امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اصول ابلاغ قرآن

0 ووٹ دیں 00.0 / 5



* ابلاغِ قرآن *
مومن بالقرآن اور عامل بالقرآن ھونے کے بعد جو اھم ترین ذمہ داری عائد ھوتی ھے وہ یہ ھے کہ نورِقرآن کو عام کیا جائے تاکہ اطراف و اکنافِ عالم سے شرک و الحاد، کفر و طغیان ، فسق و عصیاں کا اندھیرا چھٹ جائے اور زمین کے سینہ پر چلنے والا ھر فرد اللہ کی طرف رجوع کرنے والا، تقوٰی اختیار کرنے والا اور نماز قائم کرنے والا بن جائے اور مطلقًا شرک و رجس سے دوری اختیار کرنے والا ھو جائے.
"
مُنِبِیْنَ اِلَیْهِ وَاتَقُوْه وَاَقِیْمُواالصلٰوة وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ"اسی کی طرف
رجوع کرتےھوئےاوراس سےڈرواورنماز قائم کرواور مشرکین میں سے نہ ھوجاؤ" (الروم#31)
یہی وہ اھم فریضہ تھا جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 23سال تک انجام دیتے رھے.اس مشن کی تکمیل میں بےپناه مصائب وآلام کا سامنا کیا.اذیتیں برداشت کیں، پتھر کھائے، راستوں میں کانٹے بچھائے گئے مگر فریضہ کی بجاآوری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا.23سالہ جانکاه جدوجہد ذاتی منفعت کےلیے نہیں بلکہ فرائض کی بجاآوری کےلیے تھی.حجۃ الوداع کے موقع پر اصحابِ باصفا کے مجمعِ عام سے عمومی سوال کیا "الاهل بلغت" کیا میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچادیا" تو بیک زبان سب نے اعتراف کرتے ھوئے کہا : "قد بلغت و ادیت و نصحت" یقینًا آپ (ص) نے اللہ کا پیغام پہنچادیا ،ذمہ داری ادا کردی اور نصیحت و خیرخواھی کا حق ادا کردیا"
آپ (ص) نے اللہ تعالٰی کو گواھ کرتے ھوئے تین بار فرمایا
"اللهم اشهد ، اللهم اشهد ، اللهم اشهد" اے اللہ گواھ رھنا، اے اللہ گواھ رھنا، اے اللہ گواھ رھنا"
پھر رسالاتِ الہیہ کے ابلاغ کو دوام بخشتے ھوئے تمام حاضرین سے یہ مطالبہ کیا :
"
فلیبلغ الشاهد الغائب" جو موجود ھیں انکا فرض ھے کہ ان تک پہنچائیں جو غائب ھیں"
گویا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ فرمارھے تھے :
"
اےمیرےسچے پیروکاروں، اے میرے عزیز جانثارو! خدائی پیغامات کو لے کر دنیا کےگوشےگوشےمیں پھیل جاؤ اور آیاتِ الہی کےچشموں سے پژمرده دلوں دلوں کی آبیاری کرکےان کااحیاء کرتے رھو تاکہ آنےوالی نسلیں اور دور افتاده علاقوں میں بسنےوالےانسان ھدایت کے بنیادی حق کو پالیں"
قرآن ابدی تعلیمات کا مجموعہ ھے اس کی تعلیمات رواں دواں آبشار کی مانند ھمیشہ پاک و مصفا ھیں.ھر دور کے انسان کےلیے حیات بخش، صحت افزا اور خوش ذائقہ ھیں اور اس کی حیات آفریں تعلیمات ھر دور، ھر زمانہ اورھر خطہ کے انسان تک پہچنا چاھیئں :
"
وَ اُوحِیَ اِلَیَ هذَاالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُم بِه وَمَن بَلَغَ" اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی گئی ھےتاکہ اس کے ذریعہ سے تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراؤں" (الانعام#19)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلاغِ قرآن کی ذمہ داری اولین ان لوگوں کی ھے جو حکمت و دانائی، علم و تقوٰی، نیک نامی اور اچھی سماجی شہرت کے حامل ھیں لیکن یہ حکم اپنے اندر اتنی عمومیت رکھتا ھے کہ ھر وہ عاقل جو بالغ النظر بھی ھے اور آزادی کی نعمت سے بہره مند بھی اس حکم کے وجوب سے مستثنٰی نہیں. سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ والہ نے اس عمومیت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا :
"
بلغوا عنی ولو اٰیةٍ" پہنچاؤ میری طرف سے خواھ ایک ھی آیت ھو"
اور حق تعالٰی کی یہ سنتِ جاریہ ھے کہ جب بھی اس نے کسی قوم کو کتاب عطا کی تو اس نے جاھلوں سے سیکھنے کا عہد بعد میں لیا مگر علماء سے تعلیم دینے کا عہد پہلے لیا.بقدرِ ظرفِ علم ھر مسلمان کی ذمہ داری ھے کہ وہ قرآنی ھدایات کا ابلاغ کرے.
"
وَاِذْ اَخَذَالله مِیثَاقَ الَذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبُ لَتُبَیِنُنَه لِلنَاسِ" اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نےجن کوکتاب دی ان سے عہد لیا کہ اسے لوگوں کےلیے واضح طور پر بیان کریں گے" (ٰاٰل عمران#187)
؛؛


>*اصولِ ابلاغ*<
قرآن مجید کے سب سے عظیم اور سب سے اولین مبلغ خود حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھیں.اس انداز سے آپ (ص) فریضہ تبلیغ سے عہدہ برآ ھوئے کہ حقِ تبلیغ ادا ھوگیا.یقینًا اب بھی سب سے مؤثر اندازِ تبلیغ وھی ھوگا جو آپ (ص) کی سیرتِ طیبہ کے عین مطابق ھوگا.

"
پہلا اصول"
" سہل بیانی "

انسان کی جبلت کچھ اس طرح کی واقع ھوئی ھے کہ وہ آسانیوں کو پسند کرتا ھے اور گراں بار سنگیینیوں سے دور بھاگتا ھے.تبلیغ کے دوران بھی اس انسانی نفسیات کو مدِنظر رکھنا ضروری ھے.اول دن ھی قرآنی تعلیمات کو مشکل اور گراں بار بنا کر پیش کیا جائے گا تو نتیجہ بالعموم یہی نکلے گا کہ قرآن سے انس کی بجائے دلوں میں بیزاری پیدا ھو جائے گی.اس نفسیاتی پہلو کا لحاظ کرتے ھوئے حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
"
فانمابعثتم میسرین ولم تبعثوامعسرین"تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجےگئے ھو،دشواری پیدا کرنے والےبناکرنہیں بھیجے گئے" (صحیح بخاری)
مخاطب کی صلاحیت، استعداد اور قبولیت پیشِ نظر رھنی چاھیئے.آیاتِ الہیہ کو اس انداز سے مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے کہ وہ اس پر عمل پیرا ھونے میں آسانی محسوس کرے نہ یہ کہ وہ سمجھنے لگے کہ یہ تعلیمات تو سرے سے قابلِ عمل ھی نہیں اور مبلغ اپنے سامنے رکھے.
"
فان مع العسریسرا"
اور مشکل کےساتھ آسانی ھے"
"
ان مع العسریسرا"
یقینًا مشکل کے ساتھ آسانی ھے"
فاذافرغت فانصب"
لہذا آپ(ص) جب فارغ ھوجائیں تو نصب کردیں"
"
والی ربك فارغب"
چشم امید اپنے رب کی طرف لگائے رھیں"
سورہ الم نشرح کی ان آیات میں یہ یاددھانی کرائی جارھی ھے کہ جوش عمل کی حدت کسی صورت کم نہیں ھونی چاھیئے.ھاں البتہ گھبرانا نہیں بلکہ چشمِ اُمید اپنے رب کی طرف لگائے رھیں وہ حالات میں آسانی پیدا کردےگا.
 


" دوسرا اصول "
" بشارت"

انسان کی فطرت کا یہ بھی تقاضا ھے کہ وہ خوشخبریاں سننا پسند کرتا ھے اور بُری خبروں کو سننا پسند نہیں کرتا اگر ابتدائی ایام میں سخت عذاب کی خبروں کا نشریہ شروع ھوگیا تو مخاطب کی انسیت اجنبیت اور نفرت میں بدل جائے گی اور وہ وحشت زدہ ھو کر بھاگ کھڑا ھوگا اور لوٹ کر واپس نہیں آئے گا.لہذا ضروری ھے کہ مخاطب کو رحمتِ خداوندی کے سائے میں لے کر چلا جائے.جنت کے دلکش مناظر کی سیر کرائی جائے اور باغاتِ ارم کا دل آویز منظر دکھایا جائے.حضرت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ھیں :
"
بشرواولاتنفروا"خوشخبری دو،لوگوں میں نفرت نہ پھیلاؤ" (صحیح بخاری)
 


" تیسرا اصول "
"خوف و رجا "

خوف و رجا کے داعیے زندگی کے افکار و اعمال اور ھدف و سمت کو متعین کرتے ھیں.خوف ورجا کی شدت اور حدت کی مناسبت سے انسان راہ کا انتخاب کرتا ھے.اسلامی تعلیمات میں باربار جو خوفِ خدا کی تاکید کی گئی ھے وہ دراصل اپنے اعمال سے خوف کی تاکید ھے.یہ خوف نہایت وسیع و فراواں فوائد کا حامل ھے.برے اعمال کے ناگوار نتائج کا خوف انسان کو اب سے پرھیز پر آمادی کرتا ھے اور انسان میں نظم و ضبط پیدا کرتا ھے اور خوفِ خدا سے بےنیاز بےانتہا رحمت کی امید رکھنا انسان کو بےلگام کردیتا ھے اور بہت سے مفاسد کا سبب بنتا ھے.ایسے افراد جن کے دل علم و ایمان کے اسلحہ سے لیس ھوں اور ان کے ذھن میں خداوند ِعالم کی عادلانہ سزاؤں کا خوف بھی ھو تو وہ ھمہ وقت اوامرِالہی کی اطاعت میں لگے رھتے ھیں اور منہیاتِ الہی سے پرھیز کرتے رھتے ھیں.اس لیے قرآن اور داعی قرآن بشیر بھی ھیں اور نذیر بھی.دامنِ دل کو ناامید بھی نہیں کرتے اور خوف سے بےنیاز بھی نہیں ھونے دیتے.
"
وَبِالْحَقِ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِ نَزَلَ^وَمَآاَرْسَلْنٰك اِلاَ مُبَشِرًاوَنَذِیْرًا" اور اس قرآن کو ھم نے حق کے ساتھ نازل کیا اور اسی حق کے ساتھ یہ نازل هوا هے
اور (اے رسول(ص)) ھم نے آپ کوصرف بشارت اورتنبیہ کرنےوالا بنا کربھیجا. " بنی اسرائیل!105)
قرآن مجید کے اس فلسفہ خوف ورجا کی خوبصورت تشریح حضرت صادق آل محمد علیہ السلام نے ان الفاظ میں فرمائی ھے اور شخصیت پر مرتب ھونے والے اثرات کو یوں بیان کیا ھے :
"
الخوف رقیب القلب والرجاءشفیع النفس ومن کان بالله عارفًا کان من الله خائفًا و الیه راجیًا وهما جناحا الایمان، یطیر بهما العبد المحقق الی رضوان الله و عینًا عقله یبصر بهما الی وعد الله و وعیده و الخوف طالع عدل الله باتقاء وعیده والرجاء داعی فضل الله وهو یحیی القلب والخوف یمیت النفس"
خوف انسان کے قلب کا نگہبان ھوتاهے اور امیدنفس سے اس کی خواھشات کی سفارش کرتی ھے.جوشخص خدا کو پہچانتا ھےوہ اس سے خوفزدہ رھنے کے ساتھ ساتھ امید بھی رکھتا ھے.یہ دونوں(خوف وامید) ایمان کے دو پرھیں اورخدا کے وہ بندےجو نظامِ ھستی اور خلقت میں غور و فکر کرتے ھیں ان پروں کے ذریعہ خدا کی رضاکی جانب پرواز کرتےرھتے هیں وہ خدا سے خوف و امید کو اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھتے ھیں. خداوندِعالم کا خوف انہیں اس کی عدالت(جواس کی عینِ ذات ھے) کی طرف متوجہ کرتاھےاورعذاب کےجووعدے اس نے کیے ھیں ان سے ڈراتا ھے جبکہ امید اللہ کےفضل و کرم کی جانب راغب کرتی ھے امید دل کو زندگی بخشتی ھے اور خوف نفس کی سرکوبی کرتا ھے"
قرآن کا پیغام پھیلانے والے کو چاھیئے کہ تبشیر و انذار کے درمیان رہ کر ابلاغ کرے کہ نہ تو کوئی امید کے بہانے فاسقانہ عمل شروع کردے اور نہ کوئی خوف کی وجہ سے قنوطیت کا شکار ھوجائے.

 

" چوتها اصول "
" تدریجی تربیت"

جس طرح اک ماھرِطب مریض کی عمر، اس کے مزاج اور اس کے مرض جی شدت کے لحاظ سے دوا اور دوا کی مقدارِ خوراک تجویز کرتا ھے اسی طرح داعی اور مبلغِ قرآن کا بھی فرض ھے کہ مخاطب کی استعداد ، طلب اور ظرف کے مطابق دعوت پیش کرے.اس کی ذھنی سطح کے مطابق اپنی دعوت کی مقدار اور درجات کو بڑھائے.اس کے ظرف کی تنگنائیوں کو بھی مدِنظر رکھے.یہ بات اتنی اھم ھے کہ حق تعالٰی نے نزولِ قرآن کےوقت اس کو پیشِ نظر رکھا
"وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰه عَلَی النَاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَنَزَلْنٰهُ تَنْزِیْلاً" اور قرآن کو ھم نے تھوڑا تھوڑا کرکےاس لیےاتارا کہ تم اس کو لوگوں کو
ٹھہرٹھہر کر سناؤ اور ھم نے اس کو نہایت اھتمام سے اتارا(" بنی اسرائیل#106)
قرآن مجید کی مکی اور مدنی سورتوں میں ان فطری و جبلتی تقاضوں کو مدِنظر رکھا گیا ھے.مکی دور چونکہ نزولِ قرآن کا ابتدائی دور ھے اس لیے سورتیں مختصر ھیں مضامین کی کثرت مبداء و معاد سے متعلق ھے جبکہ مدنی دور میں سورتیں بڑی ھیں کیونکہ اس وقت تک فکریں بلند ھوچکی تھیں.رجس و گمراھی کے اندھیرے چَھٹ چکے تھے دلوں کے اندر قبولیت کی صلاحیت بدرجہ اتم پیدا ھوچکی تھی، احکام کی فرمانبرداری کی کیفیت واستعداد بھی پیدا ھوچکی تھی.سو مضامین نوع بہ نوع طویل سے طویل تر اور دقیق سے دقیق تر ھیں کیونکہ مدنی دورانیہ میں ایسے عظیم القدر مومنین کی ایک بڑی جماعت تیار ھوچکی تھی جن کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو :
"
اِذَایُتْلٰی عَلَیْهم یَخِرُونَ لِلاَذْقَانِ سُجَدًاَ و یقولون سُبْحٰنَ رَبِنَااِنْ کَانَ وَعْدُرَبِنَا  لَمَفْعُوْلاً" جب یہ (قرآن) پڑھ کرانہیں
سنایاجاتاھےتویقینًاوہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتےھیں اورکہتے هیں پاک هے ھمارا پروردگار اور ھمارے پروردگار کا وعدہ پورا ھوا" (بنی اسرائیل#107/108)
تعلیم وتربیت ایک تدریجی عمل ھے اور اسے تدریجًا ھی انجام دینا چاھیئے.سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی تدریج کی مظہر ھے.
 

" پانچواں اصول "
" حُبِ انسانیت "

قرآن کتابِ انسانیت ھے.اس کا مقصد انسانی سماج کی بہترین تنظیم و تربیت ھے.وہ ایک ایسے سماج کی بنیاد ڈالتا ھے جس میں رشتے ضرورتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ محبت اور رحمت کی ریسمان کے ذریعے جڑتے ھیں اور ترتیب پاتے ھیں.قرآن جس تہذیبِ اسلامی کی داغ بیل ڈالتا ھے اس کی اٹھان اور ارتقاء حُبِ انسانیت کے بطن سے جنم لیتی ھے.داعی قرآن ھدایت کا نور لے کر شہر بہ شہر، کو بہ کو اسی جذبہ محبت کے زیرِاثر پھرتا ھے اور چاھتا ھے وہ روشنی اور بصیرت جو اسے حاصل ھوئی ھے اس کا نور چاردانگ عالم پھیل جائے تاکہ نوعِ انسانی کا کوئی بھی فرد اس سے محروم نہ رھے.اور اسی شدید جذبہ حب انسانیت کے تحت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کی ھدایت کےلیے اتنی تگ و دو کرتے ھیں کہ حق تعالٰی فرماتا ھے :
"
فَلَعَلَكَ بَاخعّ نَفْسَكَ عَلٰی اٰثَارِهمْ اِنْ لَمْ یؤمنوا بِهذَاالْحَدِیْثِ اَسَفًا" پس اگر یہ لوگ اس(قرآن)پرایمان نہ لائےتو انکی وجہ سے شاید آپ (ص) میں اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے" (الکھف#06)
اور ابنائے آدم کا نورِھدایت نہ پانا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےلیے اس قدر شاق اور تکلیف دھ ھے کہ افسوس میں جان ھی کھو دینے کا اندیشہ پیدا ھوگیا.
"
لَعَلَكَ بَاخِعّ نَفْسَكَ اَلاَ یَکُوْنوُا مُؤْمِنِیْنَ" شاید اس رنج سےکہ لوگ ایمان نہیں لاتےآپ(ص)جان کهودیں گے"(الشعراء#3)
حق تعالٰی نے تشفی کے انداز میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا اگر یہ لوگ قبولِ حق سے انکاری ھیں تو آپ (ص) اس قدر محزون و رنجیدہ نہ ھوں.بس آپ (ص) ابلاغِ حق کے پروگرام کو جاری رکھیں ان لوگوں نے بالآخر میری بارگاہ میں لوٹ کر آنا ھے '
"
وَمَنْ کَفَرَ فَلاخ یَحْزُنْكَ کُفْرُه" اور جو کفر کرتا هےاس کا کفر آپ(ص)کو محزون نہ کرے" (لقمٰن#23)
آج بھی نتائج وھی شخص حاصل کرسکےگا جو انسانوں سے محبت و مودت کے اس شدید جذبہ سے سرشار ھوگا ورنہ محض روایتی انداز میں بات پہنچا دینے سے خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا ھے.
 

" چهٹا اصول "
" حریصانہ و بیتابانہ هدایت "

حرص اخلاق و تہذیبِ انسانی میں ایک قابلِ نفرت داعیہ ھے مگر یہی حرص اس وقت قابلِ تحسین احساس بن جاتا ھے جب یہ علم و ھدایت کےلیے ھو اور اتنا محترم و مکرم ھوجاتا ھے کہ اللہ تعالٰی اپنے حبیبِ معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلن کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے کہ میرا رسول (ص) تمہاری ھدایت کے بارے میں حریص ھے :
"
لَقَدْجَآءَکُم رَسُوْلّ من اَنفُسِکُم عَزِیْزّ عَلَیْه مَا عَنِتُم حَرِیصّ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفّ رَحِیم" تمہارے پاس وہ پیغمبر(ص) آیا جو تمہی
میں سےھےاور اس پر تمہاری ھرمصیبت شاق ھوتی ھے وہ تمہاری ھدایت کے بارے میں حرص رکھتاھےاور مومنین کے
حال پر شفیق و مہربان ھے"(التوبہ#128)
گمراھی اور بےراھ روی سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ھوسکتی ھے؟؟؟ اور ایک محبت کرنے والا انسان اپنے بھائی بندوں کو اس میں گھرا ھوا کیسے برداشت کرسکتا ھے؟؟ وہ پیار کرنے والا انسان جو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سروں پر دھوپ کو برداشت نہ کرتا ھو وہ یہ کیسے برداشت کرسکتا ھے کہ اس کے ھم جنس جہنم کا ایندھن بن جائیں یا وہ اپنے کے مجرم بن جائیں اور پھر ان کو جانوروں کی طرح ھانک کر جہنم پر لایا جائے :"وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَهنَمَ وِرْدًا" اور (فرشتے) مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسےجانوروں کی طرح ھانک کر لے جائیں گے" (مریم#86)
پس چاھیئے کہ حُبِ انسانیت سے لبریز دل لے کر حریصانہ انداز میں رشد و ھدایت کا کام انجام دیا جائے اور لوگوں کو آگاھ کیا جائے اگر وہ ان دنیاوی اشیاء (رزق) کےلیے حرص سے کام لیتے ھیں کہ جس کی فراھمی کی ضمانت اللہ نے دے دی ھے تو فرائض کی ادائیگی میں بھی حرص سے کام لیں :
"
فکن حریصًا علی اداء المفروض علیك" (حضرت علی علیہ السلام-غررالحکم)

"
ساتواں اصول "
" نصیحت اور یاددھانی "

ابرِرحمت کی فیاضیاں تو بلا امتیاز و تفریق ھوتی ھیں مگر روئیدگی اسی زمین کے حصہ میں آتی ھے جو اپنے اندر نموپذیری کی صلاحیت رکھتی ھو اور بارش کے پانی کےلیے قوتِ جاذبہ بھی رکھتی ھو.بارش کا پانی پتھروں اور چٹانوں سے پھسل کر نشیب میں چلا جاتا ھے.چٹانیں ویسے کی ویسی چٹیل رھتی ھیں جبکہ نشیب میں سرسبز و شاداب فصلیں لہلہا اٹھتی ھیں.یہی حال قرآنی نصیحتوں کا ھے قرآن نصیحت ھے سب انسانوں کےلیے لیکن ھدایت انہی کے حصہ میں آتی ھے
- جو سینوں میں دل رکھتے ھیں
- اور ایسے دل کہ جن میں قرآنی نصیحت کےلیے انجذاب و کشش پائی جاتی ھے اور اس انجذاب کی وجہ سے وہ حضوری کی کیفیت میں آیاتِ الہی سنتے ھیں :
"
اِنَ فِی ذٰلِكَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَه قَلْبّ اَو اَلْقَی السَمعَ وَ هوَ شَهیْدّ" اس میں نصیحت کا سامان ھے اس انسان کے لیےجس کےپاس دل ھواورحضورِقلب کے ساتھ بات سنتا ھو" (ق#37)
قرآن نصیحت ھے اور داعی قرآن ناصح_ اب ناصح کو چاھیئے کہ قرآنی نصیحتوں کے لیے مناسب اوقات، مناسب الفاظ کا استعمال کرے اور مناسب قلوب کا انتخاب کرے.اس نصیحت کا سب سے مناسب وقت اولِ عمر کے ایام ھیں.حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزندِاکبر حضرت امام حسن علیہ السلام کے نام وصیت میں فرماتے ھیں :
"
کیونکہ کم سن کا دل اس خالی زمین کی مانند ھوتاھےجس میں جو بیج ڈالا جائے اسے قبول کرلیتی ھے لہذا قبل
اس کے کہ تمہارا دل سخت ھو جائے تمہاراذھن دوسری باتوں میں لگ جائے میں نے تمہیں تعلیم دینے کےلیے قدم
اٹھایا" (نہج البلاغہ)
زندگی کے ابتدائی ایام قبولیتِ حق کےلیے اور شجرہ طیبہ کی نشوونما کےلیے بہترین ثابت ھوتے ھیں ورنہ بعد میں گناھوں کا گردوغبار اور شیطانی اوھام کے سنگریزے دلوں کو سخت کردیتے ھیں اور پھر وہ حق کی کاشت کے قابل نہیں رھتے.دلوں کو سخت بنانے والی اور دلوں کو مردہ کردینے والی باتوں میں سے دو کی نشاندھی کرتے ھوئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
"
ترک العبادة یقسی القلب وترک الذکر یمیت النفس" ترکِ عبادت دلوں کو سخت بنادیتی ھے اور ترکِ نصیحت دلوں کو مردہ کردیتی ھے"
بڑی عمر کے دلوں کا حال اس سرکش گھوڑے کی طرح ھے جس پر سواری نہ کی جائے، مشقتوں میں نہ ڈالا جائے تو منہ زور ھوجاتا ھے.اس کی عادات بگڑ جاتی ھیں اسی طرح دلوں کو اگر موت کی یاد سے نرم اور عبادات کی عادات سے آشنا نہ کیا جائے تو سخت اور ٹھوس ھوجاتے ھیں.
ناصح اپنی نصیحتوں سے دلوں کو نرم و گداز بناتا ھےتاکہ وہ شجرہ طیبہ کی تخم ریزی کے حسبِ حال ھوسکیں ناصح اپنے آپ کو اسی رول تک محدود رکھتا ھے اور اس سے آگے نہیں بڑھتا. بس وہ تو پیغامِ الہی پہنچا دینے کے بعد یہ کہہ دیتا ھے :
"
اِنَ هذِه تَذْکِرَة فَمَنْ شَآءَ اتَخَذَ اِلٰی رَبِه سَبِیْلاَ" یہ تو بس نصیحت اور یاددھانی هے.اب جس کاجی چاھے اپنےرب کےراستےپرھولے"(المزمل#19)
"فَمَن شَآءَاتَخَذَ اِلٰی رَبِه مَابًا" اب جس کا جی چاھے اپنے رب کے ھاں مقام بنالے" (النباء#39)
کیونکہ نصیحت کو زبردستی کسی پر مسلط کرنے کا حق تو اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی دیا پیغمبرِحق (ص) صرف مبلغ ھیں اور لٹھ بردار داروغہ کی حیثیت سے مسلط نہیں کیے گئے ھیں :
"
فَذَکِرْ اِنَمَا اَنْتَ مُذَکِرّ لَسْتَ عَلَیْهم بِمُصَیْطِر" پس آپ(ص)نصیحت کرتے رھیں کہ آپ (ص)فقط نصیحت کرنے والے ھیں آپ (ص) ان پر مسلط نہیں ھیں" (الغاشیہ#21/22)

"فَاِنَمَاعَلَیكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَاب" (رسول) آپ(ص) کے ذمہ صرف پیغام پہنچانا ھے اورحساب لینا ھماری ذمہ داری ھے" (الرعد#40)
لہذا اس اھم ذمہ داری کی ادائیگی کے وقت اپنی حدود کو یاد رکھیئے اور اس سے تجاوز نہ کیجیئے.ھمدرد ، خیرخواہ ، غمخوار ، شفیق و مہربان بن کر ابلاغِ قرآن کرتے رھیئے اور الہی وعدہ و وعید یاد دلاتے رھیئے اور بس :
"
وَمَااَنْتَ عَلَیْهم بِجَبَارٍفَذَکِرْ بِالْقُرْاٰنِ مَن یَخَافُ وَعِیْدِ" آپ(ص) ان پر جبر کرنےوالےنہیں ھیں.آپ(ص) قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رھیں ان لوگوں کوجو عذاب سے ڈرتے  ھیں"(ق#45)
اس انداز و اخلاص سے حقِ نصیحت وھی ادا کرسکتا ھے جو حریصِ دنیا نہ ھو بلکہ آخرت کا طلبگار ھو.ایک بار عباسی خلیفہ منصور نے حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلان کو لکھا کہ میری خواھش ھے کہ آپ میری مصاحبت اختیار کریں تاکہ آپ کی نصیحتوں سے مستفید ھوسکوں. امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا :
"
جو شخص دنیا کا طالب ھو وہ تمہیں نصیحت نہیں کرے گا اور جو آخرت کا طلبگار ھےوہ تمہاری مصاحبت اختیار
نہیں کرے گا"
منصور نے آپ(ع) کا جواب پڑھ کر کہا خدا کی قسم امام جعفرالصادق (علیہ السلام) نے بہترین کسوٹی ھمارے حوالے کی ھے جس کے ذریعہ سے لوگوں کی شناخت ھوسکتی ھے کہ کون دنیا کا طالب ھے اور کون آخرت کا.
 


" آٹھواں اصول "
" صبر و استقامت "

اصلاحِ خلق اور تعمیرِانسانیت ایک صبرآزما اور جانگسل عمل ھے :
-
ایک تو اس لیے کہ نتائج جلد برآمد نہیں ھوتے - دوسرے یہ کہ بسااوقات نتائج توقع کے بالکل برعکس نکلتے ھیں
- تیسرے یہ کہ لوگوں کا ردِعمل اکثر و بیشتر معاندانہ ھوتا ھے
اس لیے اس مشن کے علمبرداروں کو عالی ظرف، حوصلہ مند، کریم النفس، شریف الطبع اور منکسرالمزاج ھونا چاھیئے.وہ نرم خو ، صلح جو اور خوگر صبر واستقامت ھوں اور اللہ کےلیے اس قدر خالص ھوں کہ کسی بھی کامیابی پر اترانے کی بجائے شکرِ پروردگار ادا کرتے ھوں، وقتی اور ظاھری ناکامی کی صورت میں یاس اور ناامیدی کی بجائے حالات پر صبر سے کام لیں اور اللہ کی طرف رجوع میں مزید آگے بڑھ جائیں.شیطان کی ساری ترغیبات اور نفس کی تمام خواھشات کو یکسر مسترد کرکے لقاءِ پروردگار کے لیے ھمہ تن مصروفِ عمل رھنے والے ھوں.دنیا کی رونقوں پر فریفتہ ھوں نہ دنیاوی حسرتوں پر دل گرفتہ ھوں بلکہ تلخی حالات کو "قربة الی الله" ھنس کر سہہ لیں اور "راضیًا مرضیةً" کی عملی تصویریں ھوں.
دعوتِ دین اتنا آسان اور سہل ھوتا تو حق تعالٰی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قرآن مجید میں انیس بار صبر کی تلقین نہ کرتا بلکہ حکم ھوا :
"
فَاصْبِرْکَمَاصَبَرَاُلُواالْعَزْمِ مِنَ الرُسُلِ" (اےمیرے پیارے حبیب) حالات کی ناگواری اور دعوت کی دشواری پر ویسےصبر کروجیس طرح اولوالعزم رسول کرتے آئے ھیں" (الاحقاف#35)
کیونکہ اس راھ میں سنگ ھیں اور خار ھیں، کفر و نفاق کے کوہ گراں ھیں لیکن مومن کامل اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ھوئے ان سے ٹکرا جاتا ھے.نہ وہ خوف کا شکار ھوتا ھے اور نہ ھی لالچ اس کول شکار کرسکتی ھے بلکہ اس کے پیشِ نظر اپنے رب کا حکم ھوتا ھے :
"
وَلاَتُطِعِ الکٰفِرِیْنَ وَالمُنفقِیْنَ وَدَعْ اَذٰهم وَتَوَکَلْ عَلَی الله وَکَفٰی بِالله وَکِیْلا" کافروں اور منافقوں کی باتوں پر
دھیان نہ دو. ان کی ایذا رسانیوں کونظراندازکردو اوراللہ پربھروسہ رکھو" (الاحزاب#48)
اور قرآن مجید کی نو آیات میں حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو توکل کا حکم دیا گیا ھے.وہ آیات درج ذیل ھیں :
آل عمران # آیت نمبر 159
النساء # آیت نمبر81
الانفال # آیت نمبر 61
ھود # آیت نمبر 123
الفرقان # آیت نمبر 55
الشعراء # آیت نمبر 217
النحل # 79
الاحزاب # آیت نمبر 3 اور 48!!
دورانِ دعوت کئی مراحل ایسے آتے ھیں کہ ردِعمل کے طور گالیاں ملتی ھیں، طعنے سننے پڑتے ھیں، الزام تراشیاں ھوتی ھیں، بہتان طرازیوں کی بوچھاڑ ھوتی ھے اس ردِعمل کا اظہار ان طبقات کی طرف سے آتا ھے جو ان فاسد و باطل نظاموں میں کسی قدر سرداری اور شوکت کے مقام پر متمکن ھوتے ھیں اور حق کے پیچھے چلنے میں ننگ و عار محسوس کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ حق ان کی نیابت میں چلے.یوں وہ اپنے تکبر و استکبار کی بنیاد پر اھلِ حق کو کسی قسم کا آزار پہنچانے سے بھی نہیں چوکتے مگر اللہ کا خالص بندہ "فَاصْبِرْعَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ" پر عمل کرتے ھوئےھنسی خوشی یہ سب کچھ برداشت کرلیتا ھے.اپنے قدموں کو روکتا نہیں بلکہ حق کی جادہ پیمائی میں یقینِ محکم کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ھے اور نظروں کو امرِالہی پر جمائے رکھتا ھے.
"
فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاستَقَم کَمَآاُمِرْتَ وَلا تَتَبِعْ اَهوَآءُ هم" پس تم اسی دین کی دعوت دو اور اس پر جمے رھو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا
هےاوران لوگوں کی خواھشات کی پیروی نہ کرو" (الشورٰی#15)
داعی قرآن کو جس صبر سے لیس ھونا چاھیئے وہ یہ نہیں ظالم کے ظلم پر صبر کرلے بلکہ ظالم کو ظلم سے روکنے میں استقامت اور ثابت قدمی دکھائے.اعلائے کملہ حق کے لیے استقلال و پامردی کا مظاھرہ کرے ، ابلاغِ قرآن کے سلسلے میں اصولِ صبر و استقامت پر کاربند رھے :
"
استَعِیْنُوابِالله وَاصبِرُوا" اللہ سے مدد طلب کرو او صبر کرو" (الاعراف#128)
 


" نوواں اصول "
" اُجرت "

تہذیبِ اسلامی کی تاسیس قرآن کے بغیر ناممکن ھے قرآن رسالاتِ الہی کا مکتوبی ایڈیشن ھے.ان رسالات کا ابلاغ ایک فریضہ اور ذمہ داری ھے نہ کہ وسیلہ معاش یا حصولِ زر کا زینہ. اس معاملہ میں آجر خود ذاتِ الٰہ ھے اور مبلغِ قرآن اجیر ھے وہ دنیا میں مزدور بن کر لوگوں کے خیالات و رجحانات، افکار و اعمال کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے کےلیے شب و روز کام کرتا ھے.وہ تقوٰی، طہارت، پاکیزگی نفس اور حسِ سلوک کی روح پورے انسانی معاشرے میں پھونکنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ھے اور چاھتا ھے کہ اپنی تربیت اور عملی رھنمائی سےنوعِ انسانی کو اس طور منظم کردے کہ ایک نئی سوسائیٹی، نئی ذھنیت، نئے آداب و اطوار تخلیق ھوجائیں اس پوری تگ و دو میں وہ کسی اور سے اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا اگر کوئی اجرت دینا بھی چاھے تو وہ بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتا ھے :
"
اِنْ اَجْرِیَ اِلاَ عَلٰی رَبِ الْعٰلِمِیْنَ" میرااجر تو دونوں جہانوں کے پالنہار کے پاس ھے" (الشعراء#109)
تمام رُسل اور انبیاء علیہم السلام کی یہی سنت رھی ھے کیونکہ یہ محترم هستیاں نہ اھل دنیا کی مزدور ھیں اور نہ دنیا کے کسی فرد یا گروھ سے اجرت کا تقاضا کرتی ھیں.اگر ایسا ھوتا تو پھر وہ اپنی تعلیمات کو خالص نہ رکھ سکتے بلکہ جس سے اجرتوں کی وصولی کرتے انکی فاسد خواھشات و ترجیحات کا لحاظ کرنے پر مجبور ھوجاتے.سورہ شعراء میں اس امر کو بڑی وضاحت کے ساتھ پانچ انبیاء علیہم السلام کا نام لے کر بیان کیاگیا ھے :
1).
حضرت نوح علیہ السلام کا آیت نمبر109 میں
2). حضرت ھود علیہ السلام کا آیت نمبر127 میں
3). حضرت صالح علیہ السلام آیت نمبر 145 میں
4). حضرت لوط علیہ السلام کا آیت نمبر 164 میں
5). حضرت شعیب علیہ السلام کا آیت نمبر 180 میں
ان تمام آیات میں ایک جیسے الفاظ میں باربار اس مضمون کو دھرایا گیا ھے :
"
وَمَااَسْئَلُکُم عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَ عَلٰی رَبِ الْعَالَمِیْنَ"اور اس کام(تبلیغ)
پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میری اجرت تو عالمین کے پروردگار پر هے"
یہ اصولِ اجرت اس قدر محکم اور استوار تھا کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے انطاکیہ میں مبلغین بھیجے تو انطاکیہ کے مومنِ کامل حبیب نجار نے اپنی قوم سے کہا تم انکی پیروی کیوں نہیں کرتے.حالانکہ :
*-
یہ لوگ ھدایت یافتہ ھیں
*- اور یہ اس تبلیغ کا تم سے کچھ اجر یا معاوضہ بھی نہیں مانگتے.
یوں حبیب نجار نے قوم کو اتباع و اطاعت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی اور کہا :
"
اتَبِعُوْامَنْ لاَیَسْئَلُکُم اَجْرًاوَھُمْ مُھْتُدُوْن" جو تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتےاور خود ھدایت یافتہ ھیں ان کی پیروی کرو" (یٰس#21)
حضراتِ انبیاء علیہم السلام اور اس پاکیزہ سلے سے منسلک مبلغین یہ سمجھتے تھے کہ جمہورالناس سے اجرت طلب کرنا ایک مذموم ، قبیح اور خودغرضانہ فعل ھے اور انکے لیے ھرگز زیبا نہیں کہ اللہ کے اجیر ھوکر لوگوں کے سامنے دستِ طلب پھیلائیں یا مالِ دنیا جمع کریں یا ان کو گن گن کر تجوریوں میں رکھیں.
اجرِرسالت کے حوالے سے آقائےنامدار حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں چار آیتیں بیان ھوئی ھیں.ان سب کو اکٹھا رکھ کر پڑھا جائے تو نتیجہ وھی نکلتا ھے جو انبیاء (علیہم السلا) ماسبق کی سیرت سے مترشح ھے.اب آیات ملاحظہ فرمائیں :
*- "
قُلْ مَآاَسئَلُکُم عَلَیْهِ اَجْرٍ اِلاَ مَن شَآء اَنْ یَتَخَذَاِلٰی رَبِه وَسِیْلاً" کہہ دیجیئے!
میں تم سےکچھ اجرِرسالت نہیں مانگتا ھوں مگر یہ کہ جو شخص چاھے اپنے پروردگارکاراستہ اختیارکرے"(الفرقان#57)
یعنی میں کوئی ذاتی منفعت نہیں چاھتا ھاں مگر یہ کہ تم آزادانہ طور پر بلاجبروکراه اللہ کے راستے پر چلنا شروع کردو تاکہ تم اخروی نجات پاسکو.
*- "
قَلْ مَااَسْئَلُکُم عَلیْه اَجْرٍوَمَآاَنآ مِن المُتَکَلِفِیْنَ" کہہ دیجئے! میں تبلیغ رسالت کی کوئی اجرت نہیں مانگتا اور تمہیں کوئی زحمت نہیں دیتا"(ص#86)
*- "قُلْ لاَاَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلاَالْمُوُدُةفِی الْقُرْبٰی"کہہ دیجئے!میں اپنےقرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا" (الشورٰی#23)
یہ آیت نازل ھوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھاگیا آپ(ص) کے قرابتدار کون ھیں تو فرمایا ! "علی ، فاطمۃ ، حسن اور حسین علیہم السلام" ان عظیم ھستیوں کی محبت کا اس لیے کہا گیا کہ ھدایت کے تسلسل اور استحکام کےلیے بعد از رسول (ص) انہوں نے ھادی کے فرائض انجام دینے تھے اور ظاھر ھے کہ جب تک کسی ھستی کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار نہ ھو اس کی اتباع و اطاعت کا تصور ھی پیدا نہیں ھوسکتا.لازمی نتیجہ یہی نکلتا هے کہ یہ محبت بھی خود لوگوں کی ھدایت کےلیے ھے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذاتی فائدے کےلیے.
*-
چوتھی آیت میں تو بات بالکل عیاں ھوجاتی ھے :
"
قَلْ مَاسَاَلْتَکُمْ مِن اَجْرٍفَهوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِی اِلاَعَلَی الله وَهوَ عَلٰی کُلِ شَئٍ شَهیْدّ"
کہہ دیجئے ! جو اجر میں نے تم سے مانگا ھےیہ تمہارےحق میں ھے خدا کےعلاوہ میراکسی پرکوئی اجر نہیں
ھے" (السبا#47)
ان تمام قرآنی بیانات سے واضح ھوجاتا ھے کہ رسالاتِ الہیہ کو پہنچانے والا اور ابلاغِ قرآن کرنے والا اللہ کا اجیر ھے اور اس کی اجرت اس دنیا کے کھوٹے سکے نہیں ھیں.یہ حالات کا جبر ھے کہ آج ابلاغِ قرآن اور ارسالِ پیغاماتِ الہی بظاھر ایک بہت بڑا منفعت بخش کاروبار بن چکا ھے.مذھب اور دین کے نام پر سرمایہ دارانہ ذھن رکھنے والا طبقہ اشرافیہ پیدا ھوچکا ھے جو عوام الناس کا مالی اور فکری استحصال کررھا ھے.علمائےیہود کی طرح کتمانِ حق کرتا ھے.درسِ وحدت کی بجائے فرقے پیدا کرتا ھے اور کلام اللہ کی من مانی، خودغرضانہ تاویلات اور تشریحات کرتا ھے.
ان کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے خوب تبصرہ فرمایا ھے :
"
یحتلبون الدنیادرھا بالدین" دین کے بہانے دنیا(کے تھنوں) سے دودھ دوھتے ھیں" (نہج البلاغہ)
کاش یہ اپنی عباؤں میں کھوٹے درھم و دینار سمیٹنے کی بجائے دامنِ دل کو رضائے پروردگار کےلیے پھیلادیتے. بقول شاعر مشرق علامہ اقبال صاحب
ع :
احکام تیرے حق ھیں مگر اپنے مفسر
تاول سےقرآں کو بناسکتے ھیں پاژند
 

" دسواں اصول "
"اصولِ تقوٰی "

قرآن صاحبانِ تقوٰی کےلیے ھدایت ھے. یہ تقوٰی کیا ھے؟؟؟؟؟
حقیقتِ تقوٰی کسی خاص وضع یا ھیئت کا نام نہیں ھے اور نہ کسی خاص قسم کی بودوباش کا نام ھے
بلکہ یہ نفسِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ھے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ھوتی ھے اور زندگی کے ھر پہلو میں ظہور کرتی ھے. اصلی تقوٰی یہ ھے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ھو عبدیت کا شعور ھو خدا کے سامنے جواب دھی کا احساس ھو اس بات کا زندہ ادراک ھو کہ یہ دنیا ایک امتحان گاھ ھے جہاں خدا نے ایک خاص مہلت تک رکھنا ھے
اور پھر اپنے یہاں بلاکر پورا پورا حساب لینا ھے. اس شعور اور ضمیر کی بیداری کے ساتھ ھی وہ
ضبطِ اوقات کا
نظم وضبط کا
حسنِ رفاقت کا
شہامت و شجاعت کا
پیکر بن جاتا ھے.
ھر چند کہ "اِنَاجَعَلْنَامَاعَلَی الاَرْضِ زِیْنَة" مگر وہ ھر زینت کو چھوڑ کر صرف اللہ سے تعلق استوار کرلیتاھے.اب کوئی لالچ اس کو گرفتار کرسکتی ھے اور نہ کسی قسم کا خوف لاحق ھوسکتا ھے.وہ خالص اللہ کا مزدور بن کر آخرت کی کھیتی کا آبادکار بن جاتا ھے. پھر وہ اس احساس ، شعور اور خیر کے دائرے میں تمام نوعِ انسانی کو لانے کی تگ و دو کرتا ھے اور ھرگز پرواھ نہیں کرتا کہ اس کے راستے میں طوفان آئے یا چٹان، کوہ آئے یا دمن، خارزار ھو یا ریگزار وہ کسی شے کو خاطر میں نہیں لاتا، ھاں اگر ڈرتا ھے تو صرف اور صرف اپنے رب سے :
"
اَلَذِینَ یُبَلِغُونَ رِسٰلٰتِ الله وَیَخْشَونه وَلا یَخْشَوْنَ اَحَدًااِلاَالله" وہ جو اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے ھیں وہ بس اللہ
سےھی ڈرتےھیں اوراس کےعلاوہ کسی سےنہیں ڈرتے" (الاحزاب#39) *- "وَالله اَحَقُ اَنْ تَخْشٰهُ"
اور یہ حق بنتا ھی ھے کہ اللہ سے ڈرا جائے" (الاحزاب#37)
جب بندہ اللہ سے ڈرتا ھے تو پھر قانونِ قدرت ھے کہ : "من خاف الله سبحانه امنه الله من کل شئ من خاف الناس اخافه الله سبحانه من کل شئ" جو خداوند سبحان سے ڈرتا ھےالله اسےھرچیزکی طرف سے مطمئن کردیتا ھے اور جو لوگوں سے ڈرتا هے اللہ اسے هر شے سےڈراتا ھے(غررالحکم)
 

 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک