریسرچ کرسکتے ہیں    
 اب جب ہم نےعلماء کلام  اسلامی اور علم عقائداسلامی کے دانشوروں کی پیروی کرتے ہوئے قضاءوقدر کی دوقسمیں   بناکر ان کی وضاحت کر چکے ہیں  پس یہاں پر بھی ہم بعض قرآنی آیات کو انھی  دوقسموں  کے مطابق  ذکرکرینگے


1:- قضاءوقدر علمی  کے بارے میں قرآنی آیات

سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت نمبر 145 میں خداوند ارشاد فرماتا ہے(10) " اور کوئی جاندار اذن خدا کے بغیر نہیں مر سکتا،اس نے (موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے " آیت کے مفہوم کو اگر دوسری عبارت میں بیان کیا جائے  تویوں بنتاہے  خداوندنے موت کی شرائط اوراسباب  ،زمان ومکان  کو معین فرمایا ہے ۔اسی زمان  ومکان اور شرائط  اسباب کے ساتھ موت حتمی ہوتی ہے لھذا خدا وند متعال کے پاس قیام قیامت تک وجود میں آنے والے تما م نفسوں  کی موت اور ان کی شرائط اسباب او رزمان ومکان  کا علم ہے   لوح  محفوظ پر مکتوب  صورت میں بھی موجودہے  یہی عین قضاءوقدر علمی ہے
سورہ مبارکہ حدید کی آیت نمبر22 میں خداوند ارشاد فرماتا ہے(11)" کوئی مصیبت زمین پراور تم پر نہیں پڑتی مگر یہ کہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے، اللہ کے لیے یقینا یہ نہایت آسان ہے"
یعنی ہر مصیبت اس روی زمین پر آتی ہے یا انسانوں کے دامن گیر ہوتی ہے خداوند کے علم اور قضاءوقدر میں پہلے سے محفوظ  ہے  اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی  نے اس عالم کے تمام امور کو اپنی زیر نظر لیا ہوا ہے   چاہے وہ تمام شرائط ،اسباب ، مقدمات کے اعتبار سے ہوں یا  زمان ومکان کےاعتبار سے  پس وہ ذات  وحدہ لاشریک   تمام پیش آنے والے حادثات کو ان کے تمام جزئیات کے ساتھ پیشن گوئی کرسکتا ہے اور اپنے مقرب بندوں کو ان سےآگاہ بھی کرسکتا ہےان آیات سے یہ بھی   معلوم ہوتا ہےکہ قضاءو قدر علمی قرآنی حقائق میں سے ہے  اور یہ بات ناقابل انکار ہے

 

2:- قضاوقدر عینی کے بارے میں قرآنی آیات

قضاءوقدر عینی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی اپنی لاریب کتاب میں ارشاد فرماتا ہے (12)" اور کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھرہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں "دوسری عبارت میں خداوند متعال  اس آیت میں  یہ بیان فرمانا چاہتا ہے کہ ہر چیز کا علم اور خزانہ  ہمارے پاس ہے  اب جب خارج میں وجودی طور پر جب کوئی   چیز عینی صورت میں واقع ہوتی ہے  تو خداوند متعال  ہی  ایک خاص اندازے کے مطابق  جو وہ مصلحت سمجھتا ہے  اسی اندازے اور مقدار میں واقع  ہونے دیتا ہے
مثال کے  طور پر " بارش  برسنا " یا  رزق عطا کرنا یا اس میں برکت وسعت دینا اور ان جیسی سینکڑوں ،ہزاروں ،لاکھوں  دوسرے  امور اور واقعات  جو دنیا میں رونما ہوتے رہے   ہیں یا ہونگے   سب خدا وند متعال کی قضاوقدر کی تحت سلطنت   پیش آتے ہیں  اور خداوند خود مصلحت کے مطابق   اور اسکی قضاو‍ قدر کے پیمانے   کے مطابق  رونما ہوتے ہیں نہ اس سے کم  نہ اس سے زیادہ
دوسر ی آیت میں خداوند ارشاد فرماتا ہے " پھر جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کردیا تو ان کی موت کی خبر بھی جنات کو کسی نے نہ بتائی سوائے دیمک کے جو ان کے عصا کو کھارہی تھی اور وہ خاک پر گرے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے"(13)
دوسری عبارت میں  خداوند نے حضرت سلمان علیہ السلام کی  موت کو حتمی کیا   اور لفظ "قضینا "  اسی قضاء الہی کے حقیقی  معنی میں استعمال ہواہے  اور  اپنے اندرعینیت اور حتمیت   کا معنی لیا ہوا ہے
تیسری آیت  سورہ مبارکہ  مزمل میں خدا وند قدوس ارشاد فرماتا ہے "اور اللہ رات اور دن کا اندازہ رکھتاہے،" (14)
یعنی خدا وہ ہے جو دن اور رات کی گردش کی نظارت کرتا ہے  اور اس کی مدیریت کرتا  ہے یعنی چلاتا ہے
پس مذکورہ  قرآنی آیات  کی روشنی میں  ثابت ہوتی ہے  کہ قضاءوقدر ایک واقعی امر ہے  جو انسان سمیت کایئنات کے تمام موجودات اور مخلوقات کی سرنوشت پر حاکم ہے
انشاء اللہ آنے والی بحث میں" قضاءوقدر اور انسان کے اختیار کا مسئلہ " کو وضاحت کرینگے


قضاءو‍ قدر اور انسان کے اختیار کا مسئلہ

مذکورہ عنوان ایک طرف سے قضاء وقدر سے مربوط ہے اور ایک طرف سے  "جبرواختیا ر" یا "جبر وتفویض "سے جا ملتا ہے جس پر ہم انشاء اللہ بعد میں تفصیلی  وضاحت  کردینگے لیکن فعلا ہم قضاوقدر کے ضمن پر اس پر مختصر بحث کرینگے
مسئلہ قضاءوقدر الہی کو مدنظر رکھتے ہوئے  چند سوالات ہمارے ذہنوں میں ابھر سکتے ہیں
1:- انسان کے اختیارات کا   قضاءوقدر کے میدان میں کیا رول ہے؟
2:- آیا انسان واقعی طور پر مختار ہے یا صرف مختار ہونے کا تصور کیاجاتا ہے؟
3:- وہ کام جو انسان انجام دیتا ہے کس حد تک انسان کے اختیار میں ہیں؟
4:- آیا انسان کے انجام دینے والے کاموں کے پیچھے کسی  اور کا ہاتھ ہے ؟
یہ مختلف سوالات ہیں لیکن حقیت میں سب کے سب  انسان کے مختار ہونے یا مجبور ہونے  کے بارے میں ہیں  لہذا  تفصیل سے جواب تو ہم انشاء اللہ  "جبروتفویض " کی بحث میں دیں گے اور    یقینا یہ مسئلہ ایک دو پوسٹ میں سلیس اور عام فہم بنا کر  سمیٹنا انتہائی سخت  کام ہے  کیونکہ  علماء اور دانشوروں نے اس باب  پر مستقل کتابیں  لکھی  ہیں   یہ  قضاء قدر یہ  یہ مرحلہ انتہائی حساس اور دقیق   ہے اسی مسئلہ کو صحیح درک نہ کرنے کی وجہ سے ہے   جبر واختیار کے باب میں اسلامی تین مسلک یا مکتب وجود میں آئے ہیں  1:-(مسلک اشعری یامسلک جبریہ ) 2:-( مسلک معتزلی یا مسلک تفویضی ) 3:-  (مسلک  الامر بین الامرین ) ان پر تفصیل سے  بعد میں بحث کرینگے
 لیکن مندرجہ بالا سوالوں کے  اجمالی جواب دینے کے لئے ہم مسلک الامر بین الامرین کے مطابق  ایک مدعا   بناتے ہیں  یا  ایک  دعوی کرتے ہیں پھر اس  پر ثبوت پیش کرتے ہیں  اور وہ  مدعا یہ ہے
"""قضاء وقدر کا مسئلہ انسان کے مختاریا بااختیار  ہونے  والے مسئلہ سے کوئی منافات نہیں رکھتا ""


مسئلے کی وضاحت

انسان اور اسکے تما م کمالات خداوند لم یزل  کی طرف منسوب ہوتے ہیں  اور خدا کی تحت سلطنت  ہیں  یعنی قضاء وقدر الہی کے دائرے میں  ہیں  لیکن ساتھ ساتھ انسان کا اپنے افعال پر نقش (رول)اور اثر بھی ہے  اور انسان اپنے کاموں کو انجام دینے میں مختار ہے  ،با  اختیار ہے ہرگز  مجبور نہیں ہے ۔
دوسری عبارت میں  کام اور افعال جو انسان انجام دیتا ہے  ایک مرحلے میں  خدا سے بھی منسوب   ہوسکتے ہیں   اور دوسرے مرحلے میں  انسان کام کو انجام دینے والا بنتا ہے اور یہ (دونوں مرحلے  تفصیل طلب ہے  ) ۔تیسری  عبارت میں    انسان  ڈائرکٹ کام کو انجام دیتا ہے  پر خدا س کام کے لئے سبب فراہم کرتا ہے


کس طرح او ر کیسے؟

اس کا جواب  دینے کے لئے ہمیں کسی بھی چیز کے وجود  اور معلول کے لئے   جو علتیں ہوتی ہیں   ان کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہوگا   علت اور معلول    ہر صاحب عقل کے لئے کوئی  عجیب   یا  نہ سمجھنے والا مسئلہ نہیں ہے   علت  اس چیز کو کہا جاتا ہے  جو کسی بھی چیز کو وجود میں لانے کے لئے موئثر ہوں مثلا ایک گھر  یا عمارت بنانا ہو تو   اس کو وجود میں لانے کے لئے بہت سارے مٹیریلس  کی ضرورت ہوتی ہیں   جو اس گھر یا عمارت کو وجود میں لانے کے  مؤثر  ہوتیں ہیں  مثلا انجینئر ،مستری ، سمینٹ ، سریے وغیرہ  ان سب کو "علت "کہلاتا ہے  اور  اس گھر یا عمارت کو "معلول "کہلاتا ہے
مندرجہ بالا  پے چیدہ اور دقیق  مسئلے کو مزید  واضح کرنے کے لئے ہم  یہاں   حضرت آیت اللہ مصباح یزدی حفظہ اللہ کے بیانا ت سے استفادہ کرتے ہیں  آپ فرماتے ہیں "کسی بھی وجود کے لئے علتوں کے اعتبار سے  کئی قسمیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں


1:-  "اجتماعی علتیں "بہت ساری علتیں  ایک معلول میں ایک ساتھ مؤثر  ہوتی ہیں " مثلا  اگر کسی فصل کو اگانی ہو تو   " بیچ  ، پانی ، مناسب زمین ، مناسب حرارت ، اور بونے والا کوئی انسان " یہ سب مجموعی علتیں ہیں  کہ سب کے سب جمع  ہوجائے تو فصل اگ آتی ہے


2:- " تناوبی علتیں  ( ادل بدل  علتیں)" یعنی کسی  وجود یا معلول  کے لئے کئی علتیں ہیں لیکن  ایک وقت جمع نہیں ہوتیں بلکہ اپنے  اپنے وقت میں  مؤثر  ہوتی ہیں
الگ الگ  جدا طور پر جب ایک  نہ ہوں  تو اسکی کی نیابت میں دوسری علت فعال اور مؤثر ہوتی ہے  مثلا  ایک ہوائی جہاز کے لئے  دو یا اس سے زیادہ انجنیں ہوتے  ہیں  جب ایک انجن ناکارہ ہوجائے تو دوسرانجن وہی کام کرتا ہے جو پہلا کرتا تھا لیکن ادل بدل کی صورت میں  تناوب یعنی  پہلے کی نیابت کی صورت میں


3:- "ترتیبی علتیں" ایک وجود یا معلول کی کئی علتیں  ہیں  لیکن وہ علتیں  آپس میں ترتیب سے ایک دوسرے  میں   اثر انداز ہوتی ہیں یعنی حقیقت میں علتیں بھی آپس میں علت ومعلول  ہوتیں ہے   مثلا  اگر انسان ایک خط لکھنا چاہے تو  یہاں انسان کا ارادہ   اثر  انداز ہوتا ہے ہاتھ کی حرکت کرنے میں اور یہ ہاتھ کی حرکت اثرانداز ہے قلم کے چلنے میں اور قلم کا  کا غذ پرچلنا مؤثر ہے خط کو وجود میں  لانے کیلئے

 
4:- "ترتیبی علتیں طول میں " اس قسم میں بھی ایک وجود  یا معلوم کی کئی علتیں ہیں تیسری قسم کی طرح لیکن اس فرق کے ساتھ کہ یہاں پر  خود علتیں  وجود کے اعتبار سے بھی اپنے اوپر والی علت پرموقوف ہیں  جبکہ اوپر کی قسم میں  قلم کا وجود   انسان کے ہاتھ کی حرکت پر موقوف نہیں ہے اور ہاتھ کا وجود بھی انسان کے ارادہ کے اوپر موقوف نہیں ہے  مذکورہ تمام قسموں میں بہت ساری علتیں جمع ہوکر ایک معلول کو وجود میں لاتی ہیں  اور ایسا ہونا بھی چاہئیے     لیکن اس آخری قسم میں   بعد والی علت کا وجود  ہی پہلی والی علت کی رہیں منت ہے   یعنی  اس کا وجود بھی پہلی علت پر موقوف ہے انسان کے اپنے کاموں پر مختار ہونا اور مؤثر ہونا   ساتھ ساتھ ان کاموں پر ارادہ خداوند   کا اثرانداز ہونا یعنی قضاء وقدر الہی کا مؤثر ہونا اسی چوتھی قسم میں سے ہے کیونکہ   انسان کسی کام کو انجام دیتا ہے  تو وہ کام  معلول ہے  اس کی علتیں   "انسان کا ہاتھ  یا اعضاء " پھر انسان کا ارادہ " خود انسان " اور قضاءوقدر الہی یا ارادہ یا مشئیت الہی "  اب ان علتوں   پر اگر غور کریں تو خود انسان اور اس  اسکا ارادہ اور کے اعضاءو جوارح بلکہ کائنات میں تمام موجودات اور معلولات کی تمام علتیں   وجود کے اعتبار سے بھی  "ارادہ خداوند یا قضاءو قدر الہی   یا مشئیت الہی "پر موقوف ہیں  یہاں سے خداوند متعال کو" علت العلل "  یعنی تمام علتوں کی علت  کہا جاتا ہے  اور اسی کا نام  "علل طولی " ہے یعنی بعد کی علتیں اپنے مافوق علت پر وجود کے اعتبار سے  موقوف ہیں (15)


فائدے


جب انسان اپنے ارادے سے کوئی کام انجام دیتا ہے  اس کام کی ڈائرکٹ علت یا علمی  اصطلاح میں علت مباشر یا فاعل مباشر   انسان ہی ہے لیکن ان سب کے اوپر  ارادہ خداوند اور قضاءوقدر الہی بھی علت ہے لیکن اس کو علت سببی  یا فاعل سببی  کہلاتا ہے کیونکہ انسان کے تمام کاموں اور اردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خداوند اسباب مہیا  اورفراہم کرتا ہے   یعنی   اسی قضاء قدر الہی ہے جس پر انسان کا وجود اور انسان کی قدرت کا وجد اور انسان کی اختیار کا وجود وغیرہ  موقوف ہیں " پس حقیقت میں قضاءوقدر الہی نہ صرف انسان    کو اپنے کاموں میں مجبور کرتی ہے بلکہ  قضاء وقدر الہی   ہی کے دائرے میں ہی انسان   باختیار ہے اصل میں قضاءو قدر الھی  وہی فیض الہی ہے جو انسان  اور اس کائنات  پر ہر آن اور ہر لحظہ  پہنچتا رہتا ہے اگر ایک لحظہ کے لئے قضاءوقدر الہی کارابطہ کائینات یا انسان سے ختم ہوجائے تو فناء  کے علاوہ کچھ نہیں ہے  ان تمام مطالب کو اس جملے میں خلاصہ کردوں  کی قضاء وقدر الہی حقیقت میں وہی فیض الہی ہے جس پر کائینات اور اسکے ذرہ ذرہ کا  وجود  قائم ودائم ہے
انشاء اللہ اب ہم قضاءوقدر پر ایمان اور اعتقاد رکھنے کے فوائد اور بعض احتمالی خطرات کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرینگے

-------------

10:- (وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا مُّؤَجَّلاً) سورہ آل عمران آیت 145
11:-( مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ)سورہ حدیدآیت22
12:- (وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ
) سورہ حجر آیت21
13:- (فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ)سورہ سبا آیت 14
14:- (وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ) سورہ مزمل آیت 20
15 :- دروس فی العقیدۃ الاسلامیہ   - آیت اللہ مصباح یزدی  ص 154-155
 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک