روزے کے احکام
روزے کے احکام
(شریعت اسلام میں )روزے سے مرادہے خداوندعالم کی رضا اوراظہار بندگی کے لئے انسان اذان صبح سے مغرب تک آٹھ چیزوں سے جوبعدمیں بیان کی جائیں گی پرہیز کرے۔
نیت
مسئلہ (۱۵۲۹)انسان کے لئے روزے کی نیت کا دل سے گزارنامثلاً یہ کہناکہ: ’’میں کل روزہ رکھوں گا‘‘ ضروری نہیں بلکہ اس کاارادہ کرناکافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اذان صبح سے مغرب تک کوئی ایسا کام نہیں کرے گاجس سے روزہ باطل ہوتاہو اوراس یقین کوحاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ دیراذان صبح سے پہلے اورکچھ دیرمغرب کے بعدبھی ایسے کام کرنے سے پرہیزکرے جن سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۳۰)انسان ماہ رمضان المبارک کی ہررات کواس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کرسکتاہے ۔
مسئلہ (۱۵۳۱)وہ شخص جس کاروزہ رکھنے کاارادہ ہواس کے لئے ماہ رمضان میں روزے کی نیت کا آخری وقت ہنگام اذان صبح ہے یعنی احتیاط واجب کی بنا پر ہنگام اذان صبح روز ہ باطل کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا روزہ کی نیت کے ہمراہ ہو اگرچہ اس کے دل میں یہ بات نہ ہو۔
مسئلہ (۱۵۳۲)جس شخص نے ایساکوئی کام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرے تووہ جس وقت بھی دن میں مستحب روزے کی نیت کرلے اگرچہ مغرب ہونے میں کم وقت ہی رہ گیاہو،اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۳)جوشخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں اوراسی طرح واجب روزوں میں جن کے دن معین ہیں روزے کی نیت کئے بغیراذان صبح سے پہلے سوجائے اگروہ ظہر سے پہلے بیدارہوجائے اورروزے کی نیت کرے تواس کاروزہ صحیح ہے اور اگروہ ظہر کے بعدبیدارہوتواحتیاط کی بناپربقیہ روزہ کو قربت مطلقہ کی نیت سے ضروری ہے کہ امساک کرےاوراس دن کے روزے کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۴)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا روزہ رکھناچاہے تو ضروری ہے کہ روزے کومعین کرے مثلاً نیت کرے کہ میں قضاکایا کفارے کاروزہ رکھ رہاہوں لیکن ماہ رمضان المبارک میں یہ نیت کرنا ضروری نہیں کہ ماہ رمضان کاروزہ رکھ رہاہوں بلکہ اگرکسی کوعلم نہ ہویابھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اورکسی دوسرے روزے کی نیت کرلے تب بھی وہ روزہ ماہ رمضان کاروزہ شمارہوگا اور نذر وغیرہ کے روزہ میں نذر کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۵)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ رمضان کامہینہ ہے اورجان بوجھ کرماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تووہ روزہ جس کی اس نے نیت کی ہے وہ روزہ شمارنہیں ہوگااور اسی طرح ماہ رمضان کاروزہ بھی شمارنہیں ہوگا اگر وہ نیت قصدقربت کے منافی ہے بلکہ اگرمنافی نہ ہو تب بھی( احتیاط کی بناپر)وہ روزہ ماہ رمضان کاروزہ شمارنہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۵۳۶)مثال کے طورپراگرکوئی شخص رمضان المبارک کے پہلے روزے کی نیت کرے لیکن بعدمیں معلوم ہوکہ یہ دوسرایاتیسراروزہ تھاتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۷)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرنے کے بعد بے ہوش ہوجائے اورپھراسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تو(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ تمام کرے اور اگرتمام نہ کرسکے تواس کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۸)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اورپھر بے حواس ہوجائے اورپھراسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اوراس کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۹)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اورسوجائے اورمغرب کے بعدبیدارہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۰)اگرکسی شخص کوعلم نہ ہویابھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اور ظہرسے پہلے اس امر کی جانب متوجہ ہواوراس دوران کوئی ایساکام کرچکاہوجوروزے کوباطل کرتا ہے تواس کاروزہ باطل ہوگالیکن ضروری ہے کہ پھر مغرب تک کوئی ایساکام نہ کرے جو روزے کوباطل کرتاہواورماہ رمضان کے بعدروزے کی قضابھی کرے اوراگرظہر کے بعد متوجہ ہوکہ رمضان کامہینہ ہے تو(احتیاط واجب کی بناپر)رجاءً روزے کی نیت کرے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اوراگر ظہرسے پہلے متوجہ ہواور کوئی ایساکام بھی نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہوتوضروری ہے کہ روزہ کی نیت کرے اوراس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۱)اگرماہ رمضان میں بچہ اذان صبح سے پہلے بالغ ہوجائے توضروری ہے کہ روزہ رکھے اوراگر اذان صبح کے بعدبالغ ہوتواس دن کا روزہ اس پرواجب نہیں ہے۔ لیکن اگرمستحب روزہ رکھنے کاارادہ کرلیاہوتواس صورت میں احتیاط مستحب کی بناپراس دن کے روزے کوپوراکرے۔
مسئلہ (۱۵۴۲)جوشخص میت کے روزے رکھنے کے لئے اجیربناہویااس کے ذمہ کفارے کے روزے ہوں اگروہ مستحب روزے رکھے توکوئی حرج نہیں لیکن اگرقضا روزے کسی کے ذمہ ہوں تووہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتااوراگربھول کرمستحب روزہ رکھ لے تواس صورت میں اگراسے ظہرسے پہلے یادآجائے تواس کامستحب روزہ کالعدم ہو جاتاہے اوروہ اپنی نیت قضا روزے کی جانب موڑسکتاہے اور اگروہ ظہر کے بعدمتوجہ ہو تو(احتیاط کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہے اوراگراسے مغرب کے بعدیادآئے تواس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۳)اگرماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرامخصوص روزہ انسان پر واجب ہومثلاًاس نے منت مانی ہوکہ ایک مقرر دن کوروزہ رکھے گااورجان بوجھ کر اذان صبح تک نیت نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے اوراگراسے معلوم نہ ہوکہ اس دن کاروزہ اس پر واجب ہے یابھول جائے اورظہرسے پہلے اسے یاد آئے تواگراس نے کوئی ایساکام نہ کیا ہوجوروزے کوباطل کرتاہواورروزے کی نیت کرلے تواس کاروزہ صحیح ہے اور اگرظہر کے بعداسے یادآئے توماہ رمضان کے روزے میں جس احتیاط کاذکر کیا گیاہے اس کاخیال رکھے گا۔
مسئلہ (۱۵۴۴)اگرکوئی شخص کسی غیرمعین واجب روزے کے لئے مثلاً روزئہ کفارہ کے لئے ظہرکے نزدیک تک عمداًنیت نہ کرے توکوئی حرج نہیں بلکہ اگرنیت سے پہلے مصمم ارادہ رکھتاہوکہ روزہ نہیں رکھے گایامذبذب ہوکہ روزہ رکھے یانہ رکھے تواگر اس نے کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہواورظہر سے پہلے روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۵)اگرکوئی کافرماہ رمضان میں ظہرسے پہلے مسلمان ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہوتو(احتیاط واجب کی بنا پر)ضروری ہے کہ’’ ما فی الذمہ‘‘ کے روزہ کی نیت سے دن کے آخر تک امساک کرے اور اگراس دن کاروزہ نہ رکھے تواس کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۴۶)اگرکوئی بیمارشخص ماہ رمضان کے کسی دن میں ظہرسے پہلے صحت مند ہوجائے اوراس نے اس وقت تک کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہو تو (احتیاط واجب کی بناء پر) نیت کرکے اس دن کاروزہ رکھناضروری ہے اور اگرظہر کے بعدصحت مند ہوتواس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۵۴۷)جس کے بارے میں انسان کوشک ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ، اس دن کا روزہ رکھنااس پرواجب نہیں ہے اوراگرروزہ رکھنا چاہے تورمضان المبارک کے روزے کی نیت نہیں کرسکتالیکن نیت کرے کہ اگررمضان ہے تورمضان کاروزہ ہے اوراگررمضان نہیں ہے توقضاروزہ یااسی جیساکوئی اورروزہ ہے توبعیدنہیں کہ اس کاروزہ صحیح ہولیکن بہتریہ ہے کہ قضا روزے وغیرہ کی نیت کرے اور اگر بعدمیں پتا چلے کہ ماہ رمضان تھاتورمضان کاروزہ شمارہوگالیکن اگر نیت صرف روزے کی کرے اوربعدمیں معلوم ہوکہ رمضان تھاتب بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۸)اگرکسی دن کے بارے میں انسان کوشک ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تووہ قضایامستحب یاایسے ہی کسی اورروزے کی نیت کرکے روزے رکھ لے اور دن میں کسی وقت اسے پتا چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرلے۔
مسئلہ (۱۵۴۹)اگرکسی معین واجب روزے کے بارے میں مثلاً رمضان المبارک کے روزے کے بارے میں انسان مذبذب ہوکہ اپنے روزے کوباطل کرے یانہ کرے یا روزے کوباطل کرنے کاقصدکرےاگر دوسری مرتبہ روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر دوسری مرتبہ روزہ کی نیت کرے تو احتیاط واجب یہ ہےکہ اس دن کے روزہ کو پورا کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۵۰)اگرکوئی شخص جومستحب روزہ یاایساواجب روزہ مثلاً کفارے کا روزہ رکھے ہوئے ہوجس کاوقت معین نہ ہوکسی ایسے کام کاقصدکرے جوروزے کوباطل کرتا ہو یا مذبذب ہوکہ کوئی ایساکام کرے یانہ کرے تواگروہ کوئی ایساکام نہ کرے اورواجب روزے میں ظہر سے پہلے اورمستحب روزے میں غروب سے پہلے دوبارہ روزے کی نیت کرلے تواس کاروزہ صحیح ہے۔
وہ چیزیں جوروزے کوباطل کرتی ہیں :
مسئلہ (۱۵۵۱)آٹھ چیزیں روزے کوباطل کردیتی ہیں :
۱:)کھانااورپینا۔
۲:)جماع کرنا۔
۳:)استمناء۔ یعنی انسان اپنے ساتھ یاکسی دوسرے کے ساتھ جماع کے علاوہ کوئی ایسافعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج ہو اور عورت کےسلسلہ میں اس مسئلہ کا پیش آنااس طرح ہے جو مسئلہ (۳۴۵ )میں بیان کیا گیا ہے۔
۴:)اللہ تعالیٰ،پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورائمہ طاہرین علیہم السلام سے احتیاط واجب کی بناء پر کوئی جھوٹی چیز منسوب کرنا۔
۵:)احتیاط واجب کی بناء پر غلیظ غبار حلق تک پہنچانا۔(جیسے آٹا)
۶:)اذان صبح تک جنابت، حیض اورنفاس کی حالت میں رہنا۔
۷:)کسی سیال چیزسے حقنہ(انیما) کرنا۔
۸:)عمداًقے کرنا۔
ان مبطلات کے تفصیلی احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
۱ - کھانااورپینا
مسئلہ (۱۵۵۲)اگرروزہ داراس امر کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے کوئی چیزجان بوجھ کر کھائے یاپئے تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اس سے قطع نظر کہ وہ چیزایسی ہوجسے عموماً کھایایاپیاجاتاہومثلاً روٹی اورپانی یاایسی ہوجسے عموماً کھایایاپیانہ جاتا ہو مثلاً مٹی اوردرخت کاشیرہ اور خواہ کم ہویازیادہ حتیٰ کہ اگرروزہ دارمسواک منہ سے نکالے اوردوبارہ منہ میں لے جائے اوراس کی تری نگل لے تب بھی روزہ باطل ہوجاتاہے سوائے اس صورت میں جب مسواک کی تری لعاب دہن میں گھل مل کراس طرح ختم ہو جائے کہ اسے بیرونی تری نہ کہاجاسکے۔
مسئلہ (۱۵۵۳)جب روزہ دار کھاناکھارہاہواگراسے معلوم ہوجائے کہ صبح ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ منہ کے لقمہ کو اگل دے اوراگرجان بوجھ کروہ لقمہ نگل لے تواس کا روزہ باطل ہے اور اس حکم کے مطابق جس کا ذکربعدمیں ہوگااس پرکفارہ بھی واجب ہے۔
مسئلہ (۱۵۵۴)اگرروزہ دارغلطی سے کوئی چیزکھالے یاپی لے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۵۵)انجکشن اور سرنج لگانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے چاہے انجکشن طاقت کےلئے یا گلوکوز اضافہ کرنے کےلئےہو اور اسی طرح وہ اسپرے جو سانس لینے میں تکلیف کےلئے استعمال ہوتا ہےاگر یہ دوا کو صرف سانس کی نالی میں پہونچائے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح آنکھ اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا اگر اس دوا کا ذائقہ گلے تک پہونچ جائے اور اگر ناک میں دوا ڈالی جائے تو اگر وہ حلق تک نہ پہونچے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۵۶)اگرروزہ دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیزعمداً نگل لے تو اس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۵۷)جوشخص روزہ رکھناچاہتاہواس کے لئے اذان صبح سے پہلے دانتوں میں خلال کرناضروری نہیں ہے لیکن اگراسے علم ہوکہ جوغذادانتوں کےدرمیان میں رہ گئی ہے وہ دن کے وقت پیٹ میں چلی جائے گی توخلال کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۵۵۸)منہ کاپانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتاخواہ ترشی وغیرہ کے تصور سے ہی منہ میں پانی بھرآیاہو۔
مسئلہ (۱۵۵۹)سراورسینے کابلغم جب تک منہ کے اندروالے حصہ تک نہ پہنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگروہ منہ میں آجائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے تھوک دے ۔
مسئلہ (۱۵۶۰)اگرروزہ دارکواتنی پیاس لگے کہ اسے مرجانے کاخوف ہوجائے یا اسے نقصان کااندیشہ ہویااتنی سختی اٹھاناپڑھے جواس کے لئے ناقابل برداشت ہوتواتنا پانی پی سکتاہے کہ ان امورکاخوف ختم ہوجائے لیکن اس کاروزہ باطل ہوجائے گااوراگر ماہ رمضان ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے کہ اس سے زیادہ پانی نہ پیئے اوردن کے باقی حصے میں وہ کام کرنے سے پرہیز کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۶۱)بچے یاپرندے کوکھلانے کے لئے غذاکاچبانایاغذاکاچکھنااوراسی طرح کے کام کرناجس میں غذا عموماً حلق تک نہیں پہنچتی خواہ وہ اتفاقاً حلق تک پہنچ جائے توروزے کوباطل نہیں کرتی۔لیکن اگرانسان شروع سے جانتاہو کہ یہ غذاحلق تک پہنچ جائے گی تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اورضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے اور کفارہ بھی اس پرواجب ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۲)انسان (معمولی) نقاہت کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑسکتالیکن اگر نقاہت اس حدتک ہوکہ عموماً برداشت نہ ہوسکے توپھرروزہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔
۲ - جماع
مسئلہ (۱۵۶۳)جماع روزے کوباطل کردیتاہے خواہ عضوتناسل سپاری تک ہی داخل ہواورمنی بھی خارج نہ ہو۔
مسئلہ (۱۵۶۴)اگرآلۂ تناسل سپاری سے کم داخل ہواورمنی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن جس شخص کی سپاری کٹی ہوئی ہواگروہ سپاری کی مقدار سے کم ترمقدار داخل کرے تواس کاروزہ بھی باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۵۶۵)اگرکوئی شخص عمداً جماع کاارادہ کرے اورپھرشک کرے کہ سپاری کے برابر دخول ہوا تھایانہیں تو اس مسئلہ کا حکم( ۱۵۴۹ )سے معلوم کیاجاسکتا ہے اور ہر صورت میں اگر کوئی ایساکام جو روزہ کو باطل کردیتا ہے انجام نہ دیا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۶)اگرکوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اورجماع کرے یا اسے جماع پراس طرح مجبورکیاجائے کہ اس کااختیار باقی نہ رہے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگاالبتہ اگرجماع کی حالت میں اسے یادآجائے کہ روزے سے ہے یامجبوری ختم ہو جائے توضروری ہے کہ فوراً جماع ترک کردے اوراگرایسانہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔
۳ - استمناء
مسئلہ (۱۵۶۷)اگرروزہ داراستمناء کرے (استمناء کے معنی مسئلہ ( ۱۵۵۱ )میں بتائے جا چکے ہیں ) تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۶۸)اگربے اختیار کسی کی منی خارج ہوجائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۹)اگرچہ روزہ دار کوعلم ہوکہ اگردن میں سوئے گاتواسے احتلام ہو جائے گا(یعنی سوتے میں اس کی منی خارج ہوجائے گی) تب بھی اس کے لئے سوناجائز ہے خواہ نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ بھی ہواوراگراسے احتلام ہوجائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۷۰)اگرروزہ دار منی خارج ہوتے وقت نیندسے بیدارہوجائے تواس پر یہ واجب نہیں کہ منی کونکلنے سے روکے۔
مسئلہ (۱۵۷۱)جس روزہ دارکواحتلام ہوگیاہوتووہ پیشاب کرسکتاہے خواہ اسے یہ علم ہوکہ پیشاب کرنے سے باقی ماندہ منی نلی سے باہر آجائے گی۔
مسئلہ (۱۵۷۲)جب روزے دار کواحتلام ہوجائے اگراسے معلوم ہوکہ منی نالی میں رہ گئی ہے اوراگر غسل سے پہلے پیشاب نہیں کرے گاتوغسل کے بعدمنی اس کے جسم سے خارج ہوگی تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے۔
مسئلہ (۱۵۷۳)جوشخص منی نکالنے کے ارادے سے چھیڑچھاڑاوردل لگی کرے اور اس کی منی خارج نہ ہوتو اگر دوبارہ روزہ کی نیت نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے اور اگر روزہ کی نیت کرے تو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ روزے کوتمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۷۴)اگرروزہ دار منی نکالنے کے ارادے کے بغیرمثال کے طورپراپنی بیوی سے چھیڑچھاڑاورہنسی مذاق کرے اور اسے اطمینان ہوکہ منی خارج نہیں ہوگی تو اگرچہ اتفاقاً منی خارج ہوجائےتو اس کاروزہ صحیح ہے۔ البتہ اگراسے اطمینان نہ ہوتواس صورت میں جب منی خارج ہوگی تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔
۴ - خدا،رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام پربہتان باندھنا
مسئلہ (۱۵۷۵)اگرروزہ دارزبان سے یالکھ کریااشارے سے یاکسی اور طریقے سے اللہ تعالیٰ یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ علیہم السلام میں سے کسی سے جان بوجھ کرکوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو(اگرچہ وہ فوراً کہہ دے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یا توبہ کرلے) تب بھی (احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہے اور(احتیاط مستحب کی بناپر) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اورتمام انبیاء و مرسلین ؑ اوران کے جانشینوں سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب کرنے کایہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۵۷۶)اگر (روزہ دار) کوئی ایسی روایت نقل کرناچاہے جس کے قطعی ہونے کی دلیل نہ ہواور اس کے بارے میں اسے یہ علم نہ ہوکہ سچ ہے یاجھوٹ تو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ جس شخص سے وہ روایت ہویاجس کتاب میں لکھی دیکھی ہو اس کاحوالہ دےاور اسے براہ راست پیغمبر اور ائمہ کی جانب نسبت نہ دے۔
مسئلہ (۱۵۷۷)اگرکوئی شخص کسی قول کے بارے میں اعتقاد رکھتاہوکہ وہ واقعی قول خدایاقول پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اوراسے اللہ تعالیٰ یاپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسوب کرے اور بعدمیں معلوم ہوکہ یہ نسبت صحیح نہیں تھی تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۵۷۸)اگرروزے دارکسی چیزکے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ جھوٹ ہے اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسوب کرے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ جو کچھ اس نے کہاتھاوہ درست تھا اور جانتا تھا کہ یہ عمل روزہ کو باطل کردیتا ہےتو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ روزے کوتمام کرے اوراس کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۷۹)اگرروزے دارکسی ایسے جھوٹ کوخودجوروزے دارنے نہیں بلکہ کسی دوسرے نے گڑھاہوجان بوجھ کراللہ تعالیٰ یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یاآپ کےبرحق جانشینوں سے منسوب کردے تو(احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجائے گا لیکن اگر جس نے جھوٹ گڑھاہواس کاقول نقل کرے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۵۸۰)اگرروزے دارسے سوال کیاجائے کہ کیارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا فرمایاہے اوروہ عمداً جہاں جواب نہیں دیناچاہئے وہاں اثبات میں دے اور جہاں اثبات میں دیناچاہئے وہاں عمداً نفی میں دے تو(احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجاتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۸۱)اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ یارسول کریم ر کاقول درست نقل کرے اوربعدمیں کہے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یارات کوکوئی جھوٹی بات ان سے منسوب کرے اور دوسرے دن جب کہ روزہ رکھاہواہوکہے کہ جوکچھ میں نے گزشتہ رات کہا تھا وہ درست ہے(احتیاط کی بناپر) تواس کا روزہ باطل ہوجاتاہے لیکن اگروہ روایت کےصحیح یاغلط ہونے کے بارے میں بتائےتواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
۵ - غبارکوحلق تک پہنچانا
مسئلہ (۱۵۸۲)احتیاط واجب کی بناپرکثیف غبارکاحلق تک پہنچاناروزے کوباطل کر دیتاہے خواہ غبارکسی ایسی چیزکاہوجس کاکھاناحلال ہومثلاً آٹایاکسی ایسی چیزکاہوجس کا کھاناحرام ہومثلاًمٹی۔
مسئلہ (۱۵۸۳) غیرکثیف غبارحلق تک پہنچانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۸۴)اگرہواکی وجہ سے کثیف غبارپیداہواورانسان متوجہ ہونے اور احتیاط کرسکنے کے باوجود احتیاط نہ کرے اورغبار اس کے حلق تک پہنچ جائے تو(احتیاط واجب کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۸۵)احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سگریٹ اورتمباکووغیرہ کادھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے۔
مسئلہ (۱۵۸۶)اگرانسان احتیاط نہ کرے اورغبار یادھواں وغیرہ حلق میں چلاجائے تواگراسے یقین یا اطمینان تھاکہ یہ چیزیں حلق میں نہ پہنچیں گی تواس کاروزہ صحیح ہے لیکن اگر اسے گمان تھاکہ یہ حلق تک نہیں پہنچیں گی توبہتریہ ہے کہ اس روزے کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۸۷)اگرکوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے احتیاط نہ کرے یا بے اختیار غبار وغیرہ اس کے حلق میں پہنچ جائے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۸۸)پورا سرپانی میں ڈبو نے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے لیکن شدید مکروہ ہے۔
۶ - اذان صبح تک جنابت،حیض اور نفاس کی حالت میں رہنا
مسئلہ (۱۵۸۹)اگرمجنب شخص ماہ رمضان المبارک میں جان بوجھ کراذان صبح تک غسل نہ کرےیاجس کا وظیفہ تیمم ہو اور وہ تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ پورا کرے پھر ایک دن اور روزہ رکھے اور چونکہ یہ طے نہیں ہے کہ دوسرا روزہ قضا ہے یا سزا، لہٰذا رمضان کے اس دن کاروزہ بھی’’ ما فی الذمہ‘‘ کی نیت سے رکھے اور رمضان کے بعد بھی جس دن روزہ رکھے اس میں قضا کی نیت نہ کرے۔
مسئلہ (۱۵۹۰)اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے قضا روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ صبح کی اذان تک مجنب رہے تو اگر اس کا اس حالت میں رہنا عمداً ہوتواس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر عمداً نہ ہوتو روزہ رکھ سکتا ہے اگر چہ احتیاط یہ ہےکہ روزہ نہ رکھے۔
مسئلہ (۱۵۹۱)ماہ رمضان المبارک کا روزہ اور اس کی قضا کےعلاوہ (دوسرے واجب و مستحب روزوں کی قسموں ) میں اگرجنب جان بوجھ کر اذان صبح تک حالت جنابت پر باقی رہے تو اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۲)اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں مجنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے حتیٰ کہ وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور روزہ رکھے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۳)اگرجنب شخص ماہ رمضان میں غسل کرنابھول جائے اورایک دن کے بعداسے یادآئے توضروری ہے کہ اس دن کاروزہ قضاکرے اوراگرچنددنوں کے بعد یادآئے تواتنے دنوں کے روزوں کی قضاکرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ جنب تھامثلاً اگراسے یہ علم نہ ہوکہ تین دن جنب رہایاچاردن توضروری ہے کہ تین دنوں کے روزوں کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۵۹۴)اگرایک ایساشخص اپنے آپ کوجنب کرلے جس کے پاس ماہ رمضان کی رات میں غسل اورتیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تواس کاروزہ باطل ہے اوراس پرقضااورکفارہ دونوں واجب ہیں ۔
مسئلہ (۱۵۹۵)اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ اس کے پاس غسل کے لئے وقت نہیں ہے اوراپنے آپ کو جنب کرلے اور تیمم کرے یا یہ جانتا ہے کہ وقت ہے لیکن عمداً غسل کرنے میں تاخیر کرے حتی کہ وقت تنگ ہوجائے اور تیمم کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اگر چہ وہ گنہگار ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۶)جوشخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواور جانتاہوکہ اگرسوئے گا توصبح تک بیدار نہ ہوگا (احتیاط واجب کی بنا پر)اسے بغیر غسل کئے نہیں سوناچاہئے اور اگر وہ غسل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے سوجائے اور صبح تک بیدارنہ ہوتوضروری ہے کہ اس دن کا روزہ مکمل کرے اور قضااور کفارہ دونوں اس پرواجب ہیں ۔
مسئلہ (۱۵۹۷)جب جنب ماہ رمضان کی رات میں سوکرجاگ اٹھے تو اگرچہ اس بات کااحتمال ہوکہ اگر دوبارہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گا تو وہ سوسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۸)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوریقین اور اطمینان رکھتا ہو کہ اگرسوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوراس کامصمم ارادہ ہوکہ بیدار ہونے کے بعدغسل کرے گااوراس ارادے کے ساتھ سوجائے اوراذان تک سوتا رہے تو اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۹)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوراسےاطمینان نہ ہوکہ اگرسوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوروہ اس بات سے غافل ہو کہ بیدارہونے کے بعداس پرغسل کرناضروری ہے تواس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اورصبح کی اذان تک سویارہے (احتیاط کی بناپر) اس پرقضا واجب ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۰)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوراسے یقین ہو یااحتمال اس بات کاہوکہ اگروہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوروہ بیدار ہونے کے بعدغسل نہ کرناچاہتا ہوتواس صورت میں جب کہ وہ سوجائے اوربیدار نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن کے روزہ کو مکمل کرےاورقضااورکفارہ اس کے لئے لازم ہے اور اسی طرح اگربیدار ہونے کے بعداسے ترددہوکہ غسل کرے یانہ کرے تو (احتیاط لازم کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۱)اگرجنب شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں سوکرجاگ اٹھے اوراسے یقین ہویااس بات کااحتمال ہوکہ اگردوبارہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ مصمم ارادہ بھی رکھتاہو کہ بیدار ہونے کے بعدغسل کرے گااوردوبارہ سوجائے اور اذان تک بیدارنہ ہوتوضروری ہے کہ اس دن کاروزہ قضاکرے اور اگر دوسری نیند سے بیدارہوجائے اورتیسری دفعہ سوجائے اورصبح کی اذان تک بیدارنہ ہوتو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور(احتیاط مستحب کی بناپر)کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۰۲)وہ نیند جس میں انسان کو احتلام ہوا ہے پہلی نیند شمار کی جائے گی اب اگر جاگنے کے بعد دوبارہ سوجائے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہو جیسا اس کے قبل مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے تو ضروری ہےکہ اس دن کےروزے کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۶۰۳)اگرکسی روزہ دار کودن میں احتلام ہوجائے تواس پرفوراًغسل کرنا واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۰۴)اگرکوئی شخص ماہ رمضان میں صبح کی اذان کے بعدجاگے اوریہ دیکھے کہ اسے احتلام ہوگیاہے تواگرچہ اسے معلوم ہوکہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہواہے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۵)جوشخص رمضان المبارک کے قضاروزے رکھناچاہتاہواگروہ صبح کی اذان کے بعدبیدار ہواوردیکھے کہ اسے احتلام ہوگیاہے اورجانتاہوکہ یہ احتلام اسے صبح کی اذان سے پہلے ہواہے تو وہ شخص اس دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزہ رکھ سکتاہے۔
مسئلہ (۱۶۰۶)اگررمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اورعمداً غسل نہ کرے اور اگر اس کا وظیفہ تیمم ہو اور تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ مکمل کرےاور اس دن کےروزے کی قضا بھی بجالائے اور ماہ رمضان کے روزوں کی قضا میں اگر عمداً غسل اور تیمم کو ترک کردے تو( احتیاط واجب کی بنا پر) اس دن کا رو زہ نہیں رکھ سکتی۔
مسئلہ (۱۶۰۷) وہ عورت جو ماہ رمضان المبارک کی شب میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے اگر عمداً غسل نہ کرے حتی وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۸)اگرکوئی عورت ماہ رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورغسل کے لئے وقت نہ ہوتوضروری ہے کہ تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدارہناضروری نہیں ہے۔جس جنب شخص کاوظیفہ تیمم ہواس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۹)اگرکوئی عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے نزدیک حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورغسل یاتیمم کسی کے لئے وقت باقی نہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۰)اگرکوئی عورت صبح کی اذان کے بعدحیض یانفاس کے خون سے پاک ہوجائے یادن میں اسے حیض یانفاس کاخون آجائے تواگرچہ یہ خون مغرب کے قریب ہی کیوں نہ آئے اس کاروزہ باطل ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۱)اگرعورت حیض یانفاس کاغسل کرنابھول جائے اوراسے ایک دن یا کئی دن کے بعدیاد آئے توجوروزے اس نے رکھے ہوں وہ صحیح ہیں ۔
مسئلہ (۱۶۱۲)اگرعورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اورغسل کرنے میں کوتاہی کرے اورصبح کی اذان تک غسل نہ کرے اوروقت تنگ ہونے کی صورت میں تیمم بھی نہ کرے تو( جیسا کہ گذر چکا ہے) اس دن کےروزے کو مکمل کرے اور قضا بھی بجالائے لیکن اگرکوتاہی نہ کرے مثلاً منتظرہوکہ زنانہ حمام میسرآجائے خواہ اس مدت میں وہ تین دفعہ سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اورتیمم کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرے تواس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۳)جوعورت استحاضۂ کثیرہ کی حالت میں ہواگروہ اپنے غسلوں کواس تفصیل کے ساتھ نہ بجالائے جس کاذکرمسئلہ ( ۳۹۴) میں کیاگیاہے تواس کاروزہ صحیح ہے۔اسی طرح استحاضۂ متوسطہ میں اگرچہ عورت غسل نہ بھی کرے، اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۴)جس شخص نے میت کومس کیاہو(یعنی اپنے بدن کاکوئی حصہ میت کے بدن سے چھوا ہو)وہ غسل مس میت کے بغیر روزہ رکھ سکتاہے اوراگرروزے کی حالت میں بھی میت کومس کرے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
۷ - حقنہ لینا[6]
مسئلہ (۱۶۱۵)سیال چیزسے حقنہ (انیما) اگرچہ بہ امرمجبوری اورعلاج کی غرض سے لیاجائے روزے کو باطل کردیتاہے۔
۸ - قے کرنا
مسئلہ (۱۶۱۶)اگرروزہ دارجان بوجھ کرقے کرے تواگرچہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایساکرنے پرمجبور ہواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے لیکن اگرسہواًیابے اختیارہوکرقے کرے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۱۷)اگرکوئی شخص رات کو ایسی چیزکھالے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کے کھانے کی وجہ سے دن میں بے اختیار قے آئے گی تو اس دن کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۸)اگرروزہ دارقے روک سکتاہواگریہ قے اپنے آپ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ اسے روکے۔
مسئلہ (۱۶۱۹)اگرروزے دارکے حلق میں مکھی چلی جائے چنانچہ وہ اس حدتک اندر چلی گئی ہوکہ اس کے نیچے لے جانے کونگلنانہ کہاجائے توضروری نہیں کہ اسے باہر نکالاجائے اوراس کاروزہ صحیح ہے لیکن اگر مکھی کافی حدتک اندرنہ گئی ہوتوضروری ہے کہ باہرنکالے اگرچہ اسے قے کرکے ہی نکالناپڑے( مگریہ کہ قے کرنے میں روزہ دار کو ضرر اورشدیدتکلیف ہو)اوراگروہ قے نہ کرے اوراسے نگل لے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس کو قے کرکےباہر نکالے تب بھی اس کا روزہ باطل ہوجائےگا۔
مسئلہ (۱۶۲۰)اگرروزہ دار سہواًکوئی چیزنگل لے اوراس کے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے اسے یادآجائے کہ روزے سے ہے چنانچہ اس قدر نیچے چلی گئی ہو کہ اگر اسے معدہ تک لے جائے تو اسے کھانانہ کہاجائے تو اسےباہر نکالنا ضروری نہیں ہے اور اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۲۱)اگرکسی روزہ دارکویقین ہوکہ ڈکارلینے کی وجہ سے کوئی چیزاس کے حلق سے باہر آجائے گی چنانچہ ڈکار لینا اس طرح ہو کہ اس پر قے صادق آئے تو عمداً ڈکار نہیں لینا چاہیے لیکن اگر اسے ایسا یقین نہ ہوتوکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۲۲)اگرروزہ دارڈکارلے اورکوئی چیزاس کے حلق یامنہ میں آجائے تو ضروری ہے کہ اسے اگل دے اوراگروہ چیزبے اختیار پیٹ میں چلی جائے تواس کاروزہ صحیح ہے۔
ان چیزوں کے احکام جوروزے کوباطل کرتی ہیں
مسئلہ (۱۶۲۳)اگرانسان جان بوجھ کراوراختیارکے ساتھ کوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہوتواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اوراگرکوئی ایساکام جان بوجھ کرنہ کرے توپھراشکال نہیں لیکن اگرجنب سوجائے اوراس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ (۱۶۰۰) میں بیان کی گئی ہے صبح کی اذان تک غسل نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔ چنانچہ اگر انسان نہ جانتاہوکہ جوباتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے بعض روزے کوباطل کرتی ہیں اگر اس میں کوتاہی نہ کیا ہو اور مذبذب بھی نہ ہو یایہ کہ شرعی حجت پر اعتماد رکھتا ہواور کھانے پینے اورجماع کے علاوہ ان افعال میں سے کسی فعل کوانجام دے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۲۴)اگرروزہ دار سہواًکوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہواور اس خیال سے کہ اس کاروزہ باطل ہوگیاہے دوبارہ عمداً کوئی اورایساہی کام کرے توگذشتہ مسئلہ کاحکم اس شخص کےبارےمیں جاری ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۲۵)اگرکوئی چیززبردستی روزہ دارکے حلق میں انڈیل دی جائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگراسے مجبورکیاجائےکہ اپنے روزے کوکھانے پینے یا جماع سے توڑ دے مثلاً اسے کہاجائے کہ اگرتم غذا نہیں کھاؤ گے توہم تمہیں مالی یاجانی نقصان پہنچائیں گے اوروہ نقصان سے بچنے کے لئے اپنے آپ کچھ کھالے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گااور ان تین چیزوں کےعلاوہ بھی( احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ باطل ہوجائےگا۔
مسئلہ (۱۶۲۶)روزہ دارکوایسی جگہ نہیں جاناچاہئے جس کے بارے میں وہ جانتاہو کہ لوگ کوئی چیز اس کے حلق میں ڈال دیں گے یااسے روزہ توڑنے پرمجبورکریں کہ تم خوداپنا روزہ توڑدو اور اگر ایسی جگہ جائے یابہ امرمجبوری وہ خود کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہو تواس کا روزہ باطل ہوجاتاہے اوراگرکوئی چیز اس کے حلق میں انڈیل دیں تو(احتیاط لازم کی بنا پر)یہی حکم ہے۔
وہ چیزیں جوروزہ دار کے لئے مکروہ ہیں
مسئلہ (۱۶۲۷)روزہ دارکے لئے کچھ چیزیں مکروہ ہیں اوران میں سے بعض یہ ہیں :
۱:) آنکھ میں دواڈالنااورسرمہ لگاناجب کہ اس کامزہ یابوحلق میں پہنچے۔
۲:)ہرایساکام کرناجوکمزوری کاباعث ہومثلاًفصدکھلوانااورحمام جانا۔
۳:)ناک میں دوا ڈالنا اگریہ علم نہ ہوکہ حلق تک پہنچے گی اور اگریہ علم ہوکہ حلق تک پہنچے گی تواس کااستعمال جائزنہیں ہے۔
۴:)خوشبودارگھاس سونگھنا۔
۵:)عورت کاپانی میں بیٹھنا۔
۶:)شیاف استعمال کرنایعنی کسی خشک چیزسے انیمالینا۔
۷:)جولباس پہن رکھاہواسے ترکرنا۔
۸:)دانت نکلوانااورہروہ کام کرناجس کی وجہ سے منہ سے خون نکلے۔
۹:)ترلکڑی سے مسواک کرنا۔
۱۰:)بلاوجہ پانی یاکوئی اورسیال چیزمنہ میں ڈالنا۔
اوریہ بھی مکروہ ہے کہ منی نکالنے کے قصد کے بغیر انسان اپنی بیوی کابوسہ لے یا کوئی شہوت انگیزکام کرے ۔
ایسے مواقع جن میں روزہ کی قضا اورکفارہ واجب ہوجاتا ہے
مسئلہ (۱۶۲۸)اگرکوئی ماہ رمضان کے روزے کوکھانےیا پینے یاہم بستری یا استمناء یا جنابت پرباقی رہنے کی وجہ سے باطل کرے جب کہ جبراورناچاری کی بناپر نہیں بلکہ عمداً اور اختیاراًایساکیاہوتواس پرقضاکے علاوہ کفارہ بھی واجب ہوگااورجوکوئی مذکورہ امور کے علاوہ کسی اورطریقے سے روزہ باطل کرے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ قضاکے علاوہ کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۲۹)جن امورکاذکرکیاگیاہے اگرکوئی ان میں سے کسی فعل کوانجام دے جب کہ اسے پختہ یقین ہوکہ اس عمل سے اس کاروزہ باطل نہیں ہوگاتواس پرکفارہ واجب نہیں ہے اور یہی حکم ہے اس شخص کےلئے جونہیں جانتا کہ اس پر روزہ واجب ہے جیسے ابتدائے بلوغ میں بچے۔
روزے کاکفارہ
مسئلہ (۱۶۳۰)ماہ رمضان کاروزہ توڑنے کے کفارے کے طورپرضروری ہے کہ انسان ایک غلام آزاد کرے یا ان احکام کے مطابق جوآئندہ مسئلے میں بیان کئے جائیں گے دومہینے روزے رکھے یاساٹھ فقیروں کو پیٹ بھرکرکھاناکھلائے یاہرفقیرکوایک مدتقریباً ’’۷۵۰‘‘ گرام طعام( یعنی گندم یاجویاروٹی وغیرہ دے) اوراگریہ افعال انجام دینا اس کے لئے ممکن نہ ہوتوبقدرامکان صدقہ دیناضروری ہے اوراگریہ ممکن نہ ہو تو توبہ واستغفار کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جس وقت کفارہ دینے کے قابل ہوجائے کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۳۱)جوشخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طورپردوماہ روزے رکھناچاہے تو ضروری ہے کہ ایک پورامہینہ اوراس سے اگلے مہینے کے ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور احتیاط واجب کی بناء پرباقی روزے بھی ضروری ہے کہ پے در پے بجالائے لیکن اگر کوئی رکاوٹ پیش آجائے جسے عرف میں عذرکہا جائے تو وہ اس دن روزہ چھوڑ سکتا ہے اور پھر عذر ختم ہونے کے بعد دوبارہ روزہ جاری رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۲)جوشخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طورپردوماہ روزے رکھناچاہتاہے ضروری ہے کہ وہ روزے ایسے وقت نہ رکھے جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ ایک مہینے اورایک دن کے درمیان عیدقربان کی طرح کوئی ایسادن آجائے گاجس کا روزہ رکھناحرام ہے یا اس میں روزہ رکھناواجب ہے۔
مسئلہ (۱۶۳۳)جس شخص کومسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں وہ ان کے بیچ میں بغیر عذرکے ایک دن روزہ نہ رکھے توضروری ہے کہ دوبارہ ازسرنوروزے رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۴)اگران دنوں کے درمیان جن میں مسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں روزہ دار کوکوئی عذرپیش آجائے مثلاً حیض یانفاس یاایساسفرجسے اختیار کرنے پر وہ مجبورہوتوعذرکے دورہونے کے بعدروزوں کاازسرنورکھنااس کے لئے واجب نہیں بلکہ وہ عذردورہونے کے بعد باقیماندہ روزے رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۵)اگرکوئی شخص حرام چیزسے اپناروزہ باطل کردے خواہ وہ چیزبذات خود حرام ہوجیسے شراب اورزنایاکسی وجہ سے حرام ہوجائے جیسے کہ حلال غذاجس کاکھانا انسان کے لئے بالعموم مضرہویا وہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو ایک کفارہ دینا کافی ہے لیکن( احتیاط مستحب) یہ ہے کہ مجموعاً کفارہ دے۔یعنی اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور دومہینے روزے رکھے اورساٹھ فقیروں کوپیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا ان میں سے ہرفقیرکو ایک مد گندم یاجویاروٹی وغیرہ دے اوراگریہ تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ان میں سے جوکفارہ ممکن ہوادا کرے۔
مسئلہ (۱۶۳۶)اگرروزہ دارجان بوجھ کراللہ تعالیٰ یانبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو کفارہ نہیں ہے مگراحتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۳۷)اگرروزہ دارماہ رمضان کے ایک دن میں کئی مرتبہ کھاناکھانے یا پانی پینےیا جماع یا استمناء کرے توان سب کےلئے ایک کفارہ کافی ہے ۔
مسئلہ (۱۶۳۸)اگرروزہ دار ماہ رمضان کے ایک دن میں جماع اوراستمناء کے علاوہ کئی دفعہ کوئی دوسراایساکام کرے جوروزے کو باطل کرتاہواور اس کے بعد جائز طریقہ سے جماع کرے تو دونوں کےلئے ایک ہی کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۳۹)اگرروزہ دارکوئی حلال کام کرے جو روزے کو باطل کرتاہو(جیسے پانی پینا) اور پھر دوسرا حرام کام کرے جو روزہ کو باطل کرتا ہے جیسے حرام غذا کھانا تو ایک کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۰)اگرروزہ دار ڈکارلے اورکوئی چیز اس کے منہ میں آجائے تو اگروہ اسے جان بوجھ کر نگل لے تو( احتیاط واجب کی بناء پر)اس کاروزہ باطل ہے اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی اس پرواجب ہوجاتا ہے اور اگراس چیزکاکھاناحرام ہومثلاً ڈکارلیتے وقت خون یاایسی خوراک جوغذاکی تعریف میں نہ آتی ہواس کے منہ میں آجائے اوروہ اسے جان بوجھ کرنگل لے توبہتر ہے کہ کفارہ جمع یعنی مجموعاً کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۴۱)اگرکوئی شخص منت مانے کہ ایک خاص دن روزہ رکھے گاتواگروہ اس دن جان بوجھ کر اپنے روزے کوباطل کردے توضروری ہے کہ کفارہ دے اور اس کا کفارہ احکام نذر میں آئےگا۔
مسئلہ (۱۶۴۲)اگرروزہ دارایک ایسے شخص کے کہنے پرجوکہے کہ مغرب کاوقت ہو گیاہے اورجس کے کہنے پراسے اعتماد نہ ہوروزہ افطار کرلے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ مغرب کاوقت نہیں ہوایا شک کرے کہ مغرب کاوقت ہواہے یانہیں تواس پرقضااور کفارہ دونوں واجب ہوجاتے ہیں اگر اس کی بات پر اعتماد تھا تو صرف قضا لازم ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۳)جوشخص جان بوجھ کراپناروزہ باطل کرلے اوراگروہ ظہرکے بعدسفر کرے یاکفارے سے بچنے کے لئے ظہرسے پہلے سفرکرے تواس پرسے کفارہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ اگرظہرسے پہلے اتفاقاً اسے سفرکرناپڑے تب بھی کفارہ اس پرواجب ہے ۔
مسئلہ (۱۶۴۴)اگرکوئی شخص جان بوجھ کراپناروزہ توڑدے اوراس کے بعد کوئی عذر پیداہوجائے مثلاً حیض یانفاس یابیماری میں مبتلاہوجائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دےخاص طور سے دوا کے ذریعہ حیض یا بیماری میں مبتلا ہو۔
مسئلہ (۱۶۴۵)اگرکسی شخص کویقین ہوکہ آج ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے اور وہ جان بوجھ کر روزہ توڑدے لیکن بعدمیں اسے پتا چلے کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے تو اس پرکفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۶)اگر کسی شخص کوشک ہوکہ آج رمضان کی آخری تاریخ ہے یاشوال کی پہلی تاریخ اوروہ جان بوجھ کرروزہ توڑدے اوربعدمیں پتا چلے کہ پہلی شوال ہے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۷)اگرایک روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی روزہ دار بیوی سے جماع کرے تواگراس نے بیوی کو مجبورکیاہوتواپنے روزے کاکفارہ اوراحتیاط کی بناپر ضروری ہے کہ اپنی بیوی کے روزے کابھی کفارہ دے اوراگربیوی جماع پرراضی ہوتوہرایک پر ایک کفارہ واجب ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۶۴۸)اگرکوئی عورت اپنے روزہ دار شوہرکوجماع کرنے پرمجبورکرے تو اس پرشوہر کے روزے کاکفارہ اداکرناواجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۹)اگرروزہ دارماہ رمضان میں اپنی بیوی کوجماع پرمجبور کرے اور جماع کے دوران عورت بھی جماع پرراضی ہوجائے تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہے اور احتیاط مستحب کی بناپر مرددوکفارے دے۔
مسئلہ (۱۶۵۰)اگرروزہ دار ماہ رمضان المبارک میں اپنی روزہ دار بیوی سے جو سو رہی ہوجماع کرے تواس پر ایک کفارہ واجب ہوجاتاہے اور عورت کاروزہ صحیح ہے اور اس پرکفارہ بھی واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۱)اگرشوہراپنی بیوی کویابیوی اپنے شوہرکو جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرنے پرمجبورکرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہوتوان دونوں میں سے کسی پر بھی کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۲)جوآدمی سفریابیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھے وہ اپنی روزہ دار بیوی کو جماع پرمجبورنہیں کرسکتالیکن اگرمجبورکرے تب بھی مردپرکفارہ واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۳)ضروری ہے کہ انسان کفارہ دینے میں کوتاہی نہ کرے لیکن فوری طور پردینابھی ضروری نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۴)اگرکسی شخص پرکفارہ واجب ہواوروہ کئی سال تک ادا نہ کرے توکفارے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۶۵۵)جس شخص کوبطورکفارہ ایک دن ساٹھ فقیروں کو کھاناکھلاناضروری ہو اگرساٹھ فقیرموجود ہوں تو وہ ان کی تعداد کم نہیں کرسکتا ہےچاہے وہ کفارہ کی مقدار انھیں دے دے۔ مثلاً تیس فقیروں میں سے ہرایک کودو مد کھانا کھلائے اور اسی پر اکتفا کرے لیکن وہ فقیر کےخاندان کے ہر فرد کو اگر چہ وہ چھوٹے ہوں ایک مد کھانادے دے اور فقیر اپنے خاندان کی وکالت یا بچوں کی سرپرستی کی بناپر اسے قبول کرلیں اور اگر ساٹھ فقیر نہ ملیں اور مثلاً تیس فقیر ہی ملیں تو وہ ہر ایک فرد کو دو مد کھانا دے سکتا ہے لیکن( احتیاط واجب کی بنا پر) جب طاقت پیدا ہوجائے تو دوسرے تیس فقیروں کو بھی ایک مد کھانا دے دے۔
مسئلہ (۱۶۵۶)جوشخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کی قضا کرے اگروہ ظہر کے بعدجان بوجھ کرکوئی ایساکام کرے جوروزے کو باطل کرتاہوتوضروری ہے کہ دس فقیروں کو فرداًفرداًایک مدکھانادے اوراگرنہ دے سکتاہوتوتین روزے رکھے۔
وہ صورتیں جن میں فقط روزے کی قضا واجب ہے
مسئلہ (۱۶۵۷)جوصورتیں بیان ہوچکی ہیں ان کے علاوہ ان چندصورتوں میں انسان پرصرف روزے کی قضاواجب ہے اور کفارہ واجب نہیں ہے:
۱:) ایک شخص ماہ رمضان کی رات میں جنب ہوجائے اورجیساکہ مسئلہ ( ۱۶۰۱) میں تفصیل سے بتایاگیاہے صبح کی اذان تک دوسری نیندسے بیدارنہ ہو۔
۲:)روزے کوباطل کرنے والاکام تونہ کیاہولیکن روزے کی نیت نہ کرے یاریا کرے (یعنی لوگوں پرظاہرکرے کہ روزے سے ہوں ) یاروزہ نہ رکھنے کاارادہ کرے۔ اسی طرح اگرایسے کام کاارادہ کرے جوروزہ کوباطل کرتاہوتواس تفصیل کےمطابق جو( ۱۵۴۹) میں بیان کی گئی ہے عمل کرے۔
۳:)ماہ رمضان المبارک میں غسل جنابت کرنابھول جائے اورجنابت کی حالت میں ایک یا کئی دن روزے رکھتارہے۔
۴:)ماہ رمضان المبارک میں یہ تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یانہیں کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہواوربعدمیں پتا چلے کہ صبح ہوچکی تھی ۔
۵:)کوئی کہے کہ صبح نہیں ہوئی اورانسان اس کے کہنے کی بناپرکوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہواوربعدمیں پتا چلے کہ صبح ہوگئی تھی۔
۶:)کوئی کہے کہ صبح ہوگئی ہے اورانسان اس کے کہنے پریقین نہ کرے یاسمجھے کہ مذاق کررہاہے اورخود بھی تحقیق نہ کرے اورکوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہواور بعد میں معلوم ہوکہ صبح ہوگئی تھی۔
۷:)یہ کہ کسی ایسے دوسرے شخص کے کہنے پر افطار کرے کہ جس کی بات اس کے لئے شرعاً حجت ہے یا اس پر اندھی عقیدت کی بناء پر اعتماد کرتے ہوئے کہ اس کی خبر حجت ہے افطار کرلے اوربعدمیں پتا چلے کہ ابھی مغرب کاوقت نہیں ہواتھا۔
۸:)انسان کویقین یااطمینان ہوکہ مغرب ہوگئی ہے اوروہ روزہ افطارکرلے اور بعد میں پتا چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی۔لیکن اگرمطلع ابرآلودہواورانسان اس گمان کے تحت روزہ افطارکرلے کہ مغرب ہوگئی ہے اور بعدمیں معلوم ہوکہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو احتیاط کی بناپراس صورت میں قضاواجب ہے۔
۹:)انسان پیاس کی وجہ سے کلی کرے یعنی پانی منہ میں گھمائے اوربے اختیار پانی پیٹ میں چلاجائے۔ لیکن اگرانسان بھول جائے کہ روزے سے ہے اورپانی گلے سے اترجائے یاپیاس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں کہ جہاں کلی کرنا مستحب ہے جیسے وضو کرتے وقت کلی کرے اورپانی بے اختیار پیٹ میں چلا جائے تواس کی قضانہیں ہے۔
۱۰:)کوئی شخص مجبوری،اضطراریاتقیہ کی حالت میں روزہ افطار کرےاگر مجبوری اور تقیہ کی حالت کھانایا پینا یاجماع ہو اور اسی طرح ان کے علاوہ مقام میں بناء بر احتیاط واجب یہی حکم ہے تواس پر روزے کی قضارکھنالازم ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۸)اگرروزہ دارپانی کے علاوہ کوئی چیزمنہ میں ڈالے اوروہ بے اختیار پیٹ میں چلی جائے یا ناک میں پانی ڈالے اوروہ بے اختیار حلق کے نیچے اترجائے تواس پرقضاواجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۹)روزہ دارکے لئے زیادہ کلیاں کرنامکروہ ہے اوراگرکلی کے بعد لعاب دہن نگلناچاہے توبہترہے کہ پہلے تین دفعہ لعاب کوتھوک دے۔
مسئلہ (۱۶۶۰)اگرکسی شخص کومعلوم ہویااسے احتمال ہوکہ کلی کرنے سے بے اختیار یا بھولے سے پانی اس کے حلق میں چلاجائے گاتوضروری ہے کہ کلی نہ کرے اور اگر جانتا ہو کہ بھول جانے کی وجہ سے پانی اس کے حلق میں چلاجائے گاتب بھی( احتیاط واجب کی بناپر)یہی حکم ہے اگر اس حالت میں کلی کرلیا اور پانی نیچے نہیں گیا تو(احتیاط واجب کی بناء پر) قضا لازم ہے۔
مسئلہ (۱۶۶۱)اگرکسی شخص کوماہ رمضان المبارک میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم نہ ہوکہ صبح ہوگئی ہے اوروہ کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہے اوربعدمیں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تواس کے لئے روزے کی قضاکرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۶۲)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ مغرب ہوگئی ہے یانہیں تووہ روزہ افطار نہیں کرسکتالیکن اگراسے شک ہوکہ صبح ہوئی ہے یانہیں تووہ تحقیق کرنے سے پہلے ایساکام کر سکتاہے جوروزے کو باطل کرتاہو۔
قضاروزے کے احکام
مسئلہ (۱۶۶۳)اگرکوئی دیوانہ اچھاہوجائے تواس کے لئے عالم دیوانگی کے روزوں کی قضاواجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۶۴)اگرکوئی کافرمسلمان ہوجائے تواس پرزمانۂ کفرکے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اگرایک مسلمان کافرہوجائے اورپھردوبارہ مسلمان ہوجائے تو ضروری ہے ایام کفر کے روزوں کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۶۵)جوروزے انسان کی بے حواسی کی وجہ سے چھوٹ جائیں ضروری ہے کہ ان کی قضابجالائے خواہ جس چیزکی وجہ سے وہ بے حواس ہواہووہ علاج کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ (۱۶۶۶)اگرکوئی شخص کسی عذرکی وجہ سے چنددن روزے نہ رکھے اوربعد میں شک کرے کہ اس کاعذرکس وقت زائل ہواتھاتواس کے لئے واجب نہیں کہ جتنی مدت روزے نہ رکھنے کازیادہ احتمال ہو اس کے مطابق قضابجالائے مثلاًاگرکوئی شخص رمضان المبارک سے پہلے سفرکرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ ماہ مبارک رمضان کی پانچویں تاریخ کو سفر سے واپس آیاتھایاچھٹی کویامثلاً اس نے ماہ مبارک رمضان کے آخرمیں سفر شروع کیاہواورماہ مبارک رمضان ختم ہونے کے بعدواپس آیاہواوراسے پتا نہ ہوکہ پچیسویں رمضان کوسفرکیاتھایا چھبیسویں کوتودونوں صورتوں میں وہ کمتردنوں یعنی پانچ روزوں کی قضا کرسکتاہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں یعنی چھ روزوں کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۶۶۷)اگرکسی شخص پرکئی سال کے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا واجب ہوتوجس سال کے روزوں کی قضاپہلے کرناچاہے کرسکتاہے لیکن اگرآخررمضان المبارک کے روزوں کی قضاکاوقت تنگ ہومثلاًآخری رمضان المبارک کے پانچ روزوں کی قضااس کے ذمے ہواورآئندہ رمضان المبارک کے شروع ہونے میں بھی پانچ ہی دن باقی ہوں توبہتریہ ہے کہ پہلے آخری رمضان المبارک کے روزوں کی قضابجا لائے۔
مسئلہ (۱۶۶۸)اگرکسی شخص پرکئی سال کے ماہ رمضان کے روزوں کی قضاواجب ہو اور وہ روزہ کی نیت کرتے وقت معین نہ کرے کہ کس رمضان المبارک کے روزے کی قضاکررہاہے تواس کاشمارآخری ماہ رمضان کی قضامیں نہیں ہوگا جس سے تاخیر کرنے کا کفارہ ساقط ہوجائے۔
مسئلہ (۱۶۶۹)جس شخص نے رمضان المبارک کاقضاروزہ رکھاہووہ اس روزے کو ظہر سے پہلے توڑسکتاہے لیکن اگرقضاکاوقت تنگ ہوتوبہترہے کہ روزہ نہ توڑے۔
مسئلہ (۱۶۷۰)اگرکسی نے میت کاقضاروزہ رکھاہوتوبہتریہ ہے کہ ظہرکے بعدروزہ نہ توڑے۔
مسئلہ (۱۶۷۱)اگرکوئی بیماری یاحیض یانفاس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوراس مدت کے گزرنے سے پہلے کہ جس میں وہ ان روزوں کی جو اس نے نہیں رکھے تھے قضاکرسکتاہومرجائے توان روزوں کی قضانہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۲)اگرکوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوراس کی بیماری آئندہ رمضان تک طول کھینچ جائے توجوروزے اس نے نہ رکھے ہوں ان کی قضااس پرواجب نہیں ہے اورضروری ہے کہ ہردن کے لئے ایک مدطعام( تقریباً ۷۵۰ گرام) یعنی گندم یاجویاروٹی وغیرہ فقیرکودے لیکن اگرکسی اور عذرمثلاً سفرکی وجہ سے روزے نہ رکھے اوراس کاعذرآئندہ رمضان المبارک تک باقی رہے توضروری ہے کہ جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضاکرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ ہرایک دن کے لئے ایک مدطعام بھی فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۷۳)اگرکوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوررمضان المبارک کے بعداس کی بیماری دورہوجائے لیکن کوئی دوسراعذرلاحق ہو جائے جس کی وجہ سے وہ آئندہ رمضان المبارک تک قضاروزے نہ رکھ سکے توضروری ہے کہ جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائےاور( احتیاط واجب کی بناء پر) ایک مد طعام بھی فقیر کو دے اور یہی حکم ہے اگررمضان المبارک میں بیماری کے علاوہ کوئی اور عذررکھتاہواوررمضان المبارک کے بعدوہ عذردورہوجائے اورآئندہ سال کے رمضان المبارک تک بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے ۔
مسئلہ (۱۶۷۴)اگرکوئی شخص کسی عذرکی وجہ سے رمضان المبارک میں روزے نہ رکھے اوررمضان المبارک کے بعداس کاعذردورہوجائے اوروہ آئندہ رمضان المبارک تک عمداً روزوں کی قضانہ بجالائے توضروری ہے کہ روزوں کی قضاکرے اورہردن کے لئے ایک مدطعام بھی فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۷۵)اگرکوئی شخص قضاروزے رکھنے میں کوتاہی کرے حتیٰ کہ وقت تنگ ہو جائے اوروقت کی تنگی میں اسے کوئی عذرپیش آجائے توضروری ہے کہ روزوں کی قضا کرے اور(احتیاط کی بناپر)ہرایک دن کے لئے ایک مدطعام فقیرکودے اوراگرعذردور ہونے کے بعدمصمم ارادہ رکھتاہوکہ روزوں کی قضابجالائے گالیکن قضابجالانے سے پہلے تنگ وقت میں اسے کوئی عذرپیش آجائے تواس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۶)اگرانسان کامرض چندسال طولانی ہو جائے توضروری ہے کہ تندرست ہونے کے بعد آخری رمضان المبارک کے چھٹے ہوئے روزوں کی قضا بجالائے اوراس سے پچھلے برسوں کے ماہ ہائے مبارک رمضان کے ہردن کے لئے ایک مد طعام فقیر کودے۔
مسئلہ (۱۶۷۷)جس شخص کے لئے ہرروزے کے عوض ایک مدطعام فقیرکودینا ضروری ہووہ چنددنوں کاکفارہ ایک ہی فقیرکودے سکتاہے۔
مسئلہ (۱۶۷۸)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضاکرنے میں کئی سال کی تاخیرکردے توضروری ہے کہ قضاکرے اور پہلے سال میں تاخیرکرنے کی بناپرہر روزے کے لئے ایک مد طعام فقیرکودے لیکن باقی کئی سال کی تاخیرکے لئے اس پرکچھ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۹)اگرکوئی شخص رمضان المبارک کے روزے جان بوجھ کرنہ رکھے تو ضروری ہے کہ ان کی قضابجالائے اورہردن کے لئے دومہینے روزے رکھے یاساٹھ فقیروں کو کھانادے یاایک غلام آزاد کرے اوراگر آئندہ رمضان المبارک تک ان روزوں کی قضانہ کرے تو(احتیاط لازم کی بناپر)ہردن کے لئے ایک مدطعام کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۸۰)اگرکوئی شخص جان بوجھ کررمضان المبارک کاروزہ نہ رکھے اوردن میں کئی دفعہ جماع یااستمناء کرے توکفارہ مکررنہیں ہوگا بلکہ ایک کفارہ کافی ہے ایسے ہی اگرکئی دفعہ کوئی اور ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتا ہومثلاً کئی دفعہ کھانا کھائے تب بھی ایک ہی کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۸۱)باپ کے مرنے کے بعدبڑے بیٹے کے لئے( احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے کہ باپ کے روزوں کی قضااسی طرح بجالائے جیسے کہ نمازکے سلسلے میں مسئلہ (۱۳۷۰ )میں تفصیل سے بتایاگیاہے اور ہر دن کےبدلے ایک مد طعام (۷۵۰گرام) فقیر کو دے سکتاہے خواہ میت کے مال سے ہی کیوں نہ ہو اگر ورثا راضی ہیں ۔
مسئلہ (۱۶۸۲)اگرکسی کے باپ نے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کوئی دوسرے واجب روزے مثلاً منتی روزے نہ رکھے ہوں یااجرت کاروزہ ہواورنہ رکھا ہوتو بڑےبیٹے پر اس کی قضا لازم نہیں ہے۔
مسافرکے روزوں کے احکام
مسئلہ (۱۶۸۳)جس مسافر کے لئے سفرمیں چاررکعتی نمازکے بجائے دورکعت پڑھنا ضروری ہواسے روزہ نہیں رکھناچاہئے لیکن وہ مسافرجوپوری نمازپڑھتاہومثلاً وہ شخص جس کاپیشہ ہی سفرہویاجس کاسفر کسی ناجائز کام کے لئے ہوضروری ہے کہ سفرمیں روزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۶۸۴)ماہ رمضان المبارک میں سفرکرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن روزے سے بچنے کےلئے سفر کرنا مکروہ ہے اور اسی طرح رمضان المبارک میں مطلقاً سفر کرنا مکروہ بجزاس سفرکے جوحج، عمرہ یاکسی ضروری کام کے لئے ہو۔
مسئلہ (۱۶۸۵)اگرماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کسی خاص دن کا روزہ انسان پرواجب ہو مثلاًوہ روزہ اجارے یااجارے کے مانندکسی وجہ سے واجب ہواہویا اعتکاف کے دنوں میں سے تیسرادن ہو تواس دن سفرنہیں کرسکتااوراگرسفرمیں ہواور اس کے لئے ٹھہرناممکن ہوتوضروری ہے کہ دس دن ایک جگہ قیام کرنے کی نیت کرے اوراس دن روزہ رکھے لیکن اگراس دن کا روزہ منت کی وجہ سے واجب ہوا ہوتوظاہریہ ہے کہ اس دن سفرکرناجائزہے اورقیام کی نیت کرناواجب نہیں ۔اگرچہ بہتریہ ہے کہ جب تک سفر کرنے کے لئے مجبورنہ ہوسفرنہ کرے اوراگرسفرمیں ہوتوقیام کرنے کی نیت کرے لیکن اگر قسم یا عہد کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو (احتیاط واجب کی بناپر) سفر نہ کرے اور اگر سفرمیں ہو توقصدقیام کرے۔
مسئلہ (۱۶۸۶)اگرکوئی شخص مستحب روزے کی منت مانے لیکن اس کے لئے دن معین نہ کرے تووہ شخص سفرمیں ایسامنتی روزہ نہیں رکھ سکتالیکن اگرمنت مانے کہ سفرکے دوران ایک مخصوص دن روزہ رکھے گا توضروری ہے کہ وہ روزہ سفرمیں رکھے نیزاگرمنت مانے کہ سفرمیں ہویانہ ہوایک مخصوص دن کا روزہ رکھے گاتوضروری ہے کہ اگرچہ سفر میں ہو تب بھی اس دن کاروزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۶۸۷)مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن مدینۂ طیبہ میں مستحب روزہ رکھ سکتاہے اوراحوط یہ ہے کہ وہ تین دن بدھ، جمعرات اورجمعہ ہوں ۔
مسئلہ (۱۶۸۸)کوئی شخص جسے یہ علم نہ ہوکہ مسافر کاروزہ رکھناباطل ہے،اگر سفر میں روزہ رکھ لے اور دن ہی دن میں اسے حکم مسئلہ معلوم ہوجائے تواس کا روزہ باطل ہے لیکن اگرمغرب تک حکم معلوم نہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۸۹)اگرکوئی شخص یہ بھول جائے کہ وہ مسافرہے یایہ بھول جائے کہ مسافر کاروزہ باطل ہوتاہے اورسفرکے دوران روزہ رکھ لے تواس کا روزہ( بنا بر احتیاط) باطل ہے۔
مسئلہ (۱۶۹۰)اگرروزہ دارظہرکے بعدسفرکرے توضروری ہے احتیاط کی بناپر اپنے روزے کوتمام کرے اور اس صورت میں اس کی قضا لازم نہیں ہے اور اگرظہر سے پہلے سفرکرے تو(احتیاط واجب کی بناء پر) اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا خصوصاً اگر رات سے ہی سفرکاارادہ رکھتاہولیکن ہر صورت میں حدترخص تک پہنچنے سے پہلے ایساکوئی کام نہیں کرناچاہئے جو روزہ کوباطل کرتاہوورنہ اس پرکفارہ واجب ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۹۱)اگرمسافرماہ رمضان المبارک میں خواہ وہ فجرسے پہلے سفرمیں ہو یا روزے سے ہواورسفرکرے اورظہر سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن قیام کرناچاہتاہواور اس نے کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کو باطل کرتا ہوتو (احتیاط کی بناء پر)ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ رکھے اور اس صورت میں قضا نہیں ہے اوراگرکوئی ایساکام کیاہوجوروزے کوباطل کرتا ہوتواس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے اور ضروری ہےکہ اس کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۶۹۲)اگرمسافر ظہرکے بعداپنے وطن پہنچے یاایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن قیام کرناچاہتاہوتو(احتیاط کی بناء پر) اس کا روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے ۔
مسئلہ (۱۶۹۳)مسافراوروہ شخص جوکسی عذرکی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہو اس کے لئے ماہ رمضان المبارک میں دن کے وقت جماع کرنااورپیٹ بھرکرکھانااورپینا مکروہ ہے۔
وہ لوگ جن پرروزہ رکھناواجب نہیں
مسئلہ (۱۶۹۴)جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہویاروزہ رکھنا اس کے لئے شدیدتکلیف کا باعث ہواس پرروزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ضروری ہے کہ ہرروزے کے عوض ایک مدطعام( یعنی گندم یاجویاروٹی یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز)فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۹۵)جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے ماہ رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اگروہ رمضان المبارک کے بعدروزے رکھنے کے قابل ہوجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۹۶)اگرکسی شخص کوکوئی ایسی بیماری ہوجس کی وجہ سے اسے بہت زیادہ پیاس لگتی ہواور وہ پیاس برداشت نہ کرسکتاہویاپیاس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہوتو اس پرروزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ضروری ہے کہ ہرروزے کے عوض ایک مدطعام فقیرکودے اور اگر اس کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو قضا کرنا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۹۷)جس عورت کا وضع حمل کاوقت قریب ہو،اس کاروزہ رکھناخوداس کے لئے یااس کے ہونے والے بچے کے لئے مضرہواس پرروزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہردن کے عوض ایک مد طعام فقیرکودے اورضروری ہے کہ دونوں صورتوں میں جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۹۸)جوعورت بچے کودودھ پلاتی ہواوراس کادودھ کم ہو(خواہ وہ بچے کی ماں ہویادایہ اورخواہ بچے کومفت دودھ پلارہی ہواگراس کاروزہ رکھناخوداس کے یادودھ پینے والے بچے کے لئے مضرہو)تواس عورت پرروزہ رکھناواجب نہیں ہے اورضروری ہے کہ ہردن کے عوض ایک مدطعام فقیرکودے اور دونوں صورتوں میں جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضاکرناضروری ہے۔لیکن (احتیاط واجب کی بناپر)یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جب کہ بچے کودودھ پلانے کاانحصاراسی پرہولیکن اگربچے کودودھ پلانے کاکوئی اور طریقہ ہو(مثلاً کچھ عورتیں مل کربچے کودودھ پلائیں یا دودھ پلانے کےلئے شیشی وغیرہ سے مدد لی جائے) توایسی صورت میں اس حکم کے ثابت ہونے میں اشکال ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کاطریقہ
مسئلہ (۱۶۹۹)مہینے کی پہلی تاریخ مندرجہ ذیل چارچیزوں سے ثابت ہوتی ہے:
۱:) انسان خودچانددیکھے۔
۲:)ایک ایساگروہ جس کے کہنے پریقین یااطمینان ہوجائے یہ کہے کہ ہم نے چاند دیکھاہے اوراس طرح ہروہ چیزجس کی بدولت یقین یا کسی عاقلانہ روش کے ذریعہ اطمینان ہوجائے۔
۳:)دوعادل مردیہ کہیں کہ ہم نے رات کوچانددیکھاہے لیکن اگروہ چاندکے الگ الگ اوصاف بیان کریں توپہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی اسی طرح اگر انسان کو ان لوگوں کے اشتباہ کا یقین ہوتو بھی ثابت نہیں ہوگا یا ان کی گواہی میں اختلاف ہو (یا اختلاف جیسا ہو) مثلاًشہر کے بہت سے لوگ چانددیکھنے کی کوشش کریں لیکن دوعادل آدمیوں کے علاوہ کوئی دوسراچانددیکھنے کا دعویٰ نہ کرے یا کچھ لوگ چانددیکھنے کی کوشش کریں اوران لوگوں میں سے دوعادل چانددیکھنے کا دعویٰ کریں اوردوسروں کوچاند نظرنہ آئے حالانکہ ان لوگوں میں دواورعادل آدمی ایسے ہوں جو چاندکی جگہ پہچاننے، نگاہ کی تیزی اور دیگر خصوصیات میں ان پہلے دو عادل آدمیوں کے مانند ہوں (اوروہ چانددیکھنے کادعویٰ نہ کریں )درآنحالیکہ مطلع بھی صاف ہو اوراسے دیکھنے کے لئےاحتمالی کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو توایسی صورت میں دوعادل آدمیوں کی گواہی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی۔
۴:)شعبان کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزرجائیں جن کے گزرنے پرماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے اوررمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزرجائیں جن کے گزرنے پرشوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۱۷۰۰)حاکم شرع کے حکم سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کے حکم سے یا اس کے نزدیک مہینہ کے ثابت ہونے سے چاند دیکھے جانے کا اطمینان ہوجائے۔
مسئلہ (۱۷۰۱)منجموں کی پیشن گوئی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی لیکن اگرانسان کوان کے کہنے سے یقین یااطمینان ہوجائے توضروری ہے کہ اس پرعمل کرے۔
مسئلہ (۱۷۰۲)چاندکاآسمان پربلندہونایااس کادیرسے غروب ہونااس بات کی دلیل نہیں کہ سابقہ رات چاندرات تھی اوراسی طرح اگرچاندکے گردحلقہ ہوتویہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پہلی کاچاندگزشتہ رات نکلاہے۔
مسئلہ (۱۷۰۳)اگرکسی شخص پرماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہواور وہ روزہ نہ رکھے لیکن بعدمیں ثابت ہوجائے کہ گزشتہ رات ہی چاندرات تھی توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۷۰۴)اگرکسی شہرمیں مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہوجائے تودوسرے شہروں میں بھی کہ جن کاافق اس شہرسے متحدہومہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے۔یہاں پرافق کے متحد ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگرپہلے شہرمیں چاند دکھائی دے تودوسرے شہرمیں بھی اگر بادل کی طرح کوئی رکاوٹ نہ ہوتوچانددکھائی دیتا ہے یہ اس صورت میں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ دوسرا شہر پہلے شہر کے مغرب میں ہوجو خط عرض میں اس سے نزدیک ہو اور اگر اس کے مشرق میں ہوتو خط عرض نزدیک ہونےکی نسبت سے خط طول میں بہت زیادہ فرق نہ ہو۔
مسئلہ (۱۷۰۵)جس دن کے متعلق انسان کوعلم نہ ہوکہ رمضان المبارک کاآخری دن ہے یاشوال کاپہلادن، اس دن ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن اگردن ہی دن میں اسے پتا چل جائے کہ آج یکم شوال روز عید ہے توضروری ہے کہ روزہ افطارکرلے۔
مسئلہ (۱۷۰۶)اگرکوئی شخص قیدمیں ہواورماہ رمضان کے بارے میں یقین نہ کر سکے توضروری ہے کہ گمان پرعمل کرے لیکن اگرقوی گمان پرعمل کرسکتاہوتوضعیف گمان پر عمل نہیں کرسکتا اور ضروری ہے کہ قوی گمان حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اگر کوئی راستہ نہ ہو تو قرعہ کو آخری راہ کے عنوان سے قرار دے اگر قوی گمان کا سبب ہواوراگرگمان پر عمل ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ جس مہینے کے بارے میں احتمال ہوکہ رمضان ہے اس مہینے میں روزے رکھے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس مہینے کو یاد رکھے۔چنانچہ بعدمیں اسے معلوم ہوکہ وہ ماہ رمضان یااس کے بعدکازمانہ تھاتواس کے ذمے کچھ نہیں ہے۔ لیکن اگرمعلوم ہوکہ ماہ رمضان سے پہلے کازمانہ تھاتوضروری ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضاکرے۔
حرام اورمکروہ روزے
مسئلہ (۱۷۰۷)عیدفطراورعیدقربان کے دن روزہ رکھناحرام ہے نیزجس دن کے بارے میں انسان کو یہ علم نہ ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یارمضان المبارک کی پہلی تو اگروہ اس دن پہلی رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھے توحرام ہے۔
مسئلہ (۱۷۰۸)اگرعورت کے مستحب روزہ رکھنے سے شوہرکی جنسی حق تلفی ہوتی ہو توعورت کاروزہ رکھناحرام ہےاور یہی صورت حال اس روزہ کی ہے جو واجب توہے لیکن معین دن کےلئے نہیں ہے جیسے غیر معین دن کے نذر کا روزہ اس میں ( احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ باطل ہے اور نذر سے کفایت نہیں کرے گا اور یہی صورت حال (احتیاط واجب کی بناء پر) وہاں بھی ہوگی جب شوہر اسے مستحبی یا غیر معین دن کےاندر کے واجبی روزہ کو رکھنے سے منع کرے خواہ شوہر کی حق تلفی نہ بھی ہوتی ہواور احتیاط مستحب کی بناء پر اس کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ نہ رکھے ۔
مسئلہ (۱۷۰۹)اگراولاد کامستحب روزہ (ماں باپ کی اولاد سے شفقت کی وجہ سے) ان کے لئے اذیت کاموجب ہوتواولاد کے لئے مستحب روزہ رکھنا حرام ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۰)اگربیٹاباپ یا ماں کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھ لے اوردن کے دوران ماں یا باپ اسے روزہ رکھنے سے منع کریں تواگربیٹے کاباپ کی بات نہ ماننافطری شفقت کی وجہ سے اذیت کاموجب ہوتوبیٹے کوچاہئے کہ روزہ توڑدے۔
مسئلہ (۱۷۱۱)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرنہیں ہے کہ جس کی پروا کی جائے تواگرچہ طبیب کہے کہ مضرہے اس کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھے اوراگرکوئی شخص یقین یاگمان رکھتا ہوکہ روزہ اس کے لئے مضرہے تواگرچہ طبیب کہے کہ مضرنہیں ہے توواجب نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھے ۔
مسئلہ (۱۷۱۲)اگرکسی شخص کویقین یا اطمینان ہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرہے کہ جس کی پرواکی جائے یا اس بات کا احتمال ہو اور اس احتمال کی بناپر اس کے دل میں خوف پیدا ہوجائے تو اگر اس کااحتمال عقلاء کی نظرمیں صحیح ہوتو اس کے لئے روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ ضرر ہلاکت یا بدن میں نقص کا سبب ہوتو روزہ رکھناحرام ہے اس کے علاوہ بقیہ صورتوں میں اگر رجاء کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں یہ معلوم ہو کہ وہ ضرر قابل توجہ نہ تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۳)جس شخص کواعتماد ہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے مضرنہیں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعداسے پتا چلے کہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرتھاکہ جس کی پرواہ کی جاتی تو(احتیاط واجب کی بناپر) اس روزے کی قضاکرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۴)مندرجہ بالاروزوں کے علاوہ اوربھی حرام روزے ہیں جومفصل کتابوں میں مذکورہیں ۔
مسئلہ (۱۷۱۵)عاشورکے دن روزہ رکھنامکروہ ہے اوراس دن کاروزہ بھی مکروہ ہے جس کے بارے میں شک ہوکہ عرفہ کادن ہے یاعیدقربان کادن۔
مستحب روزے
مسئلہ (۱۷۱۶)بجزحرام اورمکروہ روزوں کے جن کاذکرکیاگیاہے سال کے تمام دنوں کے روزے مستحب ہیں اوربعض دنوں کے روزے رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے جن میں سے چندیہ ہیں :
۱:) ہرمہینے کی پہلی اورآخری جمعرات اورپہلابدھ جومہینے کی دسویں تاریخ کے بعد آئے اوراگرکوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تومستحب ہے کہ ان کی قضاکرے اوراگرروزہ بالکل نہ رکھ سکتاہوتو مستحب ہے کہ ہردن کے بدلے ایک مدطعام یا( ۶؍۱۲ )چنا سکہ دار چاندی فقیرکودے۔
۲:)ہرمہینے کی تیرھویں ، چودھویں اورپندرھویں تاریخ۔
۳:)رجب اورشعبان کے پورے مہینے کے روزے یاان دومہینوں میں جتنے روزے رکھ سکتا ہو رکھے خواہ وہ ایک دن ہی کیوں نہ ہو۔
۴:)عیدنوروزکادن۔
۵:)شوال کی چوتھی سے نویں تاریخ تک۔
۶:)ذی قعدہ کی پچیسویں اورانتیسویں تاریخ۔
۷:)ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ (یوم عرفہ) تک لیکن اگرانسان روزے کی وجہ سے پیداہونے والی کمزوری کی بناپریوم عرفہ کی دعائیں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ رکھنامکروہ ہے۔
۸:)عیدسعیدغدیرکادن (۱۸؍ذی الحجہ)
۹:)روز مباہلہ (۲۴؍ذی الحجہ)
۱۰:)محرم الحرام کی پہلی، تیسری اور ساتویں تاریخ۔
۱۱:)حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی تاریخ (۱۷؍ربیع الاول)
۱۲:)جمادی الاول کی پندرہ تاریخ۔
۱۳:)روزبعثت یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلان رسالت کے دن (۲۷؍رجب) بھی روزہ رکھنامستحب ہے اور جو شخص مستحب روزہ رکھے اس کے لئے واجب نہیں ہے کہ اسے اختتام تک پہنچائے بلکہ اگراس کاکوئی مؤمن بھائی اسے کھانے کی دعوت دے تومستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن میں ہی روزہ کھول لے خواہ ظہر کے بعدہی کیوں نہ ہو۔
وہ صورتیں جن میں مبطلات روزہ سے پرہیزمستحب ہے
مسئلہ (۱۷۱۷)مندرجہ ذیل پانچ اشخاص کے لئے مستحب ہے کہ( اگرچہ روزے سے نہ ہوں ) ماہ رمضان المبارک میں ان افعال سے پرہیزکریں جو روزے کوباطل کرتے ہیں :
۱:) وہ مسافر جس نے سفرمیں کوئی ایساکام کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہواوروہ ظہر سے پہلے اپنے وطن یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہناچاہتاہو۔
۲:)وہ مسافر جوظہر کے بعداپنے وطن یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو۔
۳:)وہ مریض جوظہر کے بعدصحت یاب ہوجائے اوریہی حکم ہے اگرظہر سے پہلے صحت یاب ہوجائے اگرچہ اس نے کوئی ایساکام(بھی) کیاہوجو روزے کو باطل کرتاہو لیکن اگرایساکام نہ کیاہوتو(احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ رکھے۔
۴:)وہ عورت جودن میں حیض یانفاس کے خون سے پاک ہوجائے۔
۵:) وہ کافر جو مسلمان ہوجائے اور پہلے وہ کام انجام دیا ہو جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۸)روزہ دار کے لئے مستحب ہے کہ روزہ افطار کرنے سے پہلے مغرب اور عشاکی نمازپڑھے لیکن اگرکوئی دوسراشخص اس کاانتظارکررہاہویااسے اتنی بھوک لگی ہو کہ حضورقلب کے ساتھ نمازنہ پڑھ سکتاہوتو بہترہے کہ پہلے روزہ افطار کرے لیکن جہاں تک ممکن ہونمازفضیلت کے وقت میں ہی اداکرے۔
اعتکاف کے احکام
مسئلہ (۱۷۱۹)اعتکاف مستحب عبادتوں میں ہے جو نذر عہد اور قسم وغیرہ کی بناء پر واجب ہوجاتا ہے اور شرعاً یہ اعتکاف یہ ہے کہ کوئی شخص قصد قربت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ عبادت کےاعمال جیسے نماز اور دعا کے انجام دینے کی نیت سے قیام کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۰)اعتکاف کےلئے کوئی معین وقت نہیں ہے پورے سال کے اس زمانےمیں جب روزہ صحیح ہوں تو اعتکاف بھی صحیح ہے اوراس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے اور سب سے زیادہ فضیلت ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۱)اعتکاف کا سب سے کم وقت درمیانی دوشب کے اضافے کے ساتھ تین دن ہے اور اس سے کم صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ کےلئے کوئی حد نہیں ہے اور پہلی شب اور چوتھی شب کو اعتکاف کی نیت میں شامل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اس بناء پر اعتکاف تین دن سے زیادہ جائزہے اور اگر کوئی شخص پانچ دن مکمل اعتکاف کررہا ہو تو چھٹے دن ضروری ہے کہ اعتکاف کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۲)اعتکاف کے وقت کا آغاز پہلے دن کی اذان صبح سے ہوتا ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر اس کا اختتام تیسرے دن کی اذان مغرب پر ہوتا ہے اور اعتکاف کے محقق ہونے میں اگر الگ الگ تین دنوں کو جمع کرکے انجام دیا جائے تو کافی نہیں ہے یعنی کوئی شخص پہلے دن کی اذان صبح کے بعد سےاعتکاف شروع کرے اور اس کمی کو چوتھے دن میں کچھ اضافہ کرکے پورا کرنا چاہے جیسے پہلے دن کی اذان ظہر سے شروع کرے چوتھے دن کی اذان ظہر تک مسجد میں ٹھہرے (تو اس صورت میں اعتکاف کافی نہیں ہے)۔
اعتکاف میں معتبر امور
مسئلہ (۱۷۲۳)اعتکاف میں کچھ امور معتبر ہیں :
(۱:)اعتکاف کرنے والا مسلمان ہو۔
(۲:) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو۔
(۳:) اعتکاف قصد قربت سے انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۴)اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ اس طرح قصد قربت اختیار کرے جس طرح وضو میں گزراہے اور شروع سےلےکر آخر تک اعتکاف کو معتبر خلوص کی رعایت کے ساتھ قصد قربت سے انجام دے۔
(۴:)اعتکاف کی مدت کم سے کم تین دن ہے
مسئلہ (۱۷۲۵)اعتکاف کی مدت کم سےکم تین دن ہے ،تین دن سے کم اعتکاف صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ مقدار کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ مسئلہ (۱۷۲۱ )میں گزرا ہے۔
(۵:)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۷۲۶)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے اس بنا پر جو شخص روزہ نہیں رکھ سکتا جیسے وہ مسافر جو دس دن کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتا اور مریض، حائض اور نفساء عورت تو ان لوگوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے اور اعتکاف کے دنوں میں لازم نہیں ہے کہ اعتکاف سے مخصوص روزہ رکھاجائے بلکہ ہر طرح کا روزہ صحیح ہے یہاں تک کہ اجارہ کا روزہ ،مستحبی روزہ اور قضا روزہ بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۷)جس زمانے میں اعتکاف کرنے والا روزہ سے ہے یعنی ہر روز اذان صبح سے مغرب تک ہر وہ کام جو روزہ کو باطل کرتا ہے، اعتکاف کے باطل ہوجانے کا سبب بنتا ہے اس بناء پر اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ روزہ کے دوران عمداً روزہ کے مبطلات کے انجام دینے سے پرہیز کرے۔
(۶:)اعتکاف چار مسجدوں یا جامع مسجد میں ہو۔
مسئلہ (۱۷۲۸)اعتکاف مسجد الحرام یا مسجد نبوی یا مسجد کوفہ یا مسجد بصرہ میں صحیح ہے اس طرح اعتکاف ہر شہر کی جامع مسجد میں صحیح ہوگا سوائے یہ کہ اس مسجد کا امام غیر عادل ہو ایسی صورت میں ( احتیاط لازم کی بنا پر) اعتکاف صحیح نہیں ہوگا ۔ جامع مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جو کسی محلہ یا خاص علاقے یا مخصوص گروہ سے تعلق نہ رکھتی ہو اور اسی علاقے کے لوگوں اور شہر کے مختلف علاقے کے رہنے والوں کے جمع ہونے اور رفت وآمد کی جگہ ہو۔ اور جامع مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں اعتکاف کی شرعی حیثیت ثابت نہیں ہے لیکن احتمال مطلوب کےاعتبار سے بجالانے میں اشکال نہیں ہے لیکن اس جگہ اعتکاف جو مسجد نہیں ہے مثلاً امام بارگاہ ہو یا صرف نماز خانہ ہو، صحیح نہیں ہے اورجائز بھی نہیں ہے۔
(۷:)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۹)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے اس بنا ء پر ایک اعتکاف کو دو مسجدوں میں انجام نہیں دیا جاسکتا ہے چاہے ایک دوسرے سے جدا ہوں یا ایک دوسرے سے متصل ہوں سوائےیہ کہ اس طرح سے متصل ہوں کہ عرف میں ایک مسجد سمجھی جاتی ہو (تو اعتکاف صحیح ہے)
(۸:) اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۰)اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے اس بناء پر اس زمانے میں کہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہو مثلاً عورت اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نکلی ہو تو اعتکاف باطل ہے او رایسی صورت میں جب مسجد میں رکنا حرام نہ ہولیکن شوہر کے حق سےاعتکاف ٹکراتا ہوتو اس کے اعتکاف کاصحیح ہونا ایسی صورت میں جب کہ شوہر کی اجازت کے بغیر ہو ،محل اشکال ہے۔ اسی طرح سے ایسی صورت میں جب کہ اعتکاف والدین کےلئے ایذاء اور تکلیف کا سبب ہو اور یہ اذیت ان کی شفقت اور قلبی لگاؤ کی وجہ سےہو تو اولاد کا ان سے اجازت لینا لازمی ہے اگر اذیت کا سبب نہ ہوتو احتیاط مستحب یہ ہےکہ ان سے اجازت لے۔
(۹)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات کو انجام نہ دے۔
مسئلہ (۱۷۳۱)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی حالت میں ان محرمات اعتکاف سے پرہیز کرے جومندرجہ ذیل ہیں اور ان کا انجام دینا اعتکاف کو باطل کردے گا لیکن ان سب سے پرہیز کا واجب ہونا اس اعتکاف میں جو واجب معین نہیں ہے جماع کے علاوہ بقیہ صورتوں میں احتیاط کی بناء پر ہے:
(۱:) خوشبو سونگھنا ۔
(۲:) بیوی سے ہمبستری کرنا۔
(۳:) استمناء اور شہوت کے ساتھ بدن کا مس کرنا اور بوسہ لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) ۔
(۴:) بحث ونزاع کرنا۔
(۵:) خریدوفروخت کرنا۔
مسئلہ (۱۷۳۲)اعتکاف کرنے والے کےلئے ہر طرح کے عطر کو سونگھنا چاہے اس سے لذت محسوس کرے یانہ کرے، جائز نہیں ہے اور خوشبو دار گھاس سونگھنا اس صورت میں جب کہ اس کے سونگھنے سےلذت محسوس کرے جائز نہیں ہے اور اگر اس کے سونگھنے سے لذت محسوس نہ کرے تو اشکال نہیں ہے اس طرح اعتکاف کرنےو الے کےلئے ممکن ہے کہ خوشبودار دھونے والی چیزوں من جملہ سیال یا جامد صابون، شیمپو اور خوشبودار پیسٹ سے استفادہ کرے اور ان مسجدوں میں جن میں اعتکاف پر بیٹھنے والوں کے علاوہ بقیہ لوگ معمولاً عطر لگاتے ہوں ، ایسے عطر کو سونگھنا جائز نہیں ہے لیکن عطرکی بو کا احساس کرنے میں بظاہر کوئی ممانعت نہیں ہے اور لازم نہیں ہے کہ اپنی ناک کو بند کرے۔
مسئلہ (۱۷۳۳) بیوی کے ساتھ جماع اور ہمبستری اعتکاف کی حالت میں جائز نہیں ہے اگر چہ انزال اور منی کے خارج ہونے کا سبب نہ ہو اور عمداً اس کا انجام دینااعتکاف کو باطل کردیتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۴)اعتکاف کرنے والا احتیاط واجب کی بنا پر استمناء سے (اگر چہ حلال صورت میں کیوں نہ ہو)‘ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے اور اس کا بوسہ لینے سے بھی پرہیز کرے اور اعتکاف کے دنوں میں بیوی کو شہوت کی نظر سے دیکھنا اعتکاف کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہےکہ اعتکاف کے دنوں میں اس سے پرہیز کیاجائے۔
مسئلہ (۱۷۳۵)اعتکاف کی حالت میں دنیوی یا دینی مسائل میں جھگڑا کرنا اس صورت میں جب مدمقابل پر غلبہ اور فضیلت و برتری ظاہر کرنے کا ارادہ ہو توحرام ہے لیکن اگر حق کے ظاہر کرنے اور حقیقت کو واضح کرنے اور مدمقابل کی خطا اور اشتباہ کو دور کرنے کےلئے ہو تونہ صرف یہ کہ حرام نہیں ہے بلکہ بہترین عبادتوں میں ہے اس بناء پر معیار اعتکاف کرنے والے کی نیت اور قصد ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۶)اعتکاف کی حالت میں خریدوفروخت اور احتیاط واجب کی بناء پر ہر طرح کا معاملہ جیسے کرایہ پر دینا، مضاربہ کرنا،معاوضہ وغیرہ دینا حرام ہے اگر چہ انجام پانے والا معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۷)جب کسی اعتکاف پر بیٹھنے والا خوردو نوش کو مہیا کرنے کے لئے یا اعتکاف کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے خریدوفروخت پر مجبور ہو اور اعتکاف کرنے والوں کے علاوہ کوئی غیر شخص جو ان کاموں کو بطور وکالت انجام دے،نہ ملے اور گزشتہ چیزوں کا مہیا کرنا خرید کے علاوہ جیسے ہدیہ یا قرض لینا ممکن نہ ہو تواس صورت میں خریدوفروخت میں ممانعت نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۸)اگر اعتکاف پر بیٹھنے والا اعتکاف کےمحرمات کو عمداً او رحکم شرعی سے آگاہی کے باوجود انجام دے تو اس کا اعتکاف باطل ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۳۹)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات میں سے کسی کو سہواً فراموشی کی بناء پر انجام دے تو مطلقاًاعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۴۰)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کےمحرمات میں سے کسی کو مسئلہ نہ جاننے کی بناء پر انجام دے اس صورت میں کہ جاہل مقصر تھا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر جاہل قاصر تھا تو اس کااعتکاف صحیح ہے اور فراموشی کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۱)اگر اعتکاف کرنے والا گزشتہ مسائل میں بیان شدہ مفسد چیزوں میں سے کسی کو اختیار کرے جس سے اس کا اعتکاف باطل ہوتا ہے تو اگر واجب معین اعتکاف تھا تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر اعتکاف واجب غیر معین تھا جیسےاعتکاف کو کسی معین وقت کے بغیر نذر کیا ہوتو واجب ہےکہ اس اعتکاف کو دوبارہ شروع سے بجالائے اور اگر مستحب اعتکاف تھا تو اگر دوسرا دن ختم ہوجانے کے بعد اعتکاف کو باطل کیا ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر دوسرے دن کے مکمل ہونے سے پہلےمستحب اعتکاف کو باطل کیا ہو تو اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوتی اور قضا نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۰:)اعتکاف کرنے والا،اعتکاف کی جگہ پر ٹھہرا رہے اور اس سے باہر نہ نکلے مگر ان مواقع پر کہ جہاں شرعی طورپر باہرنکلنا جائز ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۲)ان مواقع پر جہاں اعتکاف پر بیٹھنے والے کےلئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اس وقت سے زیادہ جتنا اس کام کے انجام دینے میں ضروری ہے مسجد سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔
اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا
مسئلہ (۱۷۴۳)وہ ضروری کام جسے انجام دئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جیسے بیت الخلاء جانا توایسی صورت میں اعتکاف کی جگہ سے نکلنا جائز ہے اور غسل جنابت کےلئے مسجدسے باہر جانا جائز بلکہ واجب ہے۔ اسی طرح عورتوں کو غسل استحاضہ کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے اور وہ مستحاضہ عورت جس پر غسل واجب ہے اگر وہ اپنے واجب غسلوں کو انجام نہ دے تو اس کے اعتکاف کے صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۴)واجب نماز کو ادا کرنے کےلئے وضو کی خاطر اعتکاف کی جگہ سےباہر نکلنا جائز ہے اگر چہ نماز کا وقت داخل نہ ہوا ہو اور قضا نماز کے وضو کی خاطر اس صورت میں کہ قضا کا وقت وسیع ہوتو اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۵)اگرخود مسجد میں وضو کرنے کےلئے اسباب فراہم ہوں تواعتکاف میں بیٹھنے والا شخص وضو کرنے کےلئے مسجد سےباہر نہیں جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۶)اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہوجائے اگر وہ ایسے غسلوں میں سے ہوجن کا مسجد میں انجام دینامانع ہو اور جائز نہ ہو جیسے غسل جنابت کہ اس صورت میں حالت جنابت میں مسجد میں ٹھہرنا لازم آتا ہے یا مسجد کے نجس ہونے کا سبب ہوجائے تو ضروری ہے کہ مسجد سے باہر جائے ورنہ اس کااعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر مسجد میں غسل کرنے میں کوئی مانع نہ ہو جیسے غسل مس میت اور غسل کرنا ممکن بھی ہوتو احتیاط واجب کی بناء پر مسجد سے نکلنا جائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۷)مستحب غسلوں کےلئے جیسے غسل جمعہ یا اعمال’’ ام داؤد‘‘ کے لئے غسل اور اسی طرح مستحب وضو کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے اور کلی طور سے رجحان رکھنے والے امور کےلئے مسجد سے باہر نکلنا محل اشکال اور احتیاط ہے سوائے ان امور کے جو عرف کےلئے ضروری کاموں میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن اعتکاف کرنے والا تجہیز وتکفین اور میت کو غسل دینے نماز ، دفن میت، مریض کی عیادت اور نماز جمعہ کےلئے اعتکاف کی جگہ سےباہر جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۸)اعتکاف کرنے والے کےلئے اس نماز جماعت میں شرکت کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے جو اعتکاف کی جگہ سے ہٹ کر ہو سوائے اس شخص کےجو مکۂ مکرمہ میں اعتکاف کےلئےبیٹھا ہے وہ نماز جماعت یا فرادیٰ نماز کےلئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے اور مکہ کی کسی بھی جگہ پر جاکر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۹)اعتکاف کرنے والے کےلئے اپنی ضرورت کی چیزوں کو فراہم کرنے کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ کوئی دوسرا شخص ان ضرورتوں کو فراہم کرنے کےلئے مامور ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۰)اعتکاف کرنے والا امتحانات میں شریک ہونے کےلئے باہر جاسکتا ہے چاہے یہ امتحانات کالج، یونیورسٹی یا حوزۂ علمیہ کے ہو ں البتہ امتحان میں شرکت عرف کے نزدیک ضروری ہو لیکن بہت دیر تک باہر نہ رہے اس طرح کہ اعتکاف کرنے کی صورت باقی نہ رہے مثلاً دو گھنٹے تک کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۱)اگر اعتکاف کرنے والا کسی ضروری کام کی خاطر مسجد سے باہر جائے لیکن اس کا باہر جانا بہت طولانی ہوجائے جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے تواس کا اعتکاف باطل ہے اگرچہ اس کا باہر جانا مجبوری ،اضطرار یا فراموشی یا کسی دباؤ کی بناء پر ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۲)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے عمداً ، اختیاری حالت میں اور حکم شرعی سے باخبر ہونے کے باوجود ضروری اور جائز کاموں کےعلاوہ باہر جاتا ہے تواس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۳)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے حکم شرعی سےناواقفیت کی بناءپر ضروری اور جائز کاموں کے علاوہ باہر نکلتا ہے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۴)اگر اعتکاف کرنے والا بھولے سےمسجد سے باہر نکل جائے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر کسی دباؤ یا مجبوری کی بنا پر مسجد سےباہر نکلے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا سوائے اس صورت میں کہ اس کا باہر جانا اتنی طولانی مدت کے لئے ہو جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے اس صورت میں اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۵)اگراعتکاف کرنے والے پر اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا واجب ہو جیسے وہ قرض جس کی ادائگی اس پر واجب ہے اور اس کی ادائگی کا وقت آچکا ہو اور اس کو ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو اور قرض دینے والا مطالبہ بھی کررہا ہو یا کسی دوسرے واجب کو ادا کرنا واجب ہوجس کو انجام دینے کےلئے باہر نکلنا ضروری ہو لیکن اعتکاف کرنے والااپنے وظیفہ کے خلاف عمل کرے اور باہر نہ نکلے تو گنہگار ہوگالیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۵۶)اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہےکہ ضرورت کی مقدار سے زیادہ مسجد سے باہر نہ ٹھہرے اور مسجد سے باہر ممکن ہونے کی صورت میں ضروری ہےکہ سایہ کے نیچے نہ بیٹھے لیکن اعتکاف کی جگہ سے باہر سایہ میں بیٹھنا اگر کسی ضروری کام اور ضرورت پوری کرنے کے لئے ہوکہ جو سایہ میں بیٹھنے پر موقوف ہوتو کوئی حرج نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر ضرورت پوری ہونے کے بعد مطلقاً نہ بیٹھے سوائے ضرورت کی صورت میں بیٹھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۷)اعتکاف کرنے والا مسجد سے باہر سایہ میں راستہ طے کرسکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ اس کو ترک کردے۔
مسئلہ (۱۷۵۸)اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلتے وقت یا اعتکاف کی جگہ پر پلٹتے وقت نزدیک ترین راستہ کی رعایت کرنا احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے سوائے یہ کہ لمبے راستہ کا انتخاب مسجد سےباہر کم ٹھہرنے کا لازمہ قرار پائے تو ضروری ہے کہ اس راستہ کا انتخاب کرے۔
اعتکاف کے مختلف مسائل
مسئلہ (۱۷۵۹)اعتکاف کرنے والا شخص اعتکاف کی ابتداء میں واجب معین اعتکاف کے علاوہ نیت میں شرط کرسکتا ہے کہ اگر کوئی مشکل پیش آئی تو میں اعتکاف کو چھوڑ دوں گا اس بناءپروہ یہ شرط رکھ کر مشکل کے وقت یا پریشانی کے وقت اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہے یہاں تک کہ تیسرے دن بھی چھوڑنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اعتکاف کرنے والا اگر یہ شرط کرے یہ بغیر کسی دشواری او رپریشانی کے میں اپنے اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہوں تو اس طرح کی شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہےکہ اس طرح کی شرطیں (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) اعتکاف شروع کرنے کے بعد یاشروع کرنے سے پہلے صحیح نہیں ہے بلکہ ضروری ہےکہ اعتکاف کے زمانے اور اعتکاف کی نیت کے ساتھ ہو۔
مسئلہ (۱۷۶۰)اعتکاف میں بالغ ہونا شرط نہیں ہے ممیز بچے کا اعتکاف بھی صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۱)اگر اعتکاف کرنے والا غصبی فرش یا زمین پر بیٹھے او راس کے غصبی ہونے سے باخبر ہوتو گنہگار ہوگا لیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا اور اگر کسی نے اعتکاف کے لئے پہلے سے کوئی جگہ لے لی ہو اور اعتکاف کرنے والا اس جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے تو اگر چہ گناہگار ہے مگر اس کا اعتکاف صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۲)اگر واجب اعتکاف کی نیت کے وقت (اعتکاف کے درمیان میں چھوڑنے کی شرط کرے) کہ جس کی تفصیل مسئلہ نمبر( ۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے ۔چنانچہ اگر اس نے حرام کاموں میں سے کوئی کام انجام دیا ہوتو اعتکاف کی قضا اور پھر سے اعتکاف کرنے میں سے کوئی کام ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۳)اگر کسی عورت کو جس نے اعتکاف کیا ہے اعتکاف کا دوسرا دن پورا ہونے کے بعد حیض آجائے تو واجب ہے کہ مسجد سے فوراً باہر نکل جائے اور احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرنا اس پر لازم ہے سوائے اس صورت میں کہ اعتکاف کی ابتداء میں ہی (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) قرار دی ہوجس کی تفصیل مسئلہ نمبر (۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۴)واجب اعتکاف کی قضا بجالانا فوراً واجب نہیں ہے لیکن قضا بجالانے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ جس سے واجب کی ادائگی میں کاہلی اور سستی شمار کی جائے اورفوراً قضا بجالانا احتیاط مستحب ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۵)وہ اعتکاف جو نذریا قسم یا عھد یا اعتکاف کا دودن گزر جانے کی بناء پر واجب ہوا ہے اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دوران انتقال کرجائے تواس کے ولی (بڑے بیٹے )پر اعتکاف کی قضا واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ مرنے والے کے اعتکاف کی قضا بجالائے ہاں اگر اعتکاف کرنے والے نے اس سلسلے میں وصیت کی ہو کہ اس کے ایک تہائی مال سے کسی کو اعتکاف کرنے کےلئے اجیر بنادیا جائےتو اس کی وصیت کے مطابق عمل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۶)اگر اعتکاف کرنے والا واجب اعتکاف کو بیوی سے ہمبستری کرکے عمداً باطل کردے خواہ دن میں ہو یا رات میں تو کفارہ واجب ہوجائے گا اور دوسرے حرام امور میں کفارہ نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہےکہ کفارہ دے او راعتکاف باطل کرنے کا کفارہ ماہ رمضان المبارک کے کفارہ کی طرح ہے کہ انسان ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیر کو کھانا کھلانے کے درمیان اختیار رکھتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ کفارۂ مُرَتّبہ کی رعایت کرے یعنی پہلے ساٹھ دن روزہ رکھے اگر قدرت نہ ہوتو ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔
مسئلہ (۱۷۶۷)ایک اعتکاف کو دوسرے اعتکاف میں بدلناجائز نہیں ہے خواہ دونوں واجب ہوں جیسے ایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعہ خود پر واجب کیا ہو یا دونوں مستحب ہوں یا پھر ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو یا ایک اپنے لئے اور دوسرا نیابت کے لئے اجیر بنا ہو یا دونوں دوسرے کی نیابت میں ہوں ۔
نیت
مسئلہ (۱۵۲۹)انسان کے لئے روزے کی نیت کا دل سے گزارنامثلاً یہ کہناکہ: ’’میں کل روزہ رکھوں گا‘‘ ضروری نہیں بلکہ اس کاارادہ کرناکافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اذان صبح سے مغرب تک کوئی ایسا کام نہیں کرے گاجس سے روزہ باطل ہوتاہو اوراس یقین کوحاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ دیراذان صبح سے پہلے اورکچھ دیرمغرب کے بعدبھی ایسے کام کرنے سے پرہیزکرے جن سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۳۰)انسان ماہ رمضان المبارک کی ہررات کواس سے اگلے دن کے روزے کی نیت کرسکتاہے ۔
مسئلہ (۱۵۳۱)وہ شخص جس کاروزہ رکھنے کاارادہ ہواس کے لئے ماہ رمضان میں روزے کی نیت کا آخری وقت ہنگام اذان صبح ہے یعنی احتیاط واجب کی بنا پر ہنگام اذان صبح روز ہ باطل کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا روزہ کی نیت کے ہمراہ ہو اگرچہ اس کے دل میں یہ بات نہ ہو۔
مسئلہ (۱۵۳۲)جس شخص نے ایساکوئی کام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرے تووہ جس وقت بھی دن میں مستحب روزے کی نیت کرلے اگرچہ مغرب ہونے میں کم وقت ہی رہ گیاہو،اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۳)جوشخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں اوراسی طرح واجب روزوں میں جن کے دن معین ہیں روزے کی نیت کئے بغیراذان صبح سے پہلے سوجائے اگروہ ظہر سے پہلے بیدارہوجائے اورروزے کی نیت کرے تواس کاروزہ صحیح ہے اور اگروہ ظہر کے بعدبیدارہوتواحتیاط کی بناپربقیہ روزہ کو قربت مطلقہ کی نیت سے ضروری ہے کہ امساک کرےاوراس دن کے روزے کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۴)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرا روزہ رکھناچاہے تو ضروری ہے کہ روزے کومعین کرے مثلاً نیت کرے کہ میں قضاکایا کفارے کاروزہ رکھ رہاہوں لیکن ماہ رمضان المبارک میں یہ نیت کرنا ضروری نہیں کہ ماہ رمضان کاروزہ رکھ رہاہوں بلکہ اگرکسی کوعلم نہ ہویابھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اورکسی دوسرے روزے کی نیت کرلے تب بھی وہ روزہ ماہ رمضان کاروزہ شمارہوگا اور نذر وغیرہ کے روزہ میں نذر کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۵)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ رمضان کامہینہ ہے اورجان بوجھ کرماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تووہ روزہ جس کی اس نے نیت کی ہے وہ روزہ شمارنہیں ہوگااور اسی طرح ماہ رمضان کاروزہ بھی شمارنہیں ہوگا اگر وہ نیت قصدقربت کے منافی ہے بلکہ اگرمنافی نہ ہو تب بھی( احتیاط کی بناپر)وہ روزہ ماہ رمضان کاروزہ شمارنہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۵۳۶)مثال کے طورپراگرکوئی شخص رمضان المبارک کے پہلے روزے کی نیت کرے لیکن بعدمیں معلوم ہوکہ یہ دوسرایاتیسراروزہ تھاتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۳۷)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرنے کے بعد بے ہوش ہوجائے اورپھراسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تو(احتیاط واجب کی بناپر) ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ تمام کرے اور اگرتمام نہ کرسکے تواس کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۸)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اورپھر بے حواس ہوجائے اورپھراسے دن میں کسی وقت ہوش آجائے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ تمام کرے اوراس کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۳۹)اگرکوئی شخص اذان صبح سے پہلے روزے کی نیت کرے اورسوجائے اورمغرب کے بعدبیدارہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۰)اگرکسی شخص کوعلم نہ ہویابھول جائے کہ ماہ رمضان ہے اور ظہرسے پہلے اس امر کی جانب متوجہ ہواوراس دوران کوئی ایساکام کرچکاہوجوروزے کوباطل کرتا ہے تواس کاروزہ باطل ہوگالیکن ضروری ہے کہ پھر مغرب تک کوئی ایساکام نہ کرے جو روزے کوباطل کرتاہواورماہ رمضان کے بعدروزے کی قضابھی کرے اوراگرظہر کے بعد متوجہ ہوکہ رمضان کامہینہ ہے تو(احتیاط واجب کی بناپر)رجاءً روزے کی نیت کرے اور رمضان کے بعد اس کی قضا بھی کرے اوراگر ظہرسے پہلے متوجہ ہواور کوئی ایساکام بھی نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہوتوضروری ہے کہ روزہ کی نیت کرے اوراس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۱)اگرماہ رمضان میں بچہ اذان صبح سے پہلے بالغ ہوجائے توضروری ہے کہ روزہ رکھے اوراگر اذان صبح کے بعدبالغ ہوتواس دن کا روزہ اس پرواجب نہیں ہے۔ لیکن اگرمستحب روزہ رکھنے کاارادہ کرلیاہوتواس صورت میں احتیاط مستحب کی بناپراس دن کے روزے کوپوراکرے۔
مسئلہ (۱۵۴۲)جوشخص میت کے روزے رکھنے کے لئے اجیربناہویااس کے ذمہ کفارے کے روزے ہوں اگروہ مستحب روزے رکھے توکوئی حرج نہیں لیکن اگرقضا روزے کسی کے ذمہ ہوں تووہ مستحب روزہ نہیں رکھ سکتااوراگربھول کرمستحب روزہ رکھ لے تواس صورت میں اگراسے ظہرسے پہلے یادآجائے تواس کامستحب روزہ کالعدم ہو جاتاہے اوروہ اپنی نیت قضا روزے کی جانب موڑسکتاہے اور اگروہ ظہر کے بعدمتوجہ ہو تو(احتیاط کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہے اوراگراسے مغرب کے بعدیادآئے تواس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۳)اگرماہ رمضان کے روزے کے علاوہ کوئی دوسرامخصوص روزہ انسان پر واجب ہومثلاًاس نے منت مانی ہوکہ ایک مقرر دن کوروزہ رکھے گااورجان بوجھ کر اذان صبح تک نیت نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے اوراگراسے معلوم نہ ہوکہ اس دن کاروزہ اس پر واجب ہے یابھول جائے اورظہرسے پہلے اسے یاد آئے تواگراس نے کوئی ایساکام نہ کیا ہوجوروزے کوباطل کرتاہواورروزے کی نیت کرلے تواس کاروزہ صحیح ہے اور اگرظہر کے بعداسے یادآئے توماہ رمضان کے روزے میں جس احتیاط کاذکر کیا گیاہے اس کاخیال رکھے گا۔
مسئلہ (۱۵۴۴)اگرکوئی شخص کسی غیرمعین واجب روزے کے لئے مثلاً روزئہ کفارہ کے لئے ظہرکے نزدیک تک عمداًنیت نہ کرے توکوئی حرج نہیں بلکہ اگرنیت سے پہلے مصمم ارادہ رکھتاہوکہ روزہ نہیں رکھے گایامذبذب ہوکہ روزہ رکھے یانہ رکھے تواگر اس نے کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہواورظہر سے پہلے روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۵)اگرکوئی کافرماہ رمضان میں ظہرسے پہلے مسلمان ہوجائے اور اذان صبح سے اس وقت تک کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہوتو(احتیاط واجب کی بنا پر)ضروری ہے کہ’’ ما فی الذمہ‘‘ کے روزہ کی نیت سے دن کے آخر تک امساک کرے اور اگراس دن کاروزہ نہ رکھے تواس کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۴۶)اگرکوئی بیمارشخص ماہ رمضان کے کسی دن میں ظہرسے پہلے صحت مند ہوجائے اوراس نے اس وقت تک کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہو تو (احتیاط واجب کی بناء پر) نیت کرکے اس دن کاروزہ رکھناضروری ہے اور اگرظہر کے بعدصحت مند ہوتواس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ اس دن کے روزہ کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۵۴۷)جس کے بارے میں انسان کوشک ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ، اس دن کا روزہ رکھنااس پرواجب نہیں ہے اوراگرروزہ رکھنا چاہے تورمضان المبارک کے روزے کی نیت نہیں کرسکتالیکن نیت کرے کہ اگررمضان ہے تورمضان کاروزہ ہے اوراگررمضان نہیں ہے توقضاروزہ یااسی جیساکوئی اورروزہ ہے توبعیدنہیں کہ اس کاروزہ صحیح ہولیکن بہتریہ ہے کہ قضا روزے وغیرہ کی نیت کرے اور اگر بعدمیں پتا چلے کہ ماہ رمضان تھاتورمضان کاروزہ شمارہوگالیکن اگر نیت صرف روزے کی کرے اوربعدمیں معلوم ہوکہ رمضان تھاتب بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۵۴۸)اگرکسی دن کے بارے میں انسان کوشک ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تووہ قضایامستحب یاایسے ہی کسی اورروزے کی نیت کرکے روزے رکھ لے اور دن میں کسی وقت اسے پتا چلے کہ ماہ رمضان ہے تو ضروری ہے کہ ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرلے۔
مسئلہ (۱۵۴۹)اگرکسی معین واجب روزے کے بارے میں مثلاً رمضان المبارک کے روزے کے بارے میں انسان مذبذب ہوکہ اپنے روزے کوباطل کرے یانہ کرے یا روزے کوباطل کرنے کاقصدکرےاگر دوسری مرتبہ روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اگر دوسری مرتبہ روزہ کی نیت کرے تو احتیاط واجب یہ ہےکہ اس دن کے روزہ کو پورا کرے اور بعد میں اس کی قضا بھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۵۰)اگرکوئی شخص جومستحب روزہ یاایساواجب روزہ مثلاً کفارے کا روزہ رکھے ہوئے ہوجس کاوقت معین نہ ہوکسی ایسے کام کاقصدکرے جوروزے کوباطل کرتا ہو یا مذبذب ہوکہ کوئی ایساکام کرے یانہ کرے تواگروہ کوئی ایساکام نہ کرے اورواجب روزے میں ظہر سے پہلے اورمستحب روزے میں غروب سے پہلے دوبارہ روزے کی نیت کرلے تواس کاروزہ صحیح ہے۔
وہ چیزیں جوروزے کوباطل کرتی ہیں :
مسئلہ (۱۵۵۱)آٹھ چیزیں روزے کوباطل کردیتی ہیں :
۱:)کھانااورپینا۔
۲:)جماع کرنا۔
۳:)استمناء۔ یعنی انسان اپنے ساتھ یاکسی دوسرے کے ساتھ جماع کے علاوہ کوئی ایسافعل کرے جس کے نتیجے میں منی خارج ہو اور عورت کےسلسلہ میں اس مسئلہ کا پیش آنااس طرح ہے جو مسئلہ (۳۴۵ )میں بیان کیا گیا ہے۔
۴:)اللہ تعالیٰ،پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورائمہ طاہرین علیہم السلام سے احتیاط واجب کی بناء پر کوئی جھوٹی چیز منسوب کرنا۔
۵:)احتیاط واجب کی بناء پر غلیظ غبار حلق تک پہنچانا۔(جیسے آٹا)
۶:)اذان صبح تک جنابت، حیض اورنفاس کی حالت میں رہنا۔
۷:)کسی سیال چیزسے حقنہ(انیما) کرنا۔
۸:)عمداًقے کرنا۔
ان مبطلات کے تفصیلی احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
۱ - کھانااورپینا
مسئلہ (۱۵۵۲)اگرروزہ داراس امر کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہ روزے سے ہے کوئی چیزجان بوجھ کر کھائے یاپئے تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اس سے قطع نظر کہ وہ چیزایسی ہوجسے عموماً کھایایاپیاجاتاہومثلاً روٹی اورپانی یاایسی ہوجسے عموماً کھایایاپیانہ جاتا ہو مثلاً مٹی اوردرخت کاشیرہ اور خواہ کم ہویازیادہ حتیٰ کہ اگرروزہ دارمسواک منہ سے نکالے اوردوبارہ منہ میں لے جائے اوراس کی تری نگل لے تب بھی روزہ باطل ہوجاتاہے سوائے اس صورت میں جب مسواک کی تری لعاب دہن میں گھل مل کراس طرح ختم ہو جائے کہ اسے بیرونی تری نہ کہاجاسکے۔
مسئلہ (۱۵۵۳)جب روزہ دار کھاناکھارہاہواگراسے معلوم ہوجائے کہ صبح ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ منہ کے لقمہ کو اگل دے اوراگرجان بوجھ کروہ لقمہ نگل لے تواس کا روزہ باطل ہے اور اس حکم کے مطابق جس کا ذکربعدمیں ہوگااس پرکفارہ بھی واجب ہے۔
مسئلہ (۱۵۵۴)اگرروزہ دارغلطی سے کوئی چیزکھالے یاپی لے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۵۵)انجکشن اور سرنج لگانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے چاہے انجکشن طاقت کےلئے یا گلوکوز اضافہ کرنے کےلئےہو اور اسی طرح وہ اسپرے جو سانس لینے میں تکلیف کےلئے استعمال ہوتا ہےاگر یہ دوا کو صرف سانس کی نالی میں پہونچائے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے اور اسی طرح آنکھ اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا اگر اس دوا کا ذائقہ گلے تک پہونچ جائے اور اگر ناک میں دوا ڈالی جائے تو اگر وہ حلق تک نہ پہونچے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۵۶)اگرروزہ دار دانتوں کی ریخوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیزعمداً نگل لے تو اس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۵۷)جوشخص روزہ رکھناچاہتاہواس کے لئے اذان صبح سے پہلے دانتوں میں خلال کرناضروری نہیں ہے لیکن اگراسے علم ہوکہ جوغذادانتوں کےدرمیان میں رہ گئی ہے وہ دن کے وقت پیٹ میں چلی جائے گی توخلال کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۵۵۸)منہ کاپانی نگلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتاخواہ ترشی وغیرہ کے تصور سے ہی منہ میں پانی بھرآیاہو۔
مسئلہ (۱۵۵۹)سراورسینے کابلغم جب تک منہ کے اندروالے حصہ تک نہ پہنچے اسے نگلنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگروہ منہ میں آجائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے تھوک دے ۔
مسئلہ (۱۵۶۰)اگرروزہ دارکواتنی پیاس لگے کہ اسے مرجانے کاخوف ہوجائے یا اسے نقصان کااندیشہ ہویااتنی سختی اٹھاناپڑھے جواس کے لئے ناقابل برداشت ہوتواتنا پانی پی سکتاہے کہ ان امورکاخوف ختم ہوجائے لیکن اس کاروزہ باطل ہوجائے گااوراگر ماہ رمضان ہوتو(احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے کہ اس سے زیادہ پانی نہ پیئے اوردن کے باقی حصے میں وہ کام کرنے سے پرہیز کرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۶۱)بچے یاپرندے کوکھلانے کے لئے غذاکاچبانایاغذاکاچکھنااوراسی طرح کے کام کرناجس میں غذا عموماً حلق تک نہیں پہنچتی خواہ وہ اتفاقاً حلق تک پہنچ جائے توروزے کوباطل نہیں کرتی۔لیکن اگرانسان شروع سے جانتاہو کہ یہ غذاحلق تک پہنچ جائے گی تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اورضروری ہے کہ اس کی قضا بجالائے اور کفارہ بھی اس پرواجب ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۲)انسان (معمولی) نقاہت کی وجہ سے روزہ نہیں چھوڑسکتالیکن اگر نقاہت اس حدتک ہوکہ عموماً برداشت نہ ہوسکے توپھرروزہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔
۲ - جماع
مسئلہ (۱۵۶۳)جماع روزے کوباطل کردیتاہے خواہ عضوتناسل سپاری تک ہی داخل ہواورمنی بھی خارج نہ ہو۔
مسئلہ (۱۵۶۴)اگرآلۂ تناسل سپاری سے کم داخل ہواورمنی بھی خارج نہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن جس شخص کی سپاری کٹی ہوئی ہواگروہ سپاری کی مقدار سے کم ترمقدار داخل کرے تواس کاروزہ بھی باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۵۶۵)اگرکوئی شخص عمداً جماع کاارادہ کرے اورپھرشک کرے کہ سپاری کے برابر دخول ہوا تھایانہیں تو اس مسئلہ کا حکم( ۱۵۴۹ )سے معلوم کیاجاسکتا ہے اور ہر صورت میں اگر کوئی ایساکام جو روزہ کو باطل کردیتا ہے انجام نہ دیا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۶)اگرکوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے اورجماع کرے یا اسے جماع پراس طرح مجبورکیاجائے کہ اس کااختیار باقی نہ رہے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگاالبتہ اگرجماع کی حالت میں اسے یادآجائے کہ روزے سے ہے یامجبوری ختم ہو جائے توضروری ہے کہ فوراً جماع ترک کردے اوراگرایسانہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔
۳ - استمناء
مسئلہ (۱۵۶۷)اگرروزہ داراستمناء کرے (استمناء کے معنی مسئلہ ( ۱۵۵۱ )میں بتائے جا چکے ہیں ) تواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۶۸)اگربے اختیار کسی کی منی خارج ہوجائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۵۶۹)اگرچہ روزہ دار کوعلم ہوکہ اگردن میں سوئے گاتواسے احتلام ہو جائے گا(یعنی سوتے میں اس کی منی خارج ہوجائے گی) تب بھی اس کے لئے سوناجائز ہے خواہ نہ سونے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ بھی ہواوراگراسے احتلام ہوجائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۷۰)اگرروزہ دار منی خارج ہوتے وقت نیندسے بیدارہوجائے تواس پر یہ واجب نہیں کہ منی کونکلنے سے روکے۔
مسئلہ (۱۵۷۱)جس روزہ دارکواحتلام ہوگیاہوتووہ پیشاب کرسکتاہے خواہ اسے یہ علم ہوکہ پیشاب کرنے سے باقی ماندہ منی نلی سے باہر آجائے گی۔
مسئلہ (۱۵۷۲)جب روزے دار کواحتلام ہوجائے اگراسے معلوم ہوکہ منی نالی میں رہ گئی ہے اوراگر غسل سے پہلے پیشاب نہیں کرے گاتوغسل کے بعدمنی اس کے جسم سے خارج ہوگی تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ غسل سے پہلے پیشاب کرے۔
مسئلہ (۱۵۷۳)جوشخص منی نکالنے کے ارادے سے چھیڑچھاڑاوردل لگی کرے اور اس کی منی خارج نہ ہوتو اگر دوبارہ روزہ کی نیت نہ کرے تواس کا روزہ باطل ہے اور اگر روزہ کی نیت کرے تو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ روزے کوتمام کرے اور اس کی قضا بھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۷۴)اگرروزہ دار منی نکالنے کے ارادے کے بغیرمثال کے طورپراپنی بیوی سے چھیڑچھاڑاورہنسی مذاق کرے اور اسے اطمینان ہوکہ منی خارج نہیں ہوگی تو اگرچہ اتفاقاً منی خارج ہوجائےتو اس کاروزہ صحیح ہے۔ البتہ اگراسے اطمینان نہ ہوتواس صورت میں جب منی خارج ہوگی تواس کاروزہ باطل ہوجائے گا۔
۴ - خدا،رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام پربہتان باندھنا
مسئلہ (۱۵۷۵)اگرروزہ دارزبان سے یالکھ کریااشارے سے یاکسی اور طریقے سے اللہ تعالیٰ یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ علیہم السلام میں سے کسی سے جان بوجھ کرکوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو(اگرچہ وہ فوراً کہہ دے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یا توبہ کرلے) تب بھی (احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہے اور(احتیاط مستحب کی بناپر) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اورتمام انبیاء و مرسلین ؑ اوران کے جانشینوں سے بھی کوئی جھوٹی بات منسوب کرنے کایہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۵۷۶)اگر (روزہ دار) کوئی ایسی روایت نقل کرناچاہے جس کے قطعی ہونے کی دلیل نہ ہواور اس کے بارے میں اسے یہ علم نہ ہوکہ سچ ہے یاجھوٹ تو(احتیاط واجب کی بناپر)ضروری ہے کہ جس شخص سے وہ روایت ہویاجس کتاب میں لکھی دیکھی ہو اس کاحوالہ دےاور اسے براہ راست پیغمبر اور ائمہ کی جانب نسبت نہ دے۔
مسئلہ (۱۵۷۷)اگرکوئی شخص کسی قول کے بارے میں اعتقاد رکھتاہوکہ وہ واقعی قول خدایاقول پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اوراسے اللہ تعالیٰ یاپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسوب کرے اور بعدمیں معلوم ہوکہ یہ نسبت صحیح نہیں تھی تواس کاروزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۵۷۸)اگرروزے دارکسی چیزکے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ جھوٹ ہے اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسوب کرے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ جو کچھ اس نے کہاتھاوہ درست تھا اور جانتا تھا کہ یہ عمل روزہ کو باطل کردیتا ہےتو(احتیاط لازم کی بناپر)ضروری ہے کہ روزے کوتمام کرے اوراس کی قضابھی بجالائے۔
مسئلہ (۱۵۷۹)اگرروزے دارکسی ایسے جھوٹ کوخودجوروزے دارنے نہیں بلکہ کسی دوسرے نے گڑھاہوجان بوجھ کراللہ تعالیٰ یارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یاآپ کےبرحق جانشینوں سے منسوب کردے تو(احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجائے گا لیکن اگر جس نے جھوٹ گڑھاہواس کاقول نقل کرے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۵۸۰)اگرروزے دارسے سوال کیاجائے کہ کیارسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا فرمایاہے اوروہ عمداً جہاں جواب نہیں دیناچاہئے وہاں اثبات میں دے اور جہاں اثبات میں دیناچاہئے وہاں عمداً نفی میں دے تو(احتیاط لازم کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجاتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۸۱)اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ یارسول کریم ر کاقول درست نقل کرے اوربعدمیں کہے کہ میں نے جھوٹ کہاہے یارات کوکوئی جھوٹی بات ان سے منسوب کرے اور دوسرے دن جب کہ روزہ رکھاہواہوکہے کہ جوکچھ میں نے گزشتہ رات کہا تھا وہ درست ہے(احتیاط کی بناپر) تواس کا روزہ باطل ہوجاتاہے لیکن اگروہ روایت کےصحیح یاغلط ہونے کے بارے میں بتائےتواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
۵ - غبارکوحلق تک پہنچانا
مسئلہ (۱۵۸۲)احتیاط واجب کی بناپرکثیف غبارکاحلق تک پہنچاناروزے کوباطل کر دیتاہے خواہ غبارکسی ایسی چیزکاہوجس کاکھاناحلال ہومثلاً آٹایاکسی ایسی چیزکاہوجس کا کھاناحرام ہومثلاًمٹی۔
مسئلہ (۱۵۸۳) غیرکثیف غبارحلق تک پہنچانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۸۴)اگرہواکی وجہ سے کثیف غبارپیداہواورانسان متوجہ ہونے اور احتیاط کرسکنے کے باوجود احتیاط نہ کرے اورغبار اس کے حلق تک پہنچ جائے تو(احتیاط واجب کی بناپر)اس کاروزہ باطل ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۵۸۵)احتیاط واجب یہ ہے کہ روزہ دار سگریٹ اورتمباکووغیرہ کادھواں بھی حلق تک نہ پہنچائے۔
مسئلہ (۱۵۸۶)اگرانسان احتیاط نہ کرے اورغبار یادھواں وغیرہ حلق میں چلاجائے تواگراسے یقین یا اطمینان تھاکہ یہ چیزیں حلق میں نہ پہنچیں گی تواس کاروزہ صحیح ہے لیکن اگر اسے گمان تھاکہ یہ حلق تک نہیں پہنچیں گی توبہتریہ ہے کہ اس روزے کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۵۸۷)اگرکوئی شخص بھول جائے کہ روزے سے ہے احتیاط نہ کرے یا بے اختیار غبار وغیرہ اس کے حلق میں پہنچ جائے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۵۸۸)پورا سرپانی میں ڈبو نے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے لیکن شدید مکروہ ہے۔
۶ - اذان صبح تک جنابت،حیض اور نفاس کی حالت میں رہنا
مسئلہ (۱۵۸۹)اگرمجنب شخص ماہ رمضان المبارک میں جان بوجھ کراذان صبح تک غسل نہ کرےیاجس کا وظیفہ تیمم ہو اور وہ تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ پورا کرے پھر ایک دن اور روزہ رکھے اور چونکہ یہ طے نہیں ہے کہ دوسرا روزہ قضا ہے یا سزا، لہٰذا رمضان کے اس دن کاروزہ بھی’’ ما فی الذمہ‘‘ کی نیت سے رکھے اور رمضان کے بعد بھی جس دن روزہ رکھے اس میں قضا کی نیت نہ کرے۔
مسئلہ (۱۵۹۰)اگر کوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے قضا روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ صبح کی اذان تک مجنب رہے تو اگر اس کا اس حالت میں رہنا عمداً ہوتواس دن کا روزہ نہیں رکھ سکتا اور اگر عمداً نہ ہوتو روزہ رکھ سکتا ہے اگر چہ احتیاط یہ ہےکہ روزہ نہ رکھے۔
مسئلہ (۱۵۹۱)ماہ رمضان المبارک کا روزہ اور اس کی قضا کےعلاوہ (دوسرے واجب و مستحب روزوں کی قسموں ) میں اگرجنب جان بوجھ کر اذان صبح تک حالت جنابت پر باقی رہے تو اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۲)اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں مجنب ہوجائے تو اگر وہ عمداً غسل نہ کرے حتیٰ کہ وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور روزہ رکھے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۳)اگرجنب شخص ماہ رمضان میں غسل کرنابھول جائے اورایک دن کے بعداسے یادآئے توضروری ہے کہ اس دن کاروزہ قضاکرے اوراگرچنددنوں کے بعد یادآئے تواتنے دنوں کے روزوں کی قضاکرے جتنے دنوں کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ جنب تھامثلاً اگراسے یہ علم نہ ہوکہ تین دن جنب رہایاچاردن توضروری ہے کہ تین دنوں کے روزوں کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۵۹۴)اگرایک ایساشخص اپنے آپ کوجنب کرلے جس کے پاس ماہ رمضان کی رات میں غسل اورتیمم میں سے کسی کے لئے بھی وقت نہ ہو تواس کاروزہ باطل ہے اوراس پرقضااورکفارہ دونوں واجب ہیں ۔
مسئلہ (۱۵۹۵)اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ اس کے پاس غسل کے لئے وقت نہیں ہے اوراپنے آپ کو جنب کرلے اور تیمم کرے یا یہ جانتا ہے کہ وقت ہے لیکن عمداً غسل کرنے میں تاخیر کرے حتی کہ وقت تنگ ہوجائے اور تیمم کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے اگر چہ وہ گنہگار ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۶)جوشخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواور جانتاہوکہ اگرسوئے گا توصبح تک بیدار نہ ہوگا (احتیاط واجب کی بنا پر)اسے بغیر غسل کئے نہیں سوناچاہئے اور اگر وہ غسل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے سوجائے اور صبح تک بیدارنہ ہوتوضروری ہے کہ اس دن کا روزہ مکمل کرے اور قضااور کفارہ دونوں اس پرواجب ہیں ۔
مسئلہ (۱۵۹۷)جب جنب ماہ رمضان کی رات میں سوکرجاگ اٹھے تو اگرچہ اس بات کااحتمال ہوکہ اگر دوبارہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گا تو وہ سوسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۸)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوریقین اور اطمینان رکھتا ہو کہ اگرسوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوراس کامصمم ارادہ ہوکہ بیدار ہونے کے بعدغسل کرے گااوراس ارادے کے ساتھ سوجائے اوراذان تک سوتا رہے تو اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۵۹۹)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوراسےاطمینان نہ ہوکہ اگرسوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوروہ اس بات سے غافل ہو کہ بیدارہونے کے بعداس پرغسل کرناضروری ہے تواس صورت میں جب کہ وہ سو جائے اورصبح کی اذان تک سویارہے (احتیاط کی بناپر) اس پرقضا واجب ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۰)اگرکوئی شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں جنب ہواوراسے یقین ہو یااحتمال اس بات کاہوکہ اگروہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدارہوجائے گااوروہ بیدار ہونے کے بعدغسل نہ کرناچاہتا ہوتواس صورت میں جب کہ وہ سوجائے اوربیدار نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس دن کے روزہ کو مکمل کرےاورقضااورکفارہ اس کے لئے لازم ہے اور اسی طرح اگربیدار ہونے کے بعداسے ترددہوکہ غسل کرے یانہ کرے تو (احتیاط لازم کی بناپر)یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۱)اگرجنب شخص ماہ رمضان کی کسی رات میں سوکرجاگ اٹھے اوراسے یقین ہویااس بات کااحتمال ہوکہ اگردوبارہ سوگیاتوصبح کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائے گا اور وہ مصمم ارادہ بھی رکھتاہو کہ بیدار ہونے کے بعدغسل کرے گااوردوبارہ سوجائے اور اذان تک بیدارنہ ہوتوضروری ہے کہ اس دن کاروزہ قضاکرے اور اگر دوسری نیند سے بیدارہوجائے اورتیسری دفعہ سوجائے اورصبح کی اذان تک بیدارنہ ہوتو ضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضا کرے اور(احتیاط مستحب کی بناپر)کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۰۲)وہ نیند جس میں انسان کو احتلام ہوا ہے پہلی نیند شمار کی جائے گی اب اگر جاگنے کے بعد دوبارہ سوجائے اور صبح کی اذان تک بیدار نہ ہو جیسا اس کے قبل مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے تو ضروری ہےکہ اس دن کےروزے کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۶۰۳)اگرکسی روزہ دار کودن میں احتلام ہوجائے تواس پرفوراًغسل کرنا واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۰۴)اگرکوئی شخص ماہ رمضان میں صبح کی اذان کے بعدجاگے اوریہ دیکھے کہ اسے احتلام ہوگیاہے تواگرچہ اسے معلوم ہوکہ یہ احتلام اذان سے پہلے ہواہے اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۵)جوشخص رمضان المبارک کے قضاروزے رکھناچاہتاہواگروہ صبح کی اذان کے بعدبیدار ہواوردیکھے کہ اسے احتلام ہوگیاہے اورجانتاہوکہ یہ احتلام اسے صبح کی اذان سے پہلے ہواہے تو وہ شخص اس دن ماہ رمضان کے روزے کی قضا کی نیت سے روزہ رکھ سکتاہے۔
مسئلہ (۱۶۰۶)اگررمضان کے روزوں میں عورت صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اورعمداً غسل نہ کرے اور اگر اس کا وظیفہ تیمم ہو اور تیمم نہ کرے تو ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ مکمل کرےاور اس دن کےروزے کی قضا بھی بجالائے اور ماہ رمضان کے روزوں کی قضا میں اگر عمداً غسل اور تیمم کو ترک کردے تو( احتیاط واجب کی بنا پر) اس دن کا رو زہ نہیں رکھ سکتی۔
مسئلہ (۱۶۰۷) وہ عورت جو ماہ رمضان المبارک کی شب میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے اگر عمداً غسل نہ کرے حتی وقت تنگ ہوجائے تو ضروری ہے کہ تیمم کرے اور اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۸)اگرکوئی عورت ماہ رمضان میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورغسل کے لئے وقت نہ ہوتوضروری ہے کہ تیمم کرے اور صبح کی اذان تک بیدارہناضروری نہیں ہے۔جس جنب شخص کاوظیفہ تیمم ہواس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۰۹)اگرکوئی عورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان کے نزدیک حیض یانفاس سے پاک ہوجائے اورغسل یاتیمم کسی کے لئے وقت باقی نہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۰)اگرکوئی عورت صبح کی اذان کے بعدحیض یانفاس کے خون سے پاک ہوجائے یادن میں اسے حیض یانفاس کاخون آجائے تواگرچہ یہ خون مغرب کے قریب ہی کیوں نہ آئے اس کاروزہ باطل ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۱)اگرعورت حیض یانفاس کاغسل کرنابھول جائے اوراسے ایک دن یا کئی دن کے بعدیاد آئے توجوروزے اس نے رکھے ہوں وہ صحیح ہیں ۔
مسئلہ (۱۶۱۲)اگرعورت ماہ رمضان المبارک میں صبح کی اذان سے پہلے حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے اورغسل کرنے میں کوتاہی کرے اورصبح کی اذان تک غسل نہ کرے اوروقت تنگ ہونے کی صورت میں تیمم بھی نہ کرے تو( جیسا کہ گذر چکا ہے) اس دن کےروزے کو مکمل کرے اور قضا بھی بجالائے لیکن اگرکوتاہی نہ کرے مثلاً منتظرہوکہ زنانہ حمام میسرآجائے خواہ اس مدت میں وہ تین دفعہ سوئے اور صبح کی اذان تک غسل نہ کرے اورتیمم کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرے تواس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۳)جوعورت استحاضۂ کثیرہ کی حالت میں ہواگروہ اپنے غسلوں کواس تفصیل کے ساتھ نہ بجالائے جس کاذکرمسئلہ ( ۳۹۴) میں کیاگیاہے تواس کاروزہ صحیح ہے۔اسی طرح استحاضۂ متوسطہ میں اگرچہ عورت غسل نہ بھی کرے، اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۴)جس شخص نے میت کومس کیاہو(یعنی اپنے بدن کاکوئی حصہ میت کے بدن سے چھوا ہو)وہ غسل مس میت کے بغیر روزہ رکھ سکتاہے اوراگرروزے کی حالت میں بھی میت کومس کرے تواس کاروزہ باطل نہیں ہوتا۔
۷ - حقنہ لینا[6]
مسئلہ (۱۶۱۵)سیال چیزسے حقنہ (انیما) اگرچہ بہ امرمجبوری اورعلاج کی غرض سے لیاجائے روزے کو باطل کردیتاہے۔
۸ - قے کرنا
مسئلہ (۱۶۱۶)اگرروزہ دارجان بوجھ کرقے کرے تواگرچہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایساکرنے پرمجبور ہواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے لیکن اگرسہواًیابے اختیارہوکرقے کرے توکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۱۷)اگرکوئی شخص رات کو ایسی چیزکھالے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کے کھانے کی وجہ سے دن میں بے اختیار قے آئے گی تو اس دن کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۱۸)اگرروزہ دارقے روک سکتاہواگریہ قے اپنے آپ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ اسے روکے۔
مسئلہ (۱۶۱۹)اگرروزے دارکے حلق میں مکھی چلی جائے چنانچہ وہ اس حدتک اندر چلی گئی ہوکہ اس کے نیچے لے جانے کونگلنانہ کہاجائے توضروری نہیں کہ اسے باہر نکالاجائے اوراس کاروزہ صحیح ہے لیکن اگر مکھی کافی حدتک اندرنہ گئی ہوتوضروری ہے کہ باہرنکالے اگرچہ اسے قے کرکے ہی نکالناپڑے( مگریہ کہ قے کرنے میں روزہ دار کو ضرر اورشدیدتکلیف ہو)اوراگروہ قے نہ کرے اوراسے نگل لے تواس کا روزہ باطل ہو جائے گا اور اگر اس کو قے کرکےباہر نکالے تب بھی اس کا روزہ باطل ہوجائےگا۔
مسئلہ (۱۶۲۰)اگرروزہ دار سہواًکوئی چیزنگل لے اوراس کے پیٹ میں پہنچنے سے پہلے اسے یادآجائے کہ روزے سے ہے چنانچہ اس قدر نیچے چلی گئی ہو کہ اگر اسے معدہ تک لے جائے تو اسے کھانانہ کہاجائے تو اسےباہر نکالنا ضروری نہیں ہے اور اس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۲۱)اگرکسی روزہ دارکویقین ہوکہ ڈکارلینے کی وجہ سے کوئی چیزاس کے حلق سے باہر آجائے گی چنانچہ ڈکار لینا اس طرح ہو کہ اس پر قے صادق آئے تو عمداً ڈکار نہیں لینا چاہیے لیکن اگر اسے ایسا یقین نہ ہوتوکوئی حرج نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۲۲)اگرروزہ دارڈکارلے اورکوئی چیزاس کے حلق یامنہ میں آجائے تو ضروری ہے کہ اسے اگل دے اوراگروہ چیزبے اختیار پیٹ میں چلی جائے تواس کاروزہ صحیح ہے۔
ان چیزوں کے احکام جوروزے کوباطل کرتی ہیں
مسئلہ (۱۶۲۳)اگرانسان جان بوجھ کراوراختیارکے ساتھ کوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہوتواس کاروزہ باطل ہوجاتاہے اوراگرکوئی ایساکام جان بوجھ کرنہ کرے توپھراشکال نہیں لیکن اگرجنب سوجائے اوراس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ (۱۶۰۰) میں بیان کی گئی ہے صبح کی اذان تک غسل نہ کرے تواس کاروزہ باطل ہے۔ چنانچہ اگر انسان نہ جانتاہوکہ جوباتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے بعض روزے کوباطل کرتی ہیں اگر اس میں کوتاہی نہ کیا ہو اور مذبذب بھی نہ ہو یایہ کہ شرعی حجت پر اعتماد رکھتا ہواور کھانے پینے اورجماع کے علاوہ ان افعال میں سے کسی فعل کوانجام دے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۲۴)اگرروزہ دار سہواًکوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہواور اس خیال سے کہ اس کاروزہ باطل ہوگیاہے دوبارہ عمداً کوئی اورایساہی کام کرے توگذشتہ مسئلہ کاحکم اس شخص کےبارےمیں جاری ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۲۵)اگرکوئی چیززبردستی روزہ دارکے حلق میں انڈیل دی جائے تواس کا روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اگراسے مجبورکیاجائےکہ اپنے روزے کوکھانے پینے یا جماع سے توڑ دے مثلاً اسے کہاجائے کہ اگرتم غذا نہیں کھاؤ گے توہم تمہیں مالی یاجانی نقصان پہنچائیں گے اوروہ نقصان سے بچنے کے لئے اپنے آپ کچھ کھالے تواس کاروزہ باطل ہوجائے گااور ان تین چیزوں کےعلاوہ بھی( احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ باطل ہوجائےگا۔
مسئلہ (۱۶۲۶)روزہ دارکوایسی جگہ نہیں جاناچاہئے جس کے بارے میں وہ جانتاہو کہ لوگ کوئی چیز اس کے حلق میں ڈال دیں گے یااسے روزہ توڑنے پرمجبورکریں کہ تم خوداپنا روزہ توڑدو اور اگر ایسی جگہ جائے یابہ امرمجبوری وہ خود کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہو تواس کا روزہ باطل ہوجاتاہے اوراگرکوئی چیز اس کے حلق میں انڈیل دیں تو(احتیاط لازم کی بنا پر)یہی حکم ہے۔
وہ چیزیں جوروزہ دار کے لئے مکروہ ہیں
مسئلہ (۱۶۲۷)روزہ دارکے لئے کچھ چیزیں مکروہ ہیں اوران میں سے بعض یہ ہیں :
۱:) آنکھ میں دواڈالنااورسرمہ لگاناجب کہ اس کامزہ یابوحلق میں پہنچے۔
۲:)ہرایساکام کرناجوکمزوری کاباعث ہومثلاًفصدکھلوانااورحمام جانا۔
۳:)ناک میں دوا ڈالنا اگریہ علم نہ ہوکہ حلق تک پہنچے گی اور اگریہ علم ہوکہ حلق تک پہنچے گی تواس کااستعمال جائزنہیں ہے۔
۴:)خوشبودارگھاس سونگھنا۔
۵:)عورت کاپانی میں بیٹھنا۔
۶:)شیاف استعمال کرنایعنی کسی خشک چیزسے انیمالینا۔
۷:)جولباس پہن رکھاہواسے ترکرنا۔
۸:)دانت نکلوانااورہروہ کام کرناجس کی وجہ سے منہ سے خون نکلے۔
۹:)ترلکڑی سے مسواک کرنا۔
۱۰:)بلاوجہ پانی یاکوئی اورسیال چیزمنہ میں ڈالنا۔
اوریہ بھی مکروہ ہے کہ منی نکالنے کے قصد کے بغیر انسان اپنی بیوی کابوسہ لے یا کوئی شہوت انگیزکام کرے ۔
ایسے مواقع جن میں روزہ کی قضا اورکفارہ واجب ہوجاتا ہے
مسئلہ (۱۶۲۸)اگرکوئی ماہ رمضان کے روزے کوکھانےیا پینے یاہم بستری یا استمناء یا جنابت پرباقی رہنے کی وجہ سے باطل کرے جب کہ جبراورناچاری کی بناپر نہیں بلکہ عمداً اور اختیاراًایساکیاہوتواس پرقضاکے علاوہ کفارہ بھی واجب ہوگااورجوکوئی مذکورہ امور کے علاوہ کسی اورطریقے سے روزہ باطل کرے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ قضاکے علاوہ کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۲۹)جن امورکاذکرکیاگیاہے اگرکوئی ان میں سے کسی فعل کوانجام دے جب کہ اسے پختہ یقین ہوکہ اس عمل سے اس کاروزہ باطل نہیں ہوگاتواس پرکفارہ واجب نہیں ہے اور یہی حکم ہے اس شخص کےلئے جونہیں جانتا کہ اس پر روزہ واجب ہے جیسے ابتدائے بلوغ میں بچے۔
روزے کاکفارہ
مسئلہ (۱۶۳۰)ماہ رمضان کاروزہ توڑنے کے کفارے کے طورپرضروری ہے کہ انسان ایک غلام آزاد کرے یا ان احکام کے مطابق جوآئندہ مسئلے میں بیان کئے جائیں گے دومہینے روزے رکھے یاساٹھ فقیروں کو پیٹ بھرکرکھاناکھلائے یاہرفقیرکوایک مدتقریباً ’’۷۵۰‘‘ گرام طعام( یعنی گندم یاجویاروٹی وغیرہ دے) اوراگریہ افعال انجام دینا اس کے لئے ممکن نہ ہوتوبقدرامکان صدقہ دیناضروری ہے اوراگریہ ممکن نہ ہو تو توبہ واستغفار کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جس وقت کفارہ دینے کے قابل ہوجائے کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۳۱)جوشخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طورپردوماہ روزے رکھناچاہے تو ضروری ہے کہ ایک پورامہینہ اوراس سے اگلے مہینے کے ایک دن تک مسلسل روزے رکھے اور احتیاط واجب کی بناء پرباقی روزے بھی ضروری ہے کہ پے در پے بجالائے لیکن اگر کوئی رکاوٹ پیش آجائے جسے عرف میں عذرکہا جائے تو وہ اس دن روزہ چھوڑ سکتا ہے اور پھر عذر ختم ہونے کے بعد دوبارہ روزہ جاری رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۲)جوشخص ماہ رمضان کے روزے کے کفارے کے طورپردوماہ روزے رکھناچاہتاہے ضروری ہے کہ وہ روزے ایسے وقت نہ رکھے جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ ایک مہینے اورایک دن کے درمیان عیدقربان کی طرح کوئی ایسادن آجائے گاجس کا روزہ رکھناحرام ہے یا اس میں روزہ رکھناواجب ہے۔
مسئلہ (۱۶۳۳)جس شخص کومسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں وہ ان کے بیچ میں بغیر عذرکے ایک دن روزہ نہ رکھے توضروری ہے کہ دوبارہ ازسرنوروزے رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۴)اگران دنوں کے درمیان جن میں مسلسل روزے رکھنے ضروری ہیں روزہ دار کوکوئی عذرپیش آجائے مثلاً حیض یانفاس یاایساسفرجسے اختیار کرنے پر وہ مجبورہوتوعذرکے دورہونے کے بعدروزوں کاازسرنورکھنااس کے لئے واجب نہیں بلکہ وہ عذردورہونے کے بعد باقیماندہ روزے رکھے۔
مسئلہ (۱۶۳۵)اگرکوئی شخص حرام چیزسے اپناروزہ باطل کردے خواہ وہ چیزبذات خود حرام ہوجیسے شراب اورزنایاکسی وجہ سے حرام ہوجائے جیسے کہ حلال غذاجس کاکھانا انسان کے لئے بالعموم مضرہویا وہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو ایک کفارہ دینا کافی ہے لیکن( احتیاط مستحب) یہ ہے کہ مجموعاً کفارہ دے۔یعنی اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور دومہینے روزے رکھے اورساٹھ فقیروں کوپیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا ان میں سے ہرفقیرکو ایک مد گندم یاجویاروٹی وغیرہ دے اوراگریہ تینوں چیزیں اس کے لئے ممکن نہ ہوں تو ان میں سے جوکفارہ ممکن ہوادا کرے۔
مسئلہ (۱۶۳۶)اگرروزہ دارجان بوجھ کراللہ تعالیٰ یانبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو کفارہ نہیں ہے مگراحتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۳۷)اگرروزہ دارماہ رمضان کے ایک دن میں کئی مرتبہ کھاناکھانے یا پانی پینےیا جماع یا استمناء کرے توان سب کےلئے ایک کفارہ کافی ہے ۔
مسئلہ (۱۶۳۸)اگرروزہ دار ماہ رمضان کے ایک دن میں جماع اوراستمناء کے علاوہ کئی دفعہ کوئی دوسراایساکام کرے جوروزے کو باطل کرتاہواور اس کے بعد جائز طریقہ سے جماع کرے تو دونوں کےلئے ایک ہی کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۳۹)اگرروزہ دارکوئی حلال کام کرے جو روزے کو باطل کرتاہو(جیسے پانی پینا) اور پھر دوسرا حرام کام کرے جو روزہ کو باطل کرتا ہے جیسے حرام غذا کھانا تو ایک کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۰)اگرروزہ دار ڈکارلے اورکوئی چیز اس کے منہ میں آجائے تو اگروہ اسے جان بوجھ کر نگل لے تو( احتیاط واجب کی بناء پر)اس کاروزہ باطل ہے اورضروری ہے کہ اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی اس پرواجب ہوجاتا ہے اور اگراس چیزکاکھاناحرام ہومثلاً ڈکارلیتے وقت خون یاایسی خوراک جوغذاکی تعریف میں نہ آتی ہواس کے منہ میں آجائے اوروہ اسے جان بوجھ کرنگل لے توبہتر ہے کہ کفارہ جمع یعنی مجموعاً کفارہ دے۔
مسئلہ (۱۶۴۱)اگرکوئی شخص منت مانے کہ ایک خاص دن روزہ رکھے گاتواگروہ اس دن جان بوجھ کر اپنے روزے کوباطل کردے توضروری ہے کہ کفارہ دے اور اس کا کفارہ احکام نذر میں آئےگا۔
مسئلہ (۱۶۴۲)اگرروزہ دارایک ایسے شخص کے کہنے پرجوکہے کہ مغرب کاوقت ہو گیاہے اورجس کے کہنے پراسے اعتماد نہ ہوروزہ افطار کرلے اوربعدمیں اسے پتا چلے کہ مغرب کاوقت نہیں ہوایا شک کرے کہ مغرب کاوقت ہواہے یانہیں تواس پرقضااور کفارہ دونوں واجب ہوجاتے ہیں اگر اس کی بات پر اعتماد تھا تو صرف قضا لازم ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۳)جوشخص جان بوجھ کراپناروزہ باطل کرلے اوراگروہ ظہرکے بعدسفر کرے یاکفارے سے بچنے کے لئے ظہرسے پہلے سفرکرے تواس پرسے کفارہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ اگرظہرسے پہلے اتفاقاً اسے سفرکرناپڑے تب بھی کفارہ اس پرواجب ہے ۔
مسئلہ (۱۶۴۴)اگرکوئی شخص جان بوجھ کراپناروزہ توڑدے اوراس کے بعد کوئی عذر پیداہوجائے مثلاً حیض یانفاس یابیماری میں مبتلاہوجائے تواحتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ دےخاص طور سے دوا کے ذریعہ حیض یا بیماری میں مبتلا ہو۔
مسئلہ (۱۶۴۵)اگرکسی شخص کویقین ہوکہ آج ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہے اور وہ جان بوجھ کر روزہ توڑدے لیکن بعدمیں اسے پتا چلے کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے تو اس پرکفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۶)اگر کسی شخص کوشک ہوکہ آج رمضان کی آخری تاریخ ہے یاشوال کی پہلی تاریخ اوروہ جان بوجھ کرروزہ توڑدے اوربعدمیں پتا چلے کہ پہلی شوال ہے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۷)اگرایک روزہ دار ماہ رمضان میں اپنی روزہ دار بیوی سے جماع کرے تواگراس نے بیوی کو مجبورکیاہوتواپنے روزے کاکفارہ اوراحتیاط کی بناپر ضروری ہے کہ اپنی بیوی کے روزے کابھی کفارہ دے اوراگربیوی جماع پرراضی ہوتوہرایک پر ایک کفارہ واجب ہوجاتاہے۔
مسئلہ (۱۶۴۸)اگرکوئی عورت اپنے روزہ دار شوہرکوجماع کرنے پرمجبورکرے تو اس پرشوہر کے روزے کاکفارہ اداکرناواجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۴۹)اگرروزہ دارماہ رمضان میں اپنی بیوی کوجماع پرمجبور کرے اور جماع کے دوران عورت بھی جماع پرراضی ہوجائے تو ہر ایک پر ایک کفارہ واجب ہے اور احتیاط مستحب کی بناپر مرددوکفارے دے۔
مسئلہ (۱۶۵۰)اگرروزہ دار ماہ رمضان المبارک میں اپنی روزہ دار بیوی سے جو سو رہی ہوجماع کرے تواس پر ایک کفارہ واجب ہوجاتاہے اور عورت کاروزہ صحیح ہے اور اس پرکفارہ بھی واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۱)اگرشوہراپنی بیوی کویابیوی اپنے شوہرکو جماع کے علاوہ کوئی ایسا کام کرنے پرمجبورکرے جس سے روزہ باطل ہوجاتاہوتوان دونوں میں سے کسی پر بھی کفارہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۲)جوآدمی سفریابیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھے وہ اپنی روزہ دار بیوی کو جماع پرمجبورنہیں کرسکتالیکن اگرمجبورکرے تب بھی مردپرکفارہ واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۳)ضروری ہے کہ انسان کفارہ دینے میں کوتاہی نہ کرے لیکن فوری طور پردینابھی ضروری نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۴)اگرکسی شخص پرکفارہ واجب ہواوروہ کئی سال تک ادا نہ کرے توکفارے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
مسئلہ (۱۶۵۵)جس شخص کوبطورکفارہ ایک دن ساٹھ فقیروں کو کھاناکھلاناضروری ہو اگرساٹھ فقیرموجود ہوں تو وہ ان کی تعداد کم نہیں کرسکتا ہےچاہے وہ کفارہ کی مقدار انھیں دے دے۔ مثلاً تیس فقیروں میں سے ہرایک کودو مد کھانا کھلائے اور اسی پر اکتفا کرے لیکن وہ فقیر کےخاندان کے ہر فرد کو اگر چہ وہ چھوٹے ہوں ایک مد کھانادے دے اور فقیر اپنے خاندان کی وکالت یا بچوں کی سرپرستی کی بناپر اسے قبول کرلیں اور اگر ساٹھ فقیر نہ ملیں اور مثلاً تیس فقیر ہی ملیں تو وہ ہر ایک فرد کو دو مد کھانا دے سکتا ہے لیکن( احتیاط واجب کی بنا پر) جب طاقت پیدا ہوجائے تو دوسرے تیس فقیروں کو بھی ایک مد کھانا دے دے۔
مسئلہ (۱۶۵۶)جوشخص ماہ رمضان المبارک کے روزے کی قضا کرے اگروہ ظہر کے بعدجان بوجھ کرکوئی ایساکام کرے جوروزے کو باطل کرتاہوتوضروری ہے کہ دس فقیروں کو فرداًفرداًایک مدکھانادے اوراگرنہ دے سکتاہوتوتین روزے رکھے۔
وہ صورتیں جن میں فقط روزے کی قضا واجب ہے
مسئلہ (۱۶۵۷)جوصورتیں بیان ہوچکی ہیں ان کے علاوہ ان چندصورتوں میں انسان پرصرف روزے کی قضاواجب ہے اور کفارہ واجب نہیں ہے:
۱:) ایک شخص ماہ رمضان کی رات میں جنب ہوجائے اورجیساکہ مسئلہ ( ۱۶۰۱) میں تفصیل سے بتایاگیاہے صبح کی اذان تک دوسری نیندسے بیدارنہ ہو۔
۲:)روزے کوباطل کرنے والاکام تونہ کیاہولیکن روزے کی نیت نہ کرے یاریا کرے (یعنی لوگوں پرظاہرکرے کہ روزے سے ہوں ) یاروزہ نہ رکھنے کاارادہ کرے۔ اسی طرح اگرایسے کام کاارادہ کرے جوروزہ کوباطل کرتاہوتواس تفصیل کےمطابق جو( ۱۵۴۹) میں بیان کی گئی ہے عمل کرے۔
۳:)ماہ رمضان المبارک میں غسل جنابت کرنابھول جائے اورجنابت کی حالت میں ایک یا کئی دن روزے رکھتارہے۔
۴:)ماہ رمضان المبارک میں یہ تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوئی ہے یانہیں کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہواوربعدمیں پتا چلے کہ صبح ہوچکی تھی ۔
۵:)کوئی کہے کہ صبح نہیں ہوئی اورانسان اس کے کہنے کی بناپرکوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہواوربعدمیں پتا چلے کہ صبح ہوگئی تھی۔
۶:)کوئی کہے کہ صبح ہوگئی ہے اورانسان اس کے کہنے پریقین نہ کرے یاسمجھے کہ مذاق کررہاہے اورخود بھی تحقیق نہ کرے اورکوئی ایساکام کرے جو روزے کوباطل کرتاہواور بعد میں معلوم ہوکہ صبح ہوگئی تھی۔
۷:)یہ کہ کسی ایسے دوسرے شخص کے کہنے پر افطار کرے کہ جس کی بات اس کے لئے شرعاً حجت ہے یا اس پر اندھی عقیدت کی بناء پر اعتماد کرتے ہوئے کہ اس کی خبر حجت ہے افطار کرلے اوربعدمیں پتا چلے کہ ابھی مغرب کاوقت نہیں ہواتھا۔
۸:)انسان کویقین یااطمینان ہوکہ مغرب ہوگئی ہے اوروہ روزہ افطارکرلے اور بعد میں پتا چلے کہ مغرب نہیں ہوئی تھی۔لیکن اگرمطلع ابرآلودہواورانسان اس گمان کے تحت روزہ افطارکرلے کہ مغرب ہوگئی ہے اور بعدمیں معلوم ہوکہ مغرب نہیں ہوئی تھی تو احتیاط کی بناپراس صورت میں قضاواجب ہے۔
۹:)انسان پیاس کی وجہ سے کلی کرے یعنی پانی منہ میں گھمائے اوربے اختیار پانی پیٹ میں چلاجائے۔ لیکن اگرانسان بھول جائے کہ روزے سے ہے اورپانی گلے سے اترجائے یاپیاس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں کہ جہاں کلی کرنا مستحب ہے جیسے وضو کرتے وقت کلی کرے اورپانی بے اختیار پیٹ میں چلا جائے تواس کی قضانہیں ہے۔
۱۰:)کوئی شخص مجبوری،اضطراریاتقیہ کی حالت میں روزہ افطار کرےاگر مجبوری اور تقیہ کی حالت کھانایا پینا یاجماع ہو اور اسی طرح ان کے علاوہ مقام میں بناء بر احتیاط واجب یہی حکم ہے تواس پر روزے کی قضارکھنالازم ہے لیکن کفارہ واجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۵۸)اگرروزہ دارپانی کے علاوہ کوئی چیزمنہ میں ڈالے اوروہ بے اختیار پیٹ میں چلی جائے یا ناک میں پانی ڈالے اوروہ بے اختیار حلق کے نیچے اترجائے تواس پرقضاواجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۵۹)روزہ دارکے لئے زیادہ کلیاں کرنامکروہ ہے اوراگرکلی کے بعد لعاب دہن نگلناچاہے توبہترہے کہ پہلے تین دفعہ لعاب کوتھوک دے۔
مسئلہ (۱۶۶۰)اگرکسی شخص کومعلوم ہویااسے احتمال ہوکہ کلی کرنے سے بے اختیار یا بھولے سے پانی اس کے حلق میں چلاجائے گاتوضروری ہے کہ کلی نہ کرے اور اگر جانتا ہو کہ بھول جانے کی وجہ سے پانی اس کے حلق میں چلاجائے گاتب بھی( احتیاط واجب کی بناپر)یہی حکم ہے اگر اس حالت میں کلی کرلیا اور پانی نیچے نہیں گیا تو(احتیاط واجب کی بناء پر) قضا لازم ہے۔
مسئلہ (۱۶۶۱)اگرکسی شخص کوماہ رمضان المبارک میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم نہ ہوکہ صبح ہوگئی ہے اوروہ کوئی ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتاہے اوربعدمیں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تواس کے لئے روزے کی قضاکرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۶۲)اگرکسی شخص کوشک ہوکہ مغرب ہوگئی ہے یانہیں تووہ روزہ افطار نہیں کرسکتالیکن اگراسے شک ہوکہ صبح ہوئی ہے یانہیں تووہ تحقیق کرنے سے پہلے ایساکام کر سکتاہے جوروزے کو باطل کرتاہو۔
قضاروزے کے احکام
مسئلہ (۱۶۶۳)اگرکوئی دیوانہ اچھاہوجائے تواس کے لئے عالم دیوانگی کے روزوں کی قضاواجب نہیں ۔
مسئلہ (۱۶۶۴)اگرکوئی کافرمسلمان ہوجائے تواس پرزمانۂ کفرکے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے لیکن اگرایک مسلمان کافرہوجائے اورپھردوبارہ مسلمان ہوجائے تو ضروری ہے ایام کفر کے روزوں کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۶۵)جوروزے انسان کی بے حواسی کی وجہ سے چھوٹ جائیں ضروری ہے کہ ان کی قضابجالائے خواہ جس چیزکی وجہ سے وہ بے حواس ہواہووہ علاج کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ (۱۶۶۶)اگرکوئی شخص کسی عذرکی وجہ سے چنددن روزے نہ رکھے اوربعد میں شک کرے کہ اس کاعذرکس وقت زائل ہواتھاتواس کے لئے واجب نہیں کہ جتنی مدت روزے نہ رکھنے کازیادہ احتمال ہو اس کے مطابق قضابجالائے مثلاًاگرکوئی شخص رمضان المبارک سے پہلے سفرکرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ ماہ مبارک رمضان کی پانچویں تاریخ کو سفر سے واپس آیاتھایاچھٹی کویامثلاً اس نے ماہ مبارک رمضان کے آخرمیں سفر شروع کیاہواورماہ مبارک رمضان ختم ہونے کے بعدواپس آیاہواوراسے پتا نہ ہوکہ پچیسویں رمضان کوسفرکیاتھایا چھبیسویں کوتودونوں صورتوں میں وہ کمتردنوں یعنی پانچ روزوں کی قضا کرسکتاہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ زیادہ دنوں یعنی چھ روزوں کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۶۶۷)اگرکسی شخص پرکئی سال کے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا واجب ہوتوجس سال کے روزوں کی قضاپہلے کرناچاہے کرسکتاہے لیکن اگرآخررمضان المبارک کے روزوں کی قضاکاوقت تنگ ہومثلاًآخری رمضان المبارک کے پانچ روزوں کی قضااس کے ذمے ہواورآئندہ رمضان المبارک کے شروع ہونے میں بھی پانچ ہی دن باقی ہوں توبہتریہ ہے کہ پہلے آخری رمضان المبارک کے روزوں کی قضابجا لائے۔
مسئلہ (۱۶۶۸)اگرکسی شخص پرکئی سال کے ماہ رمضان کے روزوں کی قضاواجب ہو اور وہ روزہ کی نیت کرتے وقت معین نہ کرے کہ کس رمضان المبارک کے روزے کی قضاکررہاہے تواس کاشمارآخری ماہ رمضان کی قضامیں نہیں ہوگا جس سے تاخیر کرنے کا کفارہ ساقط ہوجائے۔
مسئلہ (۱۶۶۹)جس شخص نے رمضان المبارک کاقضاروزہ رکھاہووہ اس روزے کو ظہر سے پہلے توڑسکتاہے لیکن اگرقضاکاوقت تنگ ہوتوبہترہے کہ روزہ نہ توڑے۔
مسئلہ (۱۶۷۰)اگرکسی نے میت کاقضاروزہ رکھاہوتوبہتریہ ہے کہ ظہرکے بعدروزہ نہ توڑے۔
مسئلہ (۱۶۷۱)اگرکوئی بیماری یاحیض یانفاس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوراس مدت کے گزرنے سے پہلے کہ جس میں وہ ان روزوں کی جو اس نے نہیں رکھے تھے قضاکرسکتاہومرجائے توان روزوں کی قضانہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۲)اگرکوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوراس کی بیماری آئندہ رمضان تک طول کھینچ جائے توجوروزے اس نے نہ رکھے ہوں ان کی قضااس پرواجب نہیں ہے اورضروری ہے کہ ہردن کے لئے ایک مدطعام( تقریباً ۷۵۰ گرام) یعنی گندم یاجویاروٹی وغیرہ فقیرکودے لیکن اگرکسی اور عذرمثلاً سفرکی وجہ سے روزے نہ رکھے اوراس کاعذرآئندہ رمضان المبارک تک باقی رہے توضروری ہے کہ جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضاکرے اوراحتیاط واجب یہ ہے کہ ہرایک دن کے لئے ایک مدطعام بھی فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۷۳)اگرکوئی شخص بیماری کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اوررمضان المبارک کے بعداس کی بیماری دورہوجائے لیکن کوئی دوسراعذرلاحق ہو جائے جس کی وجہ سے وہ آئندہ رمضان المبارک تک قضاروزے نہ رکھ سکے توضروری ہے کہ جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائےاور( احتیاط واجب کی بناء پر) ایک مد طعام بھی فقیر کو دے اور یہی حکم ہے اگررمضان المبارک میں بیماری کے علاوہ کوئی اور عذررکھتاہواوررمضان المبارک کے بعدوہ عذردورہوجائے اورآئندہ سال کے رمضان المبارک تک بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے ۔
مسئلہ (۱۶۷۴)اگرکوئی شخص کسی عذرکی وجہ سے رمضان المبارک میں روزے نہ رکھے اوررمضان المبارک کے بعداس کاعذردورہوجائے اوروہ آئندہ رمضان المبارک تک عمداً روزوں کی قضانہ بجالائے توضروری ہے کہ روزوں کی قضاکرے اورہردن کے لئے ایک مدطعام بھی فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۷۵)اگرکوئی شخص قضاروزے رکھنے میں کوتاہی کرے حتیٰ کہ وقت تنگ ہو جائے اوروقت کی تنگی میں اسے کوئی عذرپیش آجائے توضروری ہے کہ روزوں کی قضا کرے اور(احتیاط کی بناپر)ہرایک دن کے لئے ایک مدطعام فقیرکودے اوراگرعذردور ہونے کے بعدمصمم ارادہ رکھتاہوکہ روزوں کی قضابجالائے گالیکن قضابجالانے سے پہلے تنگ وقت میں اسے کوئی عذرپیش آجائے تواس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۶)اگرانسان کامرض چندسال طولانی ہو جائے توضروری ہے کہ تندرست ہونے کے بعد آخری رمضان المبارک کے چھٹے ہوئے روزوں کی قضا بجالائے اوراس سے پچھلے برسوں کے ماہ ہائے مبارک رمضان کے ہردن کے لئے ایک مد طعام فقیر کودے۔
مسئلہ (۱۶۷۷)جس شخص کے لئے ہرروزے کے عوض ایک مدطعام فقیرکودینا ضروری ہووہ چنددنوں کاکفارہ ایک ہی فقیرکودے سکتاہے۔
مسئلہ (۱۶۷۸)اگرکوئی شخص ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضاکرنے میں کئی سال کی تاخیرکردے توضروری ہے کہ قضاکرے اور پہلے سال میں تاخیرکرنے کی بناپرہر روزے کے لئے ایک مد طعام فقیرکودے لیکن باقی کئی سال کی تاخیرکے لئے اس پرکچھ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۷۹)اگرکوئی شخص رمضان المبارک کے روزے جان بوجھ کرنہ رکھے تو ضروری ہے کہ ان کی قضابجالائے اورہردن کے لئے دومہینے روزے رکھے یاساٹھ فقیروں کو کھانادے یاایک غلام آزاد کرے اوراگر آئندہ رمضان المبارک تک ان روزوں کی قضانہ کرے تو(احتیاط لازم کی بناپر)ہردن کے لئے ایک مدطعام کفارہ بھی دے۔
مسئلہ (۱۶۸۰)اگرکوئی شخص جان بوجھ کررمضان المبارک کاروزہ نہ رکھے اوردن میں کئی دفعہ جماع یااستمناء کرے توکفارہ مکررنہیں ہوگا بلکہ ایک کفارہ کافی ہے ایسے ہی اگرکئی دفعہ کوئی اور ایساکام کرے جوروزے کوباطل کرتا ہومثلاً کئی دفعہ کھانا کھائے تب بھی ایک ہی کفارہ کافی ہے۔
مسئلہ (۱۶۸۱)باپ کے مرنے کے بعدبڑے بیٹے کے لئے( احتیاط لازم کی بناپر) ضروری ہے کہ باپ کے روزوں کی قضااسی طرح بجالائے جیسے کہ نمازکے سلسلے میں مسئلہ (۱۳۷۰ )میں تفصیل سے بتایاگیاہے اور ہر دن کےبدلے ایک مد طعام (۷۵۰گرام) فقیر کو دے سکتاہے خواہ میت کے مال سے ہی کیوں نہ ہو اگر ورثا راضی ہیں ۔
مسئلہ (۱۶۸۲)اگرکسی کے باپ نے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کوئی دوسرے واجب روزے مثلاً منتی روزے نہ رکھے ہوں یااجرت کاروزہ ہواورنہ رکھا ہوتو بڑےبیٹے پر اس کی قضا لازم نہیں ہے۔
مسافرکے روزوں کے احکام
مسئلہ (۱۶۸۳)جس مسافر کے لئے سفرمیں چاررکعتی نمازکے بجائے دورکعت پڑھنا ضروری ہواسے روزہ نہیں رکھناچاہئے لیکن وہ مسافرجوپوری نمازپڑھتاہومثلاً وہ شخص جس کاپیشہ ہی سفرہویاجس کاسفر کسی ناجائز کام کے لئے ہوضروری ہے کہ سفرمیں روزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۶۸۴)ماہ رمضان المبارک میں سفرکرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن روزے سے بچنے کےلئے سفر کرنا مکروہ ہے اور اسی طرح رمضان المبارک میں مطلقاً سفر کرنا مکروہ بجزاس سفرکے جوحج، عمرہ یاکسی ضروری کام کے لئے ہو۔
مسئلہ (۱۶۸۵)اگرماہ رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کسی خاص دن کا روزہ انسان پرواجب ہو مثلاًوہ روزہ اجارے یااجارے کے مانندکسی وجہ سے واجب ہواہویا اعتکاف کے دنوں میں سے تیسرادن ہو تواس دن سفرنہیں کرسکتااوراگرسفرمیں ہواور اس کے لئے ٹھہرناممکن ہوتوضروری ہے کہ دس دن ایک جگہ قیام کرنے کی نیت کرے اوراس دن روزہ رکھے لیکن اگراس دن کا روزہ منت کی وجہ سے واجب ہوا ہوتوظاہریہ ہے کہ اس دن سفرکرناجائزہے اورقیام کی نیت کرناواجب نہیں ۔اگرچہ بہتریہ ہے کہ جب تک سفر کرنے کے لئے مجبورنہ ہوسفرنہ کرے اوراگرسفرمیں ہوتوقیام کرنے کی نیت کرے لیکن اگر قسم یا عہد کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو (احتیاط واجب کی بناپر) سفر نہ کرے اور اگر سفرمیں ہو توقصدقیام کرے۔
مسئلہ (۱۶۸۶)اگرکوئی شخص مستحب روزے کی منت مانے لیکن اس کے لئے دن معین نہ کرے تووہ شخص سفرمیں ایسامنتی روزہ نہیں رکھ سکتالیکن اگرمنت مانے کہ سفرکے دوران ایک مخصوص دن روزہ رکھے گا توضروری ہے کہ وہ روزہ سفرمیں رکھے نیزاگرمنت مانے کہ سفرمیں ہویانہ ہوایک مخصوص دن کا روزہ رکھے گاتوضروری ہے کہ اگرچہ سفر میں ہو تب بھی اس دن کاروزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۶۸۷)مسافر طلب حاجت کے لئے تین دن مدینۂ طیبہ میں مستحب روزہ رکھ سکتاہے اوراحوط یہ ہے کہ وہ تین دن بدھ، جمعرات اورجمعہ ہوں ۔
مسئلہ (۱۶۸۸)کوئی شخص جسے یہ علم نہ ہوکہ مسافر کاروزہ رکھناباطل ہے،اگر سفر میں روزہ رکھ لے اور دن ہی دن میں اسے حکم مسئلہ معلوم ہوجائے تواس کا روزہ باطل ہے لیکن اگرمغرب تک حکم معلوم نہ ہوتواس کاروزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۶۸۹)اگرکوئی شخص یہ بھول جائے کہ وہ مسافرہے یایہ بھول جائے کہ مسافر کاروزہ باطل ہوتاہے اورسفرکے دوران روزہ رکھ لے تواس کا روزہ( بنا بر احتیاط) باطل ہے۔
مسئلہ (۱۶۹۰)اگرروزہ دارظہرکے بعدسفرکرے توضروری ہے احتیاط کی بناپر اپنے روزے کوتمام کرے اور اس صورت میں اس کی قضا لازم نہیں ہے اور اگرظہر سے پہلے سفرکرے تو(احتیاط واجب کی بناء پر) اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا خصوصاً اگر رات سے ہی سفرکاارادہ رکھتاہولیکن ہر صورت میں حدترخص تک پہنچنے سے پہلے ایساکوئی کام نہیں کرناچاہئے جو روزہ کوباطل کرتاہوورنہ اس پرکفارہ واجب ہوگا۔
مسئلہ (۱۶۹۱)اگرمسافرماہ رمضان المبارک میں خواہ وہ فجرسے پہلے سفرمیں ہو یا روزے سے ہواورسفرکرے اورظہر سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن قیام کرناچاہتاہواور اس نے کوئی ایساکام نہ کیاہوجوروزے کو باطل کرتا ہوتو (احتیاط کی بناء پر)ضروری ہے کہ اس دن کاروزہ رکھے اور اس صورت میں قضا نہیں ہے اوراگرکوئی ایساکام کیاہوجوروزے کوباطل کرتا ہوتواس دن کاروزہ اس پرواجب نہیں ہے اور ضروری ہےکہ اس کی قضا کرے۔
مسئلہ (۱۶۹۲)اگرمسافر ظہرکے بعداپنے وطن پہنچے یاایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن قیام کرناچاہتاہوتو(احتیاط کی بناء پر) اس کا روزہ باطل ہے اور ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے ۔
مسئلہ (۱۶۹۳)مسافراوروہ شخص جوکسی عذرکی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہو اس کے لئے ماہ رمضان المبارک میں دن کے وقت جماع کرنااورپیٹ بھرکرکھانااورپینا مکروہ ہے۔
وہ لوگ جن پرروزہ رکھناواجب نہیں
مسئلہ (۱۶۹۴)جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتاہویاروزہ رکھنا اس کے لئے شدیدتکلیف کا باعث ہواس پرروزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ضروری ہے کہ ہرروزے کے عوض ایک مدطعام( یعنی گندم یاجویاروٹی یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز)فقیرکودے۔
مسئلہ (۱۶۹۵)جوشخص بڑھاپے کی وجہ سے ماہ رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اگروہ رمضان المبارک کے بعدروزے رکھنے کے قابل ہوجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۹۶)اگرکسی شخص کوکوئی ایسی بیماری ہوجس کی وجہ سے اسے بہت زیادہ پیاس لگتی ہواور وہ پیاس برداشت نہ کرسکتاہویاپیاس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہوتو اس پرروزہ واجب نہیں ہے لیکن دوسری صورت میں ضروری ہے کہ ہرروزے کے عوض ایک مدطعام فقیرکودے اور اگر اس کے بعد روزہ رکھنے پر قادر ہوجائے تو قضا کرنا واجب نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۶۹۷)جس عورت کا وضع حمل کاوقت قریب ہو،اس کاروزہ رکھناخوداس کے لئے یااس کے ہونے والے بچے کے لئے مضرہواس پرروزہ واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہردن کے عوض ایک مد طعام فقیرکودے اورضروری ہے کہ دونوں صورتوں میں جو روزے نہ رکھے ہوں ان کی قضابجالائے۔
مسئلہ (۱۶۹۸)جوعورت بچے کودودھ پلاتی ہواوراس کادودھ کم ہو(خواہ وہ بچے کی ماں ہویادایہ اورخواہ بچے کومفت دودھ پلارہی ہواگراس کاروزہ رکھناخوداس کے یادودھ پینے والے بچے کے لئے مضرہو)تواس عورت پرروزہ رکھناواجب نہیں ہے اورضروری ہے کہ ہردن کے عوض ایک مدطعام فقیرکودے اور دونوں صورتوں میں جوروزے نہ رکھے ہوں ان کی قضاکرناضروری ہے۔لیکن (احتیاط واجب کی بناپر)یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جب کہ بچے کودودھ پلانے کاانحصاراسی پرہولیکن اگربچے کودودھ پلانے کاکوئی اور طریقہ ہو(مثلاً کچھ عورتیں مل کربچے کودودھ پلائیں یا دودھ پلانے کےلئے شیشی وغیرہ سے مدد لی جائے) توایسی صورت میں اس حکم کے ثابت ہونے میں اشکال ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کاطریقہ
مسئلہ (۱۶۹۹)مہینے کی پہلی تاریخ مندرجہ ذیل چارچیزوں سے ثابت ہوتی ہے:
۱:) انسان خودچانددیکھے۔
۲:)ایک ایساگروہ جس کے کہنے پریقین یااطمینان ہوجائے یہ کہے کہ ہم نے چاند دیکھاہے اوراس طرح ہروہ چیزجس کی بدولت یقین یا کسی عاقلانہ روش کے ذریعہ اطمینان ہوجائے۔
۳:)دوعادل مردیہ کہیں کہ ہم نے رات کوچانددیکھاہے لیکن اگروہ چاندکے الگ الگ اوصاف بیان کریں توپہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی اسی طرح اگر انسان کو ان لوگوں کے اشتباہ کا یقین ہوتو بھی ثابت نہیں ہوگا یا ان کی گواہی میں اختلاف ہو (یا اختلاف جیسا ہو) مثلاًشہر کے بہت سے لوگ چانددیکھنے کی کوشش کریں لیکن دوعادل آدمیوں کے علاوہ کوئی دوسراچانددیکھنے کا دعویٰ نہ کرے یا کچھ لوگ چانددیکھنے کی کوشش کریں اوران لوگوں میں سے دوعادل چانددیکھنے کا دعویٰ کریں اوردوسروں کوچاند نظرنہ آئے حالانکہ ان لوگوں میں دواورعادل آدمی ایسے ہوں جو چاندکی جگہ پہچاننے، نگاہ کی تیزی اور دیگر خصوصیات میں ان پہلے دو عادل آدمیوں کے مانند ہوں (اوروہ چانددیکھنے کادعویٰ نہ کریں )درآنحالیکہ مطلع بھی صاف ہو اوراسے دیکھنے کے لئےاحتمالی کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو توایسی صورت میں دوعادل آدمیوں کی گواہی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوگی۔
۴:)شعبان کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزرجائیں جن کے گزرنے پرماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے اوررمضان المبارک کی پہلی تاریخ سے تیس دن گزرجائیں جن کے گزرنے پرشوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے۔
مسئلہ (۱۷۰۰)حاکم شرع کے حکم سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کے حکم سے یا اس کے نزدیک مہینہ کے ثابت ہونے سے چاند دیکھے جانے کا اطمینان ہوجائے۔
مسئلہ (۱۷۰۱)منجموں کی پیشن گوئی سے مہینے کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی لیکن اگرانسان کوان کے کہنے سے یقین یااطمینان ہوجائے توضروری ہے کہ اس پرعمل کرے۔
مسئلہ (۱۷۰۲)چاندکاآسمان پربلندہونایااس کادیرسے غروب ہونااس بات کی دلیل نہیں کہ سابقہ رات چاندرات تھی اوراسی طرح اگرچاندکے گردحلقہ ہوتویہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پہلی کاچاندگزشتہ رات نکلاہے۔
مسئلہ (۱۷۰۳)اگرکسی شخص پرماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ثابت نہ ہواور وہ روزہ نہ رکھے لیکن بعدمیں ثابت ہوجائے کہ گزشتہ رات ہی چاندرات تھی توضروری ہے کہ اس دن کے روزے کی قضاکرے۔
مسئلہ (۱۷۰۴)اگرکسی شہرمیں مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہوجائے تودوسرے شہروں میں بھی کہ جن کاافق اس شہرسے متحدہومہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے۔یہاں پرافق کے متحد ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگرپہلے شہرمیں چاند دکھائی دے تودوسرے شہرمیں بھی اگر بادل کی طرح کوئی رکاوٹ نہ ہوتوچانددکھائی دیتا ہے یہ اس صورت میں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ دوسرا شہر پہلے شہر کے مغرب میں ہوجو خط عرض میں اس سے نزدیک ہو اور اگر اس کے مشرق میں ہوتو خط عرض نزدیک ہونےکی نسبت سے خط طول میں بہت زیادہ فرق نہ ہو۔
مسئلہ (۱۷۰۵)جس دن کے متعلق انسان کوعلم نہ ہوکہ رمضان المبارک کاآخری دن ہے یاشوال کاپہلادن، اس دن ضروری ہے کہ روزہ رکھے لیکن اگردن ہی دن میں اسے پتا چل جائے کہ آج یکم شوال روز عید ہے توضروری ہے کہ روزہ افطارکرلے۔
مسئلہ (۱۷۰۶)اگرکوئی شخص قیدمیں ہواورماہ رمضان کے بارے میں یقین نہ کر سکے توضروری ہے کہ گمان پرعمل کرے لیکن اگرقوی گمان پرعمل کرسکتاہوتوضعیف گمان پر عمل نہیں کرسکتا اور ضروری ہے کہ قوی گمان حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اگر کوئی راستہ نہ ہو تو قرعہ کو آخری راہ کے عنوان سے قرار دے اگر قوی گمان کا سبب ہواوراگرگمان پر عمل ممکن نہ ہوتوضروری ہے کہ جس مہینے کے بارے میں احتمال ہوکہ رمضان ہے اس مہینے میں روزے رکھے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس مہینے کو یاد رکھے۔چنانچہ بعدمیں اسے معلوم ہوکہ وہ ماہ رمضان یااس کے بعدکازمانہ تھاتواس کے ذمے کچھ نہیں ہے۔ لیکن اگرمعلوم ہوکہ ماہ رمضان سے پہلے کازمانہ تھاتوضروری ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضاکرے۔
حرام اورمکروہ روزے
مسئلہ (۱۷۰۷)عیدفطراورعیدقربان کے دن روزہ رکھناحرام ہے نیزجس دن کے بارے میں انسان کو یہ علم نہ ہوکہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یارمضان المبارک کی پہلی تو اگروہ اس دن پہلی رمضان المبارک کی نیت سے روزہ رکھے توحرام ہے۔
مسئلہ (۱۷۰۸)اگرعورت کے مستحب روزہ رکھنے سے شوہرکی جنسی حق تلفی ہوتی ہو توعورت کاروزہ رکھناحرام ہےاور یہی صورت حال اس روزہ کی ہے جو واجب توہے لیکن معین دن کےلئے نہیں ہے جیسے غیر معین دن کے نذر کا روزہ اس میں ( احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ باطل ہے اور نذر سے کفایت نہیں کرے گا اور یہی صورت حال (احتیاط واجب کی بناء پر) وہاں بھی ہوگی جب شوہر اسے مستحبی یا غیر معین دن کےاندر کے واجبی روزہ کو رکھنے سے منع کرے خواہ شوہر کی حق تلفی نہ بھی ہوتی ہواور احتیاط مستحب کی بناء پر اس کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ نہ رکھے ۔
مسئلہ (۱۷۰۹)اگراولاد کامستحب روزہ (ماں باپ کی اولاد سے شفقت کی وجہ سے) ان کے لئے اذیت کاموجب ہوتواولاد کے لئے مستحب روزہ رکھنا حرام ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۰)اگربیٹاباپ یا ماں کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھ لے اوردن کے دوران ماں یا باپ اسے روزہ رکھنے سے منع کریں تواگربیٹے کاباپ کی بات نہ ماننافطری شفقت کی وجہ سے اذیت کاموجب ہوتوبیٹے کوچاہئے کہ روزہ توڑدے۔
مسئلہ (۱۷۱۱)اگرکوئی شخص جانتاہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرنہیں ہے کہ جس کی پروا کی جائے تواگرچہ طبیب کہے کہ مضرہے اس کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھے اوراگرکوئی شخص یقین یاگمان رکھتا ہوکہ روزہ اس کے لئے مضرہے تواگرچہ طبیب کہے کہ مضرنہیں ہے توواجب نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھے ۔
مسئلہ (۱۷۱۲)اگرکسی شخص کویقین یا اطمینان ہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرہے کہ جس کی پرواکی جائے یا اس بات کا احتمال ہو اور اس احتمال کی بناپر اس کے دل میں خوف پیدا ہوجائے تو اگر اس کااحتمال عقلاء کی نظرمیں صحیح ہوتو اس کے لئے روزہ رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ ضرر ہلاکت یا بدن میں نقص کا سبب ہوتو روزہ رکھناحرام ہے اس کے علاوہ بقیہ صورتوں میں اگر رجاء کی نیت سے روزہ رکھے اور بعد میں یہ معلوم ہو کہ وہ ضرر قابل توجہ نہ تھا تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۳)جس شخص کواعتماد ہوکہ روزہ رکھنااس کے لئے مضرنہیں اگروہ روزہ رکھ لے اور مغرب کے بعداسے پتا چلے کہ روزہ رکھنااس کے لئے ایسامضرتھاکہ جس کی پرواہ کی جاتی تو(احتیاط واجب کی بناپر) اس روزے کی قضاکرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۴)مندرجہ بالاروزوں کے علاوہ اوربھی حرام روزے ہیں جومفصل کتابوں میں مذکورہیں ۔
مسئلہ (۱۷۱۵)عاشورکے دن روزہ رکھنامکروہ ہے اوراس دن کاروزہ بھی مکروہ ہے جس کے بارے میں شک ہوکہ عرفہ کادن ہے یاعیدقربان کادن۔
مستحب روزے
مسئلہ (۱۷۱۶)بجزحرام اورمکروہ روزوں کے جن کاذکرکیاگیاہے سال کے تمام دنوں کے روزے مستحب ہیں اوربعض دنوں کے روزے رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے جن میں سے چندیہ ہیں :
۱:) ہرمہینے کی پہلی اورآخری جمعرات اورپہلابدھ جومہینے کی دسویں تاریخ کے بعد آئے اوراگرکوئی شخص یہ روزے نہ رکھے تومستحب ہے کہ ان کی قضاکرے اوراگرروزہ بالکل نہ رکھ سکتاہوتو مستحب ہے کہ ہردن کے بدلے ایک مدطعام یا( ۶؍۱۲ )چنا سکہ دار چاندی فقیرکودے۔
۲:)ہرمہینے کی تیرھویں ، چودھویں اورپندرھویں تاریخ۔
۳:)رجب اورشعبان کے پورے مہینے کے روزے یاان دومہینوں میں جتنے روزے رکھ سکتا ہو رکھے خواہ وہ ایک دن ہی کیوں نہ ہو۔
۴:)عیدنوروزکادن۔
۵:)شوال کی چوتھی سے نویں تاریخ تک۔
۶:)ذی قعدہ کی پچیسویں اورانتیسویں تاریخ۔
۷:)ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ (یوم عرفہ) تک لیکن اگرانسان روزے کی وجہ سے پیداہونے والی کمزوری کی بناپریوم عرفہ کی دعائیں نہ پڑھ سکے تو اس دن کا روزہ رکھنامکروہ ہے۔
۸:)عیدسعیدغدیرکادن (۱۸؍ذی الحجہ)
۹:)روز مباہلہ (۲۴؍ذی الحجہ)
۱۰:)محرم الحرام کی پہلی، تیسری اور ساتویں تاریخ۔
۱۱:)حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کی تاریخ (۱۷؍ربیع الاول)
۱۲:)جمادی الاول کی پندرہ تاریخ۔
۱۳:)روزبعثت یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلان رسالت کے دن (۲۷؍رجب) بھی روزہ رکھنامستحب ہے اور جو شخص مستحب روزہ رکھے اس کے لئے واجب نہیں ہے کہ اسے اختتام تک پہنچائے بلکہ اگراس کاکوئی مؤمن بھائی اسے کھانے کی دعوت دے تومستحب ہے کہ اس کی دعوت قبول کرلے اور دن میں ہی روزہ کھول لے خواہ ظہر کے بعدہی کیوں نہ ہو۔
وہ صورتیں جن میں مبطلات روزہ سے پرہیزمستحب ہے
مسئلہ (۱۷۱۷)مندرجہ ذیل پانچ اشخاص کے لئے مستحب ہے کہ( اگرچہ روزے سے نہ ہوں ) ماہ رمضان المبارک میں ان افعال سے پرہیزکریں جو روزے کوباطل کرتے ہیں :
۱:) وہ مسافر جس نے سفرمیں کوئی ایساکام کیاہوجوروزے کوباطل کرتاہواوروہ ظہر سے پہلے اپنے وطن یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہناچاہتاہو۔
۲:)وہ مسافر جوظہر کے بعداپنے وطن یاایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وہ دس دن رہنا چاہتا ہو۔
۳:)وہ مریض جوظہر کے بعدصحت یاب ہوجائے اوریہی حکم ہے اگرظہر سے پہلے صحت یاب ہوجائے اگرچہ اس نے کوئی ایساکام(بھی) کیاہوجو روزے کو باطل کرتاہو لیکن اگرایساکام نہ کیاہوتو(احتیاط واجب کی بناء پر) روزہ رکھے۔
۴:)وہ عورت جودن میں حیض یانفاس کے خون سے پاک ہوجائے۔
۵:) وہ کافر جو مسلمان ہوجائے اور پہلے وہ کام انجام دیا ہو جس سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۱۸)روزہ دار کے لئے مستحب ہے کہ روزہ افطار کرنے سے پہلے مغرب اور عشاکی نمازپڑھے لیکن اگرکوئی دوسراشخص اس کاانتظارکررہاہویااسے اتنی بھوک لگی ہو کہ حضورقلب کے ساتھ نمازنہ پڑھ سکتاہوتو بہترہے کہ پہلے روزہ افطار کرے لیکن جہاں تک ممکن ہونمازفضیلت کے وقت میں ہی اداکرے۔
اعتکاف کے احکام
مسئلہ (۱۷۱۹)اعتکاف مستحب عبادتوں میں ہے جو نذر عہد اور قسم وغیرہ کی بناء پر واجب ہوجاتا ہے اور شرعاً یہ اعتکاف یہ ہے کہ کوئی شخص قصد قربت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ عبادت کےاعمال جیسے نماز اور دعا کے انجام دینے کی نیت سے قیام کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۰)اعتکاف کےلئے کوئی معین وقت نہیں ہے پورے سال کے اس زمانےمیں جب روزہ صحیح ہوں تو اعتکاف بھی صحیح ہے اوراس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان ہے اور سب سے زیادہ فضیلت ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۱)اعتکاف کا سب سے کم وقت درمیانی دوشب کے اضافے کے ساتھ تین دن ہے اور اس سے کم صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ کےلئے کوئی حد نہیں ہے اور پہلی شب اور چوتھی شب کو اعتکاف کی نیت میں شامل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اس بناء پر اعتکاف تین دن سے زیادہ جائزہے اور اگر کوئی شخص پانچ دن مکمل اعتکاف کررہا ہو تو چھٹے دن ضروری ہے کہ اعتکاف کرے۔
مسئلہ (۱۷۲۲)اعتکاف کے وقت کا آغاز پہلے دن کی اذان صبح سے ہوتا ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر اس کا اختتام تیسرے دن کی اذان مغرب پر ہوتا ہے اور اعتکاف کے محقق ہونے میں اگر الگ الگ تین دنوں کو جمع کرکے انجام دیا جائے تو کافی نہیں ہے یعنی کوئی شخص پہلے دن کی اذان صبح کے بعد سےاعتکاف شروع کرے اور اس کمی کو چوتھے دن میں کچھ اضافہ کرکے پورا کرنا چاہے جیسے پہلے دن کی اذان ظہر سے شروع کرے چوتھے دن کی اذان ظہر تک مسجد میں ٹھہرے (تو اس صورت میں اعتکاف کافی نہیں ہے)۔
اعتکاف میں معتبر امور
مسئلہ (۱۷۲۳)اعتکاف میں کچھ امور معتبر ہیں :
(۱:)اعتکاف کرنے والا مسلمان ہو۔
(۲:) اعتکاف کرنے والا عاقل ہو۔
(۳:) اعتکاف قصد قربت سے انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۴)اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ اس طرح قصد قربت اختیار کرے جس طرح وضو میں گزراہے اور شروع سےلےکر آخر تک اعتکاف کو معتبر خلوص کی رعایت کے ساتھ قصد قربت سے انجام دے۔
(۴:)اعتکاف کی مدت کم سے کم تین دن ہے
مسئلہ (۱۷۲۵)اعتکاف کی مدت کم سےکم تین دن ہے ،تین دن سے کم اعتکاف صحیح نہیں ہے لیکن زیادہ مقدار کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ مسئلہ (۱۷۲۱ )میں گزرا ہے۔
(۵:)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے۔
مسئلہ (۱۷۲۶)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دنوں میں روزہ رکھے اس بنا پر جو شخص روزہ نہیں رکھ سکتا جیسے وہ مسافر جو دس دن کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتا اور مریض، حائض اور نفساء عورت تو ان لوگوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے اور اعتکاف کے دنوں میں لازم نہیں ہے کہ اعتکاف سے مخصوص روزہ رکھاجائے بلکہ ہر طرح کا روزہ صحیح ہے یہاں تک کہ اجارہ کا روزہ ،مستحبی روزہ اور قضا روزہ بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۷۲۷)جس زمانے میں اعتکاف کرنے والا روزہ سے ہے یعنی ہر روز اذان صبح سے مغرب تک ہر وہ کام جو روزہ کو باطل کرتا ہے، اعتکاف کے باطل ہوجانے کا سبب بنتا ہے اس بناء پر اعتکاف کرنے والے کےلئے ضروری ہےکہ روزہ کے دوران عمداً روزہ کے مبطلات کے انجام دینے سے پرہیز کرے۔
(۶:)اعتکاف چار مسجدوں یا جامع مسجد میں ہو۔
مسئلہ (۱۷۲۸)اعتکاف مسجد الحرام یا مسجد نبوی یا مسجد کوفہ یا مسجد بصرہ میں صحیح ہے اس طرح اعتکاف ہر شہر کی جامع مسجد میں صحیح ہوگا سوائے یہ کہ اس مسجد کا امام غیر عادل ہو ایسی صورت میں ( احتیاط لازم کی بنا پر) اعتکاف صحیح نہیں ہوگا ۔ جامع مسجد سے مراد وہ مسجد ہے جو کسی محلہ یا خاص علاقے یا مخصوص گروہ سے تعلق نہ رکھتی ہو اور اسی علاقے کے لوگوں اور شہر کے مختلف علاقے کے رہنے والوں کے جمع ہونے اور رفت وآمد کی جگہ ہو۔ اور جامع مسجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں اعتکاف کی شرعی حیثیت ثابت نہیں ہے لیکن احتمال مطلوب کےاعتبار سے بجالانے میں اشکال نہیں ہے لیکن اس جگہ اعتکاف جو مسجد نہیں ہے مثلاً امام بارگاہ ہو یا صرف نماز خانہ ہو، صحیح نہیں ہے اورجائز بھی نہیں ہے۔
(۷:)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے۔
مسئلہ (۱۷۲۹)اعتکاف کےلئے لازم ہےکہ ایک ہی مسجد میں انجام دیا جائے اس بنا ء پر ایک اعتکاف کو دو مسجدوں میں انجام نہیں دیا جاسکتا ہے چاہے ایک دوسرے سے جدا ہوں یا ایک دوسرے سے متصل ہوں سوائےیہ کہ اس طرح سے متصل ہوں کہ عرف میں ایک مسجد سمجھی جاتی ہو (تو اعتکاف صحیح ہے)
(۸:) اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۰)اعتکاف اس شخص کی اجازت سے ہو،جس کی اجازت شرعاً معتبر ہے اس بناء پر اس زمانے میں کہ عورت کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہو مثلاً عورت اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نکلی ہو تو اعتکاف باطل ہے او رایسی صورت میں جب مسجد میں رکنا حرام نہ ہولیکن شوہر کے حق سےاعتکاف ٹکراتا ہوتو اس کے اعتکاف کاصحیح ہونا ایسی صورت میں جب کہ شوہر کی اجازت کے بغیر ہو ،محل اشکال ہے۔ اسی طرح سے ایسی صورت میں جب کہ اعتکاف والدین کےلئے ایذاء اور تکلیف کا سبب ہو اور یہ اذیت ان کی شفقت اور قلبی لگاؤ کی وجہ سےہو تو اولاد کا ان سے اجازت لینا لازمی ہے اگر اذیت کا سبب نہ ہوتو احتیاط مستحب یہ ہےکہ ان سے اجازت لے۔
(۹)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات کو انجام نہ دے۔
مسئلہ (۱۷۳۱)اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی حالت میں ان محرمات اعتکاف سے پرہیز کرے جومندرجہ ذیل ہیں اور ان کا انجام دینا اعتکاف کو باطل کردے گا لیکن ان سب سے پرہیز کا واجب ہونا اس اعتکاف میں جو واجب معین نہیں ہے جماع کے علاوہ بقیہ صورتوں میں احتیاط کی بناء پر ہے:
(۱:) خوشبو سونگھنا ۔
(۲:) بیوی سے ہمبستری کرنا۔
(۳:) استمناء اور شہوت کے ساتھ بدن کا مس کرنا اور بوسہ لینا (احتیاط واجب کی بناء پر) ۔
(۴:) بحث ونزاع کرنا۔
(۵:) خریدوفروخت کرنا۔
مسئلہ (۱۷۳۲)اعتکاف کرنے والے کےلئے ہر طرح کے عطر کو سونگھنا چاہے اس سے لذت محسوس کرے یانہ کرے، جائز نہیں ہے اور خوشبو دار گھاس سونگھنا اس صورت میں جب کہ اس کے سونگھنے سےلذت محسوس کرے جائز نہیں ہے اور اگر اس کے سونگھنے سے لذت محسوس نہ کرے تو اشکال نہیں ہے اس طرح اعتکاف کرنےو الے کےلئے ممکن ہے کہ خوشبودار دھونے والی چیزوں من جملہ سیال یا جامد صابون، شیمپو اور خوشبودار پیسٹ سے استفادہ کرے اور ان مسجدوں میں جن میں اعتکاف پر بیٹھنے والوں کے علاوہ بقیہ لوگ معمولاً عطر لگاتے ہوں ، ایسے عطر کو سونگھنا جائز نہیں ہے لیکن عطرکی بو کا احساس کرنے میں بظاہر کوئی ممانعت نہیں ہے اور لازم نہیں ہے کہ اپنی ناک کو بند کرے۔
مسئلہ (۱۷۳۳) بیوی کے ساتھ جماع اور ہمبستری اعتکاف کی حالت میں جائز نہیں ہے اگر چہ انزال اور منی کے خارج ہونے کا سبب نہ ہو اور عمداً اس کا انجام دینااعتکاف کو باطل کردیتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۴)اعتکاف کرنے والا احتیاط واجب کی بنا پر استمناء سے (اگر چہ حلال صورت میں کیوں نہ ہو)‘ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے اور اس کا بوسہ لینے سے بھی پرہیز کرے اور اعتکاف کے دنوں میں بیوی کو شہوت کی نظر سے دیکھنا اعتکاف کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہےکہ اعتکاف کے دنوں میں اس سے پرہیز کیاجائے۔
مسئلہ (۱۷۳۵)اعتکاف کی حالت میں دنیوی یا دینی مسائل میں جھگڑا کرنا اس صورت میں جب مدمقابل پر غلبہ اور فضیلت و برتری ظاہر کرنے کا ارادہ ہو توحرام ہے لیکن اگر حق کے ظاہر کرنے اور حقیقت کو واضح کرنے اور مدمقابل کی خطا اور اشتباہ کو دور کرنے کےلئے ہو تونہ صرف یہ کہ حرام نہیں ہے بلکہ بہترین عبادتوں میں ہے اس بناء پر معیار اعتکاف کرنے والے کی نیت اور قصد ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۶)اعتکاف کی حالت میں خریدوفروخت اور احتیاط واجب کی بناء پر ہر طرح کا معاملہ جیسے کرایہ پر دینا، مضاربہ کرنا،معاوضہ وغیرہ دینا حرام ہے اگر چہ انجام پانے والا معاملہ صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۷)جب کسی اعتکاف پر بیٹھنے والا خوردو نوش کو مہیا کرنے کے لئے یا اعتکاف کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے خریدوفروخت پر مجبور ہو اور اعتکاف کرنے والوں کے علاوہ کوئی غیر شخص جو ان کاموں کو بطور وکالت انجام دے،نہ ملے اور گزشتہ چیزوں کا مہیا کرنا خرید کے علاوہ جیسے ہدیہ یا قرض لینا ممکن نہ ہو تواس صورت میں خریدوفروخت میں ممانعت نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۳۸)اگر اعتکاف پر بیٹھنے والا اعتکاف کےمحرمات کو عمداً او رحکم شرعی سے آگاہی کے باوجود انجام دے تو اس کا اعتکاف باطل ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۳۹)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے محرمات میں سے کسی کو سہواً فراموشی کی بناء پر انجام دے تو مطلقاًاعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۴۰)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کےمحرمات میں سے کسی کو مسئلہ نہ جاننے کی بناء پر انجام دے اس صورت میں کہ جاہل مقصر تھا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر جاہل قاصر تھا تو اس کااعتکاف صحیح ہے اور فراموشی کا حکم رکھتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۱)اگر اعتکاف کرنے والا گزشتہ مسائل میں بیان شدہ مفسد چیزوں میں سے کسی کو اختیار کرے جس سے اس کا اعتکاف باطل ہوتا ہے تو اگر واجب معین اعتکاف تھا تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر اعتکاف واجب غیر معین تھا جیسےاعتکاف کو کسی معین وقت کے بغیر نذر کیا ہوتو واجب ہےکہ اس اعتکاف کو دوبارہ شروع سے بجالائے اور اگر مستحب اعتکاف تھا تو اگر دوسرا دن ختم ہوجانے کے بعد اعتکاف کو باطل کیا ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرے اور اگر دوسرے دن کے مکمل ہونے سے پہلےمستحب اعتکاف کو باطل کیا ہو تو اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوتی اور قضا نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۰:)اعتکاف کرنے والا،اعتکاف کی جگہ پر ٹھہرا رہے اور اس سے باہر نہ نکلے مگر ان مواقع پر کہ جہاں شرعی طورپر باہرنکلنا جائز ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۲)ان مواقع پر جہاں اعتکاف پر بیٹھنے والے کےلئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے اس وقت سے زیادہ جتنا اس کام کے انجام دینے میں ضروری ہے مسجد سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔
اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا
مسئلہ (۱۷۴۳)وہ ضروری کام جسے انجام دئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جیسے بیت الخلاء جانا توایسی صورت میں اعتکاف کی جگہ سے نکلنا جائز ہے اور غسل جنابت کےلئے مسجدسے باہر جانا جائز بلکہ واجب ہے۔ اسی طرح عورتوں کو غسل استحاضہ کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے اور وہ مستحاضہ عورت جس پر غسل واجب ہے اگر وہ اپنے واجب غسلوں کو انجام نہ دے تو اس کے اعتکاف کے صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۴)واجب نماز کو ادا کرنے کےلئے وضو کی خاطر اعتکاف کی جگہ سےباہر نکلنا جائز ہے اگر چہ نماز کا وقت داخل نہ ہوا ہو اور قضا نماز کے وضو کی خاطر اس صورت میں کہ قضا کا وقت وسیع ہوتو اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۵)اگرخود مسجد میں وضو کرنے کےلئے اسباب فراہم ہوں تواعتکاف میں بیٹھنے والا شخص وضو کرنے کےلئے مسجد سےباہر نہیں جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۶)اگر اعتکاف کرنے والے پر غسل واجب ہوجائے اگر وہ ایسے غسلوں میں سے ہوجن کا مسجد میں انجام دینامانع ہو اور جائز نہ ہو جیسے غسل جنابت کہ اس صورت میں حالت جنابت میں مسجد میں ٹھہرنا لازم آتا ہے یا مسجد کے نجس ہونے کا سبب ہوجائے تو ضروری ہے کہ مسجد سے باہر جائے ورنہ اس کااعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر مسجد میں غسل کرنے میں کوئی مانع نہ ہو جیسے غسل مس میت اور غسل کرنا ممکن بھی ہوتو احتیاط واجب کی بناء پر مسجد سے نکلنا جائزنہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۷)مستحب غسلوں کےلئے جیسے غسل جمعہ یا اعمال’’ ام داؤد‘‘ کے لئے غسل اور اسی طرح مستحب وضو کے لئے اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا محل اشکال ہے اور کلی طور سے رجحان رکھنے والے امور کےلئے مسجد سے باہر نکلنا محل اشکال اور احتیاط ہے سوائے ان امور کے جو عرف کےلئے ضروری کاموں میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن اعتکاف کرنے والا تجہیز وتکفین اور میت کو غسل دینے نماز ، دفن میت، مریض کی عیادت اور نماز جمعہ کےلئے اعتکاف کی جگہ سےباہر جاسکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۸)اعتکاف کرنے والے کےلئے اس نماز جماعت میں شرکت کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے جو اعتکاف کی جگہ سے ہٹ کر ہو سوائے اس شخص کےجو مکۂ مکرمہ میں اعتکاف کےلئےبیٹھا ہے وہ نماز جماعت یا فرادیٰ نماز کےلئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے اور مکہ کی کسی بھی جگہ پر جاکر نماز پڑھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۴۹)اعتکاف کرنے والے کےلئے اپنی ضرورت کی چیزوں کو فراہم کرنے کےلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ کوئی دوسرا شخص ان ضرورتوں کو فراہم کرنے کےلئے مامور ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۰)اعتکاف کرنے والا امتحانات میں شریک ہونے کےلئے باہر جاسکتا ہے چاہے یہ امتحانات کالج، یونیورسٹی یا حوزۂ علمیہ کے ہو ں البتہ امتحان میں شرکت عرف کے نزدیک ضروری ہو لیکن بہت دیر تک باہر نہ رہے اس طرح کہ اعتکاف کرنے کی صورت باقی نہ رہے مثلاً دو گھنٹے تک کوئی اشکال نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۱)اگر اعتکاف کرنے والا کسی ضروری کام کی خاطر مسجد سے باہر جائے لیکن اس کا باہر جانا بہت طولانی ہوجائے جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے تواس کا اعتکاف باطل ہے اگرچہ اس کا باہر جانا مجبوری ،اضطرار یا فراموشی یا کسی دباؤ کی بناء پر ہو۔
مسئلہ (۱۷۵۲)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے عمداً ، اختیاری حالت میں اور حکم شرعی سے باخبر ہونے کے باوجود ضروری اور جائز کاموں کےعلاوہ باہر جاتا ہے تواس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۳)اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی جگہ سے حکم شرعی سےناواقفیت کی بناءپر ضروری اور جائز کاموں کے علاوہ باہر نکلتا ہے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۴)اگر اعتکاف کرنے والا بھولے سےمسجد سے باہر نکل جائے تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا اور اگر کسی دباؤ یا مجبوری کی بنا پر مسجد سےباہر نکلے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا سوائے اس صورت میں کہ اس کا باہر جانا اتنی طولانی مدت کے لئے ہو جس سے اعتکاف کی صورت بگڑ جائے اس صورت میں اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا۔
مسئلہ (۱۷۵۵)اگراعتکاف کرنے والے پر اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنا واجب ہو جیسے وہ قرض جس کی ادائگی اس پر واجب ہے اور اس کی ادائگی کا وقت آچکا ہو اور اس کو ادا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو اور قرض دینے والا مطالبہ بھی کررہا ہو یا کسی دوسرے واجب کو ادا کرنا واجب ہوجس کو انجام دینے کےلئے باہر نکلنا ضروری ہو لیکن اعتکاف کرنے والااپنے وظیفہ کے خلاف عمل کرے اور باہر نہ نکلے تو گنہگار ہوگالیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
مسئلہ (۱۷۵۶)اعتکاف کرنے والے کے لئے ضروری ہےکہ ضرورت کی مقدار سے زیادہ مسجد سے باہر نہ ٹھہرے اور مسجد سے باہر ممکن ہونے کی صورت میں ضروری ہےکہ سایہ کے نیچے نہ بیٹھے لیکن اعتکاف کی جگہ سے باہر سایہ میں بیٹھنا اگر کسی ضروری کام اور ضرورت پوری کرنے کے لئے ہوکہ جو سایہ میں بیٹھنے پر موقوف ہوتو کوئی حرج نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناء پر ضرورت پوری ہونے کے بعد مطلقاً نہ بیٹھے سوائے ضرورت کی صورت میں بیٹھ سکتا ہے۔
مسئلہ (۱۷۵۷)اعتکاف کرنے والا مسجد سے باہر سایہ میں راستہ طے کرسکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ اس کو ترک کردے۔
مسئلہ (۱۷۵۸)اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلتے وقت یا اعتکاف کی جگہ پر پلٹتے وقت نزدیک ترین راستہ کی رعایت کرنا احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے سوائے یہ کہ لمبے راستہ کا انتخاب مسجد سےباہر کم ٹھہرنے کا لازمہ قرار پائے تو ضروری ہے کہ اس راستہ کا انتخاب کرے۔
اعتکاف کے مختلف مسائل
مسئلہ (۱۷۵۹)اعتکاف کرنے والا شخص اعتکاف کی ابتداء میں واجب معین اعتکاف کے علاوہ نیت میں شرط کرسکتا ہے کہ اگر کوئی مشکل پیش آئی تو میں اعتکاف کو چھوڑ دوں گا اس بناءپروہ یہ شرط رکھ کر مشکل کے وقت یا پریشانی کے وقت اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہے یہاں تک کہ تیسرے دن بھی چھوڑنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اعتکاف کرنے والا اگر یہ شرط کرے یہ بغیر کسی دشواری او رپریشانی کے میں اپنے اعتکاف کو چھوڑ سکتا ہوں تو اس طرح کی شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہےکہ اس طرح کی شرطیں (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) اعتکاف شروع کرنے کے بعد یاشروع کرنے سے پہلے صحیح نہیں ہے بلکہ ضروری ہےکہ اعتکاف کے زمانے اور اعتکاف کی نیت کے ساتھ ہو۔
مسئلہ (۱۷۶۰)اعتکاف میں بالغ ہونا شرط نہیں ہے ممیز بچے کا اعتکاف بھی صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۱)اگر اعتکاف کرنے والا غصبی فرش یا زمین پر بیٹھے او راس کے غصبی ہونے سے باخبر ہوتو گنہگار ہوگا لیکن اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا اور اگر کسی نے اعتکاف کے لئے پہلے سے کوئی جگہ لے لی ہو اور اعتکاف کرنے والا اس جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے تو اگر چہ گناہگار ہے مگر اس کا اعتکاف صحیح ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۲)اگر واجب اعتکاف کی نیت کے وقت (اعتکاف کے درمیان میں چھوڑنے کی شرط کرے) کہ جس کی تفصیل مسئلہ نمبر( ۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے ۔چنانچہ اگر اس نے حرام کاموں میں سے کوئی کام انجام دیا ہوتو اعتکاف کی قضا اور پھر سے اعتکاف کرنے میں سے کوئی کام ضروری نہیں ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۳)اگر کسی عورت کو جس نے اعتکاف کیا ہے اعتکاف کا دوسرا دن پورا ہونے کے بعد حیض آجائے تو واجب ہے کہ مسجد سے فوراً باہر نکل جائے اور احتیاط واجب کی بناء پر اعتکاف کی قضا کرنا اس پر لازم ہے سوائے اس صورت میں کہ اعتکاف کی ابتداء میں ہی (درمیان میں اعتکاف چھوڑ دینے کی شرط) قرار دی ہوجس کی تفصیل مسئلہ نمبر (۱۷۵۹) میں گزر چکی ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۴)واجب اعتکاف کی قضا بجالانا فوراً واجب نہیں ہے لیکن قضا بجالانے میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ جس سے واجب کی ادائگی میں کاہلی اور سستی شمار کی جائے اورفوراً قضا بجالانا احتیاط مستحب ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۵)وہ اعتکاف جو نذریا قسم یا عھد یا اعتکاف کا دودن گزر جانے کی بناء پر واجب ہوا ہے اگر اعتکاف کرنے والا اعتکاف کے دوران انتقال کرجائے تواس کے ولی (بڑے بیٹے )پر اعتکاف کی قضا واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہےکہ مرنے والے کے اعتکاف کی قضا بجالائے ہاں اگر اعتکاف کرنے والے نے اس سلسلے میں وصیت کی ہو کہ اس کے ایک تہائی مال سے کسی کو اعتکاف کرنے کےلئے اجیر بنادیا جائےتو اس کی وصیت کے مطابق عمل کرناضروری ہے۔
مسئلہ (۱۷۶۶)اگر اعتکاف کرنے والا واجب اعتکاف کو بیوی سے ہمبستری کرکے عمداً باطل کردے خواہ دن میں ہو یا رات میں تو کفارہ واجب ہوجائے گا اور دوسرے حرام امور میں کفارہ نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہےکہ کفارہ دے او راعتکاف باطل کرنے کا کفارہ ماہ رمضان المبارک کے کفارہ کی طرح ہے کہ انسان ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیر کو کھانا کھلانے کے درمیان اختیار رکھتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ کفارۂ مُرَتّبہ کی رعایت کرے یعنی پہلے ساٹھ دن روزہ رکھے اگر قدرت نہ ہوتو ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔
مسئلہ (۱۷۶۷)ایک اعتکاف کو دوسرے اعتکاف میں بدلناجائز نہیں ہے خواہ دونوں واجب ہوں جیسے ایک نذر اور دوسرا قسم کے ذریعہ خود پر واجب کیا ہو یا دونوں مستحب ہوں یا پھر ایک واجب اور دوسرا مستحب ہو یا ایک اپنے لئے اور دوسرا نیابت کے لئے اجیر بنا ہو یا دونوں دوسرے کی نیابت میں ہوں ۔
[6] مقعد کےراستے سے پانی یا کوئی سیال چیز بڑی آنت میں داخل کرنا۔