تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 31 تا 35)
"وَ عَلَمَ اٰدَمَ الاَسْمَآءَ کُلَهاثُمَ عَرَضَهم عَلَی الْمَلٰئِكَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هوءُلآَءِ اِنْ کُنْتُم صٰدِقِیْنَ (31).
اور اس نےآدم کو وہ تمام نام سکھادیئے پھر اُن اشخاص کو فرشتوِ کےسامنےپیش کرکے فرمایابتاؤمجھےان کےنام اگر تم سچے ھو"
؛؛؛
یہ اب آدم علیہ السلام کی خلقت کے بعد اسی سوال کے جواب کا انتظام کیاگیا ھے اور اس کے لیے ایک مجلس امتحان کی ترتیب کا اھتمام ھوا ھے.
سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو تمام ناموں کی تعلیم دی گئی عامہ مفسرین نے اس کے معنی یہ سمجھے ھیں کہ دنیا کی ھر چیز جمادات، نباتات اور حیوانات ھر چیز کے نام مگر کیا یہ "فرھنگِ لغت" کا علم کوئی ایسی بلند فضیلت رکھتا ھے جو ملائکہ کے مقابلہ میں معیار شرف بن سکے، بعض مفسرین نے اس میں یہ عقلی تصرف کیا ھے کہ علم اسماء میں حقیقتوں ، صفتوں اور تمام چیزوں کی خاصیتوں کا علم بھی داخل ھے مگر ظاھر ھے کہ یہ اسماء کے عرفی مفہوم سے خارج ھے اور ظاھر ھے کہ الفاظ عرفی مفاھیم پر محمول ھوتے ھیں نہ کہ ان معانی پر جو عقلی توجیہات کی مدد سے کھینچ تان کر قرار دیئے جاسکیں.
پھر یہ کہ اس کے بعد کہاگیا ھے "ثم عرضهم علی الملٰئکة" پھر انہیں ملائکہ کے سامنے پیش کیا" اس میں "ھم" ایسی ضمیر ھے جو "ذوی العقول" کے لیے آتی ھے.یہ ضمیر اسماء کی طرف نہیں پھر سکتی چنانچہ اسماء کےلیے جو ضمیر اس سے قبل پھیری جاچکی ھے وہ "کلها" میں واحد مونث کی ھے "کلھم" نہیں کہاگیاھے، نہ کہنا صحیح ھے، اسی لیے تمام مفسرین یہ ماننے پر مجبور ھوئے ھیں کہ "ھم" کی ضمیر "اسماء" نہیں بلکہ "مسمیات" کی طرف پھرتی ھے یعنی وہ چیزیں جن کے نام تھے اور اسی لیے اس کے بعد ھے "انبؤنی باسماءهؤلاء" مجھے ان لوگوں کے نام بتاؤ یہ نہیں کہاگیا کہ "اببؤنی بھذہ الاسماء" مجھے یہ نام بتاؤ.اس سے صاف ظاھر ھے کہ پیش جو کیے گئے ھیں وہ
اسماء نہیں بلکہ اصحاب اسماء ھیں.اب اگر اسماء سے مراد ھر شے یعنی کیڑے مکوڑوں تک کے نام ھیں اور وہ بھی قیامت تک کی چیزوں کے تو ظاھر ھے کہ یہ تمام چیزیں اس وقت وجود میں نہ آئی تھیں.یہ تو قیامت تک کے ظرف زمان میں پیدا ھونگی.ذوی العقول میں چونکہ ایک جسم ھے اور ایک روح اور ارواح کے بارے میں اھل مذھب کا عقیدہ اور مذھبی نصوص کا بیان ھے کہ وہ اجسام سے قبل پیدا ھوئے تھے اور اُن ھی میں سے بلند مرتبہ ارواح کو ان کے کمال و صفائے جوھر کی بنا پر انوار بھی کہاگیا ھے تو انکا عالم ارواح یا عالم انوار میں وجود درست ھے اور اسی عالم میں ملائکہ کے سامنے انکا پیش کیا جانا صحیح و معقول ھے مگر خالص مادی چیزوں میں یہ بات نہیں ھے.اب ایک طرف "ھم" اور "ھؤلاء" دونوں کلموں کا لفظی قرینہ اور دوسری طرف یہ عقلی قرینہ کہ تمام اشیاء پیش کیے جانے کے قابل نہیں ھیں.یہ دونوں قرینے "الاسماء کلھا" کے دائرہ میں اس تخصیص کے سمجھنے کےلیے کافی ھیں کہ اس سے تمام چیزوں کے نام مراد نہیں ھیں بلکہ کچھ صاحب عقل شخصیتوں کے نام مراد ھیں.یہ شخصیتیں وھی ھیں جنکا تعارف اور جنکی پاک سیرت کو ظاھر کرنے والے خط وخال ھی ملائکہ کو عظمتِ بشری محسوس کراکے خلافت کےلیے اس کے انتخاب کے متعلق ان کے سوال کا پورا پورا جواب بن جائیں.
یہ امر پیشِ نظر رکھنا ضروری ھے کہ جس چیز کے تعلم کا آدم علیہ السلام کےلیے ذکر کیاگیا ھے وہ فقط "اسماء" ھیں "مسمیات" یعنی وہ اشخاص جن کے وہ نام تھے آدم علیہ السلام کے سامنے پیش نہیں کیے گئے تھے اور جس چیز کا ملائکہ سے سوال ھوا ھے وہ فقط اسماء نہیں ھیں بلکہ مسمیات پیش کرکے یہ کہاگیا ھے کہ اگر سچے ھو تو ان کے نام بتاؤ یعنی مسمیات کو دیکھ کر اسماء کی تطبیق کرو اور بتاؤ کہ کونسا نام کس کا ھے؟ یہ حافظہ کا سوال نہیں بلکہ ذھانت کا امتحان تھا جس میں انسان ملائکہ سے افضل ثابت ھوا ھے. (1)
اب اس سلسلہ میں جو قابل غور فقرہ رہ گیا ھے وہ قولِ خالق "ان کنتم صادقین" ھے یعنی ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ھو ، اس سے یہ صاف ظاھر ھے کہ مخاطب جماعت کسی نہ کسی لحاظ سے سچائی کے معیار سے الگ ضرور ھے اور یہ ملائکہ کی عصمت کے خلاف معلوم ھوتا ھے مگر معلوم ھونا چاھیئے کہ "صدق" کا وہ مفہوم جو اسے "کذب" کے مقابل قرار دینا ھے، علوم لفظیہ کی ایک اصطلاح ھے اور اس کے لحاظ سے تو ملائکہ کے بارے میں "صادق" یا اس کے خلاف کچھ کہنے کی گنجائش نہیں کیونکہ انکا کلام "اتجعل فیها الخ" جو اس کے پہلے ھوا تھا وہ خبر تھا ھی نہیں بلکہ استفہامی جملہ تھا جس میں صدق اور کذب کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا.ماننا پڑیگا کہ یہ صدق کچھ اور ھے اور اسکا تعلق بھی اس جملہ کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ ھے.
حقیقت امر جہاں تک غور کرنے سے سمجھ آتی ھے اور بعض احادیث بھی اس کے مؤید ھیں یہ ھے کہ یہ الفاظ تو اتنے ھی تھے جو زبان پر آئے تھے مگر انکا ایک پس منظر تھا جو قلب کے اندر مضمر تھا اور وہ یہ خیال کہ "ھم سے بڑھ کر کوئی مخلوق نہیں ھے اور ھم سب سے افضل و برتر ھیں. (2)
یہ خیال کوئی گناہ نہیں ھے جس پر کسی سزا کا استحقاق ھو اور عصمتِ ملک کے خلاف ھو بلکہ وہ ایک نظری قصور ھے جو نقصِ علم کا لازمی نتیجہ ھے اور جس کے دور کرنے کےلیے بعد میں امتحان کے ذریعہ سے ان جو ادراک پیدا کردیا گیا اسکا کہ وہ اس منصب کے اھل نہیں ھیں اور انسان اس منصب کی ضروری شرائط میں ان سے افضل و برتر ھے.کلامِ ملک میں کوئی جزء واقعہ کے خلاف نہ تھا مگر اس سوال کے پس پشت جو ذھنیت کام کررھی تھی وہ حقیقت کے خلاف تھی اور صادق نہ تھی اور اسی کے لحاظ سے موقع امتحان پر کہاگیا کہ "اگر سچے ھو تو ان اشخاص کے نام بتاؤ".اس امتحان سے ملائکہ کو ان کے نقص کا احساس پیدا کردیا اور ان افرادِ انسانی کا جو اعلانِ خلافت کا حقیقی مرکز تھے ملائکہ سے تعارف کراکے انکی عظمت و جلالت کا علم بھی عطا کردیا.
**
"قَالُوْاسُبْحٰنَكَ لاَعِلْمَ لَنَآ اِلاَ مَا عَلَمْتَنَا^ اِنَكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (32).
انہوں نے کہا تو ھر برائی سے پاک ھے. ھمیں تو سوا اس کے جوتونےھمیں بتایااورزیادہ کچھ علم نہیں ھے. یقینًا تو بڑاجاننے
والا مناسب ھی کام انجام دینے والا ھے"
؛؛؛
انسان کی خصوصیت تمام انواع کائنات میں کیا ھے، اختیاری طور پر علمی و عملی ترقی کی لامحدود صلاحیت انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوق ھے خواہ اس سے پست ھو جیسے جمادات، نباتات یا حیوانات اور خواہ باعتبار صفائے جوھر اس سے بلند ھو جیسے ملک، ان میں جتنے خالق کے عطا کردہ کمالات ھیں وہ تو فعلی حیثیت رکھتے ھیں لیکن اُن عطایائے الہی سے پھر خود اپنی قابلیت سے آگے بڑھنے کی طاقت ان میں یا تو نہیں ھے اور یا ھے تو بہت محدود ھے.
انسان اور ملائکہ کے مقابلہ میں اگر صرف بتائی ھوئی چیز کے بتانے کا سوال ھوتا جو حافظہ کا امتحان ھوتا ھے تو اس میں ملک کے پیچھے ھٹنے کا کوئی امکان ھی نہ تھا اس لیے کہ وہ سہو و نسیان سے برتر ھے مگر یہاں سوال اس سے زیادہ تھا.بتائے گئے تھے اسماء اور سوال تھا انکو مسمیات سے مطابق کرنے کا.یہ امتحان عقل و فراست کا تھا.یہ ایسی چیز کا سوال تھا کہ جو بتائی ھوئی حدود سے خارج تھی اور اسی لیے ملائکہ نے اظہارِعجز کیا ان الفاظ میں کہ "ھمیں بس اتنا ھی علم ھے جتنا تونے ھمیں بتادیا ھے" یعنی ھمارے بس کی یہ بات نہیں کہ ھم اس سے زیادہ کچھ بتادیں.
**
"قَالَ یٰاٰدَمُ اَنْبِئْهم بِاَسْمَآئِهم^ فَلَمَآ اَنْبَاَهمْ بِاَسْمَآئِهمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکُمْ اِنِیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَمٰوٰتِ وَ الاَرْضِ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ (33)
اس نے ارشاد کیا اے آدم تم انہیں ان لوگوں کے نام بتادو جب انہوں نے ان کے نام بتا دیئےتو اس نے فرمایاکہ کیا میں نےتم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمان اورزمین کے چھپے ھوئے رازوں کو جانتا ھوں اور میں وہ بھی جانتا ھوں جوتم ظاھرکرتےھواور
وہ بھی جو تم (دلوں میں) چھپائے ھوئے تھے"
؛؛؛
جب ملائکہ کی طرف سے اظہارِعجز ھوگیا تو اب نظرِ قدرت متوجہ ھوئی آدم علیہ السلام کی طرف.ھاں انسان! یہ تیرے جوھر کھلنے کا وقت ھے، تو ھمیں بتادے کہ ان ناموں میں کون ان شخصیتوں میں سے کس کا نام ھے؟ آدم علیہ السلام نے نوعِ انسانی کی خصوصیتِ امتیاز کی محکِ اعتبار پر کامل عیار ثابت کرتے ھوئے اپنی اس قوت تمیز سے کام لیا جس کے وہ بدرجہ کمال حامل تھے.اسماء کو دیکھا، مسمیات پر نظر کی.مناسبتوں کا لحاظ کیا اور ٹھیک ٹھیک بتادیا کہ یہ انکا نام ھے اور یہ انکا نام.اس طرح انسان کا امتیاز ملائکہ کے مقابلہ میں ثابت ھوگیا اور خالق کو بہت عرصہ قبل اپنے اس جواب کی عملی تصدیق نظرِ ملائکہ میں ھوجانے سے بطور نازش اسے یاد دلانے کا موقع حاصل ھوا کہ دیکھو میں نے نہ کہا تھا کہ جو میں جانتا ھوں وہ تم نہیں جانتے یعنی اب تم خوب سمجھ گئے کہ تمہیں چھوڑ کر انسان کو خلافت کے لیے کیوں منتخب کیاگیا.
**
"وَاِذْقُلْنَالِلمَلٰئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْآاِلاَ اِبْلِیْسَ^ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (34).
اور جب ھم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نےسجدہ کیامگرابلیس نےنہ کیا،اس نےانکاراور تکبر کیااور وہ کافرین میں سے تھا"
؛؛؛
یہ سجدہ جسکا حکم دیاگیا تھا اسکی نوعیت کیا تھی؟ قول قوی یہ ھے کہ وہ پیشانی کے جھکانے ھی کے معنی میں ھے اور وہ آدم علیہ السلام ھی کو سجدہ تھا تعظیمی طور پر، علامہ طبرسی (رح) نے اس کو کہا ھے "المردی عن ائمتنا" (مجمع) اور قرآن کے الفاظ بھی اسی کے شاھد ھیں کیونکہ سجدہ کی اضافت "ل" کے ساتھ ھوئی ھے "لاٰدم) جو مسجود کا پتہ دیتی ھے، قبلہ کےلیے "الٰی" آنا چاھیئے "ل" نہیں.
ابلیس کا سجدہ سے انکار کرنا اس تکبر کی بنا پر کہ میں ان سے بہتر ھوں، اس کو سجدہ کیوں کروں، یہ بھی اس کا موید ھے، اگر وہ فقط سمت قبلہ کی حیثیت رکھتے ھوتے اور انکی تعظیم اس میں مضمر نہ ھوتی تو ابلیس کی رگِ حمیت کو کوئی جنبش نہ ھوتی.
بےشک اسلام میں اس طریقہ تعظیم کا استعمال غیراللہ کےلیے ممنوع ھوگیا ھے لیکن قبلِ اسلام اسکی ممانعت نہ تھی. (1)
ابلیس کے متعلق عقیدہ یہ ھے کہ وہ ایک مخلوقِ خاص کا نام ھے جو نگاھوں سے پوشیدہ ھے اور جس سے قرآن مجید کے مندرجہ واقعات حقیقی طور پر متعلق ھیں.اسکی خصوصیات جو قرآن کریم سے ثابت ھیں حسب ذیل ھیں :
"وہ ایک مخلوق ھے جو آگ سے پیدا کیاگیا ھے (الاعراف#12 و ص#76)، وہ ذی شعور و ذی حیات ذات ھے جو سوچ ، سمجھ ، خیال اور گمان کے اوصاف سے متصف ھوتی ھے (سبا#20)، اسے قیامت تک کےلیے زندہ رھنے کا موقع دیاگیا ھے (الاعراف#14/15 و الحجر#36/37/38 و ص#79/80/81) ، اسکا ایک قبیلہ ھے جو حقیقتِ نوعیہ میں اس کے ساتھ شریک ھے.انکی صفت یہ ھے کہ وہ ھمیں دیکھتے ھیں ھم انہیں نہیں دیکھتے.ان سب کو شیاطین کہتے ھیں (الاعراف#27)، اسکا قبیلہ اسکی نسل و اولاد ھی کی ایک جماعت ھے جو افرادِ انسانی کو غلط راستوں پر لے جانیکی مہم میں مصروف رھتے ھیں (الکہف#50)"
اطلاقات قرآنیہ پر نظر کرنے سے ظاھر ھوتا ھے کہ ابلیس ان میں سے اس فردِ اول کا نام ھے جس سے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات کا تعلق ھے اور "الشیطان" سے اکثر وھی مراد ھوتا ھے.
ابلیس کے متعلق تحقیق یہ ھے کہ وہ فرشتہ نہ تھا بلکہ جنات میں سے تھا.شیخ مفید (رضوان اللہ علیہ) نے اس کے متعلق کہا ھے :
"وقدجاءت به الاخبارالمتواتر عن ائمة الهدٰی و هو مذهب الامامیة"
اس کے متعلق رھنمایانِ دین سےمتواترحدیثیں وارد ھوئی ھیں اوریہ تمام علمائےامامیہ کا مذھب ھے"
خود قرآن مجید میں بھی ایک جگہ آیا ھے :
"الاابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه"
سوا ابلیس کے وہ جنات میں تھا تو اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی مخالفت کی" (الکہف#50)
اس آیت پر نظر ڈالنے سے ایسا محسوس ھوتا ھے کہ قرآن میں یہ تصریح اس ذھنی خلفشار کو دور کرنے کےلیے ھے کہ مَلک ھو کر اس سے معصیت کا صدور کیونکر ھوا اور اسی لیے "فائے تفریع" کے ساتھ اس پر مرتب کرکے کہا گیا ھے "ففسق عن امر ربہ" وہ جن میں سا تھا____ لہذا اس نے حکمِ رب سے انحراف کیا بےشک وہ ملائکہ سے حقیقۃً خارج ھونے کے باوجود چونکہ ظاھر اصفوف ملائکہ میں داخل تھا اس لیے "اسجدو" کا حکم جو پوری جماعت سے متعلق قرار دیا گیا تھا اس میں وہ بھی شریک قرار پایا اور اسی لیے ملائکہ کی اطاعت کے ذکر کے بعد اسکی مخالفت کو بصورت استثناء بیان کیاگیا.یہ مخالفت کرکے اس نے اپنی اُس رگِ مخالفت کا اظہار کردیا جو حقیقتِ نوعیہ میں نوعِ ملائکہ سے مغایرت کی وجہ سے اس میں موجود تھی اور اس کے وہ ظاھری طور پر جمعیتِ ملائکہ سے خارج کر دیا گیا.
"وکان من الکافرین" کا فقرہ بھی بظاھر اسی مفہوم کا حامل ھے کیونکہ اس کے قبل "انکار کیا" اور "تکبر" سے کام لیا، سب افعالِ حدوثی ھیں جو ایک امر کے اس وقت وقوع میں آنے کا اظہار کرتے ھیں اور وہ کافروں میں سے تھا.یہ جملہ فعل ثبوتی پر مشتمل ھے جو صفت کے پہلے سے مستقل ثبوت کا پتہ دیتا ھے.اسکا مطلب یہ ھے وہ از اول اس نوع میں داخل نہ تھا جسکی شان سے اطاعت ھی اطاعت ھوتی ھے بلکہ یہ اس نوع کی فرد تھا جو اس کے پہلے کفروعناد اختیار کرچکی تھی یعنی جنات جن سے زمین کو پاک کیاگیا تھا.یہ صرف اپنے اس وقت تک کے شخصی کردار کی بدولت اس سے الگ کرکے ملائکہ کی جماعت میں پہنچادیاگیا تھا مگر اب اس نے اپنے دوسرے ھم جنسوں کے ساتھ اس اشتراکِ فطرت کا جو اسے پہلے سے حاصل تھا ثبوت بہم پہنچادیا.
**
"وَ قُلْنَا یٰاَدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَةَ وَکُلاَمِنْھَارَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَجَرَةَفَتَکُوْنَ مِنَ الظٰلِمِیْنَ (35).
اور ھم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں قیام کرو اورجیسا تمہارا جی چاھے اس میں سے مزے اور
بےفکری کے ساتھ غذا حاصل کرو اوراس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ تم حد سے قدم بڑھانےوالوں میں سےھوگے"
؛؛؛
"جنت" لغت میں ھر گھنے باغ کو کہتے ھیں.آئمہ اھلِ بیت علیہم السلام کی متعدد احادیث سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ دنیا کے باغوں میں سے ایک تھا جس میں سورج اور چاند طالع ھوتے ھیں مگر اس کے بعد بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ اسی زمین کا کوئی باغ ھو جبکہ نظامِ شمسی میں دوسرے سیارات بھی ھیں جنکی فضا اور آب و ھوا اس زمین سے زیادہ صالح و معتدل سمجھی جاسکتی ھے. (1)
بےشک خود قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے یہ یقینی طور پر ظاھر ھے کہ وہ جنت جہاں آدم علیہ السلام تھے اس زمین کے عوارض و اسقام سے بری تھی :
"ان لك الاتجوع فیها ولاتعرٰی وانك لاتظمؤا فیها ولا تضحی"
تمہارے لیے یہاں یہ ھے کہ تم بھوکےنہیں ھوتےاوربرھنہ نہیں ھوتے اور نہ تمہیں پیاس لگتی ھے نہ بھوک کی تکلیف ھوتی ھے" (طہ#118/119)
اور اس آیت میں جسکی تشریح کی جارھی ھے "رغدًا" کے لفظ سے بظاھر ان ھی خصوصیات کی طرف اشارہ ھے کہ زمین کی زندگی کے ساتھ محنت و مشقت دست و گریبان ھے.یہ بات اس جگہ نہیں تھی کہ جہاں آدم علیہ السلام کو رکھا گیا تھا.
آدم علیہ السلام کے ساتھ سکونت میں انکی رفیقِ زندگی بھی شریک تھیں جنہیں قرآن مجید نے ھر جگہ آدم علیہ السلام کے ساتھ "زوھ" کے لفظ سے یاد کیا ھے جسے اردو میں "زوجہ" کہا جاتا ھے.اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اس وقت سلسلہ اناث کی پہلی فرد جسے آدم علیہ السلام کےلیے شریکِ حیات قرار دیاگیا تھا وجود میں آچکی تھی.
انکی خلقت کس طرح ھوئی تھی اور انکا نام کیا تھا اسکا ذکر قرآن کریم میں نہیں ھے.روایات میں انکا نام حوا وارد ھوا ھے.
اس کے علاوہ جو چیز قرآن سے ثابت ھے وہ یہ ھے کہ جنت میں ھر چیز سے غذا حاصل کرنے کی آزادی کے ساتھ انہیں کسی مخصوص درخت سے منع کیا گیا تھا کہ اس کے قریب نہ جانا.
کلامِ عرب میں جسکی نظیریں قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بھی موجود ھیں "قریب نہ جانا" کے لفظ کا استعمال عمل سے ممانعت کے مفہوم میں ھوتا ھے، جیسے :
"لا تقربوا مال الیتیم الابالتی هی احسن"
مالِ یتیم کے پاس نہ جاؤ مگر ایسےطریقہ سےجوبہتر سے بہتر ھو" (نبی اسرائیل#34)
"ولا تقوبوا الزنا انه کان فاحشة وسآء سبیلا"
اورزنا کےپاس نہ جاؤ یہ بڑا شرمناک کام ھےاور بہت برا راستہ ھے" (بنی اسرائیل#32)
"لا تقربوا هن حتٰی یطهرن"
ان عورتوں کےپاس نہ جاؤ جب تک کہ وہ پاک نہ ھو جائیں" (بقرہ#223)
لہذا یہاں "کلامنهارغدا" اس سے باآرام کھاؤ" کے بعد بقرینہ سیاق "ولاتقرباء" سے مراد اُس درخت سے کھانے کی ممانعت ھے.
یہ درخت کونسا تھا؟ "هذہ الشجرة" اس درخت" کہنے سے ظاھر ھے کہ آدم علیہ السلام کےلیے مخصوص طریقہ پر اس درخت کا تعین ھوگیا تھا مگر اشارہ کے ساتھ تعین کا خاصہ یہ ھے کہ مقصود صرف لفظوں سے معین نہیں ھوا کرتا.اس میں کوئی عمل جو مفیدِ اشارہ ھو ضرور دخیل ھوتا ھے.اسے مخاطب اسی عمل کی مدد سے سمجھا کرتا ھے مگر دوسروں کےلیے جبکہ حکایت صرف الفاظ کی کردی گئی ھو یا تحریر میں صرف الفاظ آجائیں تو اس کا سمجھنا کلام سے غیرممکن ھوجایا کرتا ھے اور ایسے ھی وہ مقامات ھیں جہاں نمایاں طور پر کتاب کا غیرکافی ھونا ثابت ھوتا ھے.ایسے مقامات پر تفسیر و تشریح کی طرف تشنگی بالکل بدیہی حیثیت رکھتی ھے.اب اگر روایات اس بارے میں مختلف ھوگئیں تو پھر اسکے تعین کا کوئی ذریعہ ھے بھی نہیں اور وہ کچھ ضروری بھی نہیں جبکہ ھمارے ایمان وعمل کا اس کے سمجھنے سے کوئی تعلق نہیں.(2)
جس چیز کا سمجھنا ضروری ھے وہ یہ ھے کہ یہ نہی کس قسم کی تھی.اس کےلیے تحقیق یہ ھے کہ یہ نہی مولوی نہ تھی بلکہ ارشادی تھی.نہی مولوی وہ ھے جو بحیثیتِ حاکم قانونی طور پر کی گئی ھو.اسکی مخالفت میں سزا کا استحقاق ھوتا ھے اور اسی کی مخالفت کا نام گناہ ھے جو عصمتِ انبیاء کے خلاف ھے اور نہی ارشادی کی حیثیت ایک "ناصحانہ مشورہ" کی ھوتی ھے جسکی مخالفت میں کچھ قہری مضرتیں مضمر ھوتی ھیں جنہیں سزا نہیں بلکہ عمل کا صرف نتیجہ سمجھا جاسکتا ھے جیسے طبیب کا مریض کو کہنا کہ فلاں فلاں چیز نہ کھانا،اب اگر اس نے کھایا اور نقصان ھوا تو یہ کہنا درست نہیں ھے کہ طبیب نے مخالفت کی سزا دی جو یہ تکلیف میں مبتلا ھوا بلکہ طبیب نے اپنے علم کی بنا پر جن مضرتوں کی خبر دیدی تھی وہ اس امر پر مرتب ھوئیں جو درحقیقت اس عمل کا لازمی نتیجہ تھیں.
قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بتایا ھے کہ آدم علیہ السلام کو جو ممانعت کی گئی تھی تو پہلے سے اسکی مخالفت کے نتائج بتادیئے تھے اس طرح کہ ابلیس کی عداوت پر انہیں متنبہ کرتے ھوئے ارشاد ھوا تھا :
"لایخرجنکما من الجنة فتشقٰی ان لك الاتجوع فیها ولاتعرٰی و انك لاتظماء فیها ولاتضحٰی"
دیکھو کہیں ایسانہ ھو کہ یہ تم دونوں کوبہشت سے نکالنے کاباعث ھوجائےجسکی وجہ سےتم مشقت میں گرفتار ھو جاؤ
یہاں تو تمہارے لیے ھے کہ تم بھوکےنہیں ھوتے ، برھنہ نہیں ھوتے ، پیاس نہیں لگتی اور تمہیں دھوپ کی تکلیف پیش
نہیں آتی"
اس میں کہیں یہ نہیں ھے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو میری ناراضگی کا باعث ھوگا جو مخالفتِ مولٰی کا اصل نتیجہ ھے.اسی سے ظاھر ھے کہ یہ نہیِ مولوی نہیں ھے.اب جبکہ ایک جگہ نتائج کی تفصیل موجود ھے تو زیرِنظر آیت میں "فتکونا من الظالمین" کے اجمال کو بھی اسی مفہوم کا حامل ماننا پڑیگا.
"ظلم" کے معنی لغت میں "وضع الشیءفی غیر محلہ" کے ھیں اور قرآن کریم نے اسکی جامع تعریف کردی ھے کہ
"ومن یتعد حدودالله فاولئك هم الظالمون"
یعنی اللہ کی مقررکردہ حدوں سے قدم آگے بڑھانے والے ظالمین ھیں"
لیکن حد کو دیکھنا پڑیگا کہ وہ بطورِ وجوب و الزام قرار دی گئی ھے یا بطورِ ندب و استحباب یا بحیثیتِ ارشاد.اس اعتبار سے ظلم کا حکم مختلف ھوجائیگا.وہ ظلم جو حد وجوبی سے تجاوز کی صورت میں ھو گناہ ھے اور جو کسی دوسری قسم کی حد سے تجاوز ھو وہ زیادہ سے زیادہ "ترکِ اولٰی" کا مصداق قرار پا سکتا ھے گناہ نہ ھوگا جو عصمت کے منافی ھے.(3)
**
---------------------
(1). الاسماءکلهاای اسماء هؤلاءالهداة وروی الصدوق بسندین معتبرین عن الصادق علیه السلام ان الله تبارك و تعالٰی علم اٰدم الاسماء حججه کلها ثم عرضهم وهم ارواح علی الملٰئکة فقال انبئونی باسماء هئولاء ثم عرضهم وهم ارواح طاهرة وانوار قدسیة تضئ بالهدی والطهارة والعصمةالاختیاریة علی الملئکة لیغرفوافضلهم الفائق یظهرلهم شیء من وجه الحکمة فی خلق الله للبشر وعلمه بالذین تشریق الارض بنورهم وتقوم بهم الحجة علی الملئكة (البلاغی)
(2). انهم قالوا فی انفسهم ماکنا لظن ان یخلق الله خلقااکرم علیه منا نحن خوان الله وجیرانه واقرب الخلق الیه (روایت عیاشی)
(1). وکان سجودالملئکةلادم تکرمةوطاعة الله لاعبادة لادم (جامع البیان للطبری) اصح القوال ان السجود کان بمعنی وضع الجبهة ولکن لاعبادة بل نكرمة وتحية كالسلام (نیشاپوری)
(1). روی الکلینی وابن بابویه مسنداوالقمی مرفوعا عن ابی عبداللہ ان جنة اٰدم من جنان الدنیا وهدالایستلزم کونهافی الارض (البلاغی)
(2). لم یضع لعباده دلیلا علٰی ذلك فی القراٰن ولافی السنة الصحیحة (طبری) ولاعلم لنا بایة شجرة کانت علی التعیین فلا حاجة ایضا الٰی بیانہ (رازی)
(3). والنهی فی لاتقربا للتنزیه او للتحریم الا صح الاول_لیرجع حاصل معصیة الٰی ترك الاولٰی فیکون اقرب الٰی عصمةالانبیاء (نیساپوری) والنهی ههنا للارشاد لا للتحریم (فتکونا من الظالمین) لانفسکما بالخروج من النعیم الی التعب ومثل هذاالظلم لا یستوجب ذماولا بعد ذنبا (بلاغی)