''ماں''
ماں ایک ایسی ذات کا نام ہے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی انسان ہو جو ماں کی مامتا کو درک نہ کرتا ہو اور اس کی حقیقت سے انکار کرتا ہو۔ دنیا کے ہر معاشرے میں ماں کو ایک اہم مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ ماں کی مامتا اور اس کی محبت و چاہت صرف حضرت انسان ہی میں نہیں بلکہ حیوانات میں بھی شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے اور جس طرح انسان اپنی ماؤں سے بے پناہ محبت و الفت رکھتے ہیں اسی طرح جانور بھی اپنی مان سے بے پناہ لگاؤ رکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جانوروں کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ماں کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں، جہاں ماں جائے گی وہاں بچے بھی جائیں گے جو ماں کھائے گی بچے بھی لپک لپک کر ماں کے منھ سے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ اسی طرح ماں کے جسم سے اپنے جسم کو رگڑ رگڑ کر چلتے ہیں۔ اس کے جسم پر قلابازیاں کھاتے ہیں اس کے سامنے خوب زمین پر لوٹتے ہیں اور خوب دل بھر کر اچھل کود کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ یا تو اپنی ماں سے محبت و الفت کا اظہار کرتے ہیں اور یا اس کے نگاہوں کے سامنے خوب آزادی سے کھیل کر بتاتے ہیں کہ جب ماں موجود ہے تو اب دشمن کا کیا ڈر؟ لہٰذا جب محافظ موجود ہے تو خوب کھیلو اورع جہاں ماں نظروں سے دور گئی وہیں بچے آرام سے ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دشمن سے محفوظ رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور جہاں ماں کو آتے دیکھا فوراً کودنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گویا ماں کے پہنچنے سے جو خوشی انہیں ملتی ہے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ ادھر ماں کا بھی یہی حال ہے کہ بچوں کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتی۔ سارا سارا دن بچوں کے واسطے غذا فراہم کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے۔ اس کے سامنے اس کے بچے کو کوئی اذیت پہنچائے تو مار کھانے کو دوڑتی ہے، اگر کوئی اس کا بچہ اٹھا کر لے جائے تو پیچھے پیچھے بلکتی سسکتی دوڑتی چلی جاتی ہے وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادیتی ہے اور اس کا یہ کردار اس شعر میں مجسم نظر آتا ہے
ایک اک لمحہ میں بچہ کو بچانے کے لئے
ڈھال بنتی ہے کبھی تلوار بن جاتی ہے ماں
اسی وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا کی قدرت کے عظیم شاہکار وں میں سے ایک شاہکار ''ماں'' کا وجود ہے۔ خدا نے ماں کے دل میں محبت و چاہت کا خزانہ رکھ دیا ہے تاکہ انسان اس محبت کے دائرے میں پروان چڑھ کر زندگی کی اعلیٰ اور دشوار منزلیں آسانی سے طے کرسکے۔ اس نے پوری انسانیت کی بقاء اس محبت میں قرار دی ہے۔
انسان محبت کا پہلا درس، آغوش مادر سے حاصل کرتا ہے کیونکہ روز اول ہی سے بچہ اپنی ماں سے انس رکھتا ہے لہٰذا اس کے ہر عمل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یعنی اس کا وجود، ماں کے وجود سے اتنا وابستہ ہوتا ہے کہ اسی کے جسم سے غذا حاصل کرتا ہے ، اسی کا جسم اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔
اگر ماں کے دل میں یہ محبت نہ ہوتی تو زندگی کی تمام رونقیںدنیا سے بہت پہلے رخصت ہوچکی ہوتیں۔ یہی ماںہے جو ابتدا میں بچے کی زبان بنتی ہے، جب کوئی اس کی زبان اور بولی نہیں سمجھتا، تب بھی وہ اس کی ہر خواہش کو سمجھتی ہے ، لوگ بات بچے سے کرتے ہیں لیکن جب بچہ بولنے کے لائق نہیں ہوتا تو بچے کی زبان بنکر جواب ماں دیتی ہے۔ گویا وہ اس کے اعضاء بن جاتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اسے بولنا سکھاتی ہے، چلنا سکھاتی ہے۔ اس وقت یہ بچہ اس کا محور نگاہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی پوری زندگی اس کی تربیت کے لئے وقف کردیتی ہے۔ اپنا سب کچھ اس پر قربان کردیتی ہے۔ اس کی غلطیوں پر پردہ ڈالتی ہے اور تنہائیوں میں اسے سمجھاتی ہے۔ اس کی ہر بات غور سے سنتی ہے اور اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کا وہ بچہ چاہے جتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ماں کے سامنے تو وہ بچہ ہی رہتا ہے۔ اگر اس کی نظر میں کوئی محبت کی سرزمین ہے، کوئی جائے امن ہے ، کوئی جائے پناہ ہے تو وہ ماں کی نہایت ہی پرسکون و آرام دہ آغوش ہے کہ جہاں انسان حقیقی زندگی کا لطف محسوس کرتا ہے۔ اپنے دل کی بات اسی سے کہتا ہے اور اپنی ہر خواہش کا اظہار اسی سے کرتا ہے گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ زمانے کی آندھیوں میں اگر کوئی مضبوط و مستحکم سائبان ہے تو وہ ماں ہے، اگر کوئی عزم و استقلال کی چٹان ہے تو وہ ماں ہے، اگر کوئی سیسہ پلائی دیوار کی مانند مشکلوں کے مقابلے میں محافظ ہے تو وہ ماں ہے۔ لرزتے ہوئے قدم اس کی دعا کے اثر سے ٹھہر جاتے ہیں، ہمارے ارادوں میں استحکام، ہمیں مشکلات سے مقابلہ کرنے کا درس اور صلہ رحمی کا سبق، ماں ہی سکھاتی ہے، مختصر یہ کہ ماں ہی وہ ذات ہے جو اپنے بچے کی تربیت میں نہایت محنت و مشقت اور رنج و غم برداشت کرتی ہے تب کہیں جا کر کوئی بچہ معاشرے کا ایک بہترین فرد بنتا ہے۔ ماں کی آغوش ہی انسان کی پہلی یونیورسٹی ہے۔ لہٰذا ماں جتنی دیندار اور تعلیم یافتہ ہوگی بچے کی اسی طرح بہترین تربیت بھی کریگی اسی لئے شاعر نے کہا
گمراہی کی گرد جم نہ جائے میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں روز نہلاتی ہے ماں
جب مجھے اپنے بارے میں کچھ بھی خبر نہ تھی اور میں خود اپنی ہستی سے ناواقف تھا اور کسی چیز کو بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا تب بھی اے مجسمہ رحم و کرم مادر گرامی اس کائنات میں آپ کی ذات میرے لئے اتنی آشنا تھی کہ میری تمام تر ضروریات صرف اور صرف آپ ہی کی ذات سے وابستہ تھیں۔ میں بالکل نا سمجھ اور کمسن و نادان تھا۔ نہ مجھے اپنے اچھے برے کی تمیز تھی، نہ نفع و نقصان کا پتہ تھا اور نہ دوست دشمن کی پہچان تھی۔میں اپنے ماضی سے بالکل بے خبر اور مستقبل سے نا آشنا تھا۔ لیکن آپ شب و روز میرے روشن اور تابناک مستقبل کی تگ و دو میں لگی رہتیں۔ شیر خوارگی سے لیکر بچپن اورلڑکپن تک بھرپور توجہ اور مکمل خیال رکھا ایک لمحہ بھی اپنے سے جدا نہ ہونے دیتیں۔ ہر وقت مجھ پر نظر رکھتیں پھر جب میں اسکول جانے کے لائق ہو اتو صبح سویرے بستر سے اٹھا کر بڑے پیار و محبت سے ہاتھ منھ دھلانے کے بعد اسکول کے کپڑتے پہناتیں اور پھر اپنے ہاتھوں سے منت و سماجت کے ساتھ ناشتہ کراکے مجھے اسکول روانہ کرتی تھیں اور جب ہم اسکول سے آتے تو کپڑے کا یہ حال ہوتا کہ آپ کو روزانہ انہیں دھونے کی زحمت اٹھانا پرٹی۔ اس کے علاوہ پورے دن کا دوسرا کام بھی کرتیں اور پھر ہر روز ایک دن پہلے ہی اسکول کے کپڑے دھونے کے بعد استری کرکے آمادہ رکھتیں اور مجھے اس کمسنی میں کبھی بھی آپ کی تھکن کا احساس نہ ہوتا بلکہ سارے دن کھیل کود اور شرارتوں میں اور کھانے پینے میں مشغول رہتا اور جب ان سے تھک جاتا تو پھر آپ کے پہلو میں سر رکھ کر اپنی تھکن اتار لیتا اور ہم اس کی بھی پرواہ نہ کرتے کی امی جان دن بھر کام کاج کرکے تھک گئی ہیں لہٰذا لاتیں نہ چلائیں شورو غل نہ کریں مگر جب جاگتے میں ہمارا یہ حال تھا تو سوتے ہوئے کیا خبر ہوتی اس لئے آپ کے خستہ حال بدن پر لاتیں لگ جاتی تھیں جن سے آپ کو اذیت تو ضرور ہوتی تھی مگر یہ آپ کی محبت کا کمال تھا کہ آپ یہ سب کچھ نہایت اطمینان سے برداشت کرتی تھیں۔ خود کھائیں یا نہ کھائیں مگر ہر لمحہ ہمیں سیر کرنے کی فکر میں رہتیں۔ اور ہماری پرورش کی فکر میں سرگرداں رہتیں۔ کبھی چائے، کچھی دودھ، کبھی روٹی، کبھی سویاں،کبھی پھل تو کبھی میوہ وغیرہ سے ہمارے نرم و نازک جسم کو صحت مند اور قوی کرنے کی کوشش کرتی رہتیں اور ہم تھے جو کھاتے تو کم تھے مگر نخرے زیادہ دکھاتے تھے۔ اور وہ آپ کی ذات تھی جو ہر طرح کے نخرے برداشت کرنے کے بعد ہمیں پیار و محبت سے منا کر بہترین غذاؤں سے شکم سیر کرتی تھیں اور اپنی بھوک کی پرواہ نہ کرتی تھیں، اے پیاری امی جان ہم سے آپ کو بہت اذیتیں بھی پہنچی ہیں لیکن کبھی شکوہ زبان پر نہ لائیں۔ مگر آج میں آپ کے سامنے دست بستہ یہ گذارش کروں گا کہ آپ کو مجھ سے جو بھی تکلیفیں پہنچی ہیں انہیں اپنی مامتا اور محبت کے صدقے میں معاف کردیجئے گا۔ بچپن میں مجھے آپ کی تکلیفوں کا بالکل احساس ہی نہیں تھا اور جب نوجوانی کی طرف قدم بڑھایا تو دنیا نے اور اپنی طرف کھینچ لیا جس کے بعد آپ کے پاس بیٹھنے کی توفیق نہ رہتی تاکہ آپ کے دکھ درد کو سن سکوں لیکن اے مادر گرامی! جب آپ کی دعاؤں کے اثر نے مجھے دولت علم سے آشنا کردیا اور علم کی روشنی نے میرے دل کو منور کردیا اور میرے احساسات بیدار ہوگئے تو آپ کے مرتبے اور مقام کا کچھ ادراک کررہا ہوں اور مجھے آپ کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے۔ اب آپ کے پاس بیٹھنے کو دل چاہتا ہے آپ کا دل بہلانے کو جی چاہتا ہے آپ کی خدمت کی تمنا پیدا ہوتی ہے لہٰذا میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے بنانے اور سنوارنے میں جتنی اذیتیں برداشت کی ہیں، جتنی زحمتیں اٹھائی ہیں تو میں بھی آپ کی اعتمادپر ٹھیس نہیں آنے دوں گا، کبھی آپ کا دل ملول نہیں ہونے دوں گا اور آپ کی محنتوں کو رائگاں نہ جانے دوں گا۔
کیونکہ مجھے یاد ہے جب مجھے کوئی تکلیف پہنچی تو آپ مجھے سینے سے لگا کر چپ کراتیں کبھی پیار کرتیں اور کبھی سر میں ہاتھ پھیرتی تھیں جن سے مجھے وہ بے نظیر لذت حاصل ہوتی ہے کہ شاید دنیا کی کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی
ایسا لگتا ہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
بھینچ کر بانہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
لہٰذا میری گردن پر جب آپ کے اتنے عظیم احسانات ہیںاور آپ کے دست شفقت سے ہی میں دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوا ہوں تو آج آپ کے حضور میرا یہ وعدہ ہے کہ میرا یہ سر کتنا ہی بلند ہوجائے اور اسے کتنی ہی معراج مل جائے مگر یہ ہمیشہ آپ کے قدموں میں رہے گا کیونکہ یہ آپ کی امانت اور آپ دیا ہوا وہ صدقہ ہے جس کے ساتھ آپ نے مجھے شرارت وبغاوت نہیں بلکہ دولت شرافت اور تشکر و امتنان سے نوازا ہے۔ اور شریف انسان امانت واپس کرکے احسان نہیں جتاتے بلکہ اس کی حفاظت میں بے توجہی اور کوتاہی کی بناء پر ہمیشہ شرمسار رہتے ہیں لہٰذا اگر کسی دن قسمت سے مجھے آپ کے قدموں پر یہ سر بھی نچھاور کرنا پڑا تب بھی مجھے یہ احساس شرمندگی ستائے گا کہ آپ کا حق ادا نہیں ہوسکا۔