ذہنی امراض کا قرآنی علاج
- شائع
-
- مؤلف:
- تحریر: مبدی سلطانی رنانی مترجم:محمد عیسی روح اللہ
- ذرائع:
- امام حسین فاونڈیشن
ذہنی امراض کا قرآنی علاج
تحریر: مبدی سلطانی رنانی
مترجم:محمد عیسی روح اللہ
پیشکش امام حسین فاونڈیشن
مقدمہ مولف
زہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ جدید دور کے سب سے عام بیماریوں میں سے ایک ہے جیسا کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی کا تقریبا چھ فیصد ذہنی عوارض کا شکار ہیں اور اسی فیصد بیماریوں کا آغاز ذہنی تناؤ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات نے اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے کئی راہوں کی نشاندہی کی ہیں اور اسلام بھی کئی صدیوں میں کامیاب ہوا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں کے مختلف نسلوں کے لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ اور جذب کرے اور ان کی طرز زندگی کو تبدیل کرتے ہوئے ان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے لئے اچھے قوانین وضع کرئے۔ بے شک دین مبین اسلام نے ان راستوں کی معرفی کی ہے کہ اگر ہم اسے کسی نفسیات شناسی کی تنظیم کا نام نہ بھی دیں تب بھی قرآن نام کا ایک نفسیات شناس ڈیوائس اس کے پاس موجود ہے، اسی لئے اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے اور یہ خود اپنی جگہ قرآن کریم کی عالمگیر عظمت، اعجاز اور صحت کے امور میں تاثیر کو بیان کرتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس مقالہ میں دئے گئے حکمت عملیاں اور طریقے ان مسائل میں مزید ریسرچ اور تحقیقات کے دروازوں کو کھولنے کے لئے پیش خیمہ بن جائیں، اور قرآن مجید کے ساتھ زیادہ مانوس ہونے اور اس میں دلچسپی بڑھنے کا سبب بنیں۔
فطرت کی طرف پلٹنا
قرآن کریم کی رو سے فطرت کی طرف پلٹنا نفسیاتی بیماریوں سے مقابلہ کرنے کا سب سے پہلا راستہ ہے ۔ فطرت کی طرف پلٹنے سے ہی انسان کے لئے ذہنی سکون کا ذریعہ ہے۔ فطرت وہی اصلی اور عالمگیر حقیقت ہے جو کسی ایک انسان یا کسی خاص زمانہ اور جگہ سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ مربوط ہے۔ قرآن کی نظر میں تمام ذہنی انحرافات فطرت کے انحرافات کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں؛ اسی لئے اسلام میں ذہنی صحت کے لئے فطرت کی طرف پلٹنے کی سفارش ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل مباحث قابل مباحثہ و تحقیق ہیں:
فطرت اور شہوت کا طول و عرض؛ فطرت ذہنی سکون کا واحد راستہ؛ فطرت سے خارج ہونے کی تلخ نتائج؛ شہوت پر قابو جہاد اکبر۔
فطرت اور شہوت کا طول و عرض
فطرت اور شہوت سیر صعودی اور کمال کی طرف جاتے ہوئے نفس مطمئنہ عقل مداری اور قلب سلیم تک پہنچ جاتی ہے اور سیر نزولی میں یہ پستی کی طرف گرتے ہوئے نفس امارہ، شہوت مداری اور دل کی بیماری ، شہوت پرستی اور تباہ و بربادی پر منتہی ہو جاتا ہے۔ اور ان دو رجحانات کے درمیان، ابد تک تضاد اور تنازعات جاری ہیں۔ اس جنگ میں کبھی بھی کسی ایک طرف پوری طرح نابود نہیں ہو جاتی ہے بلکہ کبھی کمزور ہوجاتا ہے اور مناسب موقع ملنے پر دوبارہ پلنے سر اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور یاد رکھنی چاہیئے کہ اس جنگ کے لئے اختتام نہیں ہےاور انسان کی پوری زندگی میں اپنے اپنے انداز میں جاری ہے۔ صرف ان دونوں میں کسی ایک کا طاقتور اور کمزور ہونا عقل اور ارادہ اور ان دونوں کے درمیان رابطہ کی قوت و ضعف پر منحصر ہے اور ذہنی اور اخلاقی طور پر بعض آثار کا حامل ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ عقل ایک مالک مکان کی طرح ہے کہ مالک کی اپنی ملکیت ہے اور اس نے قانونی طور پر اسے حاصل کیا ہے اب وہ سکون سے اسے استعمال کرتا ہے اس میں سوتا ہے لیکن ہوا و ہوس چور کی طرح ہے کہ وہ ہمیشہ اس گھر پر قبضہ کرنے کی تاک میں رہتی ہےجوں ہی فرصت ملے وہ اس پر قابض ہو جاتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ہوائے نفس ہمیشہ بیدار ہے جبکہ عقل سویا ہوا ہے۔ (1)
امام علی علیہ السلام عقل اور شہوت کے درمیان مقایسہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں اور تقویٰ رام کی ہوئی۔ سواریوں کے مانند ہے جن پران کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو۔ اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دےدی گئی ہوں اور وہ انہیں (باطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔(2)
پس فطرت، انسان کی تقدیر کا حصہ اور پیدائشی طور پر اس کی تکوین میں موجود ہے۔ یہ انسانیت کے مرحلے پر ہے جو کہ حیوانیت سے بالا ہے۔ پہلی مرتبہ قرآن نے اسے ایک مستقل نفسیاتی مسئلے کے طور پر پیش کیا۔(3) چنانچہ خدا فرماتا ہے:
موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی (4)۔ اسی طرح سورہ اعلی میں ارشار رب العزت ہے: اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔اسی طرح سورہ علق میں فرماتا ہے: اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔پھر اس کے لیے راستہ آسان بنا دیا۔
اس طرح رستہ سب کے لئے کھلا رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کا عطیہ ـ(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے: پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہونا۔
ہاں انسان اگر فطرت سے منحرف ہو جائے اور تقوی کی رعایت نہ کرے تو اس کی اندر کی قوتیں اپنا توازین کھو دیں گے؛ یعنی شہوت، غضب، محبت اور نفرت کی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکر جائیں گےاور سمجھنے کی قوت میں خرابی پیدا ہوگی۔
دین ابراہیمی کو قرآن نے دین فطرت اور دین حنیف سے تعبیرکیا ہےاور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی دین کے پیروکار تھے۔
قرآن کی نگاہ میں دین فطرت خارج اور دین ابراہیم سے منحرف ہونا ایک قسم کی نفسیاتی بیماری ہے۔ خدا فرماتا ہے:
اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا۔
علامہ طباطبائی بھی ملت ابراہیم سے روگردانی اور نفس کی حماقت اور اپنی نفع نقصان کے درمیان تمیز نہ کرنے کو قرار دیتے ہیں۔
صرف صراط مستقیم نجات کا راستہ
تسکین روح اور سلامت زہنی کی نظر میں فطرت وہ واحد راستہ ہے جو عامل تسکین روح ہے۔ صرف چند احکامات پر عمل پیرا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ انسان اپنی روحانی ترقی کے لئے اللہ تعالی کے تمام احکامات پر عمل کرے ۔ قرآن کریم میں اس مدار کا نام صراط مستقیم یا سیدھا راستہ ہے کہ وہی فطرت، عقل اور شرع کے درمیان مشترک راستہ ہے۔ انسان کے پاس سب سے پہلے بصیرت ہو تاکہ وہ صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو جائے؛ اس لئے کہ صراط مستقیم کے علاوہ باقی سب راستے انسان کو گمراہ کریں گے اور یہی صراط مستقیم ہی اعتدال کا راستہ ہے۔ اب قرآن کریم کے تمام تعلیمات اور معارف ذکر اللہ ہیں کہ ان کی طرف متوجہ ہونا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی سکون قلب، روح کی اطمئنان اور نفسیاتی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے، اسی سے بندہ مقام قرب پر فائز ہو سکتاہے۔
اس کے مقابل فطرت سے دور ہونا، صراط مستقیم کو چھوڑنا، راہ حق سے منحرف ہونا اضطراب اور ٹینشن میں مبتلا ہونے کے اسباب میں سے ہےایسا انسان اس قدر اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے کہ گویا آسمانوں کی طرف پرواز کرنے کو دل چاہتاہے۔
یہی مقام ہے جہاں قرآن فرماتاہے: (سورہ عصر اوراس کا ترجمہ ۔۔)
اسی لیے یہ کہا جانا چاہیئےکہ اگر انسان کی مواصلاتی نظام اور انسانی فعّاليّت کو اپنے کام اور نفسیاتی تفاعل اور اپنے ماحول کے ساتھ مدار کی شکل میں دکھانے کی کوشش کرے تو درج ذیل مدارات حاصل ہو سکتے ہیں:
1- انسان کا خدا کے ساتھ تعلقات کا مدار؛
2- انسان کا اپنے ساتھ تعلقات کا مدار؛
3- انسان کا اپنے فیملی کے ساتھ تعلقات کا مدار؛
4- انسان کا سماج کے ساتھ تعلقات کا مدار یہ وہی انسان کا معاشرے کے ساتھ تعلقات کا مدار ہے۔
5- انسان کا فطرت کے ساتھ تعلقات کا مدار(یہ وہ مدار ہے جو انسان کا فطرت کے ساتھ برتاؤ سے مربوط ہے)۔
اسلام کی نگاہ میں مذکورہ بالا تمام مدارات اس وقت انسان کی فعالیت کو اپنے ماحول میں اور اس کے نفسیاتی کیفیت پر مثبت اثر مرتب کر سکتے ہیں جب یہ خدا کے ساتھ قریب کریں اور انسانوں کی زندگی کو خدا کے رنگوں میں رنگین کرے کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے : خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں۔
شیخ محسن نجفی اس آیت کی ذیل میں رقمطراز ہیں:
جس طرح اجسام کے رنگ ہوتے ہیں، جن کی مدد سے وہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح نفوس اور ارواح کے بھی رنگ ہوتے ہیں۔ کفر و شرک سے روح ، سیاہ اور مکدر ہوجاتی ہے۔ جب کہ توحید و نبوت پر ایمان لانے سے روح میں زندگی کاحقیقی اور الہٰی رنگ نکھرآتا ہے اور اللہ نے اسے فطرت کے جس صاف و شفاف رنگ میں خلق کیا ہے، وہ اجاگرہو جاتا ہے۔ اس آیت میں نصاریٰ کے عقیدۂ تعمید، بپتسما کی طرف اشارہ ہے۔ ان کا یہ رواج تھا کہ جب بھی ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کا مذہب اختیار کرتا تو اسے غسل دیتے تھے۔ اسے وہ صِبْغَۃ کہتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس نے زندگی کا نیا رنگ اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "زندگی کا بہترین رنگ، خدائی فطری رنگ ہے" اور اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبات کی جائے ۔(5)
فطرت سے خارج ہونے کا انجام
جو انسان فطرت سے خارج ہوتا ہےوہ اس مکڑی کی طرح ہے جو اپنی جال کو بنانے کے لئے اپنے گرد گھومتی ہے مکڑی جتنا کام زیادہ کرتی ہے بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور گھروں میں سب سے کمزور یقینا مکڑی کا گھر ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔ اسی لئے ان لوگوں کا دل حجاب میں، نفس میں عیب،عقل مغلوب اور ناکارہ اور شہوت غالب آتا ہے۔(6) ان لوگوں کی بیماریاں درج ذیل ہیں:
دل کی آلودگی
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو ایک لال دھبہ اس کے دل پر ظاہر ہوتا ہے اور اگر توبہ کرئے تو وہ دھل جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرئے اور گناہ پہ گناہ کرتا جائے تو ان دھبوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے اس وقت پھر اس انسان کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے:
اين حرفها بهانه است، علّت اصلي اين است که بر اثر اعمال زشتشان دلهايشان زنگار گرفته است»۔(7)
حجاب دل
حجاب دل چیزوں کی حقیقت تک پہنچنے کی راہ میں مانع بن جاتا ہے وہ انسان جس کے دل پر حجاب پڑے ہوں ہو حقیقت کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ ایسا انسان عوارض ذہنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی بصارت تو ٹھیک ہے لیکن بصیرت خراب ہے وہ باطن سے نابینا ہے۔ان کے دلوں پر مہر لگا دیا ہے، بہروں، اندھوں اور گونگوں کی طرح سمجھنے سے محروم ہیں۔
(مترجم) سورہ مبارکہ اسراء آیت 45 اور 46 میں خدا ارشاد فرماتا ہے: اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ اور ہم ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں سنگینی کر دیتے ہیں اور جب آپ قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے اپنی پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ اسی طرح سورہ مبارکہ کہف آیت 57 میں خدا فرماتا ہے : اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقینا پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں) اور اب اگرآپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔ (یعنی) وہ اپنے جرائم کی وجہ سے ایمان کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں جس کی بنا پر اللہ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ جن کو اللہ اپنی رحمت سے محروم کرے ان میں پھر شنوائی رہتی ہے نہ سمجھنے کے لیے ان کی عقل و فکر کام کرتی ہے۔
سورہ مبارکہ حج کی آیت 46 میں خدا ارشاد فرماتا ہے : کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ سورہ مبارکہ طہ آیت 124 میں خدا ارشاد فرماتا ہے: اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔ (یعنی)جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے اس سے جدائی کی صورت میں اسے سکون نہیں ملتا خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کومیسر آ جائے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا، بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگر یہ انسان صرف اسی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اسی دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتاہے۔
اسی طرح آیت 125 اور 126 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ : وہ اندھا قیامت کے دن کہے گا: پروردگارا ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایاحالانکہ میں تو بینا تھا؟ اسے جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلادیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد آیت 127 میں ارشاد ہوتا ہے: اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔
آیت 125 سے 127 تک ایک ضابطہ کلی کا بیان ہے کہ جس طرح مذکورہ شخص کو اندھا ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جانا پڑے گا اسی طرح ہر حد سے تجاوز کرنے والے کی سزا بھی یہی ہو گی۔ جیسے اس دارِ دنیا میں اللہ کو فراموش کیا ہے، ویسے اللہ بھی دارِ آخرت میں اسے فراموش کرے گا۔
سورہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر 7 میں خدا فرماتا ہے: اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ اور آیت نمبر 18 میں ارشاد باری تعالی ہے: وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔
علامہ شیخ محسن نجفی دامت برکاتہ سورہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر 4 سے 8 تک کی تفسیر میں ایک بہترین نکتے کی طرف اشار فرماتا ہے وہ یہ ہےٖ:
سلسلۂ کلام میں تین گروہ شامل ہیں:
پہلا گروہ، وہ لوگ جن پر حق ثابت ہوا اور اس پر ایمان لے آئے۔ یہ متقین کا گروہ ہے۔
دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن پر حق ثابت ہوا مگر انہوں نے ازرُوئے عناد اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یہ ناقابلِ ہدایت ہیں۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہیں نہ تو حق پر ایمان لانے کی توفیق ہوئی اور نہ علی الاعلان اس کے انکار کی جرات ہوئی۔ یہ اپنے ضمیر کی آواز کے بھی خلاف ہیں، لہٰذا فکری اضطراب اور ذہنی تشویش کا شکار رہتے ہیں ۔
منافقین کی خصوصیات یہ ہیں:
i۔ وہ بزعم خویش اللہ اور مؤمنین کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ غیر شعوری طور پر خود دھوکہ کھا رہے ہوتے ہیں۔
ii۔ ان کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے، جس سے وہ اعتدال و توازن کھو بیٹھتے ہیں اور بیماری کی وجہ سے انہیں موزوں غذا بھی غیر موزوں اور گوارا طعام بھی ناگوارگزرتا ہے۔ انہیں یہ بیماری خود اپنے عمل کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ اللہ نے بھی جب انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تو بیماری کے مہلک جراثیم قانون فطرت کے تحت پھیلنا شروع ہو گئے، لہٰذا اس کی نسبت اللہ کی طرف دینا صرف اس لیے ہے کہ اللہ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ البتہ اس کے ذمے دار خود منافقین ہیں۔
iii۔ وہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرتے ہیں اور اپنی تخریب کاری کو اصلاح کا نام دیتے ہیں۔
iv ۔ وہ ایمان والوں کو نچلے درجے کے لوگ سمجھتے ہیں۔
v۔ وہ باطنی طور پر کچھ ہوتے ہیں اورظاہری طرز عمل کچھ اور رکھتے ہیں۔ اس سے آگے ان کے سیاہ اعمال کے نتائج کا بیان ہے۔۔(8)
شدید خوف
جو فطرت انسان سے خارج ہوتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو گرج چمک کی تاریکی میں ہو اور موت سے ڈر کر اپنی انگلیاں کان میں دبا رکھا ہو، کہیں ایسا نہ کہ اس بجلی کڑک سے مر نہ جائے۔۔(9)وہ حیران و سرگرداں رہتے ہیں ان انسانوں کی طرح جن کے دل میں شیطانوں نے گھونسلے بنا دیے ہوں۔دشمنوں سے مقابلہ کرنے پر متحد نہیں ہوتے ہیں مگر دشمنی، مکر، حیلہ اور جاسوسی کے ساتھ۔۔(10) اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اے رسول! آپ انہیں متحد سمجھیں گے لیکن ان کے دل سخت اختلاف کا شکار ہیں۔۔(11) ان کے ظاہر بہت ہی بھلے معلوم ہوتا ہے لیکن ان کی باطن(اس حد تک بے جان جیسے) اس خشک لکڑی کی طرح ہے جو دیوار کے ساتھ لگائی گئی ہو اور وہ جو بھی سنتے ہیں ایسا خیال کرتے ہیں کہ یہ آواز ان کی خلاف ہے۔۔(12)
ہوس پر قابو رکھنا یا جہاد اکبر
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:انسان کے کی فطرت کی نشو و نما اور ذہنی تسکین کا سب سے بہترین راستہ ہوس پر قابو رکھنا ہے اور آپ ص اس کو کفار کے مقابلے میں جہاد کرنے کے برابر فرماتے تھے۔۔(13) ہوس کو قابو میں رکھنے کے بعض راہیں کچھ یوں ہیں:
1- ہوس کے مقابلے میں صبر اور مزاحمت۔(14)
2- عقل کی قوت کو مضبوط بناتے ہوئے ہوس یا شہوت کو گھناونی حرکت سمجھنا ۔(15)
3- بہشت میں جانے کی شوق میں شہوت اور ہوس کو بھول جانا ۔(16)
4- شہوت ابھارنے والی طاقتوں کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دینا۔۔(17)
5- خود اعتمادی
6- شہوت کو حلال راستوں جیسے شادی کے ذریعے پورا کرنا۔
(مترجم) اگر کوئی سوال کرے کہ حلال و حرام سے قطع نظر شادی کے ذریعے شہوت پوری کرنے اور شادی کے ذریعے شہوت پوری کرنے میں کیا فرق ہے؟
اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ احکام اسلامی کا محور اچھائی اور برائی ہے۔
شادی کے ذریعے ہمبستری کرنے سے انسان کی تمام ذہنی تناؤ ختم ہو جاتے ہیں جب کہ زنا سے ان میں ہزاروں برابر اضافہ ہو جاتا ہے۔
شادی کے ذریعے جماع کرنے انسان کے اندر غیرت ناموس کا جذنہ پیدا ہوجاتا ہے تمام عورتیں اس کے نزدیک ماں بہنیں ہیں ان کی عزت کرتا لیکن زنا سے انسان بے غیرت ہو جاتا ہے ہر عورت کی طرف غلط نگاہ سے دیکھتا ہ
ے۔ شادی کے ذریعے جماع کرنے کے بعد اس بیوی کا مقام و مرتبہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے وہ انسان خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اتنی بڑی نعمت اسے دے دی لیکن زنا کرنے کے بعد انسان کے اندر اس عورت کی نسبت نفرت ایجاد ہوتا ہے اگر وہ اس سے پہلے اس کا احترام کرتا تھا تو اب آلودہ نگاہوں سے ہی اسے دیکھتا ہے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں زناکاروں کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ معاشرے جن میں زنا کو کوئی قبیح کام نہیں سمجھا جاتا ہے جیسے یورپ اور امریکا کے معاشرے ان میں بھی زانیوں کو نیک نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
ذہنی پریشانیوں سے نجات کا راستہ
ذہنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے لیے قرآن کریم نے بعض طریقے بتا دیا ہے:
1- خدا وند عالم انسان کے تمام اعمال پر ناظر ہے اور دنیا میں کوئی بھی حادثہ بیٹھے بیٹھے رخ نہیں دیتا ہے۔۔(18)
2- اسلام کی نگاہ میں تمام قوت کا مبدأ خدا کی ذات ہے۔۔(19)
3- دونوں جہانوں کا پالنے والا وہ ہے۔ ۔(20) اس نکتے کی طرف توجہ کرنا کہ مال اور اولاد، ۔(21) خیر اور شر،۔(22) موت اور زندگی ۔(23) سب کے سب امتحان کی چیزیں ہیں۔
4- اس کے ساتھ ساتھ اس یہ بھی یاد رکھیں کہ مومن مصیبت کے وقت انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہیں۔(24) اور اس بات پر پختہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جہاں بھی ہیں خدا اس کے ساتھ ہے۔۔(25) اور خدا کے شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔۔(26)
5- اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان صاحب اختیار ہے؛ لیکن نظام ہستی میں مشیت الہی کی حکومت ہے۔۔(27) پس مومنوں کو چاہیئے کہ پریشانی اور اضطراب میں مبتلاء ہونے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کریں اور یہ جان لیں کہ جب تک مشیت الہی شامل نہ ہو وہ کہیں بھی نہیں پہنچیں گے۔۔(28)
مندرجہ بالا نکات کو دیکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:
1- زندگی کا میدان اگر چہ مقابلوں کا میدان ہے لیکن عام اسباب اور وجوہات کے علاوہ بھی بعض دروازے ہیں جو انسان کے لیے کھل جائیں۔
2- انسان خدا کی محضر میں ہے اور خدا کی محضر میں گناہ نہیں کرنی چاہیئے۔ پس خود کو کنٹرول کریں گے۔
3- مصیبتوں اور بلاؤوں کے مقابلے صبر کریں گے اور ان سے نہیں ہاریں گے۔
4- انسان اس بات کو سمجھ لے گا کہ جو کچھ وہ سوچے گا سو فیصد وہی نہیں ہو گا اور اگر کہیں ناکام ہو جائے تو اس کا حوصلہ پست نہیں ہوگا پس وہ خود کو عمل کرنے پر مامور پائے گا نہ نتجہ حاصل کرنے پر-۔(29)
5- خدا پر بھروسہ کر کے خدا کو اپنی زندگی میں حاکم مان لے گا اور کبھی بھی شکست کا احساس نہیں کرئے گا۔۔(30)
آرام اور نیند
آرام اور نیند بھی قرآنی نگاہ میں روحی بیماریوں سے مقابلہ کرنے کا وسیلہ ہےجو ذہنی سکون حاصل کرنے میں نہایت ہی موثر ہے۔ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق نیند سکون کے لیے بڑا موثر ہے؛ لیکن صرف رات کی نیند کو کافی نہ سمجھیں چونکہ اللہ کی نشانی رات اور دن دونوں کی نیند ہے ۔۔(31)
اسی طرح قرآن کریم کی نگاہ میں نیند سکون اور راحت کا سبب بھی ہے۔ خدا فرماتا ہے ﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِراً إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ﴾ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ۔(32) اسی طرح ایک جگہ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتاً وَ جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاساً ﴾۔(33) اور ہم نے تمہاری نیند کو (باعث) سکون بنایا۔ اور رات کو ہم نے پردہ قرار دیا۔
نیند اضطراب ڈر خوف ،سخت پریشانیوں اور رنج و مصیبت کا علاج ہے؛ کیونکہ انسانی جسم کے سیلز نیند کے بعد دوبارہ سیٹ ہو جاتے ہیں اور اسی شادابی اور شادمانی کی حالت میں مشکلات کو حل کرتے ہیں اور انسان کی داخلی پریشانیوں ڈیپرشن وغیرہ سے نجات دلاتی ہے۔۔(34)
خاندانی حمایتی نظام
گھریلو حمایتی نظام بھی ذہنی امراض کا موثر علاج ہے؛ چونکہ ایک فیملی معاشرتی سکون اور امن و سلامتی کے ارکان میں سے ایک ہے۔ کسی معاشرے میں فیملی ہلپینگ سسٹم یعنی گھریلو حمایت کا نظام ڈپریشن اور ٹینشن کے اوقات میں سب زیادہ پر امن ماحول پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ بیوی ایک نعمت الہی ہےقرآن کریم میں کتنی خوبصورت تعبیر ہے :
﴿وَ مِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴾۔(35)
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔(36)
آیت میں اس بات کو واضح انداز میں بتایا گیا ہے کہ گھریلو نظام ذہنی سکون کا بہترین وسیلہ ہےسب لوگ اور خاص کر بیوی اس بات کو درک کر لیں کہ اللہ تعالی اتنا بڑا سفارش کر رہا ہے پس معمولی سی اختلافات امن و سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں بننی چاہیں۔ اور یقین کر لیں کہ مسلمان میاں بیوی پر لازم ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ پیارو محبت سے پیش آئیں۔ اگر ایسا کریں تو صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ ذہنی دباؤ سے چھٹکارا حاصل کر لے گا بلکہ رحمت خدا یہ اور ان کی اولاد پر بھی شامل حال ہوسکتی ہے۔ نفسیات شناسوں کا اس بات پر یقین ہے کہ گھریلو حمایت کا نظام کئی طرح سے روحی اور نفسیاتی بیماریوں کو دور کرنے میں موثر ہے:
گھریلو حمایت کی مثالیں
1- گھر میں ہر فرد کی پہچان اور ان کو ادارہ کرنا: اس بات کی ایک بہترین نمونہ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ جب آپ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج آپ کو سجدہ کر رہے ہیں اس وقت آپ نے خواب کو اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے بیان کیا تو حضرت یعقوب نے فرمایا: ﴿لاَ تَقْصُصْ رُءْيَاکَ عَليآ اِخْوَتِکَ فَيَکيدُوا لَکَ کَيْدًا﴾ بیٹا ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا ورنہ وہ آپ کے خلاف کوئی چال سوچیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی حسد کے بارے میں علم رکھتے تھے اور اسے روکنے کی کوشش کرتے تھے۔
2- ماں باپ کی حمایت اور ان کا احترام: قرآن کریم میں جا بجا ماں باپ کی کردار کو بیان کیا ہے کہ گھریلو معاملات میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ اولاد میں ان کا کیا مقام و منزلت ہے؟ ﴿وَ قَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَ لاَ تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً ﴾ اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔۔(37)
3- گھریلو افراد کی حمایت کرنا: اس کی مثال قرآن کریم میں حضرت یوسف کے واقعے میں ہے جب آپ کے بھائیوں کو پتہ چلا کہ آپ ہی یوسف ہے تو انہوں نے جواب میں کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں آج میں نے تما سب کو عفو کیا اور کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اوروہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔۔(38)
موجودہ حالت پر غور کرنا
روحی امراض اور اضطراب سے چھٹکارا پانے کا ایک اہم طریقہ موجود حالات پر غور کرنا ہے قرآن کریم اس چیز کا منکر ہے کہ انسان صرف موجودہ حالت کو سب کچھ سمجھ لے اور تمام اچھائی اور برائی کو اسی میں منحصر کرے۔ خدا فرماتا ہے:
«وَ عَسي اَنْ تَکرَهُوا شَيئا وَ هُوَ خَيرٌ لَّکُمْ»۔(39)
اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو،
«فَعَسي اَنْ تَکْرَهُوا شَيئا وَ يَجْعَلَ اللّه ُ فيهِ خَيْرا کَثيرا»۔(40)
ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں تو ناپسند ہو مگر اللہ اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دے۔
فقہ میں ایک معروف قاعدہ ہے جس کا نام قاعدہ میسور ہےجو وہی موجود حالت کو درک کرنے کا نام ہے؛ یعنی انسان ہمیشہ کام اور عمل کے پیچھے رہے اور ہمیشہ اس فکر میں رہیں کہ موجودہ حالات میں کیا کرنا ہے؟ ٹینشن پریشانی، اضطراب اور ڈپریشن سے کوئی چیز حل نہیں ہوتی ہے ۔۔(41)
امام علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
الميسور لا يَسقُط بالمعسور»
کسی مشکل کی وجہ سے آسان نہیں چھوٹ جائے گا؛
یعنی انسان جتنا کر سکتا ہے اسے انجام دیں جو وہ نہیں کر سکتا ہے اس کو چھوڑ دیں۔ بعض لوگ جب کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے تو سب کچھ چھوڑ دیتا ہے یہ غلط ہے مولا فرمارہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسے بجا لائیں۔
اسی طرح ایک قاعدہ بھی ہے کہ:
مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّهُ۔(42)
جس چیز کا کل حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے اس کل چھوڑ بھی نہیں سکتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ مشکلات تو ہر انسان کی زندگی میں آتی رہتی ہے پریشانیوں سے انسان کا آمنا سامنا رہتا ہے لیکن ان سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں انسان اپنی زندگی میں کبھی بھی ہتھیار نہ ڈالیں جب کسی پریشانی میں پھنس جائے تو ہمت نہ ہاریں اور کسی نہ کسی طریقے سے اس سے نجات کی راہیں ڈھونڈیں۔
احساسات کا بیان اور دعا و توسل
انسان کی ذہن کی تسکین اور روحی آرامش میں جس چیز کو کیمیا کا درجہ حاصل ہے وہ اللہ کے حضور اپنی احساسات اور جذبات کو بیان کرنا ہے اور ساتھ ساتھ دعا اور توسل کے راستے خدا سے ملنے کی بھی ضرورت ہے۔ دعا اور خدا کو یاد کرنا غموں کو دھونے کی طرح ہے اس سے غم اور پریشانیاں دھل جاتی ہیں گناہوں کے میل اور کچرے کو جو دل پر ہیں استغفار کے صاف پانی سے دھو ڈالیں اور دل کو یاد خدا کے ذریعے صیقل دیں۔ جیسا خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴾ ۔(43)
(یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔
انسان صرف دل اور زبان سے خدا کو یاد کرنے کے علاوہ خدا کی عظمت کو بھی خاطر میں لائیں اور یاد رکھیں کہ ہمیشہ خدا اس کے ساتھ ہے ۔
مترجم اگر یہ احساس ہو کہ خدا اس کے ساتھ ہے اس وقت کوئی بھی مشکل انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کسی جگہ فرماتی ہے کہ: پالنے میرے لیے یہ سب آسان ہے کیونکہ تو دیکھ رہا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام آخری وقت میں فرماتے ہیں: پالنے والا! میں تو سب کچھ تیرے خاطر چھوڑ دیا اور بچوں کا یتیم ہونا گوارا کیا تاکہ تجھے دیکھ لوں اگر تیری الفت میں میری بدن کے ٹکرے ٹکرے بھی کر دیا جائے تب بھی دل تیرے سوا کسی اور کی طرف مایل نہیں ہوگا۔ غیر خدا کی طرف پناہ لے جانے کی ذلت کو محسوس کرے گا ۔ اپنی نفس کو نہ صرف تسلیم اور رضا کی حالت میں پائے گا بلکہ خدا کی جمال اور جلال کو بھی درک کر لے گا اور اس سے وہ نہ صرف معنوی اعتبار سے آرام و راحت محسوس کرے گا بلکہ فزیکل طور پر پریشانی اور اضطراب کے اثرات سے چھٹکارا پا کر وہ اپنے بدن کو آرام اور راحت میں محسوس کرے گا۔۔(44)
تلاوت قرآن
تلاوت قرآن بھی خدا کی ہے کہ ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرنے والا قرآن سے لو لگانے والا ہر قسم کی پریشانیوں سے آزاد ہے۔ انسان جو کہ ایک خاکی مخلوق ہے جب تلاوت قرآن کریم کے ذریعے سے اللہ سے محو سخن ہوجاتا ہے تو تب مناجات کی لذت کو درک کر لیتا ہے اپنے اندر صبر اور حوصلوں کا سمندر پاتا ہے
انسان جب دعا کے ذریعے سے خدا کو یاد کر رہا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خدا بھی اسے یاد کرتا ہے ۔۔(45)
لیکن اگر یاد خدا سے غافل ہوتا ہے تو خود کو زندگی کے سخت شاہراہوں پر پائے گا ایسی حالات سے آمنا سامنا کرنا پڑے کا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا، خدا فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً وَ نَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾۔(46)
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔۔(47)
انسان اس وقت مقام رضا پر فائز ہو جاتا ہے جب خدا کو یاد کرے اور ہوا و ہوس میں مشغول نہ ہو جائےاگر معصیت میں مبتلاء ہو جائے تو گناہ کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس خدا کو یاد کرنے کی وجہ سے ہےکہ خدا اسے بخش دیتاہے اور اسے اپنی پناہ میں لیتا ہے۔۔(48) اسی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ: نماز انسان کوبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔۔(49)
اجتماعی شکل میں اللہ کو یاد کرنا۔(50) بھی انسان کے عزم و اردوں کو طاقت ور بنا دیتا ہے، اور سبب بنتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے تنہائی کا احساس نہ کریں ۔ نماز کے بعد سب مل کر خدا کو یاد کرنا تسبیح اور ذکر پڑھنا سکون قلب کا باعث ہے۔۔(51)
قرآن کی نگاہ میں تمام پریشانیوں، اضطرابات، مشکلات اور روحی و ذہنی بیماریوں کی وجہ خدا کو بھول جانا ہے؛ کیونکہ جب انسان خدا کو بھول جاتا ہے تو شیطان کا ہمنشین بن جاتا ہے اور لا محدود وہموں اور وسوسہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔(52) انسان بھی اسی کے ساتھ خود کو اسی دنیوی زندگی میں محدود کرتا ہے اور اسی سے بڑھ کر اس کا کوئی اور ہدف نہیں ہے۔۔(53)
ڈاکٹر وکٹر فرانکل کہتے ہیں : وہ انسان جس کا کوئی ہدف ہوتا ہے وہ ہر مشکل کو تحمل کرتا ہے ۔اس کے بعد وہ مشکلات سے مقابلہ کرنے اور سختیوں کو جھیلنے کے لیے نو فارمولے بیان کرتے ہیں۔۔(54)
قرآن کریم بھی ان انسانوں کی مثال بیان کرتا ہے جنہوں نے مشکلات کی طوفان میں خود کو سنبھالے ہیں مشکلات کے مقابلے وہ صرف کامیاب ہی نہیں ہوئیں بلکہ مشکلات اور مصایب نے انہیں اور زیادہ مضبوط بنایا۔۔(55)
مثال کے طور پر خدا اپنے رسول کو حکم دے رہا ہے کہ :
﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لاَ تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلاَغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ﴾۔(56)
پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے (طلب عذاب میں) جلدی نہ کیجیے، جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں محسوس ہو گا گویا (دنیا میں دن کی) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے، (یہ ایک) پیغام ہے، پس وہی لوگ ہلاکت میں جائیں گے جو فاسق ہیں۔۔(57)
اس کے بعد انہیں نصیحت کر رہا ہے کہ:
جو باتیں یہ کرتے ہیں اس پرآپ صبر کریں اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کریں۔ ۔(58) جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اسے نہ تو نقصان کا خوف ہے اور نہ ظلم کا۔۔(59) سنو! جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔۔(60) اولیاء الہی وہ ہیں جو ہر حال (اٹھ کر، بیٹھ کر اور لیٹ کر)تفکر کرتے ہیں خدا کے بارے میں سوچتے ہیں اور کہتے ہیں :ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔۔(61)
مادی اور الہی نظریے میں فرق
مادی اور الہی نظریے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ الہی نظریہ کے مطابق اگر انسان اس دنیا میں ہدف تک نہ پہنچے تو آخرت میں پورا ہو جائے گا لیکن مادی نظریہ کے مطابق( کہ یہ لوگ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ) سب کچھ یہی دنیا ہے اسی لیے جب مشکلات میں پڑھ جاتے ہیں تو مضطرب ہوجاتے ہیں اور زندگی سے نا امید، جو بعض اوقات خودکشی پر ختم ہو جاتے ہیں ؛ پس اس مسئلے میں مومن کبھی رک نہیں جاتے ہیں ہر حال میں وہ اپنے ہدف کی طرف روان دواں ہیں ؛ اس لیے کہ یہ زندگی کسی اور زندگی کے لیے مقدمہ ہے اس زندگی کے لیے جو جاوید اور ہمیشہ رہنے والی ہے اس میں فنا نہیں ہے اور وہ بہشتی زندگی ہے۔۔(62)
قضا و قدر پر یقین اور اس کے اثرات
قضا و قدر پر یقین رکھنا اور اس بات پر بھی ایمان رکھنا کہ جو بھی حادثہ رونما ہوتا ہے وہ اتفاقی نہیں ہےاس کا کوئی نہ کوئی علت، سبب اور ہدف ہے، ذہنی امراض اور اضطراب سے مقابلہ کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ قضا و قدر پر اعتقاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے امور اتفاقی نہیں ہیں جو بھی اس نظام ہستی میں رونما ہوتے ہیں وہ خدا کی مشیت سے رونما ہوتے ہیں ۔ اس بنیاد پر ایک مسلمان حالانکہ وہ مجبور نہیں ہے اپنے کو مسئولیت سے خالی بھی نہیں سمجھتا ہےاور وہ کسی بھی حرکت یا طاقت کے سر آغاز خدا کو ہی مانتا ہے اور خدا کو مربی اور رزق دینے والا سمجھتا ہے۔۔(63)
بہر حال قضا و قدر پر یقین رکھنا ذہنی بیماریوں سے نجات اور اضطراب و پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کا موثر وسیلہ ہے، اس اعتقاد کے بہت سے فائدے ہیں:
1- نظام ہستی کا حکمت کے مطابق پانا
جو بھی اس ساری نظام کے حاکم مطلق خدا کو مانتا ہے اور اس نظام کے حکمت پر مشتمل ہونے کو بھی مان لیتا ہے۔ایسا نظام جو بہت ہی پیچیدہ ہے بلند و بالا اغراض و مقاصد کا حامل ہے۔ ایسا عقیدہ سبب بنتا ہے کہ انسان اپنی فکر اور علم کے سہارے میں نہیں رہتا ہے بلکہ ہر کام کو خدا کی طرف پلٹاتا ہے۔۔(64)
2- معنوی اسباب و عوامل پر یقین رکھنا
الہی نظریے کی مطابق انسان کو عوامل معنوی اور غیر محسوس اسباب کے وجود پر یقین رکھنا چاہیئے۔ یہ قضا و قدر پر یقین رکھنے کی برکتوں میں سے ہے کہ جب تمام ظاہری راستے بند ہوگئے تو انسان نا امید نہیں ہوجا تا ہے بلکہ اب بھی اسے امید ضرور ہے کہ ایک غیبی امداد اسے ضرور حاصل ہوگا اور یہی چیز اس کے حوصلے کو بلند کرتی ہے اور دوبارہ سے اس کی رگ حیات میں خون ڈورنے لگتا ہے ہو کبھی بھی شکست نہیں کھائے گا کیونکہ وہ ہمیشہ سے دو نیکیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے؛ کامیابی یا شہادت۔ ۔(65)
(مترجم) یہی بنیادی فرق ہے لشکر کفر اور لشکر اسلام میں؛ کفار کے پاس قیامت نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہ سب کچھ اسی دنیا کو سمجھتے ہیں لیکن اسلامی لشکر کے پس آخرت کا نظریہ ہے اگر وہ جنگ میں جیت گئے تو غازی بن جائیں اور اگر جان کی بازی ہار جائے تو شہادت کی سرٹیفکٹ سے نوازا جائے گا۔
3- حزن و اندوہ سے اجتناب
قضا و قدر پر یقین رکھنے سے انسان سب چیزوں اور سب کاموں میں خدا کو مشاہدہ کرتا ہے؛ اسی لیے زندگی میں سختیاں اور تلخیاں جھیلنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے، حوادث کے مقابلے میں ہتھیار نہیں ڈالتا ہے اور ہر مصیبت کو اللہ کی طرف سے جانتا ہے۔ ۔(66) سدا لبوں پہ نعرہ یہ رہتا ہے:انا للہ و انا الیہ راجعون ۔(67) ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ۔(68)
ایسا انسان ہر وقت احساس کرے گا کہ دروازہ ہمیشہ اس کے لیے کھلا ہوا ہے اگر اس دنیا میں وہ غم اور مصیبت سے چھٹکارا نہ پا سکے تو قیامت ثواب کی جگہ ہے وہاں ضرور ثواب پا لے گا۔ وہ کبھی بھی ذہنی پریشانیوں، اضطرابوں اور ہر ہمت پست کرنے والی بیماریوں کو اپنے اوپر غلبہ پانے نہیں دے گا۔ کتنا خوب صورت کلام ہے امیر بیان حضرت علی کا کہ آپ فرماتے ہیں:
تذلّ الامور للمقادير، حتّي يکون الحتف في التّدبير۔(69)
تمام امور قضار و قدر کے تابع ہیں، کبھی انسان کی موت بھی تدبیر اور زیادہ ہوشیاری دکھانے کی وجہ سے ہے۔
غرور اور مستی سے اجتناب
قضا و قدر اور امور کے اتفاقی نہ ہونے پر اعتقاد رکھنے کے اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ملنے والے خوشیوں سے مغرور نہیں ہوتا ہے۔ کسی کام میں کامیاب ہو جائے تو فخر نہیں کرتا ہے۔ وہ انسان جو سختیوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دیتا ہے اور مشکلات سے ہار جاتا ہے وہ خوشیوں کے موقع پر مغرور اور مست بھی ہو جاتا ہے؛ اس لیے کے کامیابیوں کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے۔ خود پر مباہات کرتا ہے اس کے برعکس وہ انسا ن جو کامیابیوں کو اللہ کی طرف نسبت دیتا ہے اور ہر خوشی کو اللہ کے فضل و احسان مانتا ہے وہ غرور میں مبتلا نہیں ہو جاتا ہے بلکہ حق شناسی اور شکر گزاری کی وجہ سے اور زیادہ متواضع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ظاہری ناکامیوں کو بھی کامیابی کا وسیلہ قرار دیتا ہے اور ترقی کے لیے مقدمہ قرار دیتا ہے۔۔(70)
توکل اور اس کے اثرات
ذہنی امراض اور اضطراب پر غالب آنے کے موثر اسباب میں سے ایک سبب توکل ہےوہ انسان جو قضا و قدر پر پختہ یقین رکھتا ہے اور ہر کام میں خدا پر بھروسہ کرتا ہے اس کے اندر توحید افعالی ایجاد ہوتا ہے۔ توکل خدا پر اعتماد کرنا؛ اس طرح کہ شاہراہ حق پر سفر کرتے ہوئے شک و تردید کا شکار نہ ہوجائے اور شبہات کو اپنے اندر آنے نہ دے۔ اپنی تدبیر اور سوچ پر بھروسہ کر کے مغرور نہ ہو جائے، اور انسان جان لے کے کہ اگر انسان اپنی زندگی میں صحیح ہدف کا انتخاب کرے اور خدا پسند راستے پر چلے تو اپنے تمام امور کو اسی پر چھوڑ دیتا ہے وہ صرف کام کرتا ہے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیتاہے اس وقت خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے اور اپنی رحمت کے گھنی چھاؤں میں اے جگہ دیتا ہے؛ لہذا اس وقت نہ صرف وہ ڈپریشن ٹنشن اور اضطراب کا شکار نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے کاموں کو خدا کی مشیت کو بھی مشاہدہ کرتا ہے اور مشیت الہی کو اپنے فائدے میں دیکھتا ہے اسی لیے ہمیشہ لبوں پر یہ نعرہ رہتا ہے:
﴿وَ أُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ﴾
میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوں پر خوب نگاہ کرنے والا ہے۔
پس اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ توکل کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم دیکھتے رہیں اور سب کاموں کو اللہ پر ہی چھوڑ دیں، توکل کا یہ معنی غلط ہے کیونکہ ہر انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔۔(71)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان صاحب اختیار ہے لیکن اس کی اختیار طبیعت اور تاریخ میں ہمیشہ سے سنت الہی کے تابع رہا ہے سنت الہی تو بدل جانے والی چیز نہیں ہے۔(72)
تبدیل ذہنیت اور ایمان پر تکیہ کرنا
ذہنی بیماریوں اور پریشانیوں سے مقابلہ کرنے کا ایک راستہ معنوی تبدیلی لانا اور خدا پر ایمان کو مضبوط کرنا ہے؛ اس لیے کہ انسان خدا پر ایمان رکھ کر اور اپنی نفس کی طرف پلٹ آکر ہی بے انتہا خود کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ایمان یہ ہے کہ جو خدا پر ایمان رکھتا ہے وہ خدا کو اپنے لیے ایک مضبوط سہارا تصور کرتا ہے اور یہ احساس کرتا ہے کہ تمام کاموں میں خدا کی نظارت ہے، اس وقت وہ پریشان کرنے والی چیزوں اوربے چینی کے عوامل کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے؛ اس لیے روزی دینے والا اور صاحب قوت خدا کو یہ جانتا ہے-(73)
اسی طرح احساس کرے گا کہ موت یقینی اور سب کے لیے ہے ۔(74) کسی کا بھی اس سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہے-(75) مومن اس چیز پر عقیدہ رکھتا ہے کہ عمر کے زیادہ ہونے کا علم اللہ کے پاس ہے۔(76) مومن کسی بھی حال میں رحمت خدا سے مایوس نہیں ہوتا ہے۔(77) وہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اگر خدا سے کوئی چیز مانگتا ہے تو خدا اسے فورا اجابت کرے گا۔(78)خوشیاں اور غم بھی اسی کی طرف سے ہیں۔(79)
انسان کے عقیدے میں خدا ہدایت دینے والا، پیاس بجھانے والا اور جب بیمار ہو جاتا ہے تو شفا دینے والا بھی ہے، موت و حیات دینے والا اور خطاؤں کو بخشنے والا بھی وہی ہے۔(80) اور ان سب سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ مومن ہمیشہ احساس کرتا ہے کہ اس سے دفاع کرنے والا خدا ہی ہے۔(81) اور یہ وہی صحیح اور حقیقی سوچ ہے جو مشکلات میں انسان کے کام آتی ہے اور اسے ثابت قدم رکھتی ہے۔(82)
پس انسان کے اندر جتنا بھی سکون ذہنی کی کمی ہے اسی مقدار میں ایمان بھی ضعیف ہے۔
تبدیل ذہنیت کے نمونے
قرآن کریم بعض ایسے لوگوں کے واقعات کو بیان کرتا ہے جنہوں نے اپنی ذہنیت کو تبدیل کر کے اپنی اندر الہی عقیدہ ایجا کیا :
1- فرعون کے ساحروں کا واقعہ
ان میں ایک فرعون کے ساحروں کا واقعہ ہے جنہوں نے معجزہ دیکھ کر خدا اور موسی پر ایمان لے آئے۔
(مترجم) سورہ مبارکہ طہ کے آیات 63 سے لے کر 76 تک پوری چودہ آیتیں ان کے واقعات پر مشتمل ہیں ذیل میں ان آیتوں کا ترجمہ پیش ہے:
وہ (فرعون) کہنے لگے: یہ دونوں تو بس جادوگر ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری اس سر زمین سے نکال باہر کریں اور دونوں تمہارے اس مثالی مذہب کا خاتمہ کر دیں۔(83) لہٰذا اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو پھر قطار باندھ کر میدان میں آؤ اور آج جو جیت جائے گا وہی فلاح پائے گا۔(84) (جادوگروں نے )کہا: اے موسی! تم پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں؟ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔(85) پس موسیٰ نے اپنے اند ر خوف محسوس کیا۔(86) ہم نے کہا: خوف نہ کر یقینا آپ ہی غالب آنے والے ہیں۔ اور جو کچھ آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اسے پھینک دیں کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ ان سب کو نگل جائے گا، یہ لوگ جو کچھ بنا لائے ہیں وہ فقط جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی ہو کامیاب نہیں ہو سکتا ۔(87) پھر جادوگر سجد ے میں گر پڑے اور کہنے لگے: ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لے آئے-(88) فرعون بولا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں(89)، یہ یقینا تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا اب میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں یقینا سولی چڑھوا دوں گا پھر تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے سخت اور دیرپا عذاب دینے والا کون ہے(جادو گروں نے) کہا: جو دلائل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں خلق کیا ہے اس پر ہم تجھے مقدم نہیں رکھیں گے لہٰذا اب تو نے جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال، تو بس اس دنیا کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔(90) ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور جس جادوگری پر تم نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لیے یقینا جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اورنہ جیے گا۔ اور جو مومن بن کر اس کے پاس حاضر ہو گا جب کہ وہ نیک اعمال بھی بجا لا چکا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔ ۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔(91)
2- حضرت آسیہ کا واقعہ
دوسرا واقعہ حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کا ہے اس قہرمان عورت نے فرعون جیسے ربوبیت کا دعوی کرنے والے شقی کے آگے ڈٹ کر رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ قائم کیا کہ خدا کی طرف جانے والوں کے لیے قصر، عزت مقام و منصب اور کوئی بھی چیز مانع نہیں بن سکتی ہے۔ اس قہرمان خاتون نے اللہ سے دعا کی :
«رَبِّ ابْنِ لي عِنْدَکَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّني مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ»(92)
اے میرے پروردگار! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما۔
موت کو کمال کی طرف ترقی تصور کرنا
قرآن کریم کی نظر میں اگر انسان موت کو فنا اور نابودی تصور نہ کرے اور اسے کمال کی طرف ترقی کرنا تصور کرے تو اپنی نفسیاتی بیماریوں پر قابو پا سکتاہے۔وہ مسلمان جو علم رکھتا ہے کہ موت فنا کا نام نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا نام ہے،(93)کبھی بھی نا امیدی میں مبتلاء نہیں ہوگا اور وہ کبھی بھی اسی دنیا کو اپنے لیے سب کچھ نہیں سمجھے گا، اسی کو اپنی منزل تصور نہیں کرے گا، اس وقت موت مومن کے اندر اضطراب ایجاد کرنے کے بجائے اطمینان اور سکون کا باعث بنے گا؛ اس لیے کہ موت کے پل سے گزر کر انسان اپنے حقیقی محبوب سے ملاقات کرے گا اور اس کا یقین اور محکم ہو گا، اس وقت وہ اپنے آپ پر راضی ہوگا اور خدا بھی اس پر راضی ہوگا اور ساتھ ساتھ خدا کے نیک بندوں کی ملاقات کو پہنچے گا۔ (94)
ہدف خلقت میں تفکر کرنا
اگر انسان کائنات کی خلقت کے ہدف میں غور کرے تو وہ اس نظام کو حکمت الہی کے ساتھ موزون پائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔(95) پس ہرموجود ایک خاص مقصداور ہدف لے اس دنیا میں آتا ہےاور اسی ہدف( اللہ تک پہنچنا ،ہمیشہ کی آرام والی جگہ پہنچنا، جنت یا رضوان الہی) کی طرف قدم بڑھانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں انسان نفسیاتی دباؤ، اضطراب، پریشانی جیسے خبیث امراض میں مبتلاء ہونے کے بجائے خدا پر یقین رکھ کر اپنے ہدف کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے اور اسی میں اسے خوشی ہی خوشی مل جاتی ہے، یہ انسان اب موت سے نہیں ڈرتا ہے بلکہ موت کا منتظر رہتا ہے ہر وقت اس کی راہیں تکتاہے اگر اجل کے لیے وقت مقرر نہ ہو تا تو شاید ان کی ارواح جسم میں ایک لحظہ ٹھہرنے پر راضی نہ ہوتیں۔
انسان عمل مامور ہے نہ نتیجہ پر
اگر انسان اس بات پر یقین حاصل کرے کہ وہ عمل کرنے اور اپنے وظیفے کو انجام دینے پر مامور ہے نتیجہ پر نہیں اس کی ذمہ داری کام کرنا ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اگ کسی طرح اپنے کام میں کامیاب نہ ہو جائے تو وہ کہے گا کہ میں نے تو ذمہ داری نبھایا فتح اور شکست تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی طرح عزت و ذلت بھی اسی کی طرف سے ہے۔ پس انسان سے اس کے اپنے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا،(96) عمل کے باعث ہی ثواب اور عقاب ملے گا،(97) اپنے سعی اور کوشش کے مطابق فائدہ حاصل کرے گا،(98) جو کچھ بوئے گا وہی کاٹے گا،(99)لیکن اس کی ذمہ داری اس کے اعمال کی وجہ سے ہے،(100)پس انسان عمل پر مامور ہے نتیجہ پر نہیں۔ اگر انسان اس پر یقین رکھے تو تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گے ۔ پس نفسیاتی امراض سے چھٹکارا پانے کا بہترین راستہ ذکر خدا ہے
نتیجہ
گزشتہ ابحاث کو سامنے رکھتے ہوئےہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ:
خدا پر ایمان اور ہمیشہ ذکر خدا میں مشغول رہنا تمام ذہنی بیماریوں، پریشانیوں اور اضطراب کا علاج ہے
ایمان ایک مطمئن سہارا ہے جس انسان کے اندر بھی ایمان آجائے تو وہ ہر قسم کی مشکلات، پریشانیوں اور بے چینیوں سے امان میں ہے۔قرآن کریم ایسے لوگوں کو بشارت دیتے ہوئے فرماتا ہے: الَّذينَ امَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوآ ايمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولئِکَ لَهُمُ الاْمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ(101)
جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ آیت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ امن و سلامتی ایمان کے سایے میں ہی میسر ہے حقیقی سکون اس ایمان کے گروی میں ہے جو ظلم سے مخلوط نہ ہوا ہو۔
بہر حال قرآن کریم میں وہ راستے بھی مذکور ہیں جن کو اپنا کر پریشانیوں او راضطرابوں پر غلبہ پا سکتا ہے۔تمام پریشانیوں کی ماں بے ایمانی، نا امیدی اور خدا پر بھروسہ نہ کرنا ہے۔
سخن آخر
ہم امید کرتے ہیں کہ دن بہ دن لوگوں کی رغبت قرآن کی طرف زیادہ ہو اور قرآن کریم کےگھنے چھاؤں میں زندگی بسر کرے ہر قسم کی پریشانیوں کو خود سے دور کریں زندگی میں کبھی شکست نہ کھائیں، ہر حال میں خدا کا شکر بجا لائیں، اور جان لیں کہ شیطان منحوس بہت ہی کمزور اور بے وقوف ہے اگر ایک بار اسے شکست دیں تو دوسری بار آپ کے پاس آنے کی جرأت نہیں کرے گا مگر یہ کہ آپ خود اسے دعوت نہ دیں۔
گناہ کرنے کے بعد اس گناہ کو چھوٹا سمجھنا بہت بڑا گناہ ہے ہو سکتا ہے خدا سب گناہوں کو بخش دے لیکن جو گناہ کو چھوٹا سمجھتا ہے اسے کبھی نہیں بخشتا ہے۔
نماز اول وقت پر پڑھنا ایک بہترین علاج ہے جو اپنی نمازکو اول وقت پر نہیں پڑھتا ہے وہ اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے، کام کرتا ہے لیکن اس میں برکت نہیں ہے، کسی بھی کام اس کا دل نہیں لگتا ہے پس اذان ہوتے ہی سب کاموں کو چھوڑ کر نماز کی طرف دوڑیں چاہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہو، یہ جان لیں کہ نماز سے زیادہ کوئی اہم نہیں ہے۔
میدان ہمیشہ کھلا ہوا ہے جو اللہ کی طرف جانا چاہتا ہے وہ اس عشق کے مقابلوں میں پوزیشن لے کر اللہ سے قریب ہو سکتا ہے اور اللہ کا انعام اور میڈل تو ایک الگ چیز ہے وہ انعام دیتے ہوئے جنت سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہوتا ہے مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
جان لیں تمہاری جانوں کی قیمت جنت ہے پس جنت کے سوا کسی اور چیز کے عوض خود کو نہ بیچیں۔
حوالہ جات:
(1)- الْهَوَى يَقْظَانُ، وَ الْعَقْلُ نَائِمٌ (حلوانى، حسين بن محمد بن حسن بن نصر، نزهة الناظر و تنبيه الخاطر، ص 113)۔
(2)-أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ أَلَا وَ إِنَّ التَّقْوَى مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا وَ أُعْطُوا أَزِمَّتَهَا فَأَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّة (شريف الرضى، محمد بن حسين، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، خطبه 16، ص 57)
(3)- شہید مطہری، توحید فطرت ۔۔۔
(4)- قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى سورہ طہ : 50۔
(5)-بلاغ القرآن ذیل آیہ۔
(6)- دعاے صباح
(7)- تفسير نورالثقلين، ج 2، ص 103-101 و ج 6، ص 153.
(8)-بلاغ القرآن۔ شیخ محسن نجفی دامت برکاتہ فرماتے ہیں: قرآن ایک حیات آفرین اور حیات ساز دستور ہونے کے لحاظ سے مومنین کی فکری اور شعوری تربیت کر رہا ہے تاکہ مومنین اپنے ارد گرد کے مختلف افراد کے ساتھ مناسب روش اختیار کریں۔ منافقین کی نفسیاتی پریشانی، ذہنی اضطراب، اخلاقی پستی اور برے عزائم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور مومنین کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان کے دل مریض ہیں، یہ معاشرتی اصلاح کی آڑ میں اجتماعی فساد پھیلاتے ہیں، تکبر اور احساس برتری جیسے موذی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں۔
(9)- (مترجم) سورہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر18 اور 19 میں خدا فرماتا ہے وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔ یا جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں اور گرج و چمک ہو، بجلی کی کڑک کی وجہ سے موت سے خائف ہو کر وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اور آیت نمبر 20 میں فرماتا ہے: قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادرہے۔ علامہ محسن نجفی دامت برکاتہ فرماتے ہیں: منافقین ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں چار سو تاریکیاں ہیں اور بجلی کی گرج چمک، جہاں ہر وقت موت سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے۔ وہ ذہنی اضطراب سے بچنے کے لیے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں، جیسا کہ آج کا مضطرب انسان نشے اور خواب آور گولیوں کا سہارا لیتا ہے۔
(10)-سورہ مبارکہ انعام کی اکہترویں آیت میں خدا فرماتا ہے: کہدیجیے: کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکتے ہیں اور نہ برا؟ اور کیا اللہ کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد ہم اس شخص کی طرح الٹے پاؤں پھر جائیں جسے شیاطین نے بیابانوں میں راستہ بھلا دیا ہو اور وہ سرگرداں ہو؟ جب کہ اس کے ساتھی اسے بلا رہے ہوں کہ سیدھے راستے کی طرف ہمارے پاس چلا آ، کہدیجیے: ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔
(11)- سورہ مبارکہ حشر آیت نمبر 13 میں خدا ارشاد فرماتا ہے: ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ تمہاری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے، یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ (یعنی)ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت زیادہ بیٹھی ہوئی ہے۔ ان کو اصولاً اللہ کا خوف کر کے مسلمانوں سے لڑنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ ان کی ناسمجھی ہے جس سے ہمیشہ کی زندگی مربوط ہے۔ پس اس سے نہیں ڈرتے اور صرف دنیا کی چند روزہ زندگی سے مربوط باتوں سے خوف کھاتے ہیں۔ اس کے بعد آیت نمبر 14 میں فرماتا ہے : یہ سب مل کر تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں یا دیواروں کی آڑ میں سے، ان کی آپس کی لڑائی بھی شدید ہے، آپ انہیں متحد سمجھتے ہیں لیکن ان کے دل منتشر ہیں، یہ اس لیے ہے کہ وہ عقل سے کام لینے والے نہیں ہیں۔
(12)- سورہ مبارکہ منافقون کی چوتھی آیت میں خدا فرماتا ہے: اور جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے معلوم ہوں گے اور جب وہ بولیں تو آپ ان کی باتیں تو جہ سے سنتے ہیں (مگر وہ ایسے بے روح ہیں) گویا وہ دیوار سے لگائی گئی لکڑیاں ہیں، ہر آواز کو اپنے خلاف تصور کرتے ہیں، یہی لوگ (بڑے) دشمن ہیں لہٰذا آپ ان سے محتاط رہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ علامہ شیخ محسن نجفی دامت برکاتہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زمخشری الکشاف میں لکھتے ہیں: عبد اللہ بن ابی ایک جسیم، بلند قد و قامت کا آدمی تھا اور ساتھ بولنے میں بھی بہت تیز تھا۔ قرآن نے ان منافقوں کو بے جان، بے شعور ایسی لکڑی کے ساتھ تشبیہ دی جو کسی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یعنی مجلس میں ایک بے جان بے شعور لکڑی کی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہیں۔ اس آیت سے یہ تو واضح ہے کہ رسول اللہؐ کا استغفار عام لوگوں کے استغفار کی طرح نہیں ہے۔ رسولؐ کی دعا کو اہمیت نہ دینا نفاق کی علامت ہے۔
(13)- شيخ عباس قمي، سفينة البحار، ماده جهاد.
(14)- غرر الحکم، ج 2، ص 72.
(15)- ایضا ج 5، ص 255.
(16)- ایضا ج5 ، ص 328.
(17)- دیکھئیے سيد اسحاق حسيني کوهساري، «راهکارهاي مقابله با فشار رواني در قرآن»، ص 206-205.
(18)- سورہ مبارکہ تغابن کی گیارہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔ اذن سے مراد اذن تکوینی ہے۔ یعنی اللہ سبب و علت کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ گاہے اذن تشریعی نہ ہو، لیکن اذن تکوینی موجود ہو۔ مثلاً ظالم کی چھری مظلوم کی گردن کاٹ رہی ہو تو چھری میں کاٹنے کی صلاحیت اللہ کی ودیعت کردہ تاثیر سے ہے، یہ اذن تکوینی ہے، جبکہ ایسا کرنے کا اذن تشریعی نہیں ہے۔
ایمان باللہ کی وجہ سے انسان کا زنگ زدہ قلب شفاف ہو جاتا ہے اور تاریکی چھٹ جاتی ہے، پھر راستے کھل جاتے ہیں۔ یہی خاصیت تقویٰ کی بھی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے پر فرقان یعنی امتیاز کی صلاحیت مل جاتی ہے۔
(19)-سورہ مبارکہ کہف آیت 39 میں فرماتا ہے: ور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰه لا قوۃ الا باللّٰه؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے) اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر سمجھتا ہے، سورہ مبارکہ کہف آیت 39 میں فرماتا ہے:
(20)- سورہ حمد : 2
(21)- سورہ مبارکہ تغابن کی آیت 15 میں ارشاد فرماتا ہے: تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں ہی اجر عظیم ہے۔ (یعنی) مال و اولاد سے محروم ہونے کی صورت کا امتحان نسبتاً آسان ہے، لیکن مال و اولاد کی فراوانی کی صورت میں امتحان میں کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ ان دونوں میں سے خصوصیت کے ساتھ مال و دولت کے ذریعے امتحان میں کامیابی اور بھی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔
(22)- سورہ مبارکہ انبیاء کی آیت 35 میں ارشاد فرماتا ہے: ہر نفس کو موت (کاذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔ نفس ذات کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں: بنفس نفیس آیا، یعنی بذات خود آیا۔ پھر ذات انسان کے لیے استعمال ہونے لگا، جیسے فرمایا: هوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ ۔ (اعراف: 189) پھر روح کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ اسی سے خون کے لیے نفس کا استعمال ہونے لگا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے نفس سائلہ اچھلنے والا خون۔ موت، جسم کی روح سے جدائی کا نام ہے۔ خود روح کے لیے موت نہیں ہے۔ آزمایش میں بھی خیر کے ذریعے آزمائش، شر کے ذریعے آزمائش سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ غربت شر ہے۔ اس میں ممکن ہے کہ انسان کامیاب رہے، لیکن دولت خیر ہے، اس آزمائش میں کامیاب رہنا زیادہ مشکل ہے۔ اسی طرح محکوم ہونا بہتر ہے، شاید انسان صبر کرے۔ لیکن حاکم ہونا خیر ہے، اس میں کامیابی بہت کم نظر آتی ہے۔
(23)- سورہ ملک کی ابتدائی آیات میں خدا ارشاد فرماتا ہے: بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضے میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔اس آیت سے بظاہر یہ بات سامنے آتی ہے کہ حسن عمل ہی غرض تخلیق کائنات ہے، لہٰذا جو ہستی حسن عمل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو، وہی غرض تخلیق میں بھی اعلیٰ ترین مقام کی حامل ہو گی۔ اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو آپ یہ فرمان بھی بآسانی سمجھ لیں گے: لولاک لما خلقت الافلاک ۔ (مناقب 1: 216) یعنی (اے محمدؐ! اے مجسمۂ احسن عمل) اگر تو نہ ہوتا تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا۔
(24)-سورہ بقرہ آیات 155 سے 157 تک خدا ارشاد فرماتا ہے : اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جب امتحان گھیر لیتا ہے تو صبر و رضا کے مقام پرفائز انسان کا مؤقف یہ ہوتا ہے : اِنَّا لِله "ہم اللہ کے لیے ہیں ‘‘۔ اس نظریے سے انسان کو آزمائشوں کی منطقی توجیہ میسر آتی ہے کہ وہ فطرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک غفور و رحیم ذات کا عبد ہے جو کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتی۔ لہٰذا یہ مصائب و آلام خود ہمارے ارتقاء کے لیے ہیں ۔ وَاِنَّآ اِلَيْه رٰجِعُوْنَ "اور ہم نے اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے"، ارحم الراحمین کے جوار رحمت میں جانا ہے۔ رجوع الی اللّٰہ کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے اللہ کی بارگاہ میں اسے حاضر ہونا ہے۔ دوسری رجوع اختیاری ہے، جس کے تحت شہداء اور اولیاء اللہ اپنی مرضی سے خود چل کر مشتاقانہ اللہ کی بارگاہ میں جاتے ہیں۔ ان کے لیے موت شہد سے بھی شیریں ہوتی ہے۔ رسول خداؐ سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اعطیتہ ثلاث خصال لو اعطیت واحدۃ منہن ملائکتی لرضوا بہا منی ۔ میں نے اپنے بندے کو تین چیزیں دی ہیں۔ ان میں سے ایک بھی میں اپنے فرشتوں کو دیتا تو وہ خوش ہو جاتے۔ پھر فرمایا: ان میں سے ایک یہ ہے کہ مصیبت کے موقع پر کہے: اِنَّا لِله وَاِنَّآ اِلَيْه رٰجِعُوْنَ ۔ (الکافی 2:13)
ایک ہمہ گیر آزمائش کے بعد جو لوگ مقامِ صبر و رضا پر فائز ہوتے ہیں، ان پر ان کے رب کی طرف سے درود ہے۔ یعنی یہ لوگ صلوات اللّہ علیھم کے مصداق ہیں۔ ائمہ اہل البیت علیہم السلام کو کئی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اس بارے میں امام شافعی کی تعبیر نہایت جامع ہے: تزلزلت الدنیا لآل محمد و کادت لهم صمّ الجبال تذوب "آلِ محمد کے مصائب نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جنہیں دیکھ کر سخت چٹانیں بھی پگھل جائیں"۔ چونکہ یہ ہستیاں اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهمْ کی اوّلین مصداق ہیں، اس لیے ہم ان پر درود بھیجتے ہیں اور ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ علیہم السلام لکھتے ہیں۔
(25)- سورہ حدید کی چوتھی آیت میں فرماتا ہے : تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔
(26)- سورہ مبارکہ قاف کی سولہویں آیت میں خدا ارشاد فرماتا ہے: اور بتحقیق انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو جانتے ہیں جو اس کے نفس کے اندر اٹھتے ہیں کہ ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ اس آیت میں قیامت کے منکروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ: تم انکار قیامت کر کے حساب و کتاب سے بے فکر رہتے ہو۔ تمہارے اعمال و اقوال کے علاوہ ہم تمہارے دل میں اٹھنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں۔ ہم تمہاری رگ گردن سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ یہ ایک محسوس تشبیہ ہے، اس رگ کے ساتھ جس پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے۔ ورنہ اسی رگ گردن میں دوڑنے والے خون کو چلانے والا بھی اللہ ہی ہے
(27)- سورہ مبارکہ توبہ آیت 51 میں ارشاد فرماتا ہے: کہدیجیے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔
(28)- سورہ مبارکہ کہف آیت 23 اور 24 میں ارشاد فرماتا ہے: اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا، مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں اور کہدیجیے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔ اصل فعل و عمل کی نسبت بندے کی طرف بھی ہو سکتی ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے متعدد مقامات پر اعمال کو انسانوں کی طرف نسبت دی ہے۔ یہاں بات استقلال کی ہو رہی ہے کہ کسی عمل کو بطور استقلال اپنی طرف نسبت نہ دو۔ اس کائنات میں اذن و مشیت الٰہی کے بغیر کوئی پتا نہیں ہل سکتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اذن و مشیت الٰہی امور تکوینی سے متعلق ہیں، امور تشریعی سے نہیں۔
دوسرے جملے میں فرمایا کہ اگر آپ بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ یہاں خطاب اگرچہ اپنے حبیب سے ہے، لیکن ان لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے جن کے لیے یہ قرآن دستور حیات ہے، {سر دلبران در حدیث دیگران}۔
(29)- دیکھیں: سيد اسحاق حسيني کوهساري، «راهکارهاي مقابله با فشار رواني در قرآن»، ص 208-207
(30)-کہدیجیے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔
_ سورہ مبارکہ توبہ آیت 52 میں ارشاد ہوتا ہے: کہدیجیے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔
ان دو آیتوں میں فتح و شکست اور دکھ سکھ کی حالت میں مومن اور منافق کے نقطۂ نظر اور عملی کیفیت کا موازنہ ہوا ہے۔ وہ یوں کہ منافق کی نگاہ محسوسات تک محدود ہوتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے دکھ، شکست و ناکامی پر خوش ہوتا ہے۔خود ان کے ان حالات سے دوچار نہ ہونے کو وہ اپنی حسن تدبیراور احتیاطی پیش بندی کا نتیجہ قرار دیتا ہے جبکہ مومن کی نگاہ اپنے مولا و سرپرست پر ہوتی ہے۔ وہ وقتی فتح و شکست اور وقتی دکھ سکھ پر بھروسہ نہیں رکھتا بلکہ وہ ان تمام محسوسات سے بالاتر ہو کر اللہ کی حکمت و سرپرستی پر یقین رکھتا ہے۔یوں وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتا ہے اور ہر حالت کو اپنے لیے عطیہ الٰہی سمجھتا ہے
(31)- اور تمہارا رات میں سو جانا اور دن میں اس کا فضل (رزق) تلاش کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے، (دلائل کو توجہ سے) سننے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔ نیند اللہ کی واضح نشانی ہے جس سے انسان کو وہ طاقت واپس مل جاتی ہے جو دن میں زندگی کی دوڑ دھوپ میں خرچ ہو گئی تھی۔ اگر انسان کی تخلیق ایک باشعور و باارادہ ہستی کی طرف سے نہ ہوئی ہوتی تو اندھے بے شعور مادے کو نیند کے ذریعے انسان کو ہمیشہ مستعد رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ نیند ایک نعمت ہے۔ اس زندگی کا گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ دنیا ہمیشہ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں چلتی پریشانی اور ذہنی تناؤ اس زندگی کا حصہ ہیں۔ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔ دوسری طرف دن بھر کی جفاکشی اور محنت کے بعد آپ کے اعصاب تھک جاتے ہیں۔ نیند ایک ایسی نعمت ہے جس میں انسان تمام پریشانیوں سے بے خبر سو جاتا ہے، خستہ اعصاب کو سکون ملتا ہے اور بدن کی صلاحیتیں دوبارہ تازہ دم ہو جاتی ہیں۔
(32)- سورہ مبارکہ یونس :67 کائناتی نظام میں باہمی ربط اور وحدت سے خالقِ نظام کی وحدت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ رات کا وجود دن کے وجود کے ساتھ متصادم ہو بلکہ یہ دونوں ایک نظام کی تشکیل میں مددگارہیں۔ قرآن توحید کے اثبات کے لیے دن اور رات کی حکمت پر زیادہ تکیہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین پر بسنے والوں کے لیے کائنات کے سب سے زیادہ واضح اور محسوس مظاہر قدرت ہیں۔
اسی طرح سورہ مبارکہ غافر کی آیت 61 میں بھی اللہ پاک کا ارشاد ہے: اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
اور سورہ مبارکہ نمل کی چھیاسویں آیت میں فرماتا ہے: کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات اس لیے بنائی کہ وہ اس میں سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا؟ ایمان لانے والوں کے لیے اس میں یقینا نشانیاں ہیں۔
(33)-سورہ مبارکہ نبأ 9 – 10 ۔ سبات معطل کرنے کو کہتے ہیں۔ نیند کی حالت میں انسان کی تمام قوتیں معطل اور جمود کی حالت میں ہوتی ہیں۔ دن کی سرگرمیوں کی وجہ سے صرف شدہ انرجی کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے قدرت کی طرف سے یہ نیند ایک عظیم معجزہ ہے۔ دن میں منتشر شدہ انرجی کی بحالی اور واپسی جس ذات کے لیے ممکن ہے، وہ بدن کے منتشر شدہ اجزا کے اعادہ پر بھی قدرت رکھتی ہے۔ (بلاغ القرآن، شیخ محسن علی نجفی)
اسی طرح سورہ مبارکہ فرقان کی سینتالیسویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے: اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو سکون اور دن کو مشقت کے لیے بنایا۔ دن رات کی گردش میں یہ حکمت ہے کہ رات کو انسان نیند میں آرام کر کے چارج ہو جاتا ہے اس طرح دن کو اپنی دنیا و آخرت کے لیے بہتر فعالیت کر سکتا ہے۔
(34)- محمود بستاني، اسلام و روان شناسي، ترجمه محمود هويشم، ص 320-307.۔
(35)- سورہ روم آیت 21
(36)- (مترجم) علامہ شیخ محسن علی نجفی اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں: ۔ اول تو زن و مرد کی تخلیق میں توازن روز اول سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ نہ عورتوں کے لیے مردوں کی قلت پیش آتی ہے اور نہ مردوں کے لیے عورتوں کی قلت۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش ودیعت فرمائی کہ ایک کو دوسرے سے سکون مل جائے۔ سوم یہ کہ ان دونوں میں حاکم اور محکوم کا نہیں، محبت و شفقت کا رابطہ قائم کیا۔ دونوں احترام آدمیت میں مساوی ہیں۔
(37)-سورہ اسراء آیت 23۔ اس کے فورا بعد آیت 24 میں خدا ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً ﴾اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔ (شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں) جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں، اولاد کو بھی خرد سالی میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ نے اس ضرورت کو فطرت کے ذریعے پورا کیا اور والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اولاد کو جان سے عزیز سمجھتے ہیں، جبکہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین فریضہ قرار دیا، کیونکہ انسان فطرتاً آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اولاد والدین کو فراموش کرتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے: اَدْنَی الْعُقُوقِ اُفٍّ وَ لَو عَلِمَ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ شَیْئاً اَهوَنَ مِنْه لَنَهی عَنْه ۔ (اصول الکافی 2: 348) کم ترین نافرمانی اف کرنا ہے۔ اگر اس سے بھی کمتر بات ہوتی تو اللہ اس سے بھی منع فرماتا۔
(38)- سورہ مبارکہ یوسف آیت 92
(39)- سورہ مبارکہ بقرہ : 216
(40)- سورہ نساء : 19
(41)- مکارم شيرازي، القواعد الفقهيه، ج 3، ص 170-169.
(42)-احسا يى، ابن ابى جمهور، محمد بن على، عوالي اللئالي العزيزية ج4، ص: 58
(43)-سورہ رعد : 21 انسان کے وجود کے اندر ایک اور انسان ہے جسے ہم ضمیر، وجدان، قلب اور فطرت کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارا داخلی انسان یعنی ہمارا ضمیر اور وجدان کبھی کوئی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ لیکن ظاہری انسان جب کبھی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو داخلی انسان سرزنش اور محاسبہ کرتا ہے، جسے ہم ضمیر کی ملامت کہتے ہیں۔ اس صورت میں ان دونوں انسانوں میں داخلی جنگ چھڑ جاتی ہے اور انسان اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ظاہری انسان داخلی انسان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے تو داخلی ہم آہنگی اور آشتی سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ ذکرخدا فطری تقاضوں کے عین مطابق ہونے اور ضمیر، وجدان سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے سکون حاصل ہوتا ہے۔
(44)-سيد ابوالقاسم حسيني، اصول بهداشت رواني، ص 197-195 اور اسی طرح سيد اسحاق حسيني کوهساري، «راهکارهاي مقابله با فشار رواني در قرآن»، ص 213-212. :
(45)-سورہ بقرہ آیت 152 میں ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔ تعلیم کے بعد" ذکر " کا مقام ہے۔ جو شخص مقام " ذکر " پر فائز ہو، وہ اَذْكُرْكُمْ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اسے یاد فرماتا ہے اور یہی عبد کی کامیابی ہے
(46)-سورہ مبارکہ طہ : 124
(47)-جو قلب ذکر خدا سے معطر نہ ہو اسے زندگی کا لطف نہیں آتا۔ یہ قلب اپنے خالق سے بہت مانوس ہوتا ہے اس سے جدائی کی صورت میں اسے سکون نہیں ملتا خواہ دنیا کی ساری دولت اور حکومت اس کومیسر آ جائے۔ اس سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ انسان صرف اس دنیا کی زندگی کے لیے پیدا نہیں ہوا، کیونکہ اس دنیا کی ریل پیل سے اس کا جی نہیں بھرتا، بلکہ وہ مزید بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگر یہ انسان صرف اسی زندگی کے لیے پیدا ہوا ہوتا تو اسی دنیا کی چیزوں سے اسے اس طرح سکون ملنا چاہیے تھا جس طرح مچھلی کو پانی میں سکون ملتاہے۔
(48)-سورہ مبارکہ آل عمران : 135 میں اللہ کا ارشاد ہے : اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یاوہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کا بخشنے والا کون ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح سورہ مبارکہ کہف آیت 28 میں بھی خدا فرماتا ہے : اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیاہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔
یہ اللہ کا احسان ہے کہ معصیت کے بعد انسان احساس گناہ کرتا ہے اگر احساس گناہ نہ کرئے تو انسان بے حیا بن جاتا ہے کسی بھی کناہ کو چھوٹا سمجھنا سب سے بڑا گناہ ہے پس خدا سے دعا کرے کہ اس عظیم نعمت کو ہم سے نہ چھین لے۔
(49)-سورہ مبارکہ عنکبوت : 45 دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں جانے والا شخص اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر بے حیائی اور برائی کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ البتہ ارتکاب گناہ ناممکن نہیں، ارتکاب کرنا ممکن رہ جاتا ہے۔ مگر جس کے دل میں یہ شعور بیدار ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہے وہ جرم کے ارتکاب سے شرماتا اور ڈرتا ہے۔ نماز نمازی کے ضمیر کو بیدار رکھتی ہے جس سے گناہ کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر بہت سے نمازی بدعمل کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز برائیوں سے روکنے کے لیے علت تامہ نہیں ہے، مقتضی ہے۔ مثلاً دوستی کسی کی حمایت کے لیے مقتضی ہے، علت تامہ نہیں۔ ممکن ہے دیگر تقاضوں سے متصادم باتوں کی وجہ سے دوستی کے تقاضے پورے نہ ہوں۔ پھر نماز اگر صرف عادت کے طور پر پڑھی جائے، ضمیر اور وجدان نماز نہ پڑھے تو ایسی نمازوں کے اثرات بھی کمزور ہوتے ہیں ۔ وَلَذِكْرُ الله اَكْبَرُ : نماز اللہ کا ذکر ہے اور ذکر خدا فحشاء و منکر کو دور کرنے سے بڑا ہے یا تمام اعمال سے بڑا ہے یا قابل وصف و بیان سے بڑا ہے۔
(50)-مترجم: مل کر خدا کو یاد کرنے دعا و مناجات کرنے کے ہزاروں فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی اجتماع میں سب مل کر خدا کو پکارتے ہیں تو شاید ان میں کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جس کی دعا رد نہ جائے اگر خدا اس ایک انسان کی دعا کو قبول کرے تو باقی گناہ گار لوگوں کی دعا کو بھی قبول کرے گا اس کی فضل و کرم کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس مجمع میں سے بعض کی دعا کو سنے بعض کو نہ سنے۔
(51)-حسن محمّد شرقاوي، گامي فراسوي روان شناسي، ترجمه دکتر سيد محمّد باقر حجّتي، ص 356-355.
(52)-وَ مَنْ يَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرينٌ» سورہ مبارکہ زخرف : 36 اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ اور ایک جرم دوسرے جرم کے ارتکاب کے لیے زینہ بنتا ہے۔ ایک بار کسی جرم کے مرتکب ہونے سے شیطان کے دام میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے شیطان کے دام میں چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ اس سے ہاتھ اٹھا لے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دے۔ اس صورت میں اسے راہ حق دکھانے والا کوئی نہ ہو گا۔ پوری طرح شیطان کے دام میں پھنس جائے گا۔ نُـقَيِّضْ کی نسبت اللہ کی طرف اس طرح ہے کہ اللہ نے اسے اس کے جرم کی پاداش میں اپنے حال پر چھوڑ دیا تو وہ شیطان کے زیر تسلط چلا گیا۔
(53)-خدا اپنی کتاب میں رسول اللہ ص کو ان لوگوں سے دوری اختیار کرنے حکم دے رہا ہے جو خدا کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں سورہ مبارکہ نجم آیت 29 میں ارشاد ہوتا ہے: پس آپ اس سے منہ پھیر لیں جو ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور صرف دنیاوی زندگی کا خواہا ں ہے۔( یعنی) حق سے نفرت کرنے والے دنیا پرستوں سے دور ہٹ کر اپنی ساری توجہ اس جماعت کے لوگوں کی طرف رکھنی چاہیے جو حق کی بات سننے کے لیے آمادہ ہیں، کیونکہ یہی لوگ اس دعوت کو آگے بڑھائیں گے۔ اور آیت 30 میں فرماتا ہے: یہی ان کے علم کی انتہا ہے آپ کا پروردگار یقینا بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پر ہے ۔جو لوگ صرف دنیوی زندگی کو مقصد حیات سمجھتے ہیں، ان کی علمی سطح جانوروں سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی لیے دعاؤں میں آیا ہے: وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَ لاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا ۔ (مستدرک الوسائل 6:285) اے اللہ! ہم کو ایسا نہ بنا دے کہ دنیا ہی ہمارا سب سے بڑا مقصد اور ہمارے علم و آگہی کی انتہا قرار پائے۔
(54)-ويکتور فرانکل، انسان در جست و جوي معني، ص 42-38
(55)-سورہ مبارکہ آل عمران آیت 146 میں ارشاد فرماتا ہے: اور کتنے ہی ایسے نبی گزرے ہیں جن کی ہمراہی میں بہت سے اللہ والوں نے جنگ لڑی لیکن اللہ کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے نہ وہ بد دل ہوئے نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ خوار ہوئے اور اللہ تو صابروں کو دوست رکھتا ہے۔ علامہ شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: اس آیت میں دیگر اقوام کی سیرت و کردار کی روشنی میں نصیحت بھی ہے اور ملامت و عتاب بھی کہ انبیاء کے ساتھ بہت سے لڑنے والے ایسے تھے جو مصائب میں نہ بد دل ہوئے، نہ کمزوری دکھائی اور وہ خوار و رسوا بھی نہیں ہوئے۔ یعنی وہ تمہاری طرح نہیں تھے۔ کیونکہ تم نے جنگ میں کمزوری دکھائی اور بددل ہو کر ہمت ہار دی جس کے نتیجے میں تم رسوا ہو گئے۔
(56)-سورہ مبارکہ احقاف : 35
(57)-اگر چہ تمام انبیاء اپنے مقام پر عزم و حوصلہ کے مالک تھے، تاہم جن انبیاء کو شریعت دی گئی ہے، انہیں اولو العزم انبیا ء کہتے ہیں۔ وہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
(58)-سورہ مبارکہ ق : 39
(59)-سورہ مبارکہ جن : 13
(60)-سورہ مبارکہ یونس : 62 ۔ اولیاء اللہ کے دل میں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں آداب زندگی میں خلل نہ آئے۔ یہ خوف ولی اللہ کو ہر خوف سے نجات دلاتا ہے۔ وہ رنجیدہ و غمگین نہیں ہوتے، کیونکہ غمگین وہ ہوتا ہے جس نے کسی متاع عزیز کو کھویا ہو۔ ولی اللّٰہ کا نعرہ یہ ہے: ما ذا وجد من فقدک و ما الذی فقد من وجدک ۔ جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا اور جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا؟ (امام حسینؑ دعائے عرفہ۔ بحار الانوار 95: 226)
(61)-سورہ مبارکہ بقرہ : 156
(62)-محمود بُستاني، اسلام و روان شناسي، ترجمه محمود هويشم، ص 193-
(63)-اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰه لا قوة الا باللّٰه؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے) اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر سمجھتا ہے، سورہ مبارکہ کہف آیت 39 میں فرماتا ہے:
(64)-سورہ مبارکہ کہف آیت 23 میں خدا فرماتا ہے: اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں اور کہدیجیے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔
(65)-سورہ مبارکہ توبہ آیت 52 میں خدا فرماتا ہے: کہدیجیے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔
(66)-سورہ مبارکہ تغابن میں خدا فرماتا ہے: مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔
(67)-سورہ مبارکہ بقرہ : 156
(68)-سورہ مبارکہ توبہ آیت 51 میں ارشاد ہوتا ہے : اگر آپ کا بھلا ہوتا ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کہتے ہیں: ہم نے پہلے ہی سے اپنا معاملہ درست کر رکھا ہے اور خوشیاں مناتے ہوئے لو ٹ جاتے ہیں۔ علامہ شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: یہ کائنات کے بارے میں دو مختلف تصورات و نظریات کا موازنہ ہے۔ایک کے مطابق ہر صورت میں کامیابی اور دوسرے مؤقف کے مطابق ہر صورت میں ناکامی ہے۔ مومن مجاہد کو فتح ملتی ہے تو بھی کامیابی اور اگر شہادت نصیب ہوتی ہے تو رضائے رب کا حصول اس سے بھی بڑی کامیابی ہے، جبکہ کافر کو اگر فتح ملتی ہے تو چند دنوں کے لیے وہ زندہ رہے گا اور آخرت میں ان کے لیے عذاب الیم ہے نیز اگر قتل ہو جائے تو بھی عذاب الیم ہے۔
(69)-نهج البلاغه، حکمت 16.
(70)-سورہ مبارکہ حدید آیت 23 میں ارشاد فرماتا ہے :
لِکَيْلاَ تَاْسَوْا عَلي مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَآ ءاتيکُمْ
تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا لہٰذا جو کچھ رونما ہونے والا ہے وہ اس عام قانون کے تحت ملنے والی خود مختاری کے مطابق ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے بعد نہ نقصان کی صورت میں دل شکنی ہونی چاہیے اورنہ کچھ منافع ملنے پر آپے سے باہر ہو جانا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے الزهد کلمة بین کلمتین من القرآن ۔ قال الله سبحانه لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ فمن لم یاس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزهد بطرفیه ۔ (نهج البلاغة۔ بحار الانوار67: 320) پورا زہد قرآن کے دو کلموں کے درمیان ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو چیز ہاتھ سے چلی جائے،، اس پر رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز اللہ تم کو دے دے اس پر اترایا نہ کرے۔‘‘ جو شخص گزشتہ پر رنجیدہ نہ ہو اور آنے والی چیز پر اترایا نہ کرے، اس نے زہد کو دونوں طرف سے پکڑ لیا۔
(71)-سورہ مبارکہ نجم : 39 ، 40 ہر شخص نے اپنے عمل کا پھل لینا ہے۔ دوسروں کے عمل سے وہ یہ پھل حاصل نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ اس عمل میں اس کا بھی حصہ ہو۔ ایصال ثواب کا مطلب یہ ہے کہ جو عمل ایصال ثواب کے لیے کیا جاتا ہے، عمل کرنے والے کو اس کا ثواب مل جاتا ہے اور چونکہ اس نے اس عمل کا ثواب کسی مرحوم کے لیے ہدیہ کیا ہے، لہٰذا اللہ اس کی یہ خواہش پوری کرتے ہوئے اس مرحوم کے لیے بھی ثواب دے گا۔ یہ اللہ کی طرف سے خاص لطف اور فضل ہے۔ چنانچہ اسی خاص لطف و کرم کی بنا پر ایصال ثواب ہو سکتا ہے لیکن ایصال عذاب نہیں ہو سکتا۔
(72)-سورہ مبارکہ فاطر آیت 43 میں خدا فرماتا ہے: لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔ سنۃ اللہ سے مراد قانون الہٰی ہے، جو مجرمین کے لیے ہے۔ اس میں نہ کوئی تبدیلی آئے گی کہ سزا کی جگہ انعام دیا جائے، نہ کوئی تحویل ہو گی کہ مجرم قوم کی جگہ دوسری قوم کو سزا ملے، بلکہ اللہ کا قانون اٹل ہے اور اس قانون کی زد میں صرف مجرم ہی آئیں گے۔ حدیث میں آیا ہے: پانچ چیزیں اگر کسی میں ہوں تو اس کے خلاف ثابت ہوں گی۔ پوچھا گیا یا رسول اللہؐ وہ پانچ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: عہد شکنی، مکر، بغاوت، دھوکہ اور ظلم۔(معدن الجواہر ص48)
اسی طرح سورہ مبارک فتح آیت 23 میں خدا فرماتا ہے: اللہ کے دستور کے مطابق جو پہلے سے رائج ہے اور آپ اللہ کے دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ یہ الٰہی دستور و قانون ہے۔ تمام امتوں کے لیے رائج ہے۔ چنانچہ بدر میں مسلمانوں سے کوئی جنگی خیانت سرزد نہیں ہوئی تو اسلام کے ایک بے سر و سامان چھوٹے سے لشکر کو کفر کی بڑی طاقت پر فتح بھی دے دی گئی۔
(73)-سورہ مبارکہ زاریات آیت 58 میں خدا فرمات ہے: یقینا اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، بڑی پائیدار طاقت والا ہے۔
(74)-سورہ مبارکہ آل عمران آیت 158 میں خدا فرماتا ہے: اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ آخرکار اللہ کی بارگاہ میں اکھٹے کیے جاؤ گے۔
(75)-سورہ مبارکہ احزاب آیت 16 میں اپنے رسول کو حکم دے رہا ہے: کہدیجیے: اگرتم لوگ موت یا قتل سے فرار چاہتے ہو تو یہ فرار تمہیں فائدہ نہ دے گا اور (زندگی کی) لذت کم ہی حاصل کر سکو گے۔
(76)-سورہ مبارک فاطرآیت 11 میں ارشاد فرماتا ہے: اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا بنا دیا اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اللہ کے علم کے ساتھ اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگریہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے، یقینا یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔ اللہ کے ہاں لوح محفوظ میں پہلے سے یہ ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ کس کی کیا عمر ہو گی؟ اسے تقدیر کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ تقدیر کا مطلب نظام اور قانون ہے۔ اللہ کے ہاں ہر کام ایک نظام کے تحت انجام پاتا ہے۔ اگر تقدیر نہ ہوتی تو بدنظمی و اندھیر نگری ہوتی۔ تقدیر کا مطلب جبر نہیں ہے، بلکہ تقدیر کا مطلب اختیار و انتخاب ہے۔ اگر کسی شخص کے لیے ایک تقدیر ہوتی تو جبر ہوتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ہر ایک شخص کو بہت سے مقدرات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، چنانچہ حضرت علی (ع) ایک ایسی دیوا
(77)-سورہ مبارکہ زمر آیت 53 میں اپنے گناہ گار بندوں سے کہہ رہا ہے: کہدیجیے:اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ، مہربان ہے۔ یہ محبت بھرا خطاب تمام انسانوں سے ہے۔ یہاں ارتکاب جرم کے بعد اللہ کی طرف پلٹنے (توبہ کرنے) کی بات ہے، وگرنہ جرم کے ارتکاب کے ساتھ عفو اور درگزر نامعقول بات ہے کہ قوم جرم کا ارتکاب جاری رکھے اور ساتھ معافی بھی جاری رہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ جرم کا ارتکاب ممکن ہونے کی صورت میں بندہ توبہ کرے تو تمام گناہ بخشے جائیں گے، خواہ شرک ہو یا غیر شرک اور اگر جرم کے ارتکاب کا امکان ختم ہو جائے، یعنی موت آ جائے تواس صورت میں اللہ مشرک کو معاف نہیں کرتا۔ شرک کے علاوہ باقی گناہ پھر بھی معاف ہو سکتے ہیں: اِنَّ الله لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (نساء :48) اللہ شرک کو نہیں بخشتا، اس سے کمتر (گناہوں) کو جس کے لیے چاہےبخش دیتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ قرآن میں اس آیت سے وسیع تر کوئی آیت نہیں ہے۔ ممکن ہے وسعت سے مراد یہ ہو کہ یہ آیت سب بندوں اور سب گناہوں کو شامل ہے۔
(78)-خدا وند عالم قرآن کریم سورہ مبارکہ انبیاء 87 سے 89 تک حضرت یونس کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اور ذوالنون کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب وہ غصے میں چل دیے اور خیال کرنے لگے کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے، چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے : تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے انہیں غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔
87۔ ذوالنون حضرت یونسؑ کا لقب ہے۔ یعنی مچھلی والے، وہ اپنی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ ان کومچھلی نے نگل لیا۔ اللہ نے ان کو نجات دی۔ یہ نجات کوتاہی کے اعتراف اور تسبیح کی وجہ سے دے دی گئی۔ پھر تمام اہل ایمان کے لیے نوید سنائی کہ ان کو بھی اسی طرح غم سے نجات مل جایا کرے گی۔ اگر مؤمن، یونس (ع) کی طرح صدق دل سے اللہ کو پکارے تو اللہ بھی اس کو اسی طرح نجات دے گا جس طرح یونسؑ کو نجات دی ہے۔
اور اس کے بعد والی آیات میں حضرت زکریا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: اور زکریا کو بھی (رحمتوں سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ (بے اولاد نہ چھوڑ) اور تو بہترین وارث ہے۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔
اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے دو سبب ہوتے ہیں: اس کی خوشنودی کا شوق اور اس کی ناراضی کا خوف۔ خوف و امید کے درمیان میں رہ کر ہی بندگی کرنا مستحسن ہے۔ انسانی تخلیق کے لیے پہلے نطفہ، پھر اس میں روح پھونکنا ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ (ع) کی ولادت قانون فطرت کے دائرے سے خارج نہ تھی۔ صرف یہ کہ حمل اور نفخ روح دو الگ مرحلوں میں نہیں ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے، بلکہ یہ کام ایک ہی مرحلے میں ہو گیا یعنی نفخ روح کے ساتھ ساتھ۔
(79)-سورہ مبارکہ نجم آیت 43 میں فرماتا ہے: اور یہ کہ وہ ہنساتا اور وہی رلاتا ہے۔
(80)-سورہ مبارکہ شعراء آیت 78 سے 82 تک ارشاد فرماتا ہے جس نے مجھے پیداکیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے، اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔
حضرت ابراہیمؑ اپنے رب کے ساتھ اپنا رابطہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں میری خلقت و ہدایت ہے، میرا رزق و شفا ہے، میری حیات و موت ہے ، میری امیدوں کا آخری مرکز وہی ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ معصوم ہونے کے باوجود اپنے رب کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو قصوروار سمجھنا ہی بندگی ہے۔ جب میں مریض ہوتا ہوں۔ بیماری کو اپنی طرف نسبت دی اور شفا کو اللہ کی طرف۔ کیونکہ بیماری کے علل و اسباب انسان کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ ان ہستیوں سے گناہ سرزد ہوا ہو بلکہ معصومین (ع) کا استغفار کرنا نافرمانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ وہ اپنی اطاعت اور عبادت کو اللہ کی عظمتوں اور نعمتوں کے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی عبادت بجا لائیں، پھر بھی کوتاہی سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر استغفار کرتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ ما عبدناک حق عبادتک (بحار الانوار 68:23) ہم نے تیری اس طرح بندگی نہیں کی کہ بندگی کا حق ادا ہو جائے۔
(81)-سورہ مبارکہ حج آیت 38 م میں اللہ تعالی تعالی ارشاد فرماتا ہے: اللہ ایمان والوں کا یقینا دفاع کرتا ہے اور اللہ کسی قسم کے خیانت کار ناشکرے کو یقینا پسند نہیں کرتا۔ اہل ایمان کا دفاع اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان بھی بنی اسرائیل کی طرح اپنے رسولؐ سے کہیں: آپ اور آپ کا رب لڑائی کریں، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ اللہ ان ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے جو اللہ اور رسولؐ کے دستور پر عمل کرتے ہیں اور دشمن کے مقابلے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کرتے ہیں۔
(82)-سورہ مبارکہ ابراہیم آیت 27 میں ارشاد باری تعالی ہے: اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اپنے آپ کو شجرہ طیّبہ جیسے عظیم اور پائیدار درخت کے ساتھ پیوست کیا اور اپنے آپ کو اللہ کی عنایتوں کا سزاوار اور اہل ثابت کر دیا ہے، ایسے مومنوں کو اللہ دنیا میں ثابت قدمی بخشتا ہے کہ مشکلات و مصائب ان کو متزلزل نہ کر سکیں۔
(83)-حضرت موسیٰ (ع) کے مواعظ کے یا ان کے للکارنے کے نتیجے میں فرعونیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا کہ موسیٰ (ع) کا مقابلہ کیا جائے یا نہیں۔ ان لوگوں نے آپس کے مشورے کو چھپا کر ایسے نعرے بنا لیے جن سے وہ لوگوں کے جذبات ابھارنا چاہتے تھے کہ موسیٰ (ع) حکومت و اقتدار پر قابض ہونا، تمہیں اس ملک سے بے دخل کرنا اور تمہارے مثالی طور و طریقے کا خاتمہ چاہتے ہیں، لہذا تم اپنی تدبیر کو مزید مستحکم کرو،کیونکہ آج فیصلہ کن دن ہے۔
(84)-سیاق کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (ع) کے ساتھ مقابلے کے موضوع پر اختلاف تھا اور مقابلے کے لیے ساحروں ہی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ لہذا امکان یہی ہے کہ ساحروں میں یا ساحروں اور درباریوں میں اختلاف تھا۔ فرعون اس مقابلے کو فیصلہ کن قرار دے رہا ہے کہ جو آج جیت جائے گا ، کامیابی اسی کا مقدر ہے۔
(85)-حضرت موسیٰ (ع) نے ساحروں کو پہل کرنے کے لیے کہا تاکہ باطل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے۔ اس طرح حق باطل کو جب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی مہلت دیتا ہے اور باطل اس مہلت میں اچھل کود کرتا ہے تو چشم ظاہر بین انجام کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کرتی ہے۔ چنانچہ باطل نے اپنی کاذب طاقت کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰ (ع) کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس باطل کو کامیابی تصور کیا گیا۔ خیال میں آیا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں جبکہ حقیقت میں ان لاٹھیوں اور رسیوں میں روح نہیں آئی تھی ۔ لیکن جادو کا مطلب یہی ہے ایک غیر واقعی چیز کو واقعی دکھایا جائے ۔
(86)-حضرت موسیٰ (ع) کا خوف یہ تھا کہ کہیں اس بھرپور جادو کو دیکھ کر لوگ برگشتہ ہو کرگمراہ نہ ہو جائیں۔
(87)-ان لاٹھیوں اور رسیوں کا نگل جانا ہمارے محسوس اور مانوس مادی علل و اسباب کی رو سے تو قابل فہم نہیں ہے، البتہ اُ ن ناقابل تسخیر علل و اسباب سے اس کی توجیہ ہو سکتی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی گرفت ہے اور اسی کو معجزہ کہتے ہیں
(88)-انہیں یقین حاصل ہو گیا کہ حضرت موسیٰ (ع) نے عصا کے ذریعے جو کام انجام دیا ہے وہ جادو نہیں ہے کیونکہ جادو کے ماہرین اس راز کو جانتے تھے جس سے جادو کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔
(89)-’’میری اجازت سے پہلے‘‘ کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اجازت کے بعد ایمان لانے میں کوئی حرج نہ تھا۔ ممکن ہے مطلب یہ ہو کہ میرا مؤقف سننے سے پہلے۔ چنانچہ وہ اپنا مؤقف بتا دیتا ہے کہ یہ تمہاری اور موسیٰ (ع) کی ملی بھگت ہے بلکہ موسیٰ تمہارا استاد ہے جس سے تم نے جادو سیکھ لیا ہے۔ یہ ایک نعرہ تھا جس سے رائے عامہ کو اپنے خلاف اور موسیٰ (ع) کے حق میں جانے سے روکنا چاہتا تھا، ورنہ سب ہی کو معلوم تھا کہ یہ جادوگر موسیٰ (ع) کے شاگرد نہیں ہیں۔
(90)-جن کے قلب و وجدان پر مفادات کے پردے پڑے ہوئے تھے اور فرعون کی طاغوتی طاقت کی قسم کھا کر حضرت موسیٰ (ع) کو زیر کرنے کی باتیں کرتے تھے، آج حقائق سے پردہ اٹھ جانے کے بعد یہی لوگ فرعون کی طاغوتیت کو اعتنا میں نہیں لاتے اور نہایت دلیری سے کہ رہے ہیں: جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال۔ ایمان ویقین کی منزل پر آنے کے بعد دنیا کی زندگی حقیر نظر آنے لگتی ہے اور حقائق کے وسیع صفحات کھل جاتے ہیں۔
(91)-ایمان و یقین کی منزل پر فائز ہونے کے بعد جن الٰہی قدروں کا ان ساحروں نے اعلان کیا ہے وہ نہایت قابل توجہ ہیں:1۔ ایمان کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد کفر کی حالت کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ 2۔ فرعون نے ان ساحروں کو حضرت موسیٰ (ع) کے مقابلے کے لیے مجبور کیا تھا، ممکن ہے یہ جبر اس وقت عمل میں آیا ہو جب حضرت موسیٰ (ع) کا موعظہ سننے کے بعد فرعونیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ 3۔ یقین کی منزل پر فائز ہونے پر ان کے لیے واضح ہو گیا کہ فرعون کے مقابلے میں جو اللہ کے پاس ہے وہ ابدی اور دائمی ہے۔ 4۔ جو مجرم بن کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچے گا اسے زندگی کی لذت ملے گی، نہ موت کی راحت۔ 5۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو نجات ہے۔ 6۔ جنت عدن کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔
(92)-سورہ تحریم : 11
(93)-سورہ مبارکہ آل عمران آیت 185 میں ارشاد فرماتا ہے: ر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تمہیں تو قیامت کے دن پورا اجر و ثواب ملے گا (در حقیقت) کامیاب وہ ہے جسے آتش جہنم سے بچا کرجنت میں داخل کر دیا جائے، (ورنہ) دنیاوی زندگی تو صرف فریب کاسامان ہے۔ یہ ارضی زندگی عارضی ہے۔ اس نے گزر جانا ہے ۔ اس وقتی زندگی کو کامیابی اور ناکامی کا معیار نہیں بنانا چاہیے۔ یہاں کسی کو فراوان نعمتیں دی گئی ہیں، کوئی جاہ و جلالت کی کرسی پر متمکن ہے تو کوئی مصائب و مشکلات میں مبتلا ہے۔ یہ امور حق و باطل اور کامیابی و ناکامی کے حتمی نتائج نہیں ہیں۔اس آزمائشی اور وقتی زندگی میں اجر و ثواب کی توقع نہ رکھو۔ یہ دار عمل ہے، دار ثواب نہیں ہے۔ اس لیے روز قیامت سارے کا سارا اجر و ثواب پاؤ گے ۔
(94)-سورہ مبارکہ فجر کے آخری آیات میں خدا فرماتا ہے ۔ اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔اور میری جنت میں داخل ہو جا روایت کے مطاق ہر مؤمن کو احتضار کی حالت میں پنجتن پاک علیہم السلام نظر آئیں گے اور یہی ندا آئے گی: میرے بندوں! محمد و اہل بیت محمدؐ کے ساتھ شامل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ، تو اس وقت اس کے لیے موت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہو گی۔ (الکافی 3: 127) تاہم اس آیت کا صریح ترین مصداق سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے۔
(95)-سورہ انعام آیت 73 میں ارشاد فرماتا ہے: اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا۔
اسی طرح سورہ آل عمران آیت 191 میں ارشاد فرماتاہے: جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔ شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: اللہ کی آفاقی آیات کا مطالعہ کرنے والے صاحبان عقل پر جب معرفت الٰہی کا دروازہ کھل جاتا ہے تو یہ نتائج قدرتی طور پر مترتب ہوتے ہیں: ٭ اس کے قلب وضمیر میں ذکرِ خدا رچ بس جاتا ہے، وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یادکرتا ہے۔٭اس کا آفاقی مطالعہ جاری رہتاہے اور اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذَا بَاطِلًا یعنی پروردگارا یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا۔ ٭ فہم و معرفت کی یہ منزل پانے کے بعد انسان پر اپنی خلقت اور اپنے وجود کا راز منکشف ہو جاتا ہے اور فوراً دست دعا بلند ہو جاتاہے: فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
سورہ انبیاء آیت 16 اور 17 میں ارشاد فرماتا ہے: اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔ اگر ہم کھیل کا ارادہ کرتے تو ہم اسے اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے (تو تمہیں خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔ (لہو و لعب ایک خیالی اور وہمی دل جوئی ہے جس کا کوئی معقول اور مفید نتیجہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ لہویات سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے، وہ نہ تنہائی سے تنگ ہوتا ہے نہ اسے کسی دل جوئی کی ضرورت ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا: اگر بفرض محال کسی دل جوئی کی ضرورت ہوتی تو اللہ یہ کام اپنے وجود سے لے سکتا تھا، اتنی بڑی کائنات بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اس کائنات کو عبث نہیں، بلکہ ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔ اگر کوئی آخرت نہیں، حساب کتاب نہیں، جنت و نار نہیں، دوسرے لفظوں میں کوئی ارتقائی سفر نہیں تو دنیا ایک کھیل ہو جائے گی اور انسان ایک بے مقصد کیڑا، ایک نامعقول کھلونا بن جائے گا، جس کو بلاوجہ دکھ درد دیا گیا اور مصائب سہ کر آخر میں خاک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ایسی عبث کاری سے پاک و منزہ ہے۔)
(96)-سورہ مبارکہ انبیاء آیت 23 میں ارشاد فرماتا ہے: وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔ کسی کے عمل میں غلطی کا امکان ہو تو اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ کام تم نے کیسے انجام دیا ؟ اللہ کی طرف سے کسی قسم کی غلطی کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ہر عمل مصلحت و حکمت پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا اللہ پر یہ سوال نہیں ہوتا کہ یہ عمل اللہ نے کیسے انجام دیا؟
(97)-سورہ مبارکہ مدثر آیت 38 میں ارشاد فرماتا ہے: ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔ یعنی ہر شخص اپنے کردار کی قید میں بند ہے۔ انسان کا وہی وزن ہو گا جو اس کے عمل کا ہے، البتہ اصحاب یمین اس قید و بند سے آزاد ہوں گے۔
(98)-سورہ مبارکہ نجم آیت 39 میں فرماتا ہے اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔یعنی بروزقیامت اس کو اپنا عمل نظر آئے گا۔
(99)-سورہ مبارکہ زلزلہ آیت 8 اور 9 میں ارشاد فرماتا ہے: پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ہر ایک اپنے اپنے عمل کا معائنہ کرے گا۔ جزائے عمل تو حساب اور عمل کے معائنے کے بعد ملی گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے: اگر یہ شخص جہنمی ہے اور اس نے کار خیر کیا ہے، قیامت کے دن اس کار خیر کو دیکھ کر حسرت کرے گا کہ کیوں یہ کار خیر غیر اللہ کے لیے انجام دیا اور اگر اہل جنت ہے تو کار شر نظر تو آئے گا، مگر اسے معاف کر دیا گیا ہو گا۔ (المیزان) یہ اس صورت میں ہے کہ انسان خیر و شر کو اپنے ساتھ لے کر حساب گاہ تک پہنچ جائے، لیکن اگر کسی کا شر توبہ و استغفار یا دوسری نیکیوں یا شفاعت کی وجہ سے محو ہو گیا ہو یا کارِخیر دوسرے جرائم کی وجہ سے حبط ہو گیا ہو تو خیر و شر کو دکھایا نہیں جائے گا۔
(100)-سورہ مبارکہ بقرہ کی آخری آیت میں خدا ارشاد فرماتا ہے: اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے۔
(101)-سورہ مبارکہ انعام : 82۔