امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کربلا کی بقا کا راز

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

 

کربلا کی بقا کا راز
تحریر: غلام قاسم تسنیمی

   پیشکش: امام حسین فأونڈیشن


مقدمہ
انسانی تاریخ مختلف قسم کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے، تاریخ کے پردے پر کتنے ہی تاریخ ساز  نمودار ہوے لیکن گردش دوراں اور زمانے کی اوچ نیچ نے انہیں مٹا کر فراموشی کے سپرد کر دیا۔اور اگر کسی کا کردار کچھ زیادہ ہی موثر تھا بھی تو کچھ عرصے کے بعد سوائے قرطاس کے سینے کے وہ بھی کسی کو یاد نہ رہا۔ فقط اوراق تاریخ  میں اس کا نام دیکنھے کو باقی رہا۔ لیکن ایسی ہستیاں اور شخصیات بہت کم ہیں جن کو زماے گذرنے سے مزید شہرت ملی ہو اور گردش دوراں سے ان کی شخصیت کا قد اور بڑہتا چلا گیا ، ان کی عظمت میں روز بروز  اضافہ ہونے لگا اور ان کی شخصیت  زمان اور مکان کی قید سے گذر کر امر بن گئی ۔ ہر قوم انہیں اپنا کہنے لگے، ان کو اپنا آئیڈیل ماننے لگے، ان کی مثالیں دینے لگے اور نئی نسل کو ا ن سے آشنا کرنے لگیں۔
ان تمام شخصیات میں حسین ابن علی کا نام اور واقعہ کربلا اپنی مثال آپ ہے۔ کہنے کو تو اس واقعہ  کو چودہ صدیاں گذر چکیں ہیں لیکن اگر ہم آج بھی اپنے گوش و کنار پر نظر ڈالیں اور لوگوں کی دلوں میں ان کی محبت کا متلاطم سمندر دیکھیں یا ان کو دی جانے والی خراج تحسین کو ملاحظہ کریں تو لگے گا کہ یہ واقعہ کل ہی پیش آیا ہے۔
اب ہمیں دیکھا پڑے گا کہ اس واقعہ میں ایسا کیا کچھ ہے کہ یہ جاوید اور ماندگار بن گیا ہے، اس کی بقا کے کونسے راز ہیں؟ یہ مختصر تحریر ان اسرار کو واضح کرنے  اور رازوں کو جاننے کی معمولی کوشش ہے۔  ہم ان رازوں کو مختصر طور پر بیاں کرتے ہیں:
۱۔ خلوص اور پاک نیتی
واقعہ کربلا اور قیام امام حسین کا اہم عنصر ان کی پاک نیتی اور تقرب الہی کا جذبہ ہے۔ آپ نے فقط خدا کی رضا اور دین کو زندہ کرنے کیلئے قربانی دی۔ انکے قیام میں حکومتی عھدے یا دنیوی چیز کا کوئی لالچ نہ تھا۔ کربلا کی تاریخ کا ذرہ ذرہ اس کا گواہ ہے۔ اس بنیاد پر امام حسین نے اپنی تحریک کا بنیاد خدائی ذمہ داری کو پورا کرنے پر رکھا اور پھر نتیجہ خدا پر چھوڑ دیا۔ اس حقیقت کی عکاسی امام حسین کی سیرت ، آنحضرت کی رفتار، گفتار ، کلمات اور خطبات سے ہوتی ہے۔
 مثال کے طور پر جب امام حسین مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوے تو لوگوں کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کیلئے دعوت دیتے ہوے فرمایا:
من کان باذلا فينا مهجته و موطنا على لقاءِ الله نفسه فليرحل معنا،(1)
 جو بھی ہمارے لئے جان دے سکتا ہو اور اس  نے اپنے آپ کو اللہ کی ملاقات کیلئے تیار کر لیا ہو، وہی ہمارے ساتھ چلے۔
کربلا کے قریب پہنچ کر فرمایا:
الا و ان الدعي ابن الدعي قد ترکني بين السله والذله و هيهيات منا الذّله،(2)
لعین ابن لعین نے مجھے تلوار اور ذلت کے درمیان چھوڑا ہے لیکن میں تلواروں کا استقبال کروں گا لیکن کبھی بھی ذلت کو اختیار نہیں کرونگا کیونکہ ذلت ہم سے دور ہے۔
سید الشہدا کے شجاع اور بہادر جوان بیٹے نے جب کربلا کے راستے میں خواب دیکھا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑہتے ہوے اٹھے اور بتایا کہ میں نے منادی کو ندا دیتے ہوے سنا ہے کہ یہ قافلا موت کی طرف بڑہ رہا ہے۔ پھر جب امام نے ان کی رای اور خیال جاننا چاہا تو عرض کی: اذن لا نبالی بالموت، اگر ہم حق پر ہیں تو موت کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر اپنی حقانیت کا اعلان بھی کیا اور یہ بھی بتایا کہ ہمارا قیام فقط خدا کیلئے ہے اگرچہ   اس راستے میں شہید  ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
امام حسین کی شیر دل خواہر جناب زینب جب اپنے بھائی کے لہولہاں جسد اطہر کے پاس آئیں تو اسے ہاتھوں پر بلند کر کے کہنی لگیں:
خدایا ہم اہلبیت رسول کی یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔(۳)
یہی عظیم الشان بیبی شام میں یزید سے مخاطب ہوتے ہوے فرماتی ہیں: اگرچہ گردش دوراں نے ہمیں تم سے بولنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن پھر بھی میں تمہیں حقیر اور خوار مانتی ہوں، جو کرنا ہے کر لو لیکن تو کبھی بھی ہمارے نور کو ختم نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہماری  نشانیوں کو مٹا سکتا ہے۔
۲۔ کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں حجت خدا کا قتل
اس حادثہ کی جاودانگی اور ماندگاری کا دوسرا راز یہ ہے اس میں نہ فقط ایک مومن اور حق طلب انسان  بلکہ ایک معصوم امام، اصحاب کسا میں سے پانچھویں ہستی، دختر رسول اللہ کے فرزند کو کلمہ گو مسلمانوں نے انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا۔
امام حسین ویسے ہی اس عظمت کے مالک تھے کہ زمانہ  اسے بھلائے نہ بھلا سکتا تھا لیکن آپ کی مظلومانہ شہادت نے آپ کو اور زیادہ نمایاں کردیا، جسے تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔
اگرچہ ہر انسان کا خون محترم ہے اور اسے ناحق بہانا جرم ہے، لیکن حجت خدا، زمانہ کے امام کا ناحق خون بہانا بہت ہی بڑا گناہ ہے، امام بھی ایسا کہ جو دوسروں کو نجات دینے اور یزید کے پنجے سے چھڑانے کیلئے نکلا تھا۔ یقینا ایسی ہستی کا ایسا سفاکانہ قلد کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جس سے آسانی سے گذر جا سکتا ہو۔
شیعہ سنی کتابوں میں شہادت کے بعد رونما ہونے والے حادثات مثلا زمیں میں زلزلہ آنا، آسمان کا خون برسنا، اور ملائکہ کا گریہ کرنا ،امام حسین کی عظمت کے گواہ ہیں۔(۴)
بڑی بات یہ ہے کہ جو لوگ ظاہری طور پر اسلام کے دعویدار تھے، اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے تھے، نماز و روزہ کے پابند تھے، قاری قرآن تھے، اور جنگ میں نعرہ تکبیر لگا رہے تھے، انہوں نےہی نواسہ رسول، دلبند مرتضی، جگر گوشہ بتول اور تقوی و ایمان کے اس نمونہ کامل کو بے دردی سے شہید کر دیا، ان کی حرمت کو پامال کیا، اور مال کو غارت کیا۔
عرب شاعر کے مطابق:
و يکبرون بان قتلت و انما     قتلوا بک التکبير والتهليلا،
تجھے قتل کر کے نعرہ تکبیر لگا رہے تھے جبکہ حقیقت میں انہوں نے تکبیر اور حلیل کو ہی شہید کر دیا۔
۳۔ اصحاب امام
اس حادثہ کو جاودان بنانے میں اصحاب امام کا بھی بہت بڑا کردار ہے، کیونکہ کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے جہاں رہنما کی تدبیر و بصیرت، شجاعت و بہادری لازم ہے، وہاں ساتھیوں کی محبت، جان نثاری اور ثابت قدمی بھی لازمی ہے۔ ہم اگر اصحاب امام حسین کی شخصیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ مومن، وفادار، جان نثار اور پاکیزہ انسان تھے۔
اس  حقیقت کا اندازہ امام حسین کے ان کلمات سے ہوتا ہے جو انہوں نے شب عاشور اپنے اصحاب کیلئے ارشاد فرمائے:
“فاني لا اعلم اصحابا اولي ولا خيرا من اصحابي، ولا اهل بيت ابر ولا اوصل من اهل بيتي (5)
میں اپنے صحابیوں سے بہتر اور برتر اصحاب کو نہیں جانتا، اور نہ ہی اپنی اہلبیت سے بڑہ کر نیکی کرنے والے اور رشتہ داری کا حق ادا کرنے والے اہلبیت کو ہی جانتا ہوں۔
امام نے یہ جملے اس وقت ادا کئے جب شب عاشور اپنے تمام اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا: دیکھو ان کا ارادہ صرف مجھے اور اس کو قتل کرنے کا ہے جو میرے ساتھ رہے۔ اس لئے میں  تمہارے لئے پریشان ہوں، اب میں تم سے اپنی بیعت اٹھا رہا ہوں لھذا جو چاہے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر چلا جائے۔
تب سب نے مل کر عرض کی: مولا اگر آپ کے قدموں میں ہمیں ستر بار بلکہ ہزار بار بھی مار کر دوبارہ زندہ کیا جائے تب بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑینگے۔
۴۔ ظلم کے آگے نہ جھکنا
اس کی ماندگاری کا ایک راز یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے اصحاب ، ظلم کے آگے ڈٹ گئے، یزیدیوں نے لاکھ چاہا کہ ان کی زبا سے یزید کی تعریف سن سکیں یا انہیں جھکا سکیں۔ مگر انہوں نے اپنا سر کٹا تو دیا لیکن ان کی یہ حسرت پوری نہ ہونی دی۔
ان کا نعرہ اور شعار یہ تھا : هیهات منا الذلة، ذلت ہم سے دور ہے، والله لا اعطيکم بيدي اعطاءِ الذليل ولا افر فرار العبيد”اللہ کی قسم میں کبھی بھی ذلت کا ہاتھ (بیعت) انہیں نہ دونگا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار کرونگا۔ یہ سنہری جملے اقوام کی تقدیر بدلنے کیلئے بے مثال ہیں۔
ابن ابی الحدید معتزلی ابنی کتاب شرح نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۵۱ کی تفسیر کرتے ہوے  ،اباه الضیم و اخبارهم، کے عنوان سے ایک بحث کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ظلم کے آگے نہ جھکنے والے اور ان کے حالات، اس میں وہ تاریخ اسلام کی ان شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے شہادت کو تو قبول کیا لیکن سر نہیں جھکایا۔
ا نکی عبارت یہ ہے: سيد اهل الاباء الذي علم الناس الحميه والموت تحت ظلال السيوف اختيارا له علي الدنيه، ابو عبد الله الحسين بن علي بن ابي طالب عليهما السلام،(6)
دنیا میں ظلم کے آگے نہ جھکنے والوں کے سید و سردار جس نے خواری اور ذلت کے بدلے غیرت اور تلواروں کے سایہ میں شہادت کا درس دیا، وہ حسین ابن علی ہیں۔ اگرچہ امام اور ا ن کے اصحاب کو امان کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس ذلت کو گوارا ہیں کیا۔ خاص طور پر حضرت ابو الفضل العباس کو شمر نے خصوصی امان نامہ دلانے کا وعدہ کیا لیکن  انہوں نے امام کے قدموں  میں شہادت کو ترجیح دی۔(۷)
اگرچہ دشمنوں نے ان پاک اجسام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ان کی لاشوں پر اسب دوڑائے، ان کے سروں کو نیزوں پر بلندکیا، لیکن وہ ان کی عزت سربلندی اور معنوی عظمت کو گھٹا  نہیں سکے۔ ایک عرب شاعر نے اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے:
قد غير الطعن منهم کل جارحه الا المکارم في امن من الغير،
نیزوں  نے ان کے پورے جسم کو چھلنی کر دیا سوائے ان کی معنوی عظمت کے جسے وہ تبدیل نہیں کر سکے۔
۵۔ مختلف جہتوں سے مظلومیت
امام حسین اور ان کے با وفا اصحاب پر کوئی ایک مصیبت نہیں بلکہ مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے گئے، اس بنیاد پر امام اور ان کے ساتھیوں کو کئی جہات سے مظلومیت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو ان کو خط لکھ کر، دعوت نامہ بھیج کر بلایا گیا، پھر انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا، ان سے بی وفائی کی گئی، ان کے مہمانوں کو شہید کر دیا گیا، ان پر اور ان کے بچوں پر پانی بند کیا گیا، ۷۲ کے مقابلہ میں ہزاروں کی فوج کا نابرابر مقابلہ کرایا گیا، شیر خوار بچہ کو سہ شعبہ تیر سے شہید کیا گیا، بچوں اور عورتوں پر حملہ کیا گیا، خیام کو آگ لگا دی گئی، شہدا کے پاک اجساد پر گھوڑے دوڑائے گئے، سروں کو نیزوں پر بلند کیا گیا، ان کو تدفین سے روکا گیا، اہلبیت رسول کو اسیر بنا کر مختلف شہروں میں گھمایا گیا، اس سے زیادہ اور کیا مظلومیت ہو سکتی ہے، اگرچہ ہم نے ان کی مظلومیت کا ایک گوشہ ہی بیاں کیا ہے۔ یہ مظومیت بھی اس حادثہ کو یادگار بنا رہی ہے۔
اس دن اہلبیت کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ ظالم خود رونے لگے تھے، جب جناب زینب نے عمر بن سعد سے خطاب کر کے فرمایا: يا عمر بن سعد ا يقتل ابو عبد الله و انت تنظر اليه، اے عمر ابن سعد! حسین کو شہید کیا جا رہا ہے اور تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسوں ٹپک کرناپاک چہرے سے ہوتے زمیں پر گر رہے تھے، اور اس نے شرم سے اپنا چہرہ جھکا لیا۔ (۸)لیکن شقاوت نے اس کی دل کو اتنا پتھر بنا لیا تھا کہ رونے کے باوجود اس نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔
موسیو مارئین نامی ایک انگریز مولف کا لکھنا ہے کہ جو مصائب امام حسین نے اپنے جد کے دین کو زندہ کرنے کیلئے برداشت کئے، انہوں نے اسے سید الشہدا بنا دیا، ان سے پہلے کسی پرایسے مصائب نہ ٹوٹے۔ تاریخ میں یہ تمام مصائب حسین ابن علی سے مخصوص ہیں۔
۶۔ تاثیر گذار ہونا
اس حادثہ کی ایک اہم خاصیت جو اسے ممتاز بناتی ہے، وہ یہ کہ اس نے آزاد انسانوں کے عمومی افکار پر بہت اثر کیا ہے، بغیر مبالغہ کے کہا جا سکتا ہے کہ کربلا کا یہ رخ اور جہت بے مثال اور لاثانی ہے۔دنیا میں اور کوئی ایسا قیام اور تحریک نہیں ہے جو مظلوموں کیلئے درسگاہ بنی ہو، جس نے انہیں ظالموں کے خلاف قیام کرنے کا حوصلہ دیا ہو، جس طرح کربلا نے دیا ہے، کربلا چودہ صدیوں سے درسگاہ ہے۔
کربلا کی تحریک زمان و مکان کی قید سے بلند و بالا ہے، کربلا ۶۱ ہجری کے عراق کے ایک خطہ کا نام نہیں بلکہ ایک ایسے انقلاب کا نام ہے جو قیامت  تک آنے والے آزاد انسانوں کیلئے نمونہ عمل ہے۔
توماس کارلائن لکھتا ہے: کربلا میں ہمارے لئے جو بہترین درس ہے وہ یہ کہ حسین ابن علی اور ان کے ساتھیوں کا اللہ پر پختہ ایمان تھا، انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جہاں بھی حق اور باطل روبرو ہوں وہاں جماعت کی قلت یا کثرت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ امام حسین نے ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ حیران کن کامیابی حاصل کی۔(۹)
اس المناک اور غمناک حادثہ کی تاثیر ہر سال محرم میں عام طور پر اور تاسوعا اور عاشورا کے دن خاص طور دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح کروڑوں انسان عزاداری کر کےحسین بن علی اور ان کے با وفا اصحاب کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں حقیقی حسینی بنائے، دنیا میں ان کی زیارت اور آخرت  میں ان کی شفاعت نصیب فرمائے۔: اللهم ارزقنا شفاعه الحسين يوم الورود و ثبت لنا قدم صدق عندک مع الحسين و اصحاب الحسين الذين بذلوا مهجهم دون الحسين عليه السلام .

حوالہ جات:
 1. بحار الانوار، ج44، ص367
2 . احتجاج طبرسي، ج2، ص24
3 . مقتل الحسين مقرم، ص307
4 . بحار الانوار، ج45، ص219۽ سير اعلام النبلاءِ، ج4، ص425
. 6 تاريخ طبري، ج4، ص317
7 . شرح نهج البلاغه، ج3، ص249
8 ارشاد شيخ مفيد، ص440
9. درسي که حسين به انسان ها آموخت، ، ص
290

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک