امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

انصارحسین علیہ السلام ہی انصاراللہ ہیں (حصہ سوم)

2 ووٹ دیں 04.5 / 5

نمبر (68).>* زھیر بن قین بن قیس بجلی *<
اشرافِ عرب میں سے کوفہ کے باشبدہ، بہادر تھے اور متعدد لڑائیوں میں شریک ھوچکے تھے.جمل اور صفین کی لڑائیوں کے بعد سے مسلمان "عثمانی" اور "علوی" نام کی دو جماعتوں میں تقسیم ھوچکے تھے.جو لوگ معاویہ کے طرفدار تھے انکو "عثمانی" کہا جاتا تھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کی طرف تھے وہ "علوی" کہلاتے تھے.زھیر بن قین عام طور پر 'عثمانی' جماعت سے متعلق سمجھے جاتے تھے اور بظاھر وہ اھلبیت نبوی علیھم السلام کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہ رکھتے تھے.
زھیر سنہ 60ھ میں اپنے اھل و عیال کے ساتھ مناسکِ حج بجالانے کے بعد کوفہ کی طرف جارھے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کا ساتھ ھوگیا.اگرچہ زھیر بظاھر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص عقیدت نہ رکھتے تھے تاھم ایسا معلوم ھوتا ھے کہ وہ آپ (ع) کی خاندانی وجاھت سے مرعوب ضرور تھے یعنی انہیں یہ احتمال تھا کہ اگر حسین علیہ السلام مجھ کو نصرت کی دعوت دیں گے تو میرے لیے اسکا رد کرنا ممکن نہ ھوگااسی کا نتیجہ تھا کہ وہ حسینی قافلہ سے دور رھتے تھے.مگر حسین علیہ السلام انکی فطری صلاحیتوں سے واقف تھے اس لیے منزلِ زرود پر امام (ع) نے زھیر بن قین کو بُلا بھیجا جس کے بعد سے زھیر بالکل حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے.
ذوحسم کے مقام پر جب حُر کا لشکر حسینی قافلہ کے سدِراہ ھونے کی غرض سے آچکا تھا تو امام (ع) نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے جو خطبہ ارشاد کیا تھا اس کے جواب میں زھیر نے والہانہ انداز سے فداکارانہ جذبات کا اظہار کیا تھا.
اس کے بعد جب حُر نے امام (ع) کو کربلا پہنچ کر روکنا چاھا تھا اور نہر کے قریب خیمے برپا کرنے دینے سے بھی انکار کیا تھا تو زھیر نے کہا تھا کہ ھمیں اتنی فوج سے جنگ کرلینے دیجئے اس لیے کہ اس کے بعد اتنا لشکر آئیگا کہ اس سے مقابلہ کرنے کی ھم میں طاقت ھی نہ ھوگی.اس کے جواب میں امام (ع) نے فرمایا تھا کہ میں جنگ میں ابتدا نہیں کرنا چاھتا.
پھر نویں تاریخ کی شام کو افواجِ یزید کے غیر متوقع حملہ کے موقع پر جب "ابوالفضل العباس علیہ السلام" بعد استفسارِ حال امام (ع) سے صورتحال بیان کرنے گئے تو حبیب بن مظاھر نے افواجِ مخالف کو وعظ وپند شروع کیا تھا اور عزرہ بن قیس نے بدتہذیبی کے ساتھ دورانِ کلام مداخلت کی تھی تو زھیر نے اسکا جواب دیا تھا کہ بیشک حبیب کے نفس کا خدا نے تزکیہ کیا ھے اور اسکی رھنمائی کی ھے.اے عزرہ میں تمکو نصیحت کرتا ھوں اور اللہ کا واسطہ دیتا ھوں کہ تم اس جماعت کے ساتھ شریک نہ ھو جو گمراھی کی حمایت کررھی ھے اور پاک نفوس کو قتل کرتی ھے.زھیر بن قین کی یہ آواز تعجب کے ساتھ سنی گئی تھی اور عزرہ نے انہیں پہچان کر کہا تھا کہ 'زھیر تم اس گھرانے کے شیعہ نہیں تھے، تم تو عثمانی گروہ میں سے تھے' اور زھیر نے کہا تھا کہ "اس وقت میرے یہاں کھڑے ھونے سے تو تمکو سمجھ ھی لینا چاھیئے کہ میں شیعہ علی (علیہ السلام) ھوں.خدا کی قسم میں نے نہ حسین (علیہ السلام) کو کبھی خط لکھا تھا نہ کوئی قاصد بھیجا تھا اور نہ نصرت کا وعدہ کیا تھا لیکن راستے میں اتفاق سے میرا اور انکا ساتھ ھوگیا.جب میں نے انہیں دیکھا تو رسول اللہ (ص) یاد آگئے اور اُنکی خاندانی خصوصیت کا مجھے خیال آگیا اور مجھے احساس ھوا کہ حقیقتًا وہ دشمنوں کے ظلم و تعدی میں مبتلا ھیں.بس میں نے طے کرلیا کہ مجھے انکی مدد کرنا چاھیئے اور انکی جماعت میں داخل ھوکر اپنی جان ان پر فدا کرنا چاھیئے.خدا و رسول (ص) کے اس حق کو ادا کرنے کےلیے جسے تم لوگوں نے ضائع و برباد کردیا ھے"
پھر شبِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے اصحاب کو جمع کیا تھا اور انہیں اپنی بیعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کا اعلان کیا تھا تو اصحاب میں سے مسلم بن عوسجہ اور سعید بن عبداللہ کے بعد زھیر بن قین نے بھی تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ "بخدا میں پسند کرتا ھوں کہ ایک دفعہ قتل ھوں، پھر زندہ ھوں، پھر قتل ھوں، یوں ھی ھزار دفعہ ھو لیکن آپ (ع) اور آپ (ع) کے خاندان کے یہ جوان قتل ھونے سے محفوظ رہ جائیں.
صبحِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے اپنی مختصر فوج کو ترتیب دیا تھا تو زھیر بن قین کو میمنہ کا افسر مقرر کیا تھا اور زھیر نے میدان میں نکل کر فوجِ مخالف کے سامنے ایک معرکہ آرا تقریر بھی کی تھی.پھر جب لڑائی شروع ھوگئی تھی اور افواجِ مخالف کی صفوف میں سے یسار اور سالم میدانِ جنگ میں آئے اور عبداللہ بن عمیر کلبی مقابلہ کے لیے نکلے تھے تو ان دونوں نے کہا تھا کہ 'ھم تمکو نہیں پہچانتے، ھمارے مقابلہ کے لیے زھیر بن قین یا حبیب بن مظاھر یا بریر بن خضیر کو آنا چاھیئے' اس واقعہ سے ظاھر ھوتا ھے کہ زھیر فوجِ حسینی کے ان نمایاں افراد میں سے تھے جو دشمنوں کے نزدیک ممتاز حیثیت کے مالک سمجھے جاتے تھے.
انکی شجاعت کے کارنامے صبحِ عاشور سے ھنگامِ ظہر تک متعدد بار ظاھر ھوچکے تھے.چنانچہ ظہر سے پہلے جب شمر نے مخصوص خیمہ حسینی پر حملہ کیا اور اپنا نیزہ خیمہ پر مار کر کہا تھا کہ 'آگ لاؤ میں اس خیمہ کو اس کے رھنے والوں سمیت جلادوں' تو زھیر نے اپنے دس بہادر ساتھیوں کے ساتھ حملہ کرکے اسکی فوج کو پسپا کردیا تھا.پھر جب حبیب شہید ھوچکے اور حُر میدانِ جنگ میں آئے تو زھیر نے حُر کے ساتھ مل کر جنگ کی.اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے سعید بن عبداللہ اور زھیر کو مامور کیا کہ تم میری حفاظت کرو، یہاں تک کہ میں نمازِ ظہر ادا کرلوں چنانچہ سعید بن عبداللہ نماز تمام ھوتے ھوتے اتنے زخمی ھوگئے کہ وہ جانبر نہ ھوسکے اور زھیر کے بھی دست و بازو جواب دے چکے تھے پھر بھی نمازِ ظہر کے بعد جب دشمن بہت قریب آگئے تھے تو زھیر بن قین نے اپنی آخری جنگ کی.اس وقت وہ بڑے جوش کے ساتھ کہہ رھے تھے کہ :
"میں زھیرھوں،قین کا فرزندھوں میں اپنی تلوار سے دشمنوں کو حسین علیہ السلام سے دورکروں گا"
یوں ھی تھوڑی دیر تک وہ شمشیرزنی کرتے رھے آخر کثیر بن عبداللہ شعبی اور مھاجر بن اوس دونوں نے ایک ساتھ ان پر حملہ کیا اور انہی کے ھاتھ سے زھیر بن قین درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (69).>* سلیمان بن مضارب بن قیس البجلی *<
زھیر بن قین کے چچازاد بھائی تھے.زھیر کے ساتھ سنہ 60ھ میں حج کو گئے تھے.واپسی میں جب زھیر امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے خیال سے آپ (ع) کے ساتھ ھولیے تو سلمان نے بھی انکا ساتھ دیا.روزِ عاشور ظہر کے بعد شہید ھوئے.


نمبر (70).>* عمرو بن قرظۃ بن کعب انصاری *<
نام و نسب

عمرو بن قرظۃ بن کعب بن عمر بن عائذ بن زید بن مناة بن ثعلبہ بن کعب بن الخزرج الانصاری.
ان کے والد قرظۃ بن کعب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں سے تھے.جنگِ اُحد ور اس کے بعد کی لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے.
سنہ 22ھ میں خلیفہ دوم کے زمانہ میں ریہ ان کے ھاتھوں پر فتح ھوا تھا اور حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے زمانہ میں انکو کوفہ کا حاکم مقرر کیا تھا.پھر جب آپ (ع) جنگِ صفین کےلیے جانے لگے تھے تو انکو اپنے ساتھ لے گئے تھے اور کوفہ کی حکومت ابو مسعود بدری کے سپرد کی تھی.قرظۃ سب لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رھے اور آپ (ع) ھی کے زمانہ خلافت میں کوفہ میں انکا انتقال ھوا اور آپ (ع) ھی نے انکی نماز جنازہ پڑھائی.ایک قول یہ ھے کہ معاویہ کے ابتدائی زمانہ میں جب بدر بن مغیرہ شعبہ کوفہ کا حاکم تھا تو انہوں نے انتقال کیا.
ان کے دو فرزند تھے.عمرو اور علی.کربلا میں عمرو امام حسین علیہ السلام کی طرف تھے.غالبًا یہی بڑے تھے.اس لیے کہ ان کے والد قرظۃ بن کعب کی کنیت انہی کے نام پر ابوعمرو تھی اور انکا چھوٹا بھائی علی لشکرِ یزید میں تھا.
عمرو بن قرظۃ کوفہ ھی میں رھتے تھے.وہ امام (ع) کی خدمت میں میدانِ کربلا میں پہنچے تھے.محرم کی ابتدائی تاریخوں میں جب جنگ ھونے کا قطعی فیصلہ نہ ھوا تھا امام (ع) نے انکو عمر سعد کے پاس یہ پیغام دیکر بھیجا تھا کہ "تم مجھ سے شب کے وقت دونوں لشکروں کے دررمیان ملاقات کرو"
روزِ عاشور نمازِ ظہر کے بعد جب تمام اصحاب میں جذبہ فدارکای تیز ھوگیا تھا اور شمعِ امامت کے پروانے جاں سپاری میں ایک دوسرے پر سبقت کررھے تھے.عمرو بن قرظۃ نے جنگ کرنا شروع کی.وہ اس مضمون کے شعر پڑھ رھے تھے :
"تمام انصارکی جماعت جانتی ھےکہ میں ذمہ داری کے حدود کی حفاظت کروں گا! ایسے جواں مرد انسان کی طرح شمشیر زنی کرتے ھوئے جو پیچھے ھٹنےوالا نہ ھو حسین (ع) پر میری جان اور میرا گھر بار سب فدا ھو"
کچھ دیر تلوار چلانے کے بعد پھر عمرو امام (ع) کے سامنے آکر کھڑے ھوگئے.جو تیر آتا اسے اوپر روکتے اور جو وار ھوتا خود سپر بن جاتے.آخر زخموں سے چُور ھوگئے اور امام (ع) سے مخاطب ھوکر "کیوں ! فرزندِ رسول (ص) میں نے فرض کو ادا کیا؟" آپ (ع) نے فرمایا "ھاں تم جنت میں میرے آگے جاؤگے.رسولِ خدا (ص) کو میرا سلام پہنچادینا اور کہنا کہ میں بھی عنقریب آتا ھو "
بہادر جانباز زخموں کی کثرت سے زمین پر گرا اور جاں بحق تسلیم ھوا.
انکا بھائی علی بن قرظۃ جو فوجِ عمر سعد میں تھا صف سے باھر نکلا اور امام (ع) کو ناشائستہ الفاظ میں مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ 'تم نے میرے بھائی کو گمراہ کیا اور ورغلا کر قتل کرادیا' امام (ع) نے فرمایا کہ "خدا نے تیرے بھائی کو گمراہ نہیں کیا بلکہ اسکی ھدایت کی اور گمراھی میں تجھے چھوڑ دیا ھے" اس نے کہا خدا مجھے غارت کرے اگر میں تمہیں قتل نہ کروں یا اس کوشش میں خود ھلاک نہ ھوجاؤں یہ کہہ کر اس نے حملہ کیا.نافع بن ھلال نے آگے بڑھ کر اس پر نیزہ کا وار کیا جس سے وہ گرگیا.
**

نمبر (71).>* نافع بن ھلال جملی *<
نام و نسب

 نافع بن ھلال بن جمل بن سعد العشیرة بن مذحج.
اپنے قبیلہ کے سردار اور بہادر شخص تھے.حافظِ قرآن بھی تھے.امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے اور احادیث کے عامل تھے.آپ (ع) کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں بھی شریک ھوئے تھے.عراق کی طرف امام (ع) کی روانگی کی اطلاع پاکر کوفہ سے روانہ ھوئے تھے اور راستے میں جماعتِ حسینی سے ملحق ھوئے تھے.اس وقت جبکہ جناب مسلم علیہ السلام کی خبرِ شہادت بھی نہ آئی تھی انکا ایک گھوڑا جسکا نام 'کامل' تھا کوفہ میں رہ گیا تھا اور اس کے متعلق انہوں نے ھدایت کردی تھی کہ وہ بعد میں ان کے پاس پہنچادیا جائے چنانچہ عذیب الھجانات میں عمرو بن خالد صیداوی، مجمع بن عبداللہ عائذی اور جنادہ بن حارث سلمانی وغیرہ پانچ آدمیوں کا قافلہ حسینی جماعت سے ملحق ھوا اس کے ساتھ یہ گھوڑا بھی تھا.
حُر سے ملاقات اور گفتگو کے بعد ذوحسم میں امام نے جو خطبہ پڑھا تھا اس کے جواب میں انہوں نے پُرزور تقریر کی تھی.
کربلا میں جب نہر پر دشمنوں کی مزاحمت شروع ھوئی اور امام (ع) اور ان کے ساتھیوں پر پیاس کا غلبہ ھوا امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی ابو الفضل العباس علیہ السلام کو پانی لانے پر مامور کیا.جناب عباس علیہ السلام بیس سوار اور بیس پیادوں کے ساتھ بیس مشکیزے لیکر آگے بڑھے اور نہر کے قریب پہنچے تو نافع بن ھلال نے عَلم اپنے ھاتھ میں لیا اور سب سے آگے ھوگئے.عمرو بن حجاج زبیدی نے جو نہر کا محافظ تھا ٹوکا اور کہا کون ھے جو نہر پر جارھا ھے؟چونکہ عمرو بن الحجاج قبیلہ زبیدہ سے تھا جو مذحج اور مراد کی ایک شاخ ھے اور قبیلہ جمل جس سے نافع تھے یہ بھی مراد کی ایک شاخ، اس لیے نافع نے جب اپنا نام بتایا اور قبیلہ کا پتہ دیتے ھوئے کہا کہ ھم پانی پینے آئے ھیں تو عمرو نے کہا تم شوق سے پیو، تمہیں پینا گوارہ ھو' نافع نے جواب میں کہا میں اکیلا تھوڑی پیوں گا، درصورتیکہ حسین علیہ السلام اور ان کے سب اصحاب پیاسے ھوں' یہ سنتے ھی فوجِ مخالف آگے بڑھی یہ کہتی ھوئی کہ 'یہ تو ممکن ھی نہیں کہ ان تک پانی پہنچ سکے.ھم یہاں مقرر اسی لیے کیے گئے ھیں کہ پانی کا ایک قطرہ بھی جماعتِ حسینی تک نہ جانے دیں' نافع ان لوگوں سے گفتگو کےلیے آگے بڑھے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ تیزی سے مشکیں پانی سے بھر لو.چنانچہ ساتھیوں نے جلدی جلدی پانی بھر لیا اور جب ادھر سے نگہبانوں کی فوج آگے بڑھی تو ابوالفضل العباس علیہ السلام کے ساتھ نافع بن ھلال اور دوسرے بہادروں نے اسکا مقابلہ کرکے پیچھے ھٹادیا.اس دوران وہ لوگ جو مشکیں لیے ھوئے تھے ساحل سے اوپر آگئے تھے چنانچہ بہادروں نے انکو خیامِ حسینی کی طرف روانہ کردیا اور خود وھیں کھڑے رھے.پاسبانوں کی فوج نے پھر بڑھ کر حملہ کیا.
اس موقع پر نافع بن ھلال نے عمرو بن الحجاج کی فوج میں سے ایک شخص پر جو قبیلہ صدا سے تھا نیزہ کا وار کیا جس سے بعد میں وہ ھلاک ھوگیا.بہرطور اصحابِ حسین علیہ السلام پانی لیکر خیامِ حسینی تک پہنچ گئے جو اتنی بڑی جماعت کے لیے جن کے ساتھ گھوڑے بھی تھے صرف ذرا ھی دیر تک کےلیے تسکینِ عطش کا باعث ھوسکتا تھا.
روزِ عاشور جنگ چھڑنے کے بعد ھی سے نافع کا ولولہ جنگ کام کرنے لگا تھا چنانچہ افواجِ مخالف کے ایک پہلوان مزاحم بن حریث کے ساتھ انکا دست بدست کا مقابلہ ھوا تھا.اس کے بعد عمرو بن قرظۃ کی شہادت کے موقع پر جب ان کے بھائی علی بن قرظۃ نے امام (ع) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے اور حملہ کیا تھا تو نافع نے اسکا مقابلہ کرکے اسے مغلوب کیا تھا.
نافع تیراندازی میں بڑے مشاق اور یگانہ روزگار تھے.انہوں نے اپنے تیروں کے سوفار پر اپنا نام لکھ دیا تھا اور تیروں کو زھر میں بجھا لیا تھا.چنانچہ ظہر کے بعد انہوں نے تیر لگانا شروع کیے.وہ کہتے جاتے تھے کہ "میں جملی اور علی علیہ السلام کے دین پر ھوں" اور افواجِ مخالف کے بارہ آدمیوں کو اس طرح قتل کیا اور بہت سوں کو زخمی، یہاں تک کہ دشمبوں نے انکو چاروں طرف سے گھیر کر مارنا شروع کیا جس سے دونوں بازو شکستہ ھوگئے اور وہ گرفتار کرلیے گئے.شمر سپاھیوں کی ایک جمیعت کے ساتھ انکو پکڑ کر عمر سعد کے پاس لے گیا.اس حالت میں کہ انکی داڑھی سے خون ٹپک رھا تھا.انکو دیکھ کر اس نے کہا 'نافع یہ تم نے اپنے نفس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ نافع نے کہا "میرے ضمیر سے خدا واقف ھے.خدا کی قسم میں نے بارہ آدمی تم میں سے جان سے مارے ھیں اور زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ھے.مجھے مسرت ھے کہ میں نے اپنے فرض کے ادا کرنے میں کوتاھی نہیں کی اور اگر میرے بازو ٹوٹ نہ جاتے تو تم مجھے اس طرح ھرگز گرفتار نہ کرسکتے" شمر نے کہا کہ اس شخص کو زندہ نہیں چھوڑنا چاھیئے' عمر سعد نے جواب دیا کہ تم گرفتار کرکے لائے ھو تم کو اختیار ھے' شمر تلوار کھینچ کر بڑھا تو نافع نے کہا "اگر تو مسلمان ھوتا تو کبھی ھم لوگوں کے خون میں ھاتھ نہ بھرتا.خدا کا شکر ھے کہ اس نے ھم لوگوں کی موت بدترین خلائق افراد کے ھاتھوں قرار دی" شمر نے تلوار لگائی نافع شہید ھوئے.پست حوصلہ اور کمینہ فطرت شمر اس زخمی اور مجبور مجاھد کو قتل کرکے فتحمندی کا احساس کرنے لگا اور رجز کے اشعار زبان پر جاری کرکے امام حسین علیہ السلام کے باقی ماندہ اصحاب پر حملہ آور ھوا.
**

نمبر (72).>* شوذب بن عبداللہ *<
ھمدان کی ایک شاخ قبیلہ شاکر کے غلام زادوں سے اور عابس بن ابی شبیب شاکری سے وابستہ تھے.شیعانِ کوفہ میں اپنے اوصاف کی بناء پر نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور ایک طرف تو میدانِ جنگ کے شہسوار تھے دوسری طرف احادیث کے حافظ اور حضرت علی علیہ السلام سے استفادہ کیے ھوئے تھے اور کوفہ میں اس باب میں مرجعیت رکھتے تھے لوگ ان سے احادیث حاصل کرنے آیا کرتے تھے.
جب عابس جناب مسلم علیہ السلام کا خط لیکر کوفہ سے مکہ معظمہ روانہ ھوئے تھے تو شوذب بھی ان کے ساتھ تھے اور امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ مکہ معظمہ سے پھر عراق اور کربلا پہنچے تھے.
روزِ عاشور عابس نے اپنے باوفا غلام سے کہا "کیوں شوذب تمہارا کیا ارادہ ھے؟ شوذب نے کہا ارادہ کیا ھے؟ یہی کہ آپ کے ساتھ رہ کر فرزندِ رسول (ص) کی نصرت میں جنگ کروں اور قتل ھوجاؤں، عابس نے کہا شاباش مجھے تم سے یہی امید تھی، اچھا تو پھر آگے بڑھو اور امام (ع) پر جان نثار کرو تاکہ امام (ع) تمہاری مصیبت بھی اسی طرح دیکھ لیں جیسے اپنے دوسرے اصحاب کی دیکھی اور میں بھی تمہارے غم کو برداشت کرکے ثواب کا مستحق بنوں، یقینًا اگر اس وقت کوئی ایسا شخص میرے ساتھ ھوتا جس پر مجھے اس سے زیادہ اختیار حاصل ھوتا جتنا مجھے تم پر حاصل ھے تو میری خوشی یہ ھوتی کہ وہ میرے سامنے جائے تاکہ میں اس کے غم کو برداشت کروں کیونکہ آج وہ دن ھے جس میں انسان سے جتنا ھوسکے اتنا اجر و ثواب حاصل کرلے.اس لیے کہ آج کے دن کے بعد ھمارے عمل کا دفتر بند ھوجائیگا اور حساب کے سوا کچھ رہ نہیں جائیگا"
یہ وہ الفاظ ھیں جنہیں اطمینانی حالت میں شاعری کے طور پر ھر شخص کہہ سکتا ھے لیکن عین مصیبت کے موقع پر واقعی طور ر انکا اس طرح کہنا کہ عمل سے انکی تصدیق ھوتی ھو بہت مشکل ھے.الفاظ سے صاف ظاھر تھا کہ راہِ حق میں مصائب اٹھانے کا ایک شوق ھے اور تکالیف کے برداشت کرنے کا ولولہ جو خوداختیاری طور پر عملی اقدامات کا محرک ھے.
بہرطور شوذب آگے بڑھے امام حسین علیہ السلام کو سلام کرکے رخصت ھوئے اور جنگ کرکے شہید ھوئے.
**


نمبر (73)>* عابس بن ابی شبیب شاکری *<

نام و نسب
عابس بن ابی شبیب بن شاکر بن ربیعہ بن مالک بن صعب بن معویتہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشد الھمدانی شاکری.
بنو شاکر قبیلہ ھمدان کی ایک شاخ تھے اور ان ھی کی نسبت حضرت علی علیہ السلام نے جنگِ صفین کے موقع پر فرمایا تھا کہ اگر انکی تعداد ایک ھزار ھوجائے تو خدا کی عبادت اس طرح ھونے لگے کہ جس طرح ھونی چاھیئے.
یہ لوگ بڑے شجاع اور جنگ آزما تھے اور "فتیان الصباح" کے لقب سے مشہور تھے جس کے معنی ھیں "وقتِ صبح کے جواں مرد" چونکہ غارت گری اور جنگ کا مقابلہ زیادہ تر اوقاتِ صبح میں ھوتا تھا اس لیے اس وقت کی طرف نسبت دی گئی.
ھمدان کی ایک دوسری شاخ بنو وادعہ کے پاس ان لوگوں نے جاکر قیام کیا تو یہ بھی اُنکی طرف منسوب ھونے لگے اور اسی لیے عابس شاکری بھی کہا جاتا تھا اور وادعی بھی.
عابس شیعانِ موفہ میں سے رئیسِ قوم، بہادر، مقرر، عبادت گزار اور شب زندہ دار تھے.متعدد لڑائیوں میں کارِنمایاں انجام دے چکے تھے اور دلوں پر شجاعت کا سکہ قائم تھا.
جب جناب مسلم بن عقیل علیھما السلام کوفہ میں وارد ھوئے تھے اور آپ (ع) نے پہلا جلسہ منعقد کرکے امام حسین علیہ السلام کا خط سنایا تھا تو اس وقت سب سے پہلے عابس ھی کھڑے ھوئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ "میں دوسروں کا ذمہ دار نہیں مگر جہاں تک میری ذات کا تعلق ھے میں نے طے کرلیا ھے کہ آخری دم تک آپ (ع) کا ساتھ دوں گا.
انکی تقریر اتنی جامع اور پُرمغز تھی کہ حبیب بن مظاھر نے بھی انکی تعریف کی تھی اور ان ھی کی تائید میں اپنی نصرت و وفاداری کا عہد کیا تھا.
جب کوفہ کے اٹھارہ ھزار آدمیوں نے جناب مسلم علیہ السلام کی بیعت کرلی اور آپ (ع) نے اس صورتحال سے مطمئن ھوکر امام حسین علیہ السلام کو اطلاع دینا چاھی تو آپ (ع) نے وہ خط عابس ھی کے ھاتھ مکہ بھیجا تھا.چنانچہ وہ اس خط کو لیکر امام حسین علیہ السلام کے پاس پہنچے اور پھر آپ (ع) سے جدا نہیں ھوئے.انکا غلام شوذب ان کے ساتھ تھا چنانچہ انہوں نے اپنے غلام کو اپنی طرف سے امام حسین علیہ السلام پر نثار کیا.
جب شوذب درجہ شہادت پر فائز ھوچکے تو عابس نے امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا "بخدا روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مجھے آپ (ع) سے زیادہ عزیز و محبوب ھو.اگر مجھے قدرت ھوتی کہ میں اپنی جان سے زیادہ کوئی عزیز شے آپ (ع) کی خدمت میں پیش کروں تو ایسا ھی کرتا.مگر اب تو بس میری جان باقی ھے بس اب اجازت دیجئے میں آخری سلام عرض کرتے ھوئے خدا کو گواہ کرتا ھوں کہ میں آپ (ع) کے اور آپ (ع) کے پدرِ بزرگوار کے دین پر قائم ھوں"
ان الفاظ کو ادا کرکے امام (ع) سے رخصت ھوئے اور تلوار کھینچتے ھوئے صفوفِ مخالف کے سامنے پہنچے.انکی پیشانی پر اس وقت ایک زخم موجود تھا جو شاید پہلے کسی حملہ میں آگیا تھا
فوج کوفہ کا ایک شخص ربیع بن تمیم جو واقعہ کربلا میں موجود تھا بیان کرتا ھے کہ میں نے عابس کو آتے دیکھا تو پہچان لیا.اس لیے کہ میں انہیں اس سے پہلے لڑائیوں میں دیکھ چکا تھا اور انکی شجاعت سے واقف تھا.چنانچہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ایھا الناس یہ شیروں کا شیر ھے، یہ ابن ابی شبیب ھے دیکھو کوئی ایک شخص تم میں سے اس کے مقابلہ کو باھر نہ نکلے.
عابس نے آواز دینا شروع کی کیا کوئی مردِ میدان نہیں جو ایک مردِ میدان کے مقابلہ کو نکلے؟ مگر فوجِ یزید میں سے کوئی شخص بھی باھر نہ نکلا.عمر سعد نے کہا اس بہادر کو پتھروں سے مارلو.چنانچہ ھر طرف سے پتھروں کی بارش ھونے لگی.یہ عجیب طریقہ جنگ دیکھ کر عابس نے زرہ اور خود بکتر اتار کر پھینک دیا اور تلوار سونت کر صفوفِ مخالف پر ٹوٹ پڑے.جس صف کی طرف رخ کرتے تھے سینکڑوں آدمی ان کے سامنے سے بھاگتے نظر آتے تھے.تھوڑی دیر کی جنگ کے بعد فوج کے ایک بڑے حصہ نے انکو چاروں طرف سے گھیر کر قتل کردیا.پھر انکا سر قلم کیا گیا اور بہت سے آدمیوں نے آپس میں جگھڑنا شروع کیا.ھر ایک کہتا تھا کہ اس شخص کو میں نے قتل کیا ھے.بالآخر عمر سعد نے اسکا یہ کہہ کر فیصلہ کیا کہ جھگڑا نہ کرو.اس شخص کا قاتل کوئی ایک نہیں ھوسکتا.تم سب اس کے قاتل ھو.اس طرح یہ نزاع برطرف ھوئی.
**


نمبر (74) و (75)>* عبداللہ و عبدالرحمٰن فرزندان عروہ بن حراق غفاری *<
ابوذر غفاری کے قبیلہ سے حراق غفاری اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کے معرکوں میں شریک رھے تھے.ان کے دونوں پوتے "عبداللہ اور عبدالرحمٰن" اشراف و شجاعانِ کوفہ میں سے شیعانِ علی علیہ السلام میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے.دونوں بھائی امام حسین علیہ السلام کے پاس میدانِ کربلا پہنچے اور آپ (ع) کے انصار میں شامل ھوئے تھے.
ظہر کے بعد وقت سخت سے سخت ھوتا جارھا تھا.اصحابِ حسین علیہ السلام میں سے ھر ایک کی اب یہ کوشش تھی کہ میں اپنی جان پہلے نثار کروں.چنانچہ ان دونوں بھائیوں نے امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا "یا اباعبداللہ (علیہ السلام) ھمارا سلام قبول کیجئے.دشمن اب آگے بڑھتے چلے آرھے ھیں اور ھمارا بس نہیں چلتا.اس لیے ھم چاھتے ھیں کہ خود آپ (ع) کے سامنے قتل ھوجائیں اور آپ (ع) کی نصرت کا حق ادا کریں" امام (ع) نے فرمایا "اللہ تمہیں جزائے خیر عطا کرے، آؤ میرے قریب آؤ" یہ دونوں امام (ع) کے قریب ھی اس فوج سے جو بڑھ آئی تھی برسرپیکار ھوگئے.وہ یہ رجز پڑھ رھے تھے :
"تمام بنی غفار اور خندف و بنی نزار کے  قبائل اس بات سےواقف ھیں کہ ھم فاسق وفاجرگروہ پرحملہ کریں گے.باڑه داربران
شمشیروں کے ساتھ.اے میرے رفیقوں!آلِ  رسول(ص) کی حفاظت میں شمشیر و نیزہ کےساتھ جنگ میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھو"
آخر دونوں جنگ کرتے ھوئے شہید ھوئے.
**

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک