عزاداری بزرگان نوربخشیہ کےنظر میں
اسلام ایک فطری اور آفاقی دین ہے، صلح وصفائی امن و آشتی اس کے بنیادی اصول ہیں۔ یہی فلسفۂ دین اسلام بھی ہے اسی میں اسلام کی بقاء اور اس کی ترویج ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضور دو عالم حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے کفار سے صلح حدیبیہ وغیرہ کی اور اس کی تحریر حضرت علی سے لکھوائی حضرت امام حسن نے امیر معاویہ سے اپنے جد امجد رسول اللہ ۖ کی سیرت و نقش قدم پر چلتے ہوئے صلح فرمائی۔ اسلام بنیادی طور پر ایک امن پسند دین ہے، انسانی فطرت کے مطابق صلح پسندی اور انسان دوستی کا دین ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسان اپنی حیوانی جبلتوں (یعنی خود غرضی، ہوس رانی غلبہ اور جارحیت) کے ساتھ مکمل آشتی پسند ہوسکتا ہے؟ اگرچہ اس کا جواب نفی میں ہے البتہ انسان کی ان جبلتوں کو مہذب بنایا جاسکتا ہے جس کی مدد سے جنگ کے دائرے کو محدود اور جنگ کے طریقوں کو زیادہ شریفانہ بنایا جاسکتا ہے
حضرت امام حسین کے مدینہ میں خروج فرمانے کے اسباب کا دقیق مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے مٹ جانے کا خطرہ تھا۔ حسین اپنے جد امجد محمد مصطفےٰ ۖ کی امانت میں خیانت نہیں کرسکتے تھے۔ مدینہ سے رخصت ہوتے وقت امام حسین نے فرمایا ''اپنے آباء واجداد کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مدینہ چھوڑ رہا ہوں'' پھر آپ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ چھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کھلے عام مکہ میں وارد ہوئے۔ مکہ میں لوگ حج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اسلام مٹ رہا تھا خدا کی خدائی کو جھٹلایا جارہا تھا لیکن خدا کی خدائی کے بغیر اس کے گھر کی عبادت ہورہی تھی۔ امام عالی مقام نے حاجیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا ''میں اپنی موت کی جانب جارہا ہوں''
چودہ سو سال سے انسان تاریخ کربلا کو منصۂ شہود پر لاتا رہا ہے لیکن اتنے مطالب سامنے آنے کے باوجود ہر انسان یہی محسوس کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ابھی ہم نے انقلاب حسینی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہر دور کے لحاظ سے واقعۂ کربلا کی معنویت کے نئے نئے پہلو ابھرتے چلے آتے ہیں۔ یقیناً کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلَا وَکُلُّ یَوْمٍ عَاشُوْرَائ ہے۔ کربلا ہماری فکر وشعور کی تربیت گاہ ہے۔ ظلم واستحصال ، حقوق انسانی کی لوٹ کھسوٹ، جہالتوں، شقاوتوں اور درنگی کے خلاف ایک مستقل احتجاج ہے۔ دین اسلام کو زک پہنچانے والی ہر تلوار کو گلے سے مات دینے کے دن کا نام عاشورا ہے۔ اس عہد کی تجدید کرنے کا نام کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس پر ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے، عاشورا ہے۔ عاشورا رموز امامت وملوکیت کو سمجھنے کے دن کا نام ہے۔ لہٰذا ہر باشعور انسان کا فریضہ ہے کہ قیام امام حسین کے فلسفے اور اس کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ القصہ الفاظ زیادہ ہیں لیکن کاغذ کا دامن کم وسعت ہے
عزاداری حسین ؑؑعمل و انقلاب کی یادگار ہے۔ حیات انسانی کا گرانقدر سرمایہ ہے اور فروغ انساانسانیت کے لئے ایک ایسی مؤثر اور مقدس تحریک ہے جو اپنے اندر تاریخ کا پورا باب لئے ہوئے ہے۔ ایک ایسی درد بھری داستان کی یاد ہے جو افکار عالم کو دعوت فکر و عمل دیتی ہے اور تمام عالم انسانیت کے لئے ایک ایسے لازوال، غیر فانی اور حق پرور پیغام کی حیثیت رکھتی ہے جو بلاتخصیص مذہب و ملت دنیا کے تمام حریت پسندوں کے لئے مشعل ہدایت ہے۔
عزاداری کا اصل مفہوم فقط ایک المناک اور پر درد واقعہ کی یاد تازہ رکھنا نہیں بلکہ اس کے وسیلے سے استحکام اسلام، فروغ انسانیت، اصلاح معاشرہ اور ان تعلیمات کا احیاء و بقاء ہے جن کے لئے بعثت انبیاء و رسل ہوئی اور سلسلۂ رسالت و امامت قائم رہا۔ قرآن کے الفاظ میں آنحضرت ۖ کی بعثت کا مقصد تعلیم کتاب و حکمت اور تکمیل مکارم اخلاق ہے کتاب، حکمت اور اخلاق ان تمام امور کی طرف بڑھنے کا نام ہی عزاداری ہے۔ انسانیت جو استبداد کے ہاتھوں ذلیل ہورہی ہے عزاداری کے ذریعے اب ہمیں اسے معزز بنانا، بلند کرنا، ابھارنا اور انسانی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے۔ یزید صرف اسلام کا دشمن نہ تھا بلکہ وہ اسلام کے پردے میں انسانیت کو صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹانا چاہتا تھا۔ حسین ؑ نے بڑھ کر اپنی زندۂ جاوید قربانی سے انسانوں کے لئے ایک روشن مثال قائم کردی اور عزت کی زندگی بسر کرنے کا سبق دیا۔ ''ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے'' یہ ایسا زرین سبق ہے جس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ عزاداری امام حسین ؑ کی تجدید اس لئے بھی لازم ہے کہ اس سے ہمیں طاغوتی طاقتوں کا وہ حیلہ و مکر یاد آتا ہے جس سے ہماری قومی حمیت پر تازیانے کی شدید ضرب پڑتی ہے۔ انسانی غیرت جوش میں آتی ہے ہم باطل قوتوں سے تا فتح جنگ کرنے کا عزم صمیم کرتے ہیں۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ ٦١ ھ میں سکوت مرگ طاری تھا ہر نطق مہر بلب تھا انسانیت کی دہجیاں اڑ رہی تھیں اور انسان خاموش تھا ایسے میں ایک مرد جری نے اٹھ کر تاریخ کے غلط لہجے کی نشاندہی کی اور گلے سے تلوار کو شکست دے کر تاریخ انسانیت کی ایک زندۂ جاوید شخصیت بن گیا۔ دنیا کے قطعی غیر جانبدار، باضمیر، حساس اور اہل فکر و نظر، دانشور، مفکرین، مؤرخین، مصلحین اور مذہبی رہنما تاریخ اقوام اور مذاہب عالم کے تقابلی مطالعہ، تحقیق اور تفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر انسانیت کی حقانیت کے لئے پورے فہم، خلوص، جرأت اور ذمہ داری کے ساتھ کسی نے کوئی کوشش کی ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت امام حسین ؑ کی ذات والا صفات ہے کیونکہ حسین ؑ کی قربانی کسی مخصوص مذہب ، رنگ و نسل، علاقے اور افراد کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے تھی۔
انسانیت پر حسین ؑ کے ان عظیم احسانات کو نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ دنیا کے تمام اہل نظر انسانوں نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ انسانیت کے اس عظیم محسن اور نجات دہندہ کے حضور اپنی بصیرت و بصارت اور اپنے عقائد و نظریات کے مطابق خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
لہذا عالم اسلام کے تمام علما ے کرام و مورخین نے اس المناک واقعے اور اس پردرد قصہ کو اپنے اعتقادات کی روشنی میں بیان کیا ہے ،اس مقالے میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے بزرگان نے امام عالی مقام کی اس عظیم قربانی کو کیسے خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کے غم منانا ان کے نزدیک کیا درجہ رکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام پر گریہ مستحب اور باعث شفاعت ہیں
سب سے پہلے ان آحادیث کو نقل کرتے ہیں جو عزادری سید الشہدا علیہ السلام کے حوالے سے نوربخشی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ۔
اس حدیث کو سلسلہ نوربخشیہ کے کئی بزرگان نے اپنے کتابوں میں نقل کیا ہے۔
وعن علی علیه السلام عن رسول اﷲ ۖ قال اذا کان یوم القیامة نادٰی مناد من بطان العرش یا اهل القیامة اغمضوا ابصارکم لتجوز فاطمة بنت محمدۖ مع قمیص مخضوب بدم الحسین فتحتوی علیٰ ساق العرش فتقول أنت الجبار العدل اقض بینی و بین من قتل ولدی فیقضی اﷲ بنتی و رب الکعبة ثم تقول الّلهم اشفعنی فیمن بکیٰ علیٰ مصیبته فیشفع ها اﷲ فیهم ۔(1)
ترجمہ: جناب امیر المومنین حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ جناب رسول خدا ۖ نے فرمایا ہے کہ جب روز قیامت ہوگا تو وسط عرش سے ایک منادی ندا کرے گا کہ اے اہل محشر ! اپنی آنکھیں بند کرلو تاکہ فاطمة بنت محمد خون حسین ؑ سے رنگین قمیص کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گذر جائے پس فاطمة ستون عرش کو تھام کر کہے گی اے اﷲ تو جبّار و عادل ہے میرے اور میرے فرزند حسین ؑکے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما ربّ کعبہ کی قسم میری بیٹی فاطمة کے حق میں خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا پھر فاطمة عرض کریں گی کہ اے الہٰ العالمین جو لوگ میرے حسین ؑ پر روئے ہیں مجھے ان کے لئے شفاعت کا اختیار دے پس اﷲ تعالیٰ ان (فاطمة ) کو ان کے حق میں شفیع مقرر کرے گا۔
اس روایت کو نوربخشی عالم دین مولوی حمزہ علی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے
عن سلمی قالت دخلت علیٰ ام سلمه وهی تبکی فقلت ما یبکیک قالت رأیت رسول الله فی المنام وعلیٰ راسه ولحیته التراب فقلت مالک یارسول الله قال شهدت قتل الحسین .(2)
ترجمہ: سلمی کا کہنا ہے کہ میں حضرت ام مسلمہ کے پاس آئی تو وہ اس وقت رو رہی تھیں میں نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں آنحضرت ۖ کو دیکھا ہے کہ آپ ۖ کے سر اور داڑھی پر خاک پڑی ہوئی تھی میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ۖ یہ کیا ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی حسین ؑ کی قتل گاہ میں (موجود) تھا۔
امام صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام کی اس روایت کو میر سید محمد نوربخش نے نقل کیا ہے
قال امام الصادق من بکیٰ او ابکیٰ ثلاٰثین فله الجنة و من تباکیٰ فله الجنة۔
ترجمہ: حضرت امام صادق نے فرمایا جو ہماری مصیبت میں روئے یا تیس افراد کو رلائے اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو رونے کی شکل بنائے اس کے لئے جنت ہے۔
قال امام علی رضا مَنْ تَذَکَّرَ مَصَائِبَنَا وَبَکیٰ لَمَا اِرْتَکَبَ مِنَّا کَانَ مَعَنَا فِیْ دَرَجَتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ (3)
ترجمہ: حضرت امام علی رضا نے فرمایا کہ جو ہمارے مصائب کا ذکر کرے گا اور مصیبتوں پر روئے گا وہ روز محشر ہمارے ساتھ ہی درجے میں ہوگا۔
اس روایت کو نوربخشی علماء مولوی حمزہ علی اور سید قاسم شاہ کھرکوی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے
عن ام الفضل فی روایة قد خلت یوما علیٰ رسول الله فوصغته فی حجرة ثم کانت منی فاذا عینا رسول الله تهریقان الدموع قالت فقلت یا رسول الله بابی انت و امی مالک قال اتانی جبرئیل فاخبرنی ان امتی ستقتل ابنی هذا۔ (4)
ترجمہ: زوجہ حضرت عباس عم رسول ۖ سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول خدا ۖ کی خدمت اقدس میں حضرت امام حسین ؑ کو جبکہ وہ ایک روزہ تھے، لے کر حاضر ہوئی اور انہیں حضور ۖ کی گود میں رکھ دیا میں نے غور سے دیکھا حضور ۖ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے عرض کیا حضور یہ کیا، فرمایا اے بی بی میرے پاس جبرئیل آئے انہوں نے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو ناحق قتل کرے گی۔
مولانا حمزہ علی قائم الحق ص ٢٦٢ میں لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے اپنے خدا سے مناجات کیا کہ تمام امت سابقہ پر امت محمد ۖ کو کیوں فضیلت عنایت ہوئی ہے تو خداوند عالم نے فرمایا کہ نو خصلتیں ان میں ہیں جو وہ عمل میں لائیں گے۔ وہ یہ ہیں،
قَالَ اللهُ تَعَالیٰ: اَلصَّلوٰةُ وَالزَّکوٰةُ وَالْحَجُّ وَالْجَهَادُ وَالْجُمُعَةُ وَالْجَمَاعَةُ وَالْقُرْآنُ وَالْعِلْمُ وَالْعَاشُوْرَائُ۔ (حدیث قدسی)
ترجمہ: فرمایا نماز ، زکوٰة، حج، جہاد، جمعہ، جماعت، قرآن، علم اور عاشورہ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے روایات نوربخشی علماء و بزرگان نے اپنی کتابوں میں نقل کیے ہیں تا ہم طوالت سے بچنے انہی چند روایتوں پر اکتفا کرتے ہیں ،نوربخشی بزرگان کا جا بجا اپنی کتابوں میں ان احادیث کو نقل کرنا اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا مظلوم کربلا سے عقیدت اور احترام کس حد تک تھے اور امام عالی مقام پر رونا اور عزاداری کا انعقاد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
شہید سید محمد نوربخش کی نظر میں
الشَّهِیْدُ مَنْ قَتَلَهُ الْکَافِرُوْنَ فِی الْمَعْرِکَةِ وَغَیْرِهَا اَوْ قَتَلَهُ الْمُسْلِمُوْنَ ظُلْمًا اِذَا لَمْ یَشْرَبْ وَ لَمْ یَاکُلْ وَلَمْ یَبْقَ مِنْ وَّقْتِ صَلوٰةٍ اِلی اٰخَرَ لَا حَاجَةَ لَه اِلَی الْغُسْلِ وَ یَکْفِیْ لِکَفَنِه ثَوْبُه الْمُلَطَّخُ فَلَا یُنْزَعُ عَنْهُ اِلَّا الْفَرْؤُ وَالْخُفُّ وَالسِّلَاحُ فَیُصَلِّیْ عَلَیْه وَیُدَفِّنُهُ مِنْ حَضَرَ وَقَدَرَ عَلیٰ الصَّلوٰةِ وَالتَّدْفِیْنِ وَاِنْ لَمْ یَقْدِرْ عَلیٰ الصَّلوٰةِ فَالتَّدْفِیْنُ یَکْفِیْهِ وَاِنْ لَمْ یَتَیَسَّرِ التَّدْفِیْنُ رَفَعَ اللهُ دَرَجَتَهُ وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ (5)
ترجمہ: شہید وہ شخص ہے جس کو میدان جنگ وغیرہ میں کافروں نے مار ڈالا ہو یا مسلمانوں نے اس کو بطور ظلم قتل کردیا ہو جبکہ وہ کچھ نہ پیئے، کچھ نہ کھائے اور ایک نماز کے وقت سے لے کر دوسرے وقت نماز تک وہ نہ رہ سکے تو اس کو غسل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا خون آلودہ کپڑا ہی اس کے کفن کے لئے کافی ہے چنانچہ اس کے بدن سے صرف پوستین، موزہ اور ہتھیاروں کو اتار لیا جائے گا پھر موجود لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھنے اور اس کو دفنانے پر قادر ہوں تو وہ لوگ اس کے لئے نماز پڑھیں اور اس کو دفنا دیں اگر نماز پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو دفنا دینا اس کے لئے کافی ہے اگر دفنانا بھی میسر نہ ہو تو اللہ اس کے درجے کو بلند کرتا ہے جو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
غوث المتأخرین سید العارفین سید محمد نوربخش قدس اللہ سرہ العزیز کے مذکورہ فتویٰ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے عام آدمی جو کہ معصوم نہ ہو اس پر ماتم کرنا حرام ہے۔ جبکہ تعزیت امام عالی مقام حسین ؑ ابن علی ' سنت انبیاء ، سنت رسول ۖ ، سنت ائمہ طاہرین اور سنت صحابہ ہے۔
سید محمد نوربخش نور اللہ مرقدہ اعلی اللہ مقامہ کے رسالہ ''نوربخشیہ'' میں جس کو عالم متبحر سید قاسم شاہ مرحوم میر واعظ کھرکوہ بلتستان نے تالیف کرکے جالندھر سے مئی ١٩٢٨ء میں شائع کرایا ہے مرقوم ہے کہ
"تا سہ روز ولی میت را تعزیت کردن سنت است مگر تعزیت سید الشہداء الیٰ یوم المعاد سنت اسلام ہست ومراسم تعزیت حسین ؑ بجا آوردن مثلاً گریہ و مرثیہ و نوحہ و قصہ و واقعہ کماحقہ و قرآن خواندن و صدقہ و خیرات بروح مطہرات رسانیدن و سینہ زدن سنت اہل سلف اند" (6)
ترجمہ: تین دن تک عام میت کی تعزیت کرنا سنت ہے مگر تعزیت سید الشہداء امام حسین ؑ قیام قیامت تک سنت اسلام ہے۔ تعزیت امام حسین ؑ کی رسمیں مثلاً رونا دھونا، مرثیہ، نوحہ پڑھنا، کماحقہ اس واقعہ کا حال سنانا، قرآن پڑھنا اس کی روح مطہر تک پہنچنے کے لئے صدقہ و خیرات دینااور سینہ زنی کرنا اہل سلف کی سنت ہے۔
شہادت ابا عبداللہ علیہ السلام بہترین وسیلہ
مسلک نوربخشیہ کے پیروکاران دعائے تشفع میں امام حسین ؑ کی شہادت کو وسیلہ بناکر ہر واجب نماز کے بعد پڑھتے ہیں کہ وَبِشَهَادَةِ الْحسین وَمُشَقَّتِهِ اور حضرت امام حسین ؑ کی شہادت اور مشقت کا واسطہ.
اور روحانی روابط میں توسل لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''و ہفتاد و دو تن شہید کربلا را'' اور کربلا کے بہتر شہداء کا واسطہ۔(7)
اہل بیت پر گریہ نہ کرنا ظاہر الفسق ہے
حضرت میر مختار اخیار قدس اللہ سرہ پیر طریقت مذہب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ نے اپنی کتاب کے حاشیہ پر تحریر فرمایا ہے کہ
''یعنی تعزیت سید الشہداء آنکہ گریہ بر حسن ؑ وحسین ؑ و اہل بیت نکند آن کس ظاہر الفسق است'' (8)
ترجمہ: جو کوئی تعزیت سید الشہداء جو کہ حسن ؑ و حسین ؑ اور ان کی اہل بیت پر رونا ہے، نہ کرے وہ ظاہر الفسق ہے۔
روز عاشورہ زیارت کی نمازیں
نوربخشی عملیات کی کتابوں میں زیارت کی نمازوں کا تذکرہ کچھ اس طرح آیا ہے۔
عاشورہ کی دن چھ رکعت نماز دو دود سلام کے ساتھ اس طرح نیت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے
اُصَلِّیْ صَلوٰةَ زِیَارَةِ عَلِیِّ نِ الْاَکْبَرِ رَکْعَتَیْنِ قُرْبَةً اِلَی اللهِ
میں قرب الٰہی کی خاطر دو رکعت نماز زیارت علی اکبر پڑھتا/ پڑھتی ہو۔
اُصَلِّیْ صَلوٰةَ زِیَارَةِ الْحسین رَکْعَتَیْنِ قُرْبَةً اِلَی اللهِ
میں قرب الٰہی کی خاطر دو رکعت نماز زیارت حسین ؑ پڑھتا/ پڑھتی ہو۔
اُصَلِّیْ صَلوٰةَ زِیَارَةِ سَائِرِ الشُّهَدَاء رَکْعَتَیْنِ قُرْبَةً اِلَی اللهِ
میں قرب الٰہی کی خاطر باقی تمام شہیدوں کی دو رکعت نماز زیارت پڑھتا/ پڑھتی ہو۔ (9)
سیاہ پوشی سنت نبوی ۖ ہے
ان رسول الله ۖ خطب وعلیه عمامة السوداء قد ارطرفیها بین کثفیه۔
ترجمہ: رسول اللہ ۖ نے خطبہ دیا اس وقت سیاہ رنگ کا عمامہ پہنا ہوا تھا میں نے شملہ کاندھوں کے درمیان لٹکے دیکھا۔ (10)
ان رسول الله ۖ دخل یوم فتح مکة وعلیه عمامة السوداء .(11)
ترجمہ: رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ کے دن سیاہ رنگ کا عمامہ پہنا ہوا تھا۔
سید محمد نوربخش غم حسین ؑ میں ہر وقت سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔اس حوالے سے محمد اسیری لاہیجی لکھتے ہیں کہ
"شاہ اسماعیل صفوی وقتی کہ ولایت فارس وشیراز را گرفت بہ زیارت شیخ محمد اسیری لاہیجی شارح گلشن راز (م۔ ٩١٢ھ) رفت و از او سوال نمود کہ چرا لباس سیاہ اختیار نمودہ اید؟ شیخ فرمود بجہت تعزیہ امام حسین ؑ شاہ گفت، تعزیہ ایشان قرار یافتہ کہ در سال دہ روز باشد، شیخ گفت مردم بہ خطا رفتہ اند، تعزیہ آنحضرت تا دامن قیامت باقی است باید گفت سید محمد نوربخش ہم ہمہ عمر لباس سیاہ می پوشید و سنت مشائخ او ایں بودہ است" (12)
ترجمہ: جب شاہ اسماعیل صفوی فارس اور شیراز کی ریاست کا حکمران بنے تو وہ شیخ محمد اسیری لاہیجی شارح گلشن راز (م۔ ٩١٢ھ) سے ملنے گئے اور ان سے سوال کیا کہ آپ نے سیاہ لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ شیخ لاہیجی نے فرمایا حضرت امام حسین ؑ کی تعزیت میں۔ شاہ نے کہا کہ ان کی تعزیت سال میں صرف دس دن کے لئے ہوتی ہے۔ شیخ لاہیجی نور اللہ مرقدہ نے کہا کہ عوال غلطی پر ہیں ان کی تعزیت تا قیام قیامت باقی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ حضرت سید محمد نوربخش قدس اللہ سرہ اپنی پوری عمر سیاہ لباس پہنتے رہے اور ان کے مشائخ ، پیشواؤں کی سنت بھی یہی رہی ہے۔
نور الدین مدرسی چہاردہی لکھتے ہیں کہ "سید محمد نوربخش مانند سید علی ہمدانی و سید علی جد شاہ اسماعیل لباس سیاہ برتن می کرد'' (13)
ترجمہ: سید محمد نوربخش قدس سرہ حضرت سید علی ہمدانی قدس اللہ تعالیٰ سرہ اور سید علی جد شاہ اسماعیل کی طرح کالے کپڑے پہنتے تھے۔
عزاداری کے حوالے سے پیر نوربخشیہ سیدسید عون علی کا فتویٰ
مسلک نوربخشیہ کے موجودہ پیر سید محمد شاہ نورانی کے والد بزرگوار اور پیر نوربخشیہ سید عون علی شاہ عون المومنین سے کسی نے اسی بابت استفتاء کیا تھا ،ہم یہاں پر مکمل فتویٰ نقل کرتے ہیں۔
سوال نمبر ١ : کیا محرم الحرام کے ماتمی جلوسوں میں علم اور محمل وغیرہ نکالنا صحیح ہے یا نہیں؟
جواب : بحکم حدیث رسول ۖ مَنْ بَکیٰ اَوْ اَبْکیٰ اَوْ تَبَاکیٰ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ۔
ترجمہ: جو کوئی حسین ؑ پر روئے یا رلائے یا رونے کی شکل بنائے اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔
اس حدیث کی روسے حضرت امام حسین ؑ کے ماتم میں اگر کوئی حسین ؑ کا قصہ بیان کر کے رلانے یا مرثیہ یا نوحہ یا کوئی شبیہ علم یا محمل یا ذوالجناح وغیرہ دکھا کر رلائے تو یہ کار ثواب ہے گناہ نہیں مگر ذوالجناح مسجد یا خانقاہ کے اندر لے جانا جائز نہیں کیونکہ اگر وہ اندر بول و براز کرے تو یہ گناہ ہوگا کیونکہ مسجد کے اندر بے حرمتی نہ ہونے دینا انسان کی ذمہ داری ہے حیوان کی نہیں۔ اسی طرح مسجد کے اندر زنجیر زنی کرکے خون سے مسجد کو نجس کرنا بھی گناہ ہے لہٰذا خلاف شریعت کوئی کام نہیں ہونا چاہئے اگر کوئی ایسا کرے تو وہ گناہگار ہے۔
سوال نمبر ٢ : حضرت امام حسین ؑ کے نام پر صلوٰة اور سلام کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : صلوٰة اور سلام سے متعلق حکم
اِنَّ اللهَ وَ مَلٰئِکَتَه یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّیا ٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْه وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً۔ (الاحزاب ٥٦)
ترجمہ: تحقیق اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی ۖ پر اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو درود بھیجو جیسا کہ درود و سلام بھیجنے کا حق ہے۔
کی آیۂ مبارکہ کے تحت واضح ہے۔
اور حدیت رسول ۖ ہے کہ تم لوگ مجھ پر صلوٰة ناقص مت کہو دریافت کرنے پر فرمایا "
اَللّهمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ مت کهو بلکه اَللّهمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ کہو اس آیت اور حدیث کے مطابق مذہب نوربخشیہ کے دعوات میں نماز پنجگانہ کی دعاؤں سے پہلے اَللّهمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارَکْ وَسَلِّمْ عَلَیْهمْ پڑھتے ہیں۔ اس میں صلوا اور سلموا دونوں حکم شامل ہیں اس کے علاوہ دعوات میں ہے کہ جب تم کسی قبرستان میں داخل ہو تو کہو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ۔ ہمارے مردوں پر سلام کہنا جائز اور حضرت امام حسین ؑ کے نام پر سلام کہنا ناجائز ہونا خلاف عمل و عقل ہے اور دعوات حضرت میر شاہ جلال سید الاخیار میں لکھا ہے اس میں حضرت امام حسین ؑ اور ان کے جانثاروں کے نام بہ نام سلام لکھا ہے ہمارے یہاں بھی عاشورا، تیرہویں محرم اور اربعین کے موقع پر علم اور محمل وغیرہ نکال کر جلوس کے خاتمے پر زیارت حضرت امام حسین ؑ پڑھتے ہیں اور ہمارے دعوات میں نماز زیارت بھی چھ رکعت ہیں اس لئے جو کوئی مذہب نوربخشیہ سے تعلق رکھتا ہے ان کے لئے پیغمبر ۖ اور آل پیغمبر پر تمام صلوات اور سلام کہنا عبادت ہے جبکہ اس کے بدعت اور ناجائز یا ارتکاب گناہ کے اثبات میں کوئی دلیل نوربخشی کتابوں میں نہیں ہے۔ الراقم داعی بالخیر ،سید عون علی الموسوی پیر صوفیہ امامیہ نوربخشیہ بلتستان خپلو ، مورخہ : ٨٠/٧/٢٠ (14)
حرف آخر
مندرجہ بالا مطالب کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ بزرگان نوربخشیہ کے نزدیک عزاداری سید الشہدا منانا ایک نیک اور مستحب عمل ہے۔کیوں نہ ہو حضرت امام حسین نے ایک عظیم مقصد اور ایک عظیم ترین نصب العین کے لئے شہادت کو گلے سے لگایا اور مقصد کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام عالی مقام نے اپنے آبائی وطن مدینہ کو چھوڑا حج جیسی سعادت و عبادت کو عمرہ میں تبدیل کیا۔ تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی خود اپنی اور اپنے رفقاء کی قربانی دی یہاں تک کہ اہل حرم کی بے پردگی و اسیری برداشت کرنے کے لئے بھی آمادہ تھے۔ ان کے پیش نظر صرف خوشنودیٔ خدا، بقائے دین، حفاظ شریعت اور تحفظ انسانیت جیسے اہم مقاصد تھے بظاہر آپ کی شمع حیات بجھ گئی اور ظاہری حیات کا خاتمہ ہوگیا لیکن کربلا والوں کے مقدس لہو نے جہان بشریت کو عرفان کی منزل کا پتہ دیا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا دین کی بالادستی قائم کی انسانیت کو حیات جاودانی بخشی، تہذیبی و اخلاقی اقدار کو تباہی سے بچایا، شرافت کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بچالیا، ظلم و ستم کے سامنے قیام کرنے کی ہمت عطا کی، حق و باطل کے درمیان حد فاصل قائم کی اور ظلم و ستم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادیا۔ امام مظلوم نے کربلا کے دشت خونین میں جو آفاقی نعرہ بلند کیا کہ هلْ مِنْ نَاصِرٍ یَّنْصُرُنِیْ هلْ مِنْ مُغِیْثٍ یُّغِیْثُنِیْ۔
ترجمہ: کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے اور کوئی ہے جو میری فریاد رسی پر پہنچے۔
امام کو اپنی جان بچانے کی تمنا نہیں تھی اس فاجعۂ عظیم و درد انگیز کا انہیں پہلے ہی علم تھا، بلکہ ان کا ماحصل و مدعا مذکورہ اہداف تھے۔ لہٰذا سطحی علم رکھنے والے مولیوں کو اگر کلام امام میں سے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے کی فرصت نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کلام امام کا سمجھنا ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ ہاں ! البتہ یہ حسین کے محبوں کا کام ہے کہ وہ حسینی استغاثہ پر لبیک کہیں یہ حسین سے محبت و عقیدت و ارادت رکھنے والوں کا فرض ہے کہ حسین کی نصرت کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ اب یہ حسین پر آنسو بہانے والوں، ماتم داروں، غم گساروں، نام لیواؤں اور غلاموں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر روح کربلا زندہ کریں اور وہ زندگی گزاریں جس کے امام عالی مقام نے دعوت دی ہے۔ اور وہ عمل کریں جو حسین نے فرمایا ہے اور اس تحریک میں شریک ہوجائیں جس کی احیاء کے لئے امام مظلوم نے اپنی جان مطہر کا نذرانہ پیش کیا۔ بصیرت رکھنے والوں کے لئے کربلا آج بھی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ امام عالی مقام کا اتباع کرتے ہوئے اس مشن کو زندہ رکھا جائے۔ آگہی کی اس منزل تک رسائی صرف اور صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب ہم تزکیۂ نفس کے ساتھ معرفت امام حاصل کریں۔ معرفت، مودت کی اگلی منزل ہے جہاں سے عرفاء منزل یقین پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ معرفت حضرت امام حسین نے نماز کو قائم کیا، زکوٰة کو قائم کیا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ حسین نے نماز کی عظمت و اہمیت پر اس قدر شدو مد سے زور کیوں دیا؟ جنگ کے ہنگام میں بھی حسین نے نماز کو قائم کیا اور جب ان کی زندگی کی آخری شمع بجھنے والی تھی اس وقت بھی حسین نے رکوع ذوالجناح کی زین پر اور سجدہ خاک کربلا پر کیا اور اس وقت تک اپنے خالق حقیقی کی حمد و ثناء کرتے رہے جب تک سر وتن میں جدائی نہ ہوگئی۔ نماز اسلام کے فروغ دین میں سے ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی سے متعلق تہذیب و تمدن کی بڑی حد تک ممد ومعاون ہے۔ نماز کی پابندی اور اس کے قیام و استقلال و استحکام کے تقاضوں سے قرآن و احادیث کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ نماز خوشنودیٔ خدا ہے، فرشتوں کی پسندیدہ شیٔ ہے، انبیاء کی سنت ہے، اس سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے، دعا قبول ہوتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، نماز ایمان کی نشانی ہے، بدن کی راحت ہے، مومن کی معراج ہے، قبر کا چراغ ہے اور اس کی وحشت کو دور کرتی ہے۔ یہی نماز روز محشر مومنین کے لئے سایہ اور ٹھنڈک کا باعث ہوگی، یہ تاریکیوں میں روشنی ہے پل صراط سے گزارنے والی ہے یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں سب سے پہلے قبر میں پوچھا جائے گا ہر عبادت کی کامیابی اس کی قبولیت پر منحصر ہوگی، نماز مسلم و کافر و مشرک کے مابین حد فاصل ہے، نماز وہ واحد عظیم عبادت ہے جس کے لئے پانچوں وقت حَیَّ عَلیٰ الْفَلَاحِ اور حَیَّ عَلیٰ خَیْرِ الْعَمَلِ کے اعلان کے ذریعے بلایا جاتا ہے۔ نماز جہاں یاد خدا اور عبادت الہٰی ہے وہاں فضیلت اہل بیت کا آئینہ بھی ہے، نماز اصحاب و اہل بیت کے فرق و مراتب کا واضح اعلان بھی ہے کیونکہ اہل بیت نبی ۖ پر درود نہ بھیجیں تو نماز باطل ہوجاتی ہے اور اگر کسی دوسرے پر درود پڑھیں تو نماز باطل ہوجاتی ہے سرکار دو عالم ۖ نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا۔ پروردگار عالم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو دین کی تبلیغ کے لئے مبعوث فرمایا ہر نبی ۖ نے اپنے طور پر دین کی عمارت کی حفاظت کی اور یہ کوشش کی کہ دین کے ستون منہدم نہ ہونے پائیں۔
حضرت ختمی المرتبت ۖ نے غدیر خم میں مَنْ کُنْتُ مَوْلَاه فَهذَا عَلِیّ مَوْلَاه کا اعلان کر کے حضرت علی کو اپنی شریعت اور نماز حسینی کا وارث و محافظ بنانے کا اعلان فرمایا اور کبھی سجدہ میں پشت پر حسین کو بلند کرکے دنیا پر ثابت کیا کہ نماز اور حسین بیک وقت جمع ہوجائیں تو نماز کو طول دیا جاسکتا ہے ترک نہیں کیا جاسکتا حسین کی شخصیت ذکر الہٰی اور عبادت خداوندی میں زیادتی کا سبب ہے عبادت ترک کرنے کا باعث نہیں اب جو ماتم داران حسین پر روتے ہیں حسین کا ماتم کرتے ہیں اگر وہ مقصد شہادت کو یاد رکھتے اور زندہ کرتے ہیں یعنی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز کے اوقات کی حفاظت کرتے ہیں اور حسین کے بنائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں تو بے شک وہ سچے عزادار ہیں اگر ایسا نہیں تو وہ نہ سچے مسلمان ہیں اور نہ سچے عزادار۔ خدا کی محبت کا ثبوت اس کی یاد یعنی نماز ہے اور حسین کی محبت کا ثبوت اس کی یاد یعنی عزاداری ہے۔ حضرت امام حسین نے نہ صرف نماز کا حق ادا کردیا بلکہ اپنے رفقاء کی جان کا نذرانہ دے کر نماز کی حفاظت کی کربلا کے تپتے ہوئے صحراء نرغۂ اعداء اور موت کے ہنگام تیروں کی بارش میں جس طرح عبادت کی اور جس ذوق و شوق اور احساس ذمہ داری اور خلوص و انہماک کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر آدم سے خاتم ۖ تک اور تا قیامت لانا ممکن نہیں۔ ٩ محرم کو حضرت امام حسین کا ایک دن کے لئے مہلت طلب کرنا تاکہ وہ دل بھر کے اپنے پروردگار کی عبادت کرسکیں اور اپنے معبود حقیقی سے اس طرح راز ونیاز کرسکیں۔ جس کی تاریخ عالم کے اوراق گواہ ہیں کہ چشم فلک نے ایسی تسبیح و تقدیس، تکبیر و تہلیل، تمجید اور تلاوت قرآن، خضوع و خشوع نہ دیکھی ہوگی۔ وہ رب جلیل سے بندگان خدا کی آخری رخصت گریہ و رازی صبح عاشورہ وہ اذان علی اکبر ظہر کے وقت ابو ثمامہ کا نماز یاد دلانا اور امام عالی مقام کا فرمانا ذَکَرْتَ الصَّلوٰةَ جَعَلَکَ اللّٰه مِنَ الْمُصَلِّیْنَ اے ابو ثمامہ اس وقت جو تم نے نماز یاد دلائی خدا تمہیں نماز گزاروں میں شمار کرے۔ نماز کی حفاظت میں سعید ابن عبداللہ کی شہادت ایسے واقعات ہیں جو نماز کی عظمت پر دلالت کے لئے کافی ہیں آخر میں امام حسین نے نماز کا حق اس طرح ادا کیا کہ رکوع تو گھوڑے کی زین پر کیا اور سجدہ خاک کربلا پر اور اب جو سجدہ معبود میں سر رکھا تو خود سے نہ ہٹایا بلکہ شمر سفاک نے خنجر کند سے سر کو تن سے جدا کرکے نوک نیزہ پر بلند کیا۔ ہمارے چوتھے امام سالار اسیران کربلا کا لقب زین العابدین اور سید الساجدین تھا۔ حضرت محمد ۖ سے لے کر امام حسن عسکری تک اور نماز کے موجودہ محافظ قطب اعظم، غوث اعظم، خاتم الاولیاء حضرت قائم آل محمد مہدیٔ موعود کے نماز کے بارے میں جو ارشادات ان سب کو یکجا کرنے کے لئے ہمیں نہ جانے کتنا طویل دفتر درکار ہے؟ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جس چیز کی حفاظت ہمارے آقا و مولا فرمائیں اگر اسے ہم کھودیں تو کیا یہ ہمارے لئے باعث شرم نہیں ہے؟ کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم ان کے اسوۂ حسنہ پر تو نہ چلیں مگر صرف مقصد شہادت کی گواہی دیتے رہیں؟ اور ان کا غم مناتے رہیں؟ مولا نے اپنے پیروکاروں کی یہ دو بڑی نشانیاں بتائی ہیں وہ نماز کے اوقات کی حفاظت کرتا اور اپنے بھائیوں سے ایثار و مساوات سے پیش آتا ہے۔
لہذا غم حسین منانا ایک مستحب عملیات میں سے ہے کیونکہ یہ ایک ایسی سنت ہے جو ایک واجب کی حصول کا ذریعہ بنتی ہے ،عزاداری سنت ہے جبکہ معرفت امام واجب ہے لہذا اس وجوب کا حصول اس سنت کے بغیر ناممکن ہے ۔
میری دعا ہے کہ ہمارے بزرگوں کو مسلم و حبیب ،ہمارے بچوں کو علی اصغر ،عون و محمد ہمارے جوانوں کو سیرت قاسم و اکبر اور ہماری خواتین کو زینب و کلثو م کی سیرت مبارکہ پر چلتے ہو ئے دین حق کی کما حقہ معرفت حاصل کرکے حق کے لئے اپنے تن ومن دھن کی قربانی دے کر دارین میں کامیاب و کامران ہونے کی توفیق عطا فرمااور تمام تمام پیروان اسلام کو امام حسین علیہ السلام کے فلسفہ شہادت کو سمجھنے کر اس پر عمل پیرا فرما ۔
حوالہ جات ومنابع:
(1) مودة القربیٰ ، مودت ١١ حدیث ١٥،میر سید علی ہمدانی اردو ترجمہ ،آخوند تقی حسینی ،جامعہ باب العلم سکردو،۔نور المومنین ،مولوی حمزہ علی ص ١٨٠،انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹھسگام لداخ ، سفینة النوریہ ،ص ۱۵۹الحاج آخوند تقی حسینی ،جامعہ باب العلم سکردو
(2) قائم الحق مولوی حمزہ علی ص ٢٤٨، انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹھسگام لداخ
(3) مصائب عترة الطاہرہ (قلمی )،میر سید محمد نوربخش ،مملکوکہ کتابخانہ ملک تہران ص ١٦٠،١٥٧
(4) قائم الحق مولوی حمزہ علی ص ٢٦٥، تحفۂ قاسمی (قلمی )،سید قاسم شاہ کھرکوی مملوکہ انجنیئر نذیر حسین
5) الفقہ الاحوط ، باب الصلوة ص ١١٨۔ ١٩٩ میر سید محمد نوربخش ،اردوترجمہ علامہ محمد بشیر،ندوہ اسلامیہ کراچی
(6) رسالہ نوربخشیہ ، ص ٦٨ فصل ٦٩ باب تعزیت،سید قاسم شاہ کھرکوی ،جالندھر ہندوستان،نور المومنین ص ١٨٠،مولوی حمزہ علی
(7) دعوات صوفیہ امامیہ ص،میر سید علی ہمدانی ،اردو ترجمہ ،سید خورشید عالم ،انجمن فلاح و بہبود چھوغو گرونگ کراچی
(8) سراج الاسلام شرح الفقہ الاحوط ص ١٣٩،میر مختار اخیار
(9) دعوات صوفیہ امامیہ ص ١١٩۔ ١٢٠
(10) احوال وآثار شاہ سید محمد نوربخش ص١٨ ،خادم حسین پندوی انجمن صوفیہ نوربخشیہ کراچی
(11)رسالہ نوربخشیہ ص ٢٢
(12) مثنوی اسرار الشہود،شیخ اسیر محمد لاہیجی
(13) سلسلۂ ہای صوفیہ در ایران ص ١٦٨، نور الدین مدرسی چہاردہی
(14)زندہ جاویدکا ماتم کیوں ؟انجنیئر نذیر حسین