امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلام میں نظافت اور پاکیزگی

1 ووٹ دیں 04.0 / 5

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں نظافت اور پاکیزگی
تحریر:محمد جعفر امامی شیرازی

 ترجمہ  :  محمد حسین مقدسی

اسلام اور زندگی کے مسائل.

 

اس نظر سے کہ مسلمان چاہتا ہےکہ دوسرے لوگوں سے مل  جل کر رہے اور انہی لوگوں کے ساتھ ہمنشینی اختیار کرے، اپنے جسم  اورکپڑوں کی صفائی  کا  خیال رکھتا ہےچونکہ پاک کپڑے انسان کےغم اور غصے کو دور کرتے ہںو ،طہارت نماز کےلےت بھی ہے ۔ پاک وصاف کپڑے   دشمن کی ذلت اور خواری کا سبب بنتے  ہے ، مسلمان اپنے مسلمان بھائی کےلیے  اچھے کپڑے  پہنتا ہے ،جس طرح سے کہ   اسکی چاہت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اسے اچھی شکل میں دیکھیں ۔مسلمان تمام گندگیوں اور آلودگیوں سے دور ھوتاہے چونکہ انسان گندگی اور پلیدی کو پسند نہیں کرتا ہے  بلکہ پاکیزگی کو تلاش کرتا ہے جو کہ ایمان میں سے شمار ہوتی ہےاور خداوند پاکیزہ  بندوں کو دوست بھی رکھتا ہے .مسلمان اپنے جسم کو گندگی سے پاک کرتا ہے ،اور جب حمام جاتا ہے تو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے ،دوسروں کی شرمگاہ کی طرف نہیں  دیکھتا ہے ، اپنے چہرے کو تولیہ کے زریعے سے نہیں سکھاتا ہے  کہ جس سے چہرے کی تازگی ختم ہو جاتی ہے،اور جب حمام کرنے جاتا ہے تو اسکا  پیٹ بھرا  ہوا  نہ ہو کہ یہ جسم کے ضعیف ہونے کا سبب بنتا ہے ، حمام میں  چت نہیں لیٹتا کہ یہ گردوں کے چربی  پگلنے  کا  سبب بنتا ہے ، حمام میں ٹھنڈا پانی نہیں پیتا ہے کہ جو معدہ خراب ہونے کا سبب بنتا ہے .بغل کے بالوں اور جسم کے اضافی بالوں کو نورہ کے ذریعےسے صاف کرتا ہے جس سے بدن میں  پاکیزگی آجاتی۔ مضر جراثیم کو ختم کرتا ہے بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور فقر و تنگدستی کو دور کرتاہے .
اور ان بالوں کو صاف کرنے کیلے چالیس دن سے زیادہ دیر نہیں کرتا ہے چونکہ یہ سنت ہے . اور اپنے سر کو سدر کے ذریعےسے دھوتا ہے جو کہ رزق میں زیادتی اور شیطان کے وسوسے اور خیالات کو ختم کر دیتا ہے .
سفید بال نور ہے اور خضاب و رنگ پیغمبر کی سنت ہے ،خضاب جب سیاہ رنگ کےساتھ ہو تو بیویوں کے دل میں محبت اور دشمنوں کے دلوں میں ڈر کا سبب بنتاہے .اپنی داڑھی کو کنگھی کے زریعے سے کنگھی کرتا ہے جس سے جسم کی کمزوری کو ختم کر دیتا ہے اور دانتوں کےمضبوط  ہونے کا سبب بنتا ہے ،سر کے بال زیادہ ہونے سے وباءکی بیماری ختم ہو جاتی ہے اور رزق میں  اضافہ ہونے کا سبب بنتا ہےاور جنسی طاقت کو زیادہ کرتا ہے ،اگرچہ سر کو مونڈھنے سے انسان کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے اور آنکھوں کی روشنی تیز ہو جاتی ہے  اور بدن کو سکون ملتا ہے.اگر کوئی مسلمان جب بالوں کو رکھتا ہے تو ضروری ہےکہ انہیں دھولے  اور کنگھی کرنے کی کوشش کر لے  اور ہمیشہ صاف سترا  رکھے  کہ اچھے بال خدا وند کی نشانیوں میں سےہیں.
مسواک:
لازمی ہےکہ مسلمان پیغمبروں کے اخلاق کا تابع و مطیع   ہو لذا جو کام وہ انجام دیتا ہے جیسا  دانتوں کو مسواک لگانا اور خوشبو کا استعمال کرنا دونوں پیغمبروں کی  سنتوں میں سے ہیں.مسواک لگانےکے بہت سے فائدے ہیں جیسے منہ کا پاکیزہ ہونا ، آنکھوں کی روشنی کا تیز ہونا اور پرور دگار عالم کی رضایت و خوشنودی کاحاصل ہونا،قوۃ حافظہ کا تیز ہونا ،دانتوں کا سفید ہونا، مسوڑھوں کا مضبوط ہونا، اور ان کو  نقصان ہونےسے روکنا ،خوراک کی طرف رغبت کا پیدا  ہونا ،اور بلغم کو ختم کرنا یہ سب اسکے فوائد میں شمار کیے جاسکتے  ہیں۔ مسواک لگانے کا  وقت  سحر یا رات کے آخری ٹائم یا صبح سویرے ہونا  چاہئے،اور کس طرح  سے مسواک لگانا چاہئے اس میں توجہ رکھنا چاہئےکہ مسواک مسوڑھوں کے تمام اطراف اور دانتوں کی  آخری انتہا  تک لازمی برش لگانا چاہئے.
خوشبو.
اسی طرح سے خوشبو میں بھی کچھ فوائد ہیں کہ ان میں سے دل کو قوت ملنا ،جنسی طاقت کا زیادہ ہونا ہیں،عطر لگا کر نماز پڑھنا بہتر ہے ان ستر نمازوں سے کہ جن میں بغیر عطر لگائے نماز پڑھی ہو،پیغمبر اسلام کا عطر خریدنےکیلئے جو خرچہ ہوتا تھا وہ  اپنے گھر کے خرچے سے زیادہ  ہوتا تھا. عطر کو حاصل کرنےکیلئےجو اخراجات ہوتےہیں وہ اسراف  شمار نہیں ہوتے ہیں .یہ اسلئے ہےکہ عطر کا جو تحفہ ہوتا ہے وہ کرامت ہے مسلمان اسکو قبول کرتا ہے عطر اور حلوا کا تحفہ کوئی بھی  ٹھکراتا نہیں مگر یہ کہ کوئی بیوقوف ہو.
دیگر آداب .
مسلمان جب سرمے کے پتھر سے سرمہ لگاتا ہے تو اس کی آنکھوں کی نظر تیز ہو جاتی ہے۔
پلکوں کو  پیدا کرتا ہے اور آنسوں کو گرنےسے روک دیتا ہے ،رات کو سرمہ لگانےسے آنکھوں کو فائدہ ہوتا ہے اور دن کو سرمہ لگانا   انسان کی خوبصورتی کا سبب بنتا ہے ، اسی لیے ہےکہ جمعہ کے دن اکھٹا  ہونا  ایک دوسرے کو دیکھنا  اور اپنے دوستوں کےساتھ اٹھنا  بیٹھنا جمعہ کے دن کیلئے مخصوص ہے ،مسلمانوں کیلئے ضروری ہےکہ  پاک و صاف رہنےکی کوشش کریں ،ناخن  تراشیں  ،موچھ  اور ناک کے بالوں کو کاٹیں   اور عطر کو استعمال کریں.جمعہ کے دن ناخن کاٹنےسے رزق نازل ہوتا ہے ،حافظہ تیز ہوتا ہے اورانسان  بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔لیکن اس بات کی طرف توجہ دینا چاہئے کہ ضروری نہیں  کہ یہ کام فقط  جمعہ کے دن ہی ہو  ، بلکہ ہر وقت انسان کے ناخن بڑھ جائیں  اسوقت کاٹ دیں .اور مونچھوں کو چھوٹا  کرنےسے جزام کی بیماری سے حفاظت ہوتی  ،اور جراثیم کے ختم ہونے کا سبب بنتا ہے،اور ناک کے بالوں کو کاٹنےسے چہرےمیں خوبصورتی آجاتی ہے .
نعمتوں کا اظھار کرنا.
مسلمان ہر صورت میں قرآن مجید کے احکام کی پیروی کرتا ہے اور خدا وند متعال نے جو نعمتیں اسکو دی ہیں انکو بیان کرتا ہے ،چونکہ خدا وند متعال فرماتا ہے {واما بنعمـة ربك فحدث} اور اپنے رب کی نعمت کوبیان کریں.لذا جب بھی خدا وند عالم  کوئی نعمت دیتا ہے تو وہ اسکو ظاہر کرتا ہے ،خدا وندعالم کی نعمتوں کو بیان کرنا فقط زبان کے زریعےسےہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے عمل کے زریعےسے بھی ہو سکتا ہے ،یعنی ایسی نعمتیں جو کہ خدا نے اسکو دی ہیں ضروری ہےکہ خدا کے بندے  اسکو  دیکھیں  ،چونکہ خدا وند عالم یہی چاہتا ہےکہ اپنی  نعمتوں  کا  اثر اپنے  بندوں پر دیکھ لے . مسلمان خود کو خدا کی نعمتوں سے آراستہ کرتا ہے ، اور خدا وند متعال کا دوست شمار ہوتا ہے ،خدا وند حسین و جمیل ہے ، جمال و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے .اگر خدا وند عالم کی نعمتوں کو بیان نہ کرے  اور اسکو اپنی زندگی میں ظاہر نہ کرے  تو ان نعمتوں کو ٹھکرانے والوں میں سے شمار ہوگا ہے .
اس بنا  پر کپڑوں میں سے بہترین و  اچھے اور پاکیزہ ترین کپڑوں کو پہنتا ہے ،اور اپنی قوم میں جو بہترین رسم ورواج ہیں اسی کو آشکار کرتا ہے ،اور جب وہ امیر ہے تو خدا وند عالم نے جو اسکو وسعت زرق دی ہے اسکو اسی راستے پر خرچ کرتا ہے ،جوکہ اسراف میں شمار نہیں ہوتا ہے ،اور جب وہ حلال کی صورت میں حاصل ہوا ہو تو   خداوند عالم کا حساب و کتاب بھی نہیں ہوگا ،
یہ جو کہہ رہا ہوں : کہ ان نعمتوں سےضرور  استفادہ کرے،اسلئے  یا  اس وجہ سے ہےکہ خداوند عالم نے جو زینتیں اپنے بندوں پر نازل کی ہیں  اور پاک رزق  کو جو اپنے بندوں کیلے  مہیا کیا ہے ان سے استفادہ کرنے کو حرام قرار نہیں  دیا ہے.
کہیں  ایسے کپڑوں کا پہننا {شہرت کے کپڑے }جو انسان  کے ، مزاق اڑانے کا سبب بنتے ہوں  ،ایسے کپڑوں سے پرہیز کرتا ہے۔ چونکہ خدا وند عالم ایسے کپڑوں کو پسند نہیں کرتا ہے لذا بہترین کپڑے ہر زمان میں ایسے کپڑے ہیں جو اس معاشرےمیں عام استعمال ہوتے ہیں ،اور لوگ پہنتے ہیں.مسلمان انگوٹھی کو ہاتھ میں کرتا ہے چونکہ پیغمبر اسلام کی سنت ہے ،اور کھبی بھی سونےکی انگوٹھی نہیں  پہنتا ہے،چونکہ یہ مخصوص آخرت کی زینت ہے .عقیق کی انگوٹھی کو پہنتا ہےجس سے انسان کو برکت حاصل ہوتی  ہے اور سفر میں بھی فائدہ مند ہے .اور اسی طرح سے یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی سے اور زمرد کی انگوٹھی سے بھی استفادہ کر سکتا ہے.ان  میں ہر کسی کیلئے  فائدے ہیں جس کا بحث ہم یہاں نہیں کریں گے  انگوٹھی کو ہاتھ میں کرنا یا  اسکا  پہننا  ایمان کی نشانیوں میں سےہیں(1).
بڑا مکان .
مسلمان  کیلئے اگر ممکن ہو تو  بڑا سا مکان  تیار کرے  چونکہ گھر کا  بڑا  ہونا  اور دوستوں کا زیادہ ہونا سعادت انسان ہے ،اور گھر میں نوکر بھی ہو تو ،یہ  اسکے فضل اور برتری میں شمار ہوتا ہے (2)،
اور گھر میں کبھی بھی  کتے نہیں پالتا ہے،چونکہ جس گھر میں کتے  ہوتے ہیں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتےہیں (3)،
اپنے گھر کو تمام گندگیوں سے پاک کرتا ہے ،اور غروب سے پہلے گھر کے چراغوں کو جلا دیتا ہے ،چونکہ ایسا کرنا فقیری اور محتاجی کو دور کر تا ہے ،گھر میں کبھی بھی مجبوری کے علاوہ تنہا نہیں سوتا ہے،اگر مجبورا تنہا رہ  بھی جائے تو ذکر اور یاد خدا میں رہتا ہے،تنہا کبھی سفرنہیں کرتا ہے ،تنہا کھانا نہیں کھاتا ہے،چونکہ انسان جب تنہا ہو جاتا ہے تو شیطان اسکو گمراہ کرنےکی بہت کوشش کرتا ہے.
نیند و آرام .
مسلمان سونےکے آداب کی رعایت کرتا ہے یعنی وضو کرتا ہے پھر بسترےمیں جاکر خدا کو یاد کرتا ہے تاکہ خدا وند عالم اس کو ایسے بندوں میں قرار دیدے جو اس رات کو عبادت میں مشغول ہوتےہیں ، پیغمروں کی طرح سوتا ہے یعنی  پیٹھ کے بل سوتا ہے ،یا مومنوں کی طرح سوتا ہے یعنی اپنی دائیں ہاتھ پر ،اور کبھی بھی منہ کے بل نہیں سوتا ہے چونکہ یہ شیطان کے سونے کا طریقہ ہے (4)،
صبح کی سفیدی اور سورج کے نکلنےکے درمیانی وقت  میں نہیں سوتا ہے چونکہ اسوقت میں سونا نحس ہے،رزق کم ہو جاتا ہے اور رنگ  پیلا ہو جاتا ہے (5)،
پیغمبر اسلام (ص)فرماتے ہیں کہ صبح کی سفیدی ظاہر ہونےسے پہلے اٹھنا  اور صبح کے وقت جاگے رہنا میری امت کیلئے بابرکت اور سعادت قرار دیا گیا ہے(6)؛
زیادہ نہیں سوتا ہے چونکہ زیادہ سونےسے دین و دنیا  برباد ہو جاتے ہیں (7)،
(قیلولہ ) وقت استراحت یعنی زوال سے پہلے تھوڑی دیر کیلئے سونا ،جوکہ انسان کے ذہن وحافظہ کو تیز کرنےکےلئے مفید ہے اور رات کو جاگنے کیلئے بھی مدد گارہوتا ہے (8)،
اور ایسے شہر میں کہ جہاں اسکی فیملی رہتی ہو اپنے گھر سے باہرنہیں سونا  چاہےن(9)

حوالہ جات:
(1) انگوٹھی پہننے کو علامت ایمان  میں سے قرار دینا بعید نہیں کہ یہ حکم موقتی  ہو یعنی ایسے زمانےمیں کہ جس میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی ،اسلئے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں  اسلام نے اس حکم کو ایمان کا  جزء قرار دیا ہے .
جس طرح سے کہ صدر اسلام میں انکا وظیفہ تھا کہ اپنی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب  لگائے، جو بعد میں امیر المومنین (ع) سے اس بارےمیں پوچھا گیا تو فرمایا :کہ یہ حکم وقتی طور پر تھا کہ مسلمان یہودیوں کی طرح نہ ہو جائیں ،بلکہ دونوںمیں فرق ہو،لیکن ابھی دین میں وسعت آگئی ہے اس میں مسلمان آزاد ہیں :«سئل علیه السلام عن قول الرسول (ص) «غیروا الشیب ولاتشبهوا بالیهود» فقال (ع) : انماقال (ص)والدین قل فأما الآن وقداتسع نطاقه وضرب بجرانه فامرؤ وما اختار :  نهج البلاغة،حمتد 17.
 (2)امام صادق (ع) نے فرمایا:: «من السعادة سعة المنزل» .
 امام أبوالحسن (ع)نےفرمایا : «العیش السعة فی المنازل والفضل فی الخدم» .
اور آنحضرت سےپوچا  گیا دنیا کی زندگی میں برتری کس چیز  میں ہے ؟
فرمایا : « سعة المنزل وكثرة المحبین » .
وپیغمبر(ص)نے فرمایا: «من سعادة المرء المسلم  المسكن الواسع» (کافی جلد 6 باب سعة المنزل :ص 525) .
(3) پیغمبر(ص)نے فرمایا: «جبرئیل نےمجہے خبر دیا ہےکہ: انا لا ندخل بیتا فیه كلب و لا تمثال جسد و لا اناء یبال فیه» . (کافی جلد 6 باب تزویق البیوت: ص 527) .
(4)احمدبن اسحاق نے امام علیہ السلام سے پوچہا کہ آپ کے والدین سے یہ روایت ہم تک پہنچی ہے کہ سونے کا طریقہ اس طرح سےہے،تو امام اس کی تصدیق کرتا ہے. اور اصل عبارت یہ  ہے «روی لنا عن آبائك ان نوم الأنبیاء علی اقفیتهم  ونوم المؤمنین علی أیمانهم ونوم المنافقین علی شمائلهم ونوم  الشیاطین علی وجوههم .فقال: كذلك  هو» (سفینة البحارنوم) .
(5) امام صادق (ع)نی فرمایا : «نومة  الغداة مشومة تطرد الرزق وتصفر اللون وتغیر هوتقبحه هو نوم كل مشوم...» (سفینة البحارنوم) .
(6) قال رسول اللہ (ص) : «بورك لامتی فی بكورها» .
(7)امام صادق (ع)فرماتاہے: «كثرة  النوم مذهبة  للدین و الدنیا» (سفینة نوم) .
(8)قال الصادق (ع)«النوم من اول النهار خرق و القائلة نعمة والنوم بعد العصرحمق وبین العشائین یحرم الرزق» (سفینة البحار  نوم) .
(9) امام باقر (ع)نے میمون نامی ایک شخص کو فرمایا: «لاتنم وحدك فان اجرأ مایكون الشیطان علی الانسان اذا كان وحده» .
اور امام صادق (ع)نے فرمایا: «ان الشیطان أشدمایهم بالانسان اذاكان وحده فلاتبیتن وحدك ولاتسافرن وحدك » (کافی جلد 6 باب كراهة أن یبیت الانسان وحده ص 533) .

 

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک