امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

قرآن مجید کاتعارف

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

قرآن مجید کاتعارف
نذرحافی


ہجرت سےپہلےاورہجرت کےبعدپیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنازل ہونےوالی سورتوں اورآیات کےمجموعےکا نام قرآن مجیدہے۔سورت (سورہ)عربی زبان میں شہرکےگرد بلند وبالا دیواریعنی فصیلِ شہرکوکہاجاتاہے۔چونکہ قرآن مجید کا ہر سورہ آیاتِ مقدسہ کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ، اس لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے جبکہ آیت کا مطلب علامت اور نشانی ہے۔
 قرآن مجید ١١٤ سورتوں اور٦٣٢٦آیات پر مشتمل اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جو اس نے اپنے آخری پیغمبرۖ پر نازل کی۔آیات کی مذکورہ تعداد "الاتقان"جلد ایک صفحہ ١٩٠ پر امیرالمومنین سے نقل کی گئی ہے۔قرآن مجید کی موجودہ شکل کئی افراد اور گروہوں کی جمع آوری کا نتیجہ ہے تاہم یادرہے کہ سورتوں کی ترتیب نیز آیات کی ترتیب اور ہر سورت میں آیات کی تعدادپیغمبرِ اسلام کے حکم کے مطابق ہے۔ اس کتابِ ہدایت سے حقیقی معنوں میں ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کتاب کے نزول ،اعجاز اور قدرومنزلت کی صحیح معرفت ہو۔
 معارفِ قرآنی سے حقیقی معنوں میں بہرہ مند ہونے کے لئے قرآن مجید پر مختلف زاویوں سے تحقیق کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو خود قرآن مجید کی ہی روشنی میں سمجھنا اور پہچاننا بھی ضروری ہے ۔  اسلامی عقیدے کے مطابق قرآن مجید کے دو نزول ہیں۔ایک دفعی نزول ہے اور دوسراتدریجی ۔قرآن مجید کے دفعی نزول سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید لوحِ محفوظ سے قلبِ پیغمبر پر ایک ہی مرتبہ اکٹھا نازل ہواجبکہ تدریجی نزول یہ ہے کہ قرآن مجیدکانزول مختلف حالات و واقعات کے پیشِ نظر،آیات کی شکل میں پیغمبرِاسلام کی مادی زندگی کے آخری سال تک جاری رہا۔
قرآن مجید کایہی تدریجی نزول اسے دیگر آسمانی کتابوں سے ممتاز کرتاہے چونکہ دیگر آسمانی کتابیں اور صحیفے یکمشت نازل ہوتے رہے۔قرآن مجید کےتدریجی نزول سےپیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورمسلمانوں کوہمیشہ لطفِ پروردگارگھیرےرکھتاتھااورمسلمانوں کوہروقت یہ احساس رہتاتھاکہ خداوندعالم سےان کا رابطہ قائم ہے۔
چنانچہ جب بھی مشکل حالات پیش آتےتھے، قرآنی آیات کا نزول مسلمانوں کےلئے حوصلہ افزائی اور تقویت ِایمان کا باعث بنتا تھا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ لغت میں قرآن سے کیا مراد ہے: لغت میں قرآن: لغوی طور پر لفظ قرآن کا مطلب" پڑھنا" ہے،جیساکہ سورہ قیامت کی آیت ١٧ اور ١٨ میں آیا ہے:
 ِانَّ عَلَیْنَا جَمْعَه وَقُرْآنَهُ (١٧)  فَذَا قَرَنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَه (١٨) (17)
 یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں ۔ (18) پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے اپنے آپ کو کس نام سے یاد کیا ہے۔ قرآن مجید کے اسمائے مبارک قرآن مجید میں: مفسّرین نے قرآن مجیدکے لئے نوّے سے زیادہ نام آیاتِ مقدسہ سے اخذکئے ہیں جن میں سے چار نام زیادہ اہم ہیں۔  
 ١۔قرآن   ٢۔فرقان    ٣۔کتاب  ٤۔  ذکر
    قرآن:  
   ١۔قرآن یہ نام سورہ بروج کی آیت ٢١ میں اس طرح سے ذکر ہوا ہے:
  بَل هُوَ قُرآن مَجِید (٢١) (21)
 یقینا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے مفسّرین کے مطابق قرآن ایک عربی کلمہ ہے جس کا مصدر قراء  اور مطلب پڑھنا ہے۔چونکہ یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اس لئے اسے قرآن کہا جاتاہے جبکہ بعض نے لکھا ہے کہ قراء  دراصل قرو تھا جس کا مطلب جمع کرناہے۔چونکہ تمام سابقہ کتابوں کا ماخذ اور پیغام قرآن مجید میں جمع ہے اس لئے اسے قرآن کہا گیا ہے۔
جیسا کہ سورہ یوسف کی آخری آیت میں ارشادِ پروردگار ہے:
 لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهمْ عِبْرَة لِوْلِی الْلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْئٍ وَهدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون۔
 یقینا ان کے واقعات میں صاحبانِ عقل کے لئے سامان عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبِ ایمان قوم کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہےَ (١١١)
فرقان:
   ٢۔فرقان یہ نام سورہ فرقان کی پہلی آیت میں اس طرح سے ذکرکیا گیا ہے:  
 تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِهِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (١)
(1) بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الہی سے ڈرانے والا بن جائے۔ فرقان کے معانی فارق اور جدا کرنے والے کے ہیں۔قرآن مجیدکو فرقان اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ یہ کتاب حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے اور حق و باطل کے بیچ میں حدِّ فاصل کھینچتی ہے۔یعنی حق کو باطل سے جدا کرتی ہے۔
کتاب:
   ٣۔کتاب یہ نام سورہ نساء کی آیت ١٠٥ میں بیان ہوا ہے۔  ا
انَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ  لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰهُ۔ وَلَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا (105)
 ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے کہ لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں ۔ کتاب ایسی چیز کو کہتے ہیں جو لکھی گئی ہو یعنی مکتوب کو کتاب کہا جاتا ہے۔
قرآن چونکہ لوح ِ محفوظ میں بھی لکھا ہوا ہے اور کاغذوں پر بھی لکھا گیا ہے اس لئے اسے کتاب کہا گیا ہے جبکہ قرآن کو کتاب کہنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ کتاب کا ایک مطلب جمع کرنابھی ہے  چونکہ قرآن میں تمام علوم اور احکامِ الٰہی جمع ہیں اس لئے بھی اسے  کتاب کہا گیا ہے۔
ذکر:
 ٤۔ذکر یہ نام سورہ حجر کی آیت٩ میں آیاہے:
  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَانَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (٩) (9)
ہم نے ہی اس ذکر( قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
 یاد رہے کہ قرآن مجید کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کو بھی قرآن میں ذکر کہا گیا ہے،جیساکہ سورہ انبیاء کی آیت ١٠٥ میں ارشاد مبارک ہے:
 وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ َانَّ الْارْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ (١٠٥)
 اور ہم نے ذکر(تورات) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔
لغوی طور پر ذکرسے مراد کسی یاد کی ہوئی چیز کو دوبارہ ذہن میں لانا ہے۔ذکر کی دو صورتیں ممکن ہیں۔١۔کسی بھولی ہوئی چیز کو ذہن میں لانا٢۔ کسی چیز کو بھولے بغیر ذہن میں لانا۔
 قرآ ن مجید کو ذکر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن، احکامِ  پروردگار کا تذکر دیتا ہے اور عوام النّاس کو دین حق کی یاد آوری دلاتا ہے۔ سورہ انبیاء کی آیت ٥٠ میں بھی قرآن مجید کو ذکر کہا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔  
   وَهَذَا ذِکْر مُبَارَک َنزَلْنَاهُ َفَانْتُمْ لَهُ مُنکِرُونَ
 اور یہ قرآن ایک مبارک ذکرہے جسےہم نےنازل کیا ہے توکیا تم لوگ اس کابھی انکارکرنے والے ہو ۔(٥٠)
قرآن مجید میں جن سولہ چیزوں کو ذکر کہا گیاہے ،اختصار کے پیشِ نظر ہم یہاں پر صرف ان کے نام پیش کر رہے ہیں۔:
  ١۔وحی   ٢۔تورات  ٣۔قرآن مجید   ٤۔لوح محفوظ  ٥۔اطاعتِ خدا ٦۔نماز جمعہ    ٧۔نماز پنجگانہ ٨۔شرف و افتخار  ٩۔ذکرِ لفظی   ١٠۔ذکرقلبی  ١١۔حفظ  ١٢۔تفکّر  ١٣۔توحید  ١٤۔پیامبر  ١٥۔تذکّر  ١٦۔آگاہی و اطلاع
قرآن مجید کے اسمائے مبارک کے بعد اب آئیے دیکھتے ہیں کہ خود قرآن مجیدنے نزولِ قرآن کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔۔۔
 قرآن مجید کی روشنی میں نزولِ قرآن:
  قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں قرآن مجید کے نزول کا آغاز رمضان المبارک کے مہینے میں شبِ قدر سے ہوا ہے۔ثبوت کے طور پرسورہ بقرہ کی آیت١٨٥ اورسورہ قدر کی آیت ٣ ،سورہ اسراء کی آیت ١٠٥ اور١٠٦ملاحظہ فرمائیں )
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ُنزِلَ فِیهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَی وَالْفُرْقَانِ  
ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔(185))
اِنَّا َنزَلنَاهُ فِی لَیلَةِ القَدرِ (١)
(1) بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔)
وَبِالْحَقِّ َنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا َرْسَلْنَاکَ ِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا (١٠٥)
(105) اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیاہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔
  وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہ لِتَقْرَاهُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِیلًا (١٠٦)
اورہم نے قرآن کومتفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اورہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے ۔(106)
 ٭٭٭٭٭(نزول قرآن کے بارے میں ایک اہم نکتہ)٭٭٭٭٭
   مادہ "نزل"کواگر باب افعال میں لے جایا جائے تو"انزال" بنتا ہے ،جس کا مطلب دفعی نزول ہے اوراگر اسی مادے کو باب تفعیل میں لے جایاجائے توتنزیل بنتا ہے جس کا مطلب تدریجی نزول ہے۔وہ آیات جن میں شبِ قدر میں نزول قرآن کا ذکر آیا ہے ،ان میں کلمہ انزال استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب دفعی نزول ہے جبکہ دیگر آیات میں کلمہ تنزیل استعمال کیا گیا ہے ،جس کا مطلب تدریجی نزول ہے۔
 اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے خود اپنا تعارف کن الفاظ سے کرایا ہے: قرآن مجید کا تعارف قرآن مجید کے الفاظ میں) قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے:  
  الم (١) ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیهِ هُدًی لِلْمُتَّقِینَ  
    یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقوی کے لئے  ہدایت ہے (بقرہ١،٢) )
   قرآن مجید ہادی ہے:   
 اِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ یَهْدِی لِلَّتِی هِیَ َقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ َانَّ لَهُمْ اجْرًا کَبِیرًا  
 بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ہایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کےلئے بہت بڑا اجر ہے ۔(سورہ اسراء ٩) )
   قرآن مجید امانتِ پروردگار ہے:    
  اِنَّا عَرَضْنَا الْامَانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَالْجِبَالِ فَابَیْنَ َنْ یَحْمِلْنَهَا وَاشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْانْسَانُ انَّهُ کَانَ ظَلُومًاجَهُولًا۔  
 بیشک ہم نے امانت کو آسمان زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے ۔(سورہ احزاب٧٢) )
   قرآن مجید کا نازل کرنے والا حیّ اور قیّوم ہے:
 الم (١) اﷲُ لاَ ِلَهَ ِلاَّ هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوم (٢) نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقّ  
   الم ، اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ زندہ (حیّ)ہے اور ہر شے اسی کے طفیل میں قائم (قیّوم)ہے۔ اس نے آپ پر برحق کتاب نازل کی ہے۔ (سورہ آل عمران)  )  
   ربُّ العالمین نے قرآن مجید نازل کیا ہے:
انَّهُ لَقُرآن کَرِیم (٧٧)
  یہ بڑا محترم قرآن ہے  
 فِی کِتَابٍ مَکنُونٍ (٧٨)
   جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیا ہے
   لاَیَمَسُّهُ الاَّ المُطَهَّرُونَ (٧٩)
 اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے
 تَنزِیل مِن رَبِّ العَالَمِینَ (٨٠)
 یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (سورہ واقعہ) )
   قرآن مجید نازل کرنے والارحمٰن و رحیم ہے:
  حم (١) تَنزِیل مِن الرَّحمَانِ الرَّحِیمِ (٢)
 حم ،یہ خدائے رحمن و رحیم کی تنزیل ہے  (فصّلت) قرآن  مجید،خدائے عزیزوعلیم کی نازل کردہ کتاب ہے:  
  حم (١) تَنزِیلُ الْکِتَابِ مِنْ اﷲِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (٢)  
  حم(2) یہ خدائے عزیز و علیم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔ ) خدائے حکیم و حمید نے قرآن مجید نازل کیا ہے:
 تَنزِیل مِن حَکِیمٍ حَمِیدٍ (٤٢)  
    یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے (فصِّلت)
   قرآن مجید کلامِ الٰہی ہے:
  وَانْ َاحَد مِنْ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاجِرْهُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اﷲ   
   اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کلامِ خدا سنے  (توبہ٦) )
    قرآن مجید قلبِ پیغمبرۖ پر نازل ہوا
 نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْامِینُ (١٩٣) عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ (١٩٤)
اسے جبریل امین لے کر نازل ہوئے ہیں ،یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرائیں(سورہ شعرائ)   )  ۔
  قرآن نورِ مبین ہے:
  وانزلنا الیکم نورا مبینا
 اے انسانو !تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور بھی نازل کردیا ہے(سورہ نسائ،١٧٤)   )
    قرآن کے دشمن بے بس ہیں:    
  ا َمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ انْ کُنتُمْ صَادِقِینَ    
   کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو (ہود١٣) )  
  قرآنِ مجید میں ہر شئے کا بیان ہے:  
  وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْئٍ وَهُدًی وَرَحْمَةً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ  
 اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ,رحمت اور بشارت ہے (سورہ نحل٨٩)
 قرآن کتابِ مبین ہے:   
    قَدْ جَآئَ کُمْ  مِّنَ اللّٰهِ  نُوْر وَّکِتٰب  مُّبِیْن  
 تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے(مائدہ١٥)
قرآن ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتاہے:    
  الر ٭ کِتَاب َنزَلْنَاه الَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ ِلَی النُّورِ بِاذْنِ رَبِّهِمْ ِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِید
  الر ٭ -یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں اور خدائے عزیز و حمیدکے راستے پر لگادیں (ابراہیم١) )
   قرآن مجید معجزہِ پروردگار ہے:
  قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْانسُ وَالْجِنُّ عَلَی انْ یَاتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیَاتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا  
 آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں (اسرائ٨٨)   )   
 قرآن مجید داعیِ فکر ہے:
  فَلاَیَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ َامْ عَلَی قُلُوبٍ َاقْفَالُهَا
   تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں (محمدۖ٢٤) قرآن مجیدفرقان ہے:  
   تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِهِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا
  (١)بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الہی سے ڈرانے والا بن جائے
(فرقان) قرآن مجید برہانِ (دلیل)پروردگار ہے:  
  یٰاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ  بُرْهَان  مِّنْ  رَّبِّکُمْ وَاَنْزَ لْنَا  اِلَیْکُمْ  نُوْرًا مُّبِیْنًا
  اے انسانو !تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور بھی نازل کردیا ہے (نسائ١٧٤)
قرآن مجید کا تعارف حاصل کرنے کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے بطورِ معجزہ اپنے دشمنوں کو مقابلے کی دعوت کس طرح سے دی ہے!


 ٭ ٭ ٭ ٭ ٭  قرآن مجید کے الفاظ میں قرآن مجید بطورِ معجزہ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭   
   قرآن مجید نے بطورِ معجزہ دشمنان اسلام کو اسلام کی حقانیّت اورصداقت پرغوروفکر کرنے کے لئے پانچ مرحلوں میں سامنا کرنے کی دعوت دی ہے۔
 ٭١۔   پہلے مرحلے میںکلّی طور پر دشمنوں سے کہا کہ اگر تم سچّے ہو توتم بھی قرآن جیسا کلام لے آئو۔ثبوت کے طور پرسورہ طور کی آیت ٣٤ملاحظہ فرمائیں:
 فَلْیَاتُوا بِحَدِیثٍ مِثْلِهِ انْ کَانُوا صَادِقِین    
  َاگر یہ اپنی بات میں سچے ہیں تو یہ بھی ایسا ہی کوئی کلام لے آئیں  (٣٤)  
 ٭٢۔   دوسرے مرحلے میں قرآن مجید نے دشمنوں سے کہا کہ اگر تم میں ہمت ہے توقرآن مجید کی مانند دس سورتیں چاہے چھوٹی ہی کیوں ناں ہوں لے آئو۔ملاحظہ فرمائیں سورہ ہود کی آیت ١٣۔  
  امْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ انْ کُنتُمْ صَادِقِینَ
   کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو (ہود١٣)  
 ٭٣۔ تیسرے مرحلے میں قرآن مجید نے دشمنوں کو للکارا ہے کہ اگر دس سورتیں نہیں لاسکتے تو ایک سورہ ہی قرآن کی مانند لے آئو۔
سورہ یونس کی آیت  ٣٨ ملاحظہ فرمائیں۔
اَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنْ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ ِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ
   کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تم اس جیسا ایک ہی سورہ لے آ ئواور خدا کے علاوہ جسے چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو (٣٨)  
   ٭٤۔  چوتھے مرحلے میں قرآن مجید نے دشمنوں سے کہا کہ اگر تم سچے ہوتواپنے اور مددگاروں کو بھی اپنے ساتھ ملائو اورقرآن کی کسی ایک سورت کی مثل لائو۔
سورہ بقرہ کی آیت٢٣ و ٢٤ ملاحظہ فرمائیں:
  وَاِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (٢٣) فَانْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ُاعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ (٢٤)
  اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے  مددگار ہیںسب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میںسچے ہو۔  اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کرسکوگے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیا گیا ہے ۔
  ٭٥۔   پانچویں مرحلے میں قرآن مجید نے ہمیشہ کے لئے دشمنوں کوواشگاف الفاظ میں قرآن کی مثل لانے کی دعوت دے دی۔سورہ اسراء کی آیت ٨٨ ملاحظہ فرمائیں:   
  قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْانسُ وَالْجِنُّ عَلَی انْ یَاتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَیَاتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا
 آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہےسب ایک دوسرےکےمددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں (٨٨)  
قرآن ایسا عظیم معجزہ ہے کہ اس کا حرف حرف عجائباتِ میں سے ہے،جیسے اس کے حروفِ مقطعات،قصّے،الفاظ کا نظم،معانی کا بہائو،افکار کا تلاطم،آیاتِ متشابہات و محکمات،آیاتِ ناسخ و منسوخ وغیرہ  وغیرہ۔قرآنی عجائبات میں سے ایک اہم ترین عجوبہ قرآنی قسمیں ہیں۔
یہ جاننے کے بعد کہ قرآن مجید نے اپنی صداقت پر دشمنوں کو مقابلے کے لیے کس طرح للکارا ہے،اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کونازل کرنے والے پروردگار نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پرکن چیزوں کی قسمیں اُٹھائی ہیں۔ قسم کسی بات کی اہمیت بتانے کے لئے اٹھائی جاتی ہے اورقسم کے لئے مخصوص الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔قرآن مجید نے بھی گفتگو کے اس اسلوب کے  پیشِ نظر مختلف مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ قسمیں کھائی ہیں۔    


  ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ قرآنی قسموں کا تعارف٭ ٭ ٭ ٭ ٭  
   قرآنی قسموں کو تین دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے:   
   ١۔صریح قسمیں   
   ٢۔منفی قسمیں  
   ٣۔تقدیری قسمیں
  ١۔صریح قسمیں   
   فنّی طور پرصریح قسم اسے کہا جاتا ہے جس  میں ابتداء حرف قسم سے ہوپھر اس چیز کا ذکر کیا جائے جس چیز کی قسم اٹھائی جانی ہے اور پھراس اہم بات کاذکر کیا جائے جس کے لئے قسم اٹھانے کی ضرورت پیش آئی ۔  
 مثلاً:   
 ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ (١) مَا انْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ (٢)  
 ن, قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں ، آپ اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہیں ۔(سورہ قلم) قرآن مجید میں٨١مقامات پر٢٩سورتوں میں صریح قسم آئی ہے۔
    ٢۔منفی قسمیں  
    منفی قسم وہ ہوتی ہے جو حرفِ نفی کے ساتھ اُٹھائی جائے۔
جیسے:  
  فَلاَ اقسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ (٧٥)  
 اور میں تو تاروں کے منازل کی قسم کھاکر کہتا ہوں (واقعہ)
  زیادہ تر مفسّرین کی رائے یہ ہے کہ منفی قسموں میں حرف نفی زائد ہوتاہے۔اس لئے مطلب مثبت لیاجاتاہے۔مثلاً    
  فَلاَ اقسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ
 کا مطلب
فَلا اقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ
 ہی ہے۔ قرآن مجید میں١٥ مقامات پر چھ سورتوں میں منفی قسمیں آئی ہیں۔  


    ٣۔تقدیری قسمیں   
   تقدیری قسم اسے کہا جاتاہے جس میںحرفِ شرط پر لامِ موطئہ داخل ہوجاتاہے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ بعد میں آنے والا جملہ جوابِ قسم ہے جوابِ شرط نہیں ہے۔مثلاً  :
 والله لئِن اتیتنی لاتینّک۔
ہاں پر " لئِن"میں اِن حرف شرط پر لام داخل ہوا ہے تاکہ جواب
"لاتینّک"
جوابِ قسم بنے نہ کہ جوابِ شرط۔
کبھی کبھی ایسی قسم کہ جو حرفِ شرط سے پہلے آئے تقدیر میں چلی جاتی ہے یعنی کلام میں ذکر نہیں کی جاتی اورکبھی کبھی  لامِ موطئہ کے بغیر بھی آجاتی ہے۔اس طرح کی قسموں کو تقدیری قسمیں کہا جاتاہے۔قرآن مجید میں٦١مقامات پر تقدیری قسم  لامِ موطئہ کے ساتھ کھائی گئی ہے۔
 مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:   تقدیری قسم  لامِ موطئہ کے ساتھ  
  لَئِنْ اُخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَیَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْادْبَارَ ثُمَّ لاَیُنْصَرُونَ (١٢)
  وہ اگر نکال بھی دیئے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ہرگز ان کی مدد نہ کریں گے اور اگر مدد بھی کریں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔(حشر) تقدیری قسم  لامِ موطئہ کے بغیر
  وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّکُمْ  لَمُشْرِکُوْنَ(انعام١٢١)
  اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کر لی تو تمہارا شمار بھی مشرکین میں ہوجائے گا ۔
 اب آئیے مطالعہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے کن چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔قرآن مجید میں کئی چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔یہاں پر ہم ان کا مختصر ذکر کر رہے ہیں) ۔
قرآن مجید میں پروردگارنے اپنی ذات کی قسمیں کھائی ہیں: نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں: قرآن مجید میں اللہ اور ربّ کے عنوان سے قسمیں آئی ہیں۔
مثلاً : وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ(٢٣)
خدا کی قسم ہم مشرک نہیں تھے ۔(انعام) ٭  
  وَرَبِّی اِنَّهُ لَحَقّ
 اور مجھے میرے رب کی قسم کہ وہ برحق ہے (یونس٥٣)   )
قرآن مجید میں پروردگار نے قرآن، کتابِ شریعت اورصاحبِ کتاب کی قسمیں کھائی ہیں: نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:  
   ٭  وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ  
 قرآنِ حکیم کی قسم ہے  (یس٢)  
٭  وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ  
 کتاب مبین کی قسم ہے(دخان٢)   
  ٭ لَعَمْرُکَ ِنَّهُمْ لَفِی سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ۔
آپ کی جان کی قسم یہ لوگ گمراہی کے نشہ میں اندھے ہورہے ہیں  (حجر٧٢)ِ   )
قرآن مجید میں فرشتوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں: نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:  
 ٭  وَالصَّافَّاتِ صَفًّا (١) فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا (٢) (صافات) ٭ فَالْمُقَسِّمَاتِ َمْرًا (ذاریات٤) )
قرآن مجید میںانسان اور صفّاتِ انسانی کی قسمیں آئی ہیں: نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
   ٭  وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (٧) فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (٨)
 اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیاہے  پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے (شمس)   )قرآن مجید میں قیامت کی قسمیں آئی ہیں:نمونہ ملاحظہ فرمائیں:   
 ٭  وَالْیَوْمِ الْمَوْعُودِ (بروج٢)
قرآن مجید میں موجوداتِ کائنات کی قسمیں آئی ہیں:
  نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
  ٭  وَالسَّمَآء وَالطَّارِقِ (طارق١)  ٭
  وَالشَّمْسِ وَضُحَاها (١) وَالْقَمَرِ ِذَا تَلاَهَا (٢) وَالنَّهَارِ اذاجَلاَّها (٣) وَاللَّیْلِ ِذَا یَغْشَاهَا (٤) وَالسَّمَآء وَمَا  بَنَاهَا (٥) وَالْارْضِ وَمَا طَحَاهَا (٦)ِ (شمس)
  ٭ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ (٥) وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ (٦)(طور)
  ٭  وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ (تین١)

قرآن مجید میں مقدس مقامات کی قسمیں آئی ہیں:  نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں:  
  ٭  وَالطُّورِ (١)  وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِ (٤)   (طور)  ٭  وَطُورِ سِینِینَ (٢) وَهَذَا الْبَلَدِ الَْمِینِ (٣)(تین)  
نتیجہ :
 قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے جو اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی۔ اس کتاب کے دو نزول ہیں ایک کو دفعی اور دوسرے کو تدریجی کہتے ہیں۔  بعض مفسرین نے اس کتاب کے نوّے سے بھی زیادہ نام  بیان کئے ہیں البتہ چار نام زیادہ مشہور ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ اپنی تعلیمات کے اعتبار سے یہ ہدایت کی کتاب ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہے۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک