امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام محمد باقر (ع) کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

1 ووٹ دیں 03.0 / 5

امام محمد باقر (ع) کی شخصیت علمائے اہل سنت کی نظر میں

وجود مقدس حجت خدا آسمان امامت و ولایت کے پانچویں ستارے، امام محمد باقر (ع) اول رجب سن 57 ہجری کو شہر مقدس مدینہ منورہ میں دنیا میں آئے۔ آپکے والد گرامی امام زین العابدین (ع) اور مادر گرامی، امام حسن مجتبی (ع) کی دختر نیک اختر فاطمہ تھیں۔ لہذا آپ پہلے امام معصوم تھے کہ جنکے والدین ہر دو فاطمی و علوی تھے۔ سن 95 ہجری میں اپنے والد کی شہادت کے بعد آپ امامت کے بلند و الہی منصب پر فائز ہوئے۔ آپ 199 سال اور چند مہینے اس عظیم مقام پر اس امت کی امامت اور راہنمائی فرماتے رہے، اور آخر کار 7 ذی الحجہ سن 114 ہجری کو ہشام بن عبد الملک ملعون کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قبرستان جنت البقیع میں امام حسن (ع) اور امام سجاد (ع) کے جوار میں دفن ہوئے۔

اس تحریر میں ہم باقر العلوم امام محمد باقر (ع) کی نورانی اور الہی شخصیت کو اہل سنت کے علماء کی نظر میں بیان کریں گے اور دیکھیں گے کہ تمام آئمہ طاہرین (ع) شیعیان نہ فقط یہ کہ خود علمائے شیعہ کی نظر میں ایک عظیم اور بلند مقام رکھتے ہیں، بلکہ خود اہل سنت کے علماء کے نزدیک بھی آئمہ اہل بیت ایک خاص مقام و احترام رکھتے ہیں:

عبد اللہ ابن عطاء:

عبد اللہ ابن عطاء یہ امام باقر کا ہمعصر بھی تھا، اس نے امام کے بارے میں کہا ہے کہ:

عن عبدالله بن عطاء قال ما رأيت العلماء عند أحد أصغر علما منهم عند أبي جعفر لقد رأيت الحكم عنده كأنه متعلم.

میں نے بزرگ علماء اور دانشمندوں کو ابو جعفر کے سامنے بہت ہی عام انسانوں کی طرح پایا ہے، میں نے خود دیکھا تھا کہ حکم ( ابن عتیبہ ) ابو جعفر کے سامنے ایک چھوٹے سے شاگرد کی طرح لگتا تھا۔

(الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، ج 3 ص 186 ، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 54 ص 278 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 110 ، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية، ج 9 ص 311 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.)

عطار نيشاپوری (متوفی 627 ہجری):

عطار نيشاپوری یہ اہل سنت کا ادیب اور شاعر ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وہ حجت خدا، رسول خدا (ص) کی اولاد میں سے اور علی (ع) کہ جو صاحب ظاہر و باطن ہیں، کہ پوتوں میں سے ہیں، وہ ابو جعفر محمد باقر ہیں، انکے بیٹے جعفر صادق ہیں کہ جنکی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ امام باقر علوم دقیق و لطیف کے عالم تھے اور انکی بہت سی کرامات بھی مشہور ہیں۔ اس نے خداوند کی راہ میں اپنی جان تسلیم کر دی تھی۔

رضي الله عنه و عن اسلافه و حشرنا الله مع اجداده و معه آمين يا رب العالمين و صلي الله علي خير خلقه محمد و آله اجمعين و نجنا برحمتک يا ارحم الراحمين.

(کدکني نيشابوري، فريد الدين ابو حامد محمد بن ابوبکر ابراهيم بن اسحاق عطار ، تذکرة الاولياء، ص 558-559،)

ابن ابی الحديد (متوفی 655 ہجری):

ابن ابي الحديد معتزلي، یہ اہل سنت کا بزرگ عالم ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وهو سيد فقهاء الحجاز ، ومنه ومن ابنه جعفر تعلم الناس الفقه ، وهو الملقب بالباقر ، باقر العلم ، لقبه به رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يخلق بعد ، وبشر به ، ووعد جابر بن عبد الله برؤيته ، وقال : ستراه طفلاً ، فإذا رأيته فأبلغه عني السلام ، فعاش جابر حتى رآه ، وقال له ما وصي به.

وہ [امام باقر سلام الله عليه] اہل حجاز کے بزرگ فقہاء میں سے تھے، ان سے اور انکے بیٹے جعفر صادق سے لوگوں نے علم فقہ کو سیکھا تھا، انکا لقب باقر تھا، وہ باقر علوم تھے اور رسول خدا نے انکو یہ لقب عطاء کیا تھا، اور رسول خدا نے اپنے صحابی جابر انصاری کو خوشخبری دی تھی کہ تم میرے بیٹے محمد باقر سے ملاقات کرو گے اور فرمایا کہ : تم میرے بیٹے کو بچہ ہونے کی حالت میں دیکھو گے، جب اسکو ملنا تو میرا  سلام اس تک پہچانا اور جابر کو خداوند نے اتنی زندگی عطا کی کہ اس نے ان [امام باقر سلام الله عليه] سے ملاقات کی اور جو ان سے کہا گیا تھا، جابر نے اس کام کو انجام دیا۔

(إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 15 ص 164 ، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.)

محی الدين نووی (متوفی 676 ہجری):

یہ اہل سنت کے شافعی مذہب کا عالم ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم القرشي الهاشمي المدني أبو جعفر المعروف بالباقر سمي بذلك لأنه بقر العلم اي شقه فعرف أصله وعلم خفيه ... وهو تابعي جليل إمام بارع مجمع على جلالته معدود في فقهاء المدينة وأئمتهم.

محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں، کہ وہ بنی ہاشم کے قبیلے قریش میں سے تھے، وہ اہل مدینہ تھے۔ انکی کنیت ابو جعفر تھی کہ جو باقر کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کیونکہ انھوں نے علم کے خزانوں میں شگاف کیا تھا اور وہ اصل علم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے..... وہ تابعین میں سے، ایک عظیم انسان اور علم میں ماہر امام تھے کہ جنکی عظمت اور جلالت پر علماء کا اجماع موجود ہے، کہ انکا شمار مدینہ کے فقہاء اور آئمہ میں سے ہوتا تھا۔

(النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 1 ص 103 ، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفى676 هـ)، شرح النووي علي صحيح مسلم، ج 1 ص 102 ، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة الثانية، 1392 هـ..)

ابن خلکان (متوفی 681 ہجری):

ابن خلکان شافعی نے امام باقر (ع) کی عظمت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد الباقر أبو جعفر محمد بن زين العابدين علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أجمعين الملقب الباقر أحد الأئمة الاثني عشر في اعتقاد الإمامية وهو والد جعفر الصادق.كان الباقر عالما سيدا كبيرا وإنما قيل له الباقر لأنه تبقر في العلم أي توسع.

محمد باقر ابو جعفر و محمد بن زين العابدين علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں کہ ان سب سے خدا راضی ہو، انکا لقب باقر تھا، وہ شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، اور وہ جعفر صادق کے والد ہیں۔ [امام]  باقر ایک عالم و بزرگوار انسان تھے، انکو باقر کہا جاتا تھا، کیونکہ انھوں نے علم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 4 ص 174 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.)

رازی (متوفی 721 ہجری):

رازی اہل سنت کے ادباء میں سے ہے، اس نے لفظ ب ق ر کے ذیل میں لکھا ہے کہ:

و التبقر التوسع في العلم ومنه محمد الباقر لتبقره في العلم.

تبقر یعنی علم میں وسعت ایجاد کرنا، اسی معنی میں محمد، کو باقر کہا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے مختلف علوم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(الرازي، محمد بن أبي بكر بن عبدالقادر، (متوفي 721هـ)، مختار الصحاح، ج 1 ص 24 ، الطبعة : طبعة جديدة ، تحقيق : محمود خاطر، دار النشر : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت - 1415 – 1995.)

ابن تيميہ (متوفی 728 ہجری):

ابن تيميہ حرانی نے امام باقر (ع) کے بارے میں ایسے اعتراف کیا ہے کہ:

ابو جعفر محمد بن على من خيار اهل العلم والدين وقيل: انما سمي الباقر لانه بقر العلم.

ابو جعفر محمد بن على، وہ بہترین اہل علم و اہل دین میں سے تھے، کہا گیا ہے کہ انکا نام باقر رکھا گیا تھا، کیونکہ انھوں نے علم میں شگاف ( وسعت و ترقی ) ایجاد کیا تھا۔

(ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 50 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..)

ذہبی (متوفی 748 ہجری):

ذہبی اہل سنت کے علماء کا ایک رکن سمجھا جاتا ہے، اس نے امام باقر (ع) کا تعارف ایسے بیان کیا ہے کہ:

ابنه أبو جعفر الباقر هو السيد الإمام أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين بن علي العلوي الفاطمي المدني ولد زين العابدين ... وكان أحد من جمع بين العلم والعمل والسؤدد والشرف والثقة والرزانة وكان أهل للخلافة ... وشهرأبو جعفر بالباقر من بقر العلم أي شقه فعرف اصله وخفيه ولقد كان أبو جعفر إماما مجتهدا تاليا لكتاب الله كبير الشأن.

ان [امام سجاد سلام الله عليہ] کے بیٹے امام اور آقا تھے، ابو جعفر محمد بن علی بن حسين بن علی علوی و فاطمی اور اہل مدینہ تھے، وہ زین العابدین کے بیٹے تھے..... اس زمانے میں فقط وہ ایک ایسے انان تھے کہ جہنوں نے علم و عمل، بزرگی و شرافت اور عظمت و جلالت کو آپس میں اچھے طریقے سے جمع کیا ہوا تھا۔ یعنی یہ ساری چیزیں ایک ہی وقت میں امام باقر (ع) کی ذات میں پائی جاتی تھیں، ابو جعفر باقر کے نام و لقب سے مشہور ہو چکے تھے، کیونکہ انھوں نے علم میں وسعت ایجاد کی تھی، اور وہ اصل علم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے، اور وہ ابو جعفر ایک امام مجتہد اور خداوند کی کتاب کی تلاوت کرنے والے تھے۔

(الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 4 ص 401-402 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.)

ذہبی نے اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ جہاں اس نے تمام آئمہ کے ایک ایک کر کے نام ذکر کیے ہیں، وہاں پر امام باقر(ع) کے نام مبارک کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

وكذلك ابنه أبو جعفر الباقر سيد امام فقيه يصلح للخلافة.

اور انکے بیٹے ابو جعفر باقر آقا، امام اور فقیہ تھے کہ جو حلیفہ بننے و خلافت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

(الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 13 ص 120 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.)

اسی طرح ذہبی نے اپنی ایک دوسری کتاب تذکرۃ الحفاظ میں ایسے لکھا ہے کہ:

أبو جعفر الباقر محمد بن علي بن الحسين الإمام الثبت الهاشمي العلوي المدني أحد الأعلام ... وكان سيد بني هاشم في زمانه اشتهر بالباقر من قولهم بقر العلم يعني شقه فعلم أصله وخفيه وقيل أنه كان يصلي في اليوم والليلة مائة وخمسين ركعة.

ابو جعفر باقر محمد بن علی بن حسين، امام، بنی ہاشم سے، علوی، اہل مدینہ اور بزرگان میں سے ایک تھے..... وہ اپنے زمانے میں بنی ہاشم کے بزرگ تھے، جو باقر کے لقب سے مشہور ہو چکے تھے، اور علماء کے کلام کے مطابق: وہبقر العلم یعنی علم میں شگاف و وسعت ایجاد کرنے والے تھے، اور وہ اصل علم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے، اور انکے بارے میں کہا گیا ہے کہ: وہ دن رات میں 150 رکعت نماز (مستحب) پڑھا کرتے تھے۔

(الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى 748 هـ)، تذكرة الحفاظ، ج 1 ص 124-125 ، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى.)

اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں لکھا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين ع ابن علي بن أبي طالب الهاشمي العلوي ، أبو جعفر الباقر سيد بني هاشم في زمانه.

 وہ محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبي طالب ہیں، کہ جو بنی ہاشم سے، علوی، کہ جنکی کنیت ابو جعفر باقر تھی اور وہ اپنے زمانے میں بنی ہاشم کے بزرگ تھے۔

(الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفى748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 7 ص 462-463 ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.)

صفدی شافعی (متوفی 764 ہجری):

اس نے اپنی کتاب الوافی بالوفيات میں ایسے لکھا ہے کہ:

الباقر رضي الله عنه محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أبو جعفر الباقر سيد بني هاشم في وقته ... وكان أحد من جمع العلم والفقه والديانة والثقة والسودد وكان يصلح للخلافة وهو أحد الأئمة الإثني عشر الذين يعتقد الرافضة عصمتهم وسمي بالباقر لأنه بقر العلم أي شقه فعرف أصله وخفيه.

[امام] باقر [سلام الله عليہ]، محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں، انکی کنیت ابو جعفر باقر تھی اور وہ اپنے زمانے میں بنی ہاشم کے بزرگ تھے.....، اس زمانے میں فقط وہ ایک ایسے انان تھے کہ جہنوں نے علم و عمل، بزرگی و شرافت اور عظمت و جلالت کو آپس میں اچھے طریقے سے جمع کیا ہوا تھا۔ یعنی یہ ساری چیزیں ایک ہی وقت میں امام باقر کی ذات میں پائی جاتی تھیں، ابو جعفر باقر کے نام و لقب سے مشہور ہو چکے تھے، کیونکہ انھوں نے علم میں وسعت ایجاد کی تھی، اور وہ اصل علم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے۔

(الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفى764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 4 ص 77 ، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.)

يافعی (متوفی 768 ہجری):

يافعی شافعی نے تاریخ اسلام کے سن 114 ہجری کے حوادث میں لکھا ہے کہ:

وفيها توفى أبو جعفر الباقر محمد بن زين العابدين على بن الحسين بن على بن ابى طالب رضوان الله عليهم أحد الائمة الاثنى عشر في اعتقاد الامامية وهو والد جعفر الصادق لقب بالباقر لانه بقر العلم أي شقه وتوسع فيه ومنه.

اس سال میں ابو جعفر باقر محمد بن زين العابدين على بن الحسين بن على بن ابى طالب نے وفات پائی۔ وہ شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، اور وہ جعفر صادق کے والد ہیں۔ [امام]  باقر ایک عالم و بزرگوار انسان تھے، انکو باقر کہا جاتا تھا، کیونکہ انھوں نے علم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(اليافعي، ابومحمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفى768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج 1 ص 247 ، ناشر: دار الكتاب الإسلامي - القاهرة - 1413هـ - 1993م.)

ابن کثير دمشقی (متوفی 774 ہجری):

ابن کثير سلفی کہ جو ابن تیمیہ کے لائق شاگردوں میں ہے، اس نے ان الفاظ میں باقر العلوم کی تعریف کی ہے کہ:

وهو محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي أبو جعفر الباقر وأمه أم عبد الله بنت الحسين بن علي وهو تابعي جليل كبير القدر كثيرا أحد اعلام هذه الامة علما وعملا وسيادة وشرفا.

وہ محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب القرشی، بنی ہاشم کے قبیلے سے تھے، ابو جعفر باقر اور انکی والدہ ام عبد اللہ، امام حسن کی بیٹی تھیں۔ وہ [امام باقر سلام الله عليہ] بہت ہی جلیل القدر تابعی تھے اور علم و عمل و بزرگی و شرف کے لحاظ سے اس امت کے بزرگان میں سے تھے۔

(ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية، ج 9 ص 309 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.)

ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ہجریـ):

ابن حجر عسقلاني نے بھی امام باقر سلام الله عليہ کو ایک فاضل اور مورد اعتماد انسان کہا ہے اور انکے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب أبو جعفر الباقر ثقة فاضل.

محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب أبو جعفر باقر ایک فاضل اور مورد اعتماد انسان ہیں۔

(العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1 ص 497 ، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.)

اسی نے اپنی کتاب تهذيب التهذيب میں امام باقر (ع) کے بارے میں اہل سنت کے علماء کے اقوال کی تفصیل کو ایسے نقل کیا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب الهاشمي أبو جعفر الباقر ... قال بن سعد كان ثقة كثير الحديث ... وقال العجلي مدني تابعي ثقة وقال بن البرقي كان فقيها فاضلا وذكره النسائي في فقهاء أهل المدينة من التابعين.

محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب،کہ جو قبيلہ بني ہاشم سے اور ابو جعفر باقر تھے.....،

ابن سعد نے انکے بارے میں کہا ہے کہ: وہ ایک قابل اعتماد انسان تھے کہ جن سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں.....،

عجلی نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ: وہ اہل مدینہ کے تابعین میں سے اور ایک قابل اعتماد انسان تھے،

برقی نے کہا ہے کہ: وہ ایک فقیہ اور صاحب فضیلت انسان تھے،

نسائی نے بھی انکو تابعین اور مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کیا ہے۔

(العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 9 ص 311 ، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.)

بدر الدين عينی(متوفی 855 ہجری):

اس نے بھی امام باقر (ع) کے تعارف کو ایسے بیان کیا ہے کہ:

واما محمد بن علي فهو : محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ، رضي الله تعالى عنهم أجمعين ، الهاشمي المدني ، أبو جعفر المعروف : بالباقر ، سمي به لأنه بقر العلم أي : شقه بحيث عرف حقائقه ، وهو أحد الأعلام التابعين الأجلاء.

محمد بن علی وہ محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں، وہ قبیلہ بنی ہاشم اور اہل مدینہ میں سے تھے۔ انکی کنیت ابو جعفر تھی کہ جو باقر کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کیونکہ انھوں نے علم میں شگاف ایجاد کیا تھا، اس لیے وہ مختلف علوم سے آگاہی رکھتے تھے اور برزگ تابعین میں سے تھے۔

(العيني الغيتابي الحنفي، بدر الدين ابومحمد محمود بن أحمد (متوفي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 3 ص 52 ، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.)

اس نے اسی طرح اپنی کتاب مغانی الأخيار میں ایسے لکھا ہے کہ:

محمد بن على بن الإمام الحسين بن على بن أبى طالب الإمام: أبو جعفر الباقر، عليه السلام، ثقة، فاضل.

امام محمد بن على بن إمام حسين بن على بن أبى طالب ہیں کہ جنکی کنیت ابو جعفر باقر عليہ السلام تھی، وہ ایک قابل اعتماد اور با فضیلت انسان تھے۔

(العينى، أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين (متوفى855هـ) ،‌ مغانى الأخيار، ج 6 ص 62 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.)

ابن حجر ہيثمی (متوفی 973 ہجری):

ابن حجر ہيثمي متعصب نے بھی امام باقر (ع) کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

أبو جعفر محمد الباقر سمي بذلك من بقر الأرض أي شقها وأثار مخبئاتها ومكامنها فكذلك هو أظهر من مخبئات كنوز المعارف وحقائق الأحكام والحكم واللطائف ما لا يخفى إلا على منطمس البصيرة أو فاسد الطوية السريرة ومن ثم قيل فيه هو باقر العلم وجامعه وشاهر علمه وعمرت أوقاته بطاعة الله وله من الرسوخ في مقامات العارفين ما تكل عنه ألسنة الواصفين وله كلمات كثيرة في السلوك والمعارف لا تحتملها هذه العجالة وكفاه شرفا أن ابن المديني روى عن جابر أنه قال له وهو صغير رسول الله صلى الله عليه وسلم يسلم عليك فقيل له وكيف ذاك قال كنت جالسا عنده والحسين في حجره وهو يداعبه فقال: يا جابر يولد له مولود اسمه علي إذا كان يوم القيامة نادى مناد ليقم سيد العابدين فيقوم ولده ثم يولد له ولد اسمه محمد فإن أدركته يا جابر فأقرئه مني السلام.

ابو جعفر کے لیے باقر کا لقب انتخاب کیا گیا تھا، کہ جسکا معنی زمین کو پھاڑ کر اس کے مخفی خزانے کو باہر نکالنا ہے، انکو اس وجہ سے باقر کہا گیا ہے کہ کیونکہ انھوں نے معارف اور احکام کے پوشیدہ خزانوں کو اس طرح سے ظاہر کیا ہے کہ ہر با ضمیر و با بصیرت انسان کو معلوم ہے، اسی وجہ سے انکو باقر العلوم بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انکے لیے ایسے عرفانی مراحل و مقامات بھی ثابت ہیں کہ جنکو بیان کرنے والے بیان کرنے سے عاجز ہیں۔

انکی عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ: ابن مدینی نے جابر سے نقل کیا ہے کہ، اس نے امام باقر کو بچپن کی حالت میں کہا کہ: رسول خدا نے آپکو سلام کہا ہے۔ امام نے فرمایا کہ وہ کیسے ؟  اس نے کہا کہ: سرور کائنات ایک دن اپنی آغوش مبارک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے پیار کر رہے تھے ناگاہ آپ کے صحابی خاص جابر بن عبد اللہ انصاری حاضر ہوئے حضرت نے جابرکو دیکھ کر فرمایا، اے جابر! میرے اس فرزند کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا جو علم و حکمت سے بھرپور ہو گا، قیامت کے دن ایک منادی نداء دے گا کہ : زین العابدین کھڑا ہو جائے، تو اس پر میرے بیٹے حسین کا بیٹا یعنی امام باقر کھڑے ہوں گے، اے جابر تم اس کا زمانہ پاؤ گے،اور اس وقت تک زندہ رہو گے جب تک وہ سطح ارض پر آ نہ جائے۔  اے جابر! دیکھو، جب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہہ دینا۔

(الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 586 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.)

شعرانی (متوفی 973 ہجری):

اس نے بھی ان لوگوں کے بارے میں کہ جو قرآن و سنت کی پیروی کیا کرتے تھے، لکھتے ہوئے، انکے ضمن میں امام باقر (ع) کو بھی ذکر کرتے ہوئے، ایسے لکھا ہے کہ:

ومنهم أبو جعفر محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أجمعين قال الثوري رحمه الله تعالى ، سمي بالباقر لأنه ؛ بقر العلم أي شقه ، فعرف أصله وعرف خفيه.

ان میں سے، ابو جعفر محمد باقر بن علی زين العابدين بن الحسين بن علی بن أبی طالب ہیں۔ ثوری نے کہا ہے کہ: انکا نام باقر رکھا گیا، کیونکہ انھوں نے علوم کو وسعت عطاء کی تھی اور وہ اصل علوم کے ظاہر و باطن سے آشنا تھے۔

(الشعراني، أبو المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علي المعروف بالشعراني (متوفي 973هـ)، الطبقات الكبرى المسماة بلواقح الأنوار في طبقات الأخيار، ج 1 ص 49 ، تحقيق: خليل المنصور، دار النشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى1418هـ-1997م.)

متقی ہندی (متوفی 975 ہجری):

متقی ہندی نے بھی امام باقر العلوم (ع) کی جلالت و عظمت کو ایسے بیان کیا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين هو الإمام الجليل الهاشمي المدني أبو جعفر الباقر.

محمد بن علی بن حسين، وہ عظیم مرتبہ امام تھے کہ جو بنی ہاشم سے اور اہل مدینہ تھے اور انکی کنیت ابو جعفر باقر تھی۔

(الهندي، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين (متوفى975هـ)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج 14 ص 14 ح 37859 ، تحقيق: محمود عمر الدمياطي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.)

ابن عماد حنبلی(متوفى1089ہجری):

ابن عماد حنبلی نے تاریخ اسلام کے سن 114 ہجری کے حوادث کو نقل کرتے ہوئے، لکھا ہے کہ:

وفيها توفي السيد أبو جعفر محمد الباقر بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ولد سنة ست وخمسين من الهجرة ... وكان من فقهاء المدينة وقيل له الباقر لأنه بقر العلم أي شقه وعرف أصله وخفيه وتوسع فيه.

اس سال میں ابو جعفر باقر محمد بن زين العابدين على بن الحسين بن على بن ابى طالب نے وفات پائی۔ وہ سن 56 ہجری کو دنیا میں آئے تھے۔ وہ مدینہ کے فقہاء میں سے تھے کہ جنکو باقر کہا جاتا تھا، کیونکہ انھوں نے مختلف علوم میں شگاف ایجاد کیا تھا اور وہ تمام علوم کی اصل اور علوم مخفی سے کامل طور پر آشنائی رکھتے تھے، اس لیے کہ انھوں نے خود علوم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 149 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير - دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.)

نتيجہ:

آئمہ اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کہ جو اس زمین پر خداوند کی مخلوقات پر خلیفہ اور جانشین ہیں، اور حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن کریم کے برابر و مساوی ہیں، کی معرفت فقط و فقط علم و معرفت اور باطنی طہارت کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ اس تحریر میں ہم نے فقط اہل سنت کے چند علماء کے اقوال کو امام باقر (ع) کے بارے میں ذکر و نقل کیے ہیں، انکی شخصیت کے بارے میں علمائے شیعہ اور اہل سنت نے بہت سی کتب تحریر کیں ہیں۔ فضیلت اور کمال وہ ہوتا ہے کہ جسکا غیر بھی اعتراف کریں، ورنہ ہر چاہنے والا اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہی ہے۔ نور محمد و آل محمد (ع) ایسا نور ہے کہ جو ہر پاک و با غیرت انسان کے باطن کو نورانی کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال سے اس نور کو ہر ممکن طریقے سے ختم و کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن فقط اس نور الہی کی طہارت و  عظمت تھی کہ جو آج تک اور قیامت تک باقی رہے گا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک