اصحاب اعراف
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت ا۔۔۔ علی رضا اعرافی
- ذرائع:
- امام حسین(ع)فاؤنڈیشن (الحسنین ڈاٹ او آر جی)
اصحاب اعراف
تحریر:آیت ا۔۔۔ علی رضا اعرافی
ترجمہ: احسان علی دانش
ذرائع: امام حسین(ع)فاؤنڈیشن (الحسنین ڈاٹ او آر جی)
قرآن نے جن اہم ترین اور ضروری مباحث کو بیان کیا ہے ان میں سے ایک بحث قیامت کے احوال اور منازل قیامت ہے کہ جس کے بہت سارے اثرات محِّقق کی رفتار اور کردار پر پڑتے ہیں اور جو اس تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں ان پر بھی اس کے مثبت اثرات مترتب ہونگے پس اسی بناء پر ہم یہاں قیامت کی منازل میں سے ایک جس کو قرآن نے صاف لفظوں میں بیان کیا ہے ’’ اعراف‘‘ کو مورد تحقیق قرار دے رہے ہیں لیکن محدود دائرے میں یعنی صرف علامہ طباطبائی اور فخر رازی کی تفاسیر کی حدود میں رہ کر بیان کرینگے جو سب سے پہلےمیرے لئے فائدہ مندثابت ہو، پھر قارئین کرام بھی ان شاء اللہ استفادہ کرینگے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مقالہ محدود ہونے کی وجہ سے اس موضوع سے مربوط آیات سے صَرف نظر کیا گیا ہے یہاں صرف اعراف کا لغوی اور اصطلاحی معنی، اعراف کا مقام اور اصحاب اعراف کے مقام کو بیان کیا جا رہا ہے۔
آیات اعراف
آیات اعراف سے مراد سورہ اعراف کی چار آیتیں(46۴۶ تا ۴۹) ہیں کہ جن میں اعراف کے متعلق مطلب بیان ہواہے یہ بات واضح رہے کہ اسی سورہ مبارکہ کے علاوہ کسی اور سورہ میں اعراف کے بارےمیں کوئی مطلب واضح طور پہ بیان نہیں ہوا ہے
ہم اس تحقیق سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی خاطر مربوطہ آیات کو ترجمہ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
وَ بَيْنَهُما حِجابٌ وَ عَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسيماهُمْ وَ نادَوْا أَصْحابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوها وَ هُمْ يَطْمَعُونَ (اعراف/46)
ترجمہ: اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔
وَ إِذا صُرِفَتْ أَبْصارُهُمْ تِلْقاءَ أَصْحابِ النَّارِ قالُوا رَبَّنا لا تَجْعَلْنا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمينَ (اعراف/47)
ترجمہ: اورجب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔
وَ نادى أَصْحابُ الْأَعْرافِ رِجالاً يَعْرِفُونَهُمْ بِسيماهُمْ قالُوا ما أَغْنى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ ما كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (اعراف/48)
ترجمہ: اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔
أَ هؤُلاءِ الَّذينَ أَقْسَمْتُمْ لا يَنالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَ لا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (اعراف/49)
ترجمہ: اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔
اعراف کا معنی
اعراف کا لغوی معنی
اعراف، عُرف کی جمع ہے، بلند و بالا جگہ کو کہا جاتا ہے(1۱) اس اعتبار سے کہ باآسانی دیکھا جا سکتا ہے یہ پست جگہ کا متضاد ہے(۲)گھوڑے کی گردن کے بال کو اور مرغے کی کلغی کو بھی عرف کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کے جسم کے اوپری جگہ پر ہے ۔(۳) بادل کے اوپر والی فضا کو بھی " اعراف السحاب " کہا جاتا ہے۔(۴)
قرآن کی اصطلاح میں اعراف
مرحوم علامہ تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں: "اعراف انسانی مقامات میں سے ایک بلند مقام کا نام ہے کہ خدا ئے متعال نے اعراف کو بہشت اور دوزخ کےدرمیان حائل ہونے کے ساتھ تشبیہ دی ہے واضح ہے کہ کوئی بھی حائل عین اسی وقت کہ دونوں اطراف کے ساتھ مربوط ہوتا ہے، طبیعی طور پر دونوں طرف کے حکم سے خارج ہوتا ہے، اسی لئے فرمایا ہے: یہ حجاب اعراف اور بلند مقام والے ہیں اور اس بلندی پر کچھ مرد بیٹھے ہیں جو اہل محشر کے تمام لوگوں، ابتداء سے انتہا تک سےآگاہی رکھتے ہیں اور ہر ایک کے مخصوص مقامات سے بھیآگاہ ہونگے در حالیکہ لوگوں کے درجات" اعلی علیین " اور"اسفل سافلین" ہونے کے اعتبار سے مختلف ہیں اس کے باوجود تمام افراد کے دنیا میں انجام دیئے ہوئے ہر عمل سے باخبر ہونگے، اور جس کے ساتھ بھی چاہے بات کر سکتے ہیں اور جسے چاہیں خدا کے اذن سے جہنم سے نجات دے کر بہشت میں داخل کر سکتے ہیں، ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مردوں کا مقام سعادت (عمل صالح کے ذریعے نجات پانا) اور شقاوت ( برائی کی وجہ سے ہلاکت میں پڑنا) کے علاوہ کوئی الگ مقام ہے پس خلاصہ یہ ہوا کہ اعراف ایک ایسا مقام ہے جو ان دونوں سے برتر ہے بلکہ ان دونوں پر حاکم ہے"(۵)
فخر رازی اعراف کے بارے میں لکھتا ہے کہ" اعراف" کے بارے میں دو قول ہیں:
1۱-اکثر مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اعراف سے مراد وہ بلند دیواریں ہیں جو بہشت اور دوزخ کے درمیان بنائی گئی ہے یہ ابن عباس کا نظریہ ہے اور ان سے روایت ہے کہ اعراف صراط کے کنارے کو کہا جاتا ہے۔
۲- حَسن اور زجاج کے دو قول میں سے ایک یہ ہے کہ و علی الاعراف سے مراد کچھ ایسے لوگ ہونگے جو جہنمیوں اور بہشتیوں کو ان کےچہروں سے پہچانتے ہونگے، حَسن سے کہا گیا کہ وہ ایسا گروہ ہے جن کی برائیاں اور اچھائیاں برابر ہیں تو اس نے اپنے زانوں پہ مارا اور کہا: وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں خدائے متعال نے بہشتیوں اور جہنمیوں کی شناخت کروانے کے لئے رکھا ہوا ہے پس وہ لوگ جنتیوں اور دوزخیوں کو الگ کردینگے، خدا کی قسم معلوم نہیں ہے شاید اِنہیں لوگوں میں سے بعض ابھی ہمارے درمیان ہوں۔(۶)
ان دونوں بزرگوں کے اقوال کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اعراف قیامت میں ایک مقام ہے اور اصحاب اعراف کے مقام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ علامہ کے نزدیک یہ محترم لوگوں کا بلند مقام ہے در حالیکہ فخر رازی نے اس بارے میں کوئی اظہار نظر نہیں کیا ہے انہوں نے صرف مشہور کے قول کے ساتھ کچھ اقوال نقل کر کے اسی پہ اکتفا کیا ہیں۔
اعراف کی منزل سے کیا مراد ہے؟
اعراف کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، اگرچہ اس بات پہ سب کا اتفاق ہے کہ اعراف اور اصحاب اعراف قیامت سے مربوط ایک مسٔلہ ہے۔ اس بارے میں نظریات مختلف ہیں لیکن موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم صرف ان آراء کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسے مرحوم علامہ تفسیر المیزان اور فخر رازی نے بیان کیا ہے:
اعراف کی منزل کے بارے میں علامہ اور فخر رازی کا نظریہ
علامہ طباطبائی نے اصحاب اعراف کی نوعیت کے اوپر تفصیلی بحث کرنے کے بعد، اعراف کی حقیقت کے بارے میں کچھ اقوال بیان کیے ہیں ہے چنانچہ کہتے ہیں:
۱-عراف ایک چیز ہے جس پر سے دونوں گروہوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
۲- مرغا کی کلغی کی طرح ایک دیوار ہے۔
۳-بہشت اور جہنم کے درمیان ایک بلندی ہے کہ جس پر کچھ گناہ گار بیٹھے ہونگے۔
۴- مؤمنین اور منافقین کے درمیان ایک دیوار ہے جس کی طرف اس آیہ "فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ" کے ذریعے اشارہ ہوا ہے۔
۵- اعراف کا معنی آشنائی اور پہچان ہے، یعنی قیامت میں کچھ لوگ ہونگے جو دوسرے لوگوں کے حالات سےآگاہ ہونگے۔
۶- اعراف سے مراد وہی صراط ہے جو کہ مشہور ہے۔(۷)
علامہ نے اس بارے میں اپنے نظریے کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن اعراف کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: اعراف سے مراد بہشت اور جہنم کے درمیان حائل حجاب ہے، اصحاب اعراف وہاں ایسے ہونگے کہ دوزخیوں اور بہشتیوں دونوں کو دیکھ سکیں گے۔(۸)
پس معلوم ہوتا ہے علامہ نے ان مختلف اقوال میں سے کسی کو معین کئے بغیر ایک قابل جمع معنی کا انتخاب کیا ہے کہ وہی حجاب ہے جو بہشت اور دوزخ کے درمیان میں ہے قطع نظر اس کے کہ وہ چیز دیوار ہو پہاڑ ہو یا کوئی اور چیز ہو۔
فخر رازی مفاتیح الغیب میں کہتا ہے: اکثر مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ وہ لمبی لمبی دیواریں ہیں جو بہشت اور جہنم کے درمیان بنائی گئی ہیں یہ ابن عباس کی رائے ہے۔ اور ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ اعراف صراط کا کنارہ ہے۔(۹)
چونکہ انہوں نے اپنی کسی نظر کا اظہار کئے بغیر اور رائے دئے بغیر ابن عباس کا قول نقل کیا ہے تو ہم اسی قول کو فخر رازی کا نظریہ قرار دے سکتے ہیں۔
اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟
اس مقام پر جو افراد ہونگے ان افراد کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے کہ یہ مستضعفین کا مقام ہے یا کچھ مخصوص افراد کا ہے جن کے اپنے امتیازات اورکچھ خصوصیات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جو بھی ہو اصحاب اعراف کا مقام جہنمیوں سے بلند و بالا ہے۔
۱- بعض مفسرین کا عقیدہ ہے کہ اہل اعراف، مکمل علم و معرفت رکھتے ہونگے لوگوں کے ہجوم میں سے جہنمی اور جنتی کو تشخیص کرینگے۔(۱۰)
۲- اصحاب اعراف خدا کے خاص بندے ہیں کہ جنہیں لوگوں میں سے چنا گیا ہے اور قیامت کی منازل میں سے کسی بھی منزل میں ان سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا، ’’فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ إِلاّ عِبادَ اللّهِ الْمُخْلَصینَ‘‘ سب جہنم میں گرفتار کئے جائیں گے علاوہ اللہ کے مخلص بندوں کے۔
۳- ایک روایت میںآیا ہے کہ اعراف خدا کی مخلوقات میں سب سے با عظمت لوگ ہیں۔(۱۱)
۴- کچھ آیات کے مطابق بھی اعراف، بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک حجاب ہے، ان دونوں کے درمیان کو ئی رکاوٹ نہیں ہے بہشتی اور دوزخی ایک دوسرے کیآوازوں کو سن لیتے ہیں اور ایک دوسرے سے کفتگو کرتے ہیں : یُنادُونَهُمْ أَ لَمْ نَکُنْ مَعَکُمْ قالُوا بَلی وَ لکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَکُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْکُمُ اْلأَمانِیُّ حَتّی جاءَ أَمْرُ اللّهِ وَ غَرَّکُمْ بِاللّهِ الْغَرُورُ۔
وہ (مؤمنوں کو) پکار کر کہیں گے: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ کہیں گے: تھے تو سہی! لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم (ہمارے لیے حوادث کے) منتظر رہے اور شک کرتے رہے اور تمہیں آرزوؤں نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا اور دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دیتا رہا۔(۱۲)
اور اہل اعراف دونوں گروہوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں:
وَ بَیْنَهُما حِجابٌ وَ عَلَی اْلأَعْرافِ رِجالٌ یَعْرِفُونَ کُلاًّ بِسیماهُمْ وَ نادَوْا أَصْحابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلامٌ عَلَیْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوها وَ هُمْ یَطْمَعُون۔
اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔(۱۳)
علامہ طباطبائی کی نظر میں اہل اعراف کی جنسیت
کیا اصحاب اعراف صنف انسان میں سے ہیں یا ملائکہ یا جنّ میں سے ، اس بارے میں کئی اقوال پائے جاتےہیں کہ جن میں سےہم نے بعض کی طرف اشارہ کیا ہے علامہ طباطبائی کی نظر میں اہل اعراف جنات اور ملائکہ کی صنف میں سے نہیں ہیں اور اس مطلب کے اثبات کے لئے اسیآیت سے استدلال کیا ہے تین احتمالات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:احتمال اول کہ اہل اعراف انسان نہ ہوں اور یہ گروہ جنات اور ملائکہ میں سے ہوں لیکن اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ "رجال" کا لفظ مطلق ہے جس میں جنات اور ملائکہ شامل نہیں ہوتے چونکہ ان دونوں گروہوں میں مرد اور عورت نہیں ہوتے ہیں اگرچہ کبھی مردوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن صرف انسانی شکل میں مجسَّم ہونا اطلاق میں داخل ہونے کی دلیل نہیں ہے اس کے علاوہ کوئی معتبر دلیل بھی نہیں ہے۔
(اصحاب اعراف صنف انسانیت میں سے ہیں جو خصوصیات ان کے لیے ذکر ہوئی ہیں انکا اس جملہ "وَ الْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ" کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے)۔
انآیات میں غور و فکر کرنے سے درج ذیل خصوصیات کا استفادہ ہوتا ہے:
۱- اہل اعراف صنف ملائکہ میں سے نہیں ہیں۔
۲- انسانوں میں سے کچھ لوگ مخلص ہیں جن کا مقام و منزلت پورے اہل محشر سے بلند ہے، یہ ایسے لوگ ہیں جو بہشتی اور دوزخی دونوں گروہوں کو پہچانتے ہیں اور کسی کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں شفاعت اور حکم کر سکتے ہیں لیکن یہ لوگ جنس بشر میں سے ہیں یا جنات یا ان دونوں میں، اس بارے میں آیات خاموش ہے اور ان آیات سے اس معنی کا استفادہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں کہیں ایسا کچھ مطلب نہیں ملتا کہ انسانوں کی کسی ذمہ داری کو جنّوں نے نبھانا ہے اور جنّوں کے ذریعے قیامت کا کوئی کام انجام پائے گا مانند ؛شہادت اور شفاعت، پس جب ملائکہ اور جنّ کے صنف میں سے نہ ہو تو حتماً جنس بشر میں سے ہی ہو گا۔(۱۴)
اصحاب اعراف کے بارے میں علامہ اور فخر رازی کا نظریہ:
اصحاب اعراف کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر ہے، علامہ نے تقریباً بارہ اقوال کوذکر کیا ہے اور فخررازی نے بھی بہت سارے اقوال کو ذکر کیا ہے چونکہ کچھ اقوال کو دونوں بزرگوں نے نقل کیا ہیں کچھ مطالب کو علامہ نے زیادہ نقل کیا ہے اور دوسرے بعض کو فخر رازی نے بیان کیا ہے علامہ کا بیان کسی حد تک جامع تر ہے اس لئے ہم ان کے بیان کو ذکر کرتے ہیں اس کے بعد فخر رازی کے اقوال کو الگ بیان کریں گے۔:
۱- وہ (اعراف) لوگ مخلوقات میں سے ایسے اشراف اور بزرگ ہیں جو کرامت خداوندی کے ذریعے مخصوص اور ممتاز ہو گئے ہیں۔
۲- یہ ایسا گروہ ہیں جن کی برائیاں اور نیکیاں برابر ہیں ان کی نیکیاں اتنی نہیں ہیں کہ ان کو بہشت میں داخل کیا جائے اور نہ ان کی برائیاں اتنی زیادہ ہو کہ ان کو جہنم میں بھیج دیا جائے، مجبوراً اس گروہ کو اعراف پہ روک دیا جائے گا جو کہ بہشت اور دوزخ کے درمیان ہے اس کے بعد خدا اپنی رحمت (بہشت) میں داخل کردے گا۔
۳- مستضعفین ہیں۔
۴-جنات میں سے مؤمنین کا ایک گروہ ہیں۔
۵-کافروں کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گئے ہیں۔
۶-زنا سے پیدا ہونے والے ہیں۔
۷-وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنی نیکیوں پر فخر و مباہات کرتے تھے۔
۸-وہ فرشتے ہیں جو مقام اعراف سے لوگوں کو دیکھ لیں گےاور ہر ایک کو اس کے چہرہ اور شکل و صورت سے پہچان لیں گے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ فرشتوں میں مرد و عورت نہیں ہوتے لھذا کس طرح آیہ ان کو "رجال" سے تعبیر کیاہے؟ تو ان کو جواب میں کہیں گے یہ صحیح ہے کہ فرشتوں میں مرد اور عورت نہیں ہوتے ہیں لیکن مرد کی شکل میں ڈھل سکتے ہیں۔
۹-انبیاء ہیں چونکہ وہ محترم ہیں اور مخلوقات کے اُوپر گواہ بھی ہیں، وہ دوسروں سے الگ ہو کر اعراف کے مقام پر بیٹھے ہونگے۔
۱۰-تمام امتوں میں موجود وہ عادل لوگ ہیں جو اپنی امت پر گواہی دینے کے لئے اعراف کے مقام پر جائیں گے۔
۱۱-علماء، فقیہ اور صالح لوگ ہیں۔
۱۲-اعراف کے مردوں سے مراد؛ عباس، حمزہ،علیؑ اور جعفر طیّار ہیں جو صراط کے کسی کنارے پہ کھڑے ہونگے اور اپنے دوستوں کو سرخ روی کے ساتھ اور دشمنوں کو سیاہ روی کے ساتھ پہچان لیں گے، اس قول کوآلوسی نے روح المعانی میں بیان کیا ہے، ضحاک سے، اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔(۱۵)
فخر رازی نے ان مذکورہ اقوال کے علاوہ کچھ اور اقوال کا بھی ذکر کیاہے جو درج ذیل ہیں:
۱-اصحاب اعراف سے مراد شہداء ہیں۔؛
۲-عبدا للہ بن حرث سے نقل کیا ہے کہ اہل جنت کے مساکین ہیں۔
۳-وہ نمازی لوگ ہیں جو فاسق ہیں جن کے گناہوں کو خدائے متعال معاف فرما کر ان کو اعراف کے مقام پر بٹھائے گا۔(۱۶)
اہل اعراف کی خصوصیات
اصحاب اعراف کی کیا خصوصیات ہیں؟ اس بارے میں نظریات مختلف ہیں، تمام نظریات کو ان تین موارد میں جمع کر سکتے ہیں:
پہلا نظریہ:وہ کچھ بزرگ انسان ہیں جو پوری مخلوقات پر مسلّط ہونگے اولین اورآخرین سب کو ایسے پہچان لیں گے جیسے کہ دنیا میں اہل خیر اور اہل ایمان اور اہل شرّ و اہل طغیان کو بہچانتے تھے۔(۱۷)
اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہوجاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔(۱۸)
وہ لوگ بہشتیوں کو سلام کریںگے قیامت کے دن جب سب کے سب وہشت اور خوفزدہ ہونگے اس وقت وہ دوسروں کو تسلی دے رہے ہونگے اور جس دن خدا کا دستور اور حکم نافذ ہو وہ بھی خدا کے اذن سے صاحب دستور و قدرت ہونگے اس بنا پر وہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے دستور دینگے۔
اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔(۱۹)
متعدد روایات میں آیا ہے کہ اصحاب الاعراف ائمہ اہل بیت (ع) ہیں۔ مجمع البیان میں آیا ہے کہ عالم اہل سنت ابو القاسم حسکانی نے اصبغ بن نباتہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ(ع)نے ابن الکواء کو بتایا: ہم ہی اصحاب الاعراف ہیں۔
بنا بر این اہل اعراف، خدائے متعال کے خاص بندے ہیں جنہیں لوگوں کے درمیان سے چُناگیا ہے اور قیامت کے خطرناک حساب و کتاب سے مستثنی ہونگے، (فَکَذَّبوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ إِلاّ عِبادَ اللّهِ الْمُخْلَصینَ) تو انہوں نے ان کی تکذیب کی پس وہ حاضر کیے جائیں گے، سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے (۲۰)
اعراف کے بارے میں آخری نظر
ان مطالب کےآخر میں ہم ان دو بزرگواروں کے نظریات کو بیان کرینگے کہ علامہ طباطبائی آیات اعراف کے مباحث تفسیری کے بعد فرماتے ہیں: ہم نے انآیات میں جو بحث کی ہے اس سے یہ نتجہ لیا جاسکتا ہے کہ اعراف انسانیت کے ایک بلند مقام کا نام ہے خدائے متعال نے اس کو بہشت اور دوزخ کے درمیان ایک حجاب کے ساتھ تشبیہ دی ہے، اور بدیہی ہے کہ ہر حجاب عین اسی حالت میں کہ اپنی دونوں اطراف کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اور طبیعتا دونوں اطراف کے حکم سے خارج ہوتا ہے، اسی لئے فرمایا ہے:یہ حجاب صاحب رفعت اور بلندی ہے، اور اس بلندی پر کچھ مرد ہیں جولوگوں کے مقامات اور درجات میں اعلی علیّین اور اسفل السافلین کا فاصلہ ہونے کے باوجود پورے اہل محشر اول وآخر سب کو دیکھ سکتے ہیں اور ہر ایک کو اس کی خاص نشست پر مشاہدہ کرینگے، ہر ایک شخص کے کارکردگی سےآشنا ہونگےاور جسے چاہے بات کرسکتے ہیں اور جسے چاہے اس دن اس کو امن دے کر خدا کے اذن سے بہشت میں داخل ہونے کی اجازت دینگے۔
اِدھر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مردوں کا مقام اور منزلت سعادت (عمل صالح کے ذریعے نجات حاصل کرنا) اور شقاوت (برے اعمال کی وجہ سے ہلاک ہونا)سے خارج ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مقام ہے جو ان دونوں سے بلند ہے اور ان دونوں پر حاکم اور مسلّط ہے۔
مطلب کو روشن اور واضح کرنے کی خاطر اس مقام کو دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ تشبیہ دے سکتے ہیں، جیسے کہ کسی حکمران کے ماتحت کچھ اقوام ہوتی ہیں جن کو ہر قسم کی نعمتیں مل جاتی ہیں اورجو چاہیں انہیں فراہم کیا جاتا ہے اور کچھ گروہوں کو زندانوں میں ڈال کر طرح طرح کے عذاب دئیے جاتے ہیں اور ایک گروہ(تیسرا گروہ) ان دونوں گروہوں سے بالاتر ہو کر ایک گروہ کو نعمت اورآسائش کے اسباب فراہم کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے گروہ کو دردناک عذاب دے رہے ہوتے ہیں اور اسی دوران وہ خود بھی نعمتوں سے بھرہ مند ہو رہے ہوتے ہیں اسی طرح سے ممکن ہے قیامت کے دن خدائے متعال کچھ قوموں کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے اور وہ بخشنے والا خدا ہونےاور صاحب فضل ہونے کی حیثیت سے ان کو ان کی نیکیوں کے بدلے میں بہشت میں داخل کرےاور ہر طرف سے اپنی برکات کو ان پر نازل کرے اور منتقم (انتقام لینے والا)ہونے کی حیثیت سے کچھ قوموں کو ان کے گناہوں کی سزا دے کر جہنم میں ڈال دئے، اور ایک تیسرے گروہ کو اجازت دی جائے کہ ان دو گروہوں کے درمیان واسطہ بن کر خدا کے احکام اور امور کو جاری کریں، جیسے کہ فرمایا ہے: " يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ لَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ "
اس دن وہ سب (قبروں سے) نکل پڑیں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی، (اس روز پوچھا جائے گا) آج کس کی بادشاہت ہے؟ (جواب ملے گا) خدائے واحد، قہار کی۔(۲۱)
آج کسن کی حکومت ہے؟ بس خدائے واحد فہار کی حکومت ہے ، غور کریں۔
لیکن فخر رازی بھی بحث کےآخر میں کہتے ہیں: اصحاب اعراف قیامت کے اشراف لوگ ہیں جب قیامت کے میدان میں لوگ جمع ہونگے تو خدائے متعال اصحاب اعراف کو ایک بلند وبالا مقام پر بٹھائے گا جب بہشتیوں کو بہشت میں داخل کیا جائے گا اور جہنمیوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا تو ان کو بہشت میں ایک بلند جگہ پر ہمیشہ کے لئے بٹھادیا جائے گا لیکن اگرہم اہل نجات سے کم تر لوگوں کو اصحاب اعراف فرض کریں تو اس صورت میں کہنا پڑے گا کہ خدا ان کو اعراف سے گذار کر لے جائے گا اور وہ خدا کے فضل اور کرم کے امیدوار ہونگے کہ ان کو اسی مقام سے بہشت لے جائے گا۔(۲۲)
خلاصہ:
ہم نے اعراف اور اصحاب اعراف کے بارے میں مختلف اقوال کو نقل کیا علامہ اور فخر رازی کا نظریہ ایک جیسا ہے دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ اعراف، قیامت کی ایک بلند و بالا منزل ہے اس مقام پر کچھ خاص افراد ہونگے جن کے درجات بہشتیوں سے زیادہ ہونگے اور انھیں تمام جنّتی اور دوزخیوں پر تسلّط حاصل ہو گا لیکن فخر رازی نےآخر میں کہا کہ اگرہم اہل نجات سے کم تر لوگوں کو اصحاب اعراف فرض کریں تو اس صورت میں کہنا پڑے گا کہ خدا ان کو اعراف سے گذار کر لے جائے گا اور وہ خدا کے فضل اور کرم کے امیدوار ہونگے کہ ان کو اسی مقام سے بہشت لے جائے گا۔
حوالہ جات:
1-لسانالعرب، ج9، ص156، «عرف»
2- التبيان، ج4، ص410
3-مجمع البيان، ج4، ص651; مفردات، ص561، «عرف»
4-لسان العرب، ج9، ص157، «عرف»
5-ترجمه تفسير الميزان، ج8، ص: 165 دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم
6-مفاتيح الغيب ، فخر رازى، محمد بن عمر ج14، ص: 248 دار احياء التراث العربي بيروتچاپ: 1420 ق
7-ترجمه تفسير الميزان، ج8، ص: 157
8-ترجمه تفسير الميزان، ج8، ص: 152
9-مفاتيح الغيب ، فخر رازى، محمد بن عمر ج14، ص: 248 دار احياء التراث العربي بيروتچاپ: 1420 ق
10-شیرازی، صدر الدین محمد، العرشیه، ص90.
11-المیزان، ج8، ص144.
12-حدید: 42
13-اعراف: 46.
14-ترجمه تفسیر الميزان، ج 8، ص 156
15-ترجمه تفسير الميزان، ج8، ص: 158
16-مفاتيح الغيب، فخر رازى، محمد بن عمر،ج14، ص:249 دار احياء التراث العربي بيروتچاپ: 142
17-شیرازی، صدر الدین محمد، اسفار، ج9، ص317.
18-اعراف: 49.
19-اعراف: 48 .
20- سوره صافات/127۱۲۷ و ۱۲۸
21- غافر/ ۱۶
22-مفاتيح الغيب ، فخر رازى، محمد بن عمر ج14، ص: 251دار احياء التراث العربي بيروتچاپ: 1420 ق
منابع :
1-قرآن کریم
2-لسانالعرب، ماده ’عرف‘.
3-التبیان فى تفسير القرآن، طوسى، محمد بن حسن تحقيق: احمد قصيرعاملى دار احياء التراث العربى
4-مجمع البيان فى تفسير القرآن طبرسى، فضل بن حسن انتشارات ناصر خسرو تهران: 1372 ش چاپ: سوم
5-ترجمه تفسير الميزان، ج8، ص: 165 دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم
6-مفاتيح الغيب ، فخر رازى، محمد بن عمر ج14، ص: 249 دار احياء التراث العربي بيروتچاپ: 1420 ق
7-شیرازی، صدر الدین محمد، اسفار.