امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت علی علیہ السلام اور آٓپ کے گیارہ فرزندوں کی امامت

2 ووٹ دیں 05.0 / 5

قرآن شریف میں امامت کے سلسلے میں کسی خاص فرد کے نام اور حسب و نسب کا ذکر نھیں کیا گیا ھے ۔ شاید اس کا مقصد قرآن کو تحریف سے محفوظ رکھنا ھو یا پھر کوئی اور وجہ ھوجوابھی تک واضح نھیں ھوسکی ھے لیکن امامت حضرت علی علیہ السلام سے متعلق مختلف کلیات، متعدد آیتوں میںبیان گئے ھیں جنھیں رسول اکرم نے صریحی اورواضح طور پر اس طرح بیان اور تفسیر فرمادیا ھے کہ اس سلسلے میں کوئی بھی حق کا متلاشی سرگرداں نھیں ھوسکتا۔
حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مقام امامت پردلالت کرنے والی بھت سی آیتیں پائی جاتی ھیں۔ علامہ حلی نے ”نھج الحق وکشف الصدق“ میں ۸۸/ آیتیں بیان کی ھیں جن کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا ھے۔ مشھور کتب اھل سنت میں منقولہ احادیث کے مطابق یہ قرآنی آیتیں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے مختلف ابعاد اور پھلوؤں نیز آپ کی امامت پر روشنی ڈالنے والی ھیں۔ اس کے علاوہ شھید ثالث علامہ قاضی سعید مرعشی طاب ثراہ نے ”احقاق الحق“ میں ۹۴/دوسری آیتیں، ۳۷/ معتبر کتب اھل سنت کے حوالوں کے ساتھ پیش کی ھیں۔


امامت در قرآن

یھاں قرآن مجید سے صرف ایک آیت پیش کی جارھی ھے جو امامت حضرت علی علیہ السلام پر دلالت کرتی ھے۔
آیہٴ ولایت، سورہٴ مائدہ کی ۵۵/ویں آیہٴ مبارکہ کو کھا جاتا ھے:
تمھارا ولی بس الله ھے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ھیں۔
راویان شیعہ واھل سنت کے ذریعہ متعدد نقل شدہ احادیث کے مطابق یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے اور تمام شیعہ مفسرین ومحدثین اور بھت سے اھل سنت علماء کے اعتراف کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ھی تھے کہ جنھوں نے حالت رکوع میں ایک فقیر کو اپنی انگوٹھی بخشی تھی۔
شھیدثالث  نے احقاق الحق میں اھل سنت کی ۸۵/کتب حدیثی وتفسیری کاتذکرہ کیا ھے جن میں یہ بتایا گیا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
ان روایات کی بنا پر کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ھیں۔ فقط قابل غور یہ ھے کہ اس آیت میں ”ولی“ سے مراد کیا ھے۔


معنائے ولی

ولی، ولایت، ولا، مولا، اولیٰ وغیرہ سب کے سب مادہ ”ولی“ ۔ و،ل،ی سے مشتق ھیں۔ یہ مادہ قرآن کریم میںکثرت سے استعمال ھوا ھے، ۱۲۴/ مرتبہ اسم کی صورت میں اور ۱۱۲/ مرتبہ فعل کی صورت میں۔
جیسا کہ راغب نے مفردات القرآن میں اور ابن فارس نے مقاییس اللغة میں ذکر کیاھے، اس لفظ کے حقیقی معنی یہ ھیں: دو اشیاء کے درمیان ایسی نزدیکی وقربت کہ کوئی فاصلہ باقی نہ رھے۔ (۱) یعنی اگر دو اشیاء اس طرح ایک دوسرے سے قریب ھوجائیں کہ ان کے درمیان کوئی شیٴ باقی نہ رھے تو مادہٴ ولی استعمال ھوتا ھے: ”ولیَ زید عمراً“ یعنی زید،عمر کے قریب ھے۔
اس لفظ کا استعمال دوستی، یاری، ذمہ داری، تسلط وغلبہ کے معنی میں اسی وجہ سے ھوتا ھے کیونکہ ان تمام موارد میں ایک طرح کی نزدیکی ، اتصال وقربت پائی جاتی ھے۔ لھٰذا کسی مخصوص معنی کے تعین کے لئے کلام میں موجود قرینے کا لحاظ ضروری ھے۔
مذکورہ نکات کے بعد آیہٴ ولایت کا حاصل یہ ھے: ”مسلمانوں سے بے انتھا نزدیکی وقربت رکھنے والے خدا، رسول اور علی ھیں۔“
واضح ھے کہ یہ نزدیکی وقربت، معنوی ھے نہ کہ مادی وظاھری اور اس قربت معنوی کالازمہ ایسے تمام امور میں ولی کی نیابت ھے جن امور میں نیابت کی جاسکتی ھے۔
لھٰذا ،شخص ولی ان تمام امور پر حاکمیت رکھ سکتا ھے جن کو مسلمان اپنی ذات سے مربوط ھونے کی وجہ سے انجام دیتا ھے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ امور قابل نیابت ھوں۔ یھی وجہ ھے کہ ولایت کو تسلط، حاکمیت اور اختیار کے معنی میں استعمال کیا جاتا ھے۔ (۲)
دوسری طرف ھم جانتے ھیں کہ خداوند عالم دنیا وآخرت میںاپنے بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ھے اور ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ ولایت مومنین، تدبیر امور دین اور ان کی ھدایت کے ذریعے مومنین کو کمال وسعادت کی طرف گامزن کرتا ھے۔ رسول اکرم، خدا کے اذن اور اس کی طرف سے مومنین اورخدا کے بندوں کے ولی ھیں۔ نتیجةً اس آیت میں بیان شدہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت بھی اس لفظ کے اسی مذکورہ معنی میںھے جس کا لازمہ لوگوں کے امور میں تصرف اور ان کی جان ،مال، عزت اور دین پر اولویت ھے۔


تاٴویل اھل سنت

اکثر علمائے اھل سنت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس آیت کے شان نزول پرمتفق ھیں حتی تفسیر الکشاف میں زمخشری اس سوال کے جواب میں کہ جب مرادایک فرد ھے تو کیوں لفظ ”الذین“ جو کہ جمع کا صیغہ ھے، استعمال ھوا ھے،کھتے ھیں:
”اس لئے تاکہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ دئے جانے والے اس عمل کی طرف راغب ھوں نیز اس لئے تاکہ یہ بتایا جائے کہ مومنین کو ایسا ھونا چاھئے۔ “ (۳)
فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ھیں:
” یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے اور علماء بھی اس پرمتفق ھیں کہ حالت رکوع میں (حضرت علی) کے علاوہ کسی اور نے زکوة نھیں دی ھے۔“ (۴)
در المنثور میں سیوطی نے متعددروایات کا تذکر کیاھے جو ثابت کرتی ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام سے ھی مربوط ھے۔
سب سے اھم بات یہ ھے کہ اھل سنت اس آیت کی توجیہ وتاویل میںیہ کھتے ھیں کہ اس آیت میں ”ولی“ سے مراد دوست ھے نہ کہ سرپرست یا حاکم ومختار لیکن۔بیان شدہ نکات کے پیش نظر۔ مذکورہ معنی ادات حصر کے دائرے میں نھیں آتے کیونکہ اس صورت میں خدا، رسول اور علی کی دوستی کے علاوہ کسی اور سے دوستی کی نفی ھوتی ھے۔


امامت علی :

روایات کے پس منظر میں اھل سنت والجماعت اور شیعہ حضرات کی کتب احادیث میں رسول اکرم سے مروی بے شمار روایات موجود ھیں جو آپ کے بعد امامت و خلافت حضرت علی علیہ السلام پر تاکید کرتی ھیں۔
یہ روایات اس بات کی عکاسی کرتی ھیں کہ رسول اکرماپنی رسالت کے ابتدائی زمانے ھی سے خداوند عالم کی طرف سے اس عظیم امر کی ترسیل وابلاغ کے لئے مامور تھے کہ اس کو مسلمانوں تک پھونچائیں اور آپ نے ھمیشہ اور ھر موقع پراپنے اس فریضے کوبحسن و خوبی انجام بھی دیا۔
یھاں چونکہ ان تمام روایات کا تفصیلی جائزہ ممکن نھیںھے لھٰذا فقط واقعہٴ غدیر سے متعلق ایک روایت کا بالتفصیل تذکرہ کیا جارھا ھے اور ساتھ ھی اس کے ذیل میں چند دوسری روایات کا بھی۔


حدیث غدیر:

حدیث غدیر اس واقعہ سے مربوط ھے جورسول اسلام کی عمر کے آخری حصے میں آپ کے حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر نامی مقام پر پیش آیاتھا۔ غدیر خم اس جگہ کا نام ھے جھاں سے مصری اور عراقی حجاج اور مدینے کی سمت جانے والے افراد ایک دوسرے سے جدا ھوتے تھے۔
واقعہٴ غدیر کی تفصیل یہ ھے کہ ۱۰ ؁ میں رسول اسلام مسلمانوں کی ایک بھت بڑی تعداد کے ساتھ حجة الوداع کے لئے روانہ ھوتے ھیں اور مراسم حج کے خاتمے کے بعد مدینہ واپس جانے کے لئے مکہ سے رخصت ھوتے ھیں۔ رسول اکرم کی جانب سے فرمان حرکت جاری ھوتا ھے۔ جیسے ھی قافلہ ”حجفہ“ سے تین میل کے فاصلے پر واقع مقام ”رابغ“ پھونچتاھے، جبرئیل امین غدیرخم نامی مقام پررسول خدا کے لئے خداوندعالم کا پیغام لےکر نازل ھوتے ھیں:
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ھوا ھے اسے پھونچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نھیں کیا تو گویااپنی رسالت کو نھیں پھونچایا اور خدا آپ کولوگوں (کے شر )سے محفوظ رکھے گا۔ (۵)
اس آیت کے نازل ھوتے ھی پیامبر اکرم نے قافلے کو ٹھھرنے کا حکم دیدیا۔ جو افراد قافلے سے آگے بڑھ گئے تھے انھیںواپس آنے کا حکم دیا ارو جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا۔ ظھر کا وقت تھا اور شدید گرمی ۔ ایک درخت پر ایک چادر پھیلا کر رسول خدا کے لئے ایک سائبان تیار کیا گیا۔رسول اکرم نے نماز ظھر باجماعت ادا کی۔پھر اس حالت میں کہ مجمع آپ کے اردگرد پھیلا ھوا تھا، آپ نے اونٹوں کے کجاووں سے تیار شدہ منبرپرآکربلنداور رسا آواز میں مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
”حمد وثناخدا ذات کبریا سے مخصوص ھے۔ ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں نیز اسی پر توکل کرتے ھیں۔ اپنی برائیوں اور برے اعمال سے خداکی پناہ مانگتے ھیں وہ خدا جس کے علاوہ نہ کوئی ھادی ھے اور نہ کوئی راھنما۔ اس نے جس کو ھدایت عطا فرمادی ، پھر کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا۔ میں گواھی دتیا ھوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نھیںھے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ھے۔
ایھا الناس! اب وہ وقت آچکا ھے کہ میں دعوت حق پرلبیک کھوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں۔ میں بھی مسئول ھوں اور تم بھی مسئول ھو۔ میرے بارے میں تمھارا کیا نظریھ ھے؟
”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے اپنی رسالت کا حق بخوبی انجام دیا ھے اور اس سلسلہ میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے ھیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔“
کیا تم لوگ گواھی دیتے ھو کہ معبود کائنات فقط ایک ھے اور محمداس کا بندہ اور اس کا رسول ھے نیز جنت ودوزخ اور ابدی زندگی قطعی ھیں؟
”ھاں، ھم گواھی دیتے ھیں۔“
ایها الناس! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیںچھوڑے جا رھا ھوں ۔ تم ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کروگے؟
اسی درمیان کوئی شخص بلند ھوا اور سوال کیا: ”وہ دو چیزیں کیا ھیں؟“
”ایک خدا کی کتاب کہ جس کا ایک حصہ خدا کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا تمھارے ھاتھ میںاور دوسری میری عترت یعنی میرے اھل بیت۔ میرے خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیںھوںگے۔“
ایها الناس! خود کو قرآن واھل بیت پر مقدم نہ کرنا اور اپنے عمل میں ان دونوں کے ساتھ حق تلفی نہ کرنا ورنہ ھلاک ھو جاؤ گے۔“
اس موقع پر رسول اکرم نے علی علیہ السلام کے ھاتھ کوتھاما اور اس قدر بلند کیاکہ آپ دونوں حضرات کے زیر بغل کی سفیدی تمام افراد کے لئے نمایاںھوگئی۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا تعارف کرایا اور پھر فرمایا:
”ایها الناس! من اولیٰ الناس بالمومنین من انفسهم؟“
ایها الناس!مومنین میں خود ان کے نفوس پر کون اولی ھے؟۔
”خدا اور اس کا رسول۔“
”ان الله مولای وانا مولیٰ المومنین وانا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه“
خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ھوں اور میں ان پر خود ان سے زیادہ اولیٰ ھوں۔ پس جس کا میں مولا ھوںاس کے علی بھی مولا ھیں۔
بقول احمد بن حنبل رسول اکرم نے اس جملے کو چار بار دھرایا اور پھر فرمایا:
”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحب من احبه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وادر الحق معه حیث دار “
خداوندا! تو بھی انھیں دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتے ھیں اور انھیں دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتے ھیں۔ ان سے محبت کر جو علی سے محبت کرتے ھیں اور جن کے دل میں علی کے بارے میں کینہ ھے ان پر اپنا غیض وغضب نازل کر۔ اس کے دوستوں کی مدد فرما اورجو اس کو نقصان پھونچائے اس کو ذلیل ورسوا کر دے اور علی کو محور حق قراردے۔“


سند حدیث

حدیث غدیر ایک مشھور ومعروف حدیث ھے جس کو شیعہ اور سنی دونوں گروھوں نے متعدد طرق سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ھے نیز دونوں فرقے اس حدیث پراعتقاد و یقین رکھتے ھیںیھاں تک کہ شیعی علماء کے علاوہ بعض اھل سنت علماء نے بھی اس حدیث پر باقاعدہ ایک باب کے تحت مفصل بحث کی ھے مانند ابوجعفر محمد بن جریر طبری (م ۳۱۰ ئھ)، ابوالعباس احمد بن سعید ھمدانی (م ۳۳۳ ئھ )اور ابوبکر محمد بن عمر بن محمد بن سالم تمیمی بغدادی (م․ ۳۵۵ ئھ) وغیرہ ۔ علامہ امینی طاب ثراہ نے اپنی معرکة الآرا کتاب الغدیر میں ان تمام افراد کے اسماء کا تذکرہ کیا ھے جنھوں نے اس حدیث سے متعلق کتابیں لکھی ھیں نیزآپ نے اپنی کتاب میں ان افراد کی کتابوں کی خصوصیا ت بھی درج فرمائی ھیں۔
اس حدیث کونقل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تابعین، تبع تابعین، علماء اور فقھاء نے کس قدر اھتمام کیا تھا اس کا اندازہ اگرھوجائے تو حقیقت مزید واضح ھوجائے گی۔ یھاں اس سلسلے میں ھر صدی کے بعض اھل سنت علماء کی تعداد نقل کی جارھی ھے بقیہ تفصیل ان مفصل کتابوں کے حوالے کی جا رھی ھے جواس سلسلہ میںلکھی گئی ھیں۔ اس حدیث کے ناقل اس طرح ھیں:
۱۔ ۱۱۰/صحابہ
۲۔ ۸۴/تابعین
۳۔ ۵۶/ علمائے قرن دوم
۴۔ ۹۲/ علمائے قرن سوم
۵۔ ۴۳/علمائے قرن چھارم
۶۔ ۲۴/علمائے قرن پنچم
۷۔ ۲۰/علمائے قرن ششم
۸۔ ۲۰/علمائے قرن ھفتم
۹۔ ۱۹/علمائے قرن ھشتم
۱۰۔ ۱۶/علمائے قرن نھم
۱۱۔ ۱۴/علمائے قرن دھم
۱۲۔ ۱۲/علمائے قرن یازدھم
۱۳۔ ۱۳/ علمائے قرن دوازدھم
۱۴۔ ۱۲/ علمائے قرن سیزدھم
۱۵۔ ۱۹/ علمائے قرن چھاردھم


اھل سنت والجماعت کے بزرگ ومعتبر محدثین میں سے احمد بن حنبل شیبانی نے ۴۰/سندوں، ابن حجر عسقلانی نے ۲۵/سندوں، جزری شافعی نے ۸۰/سندوں، ابوسعید سجستانی نے ۱۲۰/سندوں، امیر محمد یمنی نے ۴۰/سندوں، نسائی نے ۲۵۰/ سندوں، ابوالعلاء ھمدانی نے ۱۰۰/سندوں اور ابولعرفانی حبان نے۳۰/سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
مذکورہ اعداد وشمار علامہ امینیۺ کی شھرہٴ آفاق کتاب ”الغدیر“ سے ماخوذ ھیں البتہ حدیث غدیر خم، اس کی سندوں اور مصادر سے مربوط، ”الغدیر“ کے علاوہ دوسری بھت سی کتابیں از جملہ ”غایة المرام“ مولفہ علامہ سید ھاشم بحرانی (م․ ۱۱۰۷ ئھ) اور ”عبقات الانوار“مولفہ سید میرحامد حسین اعلیٰ الله مقامہ، لکھی گئی ھیں۔
مذکورہ نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ واقعہٴ غدیر خم اور اس دن رسول اکرم کا خطبہ، تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ھے ۔ اگر کوئی شخص اس حقیقت کا انکار کرنا چاھے تو پھر وہ دوسرے کسی بھی تاریخی واقعے کو قبول نھیں کرسکتا۔


دلالت حدیث

حدیث غدیر کا مرکزی نقطہ یہ جملہ ھے ”من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ“ جس کا میں مولا ھوں اس کے علی بھی مولا ھیں۔ متعدد پائے جانے والے قرائن وشواھد کے مدنظر اس حدیث شریف میں مولیٰ، ”اولیٰ“ یعنی سزوار تر کے معنی میںھے۔ جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ رسول اکرم کے بعد حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے ولی اور سرپرست ھیںاور ان کے نفوس پران کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ ھیں۔ اس سلسلے میں بعض قرائن وشواھد مندرجہ ذیل ھیں:
۱) حدیث کے آغاز میں رسول اکرم فرماتے ھیں: ”الست اولیٰ بکم من انفسکم“ آیا میں تم سے تمھارے نفسوں کی بہ نسبت زیادہ اولیٰ نھیں ھوں؟ اسی وقت اس سوال پراس جملے کااضافہ فرماتے ھیں: فمن کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ۔ ان دونوں جملوں کی ھم آھنگی اور ایک دوسرے سے نزدیکی یھی ثابت کرتی ھے کہ مولیٰ، ”اولیٰ بہ تصرف“ ھی کے معنی میں ھے۔
۲) حدیث کے ضمن میں رسول خدا فرماتے ھیں: ”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه“ یہ دعا اس عظیم مقام کی طرف نشاندھی کرتی ھے جس پر حضرت علی علیہ السلام فائز ھوئے ھیں اور وہ مقام خلافت و ولایت کے علاوہ کچھ نھیںھوسکتا۔
۳) رسول خدا، وھاں موجود افراد سے گواھی لیتے ھیں اور جملہٴ من کنت مولاہ ․․․ کو وحدانیت خدا، اور رسالت پیغمبر کے ذیل میں ارشاد فرماتے ھیں۔ یہ بھی فقط اسی صورت میں قابل قبول ھے کہ جو کچھ اس جملے میں بیان ھوا ھے وہ اسی اھمیت اور منزلت کا حامل ھو جسکاجملہٴ ماقبل حامل ھے۔
۴) رسول اکرم کی گفتگو کے ختم ھونے اورمسلمانوں کے پراکندہ اور منتشر ھونے سے قبل جبرئیل نازل ھوتے ھیں اوراس آیت کی تلاوت فرماتے ھیں: اس کے بعد رسول خدا فرماتے ھیں: الله اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة رضی الرب برسالتی والولایة لعلی من بعدی“ آخر ایسی کونسی چیز ھوسکتی ھے جو حضرت علی علیہ السلام کی امامت وولایت کے علاوہ دین کوکامل کرنے والی اور نعمتوں کو تمام کرنے والی شمار کی جاسکے نیز جس کو رسالت کے کنارے کھڑا کیاجاسکے؟
دوسرے بھت سے ایسے قرائن بھی رسول گرامی کی اس ماموریت و ذمہ داری کی اھمیت وعظمت کی گواھی دیتے ھیں جو مسلمانوں کو ابلاغ اور ترسیل سے متعلق ھے۔ اس سلسلے میں مزید جستجو اور مطالعے کے لئے علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر“ کی دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔


دیگر روایات پر ایک سرسری نظر

(۱) جس وقت آیہٴ (۶) نازل ھوئی ، رسول خدا نے حضرت ابوطالب علیہ السلام سے فرمایا کہ فرزندان عبد المطلب کو دعوت دی جائے اور ان کے لئے طعام کا انتظام کیا جائے۔ تمام افراد کے حاضر ھونے پر آپ نے فرمایا:
” ایکم یوازرنی ویعیننی فیکون اخی وخلیفتی ووصیی من بعدی“
تم میں سے کون ھے جو میرا وزیربنے اور میری مدد کرے تاکہ میرا بھائی ، جانشین اور خلیفہ قرار پائے۔
اس مجمع میںرسول کی اس پیشکش کوقبول کرنے والوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام تھے، آپ نے فرمایا: میںآپ کی بیعت کرتا ھوں ۔میں آپ کی مدد کروںگا۔ سپس رسول خدا نے فرمایا:
”هذا اخی ووصیی وخلیفتی من بعدی ووارثی فاسمعوا له واطیعوا “
یہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرے بعدمیرا جانشین اور وارث ھے۔ لھٰذا اس کے کلام کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔(۷)


(۲) جس وقت رسول خدا نے مدینہ کے لئے ھجرت فرمائی تھی اس وقت حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ تمام صحابہ کے درمیان عقد اخوت باندھا تھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا رسول خدا! آپ نے میرے علاوہ تمام اصحاب کے درمیان عقد اخوت باندھا ھے۔ رسول خدا نے فرمایا:
”الم ترضیٰ ان تکون اخی وخلیفتی من بعدی“
کیاتم میرے بھائی اور میرے جانشین ھونے سے راضی نھیں ھو؟(۸)


(۳) متعدد روایات میںنقل ھوا ھے کہ رسول الله نے بارھا اصحاب سے فرمایا تھا کہ علی کو ”امیر المومنین“ کے لقب سے مخاطب کیاکرو نیز آپ خود حضرت علی علیہ السلام سے فرماتے تھے:
”انت سید المسلمین وامام المتقین وقائد الغر المحجلین“
تم مسلمانوں کے پیشوا، متقین کے امام اورروز قیامت روشن چھرہ افراد کے قائد ھو۔(۹)
نیز آپ نے فرمایا ھے: ”ھٰذا ولی کل مومن ومومنة“ اس حدیث کو شیعہ اور سنی دونوں فرقوں نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ھے۔ (۱۰)


(4) رسول گرامی نے شیعہ وسنی محدثین کی متواتر روایات کے بقول حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی“
تمھاری نسبت مجھ سے وھی ھے جوھارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیںھے۔(۱۱)
یعنی ھر وہ شان و منزلت جو ھارون موسیٰعلیہ السلام کے ساتھ رکھتے تھے وھی حضرت علی علیہ السلام کو رسول خداکیساتھ ھے جن میں سے اھم ترین ھارونعلیہ السلام کا موسیٰعلیہ السلام کے لئے خلیفہ اور وصی ھونا تھا۔


دیگر ائمہ کی امامت

رسول الله نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ دیگر ائمہ اطھار علیہم السلامکی امامت کا اعلان بھی بارھا مختلف انداز وطریقے سے کیا ھے۔ اس سلسلے میں رسول گرامی سے منقول روایات کو چھ حصوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ھے:
۱) بعض روایات ایسی ھیں جن میں اھل بیت، عترت، ذریت اور ذوی القربیٰ جیسے عناوین کا ذکر ملتا ھے۔ ساتھ ھی امامان معصومین کی صفات کلیہ اور حضرت زھرا کی نسل میں امامت کے دوام کوبھی بطور کلی پیش کیا گیا ھے۔ ان روایات کی تعداد بے شمار ھیں جو کتب صحاح اور جوامع اھل سنت میں بھی درج ھیں نیز عبقات الانوار، الغدیر، المراجعات اور احقاق الحق میں ان روایات کا بالتفصیل تذکرہ ملتا ھے۔
۲) روایات کی دوسری قسم میں وہ روایات آتی ھیں جن میں یہ بتایا گیا ھے کہ امامت، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی طرف منتقل ھوجائے گی۔ ان روایات کا ایک حصہ احقاق الحق کی انیسویں جلد میں موجود ھے۔
۳) تیسری قسم کی روایات میں نام اور تعداد کے بغیر امامت کو ۱۲کے عدد میں محصور کیا گیا ھے۔ اس سلسلے میں ایک سو تیس سے زیادہ احادیث نقل ھوئی ھیں نیز ۴۰/احادیث اس مضمون کے ساتھ منقول ھیں کہ رسول خدا کے بعد خلفاء اور ائمہ جناب موسیٰ کے نقباء کے مساوی ھیں۔
۴) ۹۱/سے زیادہ ایسی احادیث ھیں جن میں ائمہ کی تعداد کے ضمن میں پھلے اور آخری امام کے نام کا بھی ذکر ھے اوران احادیث کے علاوہ ۹۶/ احادیث ایسی ھیں جن میں فقط آخری امام کا ذکر ھے۔
۵) ۱۲۹/ احادیث میں وارد ھوا ھے کہ تعداد ائمہ،بارہ ھے نیز وضاحت کی گئی ھے کہ ان میں سے نو امام حسین علیہ السلام کے فرزند ھوں گے ۔
۶) ۵۰/احادیث میں فرداً فرداً ھر امام کے نام کا جداگانہ طور پر تذکرہ ملتا ھے۔
نمونہ کے لئے ان میں سے ایک حدیث مندرجہ ذیل ھے:
جابر بن عبد الله انصاری کھتے ھیں: جس وقت آیہٴ (۱۲) نازل ھوئی ،میں نے رسول اکرم سے عرض کیا: ھم خدا اور اس کے رسول کو جانتے ھیں لیکن اولی الامر جن کی اطاعت ھم پر واجب کی گئی ھے ، کون ھیں؟ آپ نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور میرے بعد امام ھیں جن میںسے پھلے علی اور ان کے بعد بالترتیب: حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، محمد بن علی کہ جن کو توریت میں باقر کھا گیا ھے اور تم ان کے زمانے کو درک کروگے۔ جب بھی تم ان سے ملاقات کرنا‘ ان تک میرا سلام پھونچانا۔ اس کے بعد فرمایا: ان کے بعد بالترتیب جعفر بن محمد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، محمد بن علی، حسن بن علی اور ان کے بعد ان کا فرزند جس کا نام اور کنیت، میرا نام اور میری کنیت ھے۔ خدا اس کو ساری دنیا کی حاکمیت عطا کرے گا۔ وہ لوگوں کی نگاھوں سے غائب ھوجائے گا اور اس کی غیبت بھت طولانی ھوگی۔ یھاں تک کہ اس کی اما مت کے معتقد صرف وھی افرادرہ جائیں گے جن کا ایمان مستحکم اور عمیق ھوگا۔(۱۳)


امامت ائمہ اثنا عشری سے متعلق روایات اھل سنت

مندرجہ ذیل وہ احادیث ھیں جو ائمہٴ اثنا عشری کی امامت سے متعلق کتب اھل سنت میں نقل ھوئی ھیں:
(۱) بخاری، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ھیں: میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ھے کہ (میرے بعد) بارہ امیر ھوں گے۔پھر ایک ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ جس کو میں سن نھیں سکا۔ میرے باپ نے کھا کہ رسول نے فرمایا ھے: وہ سب کے سب قریش سے ھوں گے۔ (۱۴)
(۲)مسلم، جابر بن سمرہ سے نقل کرتے ھیں: میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا: اسلام بارہ خلفاء تک باقی رھے گا۔ سپس ایک جملہ ارشاد فرمایا جس کو میں سن نھیں سکا۔ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ رسول نے کیا فرمایا ھے؟ میرے والد نے کھا: رسول نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ھیں۔ (۱۵)
(۳) جابر بن سمرہ کے حوالے سے مسلم سے منقول ھے کہ جابر نے کھا: اپنے والد کے ساتھ میں رسول خدا کی خدمت میں گیا۔ آپ نے فرمایا:اسلام بارہ عزیز اور گرانقدر خلفاء تک باقی رھے گا اور وہ سب کے سب قریش سے ھوں گے۔(۱۶)
(۴) جابر بن سمرہ سے مسلم نقل کرتے ھیں: میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ھے کہ یہ دین قیامت تک باقی رھے گا یھاں تک بارہ خلفاء تمھارے حاکم ھوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ھوںگے۔ (۱۷)


حوالہ جات

۱۔مقایس اللغة ج،۶ ص ۱۴۱
۲۔مفردات القرآن راغب اصفھانی ص/۵۷۰
۳۔الکشاف،ج/۱،ص/۵۰۵ مصری پرنٹ، ۱۹۹۶ ءء
۴۔التفسیر الکبیر: ج/۱۲،ص/۳۰، مصر، ۱۹۷۸ ءء
۵۔مائدہ: ۶۷
۶۔شعرا: ۲۱۴
۷۔العمدة، ابن بطریق، ص/۱۳۴، اور ۱۲۳، ۱۲۱، غایة المرام، ص/۳۲۰، شواھد التنزیل، ج/۱،ص/۴۰۲‘ الغدیر، ج/۲،ص/۲۷۹،۲۷۸
۸۔العمدة، ص/۲۲۳، ۲۱۵، الغدیر، ج/۳،ص/۱۲۵،۱۱۲
۹۔العمدة، ص/۴۱۸، الغدیر، ج/۱،ص/۵۲،۵۰‘ ج/۷،ص/۱۷۶
۱۰۔مناقب ابن مغارلی، ص/۶۶‘ص/۶۵
۱۱۔العمدة:ص/۱۸۵، ۱۸۳،مسنداحمد، ج/۳، ص/۳۲، الغدیر، ج/۱ ، ص/۵۱ ، ج/۳،ص/۲۰۱،۱۹۷
۱۲۔نساء:۵۹
۱۳۔منتخب الاثر:ص/۱۰۱
۱۴۔صحیح بخاری، ج/۹، باب الاستخلاف ،ص/۱۰۱
۱۵۔صحیح مسلم، ج/۶، کتاب الامارة، باب الناس تبع لقریش، ص/۳
۱۶۔صحیح مسلم، ج/۶، کتاب الامارة، باب تبع لقریش ،ص/۳
ٓ۱۷۔صحیح مسلم، ج/۶کتاب الامارة، باب الناس تبع لقریش، ص/۳، مزید تحقیق ومطالعے کے لئے مسند احمد، ج/۵،ص/۱۰۷،۹۷،۹۸،۸۶، منتخب الاثر، ص/۱۶، ینابیع الحکمة،ص/۴۴۶ کی طرف بھی رجوع کیا جاسکتا ھے۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک