امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

'' پھول''

1 ووٹ دیں 05.0 / 5


    آپ اچھی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ پھول باغ کی زینت ہوتے ہیں پھولوں سے باغ مہکتا رہتا ہے۔ پھول اپنے دلکش رنگوں کے ذریعہ ہر ایک کی نظروں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور ان کی نظروں میں اپنا گھر بنالیتے ہیں۔
    پھولوں نے اپنی دلکشی اور افادیت کی بنا پر انسان کی زندگی یں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے یعنی وہ صرف باغ ہی کی زینت نہیں رہے بلکہ انسانی زندگی کو بھی شدت کے ساتھ رونق بخشی ہے۔ حد یہ ہے کہ انسان پھولوں سے اتنا متاثر ہے کہ ہر شخص اپنے گھر، کمرے، محلے، اور اپنے شہر کو سجانے کے لئے بڑی گرم جوشی سے انہیں استعمال کررہا ہے اور اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ جنہیں اصلی پھول میسر نہ تھے انہوں نے اپنے گھروں کی آرائش کیلئے نقلی پھولوں کو سہارا بنایا۔ خاص طور سے خواتین کے درمیان ان کی خاص قدر و قیمت ہے لہٰذا وہ پھولوں سے بیحد محبت کی بنا پر اپنے لباس پر بھی طرح طرح کے پھول بنا کر ان سے لباس کو زینت دیتی ہیں۔ اور اسی زینت کے وجہ سے ہر عورت خوش رنگ پھولوں والے کپڑے بڑے شوق سے پہنتی ہے۔
    یہ پھول انسان کے کس کس طرح کام آرہے ہیں اس کا شمار مشکل ہے کہ کیونکہ کبھی پھول شادی بیاہ میں استعمال ہوکر ہماری خوشیوں میں بھرپور اضافہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر کسی شادی میں پھول نہ ہو تو شادی بے رنگ اور پھیکی محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پھولوں سے کہیں دولہا، دلہن کی گاڑی سجاتے ہیں تو کہیں دلہن کے لئے پھولوں کی بہت ہی خوبصورت سیج بنائی جاتی ہے جس پر ہر دلہن حسن کی دیوی معلوم ہوتی ہے دولہا کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر اسے خوب سجایا جاتا ہے تو کہیں دلہن کے ہاتھوں اور بالوں میں پھولوں کے گجرے پہنائے جاتے ہیں۔
    ہر جگہ محافل اور جشن میں پھولوں کا استعمال عام ہے اسی طرح جب کسی ملک یا کسی تنظیم کا کوئی رہبر تقریر کرتا ہے تو اس کی میز پر پھول ہی سجاتے ہیں۔ مریض کو خوش کرنے اور اسے شفاء کی نوید سنانے کے لئے اس کی عیادر کرنے والے خوش رنگ پھولوں کے خوبصورت گلدستے اس کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہی پھول کبھی کسی کی قبر کی زینت بنتے ہیں۔ یعنی پھول جو ہرانسان کی زندگی میں ہر خوشی اور مسرت کے موقع پر اس کا ساتھ دیتے ہیں اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے اور یہی ایک سچے دوست کی بہترین پہچان ہے۔
    ہر انسان جب باغ میں جاتا ہے تو پھولوں سے اپنا دل بہلاتا ہے انہیں دیکھ کر کوئی اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے ، تو کسی کو اپنے بچوں کی یاد آتی ہے کیونکہ بچے پھولوں کی طرح معصوم لاور حسین ہوتے ہیں اسی لئے معاشرے میں انہیں پھول کہا جاتا ہے۔
    جہاں کسی کا معصوم چہرہ دیکھا فوراً لبوں پر یہ جملہ آگیا ''کتنا حسین پھول سا چہرہ ہے'' پھولوں کی صرف شکل ہی حسین نہیں ہوتی بلکہ ان کے رنگ بھی دلکش اور جاذب نظر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انہی رنگوں سے ہماری زندگی کو بھی رنگین بنا رکھا ہے۔ پھولوں کو قدرت کے عطا کردہ یہ لکش رنگ ہر انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کررہے ہیں کہ جس طرح خدا نے انہیں مختلف قسم کے رنگوں سے سجایا ہے اسی طرح انسان کے لئے بھی اس نے مخصوص رنگ بنائے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ہمیں یہ رنگ فطرتاً دیئے گئے ہیں۔ لیکن انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیے اپنے کو رنگ لے۔ الٰہی رنگ اپنا کر اس کا صالح بندہ بن جائے یا شیطانی رنگ اختیار کرے اپنی زندگی کو نحس بنالے۔
    پھولوں کے خوبصورت اور مسکراتے چہرے گویا ہم سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ مسکراتے رہنا چاہئے اور مشکلوں اور مصیبتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ مہمان کو دیکھ کر منھ بنالینا یہ شرافت نہیں ہے بلکہ جس طرح ہم اپنے مہمانوں کو خندہ روئی کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں اسی طرح انسانوں کو بھی ایک دوسرے سے ہنسی خوشی کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
    ان کی نرم پتیاں ہم سے کہہ رہی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ترش روئی اور سختی سے پیش نہ آئیں گفتگو میں نرمی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
    غرض پھولوں سے ہمیں بہت سے درس ملتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم غور کریں۔ یوں تو سب لوگ پھولوں کی بہت قدر کرتے ہیں اور انہیں ان سے بیحد پیار ہوتا ہے مگر پھولوں کی واقعی قدر باغباں سے پوچھئے کہ جو ان کی پرورش میں اپنے دن رات ایک کردیتا ہے۔ انہیں وقت پر پانی دیتا ہے ان کی جڑ کے آس پاس پڑے ہوئے پتھروں کو ہٹاتا ہے۔ تاکہ وہ ان کی پرورش میں رکاوٹ نہ بنیں۔ کبھی تیز دھوپ سے بچاتا ہے، کبھی پرندوں سے تو کبھی جانوروں اور کبھی شرارتی بچوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اور کبھی ان لوگوں پر نظر رکھتا ہے جو بلاوجہ چمن سے پھولوں کو جدا کرکے ان کی نرم و نازک پنکھڑیوں کو مسل کر پھینک دیتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ باغبان نے کتنے جتن کے بعد اس کو اپنے باغ کی زینت بنایا ہے۔ جب باغبان پھولوں کو کھلتا دیکھتا ہے تو اس کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے اور اسے دلی مسرت ہوتی ہے لہٰذا ان لوگوں سے اسے بے انتہا نفرت ہوتی ہے جو پھولوں کو پاؤں تلے کچلتے ہیں اور یا اپنے ہاتھوں سے مسل کر انہیں پھینک دیتے ہیں کیونکہ وہ مالی اپنے دن رات ایک کرے پھولوں کی اس لئے پرورش نہیں کرتا کہ انہیں کوڑے کرکٹ کی طرح دور پھینک دیا جائے بلکہ ہزاروں فوائد ہوتے ہیں جن کے تحت وہ ان کی رکھوالی کرتا ہے کبھی کسی کے گھر کی زینت کا خیال کرتا ہے تو کبھی کسی سہرے کا، کبھی کسی غریب کی روزی روٹی کا تو کبھی کی مالدار کے مرغن کھانوں کی خوشبو کا، کبھی ہار بنانے والوں کی مزدوری کا تو کبھی عطر فروش تاجروں کا اور اسی طرح ہزاروں فوائد کو پیش نظر رکھ کر وہ انہیں پروان چڑھاتا ہے اور یہ باغبان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص پھولوں سے اپنی ضروریات یا ذوق کے مطابق فائدے حاصل کررہا ہے۔ جیسے ہار بنانے والے مختلف قسم کے سہرے اور ہار بناکر اپنی زندگی کا کاروبار چلارہے ہیں۔ گلاب کے پھولوں سے گلقند بناکر کبھی انہیں دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی ذائقے کیلئے یا کبھی ان کا عرق نکال کر انہیں دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ غرض پھولوں سے جو فائدے ہر انسان اٹھاتا ہے وہ بے انتہا اور لافانی ہیں۔
    لیکن بہت سے لوگوں نے باغیچوں میں لگے پھولوں سے تو فائدے حاصل کئے اور ان کی قدر و قیمت کو پہچانا مگر ایسے دو انمول اور بیش قیمت پھولوں کو چھوڑدیا جن سے اگر فائدہ اٹھایا جاتا تو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں نقصان نہ ہوتا اگر ان سے دوا حاصل کرتے تو یہ پوری انسانیت کے ہر درد لادوا کیلئے اکسیر بن جاتی اور ہمارا معاشرہ ہی نہیں بلکہ پورا ملک اور حتیٰ پورا عالم ان کی خوشبو سے معطر ہوجاتا اور کہیں سے بھی کثافت و غلاظت کی بدبو کا ہمارے مشام سے گزر نہ ہوتا اور پورا معاشرہ صرف ان دو پھولوں کی برکت سے اس طرح ایک گلستان بن جاتا کہ جس میں سدا بہار پھول کھلتے رہتے جو ہمارے تمام گھروں اور محلوں کو معطر کئے رہتے۔
    کاش ہم ان کی یاد سے اپنے دلوں کو سجاتے اور ان کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں بساتے یہ دو پھول حضرت امام حسن ـ اور حضرت امام حسین ـ ہیں، جن کی خوشبو سے سرورکائنات سرکار دو عالم  ۖ کا گھر مہکتا تھا، اور جن سے آپ  ۖ کا دامن مرادمعطر تھا۔ اسی لئے تو ان کے بارے میں سرورکائنات  ۖ نے وحی پروردگار سے معطر زبان سے یہ الفاظ ادا فرمائے کہ حسن ـ و حسین ـ میرے باغ کے دو پھول ہیں سرورکائنات کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ظاہر کررہے ہیں کہ آپ کو ان دونوں حضرات سے کس قدر محبت تھی لہٰذا اگر کوئی رسول  ۖ کی خوشی چاہتا ہے تو اسے رسول  ۖ کے پھولوں سے بھی محبت کرنا ہوگی۔ ان کا احترام اور ان کی محبت و مودت ہر محب رسولۖ پر ضروری و لازم ہے۔ کیونکہ رسول عربی  ۖ نے ان حضرات کے بارے میں فقط اتنا ہی نہیں فرمایا بلکہ کتب احادیث ان کے فضائل میں وارد ہونے والی احادیث سے بھری ہوئی ہیں مثلاً آپ نے فرمایا ''حسن ـ اور حسین ـ جنت کے سردار ہیں۔ اب ہر اس جوان پر لازم ہے جو جنت میں جانے کی خواہش رکھتا ہے کہ اپنے سردار کے ماتحت رہے، اس کی نافرمانی و ناراضگی سے بچے ورنہ ہلاکت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اور ایک اچھے تابع اور پیروکار کی یہی پہچان ہے کہ وہ اپنے سردار کا فرمانبردار اور وفادار ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ ''حسن ـ اور حسین ـ دونوں امام ہیں چاہیں قیام کریں اور چاہے بیٹھ جائیں۔ اس قول سے یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں کا عمل بہت اعلیٰ و ارفع اور مرضی خدا کے عین مطابق ہے لہٰذا کسی کو امام حسن ـ کی صلح اور امام حسین ـکے قیام کے بارے میں اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ دونوں کا عمل اسلام کی عین مصلحت کے مطابق تھا۔ ہاں ہمیں ان کی رفتار و گفتار اور کردار پر غور کرکے ان کی معرفت حاصل کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کو ان کی حیات طیبہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
    لیکن جس طرح دنیا کے بعض افراد اپنی جہالت کی بنا پر عام پھولوں سے دشمنی رکھتے ہیں یا انہیں باغبان سے نہیں بلکہ خود اس شخص سے دشمنی ہے جو اس باغ کا مالک ہے لہٰذا اس کی دشمنی میں اس کے باغ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کو اجاڑنے کے درپے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ حضرات حسین  کے فضائل نہیں سمجھ پائے تو دشمن ہوگئے، کچھ افراد نے ان کے پرورش کرانے والے یعنی سرکار رسالت  ۖ سے دشمنی میں انہیں نقصان پہنچایا تو کسی نے ان کے مالک حقیقی کی دشمنی میں عصمت و طہارت کے گلستاں میں آگ لگائی یعنی چمنستان رسالت کے پہلے پھول (امام حسن ـ) کو زندگی بھر اذیتیں پہنچائیںاور پھر آپ کو شہید کرکے آپ کے جنازے پر بھی تیر برسائے اور آپ کے٨ بعد گلشن پنجتن کی آخری زینت اور گلستان عصمت و طہارت کے گلاب امام حسین ـ کے باغ کو اجاڑ کر اس طرح تاراج کردیا کہ خاندان رسالت کے پھولوں پر میدان کربلا میں صبح عاشور شبنم کے قطرے نہیں بلکہ خون تازہ دکھائی دے رہا تھا اور دوپہر تک وہ پانی کی موجوں کے بنائے خون کے دریا میں غوطہ زن تھے اور اس وقت کے مسلمان یہ سب تماشا دیکھتے رہے۔
    اور آج یہی حدیث رسول  ۖ ہم سے بھی مخاطب ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اور ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیا ہے؟ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم نے رسالت کے فرمان کے تحت ان کے ذکر سے اپنی محفلوں کو زینت دی یا نہیں؟ اور ان کی سیرت پر چل کر اپنے عمل کو سنوارا یا نہیں؟ نیز ان سے محبت و عقیدت رکھ کر اپنے ایمان کو تحفظ بخشا یا نہیں؟ یا یہ کہ اب بھی دوسروں کو ترجیح دے کر رسول ۖ کی دل آزاری کررہے ہیں اور ان کا دامن چھوڑ کر رسول اسلام  ۖ سے دور ہورہے ہیں لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہم سب غوروفکر اور تدبر سے کام لیں اور اپنی زندگی کی خوش بختی کیلئے ان کے دامن سے وابستہ ہو کر پیغمبر اسلام  ۖسے متمسک ہوجائیں تاکہ دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہوسکے اور ہمارے دونوں جہاں ان کی خوشبو سے معطر ہوسکیں۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک