تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 76 تا 80)
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 76 تا 80)
"وَ اِذَا لَقُواالَذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَا وَ اِذَاخَلَابَعْضُهمْ اِلٰی بَعْضٍ قَالُوْآ اَتُحَدِثُوْنَهمْ بِمَا فَتَحَ الله عَلَیْکُمْ لِیُحَآجُوْکُمْ بِه عِنْدَ رَبِکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (76).
اور جب وہ اھل ایمان سے ملتےھیں تو کہتے ھیں ھم مومن ھیں اورجب آپس میں تخلیہ ھوتا ھے تو کہتے ھیں کہ جو تمہیں معلومات اللہ نے دیئے ھیں وہ تم انہیں کیوں بتادیتے ھوکہ جس سےوہ خودتمہارےخلاف پیشِ پروردگارحجت قائم کریں.آخر تم عقل سےکام کیوں نہیں لیتےھو؟"
؛؛؛
یہ اب یہود میں سے جو منافق تھے اُنکا ذکر ھے اُن میں سے بہت سے مسلمانوں کے پاس آکر اظہارِ ایمان تو کرتے ھی تھے بعض اُن میں سے اپنے ایمان کے خلوص کو ظاھر اور مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے اپنی کتابوں سے جو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظہور کی پیشین گوئیاں اُن کے یہاں موجود تھیں وہ بھی بیان کرتے تھے کہ ھم ان دلائل کی بنا پر مسلمان ھوئے ھیں.یہ لوگ جب آپس کی صحبت میں بیٹھتے تھے تو دوسرے ان کو لعنت ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ خیر اُن کے پاس جاؤ اور اسلام کا اظہار کرو انہیں دھوکا دینے کیلئے اس میں کوئی حرج نہیں مگر یہ کیا غضب کرتے ھو کہ انہیں اپنی کتابوں کی معلومات بھی پہنچادیتے ھو.(1) جسکا نتیجہ یہ ھے کہ وہ خود تمہارے مذھب کی رُو سے تمہاری پوری قوم کے مقابل میں دلائل پیش کرسکیں جنکا تمہارے پاس سچ مچ کوئی جواب نہیں ھے.
"پیشِ پروردگار" حجت قائم کرنے کا مطلب بظاھر یہی ھے جس کو ھمارے محاورہ میں یوں کہا جائیگا کہ "بینی و بین اللہ" تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ھے.نہ یہ کہ روزِ قیامت حجت پیش کریں کہ قیامت کے دن تو حقیقتیں خود ھی منکشف ھونگی حجت واستدلال کا کوئی موقع نہ ھوگا.
**
"اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَ الله یَعْلَمُ مَا یُسِرُوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ (77).
کیا انہیں یہ نہیں معلوم ھے کہ جویہ چھپائیں اورجوظاھرکریں اللہ کو اُس سب کا علم ھے"
؛؛؛
یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اُن دلائل کے معلوم ھونے میں جو انکی کتابوں میں ھیں ان کے بتانے کی ضرورت نہیں ھے.انہیں تو اللہ کی طرف سے اطلاع حاصل ھوتی ھے جسکا علم ظاھر اور پوشیدہ سب کو حاوی ھے.اس لئے یہ بتائیں یا نہ بتائیں اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب چاھے گا ان تمام باتوں کی اطلاع دیدے گا.
**
"وَمِنْهمْ اُمِیُوْنَ لآیَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَآ اَمَانِیَ وَاِنْ همْ اِلَا یظُنُوْنَ(78).
اوران میں کچھ ایسے اَن پڑھ لوگ ھیں جو سوا بلند و بالا توقعات کے اپنی کتاب کا کچھ بھی علم نہیں رکھتےاوروہ بس خام خیالیوں میں مبتلا ھیں"
؛؛؛
یہ اُن عوام کا ذکر ھے جو مذھب کی حقیقت بس اتنی ھی جانتے ھیں کہ ھم اسکی وجہ سے آخرت میں بلند سے بلند تر درجہ کے مستحق ھیں مگر خود اُس مذھب کی جس سے وہ نجات کے متمنی ھیں الف،ب بھی نہیں جانتے.ایسے عوام آج مسلمانوں میں بھی ھیں اور وہ بھی اپنی خام خیالیوں پر کوئی قابلِ تعریف حیثیت نہیں رکھتے.
یہود کی ان بلند و بالا توقعات کا ذکر قرآنِ مجید میں کئی جگہ تفصیل کے ساتھ بھی آیا ھے.جیسے یہ کہ جنت میں بس ھم ھی ھم ھوں گے "وقالوا لن یدخل الجنة الامن کان هودا او نصارٰی" (البقرہ111) وہ کہتے ھیں کہ بہشت میں ھرگز کوئی داخل نہیں ھوگا سوا اُس کے جو یہودی ھو یا عیسائی ھو"
یا کہ کہ دوزخ میں ھم گئے بھی تو بس چند دن کیلئے.پھر بہشت میں پہنچنا ضروری ھے "لن تمسسنا النار الا ایام معدودة"(البقرہ80) یعنی ھمیں آگ چھو بھی نہیں جائیگی سوا گنتی کے چند دنوں کے" یا یہ کہ ھم من حیث الجماعت اللہ کے بیٹے اور اس کے لاڈلے ھیں "نحن ابناؤا الله واحباؤه" (المائدہ18)
اب جائزہ لے لیجئے کہ سوفیصدی وھی خیالات اسلامی جماعت کے بہت سے افراد میں سرایت کئے ھوئے ھیں یا نہیں؟ انکا نتیجہ یہ ھے کہ وہ نجات کیلئے فرائض واعمال، اخلاقِ حسنہ اور تکمیلِ نفس کیلٰئے کوئی ضرورت نہیں سمجھتے حالانکہ اسلام ، ایمان ، محبتِ اھلبیت علیھم السلام اور ولایت علی بن ابی طالب علیھما السلام ھر چیز کا لازمی نتیجہ اطاعت و اتباع ھے جو استحقاقِ نجات کیلئے ضروری ھے.
**
"فَوَیْلّ لِلَذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْهمْ ثُمَ یَقُوْلُوْنَ هذَا مِنْ عِنْدِالله لِیَشْتَرُوْابِه ثَمَنًاقَلِیلًا فَوَیْلّ لَهمْ مِمَا کَتَبَتْ اَیْدِهمْ وَ وَیْلّ لَهمْ مِمَا یَکْسِبُوْنَ (79).
وائے بہ حال ان لوگوں کے جو اپنے ھاتھوں سے جعلی نوشتہ لکھ کر تیار کرتے ھیں. پھر فقط تھوڑا سا معاوضہ حاصل کرنے کیلئے کہدیتے دیتے ھیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ھے. وائے بہ حال اُن کے اُسکی وجہ سے جو وہ لکھتے ھیں اور وائے بہ حال انکےاس وجہ سےجووہ کمائی کرتے ھیں"
؛؛؛
یہ اب علمائے یہود کا ذکر ھے جیسا کہ مولانا عبدالماجد صاحب لکھتے ھیں کہ :
"توریت کی تحریف اب کوئی اختلافی یانزاعی مسئلہ نہیں. دوست دشمن سب ھی کو تسلیم ھوچکا ھے کہ یہ کلامِ الہی نہیں ھے اور اسکے دوست زیادہ سے زیادہ یہ کہتےھیں کہ یہ خدا رسیدہ انسانوں کی تصنیف ھے. کسی جامد سے جامد یہودی میں بھی اب یہ ھمت باقی نہیں کہ توریت کو قرآنِ مجید کی طرح تنزیلِ لفظی قرار دے. اب زیادہ سے زیادہ جو کہا جاتا ھے وہ یہ ھے کہ خاصانِ خدا نے الہامِ خداوندی سےمشرف ھوکراپنےطور پراوراپنی عبارت میں ترتیب وتالیف دیااورخدائےتعالٰی کی جانب اس کا انتساب صرف مجازًا یا بالواسطہ ھے. حقیقی اور براہ راست کے مفہوم میں نہیں"
پھر وقتًا فوقتًا جو تصحیفات ھوتی رھی ھیں وہ بالفرض کسی مصلحت یا ضرورت ھی سے ھوئی ھوں بہرحال نفس ان کے وقوع کا اعتراف کھلے خزانے سب کو ھے اور بائبل کی تنقید ایک مستقل فن کی صورت اختیار کرچکی ھے.جرمن، فرنچ، انگریزی وغیرہ میں چھوٹی بڑی صدھا بلکہ ھزارھا کتابیں اس موضوع پر تیار ھوچکی ھیں اور مقالات و مضامین کا تو شمار ھی نہیں.پھر فن بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ھوچکا ھے.انتقاد متن، انتقادِ تاریخی وغیرہ اور ھر شاخ کے الگ الگ ماھرین پیدا ھورھے ھیں.عرب کے اُمی کے لائے ھوئے کلام کا یہ اعجاز ھے کہ اُس نے چودہ صدی پیشتر ھی اھلِ کتاب کی "کتاب" کو (جو لفظی ترجمہ ھے بائبل کا) تمام تر محرف و ناقابلِ اعتماد قرار دیدیا تھا.
**
"وَ قَالُوْالَنْ تَمَسَنَاالنَارُ اِلَآ اَیَامًا مَعْدُوْدَة قُلْ اَتَخَذْتُمْ عِنْدَالله عَهدًافَلَنْ یُخْلِفُ الله عَهدَه اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی الله مَالَا تَعْلَمُوْنَ (80).
اورانکاقول ھےکہ ھمیں دوزخ کی آگ تو چھو بھی نہیں سکتی سوا چند گنتی کے دنوں کے.کہو کیا تم نےاللہ سے کوئی عہدنامہ کرالیاھے کہ اللہ اپنے عہد نامہ کے خلاف کبھی نہ کریگا یا تم بے جانےخود ھی اللہ پر ایک بات عائد کر رھے ھو"
؛؛؛
کہا جاتا ھے کہ یہودی اس کے قائل تھے کہ ھمیں اتنے دن کہ جن میں موسٰی علیہ السلام کی غیبت کے موقع پر گوسالہ کی پرستش ھوئی تھی اور وہ چالیس دن تھے آتشِ دوزخ کی سزا دی جائیگی.اس کے بعد چاھے کتنا ھی بداعمال یہودی ھو وہ دوزخ میں نہیں رہ سکتا.اسی کی رد کی گئی ھے کہ یہ تم نے اللہ کے یہاں کے معاملات میں اپنے دل سے کیونکر فیصلہ کرلیا ھے اور اللہ اسکا پابند کس بناء پر سمجھا جاسکتا ھے.
**
________
(1). بما فتح الله علیکم بما بین لکم فی التورٰة من نعته وصفته (نیشاپوری)