امتحان و آزمایش قرآن کی نظر میں
امتحان و آزمایش قرآن کی نظر میں
تحریر : عبد العلی پاکزاد :
ترجمہ : محمدحسین مقدسی :
خلاصہ :
قرآن مجیدکےاہم ترین ابحاث میں سےایکامتحان وآزمایش الہی کابحث ہےکہ جس کامعنی اوراسکےفلسفہ کےبارے میں جاننا، اورعلم حاصل کرنا اور اس آزمایش میں کامیاب ہونے کے طریقے کو جاننا انسان کے لئے ایک سعادت سے کم نہیں ہے۔
یہ مقالہ بعض الفاظ جیسے( ابتلاء فتنہ اور امتحان) کو واضح کرنے کے بعد اس نکتہ کو بیان کرتا ہےکہ آزمایش الہی کا فلسفہ اور انسان کا تکامل تک پہنچنا اور خدا کی طرف واپس لوٹ کرجانا اور اس آزمایش الہی میں کامیاب ہونے کا طریقہ صبر و تقوا اور خدا کے سامنے تسلیم ہونا ہے۔ اس کے بعد اس مقالہ کے لکھنے والے نے آزمایش الہی کے مقابل میں انسان کے دو عکس العمل ، شکرگزاری یا کفران کی طرف اشارہ کیا ہےاور اس بات کی یاد دہانی کرائی ہےکہ یہ آزمایش ،اولا یہ کہ مجہول ہونی چاہیے اور دوسرا یہ کہ اس امتحان میں افراد کے تناسب کی بھی رعایت ہونی چاہیے ۔
اور آخر میں یہ نتیجہ لیا ہےکہ قرآن کی نظر میں ان بلاؤں اورمصیبتوں اور گرفتاریوں میں انسان کا جو نقش ہےوہ قابل توجہ ہےاور اس آزمایش کا جو اثر ہےوہ بھی انسان کی تربیت کے لئے ہی ہے۔
مقدمہ :
کیوں کہ یہ آزمایش ایک سنت الہی ہےاورعمومی چیز ہےیعنی تمام انسانوں کو شامل ہے۔ اور انسان کی سعادت و شقاوت اور جزاء و سزاء میں ایک خاص اثرکا متحمل ہےضروری ہےکہ اس بحث کی مختلف جھات کو قرآن کی رو سے تحقیق کریں تاکہ سب انسان اس آزمایش کی حقیقت سے آگا ہ ہو جائیں اور اس میں کامیاب ہونے کے صحیح طریقوں کو جان لیں اسی لئے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس آزمایش سے مربوط آیات کو جمع آوری کریں اور ان مذکورہ سؤالوں کے جوابات کو قرآن سے پیدا کریں تاکہ سب کو اس کے بارے میں معلوم ہو جائے ۔
ابتلاء اور امتحان قرآن کی نظر میں :
قرآن مجید کی آیات میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ قرآن میں آزمایش اور امتحان کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں
وہ اس طرح سے ہیں ۔بلاء /فتنہ / اور امتحان _ اور ان میں سے جو لفظ قرآن میں زیادہ استعمال ہوا ہےوہ فتنہ ہےکہ جس کے بہت سارے مشتقات بیان ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے جو کم استعمال ہواہے وہ لفظ امتحان ہےکہ تقریبا تین 3 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
لغت میں ابتلاء کا معنی :
ابتلاء باب افتعال سے ثلاثی مذید کا مصدر اور بلاء کے مادہ سے ہے۔یہ لفظ اپنے تمام مشتقات کے ساتھ قرآن مجیدمیں تقریبامرتبہ استعمال ہوا اور ۳۵آیات کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔
(موسوی نسب- ابتلاء و آزمائش انسان در قرآن - ص/15)
لغت میں کلمہ ابتلاء(امتحان یا تجربہ اورکشف کےمعنی میں استعمال ہوا ہے):
«یقال بلاة و ابتلاء اذا اختبره و امتحنه»۔
اور بعض نے اس کے لغوی معنی کے بارے میں کہا ہےکہ « بلی» ۔جو کہ علم کے وزن پرہےپرانا ہونے کےمعنی میں ہے۔
«بلی الثوب بلی و بلاء»
یعنی کپڑے پرانے ہوگئے ۔
غم و اندوہ کو اس وجہ سے بلاء کہا جاتا ہےکہ انسان کے بدن و جسم کو بوسیدہ ہو کرتا ہے۔
(قریشی- قاموس قرآن، ص/291 )
اور کہا گیا ہےکہ:
«ان الاصل الواحد فیها هو ایجاد التحول، ای التقلب و التحویل و هذا المعنی ینطبق بجمیع موارد ها و مصادیقها من دون ای تجوز او یتکلف فیها و اما الامتحان و الاختبار والابتلاء والتجربه ۔۔۔۔۔۔ فکل هذه من معانی مجازیه و من لوازم الاصل و آثاره بحسب الموارد
(مصطفوی 1/318)
خلاصہ یہ کہ اصل لفظ "بلاء"کےمعنی میں اختلاف پایا جاتا ہےجیسا کہ ابن منظور اور صاحب قاموس کہتے ہیں کہ اسکا اصلی معنی آزمایش اور امتحان ہےاور ایک گروہ جیسا کہ مصطفوی اور راغب کہتے ہیں کہ اسکا اصلی معنی دگرکونی یا پرانا ہونا ہےلیکن آزمایش اور اختبار ان کے اصلی معنی کے لوازمات میں سے ہے۔
فتنہ لغت اور اصطلاح میں :
لفظ فتنہ اصل میں آزمائش کےمعنی میں ہے۔کلمہ فتنہ وہی امتحان اورآزمائش کا مفہوم رکھتا ہےاگرچہ اس کو فتنہ اس لئے کہا جاتا ہےکہ یہ ایک ایسی چیز ہےجو انسان کو اپنے آپ میں مشغول کرتی ہےاور اسی کا معنی امتحان ہے۔
(آشنائی با قرآن شهید مطهری ج /7 ص 182)
اسی طرح سے اس فتنہ کے بارے میں کہا گیا ہےکہ یہ اصل میں سونے کو آگ پر رکھنے کےمعنی میں ہےتاکہ خالص سونے کو ناخالص سے الگ کیا جاسکے ۔
بس ہر وہ قسم کا امتحان جو انسان کے اخلاص کے لئے انجام پاتا ہےوہ اسی معنی پر اطلاق ہوتا ہے۔
(تفسير نمونه ، مکارم شیرازی ج/21 ص/167)
امتحان :
اس لفظ کےمشتقات قرآن مجید میں دو مرتبہ ذکر ہوئے ہیں ۔
سورہ ممتحنہ آیت /۱۰ اور سورہ حجرات آیت /۳ میں لفظ
(امتحن وفامتحنوهن)
استعمال ہوا ہیں ۔
"امتحن" اصل میں امتحان کے مادہ سے ہےجس کا معنی سونے کو پگلاکر اس سے ناخالص کو جداکرنا ہے۔
اور کبھی چمڑے کو پھیلانے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہےپھر اس کے بعدآزمایش کے معنی میں آیا ہےجیسا کہ سورہ حجرات کی آیت /3 میں کہا کہ ایسی آزمایش کہ جو دلوں کے خالص ہونے اور تقوی الہی کو قبول کرنے کا باعث بنتی ہے۔
ابتلاء اور آزمایش قرآن کی نظر میں :
قرآن کی نظر میں کلمہ ابتلاء سے مراد اس کی لغوی معنی کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ جو تکرار وہمیشگی کی حامل ہے۔اس سے مراد وہ دائمی اور ہمیشہ والے پرگرام ہیں جو مانسان اور اس کے کردار اور رفتار کے بارے میں ہوتے ہیں ایسے برنامہ کا مجموعہ جو ہمیشہ انسان سے مربوط ہےاور ہمیشہ و دائمی طور پر اسی کے ساتھ ہے۔
( ابتلاء و آزمايش انسان در قرآن موسوی نسب ص/17) ۔
اورقرآن میں اس « امتحان » و « فتنہ » سے مراد یہی لیا ہے۔
بلاء :
قرآن مجید میں لفظ بلاء تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(وجوه قرآن تفلیسی،ص/49 )
آزمایش :کےمعنی میں جیسا کہ فرمایا :
( إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ)
( صافات/106)
یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا۔
2- نعمت : کےمعنی میں جیسا کہ فرمایا ؛
(وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ )
( بقره/49)
اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔
3- محنت : کےمعنی میں جیسا کہ فرمایا :
؛(وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ)
(اعراف/168)
اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔
(وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً)
(انبیاء/ 35)
اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں۔
فتنہ :
قرآن مجید میں لفظ فتنہ تقریبا پندرہ /15 معنوں میں استعمال ہواہے ۔۔
(وجوه قرآن تفلیسی،/217-218)
آزمایش کے معنی میں :
(الم * أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُون)
(عنکبوت/ 1-2)
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
(وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْن)
(دخان/ 17)
اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالا ۔
شرک کے معنی میں ؛
(وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَة)
(بقره/ 193)
اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔
(الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْل)
( بقرة/ 191(
اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے،
کفر کے معنی میں ؛
(آل عمران/7 )، (توبہ /48)
خطا و جرم کے معنی میں :
(توبہ/ 49)
عذاب کے معنی میں :۔
(نحل/110)، (عنکبوت/10)
قتل کے معنی میں ۔
(نساء/101)، (یونس/83)
جلنے کے معنی میں ۔
(ذاریات/ 16)، (بروج /10)
گمراہ ہونے کے معنی میں۔
(مائدہ/41)، (صافات/ 162)
لوٹانے کے معنی میں ۔
(مائدہ/ 49(
دیوانہ ہونے کے معنی میں :
(قلم/ 6)
لغزش کے معنی میں :
(بنی اسرائیل/73(
عبرت کے معنی میں ۔
(یونس/85)، (ممتحنہ/ 5)
عذر کےمعنی میں۔
(انعام/23)
اولاد و فرزند کے معنی میں ۔
(تغابن/ 15(
قرآن مجید میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
خالص کے معنی میں۔
(حجرات/3)
آزمایش کے معنی میں :
(ممتحنہ/10)
ابتلاء و آزمایش کے عمومی ابعاد :
الف : زمان و مکان کا وسیع ہونا ۔
آزمایش الہی زمان و مکان کے اعتبار سے ایک امر قطعی ہےایسا نہیں کہ یہ آزمایش کسی خاص زمانے یا کسی خاص ملک و منطقہ کے ساتھ مختص ہو اور دوسرے مناطق میں نہ ہو بلکہ آزمایش الہی عمومی ہےجس سے کوئی بھی استثنا نہیں ہےاس میں تمام دنیا شامل ہےاور جب تک یہ دنیا باقی ہےاور خدا کے بندے اس میں زندگی کزار رہے ہیں اس وقت تک آزمایش و امتحان الہی بھی اس کے ساتھ ساتھ ہے۔
قرآن مجید کی بعض آیات اس مطلب پر دلیل ہیں ۔
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُون)
(عنکبوت/2)
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِين)
(عنکبوت/3)
اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ معلوم کرنا ہےکہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور معلوم کرنا ہےکہ کون جھوٹے ہیں۔
ب : فراگیری انسان :
قرآن مجید کی بعض آیات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ سب انسان قانون کے اعتبار سے آزمایش الہی میں مبتلا ہونگیں اور اس سے کوئی بھی استثنا نہیں ہے۔ان میں سے بعض آیا ت اس طرح ہیں ۔
إِنَّا خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيه)
(انسان/2(
ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں، پس ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والابنایا ۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُم)
(ملک/2)
اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے ۔
هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالا شَدِيدًا)
(احزاب/11)
اس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور انہیں پوری شدت سے ہلا کر رکھ دیا گیا ۔
اس آیت میں جنگ احزاب والے مومنین کی طرف اشارہ ہے۔
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُون)
(عنكبوت/2)
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہےکہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
ج : اسباب و عوامل کے اعتبار سے عام ہونا :
آزمایش کے اسباب و عوامل اس حد تک وسیع اور زیادہ ہیں کہ اس کیلئے کوئی تعداد معین کرنا ممکن نہیں ہےلیکن بطور خلاصہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو جسطرح سے بھی انسان کی زندگی کے ساتھ مربوط ہو اور انسان کے انتخاب کرنے میں مؤثر ہو اس کو آزمایش کے عوامل میں سے شمار کرسکتے ہیں ۔
اور قرآن مجید میں بھی ان عوامل کو بہت ہی وسعت اور مختلف تعبیروں کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الأرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ)
(انعام/165)
اور وہی ہےجس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہےاس میں وہ تمہیں آزمائے،
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَات)
(بقرة/155)
اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے ۔
کلمہ کے آخر میں (ما) تمام مادی و معنوی نعمتوں کو شامل کرتاہے ۔
اور کلمہ (شئ) عام ہےجو ہر قسم کی مادی و معنوی اسباب کو شامل ہےاور اس کے بعد کلمہ (من ) «شیء» کے مفہوم کو بیان نہیں کرتا ہےکہ اس مورد کے ساتھ مخصوص ہو جائے بلکہ اس کے مصادیق کو بیان کرنے کے لئے ہے۔
(ابتلاء و آزمايش انسان در قرآن موسوی نسب، /26)
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا)
(كهف/7(
روئے زمین پر جو کچھ موجود ہےاسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے ولا کون ہے۔
کلمہ (ما ) آخر آیت میں خدا وندعالم کی ہر عطا ہوئی چیز کو شامل کرتا ہے۔
ابزار و آلات آزمایش قرآن میں :
اگرچہ سورہ انعام کی آیت ۱۶۵ اور سورہ کہف کی آیت/۷ اور سورہ بقرہ کی آیت/۱۵۵ سےاستفادہ ہوتا ہےکہ ابزار آزمایش الہی عمومی ہےکسی خاص ابزار و آلات کے ساتھ مختص نہیں ہے۔لیکن کیوں کہ اسکا ذکر کرنا لوگوں کو آگاہ کرنا ہےبعض ابزار کی طرف اشارہ کیا ہےوہ یہ ہیں ۔
مامورین جہنم :
جیسا کہ فرمایا : ہم نے جہنم کا عملہ صرف فرشتوں کو قرار دیا اور ان کی تعداد کو کفار کے لیے آزمائش بنایا تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے ۔
(سورة مدثر آیت /31 )
یہ آزمایش دو طرح کی ہےپہلا یہ کہ وہ لوگ استھزاء کرتے تھے کہ ان تمام اعداد کے درمیان صرف انیس کے عدد کو کیوں انتخاب کیا ہے؟ جبکہ اگر کوئی اور عدد بھی انتخاب ہوتا تو یہی سوال باقی رہ جاتا ؟
اور دوسری طرف اس تعدادکو بہت ہی کم شمارکرتے تھے اور مسخرہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم ان میں سے ہرکسی کے مقابل میں دس دس بندوں کو رکھیں گے تاکہ ان پر غالب آجائے ۔
جبکہ خدا کے فرشتے ایسے ہیں کہ قرآن کے مطابق ان میں سے چند افراد ہی قوم لوط کو نابود کرنے کے لئے مامور ہوئے تھے اور تمام شہر و آبادیوں کو زمین سے اٹھا کر پھینکتے تھے ۔
( تفسیر نمونہ مکارم شیرازی ج /25/ص/239 -240 )
فرعونیوں کا بیٹیوں کو زندہ درگور اور بیٹوں کو قتل کرنا ۔
يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءٌ مِنْرَبِّكُمْ عَظِيم)
اور اسی طرح سے
(اعراف/141) (بقرة/49) و( ابرا هیم/ 61 ) ۔
تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔
3- 4- اموال و فرزندان :
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَة)
(تغابن/15)
تمہارے اموال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں ہی اجر عظیم ہے۔
5- ناقہ صالح :
(إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ)
(قمر/27(
بے شک ہم اونٹنی کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیجنے والے ہیں،
6- مجسمہ گوسالہ:
(قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِي)(طه/85(
فرمایا: پس آپ کے بعد آپ کی قوم کو ہم نے آزمائش میں ڈالا ہےاور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے
7- مادی نعمتیں :
وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيه)(طه/131(
اور اے رسول دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے۔
8- فقر و نداری
وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ۔۔۔۔)(انعام/53(
اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے یوں آزمائش میں ڈالا کہ وہ یہ کہدیں کہ کیا ہم میں سے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل وکرم کیا ہے؟
9- نعمت
(فَإِذَا مَسَّ الإنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لا يَعْلَمُون)(زمر/49)
جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہےتو وہ ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اپنی طرف سے اسے نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے: یہ تو مجھے صرف علم کی بنا پر ملی ہے، نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہےلیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
10- درخت زقوم
(إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِين)(صافات/63)
ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنا دیا ہے۔
اس آیت میں فتنہ سےمراد ممکن ہےرنج و عذاب کے معنی میں ہو اور یہ بھی ممکن ہےکہ آزمایش کے معنی میں ہو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ انہوں نے جب درخت زقوم کا نام سن لیا تو مسخرہ اور استھزاء کرنے لگے اسی لئے یہ ان ستمکاروں کے لئے وسیلہ بنا ۔
( تفسیر نمونه مکارم شیرازی ، 19ج /ص 71)
11- نہر کا پانی :
قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي)(بقره/249)
اس نے کہا: اللہ ایک نہرسے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے،پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہو گا ۔
12- زمین کی زینت (ساری موجودات )
(إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ)(کهف/7(
روئے زمین پر جو کچھ موجود ہےاسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں۔
13- ذبح فرزند
(إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِين)(صافات/106)
یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا ۔
14- دستورات البی :
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُون)(هود/37)
اورہماری نگرانی میں اور ہمارےحکم سے ایک کشتی بنائیں اورظالموں کے بارے میں مجھ سے بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں۔
15- شر و خیر
وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَة) (أنبیاء/35)
اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں ۔
امام علی علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہےکہ جب وہ بیمار ہو گئے تو ان کے کچھ دوست ان کی عیادت کرنے آئے انہیں لگے :
کیف نجدک یا امیرالمومنین؟ قال: بالشر؛
یا امیرآپ کی حالت کیسی ہے؟ فرمایا شر ہےتو کہنے لگے یہ بات آپ کی شان میں نہیں ہے۔
قالو ما هذا کلام مثلک
تو امام نے فرمایا :
ان الله تعالی یقول: و نبلوکم بالشر و الخیر فتنه۔ فالخیر: الصحه و الشّرُ: المرض و الفقر۔
بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے: اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلاء کرتے ہیں ۔ لہذا صحت بھلائی ہےاور بیماری شر ہے۔
(تفسیر نمونه مکارم شیرازی ج13 ص /405)
16- خلقت خدا:
(وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ)(هود/7)
اوروہی ہےجس نےآسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے ۔
17- عہدو پیمان :
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ۔۔۔ يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۔۔۔)(نحل/92-91)
اس بات کے ذریعے اللہ یقینا تمہیں آزماتا ہے۔
18- تنگی روزی :
وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَه)(فجر/16)
اور جب اسے آزما لیتاہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہےتو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
19- بھوک ، خوف ، نقص جان و مال و ثمرات :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِين)(بقره/155)
اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے ۔
پیغمبران و آزمایش :
خداوندعالم نےقرآن مجیدمیں علاوہ اسکےکہ اس آزمایش کوعمومی قراردیاہےبعض پیغمبروں کی طرف بھی اشارہ کیاہےکہ جنکو آزمایش میں مبتلاءکیاہے۔شاید اس مطلب کو بیان کرنا ان کی تسکین قلب کے لئے ہو تاکہ یہ جان لیں کہ خدا کا امتحان سب کے لئے ہےاور پیغمبروں کی طرح اس آزمایش میں کامیاب ہونے کیلئے ان عوامل سے استفادہ کریں تاکہ کامیاب ہوجائیں ۔
حضرت ابراہیم(ع) :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ ۔۔۔)(بقره/124(
اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا۔
حضرت سلیمان(ع) :
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَان) (ص/34)
اور ہم نے سلیمان کو آزمایا۔
قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي)(نمل/40)
یہ میرے پروردگار کا فضل ہےتاکہ وہ مجھے آزمائے ۔
حضرت موسی(ع) :
وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا)(طه/40)
اورہم نے آپ کی خوب آزمائش کی،
وہ اقوام جوآزمایش میں مبتلاء ہو گئیں ہیں:
قرآن مجید اس آزمایش کو پیغمبر اسلام کے زمانے سے پہلے والے لوگوں کے بارے میں کلی طور پر ذکر کرتا ہےاور فرماتا ہےکہ :
(وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ)(عنکبوت/3)
اسی طرح سے گزشتہ اقوام کے بارے میں بھی صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
قوم صالح:
(إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ) (قمر/27)
بے شک ہم اونٹنی کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیجنے والے ہیں ،
قوم فرعون :
وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيم)(دخان/17)
اور بتحقیق ان سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمائش میں ڈالااور ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔
بنی اسرائیل :
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيم) (بقره/49)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی، جو تمہیں بری طرح اذیت دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔
پیروان طالوت :
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَر ۔۔۔)(بقره/249)
جب طالوت لشکرلے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہرسے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔
پیغمبر اسلام(ص)کے پیروکار :
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاس)(أسراء/60)
اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہےاور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہےاسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قراردیا۔ یہ آیت جنگ احد کی طرف اشارہ کررہی ہے۔
آزمایش الہی کا فلسفہ :
آزمایش الہی کا فلسفہ اور اس کی علت بیان کرنے سے پہلے ضروری ہےکہ اس کے اہداف بیان کئے جائیں ۔
آزمایش کےاہداف :
پہلا قسم :
یہ آزمایش کبھی شناخت کےلئےہوتاہےیعنی امتحان کرنےوالا کسی نامعلوم چیزکومعلوم کرنے کےلئےامتحان کرتا ہےجس طرح سے کہ کسی غذا کے سالم ہونے اورنہ ہونےکےبارے میں لیبارٹری لیجاکر چیک کیا کرتے ہیں ۔لذا امتحان کا ہدف ومقصدحقیقت کو کشف کرنا ہے۔لیکن خدا وند عالم کا جو امتحان و آزمایش ہوتا ہےوہ اس معنی میں نہیں ہے۔
دوسرا :
یہ آزمایش کبھی اتمام حجت کے لئے ہوتا ہےیعنی خود امتحان لینے والے کے لئے کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
ایک استادجب پورا سال اپنےشاگردوں کو تعلیم دیتا ہےتو وہ جانتاہےکہ کس کو زیادہ نمبردینا چاہیے اورکس کو کم دینا ہےاوراسی طرح سےکس کو پاس کرنا ہےاورکس کو فیل کرنا ہے؟لیکن یہ ایک مسلم بات ہےکہ اگروہ بغیر امتحان کےنمبردےدیں تودوسرےشاگرداعتراض کریں گےلذاوہ امتحان لیتاہےتاکہ معلوم ہوجائے کہ کس کونمبرملنا چاہیے۔لیکن خدا کا امتحان لینااس معنی میں نہیں بلکہ ممکن ہےخداوندعالم اپنےبندےسے امتحان لیتا ہےتاکہ اس پرحجت تمام ہوجائے ۔
تیسرا:
کبھی یہ امتحان اور آزمایش اس بندے کی تمرین اور پرکٹس کے لئے ہوتا ہےیعنی خدا وند متعال (اگرچہ یہ غیر خدا پر بھی صدق آتا ہے) اس بندے سے امتحان لیتا ہےتاکہ اس بندے کے اندر موجود صلاحیتیں ظاہر ہو جائیں۔ جس طرح سے کہ کوئی پانی میں چھلانگ لگاتا ہےتاکہ وہ تیرنا سیکھے ۔اس قسم کا امتحان اس بندے کے کمال تک پہنچنے کے لئے ایک عامل شمار ہوتا ہےاو راسی تلاش و کوشش کا فائدہ یہی ہوتا ہےکہ انسان تیرنا سیکھتا ہے۔ بس امتحان الہی اس لئے ہوتا ہےتاکہ انسان ان گرفتاریوں میں رہ کر کمال تک پہنج جائے ۔
( آشنائی باقرآن، ج7 ص183) مطهری،
قرآن مجید نے اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہےاللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہےاسے چھانٹ کر واضح کر دے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔
(آل عمران/154)
اور دوسری تعبیر کے مطابق انسان کو سختیوں میں ڈالتا ہےتاکہ ان کی اندرونی استعداد اور صلاحیتیوں کو تقویت دے دیں اور ان کو آشکار کریں ۔اگر یہ آزمایش الہی نہ ہوتا تو انسان بالکل ہی محدود ہوکر رہ جاتا لیکن یہ آزمایش ہی ہےکہ جس سے انسان کمال تک پہنج جاتا ہے۔ اور اس قسم کا آزمایش انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہی ہے۔
اور بندگان الہی کی طرف سے جو آزمایش ہوتا ہےوہ بھی اسی تکمیل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
( آشنائی با قرآن، ج8 ص135) مطهری
آزمایش الہی کا فلسفہ :
آزمایش کا مفہوم واضح ہونے کے بعد اس سوال کا جواب قرآن کی آیات سے دینا ہےکہ آزمایش الہی کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا خدا وند عالم غیب و اسرار کے بارے میں علم نہیں رکھتا ہے؟ ایسا خدا کہ اس زمیں و آسمان میں جو کچھ بھی ہےوہ اس سے چھپا ہوا نہیں ہےتو خدا وند عالم کس لئے یہ آزمایش کرتا ہے؟فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ لا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الأرْضِ وَلا فِي السَّمَاء)(آل عمران/5)
زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے یقینا پوشیدہ نہیں ہے۔
اسکےعلاوہ بہت ساری آیات موجود ہیں جو خداوندعالم کےعالم مطلق ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ کیوں آزمایش کرتا ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی نظر میں اس آزمایش کے لئے بہت ساری علتیں موجود ہیں جو ذیل میں بیان کریں گے ۔
بندوں کی حقیقی شخصیت کو ظاہر کرنا :
قرآن مجید کی نظرمیں اس آزمایش کااہم ترین فلسفہ انسان کی حقیقت اوراسکے اصلی چہرےکوظاہرکرناہے۔یعنی دوسرےالفاظ میں انکی صلاحیت واستعداداورانکی اندرونی طہارت وخباثت کوظاہرکرناہےکیوں کہ انسان جب آزمایش میں ہوتا ہےتو انکے اندرونی صفات و کرامات ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔
قرآن مجید نے بہت ساری آیتوں میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہےان میں سے بعض موارد کی طرف اشارہ کریں گے ۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ)(سوره محمد/31)
اورہم تمہیں ضرورآزمائش میں ڈالیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کی شناخت کر لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔
«حتی نعلم المجاهدین منکم»
اس جملہ کامعنی یہ نہیں کہ خداوندعالم اس گروہ کےبارےمیں علم نہ رکھتاہوبلکہ اس سےمراداس معلوم الہی کوتحقق بخشناہےاوراس قسم کےافرادکومشخص کرنامقصودہےتاکہ یہ علم الہی خارج میں تحقق پیداکرے۔
(تفسیر نمونه مکارم شیرازی ،ج 21/ص482(
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِين)(عنکبوت/3)
اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ معلوم کرنا ہےکہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور معلوم کرنا ہےکہ کون جھوٹے ہیں۔
خدا کے علم کا معنی بھی وہی ہےجو اوپر والی آیت 31 کے ذیل میں بیان ہوا ۔
وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور)(آل عمران/154)
جو کچھ تمہارے سینوں میں ہےاللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہےاسے چھانٹ کر واضح کر دے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔
ثواب و عقاب کا معیار:
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگرچہ خدا وند عالم خود بندوں سے زیادہ انکی روحیات سے آگاہی و علم رکھتا ہےلیکن ان سے امتحان لیتا ہےتاکہ انکے اچھے اور برے کام جو ثواب و عقاب کا معیار ہیں وہ ان سے ظاہر ہو جائیں ۔
(نهج البلاغه کلمات قصار 93)
یعنی انسان کی صرف اندرونی صفات ہی اس ثواب و عقاب کے لئے معیار نہیں بن سکتیں مگر یہ کہ انسان کے اعمال ظاہر ہو جائیں ۔ لذا خدا وند عالم انسان کی آزمایش کرتا ہےتاکہ اس کی اندرونی صفات ظاہر کرے اور انکی استعداد و صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور ثواب و عقاب کا مستحق بنیں ۔ اگر یہ آزمایش الہی نہ ہوتا تو انکی یہ صلاحیتیں آشکار نہ ہوتیں اور انسان کا وہ درخت بلاثمر رہ جاتا لہذا اسلام نے اسی کو فلسفہ آزمایش قرار دیا ہیں ۔
(تفسیر نمونه مکارم شیرازی:ج1ص/528)
علامہ جوادمغنیہ کی تعبیرکےمطابق انسان کو بلاؤں میں مبتلا کرکے آزمایش کرنا اس کی حقیقت کو آشکار کرنے کی حکایت کرتا ہے۔ جیساکہ کوئی ایماندار ومؤمن بندےپرجب مصیبت آجاتی ہےتووہ اپنےاس دین سےمنحرف نہیں ہوتاہےاوراپنی زبان پرایسی باتوں کونہیں لاتاہےجوکفرونادانی کاباعث بنیں۔ بلکہ وہ صبرکرتاہےاور یہ گرفتاریاں اس کی عقل وایمان کوضایع نہیں کرتی ہیں ۔
لیکن ایسا بندہ جو ایمان میں کمزورہےتو شیطان اس پرمسلط ہوجاتاہےوہ کفر کی باتیں کرنے لگتا ہےاور گالیاں دینا شروع کرتاہےاوربرائیوں کی بدترین گڑھے میں گرجاتاہے۔اس کے بارے میں امام حسین علیہ السلام کا وہ بہترین کلام ہےجوعاشوراکےدن فرمایا :جب تک ان کی زندگی چلتی ہےاس وقت تک وہ دین کی اطاعت میں ہیں اورجب کسی مصیبت و بلاء میں گرفتار ہوجاتے ہیں تو اس وقت بہت ہی کم لوگ دیندار رہ جاتے ہیں ۔
(الکاشف جواد مغنیه ج1/ص 439)
نیک اعمال کامشخص ہونا:
قرآن کی نظر میں انسان کے اعمال دو قسم کے ہیں :
ایک اعمال صالح اوردوسرا اعمال غیرصالح۔ اورخودعمل صالح بھی دوقسم کےہیں عمل حسن اورعمل احسن ۔
آزمایش الہی کا فلسفہ بھی یہی ہےکہ کس نے احسن عمل کو انجام دیا ہے۔جیساکہ فرمایا :
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ)(ملك/2)
اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہےاور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔
اورعمل احسن کی وضاحت میں فرماتےہیں کہ نیک عمل دوطرح سےانجام پاتاہے۔کمیت عمل اور کیفیت عمل :
لیکن قرآن کی نظر میں جو اہم اور بہترین عمل ہےوہ کیفیت عمل ہےنہ کہ کمیت عمل۔چونکہ اگر کمیت عمل یعنی کس نے زیادہ عمل انجام دیا مراد ہوتا تو اسی کمیت عمل کے بارے میں ذکرکرتا لیکن فرمایا:
لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا)
یعنی کیفیت عمل کےبارے میں ذکرہورہا ہےکہ خداوندعالم بہترین عمل کےانجام دینےکےبارےمیں انسان کو آزمایش میں ڈالتا ہےنہ کہ زیادہ عمل کےانجام دینےسے۔جیسا کہ حدیث میں بھی آیا ہےکہ احسن عملا سے مراد اصوب عملا ہےیعنی وہ عمل کہ جس میں صواب زیادہ ہو نہ کہ خود عمل زیادہ ہو ۔
(مطهری، آشنايي با قرآن، ج8، ص139-138)
اور اسی طرح سے فرمایا :
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا)(کهف/7)
روئےزمین پرجوکچھ موجودہےاسےہم نےزمین کےلیےزینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھاعمل کرنے ولا کون ہے۔
حق کی طرف لوٹ جانا :
خداوند عالم نے رحمت کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے۔جیسا کہ فرمایا :
كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَة(انعام/54)
تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
اورایک طرف سے خلقت انسان کا مقصد و ہدف خدا کی عبادت جانا ہےفرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلا لِيَعْبُدُون)( ذاریات/56)
اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔
اوپروالےان دونوں مقدموں کومدنظررکھتے ہوئے کہ (رحمت الہی کا واجب ہونااورخلقت کی ہدف ومقصد)خداوند عالم پر واجب ہےکہ وہ قاعدہ لطف کے اعتبار سے اپنے بندوں کے خدا کی طرف لوٹ جانے کےلئے ہرقسم کا زمینہ فراہم کرے ۔اور خداکی طرف لوٹ کر جانے کے اسباب میں سے ایک یہ ہےکہ وہ انسان کومختلف بلاؤں اورمصیبتوں میں گرفتارکرتاہےتاکہ انسان اپنی فکراورعقل سےکام لیتےہوئےان گرفتاریوں اورمصیبتوں کی علت کو جان لیں اور انہی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں۔
قرآن مجید بھی اس حقیقت کو بیان کرتا ہےکہ انسان کا خدا کی طرف لوٹ کرجانا آزمایش الہی کا فلسفہ ہے۔جیسا کہ فرمایا :
وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الأرْضِ أُمَمًا مِنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون)(اعراف/168)
اورہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں ۔
آزمایش الہی کی دو اہم خصوصیات:
نامعلوم ہونا :
آزمایش کےوقت ضروری ہےکہ اسکےنتیجےسےبےخبرہو تاکہ اسکا میزان قابلیت معلوم ہوجائے۔مثال کے طور پر اگر حضرت ابراہیم پہلے سے ہی جان لیتا کہ اس کے لئے بہشت سے دنبہ آئے گا اور اسماعیل کے بدلے میں قربان ہو جائے گا :
وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ)(صافات/107)
تو حضرت ابراہیم کا اسماعیل کے گردن پر چھری رکھنے کا کوئی کمال نہ ہوتا لذاان کو وہ اپنے اس عمل کو پوری طرح انجام دینے تک اس فکر میں ہونا چاہیے کہ میں اپنے بیٹے کو زبح کررہا ہوں یہ خدا وند عالم کا ارادہ ہے۔
اسی طرح سے جب اس کو آگ نمرود میں ڈالا جاتا ہےتو آگ کے گلزار بننے سے بے خبر ہونا چاہیے ۔
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلامًا عَلَى إِبْرَاهِيم)(انبیاء/69)
اوراگروہ یہ سب پہلےسےجانتاتوپھرخداکےآزمایش کےمقابل میں تسلیم اور رضا کا کوئی معنی نہیں بنتا ۔
(مصباح یزدی ، زينهار از تكبّر،ص /58)
افرادکےمناسب ہونا :
آزمایش الہی انسان کی ظرفیت کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ انسان اس آزمایش میں کامیاب ہو سکے ۔ مثال کے طور پر پرائمری کے ایک طالب علم سے ریاضی کے وہ فارمولے کا جواب مانگنا مناسب نہیں ہے۔ لذا خدا وند عالم کا وہ آزمایش و امتحان جو انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے لیا ہےو اپنے بندوں سے طلب کریں تو ظاہر بات ہےکہ وہ پہلے مرحلہ میں ہی مردود ہو جائیں گے ۔
(مصباح یزدی ، زينهار از تكبّر ،ص/101)
آزمایش ہونے والے کی شرائط :
طاقت و توانائی " فرمایا :
(لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا)(بقره/286)
اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ،
خداوندعالم اپنے بندوں کی وسعت کےمطابق تکلیف دیتا ہےبس تکلیف مالایطاق خداوندعالم سے محال ہے۔
لذا آزمایش اس بندے کی ظرفیت کے مطابق ہونی چاہیے اگر کسی عام انسان سے وہی انبیاء والی آزمایش ہوجائے تو پھر اسی ابتداء میں ہی وہ ناکام ہو جائے گا اس قسم کی آزمایش کرنا خداوند حکیم کی طرف سے قبیح ہےکیونکہ وہ اپنے بندوں کی ظرفیت کے بارے میں جانتا ہے۔
ابزار شناخت :
قرآن مجید کی نظر میں شناخت اور پہچان کے جو ابزار و آلات ہیں وہ دل کان اور انکھیں ہیں ۔یعنی قوۃ مدرکہ کا ہونا ضروری ہےتاکہ انسان مورد آزمایش قرار پائیں ۔ فرمایا:
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَة)(نحل/78)
اور اللہ نےتمہیں تمہاری ماؤں کےشکموں سےاس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اورآنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو ۔
اس آیت میں تین آلات و ابزار( کان آنکھ اورقوۃ مدرکہ )کےبارے میں بیان ہواہے۔اور سورہ انسان میں فرما رہاہےکہ ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسےآزمائیں، پس ہم نےاسےسننے والا، دیکھنے والابنایا۔ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ آزمایش ہونے کے لئے ان ابزار کاہونا ضروری ہے۔
اختیار :
آزمایش ہونے والا انتخاب اور اختیار کی قدرت رکھتا ہو تاکہ آزمایش الہی میں دو حالتوں سے یعنی شکرگزاری یا کفر میں سے ایک کو اختیار کرسکے اور اگر انتخاب و اختیار کی قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر آزمایش ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا ہے بلکہ یہ جبر میں سے شمار ہوتا ہے۔
ہدایت و راہنمائی :
قاعدہ لطف کےمطابق خدا وند عالم پر واجب ہےکہ وہ اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کرے اور اپنے اولیاء اور پیغمبروں کےذریعےسے ان کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرے تاکہ وہ اپنے اختیار سے ایک راستے کو انتخاب کرسکیں فرمایا :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا)(انسان/3)۔
ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا ۔
بلاء کے مختلف ابعاد :
روایات اسلامی میں بلاء کےمختلف انواع و اقسام بیان ہوئے ہیں ۔اگر ان انواع کی طرف توجہ دیدیں تو انسان کی زندگی کا راستہ بدل جائے گا اور رنج وسختیوں سےنجات پائے گا اور خداوندعالم کا شکرگزار بن جائےگا ۔
بلاء امتحان اور تکامل :
بلاء کا اہم ترین جنبہ انسا ن کا رشد و تکامل ہےانسان تمام آسائشوں اور راحتیوں میں رہ کر انکی اندرونی قابلیت سے انسان پرورش نہیں پاتا ہے۔
تمام برائیاں انسان کی اچھائیوں کے لئے مقدمہ ہیں ۔
( آشنايي با قرآن، مطهری ،ج 1 ص/174)
اسی لئے قرآن مجیدفرماتا ہےکہ بتحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ ۔
(سورہ بلد/4)
شہید مطہر ی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ خصوصیت موجودات زندہ کے ساتھ مربوط ہےمخصوصا انسان کے ساتھ کہ یہ سختیاں اور گرفتاریاں انسان کے رشد و کمال کے لئے مقدمہ ہیں ۔
یہی مشکلات وسختیاں جمادات کو نابود کرتی ہیں انکی قدرت میں کمی آجاتی ہےلیکن زندہ موجودات میں تحرک پیدا کرتی ہےاور ان کو قدرت و طاقت عطا کرتی ہے۔یہ بلاء و مصیبت انسان کے رشد و کمال کے لئے یہ ضروری ہے۔ اگر یہ محنت و سختیاں نہ ہوں تو انسان تباہ و برباد ہو جاتا ۔
(مطهری، مجموعه آثار، ج1ص176)
بلاء " تطہیر گناہ :
بلاء اور مصیبتوں کا دوسرا جنبہ انسان کی لغزشوں اور گناہوں کو پاک کرنا ہےممکن ہےانسان ایسی لغزشوں اور گناہوں میں مبتلا ہوجائے کہ جن کے پیچھے ہمیشہ تلخیاں ہوں کہ جن کا وجود آخرت کے لئے بہت ہی سخت ہےاگر انسان کے لئے ممکن ہو تو اس دنیا میں ہی انکاحساب چکا دے تو یہ بہت اچھا ہےاور یہ کام صرف بلاؤں اورمصیبتوں سے ہی انجام پانا ممکن ہے۔
(رضايت از زندگي پسندیدہ /ص293)
امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہےجب یہ آیت نازل ہوئی
«من یعمل سوءاً یجز به»
(یعنی جوبھی کوئی براعمل انجام دیتاہےتو وہ اس کی کیفر و عذاب کو دیکھتاہے)تو پیغمبراسلام کے بعض اصحاب نے کہا کہ اس سےزیادہ سخت کوئی اور آیت نہیں ؟ تو پیغمبراسلام نے ان کو کہا کیا آپ اپنے اموال و جان یا اپنے خانوادہ میں کسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتے ہو؟تو کہنے لگے ہاں کیوں نہیں ؟ تو فرمایا یہ وہی چیز ہےکہ جس سےخداوندعالم آپ کےلئے حسنات لکھتاہےاور انہی کےذریعےسے برائیوں کو پاک کرتاہے
(رضايت از زندگي پسندیدہ /294)
بلاء" بلندترین درجہ :
بلاء و مصیبت ہمیشہ انسان کے گنہگار ہونے کے معنی میں نہیں ہےخداوند عالم کبھی انسان کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہےتاکہ اس کا درجہ بلند کرے یہاں پرہےکہ انبیاءالہی اور اولیاءکےآزمایش و امتحان کا رازمشخص ہوتا ہے۔اورجو لوگ مقام عصمت پر فائز ہوئے ہیں انکو پاک کرنا مقصد نہیں بلکہ انکا درجہ بلند کرناہے۔
ایک دن پیغمبراسلام بہت ہی سخت بیمارہوئے اتنا سخت کہ درد کی شدت سے تڑپ رہے تھے عائشہ پیغمبر کی اس حالت کو دیکھ کرتعجب کرتی تھی کہنے لگی اگر ہم میں سے کوئی اس طرح ہوتا تو آپ اسکا عیبب نکالتے؟ تو پیغمبراسلام نے کہا یہ امتحان الہی صالحین کےلئے سخت ہوتاہےاورحقیقت میں کسی بھی مؤمن کو رنج نہیں پہنچتا ہےمگر یہ کہ اسکا کوئی گناہ وخطا معاف ہوجاتی ہےاوربلند درجہ عطا ہوتاہے۔
( رضايت از زندگي پسندیدہ /295)
آزمایش الہی میں کامیابی کے عوامل :
اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ کسی بھی کام کو انجام دینے کےلئے مختلف عوامل کا ہونا ضروری ہےتاکہ اس کام کو انجام دینے والے اس کام کو اچھے طریقے انجام دے دیں تاکہ اس میں کامیاب ہوجائیں ۔
مثال کے طور پر ایک طالب علم اپنے تعلیم وتحصیل میں کامیاب ہونے کےلئے ایسے عوامل مثلا اس کا انگیزہ و ہدف اور استاد کا اچھا ہونا اور مناسب ماحول وغیرہ کا ہونا ضروری ہےتاکہ وہ اپنے دوران تعلیمی کو کامیابی کے ساتھ آخر تک پہنچا سکے ۔لیکن اگر یہ شرائط و عوامل موجود نہ ہوں تو اس کے کامیاب ہونے کے بارے میں سوچنا ہی فضول ہےاور ایک خیال ہے۔
اسی طرح سے خداوندعالم کے امتحان و آزمایش میں کامیاب ہونے کےلئے بھی بہت سارے عوامل ہیں جو ذیل میں بیان ہوتے ہیں۔
صبر :
کسی بھی کام میں کامیابی کےلئے صبر ایک بہترین عامل سمجھا جاتا ہےخصوصا امتحان الہی میں کامیاب ہونے کے لئے! اورخودعقل نے بھی اس بات کی تائید کی ہےاور شرع مقدس میں اسلام نے بھی اس بات پر تاکید کی ہےکہ خدا وندعالم کے امتحان میں کامیاب ہونے کےلئے صبر وتحمل بہترین عامل ہےاسی عامل صبر سے مدد مانگنے کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتاہے
(وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاة)(بقره/45)
اور صبر اور نماز کا سہارا لو ،
یہ آیت انسان کواپنے ہرکام میں صبرکرنےکےبارےمیں خبردیتی ہےاورخصوصاآزمایش الہی کےمقابل میں۔
اور اس کا جو بنیادی نقش ہےاس کے بارے میں بعنوان نمونہ کچھ آیتوں کو ذکر کریں گے ۔
وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمُور)(آل عمران/186)
اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔
یہ آیت انسان کے اموال و انفس سے امتحان لینے کے بارے میں خبر دیتی ہےکہ خدا وند عالم نے فرمایا (مسلمانو!)تمہیں ضرور اپنے مال و جان کی آزمائشوں کا سامنا کرنا ہو گا اور تم ضرور اہل کتاب اور مشرکین سے دل آزاری کی باتیں کثرت سے سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَة) (بقره/156-155)
اس آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہورہا ہےکہ امتحان الہی میں کامیاب ہونے کا راز صبر و استقامت ہےاسی لئے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے رہا ہے۔
(تفسیر نمونه مکارم شیرازی ج1/ص531)
وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا)(فرقان/20 (
اورہم نےتمہیں ایک دوسرےکےلیےآزمائش بنادیاکیاتم صبرکرتےہو؟اورآپکاپروردگارتوخوب دیکھنے والاہے۔
يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِين)(صافات/102)
اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہےاسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
تقوی و پرہیز گاری :
امتحان الہی میں کامیاب ہونے کے لئے تقوی کا ہونا بہت ضروری ہےاگر انسان کے پاس تقوا اور پرہیز گاری ہوتو خداوندعالم کی اس آزمایش کے سامنے اپنے آپ کو حفظ کرسکتا ہےاور آسانی کے ساتھ اس امتحان میں کامیاب ہوسکتا ہےجیساکہ فرمایا:
لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمُور) (آل عمران/186)
تسلیم و فرمانبرداری :
تسلیم یعنی کسی کو کچھ دینا اور سلام کرنا اور اطاعت کے معنی میں میں ہےاس دین مقدس اسلام میں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہےیہ دین خدا وند عالم کی چاہت کے مقابلہ میں تسلیم اور راضی ہونے کانام ہےاور سارے انبیاء کا ہدف و مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انسان کو خدا کے سامنے تسلیم اور اس کی قضاء و قدرپر راضی کردیں ۔
( سيره اخلاقي معصومين الهامي نیا،/ص67)
امام علی علیہ السلام اسلام کی تعریف میں فرماتےہیں :
الاسلام هو التسلیم؛
اسلام تسلیم اور گردن جھکانے کا نام ہے۔
(نهج البلاغه، کلمات قصار/125)
اور حضرت ابراہیم و اسماعیل کے اس قصہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہےکہ حضرت ابراہیم کا آزمایش الہی میں کامیاب ہونے کا جو راز تھا وہ خدا کے سامنے تسلیم ہونا اور اس کی اطاعت کی وجہ سے تھا کہ جس کے بارے میں خدا وند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا : پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا،تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا ۔
( صافات/106-103(
سختیاں اور مشکلات کے گزر جانے کی طرف متوجہ ہونا :
امتحان الہی میں کامیاب ہونے کا ایک اور عامل یعنی ان مشکلات اور سختیوں کے گزر جانے کی طرف توجہ دینا ہےکہ اس آیت
(إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون)(بقره/156)
میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
امام علی علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ]جب ہم یہ
(إِنَّا لِلَّهِ)،
کہتے ہیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور جب ہم یہ
(وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون)،
کہتے ہیں تو ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم اس دنیا سے جانے والے ہیں اور ہماری جگہ کہیں اورہے ۔
(نهج البلاغه ،کلمات قصار/99)
بزرگان اسلام جب کوئی مصیبت اور سختی میں مبتلا ہوجاتے تو قرآن مجید کی اس آیت کو باربار تکرار کرتے تھے تاکہ یہ مصائب اور سختیاں ان کو متزلزل نہ کرسکیں اور خداوند عالم کے مالک ہونے پر اور سب انسانوں کااسکی طرف پلٹ کر جانے پر ایمان و یقین رکھتےتھےان سب حوادث اورمشکلات کوبرداشت کرتے تھے۔
(تفسیر نمونه مکارم شیرازی ،ج 1/ص531)
الطاف الہی اورایمان کی قوت سےمددلینا:
آزمایش الہی میں کامیاب ہونےکاایک اوراہم عامل جوقرآن کی بعض آیتوں سےاستفادہ ہوتاہےکہ خداوندعالم نےفرمایا :
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْض۔۔۔۔۔۔)(اعراف/96)۔
اوراگران بستیوں کےلوگ ایمان لےآتےاورتقویٰ اختیارکرتےتوہم ان پرآسمان اورزمین کی برکتوں کےدروازے کھول دیتےلیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نےانکےاعمال کےسبب جووہ کیاکرتےتھےانہیں گرفت میں لےلیا۔
ظاہرہےکہ جو بھی خدا کی راہ میں جھاد کرتا ہےارو آزمایش الہی و بلاءاور گرفتاریوں میں صبر کرتا ہےاور خدا پر ایمان رکھتا ہےتو خدا وند عالم اسے اپنے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہےتاکہ اس راستے کو انتخاب کرنے میں اسے کوئی دشواری نہ ہو ۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا) (عنکبوت/69(
اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
گزشتہ انبیاءکےعکس العمل کیطرف متوجہ ہونا:
یہ بھی آزمایش الہی میں کامیاب ہونےکےلئےایک عامل ہےقرآن مجیدنےصراحت کےساتھ بیان کیاہےکہ خداوند عالم نےتمام پیغمبروں کوآزمایش میں ڈالاہےاورانہوں نےاس آزمایش میں ایک مثبت کردار ادا کرکےخدا کےبلند ترین مقامات اور درجے کو حاصل کیا ہے۔ ان میں ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام ہےجو خد اکے مختلف امتحانات میں کامیاب ہونے کیوجہ سے خدا نے انکو مقام امامت پر فایز کیا ۔فرمایا :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا)(بقره/124)
اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں،
اگرانسان آزمایش الہی میں پیغمبروں کےاس عکس العمل کی طرف توجہ کریں یہ اس کی روح کی تقویت کا سبب بنتا ہےاور آزمایش الہی میں کامیاب ہونے کا باعث بنتاہے ۔
کیوں کہ یہ آزمایش الہی عمومی اور سب کے لئے ہےاور گزشتہ لوگوں میں بھی تھا اور ابھی بھی موجود ہےاور کیوں کہ جب تک یہ دنیا باقی ہےتب تک آزمایش الہی بھی ساتھ ہے۔ خدا وند عالم تمام مومنین اور پیغمبر اسلام کو دلداری دیتے ہوئے اور ان کی روح کو تقویت دینے کے لئے گزشتہ انبیاء کی تاریخ کیطرف متوجہ ہونے کی تاکید کرتا ہےجیسا کہ فرمایا : آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتا رہا ہےآخر کار تمسخر کرنے والوں کو اسی بات نے گرفت میں لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
(انعام/10)
کسی اور جگہ پر فرمایا : بتحقیق آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاتے رہے اور تکذیب و ایذا پر صبر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اور اللہ کے کلمات تو کوئی بدل نہیں سکتا، چنانچہ سابقہ پیغمبروں
کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں۔
) انعام/34)
خدا وند عالم کو حاضر جاننا :
یہ بھی امتحان الہی میں کامیاب ہونے کا ایک عامل ہےجو انسان کےعقیدہ اور تفکر کو ایسی قوت عطا کرتاہے کہ جس کے وسیلہ سےامتحان الہی میں صبر وتحمل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہےقرآن مجید کی بعض آیتوں میں اس کے بارے میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
- حضرت نوح علیہ السلام جب خدا کےحکم سے کشتی بنانے پرمامورہوا تو فرمایا :
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا) (هود/37(
اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے ایک کشتی بنائیں ۔
(أعْيُنِنَا)
(یعنی ہمارےعلم کےسامنے)حضرت نوح کو ایک ایسی قوت قلبی عطا کی کہ دشمنوں کے استھزاء سے ان کے قوت قلب پر کوئی اثر نہیں ہو ۔
(تفسیر نمونه مكارم شيرازي ،ج1 /ص533)
آیت اللہ مکارم شیرازی کسی اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ جملہ
بِأَعْيُنِنَا
یعنی ہمارے آنکھوں کے سامنے کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ آپکی یہ تلاش و کوشش ہمارے سامنے ہےاور ہماری حمایت و مدد کے تحت ہےلہذا آپ بغیر کسی فکر کے اپنے راستے پر چلتے رہو اور کسی بھی چیز سے نہیں ڈرو ۔
(تفسیر نمونه مكارم شيرازي ،ج4/ص230)
آزمایش الہی میں ضروری ہےکہ انسان یہ جان لیں کہ یہ سب خدا کے سامنے انجام پاتے ہیں اس فکر کے ساتھ انسان ان آزمایشوں میں کامیاب ہو جائے گا کیوں کہ خدا وند عالم کو حاضر جاننا اس کی زندگی میں آرامش و سکون کا سبب بنتا ہے۔
2 - خداوندعالم نےپیغمبراسلام کو دلداری دیتے ہوئے فرمایا:آپ اپنے رب کےحکم تک صبرکریں، یقینا آپ ہماری نگاہوں میں ہیں اورجب آپ(خواب سے)اٹھیں تو اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کریں ۔
(طور/48)
اور سالار شہیدان ابا عبداللہ الحسین سے بھی یہی معنی نقل ہوا ہےکہ جب میدان کربلا میں انکے تمام عزیز و اقارب شہید ہوگئے تو فرمایا کہ
«اهون علی ما نزل بی انه بعین الله؛
یہ سارے امور خدا کے سامنے انجام پاتے ہیں تو میرے لئے صبر کرنا بہت ہی آسان ہے۔
(فرهنگ جامع سخنان امام حسين 7 ۔ترجمه مويدي،/529)
آزمایش الہی کےمقابل میں انسان کاعکس العمل :
آزمایش الہی میں انسان کاجوعکس العمل ہوتاہےاسکےعلاوہ جب خارج میں دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتاہےکہ بعض لوگ شکرخدا بجا لاتے ہیں اوربعض لوگ نالہ فریادکرتےہوئے ناشکری کا اظہار کرتے ہیں۔ تو قرآن مجید نے بھی ان دو عکس العمل کی طرف اشارہ کرتےہوئے مختلف آیات میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ - جب حضرت سلیمان نے تخت بلقیس کو اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھا تو فرمانے لگا ۔
(قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُر)(نمل/40)
جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہےتاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر نعمت کرتا ہوں یا کفران ۔
2- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِين) (حج/11)
اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہےجو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہےاور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تومنہ کے بل الٹ جائے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔
- فَأَمَّا الإنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ*وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَن) (فجر/16-15)
جب انسان کو اس کا رب آزما لیتاہے پھر اسے عزت دیتا ہےاور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہےتوکہتاہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔اور جب اسے آزما لیتاہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہےتو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
آزمایش اور رحمت الہی کے درمیان رابطہ :
کیوں کہ خدا وند عالم کی رحمت بہت ہی وسیع ہےفرمایا :
(وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْء)(اعراف/156)
اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔
اور اسی طرح سے فرمایا :
(كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَة)(انعام/12)
اس نے رحمت کو اپنے ذمے لے لیا ہے۔
تو خدا وند عالم انسان کو جزاء و ثواب دینے میں آزمایش کیوں کرتا ہے؟ کیا خدا کے لئے یہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی آزمایش کے ثواب و جزاء دیتا ؟ جب انسان ان جیسی آیات کی طرف رجوع کرتا ہےتو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔اس سوال کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند عالم رحمن و رحیم ہےاور اسکی رحمت بہت ہی وسیع اور کبھی ختم ہونے والی نہیں ہےجس طرح سے کہ وہ قدیر و جبار یعنی سخت عذاب دینے والا ہےاور اس کے تمام اوصاف سے مربوط ہےچونکہ خدا حکیم ہےاور حکیم کا کام مقصد و ہدف کے ساتھ ہوتا ہےجیسا کہ فرمایا :
(لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم)(آل عمران/ 6)
اوردوسرا اس اجر وثواب تک پہنچنےکا عامل وہی عمل ہےتو بس حکیم اس عمل کو دیکھ کراجر وثواب دیتاہے۔
اور یہ قرآن مجید کے اصول میں سے ہےکہ اس جزاء تک پہنچنے کے لئے ایمان اور عمل صالح کا ہونا ضروری ہےجیسا کہ فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُون) (نحل/97) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي)(نساء/57)
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُون)(بقره/82)
اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اوپر والی ان آیات کی طرف توجہ دینے سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ثواب اور بہشت میں داخل ہونے کے لئے ایمان اور عمل صالح کو شرط قرار دیا ہے۔
اور تیسرا: اگرخداوندعالم بغیر کسی آزمایش اورامتحان کے ثواب وجزاء دے دیں تو یہ خدا کی عدالت کے خلاف ہےچونکہ ایک بندہ اپنی پوری زندگی میں خطائیں انجام دیتا رہے اور دوسرا ہمیشہ خدا کی اطاعت میں رہے تو ان دونوں کو مساوی قرار دینا عقل بھی نہیں مانتی ہےاور قرآن کے مخالف اور خدا کی عدالت کے خلاف بھی ہےکیوں کہ قرآن کا اصول یہ ہےکہ وہ کبھی بھی فاسق وعادل اورمتقی وکافرکوبرابر قرارنہیں دیتاہےجیسا کہ فرمایا:
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الأرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّار)(ص/28)
کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟
اور اسی طرح سے فرمایا :
(أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِين)(قلم/35)۔
کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین جیسا بنا دیں گے ۔
خدا وند عالم کی حکمت و عدالت کا تقاضا یہی ہےکہ برے اور اچھے لوگ اور ظالم و عادل کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے ہیں ۔
اور چوتھا : معصومین کی روایات کی طرف توجہ دینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ خدا وند عالم کا اپنے بندوں کی آزمایش کرنا ان کے لئے رحمت اور فضل و کرم ہے۔ امام علی علیہ السلام اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس خدا کا شکر ہےکہ جس نے ہمارے پیروکاروں کو رنج و بلاء میں مبتلا کرکے ان کے گناہوں کا بوجھ کم کیا اور انہی بلاؤں کے ذریعے سے انکی عبادات کو ضایع ہونے نہ دیا تاکہ وہ جزاء کے مستحق بن جائیں ۔
( منتخب ميزان الحكمته ری شهری /ص 85)
امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہےکہ فرمایا :جب خداوند عالم کسی کو عزت دینا چاہتا ہےاور وہ بندہ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے توخدا وند عالم اسکو کسی بیماری میں یا فقرمیں مبتلا کرتا ہےاور اگر یہ نہ کریں تو اس کی جان لیتے وقت اس پر سختی کرتا ہے۔
اور خدا وند عالم اگر کسی کو ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہےتو اگرچہ وہ بندہ کوئی نیک کام انجام دیدیں اسکے بدن و جسم کو سالم رکھتا ہےاور اگر ایسا نہ کریں تو اس کی زندگی کو طویل بناتا ہےاور اگر یہ بھی نہ کریں تو موت اس کے لئے آسان بناتا ہے۔
( منتخب ميزان الحكمته ری شهری ص /85)
اور پانچواں: آزمایش الہی خدا کی طرف سےاپنے بندوں پر ایک لطف ومحبت ہےتاکہ انہی سختیوں کوگزارکرکمال تک پہنج جائے چونکہ انسان کا کمال سختیوں میں ہےنہ کہ آسائشوں میں رہ کر لہذااگر کوئی مومن بندہ خدا کو دوست رکھتاہے :
(وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّه)(بقره/165)
اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ تو خداوند عالم اس بندہ سے زیادہ اسکو دوست رکھتا ہےچونکہ و ہ خالق محبت ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہےکہ خدا وند عالم جب کسی بندہ کو دوست رکھتا ہےتو اسکو بلاؤں میں مبتلا کرتا ہےاے سدیر !ہم اور آپ شیعہ اپنے دن راتوں کو بلاؤں میں گزارتے ہیں ۔
(منتخب ميزان الحكمته ری شهری ص /85) ۔
کسی اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہےکہ جب خداوند عالم کسی قوم و بندوں کو زیادہ چاہتا ہےتو ان پر بلاؤں کی بارش برساتا ہے۔
(منتخب ميزان الحكمته ری شهری ص /85) ۔
انہی اسناد کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ رحمت الہی کا ابتلاء کے ساتھ ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہےکہ جب خدا وند عالم کسی کو اجر و ثواب دینا چاہتا ہےتو وہ بغیر کسی عمل کے اجر و ثواب دے دیں تو یہ اسکی عدالت کے خلاف ہےجبکہ قرآن کے مطابق عمل کے
مقابل میں اجرو ثواب ہیں :
(وَأَنْ لَيْسَ لِلإنْسَانِ إِلا مَا سَعَى)(نجم/39)
اور خصوصا یہ آزمایش خدا کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک رحمت ہےتو کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ جب خداوند عالم رحمن و رحیم ہےتو پھر یہ آزمایش کیوں کرتا ہے؟
اس قسم کےسوالات انسان کے ذہن میں آجاتے ہیں تویہ قرآن مجید کی صحیح معرفت نہ رکھنے کیوجہ سے ہیں اور ان بلاؤں اورمصببتوں کا جو پہلو ہےان کےآثارکیطرف متوجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
بلاؤں کےنزول میں انسان کا کردار :
سختیاں اور گرفتاریاں انسان کی آزمایش کے لئے ہیں انہی کے ذریعے سے انسان کے صبر و ایمان کو آزمایا جاتا ہےانکا منشا و علت خود انسان کی طرف ہی ہےقرآن مجید کی متعدد آیات و روایات میں ملتا ہےکہ تمام بلاؤں اور گرفتاریوں کی اصلی علت خود انسان کا سلوک ہےان جیسے دینی متون سے استفادہ ہوتا ہےکہ نعمت الہی کے ساتھ انسان کی رفتار و کردار ہوتا ہےاوروہ عذاب الہی میں مبتلا ہونے میں مؤثر ثابت ہوتا ہےایسے آیات جو اس پر دلالت کرتی ہیں ۔
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُون) (اعراف/96)
اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوںنے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔
اس آیت کے مطابق دو اہم عنصر ایمان و تقوی کو نزول نعمت اور عذاب کا معیار قرار دیا ہےاگر انسان گناہ و فساد کا مرتکب ہوجائے تو اس پر بلائیں نازل ہوتی ہیں چونکہ یہ رفتار انسان پر اثر کرتا ہے۔
(ابتلاء و آزمایش انسان در قرآن موسوي نسب،/69)
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون)(روم/41)
لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُون)(نحل/61)
اور اگر لوگوںکے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا، لیکن اللہ انہیں ایک
مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہےپس جب ان کا مقررہ وقت آجاتا ہےتو وہ نہ گھڑی بھر کے لیے پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتےہیں۔
فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَاب)(آل عمران/11)
پس اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے گرفت میں لے لیا اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)(شوري/30)
اور تم پر جو مصیبت آتی ہےوہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہےاور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہےکہ ایسے مصائب جو انسان پر آپڑتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ایک قسم کی سزا ہیں۔
امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت :
( وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ ۔
قرآن مجید کی بہتریں آیات میں سے ہے۔ اے علی کسی بندے پر ایک چھوٹی سا زخم یا لغزش آجاتی ہےتو یہ اس گناہ کا اثر ہےجو اس سے سرزد ہوا ہےخدا وند عالم اس کا وہ گناہ اس دنیا میں ہی معاف کرتا ہےاور خداوندعالم اس دنیا میں جوعقاب کرتاہےوہ اس سے عادل ہےکہ کل قیامت کے دن دوبارہ عقاب کرے ۔
(تفسیر نمونہ مكارم شيرازي ،ج20/ص440)۔
إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم)(رعد/11)
اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔
یہ آیات جو ذکر ہوئیں ہیں وہ بلاؤں کے نزول میں انسان کا کردار اور نقش کے شامل ہونے کے کچھ نمونے تھے ۔لیکن ایسی روایات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جیسے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو بھی نعمت انسان کو دی گئی ہےوہ اس وقت تک نہیں چھینی جاتی ہےجب تک کہ انسان کسی ایسے گناہ کا مرتکب نہ ہو جائے جو اس نعمت کے زائل ہونے کا سبب بنتا ہے۔
(منتخب ميزان الحكمه ري شهري ،/223 )
پیغمبر اسلام نے فرمایا :کہ خداوند متعال نے حضرت ایوب کو وحی بھیجی او راس کو کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے نزدیک آپکا کیا گناہ ہےکہ جس کی و جہ سے آپ پر بلاء نازل ہوئی ہے؟ حضرت ایوب کہنے لگا کہ نہیں ۔ تو فرمایا کہ آپ فرعون کے پاس گئے اور جاکر اس کے ساتھ نرمی سے بات کی ہیں جسکی وجہ سے آپ پر بلاء نازل ہوئی ہے۔
(منتخب ميزان الحكمه ري شهري،/85)
امام صادق کا فرمان ہےکہ جب انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہےتو نیک اعمال نماز شب جیسی عمل کو انجام دینے سے محروم ہو جاتا ہے۔
(منتخب ميزان الحكمه ري شهري ،/223)
جانلو کہ برا کام انسان کو فنا ء و نابود کرتا ہےاور اس کا اثر انسان پر چاقو کی تیز ی سے بھی جلدی ہوتا ہے۔
بلاء و سختی کے تربیتی آثار :
سختیاں اور گرفتاریاں ایک طرف سے انسان کی تربیت میں اور دوسری طرف سے معاشرے اور قوم و ملت کی تربیت میں بھی مؤثر ہیں ۔
سختیاں انسان کو بیدار اور ہوشیار کرتی ہیں اور انسان کے عزم و ارادہ کو قوت دیتی ہیں اور لوہے کی طرح اس کو محکم و مضبوط بناتی ہیں جتنی سختیاں انسان پر آجائیں اتنا ہی وہ مصمم اور قدرت مند بن جاتا ہے۔
انسانی زندگی کی خصوصیت یہی ہےکہ وہ سختیوں کے مقابل میں مقاومت اختیار کریں اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ان سختیوں کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو جائیں جو انسان کی زندگی کو بالکل ہی تبدیل کردیتی ہیں اور اس کی زندگی کو رونق بخشتی ہیں ۔
(آشنايي با قرآن مطهري ،ص180)
اسی لئے روایات میں آیا ہےکہ جو شخص بلاؤں میں گرفتارنہیں ہوتا ہےوہ بدترین عقاب میں گرفتار ہو جاتا ہےلیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہےکیونکہ اگر وہ اس بلاء کو دیکھ لیتا تو حتما وہ جاگ جاتا ۔
انبیاء کے قصوں میں آیا ہےکہ ایک شخص نے حضرت شعیب کو کہا کہ میں اتنا گناہ کرتا ہوں لیکن خدا مجھے کیوں عذاب نہیں دیتا ہے؟ تو اس کے جواب میں آیا ہےکہ آپ بدترین عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں لیکن آپ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں ۔
(آشنايي با قرآن مطهري ،ص184 )
اسی طرح سے روایت میں آیا ہےکہ پیغمبر اسلام کو کسی شخص نے دعوت دی جب وہ ان کے گھر میں داخل ہواتو دیکھا کہ دیوار کے اوپر ایک مرغی نے انڈا دیا لیکن وہ ٹوٹے بغیر کسی میخ کے ساتھ لٹک کر رہا ۔ تو پیغمبر اسلام نے بڑا تعجب کیا ! تو مالک کہنے لگا یا رسول اللہ آپ نے تعجب کیا اس خدا کی قسم کہ جس نے آپکو رسول بنا کر بھیجا ہےابھی تک میرے گھر میں کوئی ضرر نہیں پونچا ہے۔ جب پیغمبر اسلام نے یہ جملہ سنا تو وہ فورا کھڑے ہوئے اور اس گھر سے باہر نکلے اور کہنے لگے کہ جس گھر میں بلاء اور مصیبت نازل نہ ہو تو وہ خدا کے لطف و کرم سے محروم ہے۔۔
( رہ توشه مصباح يزدي ،ص /276)
بنا بر این اگر ہم اس آزمایش و بلاء کی حقیقت کی طرف متوجہ ہو جائیں تو روشن ہوتا ہےکہ یہ گرفتاریاں اور سختیاں انسان کو بیدار اور ہوشیار رہنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں یہی سختیاں ہیں کہ انسان کو بیدار کرتی ہیں اور ان کے عزم و ارادہ کو محکم کرتی ہیں اور مقاومت اور تکامل میں انسان کی مددگار ثابت ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے اندرونی استعدادوں کو ظاہر کرتی ہیں ۔
( رہ توشه مصباح يزدي ،ص /276)
اور قرآن مجید بھی بلاء کے اس تربیتی اثر کی طرف اشارہ کرتا ہےفرمایا :
فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا)(انشراح/6-5)
البتہ مشکل کےساتھ آسانی ہے۔ یقینا مشکل کےساتھ آسانی ہے۔
حقیقت میں خدا وند عالم اس نکتے کی طرف اشارہ کررہا ہےکہ یہ سختیاں اورگرفتاریاں انسان کی ترقی و کمال کے لئےمقدمہ ہیں اور انسان کے قدرت مند بننے کا باعث ہیں اسی لئے یہ بلاء اورمصیبتیں انسان کے تکامل کے لئے بہت ہی ضروری ہیں ۔
( رہ توشه مصباح يزدي ،ص /475)
لَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ فِي كَبَدٍ)(بلد/4)
بتحقیق ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔
یہ آیت انسان کے تکامل میں رنج و مشقت کاجو اہم کردا رہےاسکو بیان کرتی ہےاگر ایسا نہ ہوتا تو خداوندعالم جو کہ اپنے بندوں کےلئےخیر وسعادت چاہتاہےوہ کبھی بھی انسان کو رنج و زحمت میں نہیں ڈالتا ۔
( رہ توشه مصباح يزدي ،ص /475) ۔
استاد مطہری کی تعبیر کے مطابق انسان کے لئے ضروری ہےکہ وہ ان مشقتوں کو تحمل کرے اور سختیوں کو برداشت کرے تاکہ اپنے لائق ہستی کو پیدا کر سکے ۔
اور تمام موجودات زندہ انہی مشکلات میں رہ کر کمال تک پہنچ جاتے ہیں اور یہی قانون تمام نباتا ت اور حیوانات خصوصا انسان میں پایا جاتا ہے۔
(آشنايي با قرآن مطهري،/ص 176)
امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہےکہ خداوندمتعال اپنےمومن بندے کو ان بلاؤں کا ہدیہ دیتا ہےجس طرح سے کہ کوئی بندہ سفر میں اپنے گھر والوں کو ہدیہ بھیجتا ہے۔
اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہےکہ جب خدا وند متعال اپنے کسی بندے کو دوست رکھناچاہتا ہےتو اسکو بلاؤں اور مصیبتوں میں مبتلاکرتا ہے۔
(منتخب ميزان الحكمه ري شهري،ص/85)
قرآن کی آیا ت اور روایات سے اس کے بارے میں جو سمجھ میں آتا ہےوہ یہ ہےکہ یقینا اس میں تربیتی آثار موجود ہیں اگر انسان انکو جان لیں کہ ان کی زندگی کا لازمہ انہی مشکلات کو تحمل کرنا ہےاور بلاء خداوند عالم کی طرف سے اس کے لئے ایک ہدیہ ہےتو وہ انسان کبھی بھی ناکام نہیں ہوگا بلکہ اپنی پوری جان و قوت کے ساتھ ان سختیوں اور مشکلات کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے خداکے حکم کے مطابق عمل کرے گا ۔
نعمت کے ذریعے سے آزمایش :
انسان کے حالات زندگی اور انکی خصوصیات کے بارےمیں مطالعہ کئےبغیر شاید یہ کہاجائے کہ عذاب کی آزمایش نعمت کی آزمایش سےسخت ہےلیکن اگر ہم انسان کی حالات زندگی گا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہےکہ نعمت کے ذریعے سے آزمایش ہونا عذاب کی
آزمایش سے سخت تر ہے۔ اس مطلب کو روشن کرنے کے لئے ضروری ہےکہ ہم انسان کی بعض خصوصیات کیطرف اشارہ کریں۔
حالات انسان :
انسان جو کہ نور اور شہوت سے ملکر بنا ہےوہ کچھ حالات اور خصوصیات رکھتا ہےجو دوسرے موجودات میں نہیں پائے جاتے ہیں من جملہ ان میں سے بعض اس طرح ہیں ۔
- غفلت :
یہ ایک ایسی حالت ہےکہ جو ہمیشہ انسان کے ساتھ ہےجس کے نتیجے میں انسان برے کاموں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ حالت غفلت یعنی خدا وند عالم سے بے خبر ہونا اور اپنی شخصیت و واقیعت کی طرف متوجہ نہیں ہونا جیسا کہ فرمایا :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالإنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالأنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُون) (اعراف/179)
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہےمگر وہ ان سے سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان
سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
- عذر تراشی :
دوسری حالت جو کہ انسان اپنی زندگی میں برے اعمال کے انجام دینے سے اس حالت میں مبتلا ہو جاتا ہےوہ عذر تراشی ہےکہ فرمایا :
(بَلِ الإنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ*وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيره) (قيامت/15-14(
بلکہ انسان اپنے آپ سے خوب آگاہ ہے، اور خواہ وہ اپنی معذرتیں پیش کرے۔
3 - طغیان گری :
انسان ذاتی طور پر زیاد طلب ہےاور اسی زیاد طلبی کی وجہ سے طغیان کا شکار ہوتا ہےفرمایا:
(إِنَّ الإنْسَانَ لَيَطْغَى*أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى)(علق/7-6(
ہرگز نہیں! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔
4 - ناشکری :فرمایا :
إِنَّ الإنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُود)(عاديات/6) ۔
یقینا انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
انسان کے اندر اسی خصوصیت کے ہونے کی بنا پر فرمایا :
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُور)(سبا/13)
اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔
5 - نفس امارہ :
فرمایا :
إِنَّ النَّفْسَ لأمَّارَةٌ بِالسُّوء)(يوسف/53)
اورمیں اپنےنفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی)نفس تو برائی پر اکساتاہے۔
ان اوصاف و حالات کی طرف توجہ دینے سے یہ بات روشن ہو جاتی ہےکہ نعمت کے ذریعے سے آزمایش ہونا عذاب کی آزمایش سےبھی سخت تر ہےکیونکہ نعمت سے آزمایش ہونےمیں غالبا انسان بیدارنہیں ہوتا ہےخصوصا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی ناشکری کرتا ہےاس کے اندر نفس امارہ کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہےکہ نعمتوں کا زیادہ ہونا خداکے پاس کوئی خاص مقام و فضیلت رکھتا ہےجس کی وجہ سے نعمتوں میں اضافہ ہوا ہےلیکن اس بات سے وہ غافل رہتا ہےکہ نعمت کا اضافہ ہونا اس کی آزمایش کے لئے ہے۔فرمایا :
اَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ)(انفال/28)
اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے۔
کسی اور جگہ پر فرمایا :
وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْر)(انبيا/35)
اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہےکہ ان کی نعمتوں کے زیادہ ہونے سے وہ اپنے رب سے منہ موڑنے لگتا ہےاور طغیان کا شکار ہوتا ہے۔جبکہ عذاب کے ذریعے آزمایش ہونے سے انسان کے اندر بیداری کی حالت پیدا ہو جاتی ہےفرمایا :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ۔۔۔۔ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون)(روم/41)
لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آجائیں۔
لہذا فرمایا کہ نعمت کی آزمایش عذاب کی آزمایش سے زیادہ سخت ہے۔ چونکہ یہ طبیعی ہےکہ نعمت کا زیادہ ہونا انسان میں سستی اور غفلت کی حالت پیدا کرتا ہےاور شہوات میں غرق ہونے کا باعث بنتا ہےاور یہی وہ چیز ہےجو انسان کو خدا سے دور کرتی ہےاور شیطان کے لئے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔لیکن اس سے صرف وہی لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں جو ہمیشہ خدا کی یاد اور ذکر کرتے رہتے ہیں ۔
(تفسیر نمونه مكارم شيرازي، 25/122)
نتیجہ :
قرآن مجید کے اہم ترین مباحث میں سے ایک امتحان و آزمایش الہی کا بحث ہےجو قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں ذکرہواہےاور امتحان و آزمایش کو انسان کی زندگی کےلئے بہت ہی ضروری قرار دیا ہےچونکہ بغیر امتحان و آزمایش کے انسان تکامل نہیں پاتا ہےلذا کوئی بھی انسان اس آزمایش سے استثناء نہیں ہےیہاں تک کہ خدا وند عالم اپنے مقرب ترین افراد کو بھی اس آزمایش میں مبتلا کرتا ہےچونکہ یہ آزمایش ایک سنت الہی ہےسب اس سنت میں شامل ہیں اور اس از مایش میں کامیاب ہونے کے لئے صبر وتحمل اور صلہ رحمی کو بہترین عامل قرار دیا ہے۔
اور اس سنت الہی میں سب انسانوں کے شامل ہونے کی طرف متوجہ کرانے کے لئے اس آزمایش کے بعض ابزار اور گزشتہ انبیاء و اقوام کے آزمایش ہونے کا ذکر کیا ہےاور اس آزمایش الہی کے مقابل میں انسان کا عکس العمل کس طرح سے ہونا چاہیے اس کو ذکر کیا ہے۔
اسی لئے قرآن کی آیات اور روایات سےظاہرہوتاہےکہ آزمایش الہی اور رحمت الہی کےدرمیان ایک خاص رابطہ پایا جاتاہے۔ اورنعمت کےذریعےسےجوآزمایش ہوتاہےوہ غذاب کی آزمایش سے بہت ہی سخت ہے۔
منابع و آخذ:
ابن فارس ، ابوالحسين احمد؛ معجم مقاييس اللغه ،مكتب الاعلام الاسلامي ،1404ق۔
پسنديده، عباس؛ رضايت از زندگي، چاپ پنجم، سازمان چاپ و نشر دارالحديث، 1386ش۔
تفليسي، ابوالفضل ابراهيم ابن حبيش؛ وجوه قرآن، به اهتمام مهدي محقق، مؤسسه انتشارات و چاپ دانشگاه تهران، 1371ش۔
دشتي، محمد؛ فرهنگ جامع سخنان حضرت فاطمه زهرا (س) ، چاپ 12، انشارات مشهور، قم، 1386ش۔
طباطبائي، سيد محمد حسين؛ الميزان، ترجمه سيد محمد باقر همداني، چاپ پنجم، بنياد علمي و فرهنگي علامه طباطبائي، 1370ش۔
فرهنگ جامع سخنان امام حسين7؛ ترجمه علي مؤيدي، چاپ سوم، سازمان چاپ و نشر دارالحديث، 1384ش۔
قرآن كريم۔
قريشي،سيد علي اكبر؛ قاموس قرآن، چاپ ششم، دارالكتب الاسلاميه،1371ش۔
محمدي ري شهري، محمد؛ منتخب ميزان الحكمه، ترجمه محمد رضا شيخي، چاپ سوم، مؤسسه چاپ و نشر دارالحديث، 1384ش۔
مصباح يزدي، محمد تقي؛ ره توشه،چاپ دوم، موسسه آموزشي و پژوهشي امام خميني1376ش۔
زينهار از تكبر، چاپ اول، مؤسسه آموزشي و پژوهشي امام خميني;، 1376ش۔
مصطفوي، حسن؛ التحقيق في كلمات القرآن الكريم، جلد1، تحقيق و ضبط عبدالسلام محمد هارون، مكتب الاعلام الاسلامي، قم، 1404ق۔
مطهري، مرتضي؛ آشنايي با قرآن، چاپ اول، انشارات صدرا، 1377ش۔
مجموعه آثار، ج 1، چاپ پنجم، انتشارات صدرا، 1373ش۔
مغنيه، محمد جواد؛ الكاشف، ترجمه موسي دانش، چاپ اول، مؤسسه بوستان كتاب قم، 1383ش۔
مكارم شيرازي، ناصر؛ تفسير نمونه، چاپ دهم، دارالكتب الاسلاميه، 1372ش۔
موسوي نسب، سيد جعفر؛ ابتلاء و آزمايش انسان در قرآن، چاپ اول، ارزشمند، 1385ش۔
نهج البلاغه۔
الهامي نيا، علي اصغر؛ سيره اخلاقي معصومين:، چاپ اول، زمزم هدايت، قم، 1385ش۔