امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ثقافت اہلبیت علیہم السلام میں اربعین کی فضیلت

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

ثقافت اہلبیت  علیہم السلام میں اربعین کی فضیلت
مقالہ نگار: عبدالکریم نیا
مترجم: اسد رضا چانڈیو

پیشکش امام حسین فاونڈیشن


اربعین کا لفظ دینی نکتہ نظر سے اور احادیث میں بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے۔  چالیس حدیثوں کو یاد کرنے کی تاثیر ، چالیس دن خلوص سے عمل کرنا، چالیس دن صبح کو دعائے عہد کی تلاوت کرنا، چالیس سال کی عمر میں عقل انسانی  کا  کامل ہونا، میت کیلئے چالیس مومنیں کی گواہی، امام زمانہ کی زیارت اور دیدار کیلئے چالیس بدھ کی راتوں میں توسل اور عبادت کو انجام دینا،اکثر انبیاء کا چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہونا، یہ موارد اس علمی، اسلامی اور عرفانی اصطلاح کی منزلت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اربعین ان رائج اصطلاحات میں سے ہے جو اسلامی عبارتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے اربعین اور چہلم کی مناسبت سےہم  اربعین جیسے مقدس لفظ کے اسلامی  ثقافت  میں مختلف مقامات میں استعمال ہونے کو بیان کرنا چاہتے ہیں  جو کبھی اپنے ساتھ دستور الہی کو بیان کرتا ہے تو کبھی اخلاقی ذمیداری کو،لیکن  اس مقالے میں تیس مقامات کی طرف اشارہ  کرتے ہیں :
۱۔ چالیس مومنین کی شہادت اور گواہی
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «اذا مات المؤمن فحضر جنازته اربعون رجلا من المؤمنين وقالوا: اللهم انا لانعلم منه الا خيرا وانت اعلم به منا، قال الله تبارک وتعالي: قد اجزت شهاداتکم وغفرت له ما علمت مما لا تعلمون؛ (1)
جب بھی کسی مومن کا انتقال ہوتا ہےاور اس کے جنازے میں چالیس مومنین حاضر ہوتے ہیں  اور گواہی دیتے ہیں : پروردگارا! ہم اس مومن کے بارے میں نیکی اور خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو اس کے بارے میں ہم سے بہتر جانتا ہے۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: میں تم لوگوں کی گواہی کو قبول کرتا ہوں اور جن گناہوں کے بارے میں تم نہیں جانتے اور میں جانتا ہوں  وہ سارے کے سارے معاف کرتا ہوں۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہمیشہ عبادت اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتا تھا ۔ اللہ تعالی نے حضرت داوود پر وحی نازل فرمائی: یہ عابد ریاکار ہے اور کوئی خلوص نہیں رکھتا۔ حضرت داوود اس کی تشییع جنازہ کے لئے حاضر نہ ہوئے لیکن بنی اسرائیل کے چالیس مومنین وہاں حاضر ہوئے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میت کیلئے نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اللہ تعالی سے اس میت کی مغفرت طلب کی۔ غسل میت کے دوران دوسرے چالیس مومنین نے بھی مغفرت طلب کی۔ اسی طرح دفن کے دوران بھی چالیس مومنین  نےاس میت کی نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اس کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت داوود پر الہام فرمایا: میں نے اتنی تعداد میں مومنین کی گواہی کی وجہ سے اس میت کے گناہوں اور ریاکاری سے درگذر فر مایا ۔(2)
۲۔ چالیس مومنین کیلئے دعا کرنا
چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام دعا کی قبولیت کے اہم ترین عوامل میں سے  ایک، اپنے لئے دعا سے پہلے دوسرے مومنین کے مقدم کرنے کو شمار کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں: «من قدم اربعين من المؤمنين ثم دعا استجيب له؛ (3)
جو بھی اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے چالیس مومنین کو مقدم کرے اور پھر اپنے لئے حاجت طلب کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی۔
آپ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اگر اس طرح نماز شب یا اس کے بعد دعا مانگی جائے تو اس دعا کا اثر اور بڑھ جاتا ہے۔(۴)
اسی طرح چالیس مومنین کیلئے تاریک راتوں کی نماز وتر کے قنوت میں دعا مانگنے سے دعا قبولیت سے زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔(۵)
۳۔ چالیس لوگوں کا دعا کرنا
دعا کرنا ہمیشہ ایک اچھا کام ہے، دعا مومن کا ہتھیار ہے، دعا اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کا ذریعہ ہے۔
جب انسان خود کو عاجز اور لاچار پاتا ہے تو  دل اور جان سے فریاد کرتا ہے: سينه مالامال درد است اى دريغا مرهمى
دل زتنهايى به جان آمد خدايا همدمى
پروردگارا! میرا سینہ درد سے چھلنی ہے میری مدد فرما۔ میرا دل تنہائی کی وجہ سے پریشان ہے میری پریشانی دور فرما۔
ان حساس لمحات میں دعا  امید کی ایک کرن بن کر اس انسان کے دل کو روشن کردیتی ہے۔ دعا کرنے والا اپنے اندر سکون محسوس کرنے کے علاوہ   اعتماد نفس، روحانی لذت، عشق اور معرفت کو بھی پا لیتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام اپنے ایک حکیمانہ کلام میں ہمیں اجتماعی دعا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:اگر چالیس مومنین مل کر اللہ تعالی سے دعا مانگیں یقین اور اطمنان ہے کہ وہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ اور اگر چالیس لوگ نہ ہوں اور چار لوگ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگیں تو وہ دعا بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے۔ اور اگر ایک بندہ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگے تو خداوند عزیز اور جبار اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔(۶)
۴۔ چالیس گناہوں کی معافی
امام محمد باقر علیہ السلام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں سے  ایک، ان کے جنازے میں شرکت کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «من حمل جنازة من اربع جوانبها غفرالله له اربعين کبيرة؛ (7)
جو بھی جنازہ کو چاروں طرف سے کاندھا دے گا اللہ تعالی اس کے چالیس گنا ہوں کو معاف فرمائے گا۔
۵۔ چالیس سالوں میں عقل کا کامل ہونا
جن چیزوں کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت اور کمال میں بہت بڑا اثر ہے ان میں سے ایک انسان کا کامل اور پختہ ہونا ہے۔ اللہ تعالی اس سلسلے میں چالیس سالوں کو انسانی زندگی کی معراج مانتا ہے اور فرماتا ہے: «... حتى اذا بلغ اشده وبلغ اربعين سنة قال رب اوزعنى ان اشکر نعمتک التى انعمت على وعلى والدى وان اعمل صالحا ترضيه واصلح لى فى ذريتى انى تبت اليک وانى من المسلمين» ؛ (8)
۶۔ چالیس دن کے خلوص کے اثرات
امام رضا علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: «ما اخلص عبد لله عزوجل اربعين صباحا الا جرت ينابيع الحکمة من قلبه على لسانه؛ (9)
جو بھی چالیس دنوں تک اللہ تعالی کیلئے خلوص سے عمل کرتا رہے گا اللہ تعالی اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جارے فرمائے گا۔
۷۔ امام زمانہ کے ساتھی
جب امام زمانہ ظہور فرمائیں گے تو ان کے ہر مددگار اور شیعہ ساتھی کی قوت اور طاقت،  جسمانی اور روحانی لحاظ سے مضبوط چالیس مردوں جتنی ہوگی۔
امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «اذا قام قائمنا اذهب الله عزوجل عن شيعتنا العاهة وجعل قلوبهم کزبر الحديد وجعل قوة الرجل منهم قوة اربعين رجلا؛ (10)
جب ہمارے قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور ہوگا تو اللہ تعالی ہمارے شیعوں سے آفت اور بلاءوں کو دور کرے گا اور ان میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی طاقت عنایت فرمائے گا۔
۸۔ چالیس دن مومن کیلئے عزاداری
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مومن کے مقام کے متعلق ابوذر کو سفارش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «يا اباذر! ان الارض لتبکى على المؤمن اذا مات اربعين صباحا؛ (11)
اے ابوذر! جب مومن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو چالیس دنوں تک یہ زمین اس پر گریہ اور عزاداری کرتی ہے۔
ممکن ہےمومنین کے چہلم کی مجالس کی یہی دلیل ہو۔
۹۔ چالیس سالہ زندگی
جب فرزدق نےظالم عباسی خلیفہ ہشام ابن عبد الملک کے سامنے  امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح میں ایک بہترین قصیدہ خوبصورت انداز میں پڑھا جس کا مطلع یہ تھا: هذا الذى تعرف البطحاء وطاته
والبيت يعرفه والحل والحرم؛

اسے سرزمین بطحا اور اس کی گلیاں جانتی ہیں۔ اسے اللہ کا گھر بیت الحرام، حل اور حرم پہچانتے ہیں۔
تو خلیفہ، فرزدق پر بہت ناراض ہوا ۔ اور اس نے حکم دیا کہ فرزدق کا ماہانہ قطع کرتے ہوئے اس کو  اہلبیت کے حق سے دفاع  کرنے کے جرم میں قید کیا جائے۔ لیکن وہ امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا سے چند دنوں میں ہی رہا ہو گیا۔ امام زین العابد علیہ السلام ین نے اس کی چالیس سالہ زندگی کے خرچ جتنا مال اس کیلئے تحفہ بھیجااور فرمایا: «لو علمت انک تحتاج الى اکثر من ذلک لاعطيتک؛ (12)
اے فرزدق! اگر مجھے تیری چالیس سال سے  زیادہ زندگی کا علم ہوتا تو میں اس سے زیادہ مال تمہیں بھیجتا۔
علی ابن یونس بیاضی لکھتے ہیں: اس تاریخ سے دقیقا چالیس سال بعد فرزدق نے اس فانی دنیا کو خدا حافظ کہا جس سے امام زین العابدین علیہ السلام کی صداقت اور کرامت سب پر روشن ہوگئی۔
۱۰۔ چالیس سالوں کی عمر میں انبیا کی بعثت
ایک روایت میں آیا ہے کہ اکثر انبیا کی بعثت چالیس سالوں کی عمر میں ہوئی۔(۱۳)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و ٓلہ و سلم بھی چالیس سالوں کی عمر میں مبعوث ہوئے۔(۱۴)
امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ۶۳ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آخری سال ہجرت کا دسواں سال تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اپنی پیدائش سے چالیس سال مکمل کئے تو  اللہ تعالی نے انہیں مبعوث فرمایا۔ اس کے بعد ۱۳ سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں گذارے اور ۵۳ سال کی عمر میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور دس سال بعد مدینہ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔(۱۵)
۱۱۔ چالیس حدیثوں کو یاد کرنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اسلامی معارف اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کیلئے مقدمہ سازی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «من حفظ من امتى اربعين حديثا مما يحتاجون اليه من امر دينهم بعثه الله يوم القيامة فقيها عالما؛ (16)
میری امت میں سے جو بھی ایسی چالیس حدیثیں یا د کرے جن کی معاشرہ کو عموما ضرورت پڑتی ہے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن فقیہ اور دانشمند بنا کر محشور کرے گا۔
اس حدیث کی بنیاد پر بہت سارے شیعہ بزرگ علماء نے چالیس حدیثوں کے عنوان سے کتابیں تالیف کی ہیں اور اپنی یادگار چھوڑی ہیں اس امید پر کہ  اللہ تعالی انہیں بھی رسول اکرم کے اس نورانی فرمان کا مصداق بنائے جیسے اربعين شيخ بهائى، اربعين شهيد اول، اربعين مجلسى دوم، اربعين جامى و چهل حديث امام خمينى رحمه الله .
۱۲۔ چالیس دنوں تک گناہ کا اثر
انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اس گناہ کا اثر چالیس دنوں تک انسان کی روح اور نفس پر باقی رہتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «لا تقبل صلاة شارب الخمر اربعين يوما الا ان يتوب؛ (17)
شراب پینے والےکی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی یہاں تک وہ توبہ کرلے۔
۱۳۔ چالیس سالوں تک اصلاح
بنیادی طور پر سعادتمند افراد وہ ہوتے ہیں جو خوشبختی اور کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چالیس سال کی عمر تک ان کے رفتار اور کردار میں اصلاح پیدا ہو جائے۔ اور اگر چالیس سال تک کسی کے کردار اور رفتار میں تبدیلی نہ آئے اور وہ اپنے آپ کو بری چیزوں سے روک نہ پائے تو اس کے بعد اس کی اصلاح مشکل ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مسلمانوں کو اس معاملہ میں خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: «اذا بلغ الرجل اربعين سنة ولم يغلب خيره شره قبل الشيطان بين عينيه وقال: هذا وجه لايفلح؛ (18)
جب انسان چالیس سال کا ہو جائے  اور اس کے اچھے عملوں کی تعداد اس کے برے عملوں سے زیادہ نہ ہو تو شیطان اس کی پیشانی پر بوسا دیتا ہے  اور کہتا ہے اس چہرہ والا کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔
ایک اور حدیث میں،  جو افراد چالیس سال تک اپنی اصلاح کیلئے کوشش نہیں کرتے ان کو جہنمی شمارکرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: وہ چالیس سالہ انسان جس کو نیکی کی فکر نہیں وہ اپنے آپ کو جہنم کیلئے تیار کرے اور اس کی نجات مشکل ہے۔(۱۹)
۱۴۔ چالیس سالہ افراد کو ہوشیار کرنا
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: «اذا بلغ الرجل اربعين سنة نادى مناد من السماء دنا الرحيل فاعد زادا ولقد کان فيما مضى اذا اتت على الرجل اربعون سنة حاسب نفسه؛ (20)
جب انسان چالیس سال کا ہوتا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے،  سفر کا وقت قریب ہے سفر کی تیاری کرلو ۔ گزشتہ زمانے میں انسان جب بھی چالیس سال کا ہوتا تھا اپنا حساب کتاب کرتا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ کو مقرر فرمایا ہے جس کا کام ہر رات یہ فریاد کرنا ہے: «يا ابناء الاربعين ماذا اعددتم للقاء ربکم؛ (21)
اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے والے  لوگو! تم نے اپنے پروردگار سے ملاقات کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ تمہارے پاس کیا جواب ہے؟
۱۵۔ اربعین اور کھانا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: «من ترک اللحم اربعين صباحا ساء خلقه؛ (22)
جو بھی چالیس دنوں تک گوشت نہ کھائےگا اس کااخلاق برا ہو جائے گا۔
۱۶۔ چالیس افراد پہلے لشکر کی تعداد
جب امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ماننے والوں میں سے کسی نے امام سے ظلم اور ستم کے مقابل خصوصا معاویہ کے  ظلم کے خلاف قیام کرنے کی درخواست کی تو امام نے ارشاد فرمایا : «لى اسوة بجدى رسول الله حين عبدالله سرا وهو يومئذ فى تسعة وثلاثين رجلا فلما اکمل الله له الاربعين صاروا فى عدة واظهروا امر الله فلو کان معى عدتهم جاهدت فى الله حق جهاده؛ (23
امت کی رہبری میں میرے نانا کی سیرت نمونہ عمل  ہےجب تک ان کی تعداد انتالیس تھی وہ چھپ کے اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہے۔ جب ان کی تعداد چالیس ہوئی تو آپ نے اللہ تعالی کے دین کو ظاہر کیا اور اس کی تبلیغ فرمائی۔ اگر میرے ساتھ چالیس لوگ ہوتے تواس طرح جہاد کرتا جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔
۱۸۔ چالیس سچے دوستوں کا نہ ہونا
امام علی علیہ السلام اپنی غربت اور مظلومیت کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں:میں نے کئی بار لوگوں سے مدد اور نصرت طلب کی لیکن چار لوگوں  زبیر، سلمان، ابوذر اور مقداد کے علاوہ کسی نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا ۔ اس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا: «لو کنت وجدت يوم بويع (اخوتيم) اربعين رجلا مطيعين لجاهدتهم؛ (24)
اگربیعت کے دن میرے پاس چالیس فرمانبردار اور مطیع افراد ہوتے تو میں ان سے مقابلہ اور جہاد کرتا۔
۱۸۔ ہمسایہ کے حقوق
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  معاشرہ کی سلامتی کیلئے اور لوگوں کے درمیاں اعتماد اور اطمئنان کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے اور اسی طرح اتحاد کی تقویت کیلئے، اسلامی ماحول میں ہمسایہ کے حقوق بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: «کل اربعين دارا جيران من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله؛ (25)
ایک مسلمان کے گھر کے چاروں طرف ، آگے ، پیچھے، دائیں اوربائیں سے چالیس گھر، ایک مسلمان کے ہمسایگی میں شامل ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمت بھرے  پیغام کے حوالے سے  امام علی علیہ السلام کو سلمان، ابوذر اور مقداد کے ساتھ حکم دیا کہ لوگوں کے درمیاں ندا کرو اور ان کو ہمسائے کے حقوق اور حدود کے بارےبتاوکہ: «انه لاايمان لمن لم يامن جاره بوائقه؛ (26)
جس شخص کے ہمسائے اس کے شر اور آزار سے امان میں نہ ہوں اس کے پاس کوئی ایمان نہیں۔
۱۹۔ چالیس دنوں کی مہلت
کچھ مسلمان دینی مسائل اور اپنی عزت کے حوالے سے سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں  اور  اس وجہ سے اللہ کے مورد عتاب قرار پاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو چالیس دنوں کی مہلت دیتاہے تاکہ اپنی اور اپنے خاندان کے اصلاح کرسکے اگر وہ پھر بھی دینی مسائل میں سستی اور کاہلی کرتا ہے  اور چشم پوشی کرتا ہے  تو وہ حقیقت کی پہچان سے عاجز ہو جاتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: جو بھی اپنی اہل و عیال میں کسی برائی کو مشاہدہ کرے اور دینی غیرت کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنے خاندان کو گناہ سے باز نہیں رکھے اور ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرے  تو اللہ تعالی ایک سفید پرندہ کو اس پر مامور کرتا ہے جو چالیس دنوں تک اس کے گھر کے دروازہ پر پروں کو پھیلائے رکھتا ہے اور اس کے آتے جاتے  اس سے کہتا ہے: اپنی اصلاح کرو! اپنی اصلاح کرو! غیرت کرو! غیرت کرو! اگر اس نے اپنے اہل اور عیال  کی اصلاح کی تو ٹھیک ورنہ وہ اپنے پروں کو اس شخص کی آنکھوں پر ملتا ہےاور  اس کے بعد وہ شخص کچھ نہیں دیکھ پاتا  یعنی نیکی کو اچھا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا۔(۲۷)
۲۰۔ بچوں کی صحت اور بہداشت
اپنے نوزایدہ بچوں کے ختنہ کرانے  کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: «اختنوا اولادکم يوم السابع فانه اطهر واسرع لنبات اللحم فقال ان الارض تنجس ببول الاغلف اربعين يوما؛ (28)
اپنے نوزایدہ بیٹوں کا ختنہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن انجام دو ۔ ایسا کرنا انکی سلامتی اور پاکیزگی کا سبب ہے اورختنہ،  ان کے  رشد اور بڑہاوے میں بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اس کے پیشاب سے زمیں چالیس دنوں تک  آلودہ رہتی ہے اور کراہت کرتی ہے۔
۲۱۔ حیوانات کی تسبیح
امام صادق علیہ السلام  ارشاد فرماتے ہیں: ایک رات حضرت داوود خوشی خوشی زبور کی تلاوت فرمارہے تھے اور اس تلاوت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔  اس رات انہیں اندازہ ہوا کہ شب بیداری کتنی لذت آور چیز ہے۔ اس بات پر وہ بہت تعجب کر رہے تھے۔ ناگاہ ایک بڑی چٹان کے نیچے سے ایک مینڈک نے اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے کہا: «يا داود تعجبت من سهرک ليلة وانى لتحت هذه الصخرة منذ اربعين سنة ماجف لسانى عن ذکر الله تعالي؛ (29)
اے داوود! ایک رات کی بیداری ، ذکر  اور عبادت پر تعجب نہ کرو! مجھے اس چٹان کے نیچے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں اور اس درمیان ایک لمحہ بھی میری زبان اللہ کے ذکر سے خاموش نہیں ہوئی۔
۲۲۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کی کرامت
حضرت امام علی علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت اور منقبت کرتے ہوئے ایک بہت طولانی روایت میں ارشاد فرماتے ہیں: ایک دن یہودیوں کے علماء میں سے ایک عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متعدد سوالات پوچھے اور ان کے جوابات دریافت کیے اور مسلمان ہو گیا۔ پھر اس نے کچھ تختیاں باہر نکالیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دکھاتے ہوئے کہا:یہ ان نورانی عبارتوں میں سے ہیں جو حضرت موسی ابن عمران علیہ السلام پر نازل ہوئیں۔ میں نے آپ کے فضائل اس میں پڑھے پھر بھی شک کرتا تھا اور چالیس سال تک آپ کا نام گرامی تورات سے مٹاتا رہا لیکن اس ذات حق کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا میں نے جتنی بار بھی آپ کا نام گرامی مٹایا ، اتنی بار دوبارہ وہاں آپ کا نام گرامی لکھا پایا(۳۰)
۲۳۔ قرآن میں اربعین (چالیس)
قرآن مجید میں اربعین کے لفظ کی طرف متعدد بار اشارہ ہوا ہے۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے قصہ میں ارشاد ہوتا ہے: «واذ واعدنا موسى اربعين ليلة» ؛ (31)
اور ہم نے موسٰی علیہ السّلام سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا.
اور پھر ارشاد رب العزت ہوتا ہے: «وواعدنا موسى ثلثين ليلة واتممناها بعشر فتم ميقات ربه اربعين ليلة» ؛ (32)
اور ہم نے موسٰی علیہ السّلام سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کردیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہوگیا.
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی حضرت موسی سے نافرمانی  کو ذکر کیا ہے اور یہودیوں میں سے اس نا فرمان گروہ کی سزا اور عتاب چالیس سالوں تک سرگردان بھٹکنا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: «فانها محرمة عليهم اربعين سنة يتيهون فى الارض فلا تاس على القوم الفاسقين» (33)
ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کردئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو.
۲۴۔ چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لئے پھرنے والا مجاہد
دعبل ابن علی خزائی ، اہلبیت علیہم السلام کے عارف اور شجاع شعراء میں سے ایک تھے۔ اور وہ امام رضا علیہ السلام کے ہاتھوں سے بہت سارے مادی اور معنوی تحفہ تحائف سے شرفیاب ہوئے۔ اس نے وصیت کی کہ اس کے قصیدہ  کو جو کہ مدارس آیات کے نام سے مشہور تھا اور اہلبیت کی تائید اور تصدیق کا مورد تھا، اس کے کفن پہ تحریر کیا جائے۔ اس کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ ظالم حکمران اس سے خوف کھاتے تھے۔
ابن مدبر لکھتا ہے : میں نے ایک دن دعبل سے کہا:میں نے تیرے جیسا بے باک، بہادر اور  نڈر انسان نہیں دیکھا! تم اسقدر بے باک ہو کہ سفاک اور  ظالم حکمرانوں  کے کرتوتوں کو بے نقاب کرتے رہو اور ان کی حقیقت کو اپنے اشعار میں بیان کرتے رہواور  اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا رہے ہو۔
دعبل ،  ابن مدبر کی اس خبرداری کے با وجود اہلبیت کے عشق اور محبت پہ ڈٹا رہا اور  اس بات کے جواب میں کہا:میں چالیس سال سے اپنے سر کیلئے سولی ساتھ لے کے پھرتا  ہوں  لیکن آج تک مجھے اس سولی پہ لٹکانے والا نہیں ملا!
شيعه يعنى دعبل چشم انتظار
مى کشد بر دوش خود چل سال دار
شيعه يعنى همچو امثال کميل
سر نهد بر خاک پاى اهل بيت

شیعہ یعنی دعبل  چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لئے اپنی موت کا انتظار کرتا ہے۔
شیعہ یعنی کمیل کی طرح اہلبیت علیہم السلام کے نقش پا پر سر رکھ دیتا ہے۔
۲۵۔ عدالت کا مقام اور فضیلت
امام موسی کاظم علیہ السلام اس آیت «يحيى الارض بعد موتها»   کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالی مردہ زمیں کو بارش کے قطروں کے ذریعہ سے زندہ اور آباد نہیں کرتابلکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنے والے مردوں کے ذریعہ زندہ اور آباد کرتا ہے ۔۔۔ کیونکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنا اس چالیس دنوں کی بارش اور اس سے حاصل ہوئے والے مادی منافع سے ہزار مرتبہ بہتر ہے۔(۳۵)
۲۵۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی مذمت
امام صادق علیہ السلام ،  تاجروں کے لوگوں کی مورد نیاز  اجناس کو ذخیرہ کرنے اور اس کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «الحکرة فى الخصب اربعون يوما وفى الشدة والبلاء ثلاثة ايام فمازاد على الاربعين يوما فى الخصب فصاحبه ملعون ومازاد على ثلاثة ايام فى العسرة فصاحبه ملعون؛ (36)
لوگوں کی مورد نیاز چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی حد عام حالت میں چالیس دن اور خشکسالی کے دور میں تین دن ہے جو بھی تاجر جنس کی زیادتی کے زمانہ میں چالیس دن اور جنس کی نایابی کے زمانہ میں تین دن سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرے گا اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو۔
۲۷۔ حاجت کی بر آوری  کیلئے چلہ کاٹنا
امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے حضرت داوود پر وحی نازل فرمائی: «انک نعم العبد لولا انک تاکل من بيت المال ولا تعمل بيدک شيئا»
اے داوود! اگر تو بیت المال میں سے نہ کھاتا اور اپنی محنت سے کماکر کھاتا تو میرا بہترین بندہ ہوتا!
حضرت داوود علیہ السلام چالیس دنوں تک اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ اور زاری کرتے رہے ۔ اللہ سے اس مشکل کی دوری کی دعا مانگتے رہے اور اللہ تعالی نے اس بات کے مقدمات فراہم کیے اور لوہے کو حٖضرت داوود کے کنٹرول میں دے دیا تاکہ وہ اس لوہے سے روزانہ ایک  زرہ بناسکے۔  حضرت داوود علیہ السلام نے  اس زرہ کو ایک  ہزار درہم میں فروخت کیا ۔ اس نے  تین سو ساٹھ زرہیں بنائیں اور تین سو ساٹھ ہزار درہم کمائے  جو اس کے اپنے  گھر کے خرچہ کیلئے کافی تھے اور بیت المال سے بے نیاز ہو گیا۔(۳۷)
۲۸۔ زیارت اربعین،  ایمان اور تشیع کی علامت
امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: «علامات المؤمنين خمس: صلاة الاحدى والخمسين وزيارة الاربعين والتختم فى اليمين وتعفيرالجبين والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم؛ (38)
مومن (شیعہ)کی پانچ علامتیں ہیں: روزانہ اکاون رکعتیں نماز ادا کرنا (سترہ رکعتیں واجب،  چونتیس رکعتیں مستحب)، اربعین کو امام حسین کی زیارت کرنا،  دائیں ہاتھ میں انگشتر پہننا،سجدہ کی حالت میں پیشانی کو خاک پر رکھنا،  اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑہنا۔
۲۹۔ امام حسین علیہ السلام پر چالیس روز گریہ
امام صادق علیہ السلام  ایک روایت میں تمام موجودات کے سالار شہداءپر گریہ کرنے کو بیان کرتے ہوئے زرارہ سے فرماتے ہیں: «يا زرارة! ان السماء بکت على الحسين عليه السلام اربعين صباحا بالدم وان الارض بکت اربعين صباحا بالسواد و ان الشمس بکت اربعين صباحا بالکسوف والحمرة ... وان الملائکة بکت اربعين صباحا على الحسين عليه السلام؛ (39)
اے زرارہ! آسمان نے چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر خون کے آنسوں سے گریہ کیا۔ اور زمین نے  امام حسین علیہ السلام پر سیاہی کے ذریعہ گریہ کیا۔ سورج نے بھی امام حسین علیہ السلام  پر  گرہن اور لالی کے ذریعہ گریہ کیا۔۔۔۔ اور ملائکہ نے بھی چالیس روز امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور عزاداری کی۔
۳۰۔ زیارت اربعین سے اقتباس
صفوان ابن مہران جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے مجھے زیارت اربعین کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے روزمیرے دادا ، آقا،  مولا حسین علیہ السلام کی زیارت اس طرح کیا کرو: السلام على ولى الله وحبيبه ...»
 اے اللہ کے ولی اور حبیب تم پر  سلام ہو!۔۔۔۔۔
زیارت اربعین میں بہت بلند عرفانی اور معنوی مطالب پائے جاتے ہیں جیسے: «وبذل مهجته فيک ليستنقذ عبادک من الجهالة وحيرة الضلالة؛ (40)
پروردگارا! میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام نے تیری بارگاہ میں اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور سرگردانی سے نجات بخشے!

حوالہ جات :

1) من لايحضره الفقيه، ج 1، ص 166، ح 472؛ مستدرک سفينة البحار، ج 4، ص 64 .
2) مستدرک الوسائل، ج 2، ص 471 .
3) الکافى، ج 2، ص 509، ح 5 .
4) بحارالانوار، ج 90، ص 389 .
5) کشف الغطاء، ج 1، ص 246 .
6) الکافى، ج 2، ص 487 .
7) اوپر والی  کتاب، ج 3، ص 174، ح 1 .
8) احقاف/15 .
9) عيون اخبار الرضا عليه السلام، ج 1، ص 74، ح 321 .
10) الخصال، ج 2، ص 541، ح 14 .
11) مکارم الاخلاق، ص 465 .
12) الصراط المستقيم، ج 2، ص 181 .
13) بحارالانوار، ج 13، ص 50 .
14) تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 22 .
15) کشف الغمه، ج 1، ص 14 .
16) الخصال، ج 2، ص 541، ح 15 .
17) مستدرک الوسائل، ج 17، ص 57 .
18) مشکاة الانوار، ص 295 .
19) اوپر والا حوالا .
20) مستدرک الوسائل، ج 12، ص 156؛ مجموعه ورام، ج 1، ص 35 .
21) مستدرک الوسائل، ج 12، ص 157 .
22) اوپر والی کتاب ، ج 16، ص 305 .
23) مستدرک الوسائل، ج 11، ص 77 .
24) اوپر والی کتاب، ص 74 .
25) وسائل الشيعة، ج 12، ص 132 .
26) مستدرک الوسائل، ج 8، ص 431 .
27) الجعفريات، شيخ صدوق، ص 89 .
28) مکارم الاخلاق، ص 230 .
29) بحارالانوار، ج 61، ص 50 .
30) الخصال، ج 2، ص 356 .
31) بقره/51 .
32) اعراف/141 .
33) مائده/26 .
34) العدد القويه، ص 292 .
35) تهذيب الاحکام، ج 10، ص 146 .
36) الکافى، ج 5، ص 165 .
37) وسائل الشيعه، ج 17، ص 37 .
38) مصباح المتهجد، ص 787 .
39) مستدرک الوسائل، ج 10، ص 314، تلخيص کے ساتھ .
40) تهذيب الاحکام، ج 6، ص 113 .

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک