سورہ اخلاص کی تفسیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دیباچہ
قرآن کریم چونکہ ایک لا محدود، ازلی اور ابدی ذات کا کلام ہے اس لئے وسیع اور لا متناہی علوم اور معارف پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:
﴿قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا﴾ (1)
کہدیجئیے : میرے پروردگار کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگرسمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں۔
ہم نے اس مقالے میں کوشش کی ہے کہ اس عظیم علمی ذِخیرے اور بحر بیکران سے اپنی بساط کے مطابق فائدہ اٹھانے کی خاطر سورہ مبارکہ اخلاص کی مختصر تفسیر اور تشریح ہوجائے۔
سورہ اخلاص کی فضیلت
سورہ مبارکہ اخلاص کی فضیلت میں بہت سے احادیث اور روایات وارد ہوئی ہیں۔ ذیل میں ہم صرف تین روایتوں کی طرف اشارہ کریں گے:
1- عبد اللہ بن حجر کہتا ہے کہ: میں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا:
"جو کوئی نماز صبح کے بعد گیارہ مرتبہ قل ہو اللہ احد کی تلاوت کرئے تو اس دن اس انسان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوگا اور شیطان کی ناک زمین پہ رگڑھ جائے گی"(2 )
2- امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہےکہ :
" جو کوئی ایک بار قل ھو اللہ احد کی تلاوت کرئے تو گویا اس نےایک تہائی قرآن کی تلاوت کی ہے۔ اگر دو بار اس سورہ کی تلاوت کرئے تو گویا اس نے قرآن کے دو تہائی کی تلاوت کی ہے اور جس نے تین بار اس سورہ کی تلاوت کی تو گویا اس نے ختم قرآن کیا ہے"( 3)
(مترجم) سورہ اخلاص کا ثلث قرآن کے برابر ہونے کے بارے میں متعدد د روایات موجود ہیں۔ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سےمنقول کئی روایتوں میں یہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ سلمان فارسی کا وہ مشہور واقعہ بھی اس کی ایک دلیل ہے کہ :
ایک دن مسجد النبی میں رسول خدا خطاب فرما رہے تھے کہ تم میں سے کون ہے جو سارا سال روزہ رکھتا ہو، پوری رات عبادت میں گزارتا ہو، اور ہر دن پوری قرآن ختم کرتا ہو؟
اس وقت سلمان اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ یہ سارا کام میں کرتا ہوں ۔
کوئی صحابی اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسو ل اللہ یہ جھوٹ بولتا ہے میں اکثر دنوں میں اسے کھاتے پیتے ہوئے دیکھا ہے، اکثر راتوں کو یہ سوتا ہے، اور یہ بھی سچ نہیں ہے کہ ایک دن میں پوری قرآن ختم کرتا ہو۔
اور وقت رسول خدا نے سلمان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ : یہ سارے تم کس طرح انجام دیتے ہو؟
اس وقت سلمان نے کہا کہ :میں دن میں تین بار سورہ قل ھو اللہ احد کی تلاوت کرتا ہوں؛ کیونکہ میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " سورہ اخلاص کی تین بار تلاوت کل قرآن کے برابر ہے "
اس وقت رسول خدا نے اس کی تائید فرمائی۔
3- انس بن مالک سے منقول ہے کہ:
رسول اللہ ص شام میں تھا اس وقت جبریل آیا اور کہا کہ : معاویہ بن معاویہ مزنی مر گیا ہے کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ اس پر نماز جنازہ پڑھ لیں؟ تو آپ ص نے فرمایا ہاں۔ چنانچہ انہوں نے زمین پر اپنا پر ماراتو آپ کے لئے ہر شے گر گئی اور زمین کے ساتھ چپک گئی (یعنی زمین ہموار ہو گئی) اور پھر اس کی چارپائی آپ ص کے لئے اٹھائی گئی اور آپ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی۔ تو حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا: کون سی شے کے سبب معاویہ بن معاویہ کو یہ فضیلت عطا ہوئی؟ اس پر ملائکہ کی دو صفوں نے نماز جنازہ پڑھی ہے اور ہر صف میں چھ لاکھ فرشتے تھے۔ تو جبریل نے جواب دیا : قل ھو اللہ پڑھنے کے سبب (اسے یہ فضیلت حاصل ہوا) وہ اٹھتے، بیٹھتے، آتے ،جاتے، اور سوتے وقت یہ پڑھتا رہتا تھا۔( 4)
(مترجم) اہل سنت کی تفاسیر میں انس کی روایت کے مطابق جس شخص کے جنازے پر جبریل اور فرشتوں کی صفوں نے نماز جماعت ادا کی وہ معاویہ بن معاویہ نامی شخص ہے لیکن تفسیر نمونہ میں مجمع البیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ: جس شخص کے جنازے پر فرشتوں نے نماز پڑھی وہ سعد بن معاذ تھا۔ روایت ملاحظہ کیجیئے:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آٖلہ و سلم نے سعد بن معاذ کے جنازے پر نماز پڑھی تو آپ ص نے فرمایا:
"ستر ہزار فرشتوں نے، جن میں جبرئیل علیہ السلام بھی تھے ، اس جنازے پر نماز پڑھی ہے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ کس عمل کی بنا پر تمہارے نماز پڑھنے کا مستحق ہوا ہے؟"
جبرئیل علیہ السلام نے کہا: "اٹھتے، بیٹھتے، پیدل چلتے اور سوار ہوتے اور چلتے پھرتے«قل ھو اللہ احد» پڑھنے کی وجہ سے" (5 )
اس سورہ کی فضیلت میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ
« جو کوئی پنجگانہ نمازوں میں اس کی قرائت نہ کرئے تو اس سے کہا جائے گا کہ اے بندۂ خداتو نماز گزاروں میں سے نہیں ہے»
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
«جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر نماز کے بعد قل ھو اللہ احد کے پڑھنے کو ترک نہ کرے کیونکہ جو شخص اسے پڑھے گا خدا اس کے خیر دنیا و آخرت جمع کردے گا۔ اور خوداسے اور اس کے ماں باپ اور اس کی اولاد کی بخش دے گا»
اما اس بارے میں کہ سورہ "قل ھو اللہ احد" قرآن کی ایک تہائی کے برابر کیسے ہوگیا؟ تو بعض نے تو یہ کہا ہے کہ یہ اس بنا پر ہے کہ قرآن "احکام " و "عقائد" اور "تاریخ " پر مشتمل ہے ، اور یہ سورہ عقائد کے حصہ کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہا ہے کہ قرآن کے تین حصے ہیں "مبدأ" و "معاد" اور "جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے" اور یہ سورہ پہلے حصہ کی تشریح کرتا ہے۔
یہ بات قابل قبول ہے کہ قرآن کی تقریباً ایک تہائی توحید کے بارے میں بحث کرتی ہے، اور اس کا خلاصہ سورہ توحید میں آیاہے۔ ( 6)
شان نزول
سورہ مبارکہ اخلاص کی شان نزول میں کئی وجوہات ذکر ہوئے ہیں، یہاں صرف تین وجوہات کو اختصاراًذکر کرتے ہیں:
پہلی وجہ: یہ سورہ مشرکوں کے سوال کی سبب سے نازل ہواہے۔
ضحاک نے نقل کیا ہے کہ مشرکوں نے عامر بن طفیل کو اس پیغام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا کہ: اے محمد! ہم تیرے دین کے ساتھ مخالفت کریں گے۔ اگر تو نادار ہے تو ہم تجھے بے نیاز کردیں گے۔ اگر پاگل ہے تو ہم تیری علاج کروائیں گے۔ اگر کسی عورت کی تمنا رکھتے ہو تو ہم اس سے تیری عقد کروائیں گے۔اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ: میں نادار یا پاگل نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کسی عورت کی تمنا ہے، میں خدا کا رسول ہوں اور تمہیں بتوں کی عبادت سے میرے معبود کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔
دوسری وجہ:یہ سورہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں نازل ہوا ہے۔
عکرمہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ "یہودی کعب بن اشرف کے ساتھ رسول اللہ کے پاس آئیں اور کہا : اگر تیرا خدا تمام مخلوقات کا بنانے والا ہے تو اسے کس نے بنایا ہے؟ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غصہ آیا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوا اور آپ کی دلجوئی کی اور ساتھ یہ سورہ بھی نازل ہوا"
تیسری وجہ: گیا ہے کہ یہ سورہ نصاریٰ کے سوال کے جواب میں نازل ہوا ہے۔
عطا نے ابن عباس سےنقل کیا ہے کہ: نجران سے کچھ عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں اور کہا" تیرے پروردگار کی توصیف کریں وہ کس قسم کا ہے؟ کیا وہ زبرجدسے ہے یا یاقوت سے ؟یا سونا اور چاندی سے ہے؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاکہ : «وہ کسی چیز سے بھی نہیں؛ اس لئے کہ وہ سب چیزوں کا بنانے والا ہے» اس وقت یہ سورہ نازل ہوا۔عیسائی کہنے لگیں کہ پس وہ ایک ہے اور تو بھی ایک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا «لیس کمثلہ شیئ» اس کی مانند کوئی چیز نہیں ہے۔ عیسائی کہنے لگیں کہ" صمد کا مطلب کیا ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا «مخلوقات اپنی حاجتوں میں اس کی طرف محتاج ہیں» عیسائی پھر کہنے لگیں کہ : اس کے بارے میں مزید ہمیں بتادیں۔ تو آپ نے فرمایا «لم یلد و لم یولد و لم یکن له کفوا احد لیس کمثله شیئ»
(مترجم) امام صادق سے نقل شدہ روایت کے مطابق یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ تقاضا کیا کہ آپ ان کے لئے خدا کی توصیف بیان کریں۔ پیغمبر ص تین دن تک خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ سورہ نازل ہوا اور ان کو جواب دیا۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ سوال کرنے والا "عبد اللہ بن صوریا" تھا، جو یہودیوں کے مشہور سرداروں میں سے ایک تھا۔ اور دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ اس قسم کا سوال "عبد اللہ بن سلام" نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مکہ میں کیا تھا اور اس کے بعد وہ ایمان لے آیاتھا۔ لیکن اپنے ایمان کو اسی طرح سے چھپائے ہوئے تھا۔
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اس قسم کا سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا۔
جو بھی ہو ان تمام وجوہات یا روایات کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ سوال سب کی طرف سے ہوا ہو، اور یہی بات اس سورہ کی حد سے زیادہ عظمت و بزرگی کی ایک دلیل ہے، جو مختلف افراد و اقوام کے سوالات کا جواب دیتا ہے۔(7 )
وجہ تسمیہ
سورہ اخلاص مکی سورتوں میں سے ہے، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے۔
اس سورہ کو توحید اس لئے نام رکھا گیا ہے کہ اس میں توحید کے سوا کچھ نہیں۔ بعض نےتوحیدکو اخلاص سے بھی تعبیر کیا ہے ۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ: اس سورہ کو توحید نام رکھا گیا ؛ اس لئے کہ جو بھی اعتقاد اور جوکچھ اس سورہ میں ہے ان کے اقرار کے ساتھ اس سورہ سے متمسک ہو جائے ، وہ مومن اور مخلص ہو جائے گا۔
نیز بعض کا کہنا ہے کہ جو کوئی تعظیم کے ساتھ اس کی قرائت کرئے تو خدا اسے آگ سے نجات دے گا۔
اسی طرح صمد بھی نام رکھا گیا ہے اور اسی طرح قل ھو اللہ احد،نسب اقرب بھی اس سورہ کے دیگر ناموں میں سے ہے۔
لیکن تفاسیر میں اس سورہ کے لئے بیس نام ذکر ہوا ہے:
1-تفرید 2- تجرید 3- توحید۴- اخلاص ۵- نجات ۶- ولایت -9 تفريد 2- تجريد 3- توحيد 4- اخلاص 5- نجات 0- ولايت 7- نسب 8- معرفة 9- جمال10- مقشقشہ 11 - معوذہ 12 - صمد 13 - اساس 14 - مانعہ 15 - محضر 16 - منفرة 17-برائہ 18 - مذکرة 19 - نور20 –امان
آیات کے معانی
پہلی آیت (قل ھو اللہ احد): اس آیت کے بارے میں ابن عباس کا کہنا کہ : یعنی وہ اپنی ذات میں یگانہ ہے اور اس کی صفات کے وجوب اورعین ذات ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں ہےاس لئے کہ وہ واجب الوجود ہے، وہ ذات موجود، عالم، قادر، حی سے متصف ہوئی ہے، اور یہ صفات اس کی ذات کا غیر نہیں ہے۔
قل
یہاں لفظ "قل" کے ذکر کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ متداول قرائت میں یہ لفظ پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ اس سورہ میں دقیق نظریہ تو بیان نہیں ہوئی ہے ؛ جیساکہ سورہ "کافرون" میں قل لائی جاتی ہے لیکن سورہ "تبت" میں اسے نہیں لائی جاتی ہے۔ بہر کیف نقل کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے قل کے بغیر اس طرح تلاوت فرماتے تھے: ((الله احد الله الصمد))۔
ھو
ایک ایسا اسم ہے جو غائب کی طرف اشارہ ہے؛ ھو میں ھاء تنبیہ کے لئے ہے اور ثبوت کا معنی دیتا ہے اور واو اشارہ ٔ غائب ہےغائب محسوسات کے مقابلے میں ہ؛ اس لئے کہ کفار محسوس اور دیکھے جانے والے خداؤں کی عبادت کرتے تھےاور انہیں اس طرح پکارتے تھے جسطرح کہ ان کے لئے محسوس ہو یا دیکھ رہے ہوں ،جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہنے لگے کہ: ائے محمدؐ اپنے خدا کی اس طرح تعارف کروکہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں یا درک کر سکیں، اس وقت یہ سورہ نازل ہوا۔"واو" اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو آنکھوں کی ادراک اور حواس کی پہنچ سے غائب ہے بلکہ یہ وہ ذات ہے جو نگاہوں کو درک کرنے والی، حواس کو وجود دینے والی اور ہر چیز کو دیکھنے والی ہے (8)
اسی طرح کسی دوسری جگہ نقل ہوا ہے کہ : ھو اسم رب سے کنایہ ہے؛ اس لئے کہ عربوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ : تمہارا پروردگار اور خدا کون ہے؟ اس وقت آپؐ نے فرمایا: ((هو الله احد))۔
اللہ
یہ خدا کا اسم خاص ہے اور چونکہ تمام اسماء جمالیہ و جلالیہ کا مجموعہ ہے اس لئے اسم اعظم ہے۔ یہ نام اس ہستی کا ہے جس کے لئے تمام چیزیں خلق ہوئی ہے۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: " اللّٰه معناه المعبود الذي إله الخلق عن درك مائيته و الإحاطة بكيفيته"( 9) اللہ کا معنی ایک ایسا معبود ہے کہ مخلوق اس کی حقیقت کے درک اور کیفیت کے احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: " اللَّهُ مَعْنَاهُ الْمَعْبُودُ الَّذِي يَأْلَهُ فِيهِ الْخَلْقُ وَ يُؤْلَهُ إِلَيْهِ وَ اللَّهُ هُوَ الْمَسْتُورُ عَنْ دَرْكِ الْأَبْصَارِ الْمَحْجُوبُ عَنِ الْأَوْهَامِ وَ الْخَطَرَاتِ" اللہ کا معنی ایک ایسا معبود ہے جس میں مخلوق حیران ہے اور اس سےعشق رکھتی ہے ۔ اللہ وہی ذات ہے جو آنکھوں کے ادراک سے مستور اور مخلوق کے افکار و عقول سے محجوب ہے۔(10 )
لفظ جلالہ "اللہ" کی تفسیر اور فضیلت میں عکرمہ نقل کرتا ہے کہ : جب یہود کہنے لگے کہ: "ہم فرزند خدا جناب عزیز کی عبادت کرتے ہیں۔" نصاری کہنے لگے : "ہم مسیح کی عبادت کرتے ہیں اور وہ خدا کا فرزند ہے۔" مجوس کہنے لگے کہ: "ہم چاند اور سورج کی بندگی کرتے ہیں۔" مشرکین کہنے لگے کہ: "ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔" اس وقت خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ نازل کیا "قل هو الله احد" یعنی وہ ایک ہے اور اس کا کوئی مثل، شبیہ، مددگار اور معادل نہیں ہے۔ اور یہ لفظ خدا کے علاوہ کسی اور پر اطلاق نہیں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہی ہستی تمام صفات میں کمال کے درجہ پر فائز ہے۔(12 ) ( 11)
ھو اللہ:
یہ عبارت دو اہم مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ ذیل میں ان کی طرف اشارہ ہوگا:
1- وہ تمام چیزوں کا خالق اور بنانے والا ہے؛ جمادات، نباتات اور حیوانات سے لیکر ملک و ملکوت تک سب اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ قدرت و علم کے صفات سے آراستہ ہے اس لئے کہ یہ مضبوط اور محیر العقول نظام عالم اور قادر ہستی کے علاوہ کسی اور سے صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔
2- اس کی صفت خالقیت میں حیات، سمع و بصر؛ یعنی سمیع و بصیر بھی موجود ہے۔ ( 13)
احد
"الله احد" مذہب مجسمہ کے رد میں ایک بہترین دلیل ہے؛ اس لئے کہ جسم کے لئے "احد " کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ جسم اجزا پر مشتمل ہے اور خدا نے اپنی اس بات سے اپنی وحدانیت کی دلیل پیش کیا ہے پس اس سے خدا کی جسمیت کی نفی ہوتی ہے۔
امام باقر علیہ السلام لفظ "احد" کا معنی یوں بیان فرماتا ہے : "الْأَحَدُ الْفَرْدُ الْمُتَفَرِّدُ"(14 ) احد وہ ہستی ہے جو اپنی ذات میں یکا و تنہا ہے۔
بعض کا کہنا ہے کہ : احد خداکی ایک صفت ہے جس سے اس کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے اور شرک کی نفی ۔ (15)
واحد اور احد میں فرق
واحد اور احد میں موجود فروق میں کچھ یہ ہیں:
1. واحد اعداد اور ہندسہ میں استعال ہوتی ہے، جبکہ احد ایسا نہیں ہے۔
2. احد اجزاء اور حصوں میں تقسیم نہیں ہوتی ہے جبکہ واحد میں جزء اور حصہ قابل تصور نہیں ہے۔
3. واحد کے لئے ثانی بھی ہے لیکن احد کے لئے کوئی ثانی نہیں ہے۔
4. احد میں کوئی شریک ممکن نہیں ہے لیکن واحد میں شریک ممکن ہے۔
5. واحد ذوی العقول اور غیر ذوی العقل دونوں پر صدق آتا ہے لیکن احد صرف ذوی العقول پر ہی صدق آتا ہے۔(16 )
(مترجم) احد اور واحد میں بیان شدہ یہ سارے فروق صحیح نہیں ہے ؛ اس لئے کہ قرآن اور حدیث کے موارد استعمال کے ساتھ چنداں سازگار نہیں ہے۔
صاحب تفسیر نمونہ رقمطراز ہیں کہ:
ایک حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے کہ "احد" اور "واحد" کا ایک ہی مفہوم ہے ، اور وہ ایک ایسی منفرد ذات ہے جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے، اور توحید اس کی یگانگت کی طرف اشارہ ہے۔
اسی حدیث کے ذیل میں آیاہے:
واحد عدد نہیں ہے، بلکہ واحد اعداد کی بنیاد ہے۔ عدد دو سے شروع ہوتا ہے، اس بناء پر "اللہ احد"(" یعنی وہ معبود جس کی ذات کے ادراک سے انسان عاجز ہیں اور جس کی کیفیت کا احاطہ کرنے سے ناتوان ہیں" ) کا معنی یہ ہے کہ وہ الہیت میں فرد ہےاور مخلوقات کی صفات سے برتر ہے۔
قرآن مجید میں "واحد" اور "احد" دونوں کا خدا کی ذات پاک پر اطلاق ہوا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہیں کہ توحید صدوق میں آیا ہے کہ جنگ جمل میں ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ :
اے امیر المومنینؑ! کیا آپؑ یہ کہتے ہیں کہ خدا واحد ہے ؟ تو واحد کا کیا معنی ہے؟
اچانک لوگوں نے ہر طرف سے اس پر حملہ کر دیا اور کہنے لگے: " اے اعرابی یہ کیا سوال ہے؟ کیا تو دیکھ نہیں رہا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام مسئلہ جنگ کی فکر میں کتنے مشغول ہیں؟ ہر بات کا ایک موقع اور ہر نکتہ کا ایک مقام ہوتا ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
" اسے اس کی حالت پر چھوڑ دوکیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی چیز ہم اس دشمن گروہ سے چاہتے ہیں(وہ توحید کے بارے میں پوچھ رہا ہے، ہم بھی مخالفین کو کلمۂ توحید ہی کی دعوت دے رہے ہیں)"
اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:
اے اعرابی! یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا واحد ہے تو اس کے چار معانی ہو سکتے ہیں جن میں سے دومعانی خدا کے لئے صحیح نہیں ہیں اور اس کے دو معانی صحیح ہیں۔
امام علیہ السلام نے واحد عددی اور واحد نوعی کی نفی کی اور دومعنی کی تائید فرمائی ۔ وہ دو معنی جن کی امامؑ نے تائید فرمائی وہ یہ ہیں:
اب رہے وہ دو مفہوم جو خدا کے بارے میں صحیح اور صادق ہیں، ان میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ خدا واحد ہے یعنی اشیاء عالم میں کوئی اس کی شبیہ نہیں ہے، ہاں! ہمارا پروردگار ایسا ہی ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ کہا جائے کہ ہمارا پرور دگاراحدی المعنی ہے؛ یعنی اس کی ذات ناقابل تقسیم ہے، نہ تو خارج میں ، نہ عقل میں اور نہ ہی وہم میں، ہاں! ہمارا پروردگار ایسا ہی ہے۔ (17)
اللہ الصمد
لغت میں صمد قصد کرنے کو کہا جاتاہے ۔یہاں اللہ الصمد کامعنی یہ ہے وہ ہستی جس کی طرف قصد کیا جاتا ہے۔
احادیث کی رو سے صمد کے کئی معانی ہیں:
امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے نقل ہوئی ہے کہ صمد اس ہستی کا نام ہے جو:
1- جس کے ادراک سے عقول عاجز ہیں۔
2- لم یزل اور لا یزال ہے۔
3- جو کھانے، پینے اور سونے جیسے صفات سے عاری ہو؛ یعنی ایک ایسا موجود جو زندہ ہو لیکن ان صفات کی طرف محتاج نہ ہو۔
4- اس حاکم، مولا اور بادشاہ کا نام ہے جس کے اوپر کسی کی حکومت، بادشاہت اور ولایت نہ ہو۔
5- وہ ذات جس کا کوئی شریک نہ ہو، کسی چیز کا محفوظ رکھنا اسے رنج و مشقت میں نہ ڈالے۔ (18)
6- وہ ہستی جو جب کسی چیرکی خلقت کا ارادہ کرے تو صرف اسے حکم دیتا ہے وہ فورا وجود میں آتا ہے؛ یعنی کن فیکون کا مالک ہے۔ (19)
ابن عباس کہتے ہیں کہ:
صمد اس آقا اور مولا کا نام ہے جو آقائیت کی منزل کمال پر فائز ہے، اس شریف ہستی کا نام جو شرافت کل ہے، اس حلیم کا نام ہے جو کمال حلم کی منزل پر ہے، اس دانا اور عالم کا نام ہے جس کا علم کامل ہے اور اس حکیم کو کہا جاتا ہے جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ (20)
حروف "الصمد" کی تفسیر
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
فلسطین سے ایک وفد میرے والد امام باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور چند مسائل پوچھا ، امام ؑ نے ان مسائل کا جواب دیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے "الصمد" سے متعلق سوال کیا ، امامؑ نے فرمایا کہ:
صمد پانچ حرف پر مشتمل ہے جن کے معانی یہ ہیں:
الف: خدا کی انیت پر دلیل ہے۔
لام: اس کی الوہیت کی دلیل ہے۔
صاد: اس کا مطلب یہ ہے وہ صادق اور سچا ہے۔اس کی باتیں اور کلام سچ ہیں،اپنے بندوں کو سچائی کی طرف دعوت دینے والاہے۔
میم: اس کی ملوکیت مطلقہ کی دلیل ہے کہ وہ ذات تمام چیزوں کی مالک کل ہے وہ لم یزل اور لا یزال ہے۔
دال: اس چیز پر دلیل ہے کہ اس کی ملوکیت دائمی ہے اور دائم الوجود ہے اور کون و مکان اور زوال و فنا جیسے چیزوں سے منزہ و مبرا ہے۔(21 )
یہاں ایک ادبی سوال پیدا ہوتا ہے کہ "احد" نکرہ آیا ہے جبکہ "الصمد" معرفہ آیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے:
فخر رازی کہتاہے کہ: اکثر لوگوں کے اذہان اور اوہام میں ہے کہ ہرموجود محسوس ہیں اور ہر محسوس قابل تقسیم۔ اور جو چیز تقسیم کے قابل نہ ہو وہ ذہن میں نہیں آتی ہے۔ پس صمد وہ ہے کہ سب اپنے حاجتوں میں اس کا ارادہ کرتے ہیں اور یہ اکثر لوگوں کے پاس محسوس اور معلوم ہے۔ لیکن "احد" سے اکثر لوگ غافل ہیں اسی لئے احد کو نکرہ اور الصمد کو معرفہ ذکر کیا ہے۔(22 )
لم یلد و لم یولد
نہ اس نے کسی کو جنا ہے نہ اسے کسی نے جنا ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نہ اس سے کوئی چیز نکلی ہے نہ وہ کسی چیز سے نکلا ہے۔ اب نکلنا کئی اقسام و انواع کا ہوتا ہےخدا ہر قسم کے جنم سے مبرا اور منزہ ہے جیسے انسان سے انسان کا پیدا ہونا، حیوان سے حیوان کا نکلنا،زمین سے سبزوں کا نکلنا اور درختوں کا پھل دینا جیسے خروج کے اقسام سے خدا منزہ ہے۔
تفسیر صافی میں ہے کہ:
وہ ایسا پرور دگار ہے جو نہ کسی چیز سے ہے، نہ کسی چیز میں ہے اور نہ کسی چیز پر ہے۔( 23)
صاحب تفسیر اثنا عشری فرماتے ہیں کہ:
لم یلد ایک ایسی صفت ہے جس سے خدا سے شرک اور مجالست کی نفی ہوتی ہے۔( 24)
لم یلد و لم یولد کو اس طرح بھی تعبیر کی جا سکتی ہے کہ خدا تمام دیکھنے اور نہ دیکھنے والے اجسام سے منزہ ہےیعنی اشیائے کثیف اور اجسام لطیف اس سے نہیں پھوٹیں گےنہ وہ ان چیزوں سے پھوٹا ہے، اس طرح جسمی عوارض جیسے نیند، اونگھ،غم،خوشی، ہنسنا، رونا، ڈر، امید، بھوک، پیاس سے منزہ اور مبرا ہےیعنی وہ اس چیز سے بلند و بالا ہے کہ کسی چیز سے متولد ہوا ہو اور نہ اس سے کوئی کثیف اور دیکھنے والی چیز پیدا ہو جائے(25 )
ولم یولد کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی چیز سے نہیں نکلا ہےوہ خود تمام اشیاء کووجود دینے والا، اس جس چیز کو اپنی قدرت اور مشیت سے وجود بخشتا ہے اسے فنا اور نابود نہیں کرتا ہے بلکہ اسے ابدیت اور ہمیشگی عطا کرتا ہے ۔ پس یہ اللہ الصمد والی ہستی اکیلا ہے نہ اس سے کوئی جنا ہے نہ وہ کسی سے پیدا ہوئی ہے۔(26 )
(مترجم) تفسیر انوار النجف میں و لم یولد کا معنی اس طرح بیان کیا ہے کہ:
خدا سرمدی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے کوئی اور ہو جس نے اس خدا کو جنم دیا ہو،پس یہی ایک خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔( 27)
ایک سوال
لم یلد کیوں لم یولد پر مقدم ہے؟ حالانکہ پہلے بیٹے کا تصور ضروری ہے اس کے بعد باپ بننا قابل تصور ہے یہاں تو پہلے باپ ہونے کی نفی ہو رہی ہے پھر وہ کسی کا بیٹا ہونے کو رد کیا جا رہا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے جب مخلوقات کو وجود بخشا گیا تو خدا کے لئے مشرکین عرب خدا کے لئے فرزند کا قائل ہوگئے اور کہا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں، اسی طرح یہود کہتے تھے کہ عزیز خدا کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کا عقیدہ تھا کا مسیح ع خدا کا بیٹا ہے، اسی لئے لم یلد ( وہ کسی کا باپ یا ماں) پہلے آیا ہے، اس کے بعد لم یولد ( وہ کسی کا بیٹا ہونا) کا ذکر کیا ہے۔(28 )
و لم یکن لہ کفوا احد
کفوا میں دو طرح کی قرائت نقل ہوئی ہے 1۔ کاف اور فاء دونوں کو ضمہ دے کر۔ 2۔ کاف کو ضمہ اور فاء کو سکون دے کر ۔ ابو عبیدہ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ کفو ، کف اور کفاء کے مادے سے ہے۔
احد وہی واحد کے معنی میں ہے جیسا کہ پہلی آیت کی تفسیر میں ذکر ہوئی۔ اگر چہ مفسرین یہاں پر مختلف نظریات رکھتے ہیں۔(29 )
ترمذی نے کہا ہے کہ : ولم یکن لہ کفوا احد یعنی اس کے لئے کوئی مثل، مانند اور جیسا نہیں ہے اور عالم وجود میں کوئی شیئ اس کی طرح نہیں ہے۔(30 )
کفو کی تفسیر
کفو کی تفسیر میں مختلف اقوال اور تفسیریں نقل ہوئی ہیں، مفسروں نے تین اہم اقوال بیان کئے ہیں:
1- کعب اورعطا کہتے ہیں: کفو یعنی اس کے لئے مثل ، برابر اور بدل نہیں ہے۔
2- مجاہد نے کہا ہے کہ : کفو یعنی اس کے کوئی صاحب نہیں ہے۔
3- تیسرا قول یہ ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے کہ وہ مقصود اور مراد ہےاور تمام مخلوقات اپنی حاجتوں کی برآوری کے لئے اس کا رخ کرتے ہیں۔(31 )
سورہ کی اجزاء اور الفاظ کی دلالت
بعض محققین فرماتے ہیں کہ: معطلہ نامی گمراہ فکر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس کائنات کا کوئی بنانے والا نہیں ہے۔ فلاسفہ اس بات کا معتقد ہے کہ اس صانع اور بنانے والے کا کوئی نام اور وصف نہیں ہے۔ ثنوی نامی گمراہ فرقہ خدا کے شریک کا قائل ہے۔ مشبہہ خدا کے لئے شبیہ کا قائل ہے۔ عیسائیوں او ر یہودیوں کا کہنا ہے کہ خدا کے لئے بیوی بچے ہیں۔ اور مجوس اس بات کا معتقد ہیں کہ خدا کے لئے مثل کفو اور ہمسر ہے۔ جب بندہ "ھو" پڑھتا ہے تو معطلہ سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بنانے والا ہے۔جب "اللہ " پڑھتا ہے تو فلاسفہ کے عقیدے سے بھی بیزاری کا اعلان کرتا ہے کہ اس صانع و خالق کے لئے کوئی نام بھی ہے۔ جب "احد" پڑھتا ہے تو بت پرست، ثنوی اور مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے کہ وہ صانع اور خالق ایک ہے۔ جب "اللہ الصمد" کی تلاوت کرتا ہے تو مشبہہ سے بھی اس کا راستہ الگ ہو جاتا ہے کہ وہ خدا ایسی ذات ہے جس کی طرف اپنی حاجتیں لیکر جاتے ہیں وہ مقصود و مراد ہے اس کا کوئی مثل و مانند نہیں ہے۔ اسی طرح جب "لم یلد و لم یولد" کی تلاوت کرتا ہے تو یہود اور نصاریٰ سے بھی وہ الگ ہو جاتا ہے اس لئے کہ اس کوئی بیٹا نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔ اور جب "و لم یکن لہ کفوا احد" پڑھتا ہے تو مجوس سے بھی اس کا راستہ جدا ہو جاتا ہے اس لئے کہ اس کا کوئی کفو، مثل ، مانند اور جیسا نہیں ہے۔(32 )
لفظ اللہ کا تکرار ہونا
یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ابتدائی دونوں آیتوں میں لفظ اللہ کیوں تکرار ہوئی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں لفظ احد ہے ، دوسری آیت میں الصمد معرفہ آیا ہے ۔ اگر لفظ اللہ تکرار نہ ہو جائے تو ایک ہی عامل کا دومختلف معمول جن میں ایک نکرہ اور دوسرا معرفہ آنا لازم آتا تھا جو عربی قانون کے مطابق صحیح نہیں ہے اس لئے لفظ جلالہ تکرار آیا ہے۔(33 )
شرک کی قسموں کی سورہ توحید کے ذریعے نفی
اہل قلم اور زبان میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ شرک کی آٹھ قسمیں ہیں:
نقض، تقلب، زیادہ ہونا، عدد، علت ہونا، معلول ہونا، اشکال، اضداد۔
خدا نے کثرت اور عدد کی پہلی آیت کے ذریعے نفی فرمائی۔ دوسری آیت کے ذریعے تقلب اور نقض کی نفی فرمائی۔ لم یلد اور لم یولد اس کی علت اور معلول ہونے کی نفی کر رہی ہے۔ اور اشکال و اضداد کو ولم یکن لہ کفوا احد کے ذریعے باطل بیان کر رہا ہے۔ پس صرف اور صرف وحدانیت اور بساطت محض حاصل ہوا۔(34 )
سورہ توحید کے فوائد
اس با فضیلت سورہ کے چند فائدے درج ذیل ہیں:
1- سورہ کی ابتداء اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ وہ ایک ہے اور مراد و مقصود ہے اور بندے اپنے حاجتوں میں اس کی طرف محتاج ہیں۔ لم یلد و لم یولد اس بات پر دلیل ہے کہ وہ مطلق بےنیاز ہےاور تمام مادی تغییرات سے منزہ ہے ، اس کا وجود کسی نفع کے حصول یا ضرر کے دفع کی خاطر نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف احسان ہے۔ ولم یکن لہ کفوا احد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام ناپسندیدہ اور سلبیہ صفتوں سے خدا دور ہے۔
2- خدانے " احد" کثرت کی اپنی ذات سے نفی کیا ہے۔ اور لفظ "الصمد" سےنقض اور مغلوبیت و شکست پذیری سے خود کو مبرا اور منزہ بیان فرما رہا ہے۔لم یلد اور لم یولد علیت و معلولیت کی نفی ہے۔ "و لم یکن لہ کفوا احد" اضداد اور شریک کی نفی ہے۔
3- یقینا یہ سوری خدا کے لئے ایسا ہے جیسا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے سورہ کوثر، جس طرح پیغمبر ص کو ابتر کہا گیا تو اس کے جواب میں سورہ کوثر نازل ہوا اسی طرح جب لوگ خدا کے لئے فرزند کے قائل ہو رہے تھے تو اس وقت سورہ توحید نازل ہوا۔ (35 )
(مترجم) سورہ توحید کی فضیلت حد سے زیادہ ہے ، احادیث میں ہر حال میں اس سورہ کی تلاوت کرنے کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے مثلا ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی نماز صبح کے بعد گیارہ مرتبہ اس سورہ کی تلاوت کرے تو اس دن اس سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوگی اگر چہ شیطان کی ناک زمین پر رگڑھ ہی کیون نہ جائے۔( 36) اسی طرح فقر و فاقہ سے رہائی، گناہوں کی مغفرت، ظالم سے امان اور بہت ساری حاجتوں کی برآوردگی کے لئے اس سورہ کی خصوصی تاکید ہوئی ہے ایک روایت کے مطابق جوکوئی سونے سے پہلے پچاس بار اس سورہ کی تلاوت کرے تو خدا اس کے گذشتہ پچاس سال کے گناہوں کو بخش دے گا۔(37 )
(1) سورہ کہف - 109
(2) طبرسی، فضل بن حسن،تفسیر مجمع البیان، ج10، ص 855۔ مجمع االبیان کی عبارت یہ ہے "عبد الله بن حجر قال سمعت أمير المؤمنين (ع) يقول من قرأ قل هو الله أحد إحدى عشرة مرة في دبر الفجر لم يتبعه في ذلك اليوم ذنب و أرغم أنف الشيطان. "
(3 ) فیض کاشانی، ملا محسن، الصافی فی تفسیر القرآن، ج5 394۔ و في الإكمال عن أمير المؤمنين عليه السلام قال: من قرأ قل هو اللَّه أحد مرّة فكأنّما قرأ ثلث القرآن و من قرأها مرّتين فكأنّما قرأ ثلثي القرآن و من قرأها ثلاث مرّات فكأنّما قرأ القرآن كلّه.
(4 )سیوطی، جلال الدین عبد الرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، ج6 ص 1171۔ ترجمہ اردو ۔ و أخرج ابن سعد و ابن الضريس و أبو يعلى و البيهقي في الدلائل عن أنس رضى الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه و سلم بالشام فهبط عليه جبريل فقال يا محمد ان معاوية بن معاوية المزني هلك أ فتحب أن تصلى عليه قال نعم فضرب بجناحه الأرض فتضعضع له كل شي و لزق بالأرض و رفع له سريره فصلى عليه فقال النبي صلى الله عليه و سلم من أى شي أتى معاوية هذا الفضل صلى عليه صفان من الملائكة في كل صف ستمائة ألف ملك قال بقراءة قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ كان يقرؤها قائما و قاعدا و جالسا و ذاهبا و نائما ۔ ج6 411
( 5)شیرازی، ناصر مکارم، تفسیر نمونہ (ترجمہ اردو از مولانا صفدر حسین مرحوم)، ج 15 ص 554۔
( 6)تفسیر نمونہ، ج15، ص555۔
( 7)تفسیر نمونہ، ج15 ص 553۔
(8) مجمع البیان ج10 ص 615۔
(9 ) ابن بابویہ، محمد بن على، التوحيد؛ ص89.
( 10) ایضاً؛ص 90
( 11) ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم؛ ج8، ص498۔ (و قال عكرمة. لما قالت اليهود نحن نعبد عزيرا ابن اللّه، و قالت النصارى: نحن نعبد المسيح ابن اللّه، و قالت المجوس: نحن نعبد الشمس و القمر، و قالت المشركون: نحن نعبد الأوثان، أنزل اللّه على رسوله صلّى اللّه عليه و سلّم قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يعني هو الواحد الأحد الذي لا نظير له و لا وزير و لا نديد و لا شبيه و لا عديل، و لا يطلق هذا اللفظ على أحد في الإثبات إلا على اللّه عز و جل لأنه الكامل في جميع صفاته و أفعاله.)
(12 ) اس مقدس نام کا قرآن مجید میں تقریباً "ایک ہزار" مرتبہ تکرار ہوا ہے اور خدا کے اسماء مقدسہ میں سے کوئی سا نام بھی اتنی مرتبہ قرآن میں نہیں آیا ہے۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو دل کو روشن کرتا ہے اور انسان کو قرت و توانائی اور سکون و آرام بخشتا ہے اور اسے نور و صفا کے ایک عالم میں غرق کر دیتا ہے۔ (تفسیر نمونہ، اردو ترجمہ، ج15، ص559)
(13) شاه عبدالعظيمی : تفسير اثني عشري،تابستان 04 ، ج 94 ، ص
(14) توحید صدوق، ص 90۔
(15) طوسی، محمد بن حسن، تفسیر تبیان، ج1،ص 430
(16) شاه عبدالعظيمي : تفسير اثني عشري، ج14، ص383۔
( 17) تفسیر نمونہ، ج15، ص 560.
(18) تفسیر اثنا عشری، ج14، ص 383
(19) مجمع البیان، ج10و ص 577.
(20) تفسیر القرآن العظیم، ج4، ص498۔
(21 )تفسیر اثناعشری، ج14، ص384 – 385۔
(22 )تفسیر کبیر ج32، ص180۔
( 23 )تفسیر صافی، ج5 ص865.
(24 )تفسیر اثنا عشری، ج14 ص 387۔
(25 )ایضا، ص 689۔
(26 )تفسیر مجمع البیان، ج10، ص 589.
(27 )ججۃ الاسلام علامہ حسین بخش، تفسیر انوار النجف، ج14، ص 284۔
( 28)فخر رازی، تفسیر کبیر، ج10، ص 183.
(29 )ایضا، ص184
(30 )تفسیر القرآن العظیم، ج4، ص 494.
(31 ) تفسیر کبیر، ج10، ص 184۔
(32 )مجمع البیان ج10، ص387
( 33 )تفسیر کبیر ج10، ص 183
( 34)مجمع البیان، ج10، ص 375
( 35)تفسیر کبیر، ج10 ص 188.
(36 )عريضى،على بن جعفر، مسائل عليّ بن جعفر و مستدركاتها، ص 309۔
(37 ) اصول کافی ج2 ؛ ص539