تفسیر "فصل الخطاب" سے اقتباسات (حصہ اول)
- شائع
-
- مؤلف:
- سید العلماء آیت اللہ سید علی نقی نقن (رحمۃ اللہ علیہ)
- ذرائع:
- پیشکش : کونوا مع الصادقین گروپ )(ترتیب وتنظیم : سید مون کاظمی)
تفسیر فصل الخطاب سے اقتباسات (حصہ اول)
مؤلف : سید العلماء آیت اللہ سید علی نقی نقن (رحمۃ اللہ علیہ)
ترتیب وتنظیم : سید مون کاظمی
پیشکش : کونوا مع الصادقین گروپ
بسم الله الرحمن الرحیم
نزول قرآن کی تاریخ
اسمیں کوئی شبہہ نہیں کہ قرآن رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر تدریجی حیثیت سے موقع ومحل کے اقتضا سے نازل ہوتاتہااور اسی اعتبار سے اسمیں ماضی ، حال اور مستقبل کے واقعات کی تفریق ہوئی ہے یعنی پہلے ہوچکنے والے واقعات ماضی کے الفاظ سے اور بعد میں ہونےوالے مستقبل کی حیثیت میں اور موجودہ حالات کا تذکرہ حال کی صورت میں کیاگیاہے.
روز وقوع واقعہ آنےوالی آیت میں "الیوم" یعنی آج کی لفظ اور آئیندہ کے تذکرہ میں حروف "سین" اور لفظ "سوف" کے ساتہہ قریب اور بعید کےحدود قائم کرتاہے.اس اعتبار سے قرآن مجید کےنزول کی کوئی ایک تاریخ مقرر کرنا صحیح نہیں ہے.کیونکہ وہ تیئس(23) برس کے عرصہ میں جستہ جستہ نازل ہواہے.
لیکن جب ہم قرآن مجید کامطالعہ کرتےہیں توہمیں اسمیں نزول قرآن کی تاریخ کاذکرملتاہے.اکطرف یہ ارشاد کہ "شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن" رمضان کا مہینہ وہ ہے جسمیں قرآن نازل کیاگیا" اسمیں قرآن مجید کےنزول کو گیارہ مہینوں سےہٹاکر ایک مہینےمیں محدود کیاگیا.
دوسری طرف ارشاد ہوا کہ
"اباانزلناه فی لیلةمبارکة" ہم نے اسکو ایک بابرکت رات میں نازل کیا" (دخان#03)
اس سے پتہ چلاکہ یہ تنزیل کی ابتداء کسی خاص رات میں ہوئی.اب ان دونوں آیتوں کو ملاکر یہ نتیجہ نکلتاہے کہ وہ ماہ رمضانکی کوئی ایک رات ہےاور پہر ایک پورا سورہ "سورةالقدر" اسمیں انضباط مکمل طریقہ سے کیاگیاکہ
"اناانزلناه فی لیلةالقدر" ہمنے اسکو شب قدر میں اتاراہے"
اب ان تینوں آیات سے یہ تعین ہواکہ نزول قرآن شب قدر میں ہواہےاور وہ ماہ رمضان کی ایک رات ہے.
اب وہ کہ جو قرآن کو قدیم اور بطورکلام نفسی کےازل سے "ذات الہی" میں ثابت سمجہتےہیں انکےلئے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ موجودہ الفاظ جو "کاشف اور حاکی" ہیں کلام حق کے، وہ تو کسی ایک وقت پر نازل نہیں ہوئے بتدریج اترے، لہذا انکی یہ تاریخ ہوہی نہیں سکتی اور "قدیم چیز قدیم" ہے اسکی کوئی ابتداء نہیں پہر اسکے لئے تاریخ مقرر کرنےکےکیامعنی؟؟؟
لیکن ہم کہ جو قرآن کو حضرت احدیت کا مخلوق جانتے اور اسی حیثیت سے اسکو کلام الہی مانتےہیں ان آیات کی بتائی ہوئی تاریخ کو اسی "ابشاء و خلق" سے متعلق سمجہتے ہیں جو "عالم ملاءاعلی" میں صورت پذیر ہوا یا تنزیل کے لفظ سے مراد "تنزیل اول" ہے جو "لوح محفوظ" سے "بیت معمور" کی طرف ہوئی.حدیث معصوم "سئل صادق(ع)فقال انزل جملةوحدة في شهر رمضان الى البيت المعمور ثم نزل من البيت المعمور الى النبي صلى الله عليه واله في طول عشرين سنة" (تفسیر علی بن ابراهیم قمی)
قرآن کے معانی
"لغوی معانی"
"قران" قراءت کی طرح "قرء" سے ماخوذ ہے جسکے اصل معنی لغت عربی میں " جمع " کرنے کےہیں
کتاب کےعام رواج سے پہلے کسی نظم یا نثر کو جمع کرنا اسطرح کہ وہ محفوظ ہوجائے اور اسکا بہترین طریقہ یہی تہا کہ اسے سینہ میں ازبر کرلیاجائےاس بناء پر صدر اسلام میں "قراءت" بہ معنی حفظ مستعمل ہوتاتہا اور حافظ قرآن کو "قاری" کہتےتہے.
چونکہ یہی حفاظ حروف قرآن کے طریقہ ادا اور انکے مخارج و کیفیات سے واقف ہوتے تہے اور اسے لحن کےساتہہ پڑہتےبہی تہے.
رفتہ رفتہ "قراءت" بہ معنی علم مخارج حروف ہوگیااور "قاری" یعنی مخارج کاجاننےوالا چاہےوہ حافظ نہ ہولیکن یہ بعد کے زمانہ کا محاورہ ہے. صدر اسلام میں ایسا نہیں تہا.
پہر چونکہ جمع یعنی کسی تحریر ہر حاوی ہونےکا ایک ادنی درجہ یہ بہی ہے کہ انسان پوری تحریر پر نظر ڈالے یا زبان پر اسے جاری کرے.اسلئے "قراءت" کے معنی مطلق پڑہنے کے بہی ہوگئےاور یہ محاورہ بہی نزول قرآن کے پہلے سے موجود تہا.
چنانچہ پہلی وحی جسکا آغاز "اقرا" سے ہوا ہے اسی مفہوم کی حامل ہےاور بعید نہیں کہ کتاب الہی کے لفظ "قرآن" سے موسوم ہونے کا تعلق اس "اقرا" کےساتہہ بہی سمجہاجائے جس سے اس کتاب کے نزول کاآغاز ہواہے.جسکے ماتحت نمازوں میں "قراءت" کے معنی اسی کتاب کے سوروں کا پڑہناہوا نہ کہ تسبیح وغیرہ دوسری چیزوں کا پڑہنا چاہے انکا پڑہنا واجب بہی ہو.
جسطرح کتاب بمعنی مکتوب اور بیان بمعنی "مبین" بلا تکلف استعمال ہواہے.اسی طرح "قرآن" مقرؤ اور محفوظ کے مفہوم کا اعتبار کرکے خداوندی محاورہ میں نام بن گیا ہے.ان الفاظ وکلمات کو جو بطور وحی "جبرئیل امین علیہ السلام" کے توسط سےحضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بحیثیت معجزہ اتارے گئےہیں.
"اصطلاحی معانی"
"قرآن مجید" کے اصطلاحی معنی کہ"وہ کلام جو بطور وحی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بحیثیت معجزہ اتارا گیاہے" ایک ایسے ساری و جاری مفہوم کی حیثیت رکہتے ہیں جسکے لحاظ سے کل اور جزء ، کم اور زیادہ یہاں تک کہ ایک آیت بلکہ بعض اجزائےآیت بہی "قرآن" کا مصداق ہیں بلکہ ایک لفظ پربہی جبکہ اسکا لکہاجانا "جزوقرآن" ہونے کے قصد سےمعلوم ہو.اسلئے فقہ کی رو سے بغیر طہارت اسکا مس کرنا بہی حرام ہوگا.لیکن جیساکہ صاحب معالم کواسکی حقیقت کی طرف توجہ ہوئی ہے.
بظاہر دوسری وضع کےساتہہ یہ لفظ اس پوری کتاب کےنام کیلئے معین ہوئی ہے جو اس وحی کے اجزاء کا مجموعہ ہے.اسطرح ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت اور ایک ایک سورة کو پہلے معنی کے لحاظ سے "قرآن" کہنا درست ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے "جزء قرآن".
"نتیجہ"
مذکورہ بیان سے یہ پتہ چلا کہ"قرآن" کے "لغوی و اصطلاحی" سب ملاکر تین معانی ہیں
- ایک بمعنی مصدر یعنی جمع کرنا یا محفوظ کرنا.
- دوسرے وہ ساری و جاری عام مفہوم جسکے لحاظ سے ایک ایک جملہ اور ایک ایک حرف قرآن ہے.
- تیسرے اس پوری کتاب کا نام.
خود "قرآن کریم" میں لفظ "قرآن" کےان تینوں معنوں کی سند موجود ہے
(1)- "ان علینا جمعه وقرآنه" یہاں لفظ قرآن کی اضافت کتاب کی طرف اور جمع پر عطف بتارہاہے کہ اسکے معنی مصدری یعنی "ضبط و حفظ" مراد ہیں.
(2)- "انه لقرآن کریم فی کتاب مکنون لا یمسه الا المطهرون" یہاں قرآن کاوہی جامع اور عام مفہوم مراد ہے جو "جزء و کل" سب پر صادق ہےاور اسی لئے بغیر طہارت مس کرنے کی ممانعت کل "قرآن" سے مخصوص نہیں بلکہ "اجزائے قرآن" میں بہی ثابت ہے.
(3)- "ولقد اتینك سبعامن المثانی والقرآن العظیم" ہم نے آپکو عطاکیں سات دو رنگ والی آیتیں اور قرآن عظیم.
یہاں قرآن کا اطلاق "مجموعہ کتاب" پر ہے جس سے "سورہ حمد" کا صرف بنظراہمیت و خصوصیت الگ کرکے ذکر کیا گیاہےاور قرآن کے اسی لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کا قول وارد ہواہے کہ"جو کچہہ قرآن میں ہے وہ "سورہ حمد" میں ہے"