امام صادق علیہ السلام کے اقتصادی نظریات پر ایک اجمالی نظر
امام صادق علیہ السلام کے اقتصادی نظریات پر ایک اجمالی نظر
تحریر: عبدلکریم پاک نیا
مترجم: اسد رضا چانڈئو
پیشکش امام حسین فاونڈیشن
مقدمہ:
ایک بہترین معاشرہ کی واضح نشانی، اقتصادی استقلال ہے۔ جس میں سالم تجارت ، زیادہ کام کرنے والے اور ایماندار کارمندوں کا بہت بڑا اثر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاشرہ میں عدل اور عدالت قائم کرنے ، وسیع پیمانہ پر لوگوں کی مادی حاجتیں، ضرورتیں پوری کرنے اور ان کیلئے آسائشیں مہیا کرنے کیلئے معاشرہ کے تمام امکانات، وسائل ، سرمایہ کو عدل اور انصاف سے مستحق اور لائق افراد میں تقسیم کیا۔تاکہ لوگوں میں تعلقات ، نیکی، احسان اور ایثار کی ترویج کےساتھ خدمت اور کوشش کا جذبہ اور لگن پیدا ہو جس سے وہ سعادت اور خوشبختی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
یہ تمام کاوشیں الہی مقاصد کو پورا کرنے،اور آسمانی ادیان کے اہداف کے حصول کیلئے تھیں۔ جن ادیان کو انبیاء، رسل، مقرب فرشتگان اور اولیاء نے پہنچانےمیں بے شمار زحمتیں برداشت کیں۔ تاکہ عبادت اور بندگی کے مقدمات کو فراہم کرکے معاشرہ میں اپنے پروردگار سے مناجات کی فضا کو عام کیا جائے جس سے تمام انسان سعید، خوش بخت اور حقیقت طلب بن جائیں۔
ہم اس مقالے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے، امت کی مادی مشکلات کے حل کیلئے اسلامی معاشرہ میں امام صادق علیہ السلام کے اقتصادی نظریات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقتصادی اور تجارتی کام کی اہمیت اور فضیلت
امام صادق علیہ السلام، انسان کے اپنی ضروریات اور خرچ کو پورا کرنے کیلئے کاروبار، کام، بزنس، تجارت کرنے والے کو اجر اور فضیلت میں اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کے مساوی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «الکاد على عياله کالمجاهد فى سبيل الله؛ (1)
جو بھی اپنے خاندان، اہل و عیال کے معاش کی تامین کیلئے گھر سے نکلے، تلاش اور کوشش کرے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کی طرح ہے۔
امام صادق علیہ السلام، سستی، بیکاری،کاہلی، بے پرواہی کو الہی غضب کا سبب سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں: «ان الله عز وجل يبغض کثرة النوم و کثرة الفراغ؛ (2)
اللہ تعالی زیادہ کھانے اور زیادہ سونے سے بغض رکھتا ہے۔
امامت کے چھٹے تاجدار علیہ السلام سے ان کے ماننے والے صحابی علاء ابن کامل رخصت ہوتے ہوئے خداحافظ اور التماس دعا کہنے کے بعد کہتے ہیں:یاابن رسول اللہ! دعا کریں زندگی راحت اور آرام سے گذرے ! امام نے جواب میں ارشاد فرمایا: «لا ادعولک، اطلب کما امرک الله عز وجل؛ (3)
میں تیرے لئے یہ دعا(راحت اور آرام کی زندگی) نہیں مانگوں گا! بلکہ روزی کی تلاش طلب کرو جس طرح اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے!
اپنی زندگی کی بہبودی کیلئے اقتصادی اور تجارتی پروگرام کو ترتیب دینا، ایک سچے مسلمان کیلئے نہ صرف عیب نہیں بلکہ ایمان اور معنوی کمالات کی تقویت کا سبب بھی بنتا ہے۔
مذہب شیعہ کے رئیس امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
کسی مسلمان کیلئے تین سفروں کے علاوہ کوئی سفر سزاوار نہیں! پہلا: اپنی اقتصادی حالت کی بہتری کیلئے(تجارتی سفر)۔ دوسرا: آخرت کے سفر کیلئے زاد راہ کی تیاری کیلئے (زیارتی سفر)۔ تیسرا: حلال لذتوں سے لطف اندوزی کیلئے(تفریحی سفر)۔(۴)
امام صادق علیہ السلام، صالح بندوں کو اقتصاد اور کسب کی طرف راغب کرنے کیلئے اپنے غلام مصادف کو حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «اتخذ عقدة او ضيعة فان الرجل اذا نزلت به النازلة او المصيبة فذکر ان وراء ظهره ما يقيم عياله کان اسخى لنفسه؛ (5)
اپنے لئے پر ثمر درختوں سے بھرا گھر مہیا کرو!یا ملکیت منقول یا ملکیت غیر منقول حاصل کرو!کیونکہ جب بھی کسی انسان کیلئے کوئی حادثہ پیش آتا ہے یا کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے اگر وہ اپنی اہل و عیال کیلئے کوئی اقتصادی بیک اپ یا تجارتی سپوٹ رکھتا ہو تو اس انسان کے دکھ میں کمی آجاتی ہے۔
امام معصوم، ریاکار،ظاہری طور پر تقوی رکھنے والے لوگوں کی سادہ مسلمانوں کو زہد اور ترک دنیا کے بہانےاقتصادی معاملات سے دور رکھنے کیلئےکوشش کرنے والوں کے اس مذموم فعل پر خبردار کرتے تھے۔
سفیان ثوری جو ظاہری زہد اور تقوی کا مالک تھا اور لوگوں کو ترک دنیا کی رغبت دیتے ہوئے زہد کی دعوت دینے کیلئے کاروبار سے منع کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے چھٹے امام علیہ السلام کو اس حالت میں دیکھا کہ امام معصوم نے خوبصورت نیا لباس پہنا ہوا تھا تو اس نے امام سے کہا: تمہارے لئے مناسب نہیں کہ خود کو دنیاوی زیور سے آلودہ کرو!تمہارے لئے زہد، تقوی اور دنیا سے دوری بہتر ہے! امام معصوم علیہ السلام نے اپنے منطقی جواب سے اس کے بے بنیاد شبہات کو باطل کرنے کیلئے اور صوفی نظریات کے بطلان کو واضح کرنے کیلئے ارشاد فرمایا:اے سفیان! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے دور میں زندگی گذارتے تھے جہاں مسلمان اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھےاور ان کی تجارتی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود کو ان سےجدا نہ کرنے کیلئے اور خود کو ان سے ملانے کیلئے سادہ زندگی گذارتے تھے۔ لیکن اگر کوئی وقت آتا ہے اور مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی ہے۔ تو نیک اور صالح لوگ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے استفادہ کرنے کیلئے کافر، منافق اور فاجر لوگوں سے زیادہ سزاوار ہیں!
اے ثوری! اللہ تعالی کی قسم! میں اچھی معیشت رکھتے ہوئے اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے بھی کبھی اللہ تعالی کی طرف سے فرض کی گئی مالی ذمیداریوں اور مالی حقوق میں لا پروائی نہیں کی میں مالی حقو ق ادا کرتا ہوں اور ان کو ان کے مستحق تک پہنچاتا ہوں۔(۶)
قوانین کی رعایت
ایک دور اندیش شخص اپنی پوری زندگی کوشش کرتا ہے کہ اقتصادی اصولوں سے فائدہ اٹھائے تاکہ اپنے اور اپنی اہل و عیال کیلئے پر آسائش زندگی مہیا کر کے سعادت اور خوشبختی کے راستہ پر چلے۔
امام صادق علیہ السلام چند اقتصادی اصولوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
۱۔ تجربہ سے فائدہ اٹھانا
کسی شک کے بغیر کسی بھی انسان کا تجربہ اسے مستقبل کی منصوبہ بندی میں بہت زیادہ مدد دیتا ہے اور جس کا جتنا زیادہ تجربہ ہوگا وہ آدمی اپنی زندگی میں اتنا زیادہ فائدہ حاصل کرے گا اوریہ تجربہ اس کی توفیقات میں اتنے اضافہ کا مقدمہ ساز ہوگا۔
امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «العقل حفظ التجارب؛ (7)
تجربہ سے فائدہ اٹھانا عقلمندی ہے۔اس بارے میں مسعود سعد کا بہت خوبصورت کلام ہے کہ:
اى مبتدى، تو تجربه، آموزگار گير
زيرا که به، ز تجربه، آموزگار نيست
کسی بھی شعبہ کے نئے آدمی کو چاہیے کہ پرانے اور باتجربہ افراد کے تجربہ سے فائدہ اٹھائے؛ کیونکہ وہ اپنا کوئی تجربہ نہیں رکھتا۔
امام صادق علیہ السلام اس سلسلے میں حقیقت پسند لوگوں کی رہنمائی اور ان کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «المؤمن حسن المعونة، خفيف المؤونة، جيد التدبير لمعيشتة، لا يلسع من حجر مرتين؛ (8)
مومن بہت اچھی مدد اور نصرت شمار ہوتا ہے، دوسروں کیلئے تکلیف کا سبب نہیں بنتا،اپنی زندگی بہت خوبصورت پلاننگ کرتا ہے اور ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا(یعنی مومن تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہے)۔
۲۔ فرصت سے فائدہ اٹھانا
زندگی میں ہر انسان کو کچھ ایسی فرصت ضرور ملتی ہے جس سے وہ اچھے انداز میں اپنے دین اور دنیا کی بہبودی اور بہتری کی طرف موڑ سکتا ہے۔انسان کی دور اندیشی اورمستقبل اندیشی سبب بنتی ہے کہ انسان اپنی فرصت سے خوب استفادہ کرکے اپنے اجتماعی اور معنوی مقام کو بلند کر سکے۔ بے شک فرصت کو ضایع کرنا ، غمگینی اور پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔
سعديا، دى رفت و فردا همچنان موجود نيست
در ميان اين و آن فرصت شمار امروز را
اے سعدی! ماضی والا کل گذر گیا ، آنے والا کل ابھی موجود نہیں ان کے درمیان آج کی فرصت کو غنیمت سمجھو!
امام صادق علیہ السلام اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: «الايام ثلاثة: فيوم مضى لا يدرک و يوم الناس فيه فينبغى ان يغتنموه و غدا انما فى ايديهم امله؛ (9)
کل تین دن ہیں ان میں سے ایک دن گذر گیا جس کو واپس نہیں لایا جا سکتا ہے۔ ایک دن ایسا ہےجس میں انسان زندگی گذارر ہا ہے یہی فرصت اور غنیمت ہے۔ تیسرا دن وہ ہے جو ابھی نہیں آیا تیرے ہاتھ میں اس کی صرف امید اور آس ہے۔
امام صادق علیہ السلام اپنے ایک اور فرمان میں فرصت سے فائدہ اٹھانے پر زور دیتے ہوئے دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: جس انسان کو فرصت نصیب ہو اور وہ اس فرصت کو ضایع کرکے دوسری اچھی فرصت کا انتظار کرے۔ زمانہ، اس انسان کے ہاتھ سے دوسری فرصت بھی چھین لیتا ہے؛ کیونکہ زمانہ کی عادت، فرصت اور موقعیت کو چھیننا ہے ۔(۱۰)
۳۔ کوشش اور جستجو
زندگی میں کامیابی کے اصولوں میں سےایک اہم اصول اپنے مقصد تک رسائی کیلئے مسلسل جدوجہد ہے، جو کہ انسان کے اپنے مقصد پر مضبوط اعتقاد اور ایمان سے ممکن ہے۔ یہ کسی بھی مقصد تک پہنچنے کیلئے سب سے اہم عامل ہے۔
ایک مسلمان، جو آخرت کے بلند مقامات کا طلبگارہے اسے دنیوی معاملات کیلئے بھی کوشش کرنی چاہیے اور اسے چاہیے کہ دنیوی معاملات میں کوشش کو اخروی کامیابی اور خوشبختی کیلئے وسیلہ اور مقدمہ سمجھے!
علی ابن عبد العزیز نقل کرتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے ایک دن عمر ابن مسلم سے اس کے حال و احوال پوچھےتو اس نے جواب میں عرض کیا:مولا آپ پہ قربان جائوں! میں نے دنیا کا کاروبار چھوڑ دیا ہے؛ اب صرف نماز، عبادت اور دعا میں مشغول رہتا ہوں۔ امام نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:اس پر افسوس! جو دنیا اور حلال روزی کی تلاش اور جستجو نہ کرے!اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوگی! اس کے بعد امام نے آگے ارشاد فرمایا:جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی: «من يتق الله يجعل له مخرجا و يرزقه من حيث لا يحتسب» ؛ (11)
رسول اکرم کے چند اصحاب نے کام کاج اور کاروبار چھوڑ کر اپنے گھر کے دروازے بند کر کہ سارا ٹائم عبادت میں مشغول ہو گئے اور سوچنے لگے کہ اللہ انہیں عبادت کے وسیلے رزق دے گا۔
جب اس بات کا علم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہوا تو انہوں نے ان کو پاس بلاکر فرمایا: تم لوگوں نے معاشرہ سے جدا ہوکر، کاروبار کو چھوڑ کے، صرف عبادت کو کیوں اختیار کیا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ تعالی نے ہماری روزی روٹی کا ذمہ اٹھایا ہے اور ہماری ذمیداری عبادت کرنا ہے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: جتنی بھی دعائیں مانگو مستجاب نہ ہوں گی تم پر کمانا فرض ہےْ!
امام صادق علیہ السلام اپنے ایک اور فرمان میں اس بات کی تشریح کہ چند افراد کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی، ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «رجل جالس فى بيته يقول اللهم ارزقنى فيقال له الم آمرک بالطلب؛ (13)
جو بندہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ہمیشہ یہ کہتا رہے: پروردگارا! مجھے روزی عطا فرما! مجھے روزی عطا فرما! تو اس سے جواب میں کہا جائے گا: کیا تمہیں کمانے کا حکم نہیں دیا گیا۔
بہرحال کسی بھی مقصد تک پہنچنے کیلئےجدوجہد ضروری ہے۔ اور اس کام میں مشکلات کا سامنا کرنا اور ان مشکلات کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ تاکہ انسان دوسروں کا محتاج نہ رہے اور خود اس کام میں مستقل ہو جائے۔
عطار نیشابوری کہتا ہے:
به يکبارى نيايد کارها راست
به بايد کرد ره را بارها راست
به يک ضربت نخيزد گوهر از سنگ
به يک دفعت نريزد شکر از تنک
نگردد پخته هر ديگى به يک سوز
نيايد پختگى ميوه به يک روز
ایک بار میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ رستہ کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
ایک ضربت سے پتھر ، ہیرہ میں تبدیل نہیں ہوتا۔ ایک ہی دفعہ میں تنک سے چینی نہیں بنتی۔
ایک ہی ساز سے راگ پختہ نہیں ہوتا۔ اور ایک ہی دن میں پھل نہیں پک جاتا۔
۴۔ میانہ روی
خواهى اگر که حفظ کنى آبروى خويش
بردار لقمه ليک به قدر گلوى خويش
اگر اپنی عزت محفوظ رکھنا چاہتے ہو! تو اپنے گلے کے سوراخ جتنا لقمہ کھائو!
اپنے اخراجات اور درآمد میں اعتدال اور میانہ روی، زندگی میں بہبودی اور خوشحالی کا سبب ہے۔ اسراف اور زیادتی، تنگ نظری اورسختی، کنجوسی اور لالچ زندگی کے نظام کو تباہ اور برباد کردیتی ہیں۔ انسان کی شخصیت کو معاشرہ میں مجروح کرتی ہیں اور بلکل برباد کردیتی ہیں۔ جو افراد اسراف اور زیادہ روی سے خرچ کرتے ہیں وہ معمولا تنگ دست اور فقیر ہو جاتے ہیں اور روزگار زمانہ سے شکایت کرتے رہتے ہیں اور اپنی بد قسمتی کا گلا کرتے رہتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
اسراف اور زیادتی، تنگدستی اور محتاجی کا سبب ہے اور اعتدال اور میانہ روی، تندرستی اور توانائی کا سبب بنتی ہے۔
سعدی فرماتے ہیں:
چو دخلت نيست خرج آهسته تر کن
که مى گويند ملاحان سرودى
اگر باران به کوهستان نبارد
به سالى دجله گردد خشکرودى
آہستہ خرچ کرو کیونکہ تیرا دخل نہیں!عقلمند ملاحوں کا کہنا ہے: جب کوہستان میں بارش نہ پڑے تو دجلہ میں بھی خشک سالی آجاتی ہے۔
عبد اللہ ابن سنان نقل کرتے ہیں: جب امام صادق علیہ السلام اس آیت، «ولا تجعل يدک مغلولة الى عنقک» (15) کی تفسیر بیان فرما رہے تھے تو امام نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی پوری طرح سمیٹا اور بند کیا اور مکا بنا کر ہمیں دکھاتے ہوئے فرمایا: اس طرح نہ بنو! کیونکہ یہ پستی اور کنجوسی ہے۔ اس کے بعد والی آیت «ولا تبسطها کل البسط» (16) میں امام نے اپنے ہاتھ کو پورا کھول اور پھیلا کہ دکھاکر فرمایا: اس طرح بھی درست نہیں یعنی انسان کے پاس جتنا بھی خرچ کرلے اور اس کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہ رہے۔(17)
مشغلوں کی تقسیم بندی
اسلامی معاشرہ میں ہر انسان کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے ۔ یعنی کمائی والے کام میں سے کسی ایک کواپنے پیشہ کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ ضروری ہے کسی بھی کام کےمیدا ن میں اترنے سے پہلےاس کام کے بارے میں اسلام اور اہلبیت کی رائے جانیں تاکہ بعد میں معنوی بے چینی اور مشکلات کا سامنا نہ ہو؛ کیونکہ کسی بھی شغل، پیشہ، اقتصاد اور تجارت کے بارے میں شخصی فائدہ دیکھنے سے پہلے دین مبین اسلام کی نظر اس کام کے انسانی معاشرہ پر اجتماعی، سیاسی، ثقافتی ، معنوی اور روحانی اثرات پر ہوتی ہے۔
اس وجہ سے دین اسلام نے معاشرہ میں موجود تمام شغلوں اور پیشوں کو حلال اور حرام میں تقسیم کرکے مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: معاشرہ میں موجود کاموں اور مشغلوں کی کلی طور پر چار قسمیں ہیں: (۱)تجارت اورمعاملات۔ (۲) فنی اور صنعتی کام۔ (۳) حکومتی کام اور کارمند۔(۴) اجارہ (روزانہ کے بنیاد پر مزدوری کرنے والے افراد)۔
اس کے بعد امام ان چاروں انواع کو حلال اور حرام میں تقسیم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر واجب کیا ہے کہ حرام کاموں اور پیشوں سے اجتناب کریں اور حلال کمانے کا اقدام کریں۔
ہم یہاں امام کے تمام کاموں اور پیشوں کو حلال اور حرام میں تقسیم کرنے کے معیار کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
تجارت میں کسی بھی چیز کے حرام اور حلال ہونے کا معیار : معاشرہ میں انسانوں کو عموما اس چیز کی ضرورت ہو اور اس چیز کی خرید اور فروخت سے معاشرہ کو فائدہ ہوتا ہو وہ تجارت حلال ہے۔
اور حرام معاملے مندرجہ ذیل ہیں:
جو بھی تجارت اور معاملہ معاشرہ میں فساد اور خرابی کا سبب بنتا ہو اور اسلامی معاشرہ کیلئے نقصان کا سبب ہو وہ حرام ہے۔جیسے سود والی تجارت۔
یا ایسی چیزوں اور اجناس کی خرید اور فروخت جو مقدس دین اسلام کی نظر میں شرعا حرام ہیں جیسے اسلامی طریقہ سے ذبح نہ کیے گئے حیوان کا گوشت، سور کا گوشت، درندہ حیوانات کا گوشت اور جلد، شراب، جوا کے آلات، لہو اور لعب کے آلات۔۔۔۔
دشمنان اسلام کو اسلحہ بیچنا یا ان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کرنا جس سے باطل قوی اور اسلام کمزور ہوجیسے جاسوسی کرنا، اور دشمن کو اطلاعات فروخت کرنا۔
جو معاملات جھوٹ، دھوکے اور دغابازی پر مشتمل ہوں۔
صنعت اور فنی کاموں میں بھی معیار اسلامی معاشرہ ہے۔ جس صنعت سے اسلامی معاشرہ طاقتور ہوتا ہے، اس کی ترقی ہوتی ہو، مسلمانوں کیلئے فائدہ ہوتا ہے وہ صنعت ، اسلامی شریعت میں اور امام صادق علیہ السلام کے نکتہ نظر سے جائز ہے ۔
ہر وہ صناعت جو اسلامی معاشرہ میں فساد کا سبب بنے بنے یا اسے کمزور کردے ۔ جیسے شراب، جادوگری، وہ صنعت جو بے حیائی کا سبب بنے، وہ وسائل جو انسانوں کے اعتقادات کو نقصان پہنچائیں یا کمزور کریں، ظالموں اور جابروں کا ساتھ دینا، چوری کرنا، یہ تمام صنعتیں ،سب کی سب حرام ہیں۔
حکومتی افسر اور کارمند اگر حاکم عادل ، امام معصوم یا ان کے وکیل کے انڈر میں کام کر رہے ہیں تو ان کی تنخواہ اور درآمد حلال ہے اگر نہیں تو حرام ہے سواء ایک صورت کے کہ حاکم غیر عادل کے تحت کام کرنے کی اجازت انہوں نے حاکم شرعی سے دریافت کی ہو یا مسلمانوں کی مصلحت اور فائدہ کیلئے حکو مت سے تعاون کر رہے ہوں۔
اجارہ (روزانہ مزدوری کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور) میں بھی حلال اور حرام ہونے کا معیار بھی یہی ہے ۔ یعنی معاشرہ کے فائدہ اور نقصان کو نظر میں رکھا جائے گااور دوسرا قصد، ارادہ اور اس جنس کو دیکھا جائے گا کہ اس کا بنانا حلال ہے یا حرام۔ (۱۸)
امام کی نظر میں افضل مشغلے
امام صادق علیہ السلام اپنے ماننے والوں کو حلال مشغلہ کے ساتھ معاشرہ کی ضرورت کے مطابق کام کرنے کی تاکید فرماتے ہیں لیکن تمام کاموں میں سے چند کاموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ہم ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
باغبانی اور کھیتی باڑی
آسمان ولایت کے چھٹے ستارے اس آیت «و على الله فليتوکل المتوکلون» (19) کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالی پر توکل کے روشن مصداق، باغبانی اور کھیتی باڑی کرنے والے افراد ہیں۔
ابن واسطی نقل کرتے ہیں: میں نے ایک دن امام سے باغبانی اور کھیتی باڑی کرنے والے افراد کے متعلق سوال کیا تو امام نے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ زمیں پر موجود اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور اس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا: «وما فى الاعمال شى ء احب الى الله من الزراعة و ما بعث نبيا الا زراعا الا ادريس فانه کان خياطا؛ (21)
اللہ تعالی کی نظر میں تمام کاموں میں سے زراعت سے زیادہ محبوب کام کوئی نہیں۔ اللہ نے کوئی نبی مبعوث نہیں کیا سوائے یہ کہ وہ زراعت کرتا تھا صرف حضرت ادریس کے علاوہ جو درزی تھے۔
امام صادق علیہ السلام نہ صرف دوسرے مسلمانوں کو کھیتی باڑی کی ترغیب فرماتے تھے بلکہ خود بھی عملا اس پیشہ سے وابستہ تھے ۔
ابو عمر شیبانی کہتے ہیں: میں نے ایک دن امام صادق کو کھیتی باڑی کا لباس پہنے باغ میں بیلچہ پکڑے کام کرتے پایا۔ امام اسقدر دل و جان سے کام کر رہے تھے کہ امام کا جسم پسینہ سے تھا۔ میں امام کے پاس گیا اور میں نے امام سے عرض کی: مولا میری جان آپ پر فدا! مجھے اجازت دیں میں آپ کی جگہ باغبانی کروں اور یہ سخت کام میں انجام دوں !امام نے ان کے مشورہ قبول نہیں کیا اور منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: «انى احب ان يتاذى الرجل بحر الشمس فى طلب المعيشة؛ (22)
میں پسند کرتا ہوں کہ انسان حلال کمانےمیں سورج کی تپش کو برداشت کرے۔
جی ہاں! بہتریں او پاکیزہ تریں انسانی درآمد اور کمائی کا وہ وقت ہے جب اس کی پیشانی پر پسینہ آئے اور ہاتھ میں ورم۔ رسول اکرم عالم امکاں کے افضل اور پہلے فرد ایسے شخص کے ہاتھ چوم کے فرماتے ہیں: «هذه يد لا تمسها النار؛ (23)
یہ وہ ہاتھ ہیں جن تک جہنم کی گرمی نہیں پہنچ سکتی!
تجارت اور کاروبار
جن دوسرے مشاغل کی امام صادق علیہ السلام تاکید فرماتے ہیں، ان میں ایک حلال تجارت اور کاروبار ہے۔ امام صادق کا ماننا ہے کہ حلال تجارت مالی منافع کے ساتھ ساتھ عقل اور دانش کے اضافہ، فکر اور تدبیر کی اصلاح اور تجربہ کا سبب بنتی ہے۔ اس وجہ سے امام ارشاد فرماتے ہیں: «التجارة تزيد فى العقل؛ (24)
تجارت، عقل میں اضافہ کا سبب ہے۔
اسباط ابن سالم کہتے ہیں: میں ایک دن امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ امام نے پوچھا: عمر ابن مسلم آجکل کیا کر رہا ہے؟ میں نے جواب دیا: ان کے حالات اچھے ہیں اس نے تجارت چھوڑ دی۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تجارت کو ترک کرنا شیطانی کام ہے۔ اور تین بار اس جملہ کی تکرار کی۔ اس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا: رسول اکرم ایک کاروان کے ساتھ جو شام سے آتا تھا معاملہ انجام دیتے تھے اور اس معاملہ سے حاصل ہونے والے منافع میں سے کچھ سے اپنا قرضہ ادا کرتے تھے اور باقی منافع سے فقیر اور محتاج خاندانوں کی امداد فرماتے تھے۔ امام نے اس کلام کے آخر میں ارشاد فرمایا: اللہ تعالی متقی تاجروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: «رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذکر الله» ؛ (25)
وہ مرد جنہیں کاروبار یا دیگر خرید و فروخت ذکر خدا, قیام نماز اور ادائے زکٰوِ سے غافل نہیں کرسکتی .(۲۶)
امام صادق علیہ السلام کا کمانے والوں کو حیات بخش پیغام
امام صادق علیہ السلام کی اقتصادی سیرت میں امین تاجروں کا بہت بڑا مقام ذکر کیا گیا ہے۔ عبد الرحمن ابن سیابہ نقل کرتے ہیں: جب میرے والد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ میرے والد کے دوستوں میں سے ایک میرے گھر میں آیا اور تسلیت کے بعد پوچھنے لگا: تیرے والد نے تیرے لئے کچھ ارث میں چھوڑا ہے جس سے تم اپنا روزگار چلا سکو؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے مجھے ایک ہزار درہم سے بھرا تھیلا دیا اور کہنےلگا: اس سرمایہ کی حفاظت کرو اور اس کے منافع سے اپنی زندگی گذارو! میں جلدی اپنی امی کے پاس گیا اور اسے یہ خوشی کی خبر سنائی ۔اس رات میں اپنے والد کے ایک اور دوست کے پاس گیا ۔ اس نے میرے لئے تجارت کے مقدمات فراہم کئے۔اس طرح میں نے اس کی مدد سے کچھ کپڑا خریدا اورایک دکان میں تجارت کرنے لگا۔ اللہ تعالی سے فضل اور کرم سے میرے دکان پر رونق لگ گئی اور کچھ ہی وقت میں مجھے حج ادا کرنے جتنی استطاعت حاصل ہوگئی اور میں نے حج کیلئے روانہ ہونے کی تیاری کی۔
میں اس ذمیداری پر روانہ ہونےسے پہلے اپنی امی کے پاس آیا اور اسے اپنے ارادہ کے بارے میں بتایا۔ میری امی نےسفارش کرتے ہوئے فرمایا: بیٹے پہلے اپنا قرض ادا کرو! اس کے بعد اس سفر پہ جاؤ۔میں نے پہلے قرض ادا کیا۔ قرض دینے والا اتنا خوش ہوا جیسے میں نے اس کے نہیں بلکہ اپنی جیب سے اسے اتنے درہم دے رہا تھا۔ اور اس نے مجھ سے کہا : مجھے یہ پیسے کیوں لوٹا رہے ہو؟ کیا یہ تجارت کیلئے کم ہیں؟میں نے کہا: نہیں ۔ میں حج پہ جانا چاہتا ہوں اس لئے پہلے قرضہ ادا کر رہا ہوں۔
میں مکہ روانہ ہوااور حج کے ارکان انجام دینے کے بعد مدینہ میں امام صادق علیہ السلام کی زیارت سے شرفیاب ہونے گیا۔ اس دن امام کے گھر میں بہت رش تھا۔ میں اس وقت جوان تھا اور اس بھیڑ کے آخر میں کھڑا تھا۔ لوگ امام کی زیارت کو جا رہے تھے اور امام کی زیارت کے ساتھ اپنے سوالوں کے جوابات بھی دریافت کر رہے تھے۔
جب مجلس میں خلوت ہوئی امام نے مجھے نزدیک آنے کا اشارہ فرمایا۔میں امام کے پاس گیا ۔ امام نے مجھ سے پوچھا: مجھ سے کوئی کام ہے؟ میں نے عرض کی: مولا میری جا ن آپ پر فدا! میں عبدا لرحمن ابن سیابہ ہوں۔ امام نے پوچھا : تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا: وہ انتقال فرما گئے۔ اما م کو بہت دکھ ہوا امام نے مجھ سے تسلیت کی اور میرے والد کیلئے رحمت کی دعا فرمائی۔ پھر امام نے مجھ سے پوچھا:تیرے والد نے دنیا کے مال میں سے ارث میں کچھ چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ امام نے پوچھا: پھر تم کس طرح حج پہ آئے ہو؟ میں نے اس نیکی کرنے والے انسان کی داستان بیان کی۔ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ امام نے ارشاد فرمایا: تم نے اس کے ہزار درہم کی امانت کا کیا کیا؟ میں نے کہا: مولا حج پر آنے سے پہلے میں نے وہ قرضہ لوٹا دیا۔امام نے فرمایا: بہت اچھا کیا! اس کے بعد امام نے فرمایا: تمہیں ایک سفارش کروں؟میں نے کہا: مولا آپ پہ قربان جائوں ضرور میری رہنمائی فرمائیں۔امام نے فرمایا: اگر امانتداری اور سچائی سے کاروبار انجام دو گے تو لوگوں کے مال میں اس طرح ہمیشہ شریک رہوگے۔ اس کے بعد امام نے انگلیاں بند کرکے مٹھی بنا کر اشارہ کیا اور فرمایا: اسطرح۔ عبد الرحمن ابن سیابہ کہتا ہے: امام کی اس سفارش پر عمل کے نتیجہ میں میری حالت بہت جلد ٹھیک ہو گئی اور بہت کم مدت میں، میں نے تین ہزا درہم زکات کے عنوان سے زکات کے مستحقین میں تقسیم کیے۔(۲۷)
مستقبل کیلئے بچانا
امام ہمیشہ ہر انسان کو اپنے مستقبل کیلئے کچھ بچا کر رکھنے کی تاکید فرماتے تھے تاکہ خدا نا خواستہ کوئی حادثہ پیش آئے یا کسی اور کام کیلئے پیسوں کی ضرورت ہو تو انسان دوسروں کا محتاج نہ ہو!
امام صادق علیہ السلام کا ایک ماننے والا جس کا نام مسمع ہے وہ کہتا ہے: میں ایک دن امام سے مشورہ لینے کی غرض سے امام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی: مولا آپ پر قربان جائوں میرے پاس زمین، جائیداد ہے ایک اچھا خریدار مناسب قیمت میں اسے خریدنا چاہتا ہے۔امام نے فرمایا: جو بھی انسان زمین جائیداد کو بیچتا ہے اسے واپس نہیں بنا سکتا! میں نے کہا : اچھی قیمت مل رہی ہے میں اس سے بڑی زمین خرید لوں گا۔ امام نے فرمایا: پھر ٹھیک ہے۔(۲۸)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی اصحاب سے جن افراد کا شمار متقی اور پرہیزگار لوگوں میں ہوتا ہے وہ سلمان اور ابوذر ہیں۔ سلمان کی روش یہ تھی کہ جب بھی اسے بیت المال سے سال کا وظیفہ ملتا تھا اسے اگلے سال اسی تاریخ تک دوبارہ اس کی باری آنے تک ذخیرہ کر کے سنبھال کر رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس پہ اعتراض کیا: تم اتنے زہد اور تقوی کے باوجود آئندہ کی فکر میں ہو (اور اللہ پر توکل نہیں رکھتے) شاید آج مر جاؤ کل تک زندہ ہی نہ رہو! سلمان نے جواب میں کہا: تم لوگ کیوں مرنے کی فکر میں جینے کا نہیں سوچتے؟ اے نادان لوگو! تمہیں علم نہیں جو لوگ اپنی زندگی کے وافر مقدار میں وسائل نہیں رکھتے وہ اپنی عبادات اور فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں اور ان میں حق کے راستے رہ چلنے کی لگن ختم ہو جاتی ہے۔لیکن جو لوگ اپنی حاجت کے مطابق مال رکھتے ہوں وہ اطمنان سے حق کی راہ میں گامزن رہتے ہیں۔(۲۹)
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «لا خير فيمن لا يحب جمع المال من حلال يکف به وجهه و يقضى به دينه و يصل به رحمه؛ (30)
جو انسان اپنے اہل و اعیال کی آبرو کی حفاظت کیلئے، اپنے قرضہ کو ادا کرنے کیلئے اور اپنے خاندان کے گذارے کیلئے حلال روزی کمانے کو دوست نہ رکھتا ہو اس سے کسی نیکی کی امید مت رکھو!
کاروبار کی اہم شرطیں
اسلام کی نظر میں کاروبار، انسانی کمالات اور فضائل کو نکھارنے کا سبب ہے۔ اگر کوئی انسان کاروبار اور تجارت میں آتا ہے تو اسے مادی منافع کے ساتھ ساتھ معنوی بلندی بھی ملتی ہے۔
عبد اللہ ابن یعفور نقل کرتے ہیں: میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا امام سے ایک شخص نے سوال کیا: مولا ، اللہ کی قسم! ہم دنیا طلبی کی طرف جا رہے ہیں اور دنیا کو پسند کرتے ہیں! امام نے جواب میں فرمایا: تم اس آمدنی ، مال اور دنیا سے کیا کرنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا: اپنی ضروریات کو پورا کرنا، اپنےخاندان اور اہل و عیال کا خیال رکھنا، غریبوں اور فقیروں کی مدد کرنا، حج اور عمرہ انجام دینا۔ امام نے فرمایا: یہ تو مال اور دنیا طلبی نہیں ، یہ تو آخرت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔(۳۱)
ضروری ہے کہ مادی منافع کے حصول کیلئے کمانا بھی الہی انگیزہ سے ہو۔ اور اس مادی منافع کو بھی انسان مقاصد الہی کے حصول کا ذریعہ قرار دے اگر ایسے نہ ہو تو یہ دنیا طلبی میں شمار ہوگا اور برا کام کہلائے گا۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے افراد مال اور دنیا جمع کرتے ہیں لیکن کسی نیک اور اچھے کام کا ارادہ نہیں رکھتے ان میں سے کچھ تو مال کیلئے اتنے حریص ہوجاتے ہیں کہ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت اور سلامتی کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
امام صادق علیہ السلام ایسے افراد کو خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ليس فيما اصلح البدن اسراف، انما الاسراف فيما اتلف المال و اضر بالبدن؛ (32)
جس چیز میں انسانی جسم کیلئے فائدہ ہو اس میں اسراف نہیں، اسراف ہر وہ چیز ہے جس سے انسانی جسم کا نقصان اور ضرر ہو۔
امام صادق علیہ السلام کا نظریہ، یہ ہے کہ انسان دنیا اور اس کی مال ملکیت سے اخروی فائدے حاصل کرے تاکہ اس میں اور جو افراد دنیا کو صرف ذخیرہ کرنے اور اپنی خودنمائی کیلئے خرچ کرتے ہیں، میں فرق رہے۔ اس وجہ سے امام صادق دنیا پرستوں اور دنیا سے دل لگانے والوں پر لعنت کرتےہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «ملعون ملعون من عبد الدينار و الدرهم؛ (33)
ملعون ہے! ملعون ہے وہ شخص جو دولت، درہم اور دینار کی پوجا کرے!
اور دوسری طرف اپنے ماننے والوں کو تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «لا تدع طلب الرزق من حله فانه عون لک على دينک؛ (34)
حلال روزی کمانے سے ہرگز شرم نہ کرو کیونکہ حلال کمانا تمہاری ،تمہارے دین میں نصرت کرے گا۔
مولوی اس مطلب کو اپنے شعر میں اس انداز مین بیان کرتے ہیں:
چيست دنيا از خدا غافل بدن
نى قماش و نقره و فرزند و زن
مال را کز بهر دين باشى حمول
نعم مال صالح خواندش رسول
آب در کشتى هلاک کشتى است
آب اندر زير کشتى پشتى است
چونکه مال و ملک را از دل براند
زآن سليمان خويش جز مسکين نخواند
گر چه جمله اين جهان ملک وى است
ملک در چشم دل او لاشى است
اگر دنیا، اللہ کی یاد سے غافل نہ کرے ! اور مال، اولاد اور اہل و عیال دین سے نہ روکے!
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول کے مطابق یہ صالح مال ہے۔
کیونکہ پانی جب تک کشتی سے باہر ہے کشتی کا سہارا ہے! جب پانی کشتی میں اندر آئے گا تو کشتی کے تباہ ہونے کا سبب بنے گا!
جو بھی مال اور دنیا کو دھتکارے گا، سلماکن بھی مسکین کے علاوہ کچھ نہ رہے گا!
اگرچہ پورا جہان اللہ تعالی کا ہے اور دل کی نظر میں اس دنیا کی کوئی اہمیت نہیں!
حوالہ جات :
1) وسائل الشيعه، ج 17، ص 66 .
2) الکافى، ج 5، ص 84 .
3) اوپر والی کتاب، ص 78 .
4) وسائل الشيعه، ج 17، ص 63 .
5) الکافى، ج 5، ص 92 .
6) اوپر والی کتاب، ج 5، کتاب المعيشه، ح 1 .
7) نهج البلاغه، نامه 31 .
8) وسائل الشيعه، ج 15، ص 193 .
9) تحف العقول، ص 322 .
10) اوپر والی ، ص 381 .
11) طلاق/2و3 .
12) تهذيب الاحکام، ج 6، ص 323 .
13) اصول کافى، باب من لا تستجاب دعوته، حديث 2 .
14) من لا يحضره الفقيه، ج 3، ص 174 .
15) اسراء/29 .
16) اسراء/29 .
17) وسائل الشيعه، ج 17، ص 66 .
18) اس بات کی تفصیلات کو، کتاب وسائل الشيعه، ج 17، ص 83 و تحف العقول ص 331، 338 مطالعه کیا جا سکتا ہے .
19) ابراهيم/12 .
20) وسائل الشيعه، ج 17، ص 42 .
21) اوپر والا حوالا .
22) وسائل الشيعه، ج 17، ص 39 .
23) اسدالغابه، ج 2، ص 169 .
24) وسائل الشيعه، ج 17، ص 17 .
25) نور/37 .
26) وسائل الشيعه، ج 17، ص 14و15 .
27) الکافى، ج 5، ص 134؛ بحارالانوار، ج 47، ص 384 .
28) الکافى، ج 5، ص 92 .
29) وسائل الشيعه، ج 17، ص 435 .
30) الکافى، ج 5، ص 72 .
31) وسائل الشيعه، ج 17، ص 34 .
32) تهذيب الاحکام، ج 1، ص 377 .
33) اصول کافى، باب الذنوب، حديث 9 .
34) وسائل الشيعه، ج 17، ص 34 .