امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

تفسیر قرآن کا درست طریقه

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

تفسیر قرآن کا درست طریقه
تحریر: آیت اللہ جعفر سبحانی
ترجمہ: تصدق حسین ہاشمی

خلاصہ
اس مقالے‌میں‌اس حقیقت کی نشاندہی کرائی گئی ہے کہ ہر ایک کے‌لئے‌قرآن کا سمجھنا ممکن ہے‌اور اس کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔مقالہ نگار نے‌قرآن کی صحیح تفسیر کی چودہ شرائط بیان کی ہیں:
1۔عربی زبان کے‌قواعد سےآشنائی،

2۔مفردات قرآن کے‌معانی سے واقفیت

3۔تفسیر قرآن بذریعہ قرآن،

4۔شأن نزول سے مدد لینا،

5۔معتبر احادیث کی طرف رجوع کرنا،

6۔ قرآنی آیات کی مجموعی ہم آہنگی کا لحاظ رکھنا،

7۔آیات کے‌سیاق و سباق پر توجہ دینا،

8۔ مسلم مفسرین کے نظریات سے آگاہی،

9۔ہر قسم کے تعصبات سے اجتناب،

10۔سائنسی اور فلسفی نظریات سے آگاہی،

11۔ابتدائے اسلام کی تاریخ سے واقفیت،

12۔انبیاء کی حیات طیبہ اور ان کی تاریخ سے واقفیت،

13۔نزول قرآن کے‌ماحول اور زمانے سے آگاہی،

14۔مکی اور مدنی آیات کی پہچان۔
آخر میں مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ چودہ شرائط ، قرآن کی صحیح تفسیر کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن ان میں‌سے‌بعض کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ ان میں سے‌کچھ‌شرائط کو دوسری شرائط کے‌ساتھ ضم کیا جاسکتا ہے ، لیکن بہتر وضاحت کے‌لئے‌ہر ایک کوجداگانہ طور پر مورد تحقیق قرار دیا گیا ہے۔بنیادی الفاظ
قرآن، تفسیر قرآن، مفسرین، ابتدائے اسلام کی تاریخ، شان نزول، صحیح احادیث۔مقدمہ
بیسوی صدی عیسوی یا چودہویں‌صدی ہجری قمری کا آغاز مشرق کے باسیوں‌خصوصا مسلمانوں کی بیداری سے‌ہوا۔اس صدی میں‌کسی حد تک استعمار کا زور ٹوٹا اوراستعمار کے زیر اثر ممالک مکمل یا جزوی طور پر آزاد ہوگئے۔مسلمان دانشور اور قائدین بنیادی مسائل کے بارے‌میں‌غور و خوض کرنے لگے۔پسماندگی اور کمزوریوں‌کے بارے میں فکر کرتے‌ہوئے‌ان کی راہ حل تلاش کرنے‌کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔
اس زمانے میں جن مسائل پر خاص توجہ دی گئی ان میں‌سے ایک ، قرآنی تعلیمات اور معارف کی نشر و اشاعت تھی،کیونکہ سابقہ ادوار میں صرف دانشور طبقہ اور علما قرآن کی تعلیم اور حقائق سے آشنا ہوتے تھے، دوسرے‌طبقے‌کے لوگ صرف قرآن کی تلاوت اور زیادہ سے‌زیادہ تجوید پر اکتفا کرتے تھے۔اس وقت صرف علما کے‌استفادہ کے لئے‌تفاسیر لکھی جاتی تھیں، جبکہ عوام کے استفادے‌کے لئے تفاسیر لکھنے‌ یا قرآنی نشستوں‌کے اہتمام کا رواج بہت ہی کم تھا، گویا قرآن کی تفسیر اور آیات قرآنی پر غور و خوض ، علما اور دانشوروں‌کے ساتھ مختص تھا ، جبکہ تلاوت اور تجوید عوام کے حصے میں‌تھی۔
یہ طرزِ فکر ایک طرف سے‌بہت سارے‌نقصانات کا شاخسانہ قرار پایا جس کا احساس علما کو بعد میں‌ہوا، جبکہ دوسری جانب سے خود قرآن کے‌حکم کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی، کیونکہ قرآن نے‌تمام لوگوں کو قرآن کی آیات کے‌معانی میں غور و فکر کی دعوت دی ہے اور قرآن کو روشن مشعل ، متقین کے‌لئے‌بہترین ہادی و رہنما اور یاد دہانی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہے۔جو لوگ قرآن کو سننے‌اور آیات کے معانی میں غور و فکرکرنے‌سے منہ موڑ‌لیتے ہیں‌،‌ان کی سخت الفاظ میں‌مذمت کر تے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

"فَمَا لَھُمۡ عَنِ التَّذۡکِرَۃِ مُعۡرِضِیۡنَ کَاَنَّھُمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ"

یعنی: انہیں کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں؟ گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے (ڈر کر) بھاگے ہوں۔(مدثر، ۴۹- ۵۱)
جن آیات میں متقین ، علما اور مفکرین کو قرآن کی آواز پر کان دھرنے اور اس کے‌مفاہیم اور معانی پر‌غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، لہٰذا ان سب کویہاں نقل کرنے اور ان کی نشاندہی کرنے کی بجائے صرف ایک آیت اور اس کے ترجمے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: "وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَھَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ"اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟﴿قمر، ۱۷﴾
مذکورہ آیت اور اس جیسی دوسری آیتیں یہ بتاتی ہیں‌کہ قرآن کا سمجھنا اور اس کے معانی سے مستفید ہونا صرف ایک خاص گروہ سے ‌مختص نہیں ہے۔پس گزشتہ صدیوں کے‌تجربات سے‌یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ صرف مخصوص افراد کے‌علاوہ باقی تمام لوگوں کو قرآن کی آیات سے دور رکھنا ، خود قرآن کی خلاف ورزی ہے۔
اس لحاظ سے چوتھی صدی کے آغاز میں تفسیر کے حوالے سے جو تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے اس میں تفسیر کی عمومی نشستوں کا انعقاد اور عوام الناس کو قرآن سے آشنا کرانے کا بندوبست کرانا سر فہرست ہے۔اس حوالے سے (مصر،شام، عراق،پاکستان اور ایران جیسے) اسلامی ممالک میں مختلف تفاسیر لکھی گئیں اور قرآنی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جن کا مقصد عام لوگوں کو قرآن سے آشنا کرانا تھا۔
اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ تفسیر کا صحیح اور درست طریقہ بیان کریں تاکہ تشنگان معارف قرآن کی تشنگی بجھانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔
قرآن مجید کی حقیقی تفسیر یہ ہے کہ مفسر ، آیات کی سمجھ بوجھ کے لیے خود اپنی سعی و کوشش کو بروئے کار لائے ، نہ کہ کسی دوسرے کی پیروی میں آیات کی تفسیر کرے۔ اس کام کے لئے چند امور کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1۔عربی زبان کے قواعد سے آشنائی:
تفسیر قرآن کی پہلی بنیادیہ ہے کہ مفسر عربی زبان کے قواعد سے آشنا ہو، تاکہ ان قواعد کی رو سے فاعل کو مفعول ، ظرف کو مظروف ، حال کو ذوالحال اور معطوف کو معطوف علیہ سے جدا کر سکے۔زبان کے قواعد سے آشنائی صرف قرآن کے لئے لازمی نہیں ہے، بلکہ کسی بھی زبان میں لکھی گئی کتاب کو سمجھنے کے لئے اس زبان کے گرائمر سے واقف ہونا لازمی اور ضروری ہوتا ہے۔بسا اوقات عربی زبان کے گرائمر سے عدم واقفیت ، قرآنی آیات کے معانی میں غلطی کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔
یہ پہلی شرط ہے جو اس قدر واضح ہے کہ اس بارے میں مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ عربی زبان کے قواعد سے آشنائی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف و نحو میں حد درجہ مہارت حاصل کرے، کیونکہ تفسیر کے لئے صرف و نحو میں انتہائی مہارت کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ کلی طور پر گرائمر سے آگاہی کافی ہے۔

2۔ مفردات قرآن کے معنی سے واقفیت:
تفسیر قرآن کی دوسری بنیادی شرط، قرآنی الفاظ و مفردات کے معانی سے آشنا ہونا ہے؛ کیونکہ تراکیب اور جملوں کا تفہم ، الفاظ کے معنی سمجھنے پر موقوف ہے۔اس حوالے سے ایک نکتے کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کبھی بھی اپنے ذہن میں موجود معنی پر اکتفا کرتے ہوئے تفسیر نہ کی جائے ، کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ الفاظ کے معانی بھی بدل سکتے ہیں ، لہٰذا ممکن ہے کہ نبی اکرم ؐ کے زمانے میں مشہوراور معروف معنی میں تبدیلی آگئی ہو۔اس لئے الفاظ کے اصل مصادر کو ملاحظہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اوران کے اصلی معنی معلوم کرنے کے بعد تفسیر پر توجہ دینی ہوگی۔ مثال کے طور پر آج کی اصطلاح میں "عصیٰ" اور "غویٰ" کے معنی ہیں: "گناہ کیا" اور " گمراہ ہوگیا" ؛ جبکہ ان کے اصلی معنی وہ نہیں ہیں جو آج ہمارے ذہنوں میں ہیں۔
بعض لوگ " وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّہ فَغَوَىٰ "(طہ،121) کے ذریعے انبیاء کے غیر معصوم ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ "عصیٰ" اور "غویٰ" پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے میں بھی انہی معانی میں استعمال ہوتے تھے جو آج ہمارے ذہنوں میں ہیں ،جبکہ ان دونوں الفاظ کے مصادر کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج کے رائج معانی ان کے اصل معانی سے تبدیل شدہ اور ان سے ماخوذ معانی ہیں اور ان کے حقیقی معانی، "گناہ اور معصیت" سے تلازم نہیں رکھتے۔
مفردات قرآن کے مصادر سے آشنائی کے لئے ایک بہترین کتاب احمد بن فارس بن زکریا( م 395ق) کی کتاب "المقاییس" ہے جو مصر سے چھ جلدوں میں چھپی ہے۔ اس کتاب میں مصنف کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ الفاظ کے اصل معانی سے ہمیں روشناس کرائیں۔ اس کے بعد وہ اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ یہ الفاظ کیسے دیگر معانی میں استعمال ہونے لگے اور ایک الگ معانی کے حامل ہوگئے۔
آجکل لغت کی اکثر کتابوں میں بعض الفاظ کے دس دس معانی دیکھنے کو ملتے ہیں توانسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ ایک لفظ، دس معانی کے لئے وضع کیا گیا ہے، لیکن "المقاییس" کے مطالعے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس لفظ کا ایک سے زیادہ معنی نہیں پایا جاتا، باقی معانی اسی ایک معنی کی مختلف شکلیں ہیں،جنہوں نے گزرتے وقت کے ساتھ اصلی معنی کا روپ دھار لیا ہے۔
ایک حقیقی مفسر کے لئے ضروری ہے کہ وہ مفردات کے معانی سے آشنائی کے لیے "المقاییس" کے علاوہ راغب اصفہانی (م502ق)کی کتاب "المفردات فی غریب القرآن " اور ابن اثیر(م606ق) کی "النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر" سے استفادہ کرے۔ مؤخر الذکر کتاب مصر سے چھ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ مفردات حدیث سے متعلق ہے لیکن تفسیر قرآن کے لئے بھی اس سے مدد لی جا سکتی ہے ۔طریحی نجفی(م1086ق)کی لکھی ہوئی کتاب مجمع البحرین بھی لغات کی تفسیر کے لئے کافی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

3۔ تفسیر قرآن بذریعہ قرآن
قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ ہر چیز کو کھول کھول کربیان کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

"وَنَزَّلْنَا عَلَیكَ الْكِتَابَ تِبْیانًا لِكُلِّ شَیءٍ"(نحل،89)

اور ہم نے یہ کتاب آپ پر ہر چیز کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والی بنا کر نازل کیا۔
جب قرآن ہر چیز کو واضح طور پر بیان کرنے والا ہے تو وہ اپنے آپ کو بھی واضح طور پر بیان کرنے والا ہے ۔لہٰذا اگر کسی آیت میں کوئی ابہام پایا جاتا ہے تو ضرور اس میں کوئی مصلحت رہی ہوگی اور اس ابہام کو اسی آیت کے تناظر میں نازل ہونے والی دیگر آیتوں کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے، جس کا ایک نمونہ ذیل میں بیان کیا جاتاہے:
قوم لوط کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَأَمْطَرْنَا عَلَیہمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِینَ"(شعراء: 173)

اور ان پر ہم نے بارش برسائی، پس تنبیہ شدہ لوگوں پر یہ بہت بری بارش تھی۔
اس آیت میں بارش برسانے کو اجمالی طور پر بیان کیا گیاہے۔ واضح طور پر نہیں‌کیا گیا کہ ان پر کس چیز کی بارش ہوئی، کیا ان پر پانی برسایا گیا یا پتھر وغیرہ!؟

لیکن ایک دوسری آیت اس ابہام کو دور کر رہی ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَأَمْطَرْنَا عَلَیہمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ" (حجر، ۷۴)

اور ہم نے‌ان پر کنکریلے پتھر برسائے ۔
اس آیت کا لفظ "حِجَارَة" پہلی آیت کے‌ابہام کو دور کرتا ہے۔
اس موضوع کو تفصیلی طور پر بیان کرنے کے لئے قرآن سے مزید نمونے پیش کریں‌گے۔
ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

"ھَلْ ینْظُرُونَ إِلَّا أَنْ یأْتِیھمُ اللَّہ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِی الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّہ تُرْجَعُ الْأُمُورُ"(بقر ،۲۱۰)

یہودی اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ فرشتوں‌کے‌ساتھ‌بادلوں‌کے سائے‌میں ان کی طرف آئیں اور کام مکمل کر دیں، جبکہ سارے امور نے خدا ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
یہ آیت ظاہری طور پر مبہم ‌ہے ، کیونکہ آمد و رفت جسم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جبکہ خداوند عالم کی ذات جسم سے مبرا ہے ۔ اس آیت کے ابہام کو کسی اور طریقے سے دور کیا جانا چاہئے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اسی آیت سے‌ملتی جلتی دوسری آیتو ں کی طرف رجوع کیا جائے جن میں اس طرح کے مضامین بیان ہوئے ہیں۔ان آیات میں سے‌ایک، سورہ نحل کی ۳۳ ویں آیت ہے، جس میں‌واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے آنے سے‌مراد خدا کا حکم ہے جو عذاب الٰہی یا امر و نہی پر مشتمل ہوتاہے :

"ھلْ ینْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِیھمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ یأْتِی أَمْرُ رَبِّكَ كَذالِكَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھمْ وَمَا ظَلَمَھمُ اللہ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَھمْ یظْلِمُونَ"(نحل: 33)

کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔
یہ آیت صاف لفظوں میں پہلی آیت کے ابہام سے پردہ اٹھا رہی ہے اورلفظ "أَمْر" کے‌ذریعے "یأْتِی" کے اصل فاعل کو مشخص کر رہی ہے۔
آیتوں کی آیات سے تفسیر ،ایک مستحکم روشِ تفسیر ہے جو سابقہ ادوار میں شیعہ رہنماؤں کی بھی روش رہی ہے اور آج بھی محقق مفسرین اسی راہ پر گامزن ہیں۔
عظیم استاد علامہ طباطبائیؒ کی تفسیر المیزان اسی روش پر لکھی گئی ہے۔ البتہ یہ"قرآنی آیات کی مجموعی ہم آہنگی پر توجہ دینے" کے موضوع سے الگ اور جداگانہ موضوع ہے جس پر بعد میں بات کی جائے گی۔یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک آیت کے اجمال کو دوسری آیت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؛ جبکہ " آیات کی مجموعی ہم آہنگی پر توجہ دینے" کا مطلب یہ ہے کہ ایک آیت سے نتیجہ اخذ کرتے وقت ‌دوسری آیتوں سے غفلت نہ برتی جائے، کیونکہ کسی بھی سلسلے کی دوسری آیتوں‌کو مد نظر رکھے بغیرایک آیت سے، اگرچہ وہ ظاہرا مجمل نہ بھی ہو،نتیجہ اخذ کرناہر گز درست نہیں ہے اور نہ ہی خدا سے اس کی نسبت دی جا سکتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ان دونوں موضوعات میں فرق پایا جاتا ہے۔

۴۔ شأن نزول سے مدد لینا
قرآن کریم 23 سال کے عرصے‌میں‌پیش آنے والے سوالات یا مختلف واقعات کے سلسلے میں وقفے وقفے سے نازل ہوتا رہا ہے؛ لہٰذا شأن نزول سے آگاہی کے ذریعے آیت کے مفہوم خاص طور پر واضح ہوجاتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے‌کہ شأن نزول کے بغیرآیت کے معنی نہیں سمجھے جا سکتے، یا اس کی تفسیر نہیں کی جاسکتی؛ بلکہ قرآن کی آیتیں‌چونکہ باعث ہدایت ، بینہ اور فرقان ہیں، جیسا کہ ارشادہوتا ہے:

"ھُدًى لِلنَّاسِ وَبَینَاتٍ مِنَ الْھُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ" (بقرہ،۱۸۵)

قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے اور اس میں‌ہدایت کی نشانیاں‌ہیں اور یہ حق و باطل کو جدا کرنے والا ہے۔

"وَأَنْزَلْنَا إِلَیكُمْ نُورًا مُبِینًا" (نساء، ۱۷۴)

ہم نے آپ کی طرف روشن نور نازل کیاہے۔
اس لیے طبعی طور پر ہی قابل فہم ہیں ؛ لہٰذا شأن نزول کو مد نظر رکھے بغیر بھی انہیں سمجھا جا سکتا ہے؛ لیکن شأن نزول کو مد نظر رکھنے کی صورت میں ان کے معنی زیادہ واضح ہوں گے۔ اس سلسلے میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے جو ہمارے مدعا کی تائید کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ ارشاد خداوندی ہے:
"وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَیھمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیھمْ أَنْفُسُھمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللہ إِلَّا إِلَیہ ثُمَّ تَابَ عَلَیھمْ لِیتُوبُوا إِنَّ اللَّہ ہوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ" (توبہ، ۱۱۸)

اور ان تینوں کو بھی جو جنگ میں پیچھے‌رہ گئے‌تھے‌، جب زمین اپنی وسعت کے‌باوجود ان پر تنگ ہو گئی تھی اور اپنی جانیں خود ان پر دوبھر ہو گئی تھیں اور انہوں نے‌دیکھ لیا کہ خدا کی گرفت سے بچنے‌کے لئے خود اللہ کے سوا کوئی پناہ نہیں تو اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں ۔بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
بلاشبہ اس آیت کے معنی واضح ہیں، لیکن انسان اس آیت کے مندرجہ ذیل موارد سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے:
الف) یہ تین افراد کون کون تھے‌؟
ب)جنگ میں کیوں پیچھے رہ گئے؟
ج) کیسے ان پر زمین تنگ ہوگئی ؟
د) کیسے ان کی زندگی ان پر دوبھر ہو گئی؟
ہ) انہوں‌نے کیسےیہ سمجھ لیا کہ خدا کے علاوہ کوئی پناہ نہیں ہے؟
و) ان کے‌بارے میں بیان شدہ توفیق الہی سے کیا مراد ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات اس آیت کی شأن نزول کو ملاحظہ کرنے سے مل سکتے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ شأن نزول ہر مقام پر قابل اعتماد نہیں ہے بلکہ قابل اعتماد شأن نزول کے کچھ معیار ہیں جن کے ذریعے درست شأن نزول کو غلط شأن نزول سے‌جدا کیا جا سکتا ہے۔ خصوصا قصص قرآن کے شأن نزول کے بارے میں، جو انبیاء اور سابقہ امتوں‌سے متعلق ہیں ، محتاط رہنا چاہئے، کیونکہ اکثر شأن نزول یہودی اور عیسائی علماء سے نقل ہوئی ہیں، لہٰذا ان سے نقل شدہ شأن نزول پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ اکثر تفاسیر اس شرط کی رعایت سے عاری ہیں‌اور ان میں ناقابل بھروسہ افراد کی بیان کردہ شأن نزول نقل کی گئی ہیں

۔۵۔معتبر احادیث کی طرف رجوع کرنا:
قرآنی آیات کا ایک حصہ احکام سے مربوط ہے جن میں‌مکلف کے اعمال اور افعال کے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ بعض علماء نے ان آیتوں کی تعداد پانچ سو تک بتائی ہےاگرچہ اصل تعداد اس سے کچھ کم ہے۔ان آیتوں سے استفادہ کرنا اسی وقت ممکن ہے جب معتبر روایات کی طرف مراجعہ کیا جائے،کیونکہ ان میں سے اکثر آیتیں مطلق بیان ہوئی ہیں یا ان میں عمومیت پائی جاتی ہے جن کی قید ، تفصیل اور تخصیص رسول اکرمؐ اور آپ ؐ کے معصوم جانشینوں کے فرامین میں بیان ہوئی ہے، لہٰذا ظاہر ہے کہ مطلق کے اطلاق یا عام کی عمومیت سے استدلال کرنا ان کے مقید اور مخصص کی طرف رجوع کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اس بات کو مزید واضح کرنے کے لئے کچھ‌باتیں‌زیر بحث لائیں گے۔
ا۔قرآن میں کچھ ایسے موضوعات پائے جاتے ہیں‌جن کی کوئی بھی وضاحت اور تفصیل، روایات اور مسلمانوں‌کے رہن سہن کے علاوہ کہیں بیان نہیں ہوئی ہے ۔جیسا کہ قرآن میں‌نماز ، روزہ ، زکات ، خمس اور حج کا وجوب بیان ہوا ہے، لیکن ان کی جزئیات کے ‌بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی، لہٰذا ہم ایسے اجمالی احکام کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے روایات اور مسلمانوں کی سیرت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے۔ان مراجع کی طرف رجوع کیے بغیر ان آیتوں کی تفسیر گویا ایک طرح کی خام خیالی ہے۔ایسی آیتوں کی تفسیر کے سلسلے میں اسلام کے ابتدائی دور سے ہی تمام مسلمانوں کی روش یہی رہی ہے۔
ب۔قرآن مجید میں کچھ مطلقات اور عموم بیان ہوئے ہیں جن کی قیود اور مخصص معصومینؑ کی روایات کے علاوہ کہیں نہیں ملتی۔
قوانین کی تشریحات کو الگ سے بیان کیا جانا، صرف قرآن ہی کی روش نہیں ہے، بلکہ دنیا کے مختلف معاشروں میں بھی قانون سازی کا یہی طریقہ عام ہے، یعنی:ابتدا میں قوانین بنائے جاتے ہیں پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان پر تبصرہ جات اور شرائط و قیود کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

البتہ قرآن مجید اور انسانوں کے بنائے گئے قوانین میں فرق یہ ہے کہ انسان اپنی کم علمی کی بنا پر قوانین وضع کرتے ہیں اور وقت گزرنے‌ساتھ ساتھ حاصل شدہ تجربات کی بنیاد پر قوانین میں کمی بیشی کرتے ہیں،جبکہ قانون الٰہی کو یہ مشکل درپیش نہیں ہے، بلکہ قوانین کی تمام تر خصوصیات، خواہ وہ بعد میں حذف کیے جانے والے قوانین ہوں یا اضافہ کیے جانے والے، اللہ تعالیٰ جیسے قانون ساز ہستی کے لئے سرے سے ہی واضح ہوتی ہیں، لیکن کبھی سماجی مصالح کے تقاضا کے مطابق قوانین کو ایک دم سے بیان نہیں کیا جاتا، بلکہ دھیرے دھیرے اور تدریجا بیان کیا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر قرآن مجید سود کو حرام قرار دیتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: "وَ حرَّم الربا"(بقرہ،۲۷۵)

لیکن روایات بتاتی ہیں کہ بعض مواقع پر ‌سود حرام نہیں ہے، مثلا: باپ بیٹے کے درمیان یا میاں بیوی کے درمیان سود کو جائز قرار دیا ہے‌۔ ان احکام کی مصلحت بھی واضح ہے کیونکہ ان دونوں موارد میں فریقین کی" بچت کا مرکز ایک" ہونے اور "دونوں ایک دوسرے کے اخراجات کے متکفل " ہونے کی وجہ سےاضافہ لی گئی رقم پر ظلم کا عنوان صادق نہیں آتا ، لہٰذا ‌ان موارد میں سود کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ہمیں چاہئے کہ قرآن کے فرمان

"وَمَا آتاکُمُ الرَّسُول فخُذُوہ وَمَا نھَاکُم عنہ فَانتہوا"(حشر، ۷)

کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے پہنچائے ہوئے تمام احکام پر عمل کریں‌اور ان تمام چیزوں سے‌دوری اختیار کریں، جنہیں حرام کیا گیا ہے۔
اگر مفسر اس طرح کی آیتوں کی تفسیر کا ارادہ رکھتا ہو،جن کی تعداد قرآن مجید میں کم نہیں ہے، لیکن وہ ‌احادیث و روایات کی طرف رجوع کئے بغیر صرف قرآن پر اکتفا کرے تو اس نے مندرجہ بالا آیت کی مخالفت کی ہے اور اس کے مضمون سے غفلت برتی ہے۔
آیات الاحکام کا ایک حصہ سنت اور احادیث کے ذریعے تفسیر و توضیح کا محتا ج ہے(خواہ وہ معنی کے لحاظ سے مجمل ہونے کی وجہ سے ہو ، جیسے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ، یا تخصیص وتقیید اور تشریح طلب ہونے کی وجہ سے)؛ لہٰذا فقہا ان آیات کی الگ سے تفسیر کرنے اور اس حوالے سے‌جداگانہ کتابیں لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ آیات الاحکام کی تفسیر کے سلسلے میں فاضل مقداد اور محقق اردبیلی، جزائری اور جصاص کی کتابیں بہترین کتب قرار پاتی ہیں۔
قارئین محترم کی مزید رہنمائی کے لیے دیگر دو نمونے پیش کئے جاتے ہیں:
قرآن کریم ہر قسم کی تجارت اور معاملات کو جائز قرار دیتا ہےاور ہر قسم کے معاہدے اور عہد و پیمان کے احترام کا قائل ہے ۔جبکہ رسول اکرم ؐ کی حدیث میں جو شیعہ سنی دونوں‌ کے ہاں‌مورد اعتماد اور لازم العمل ہے‌، کچھ معاملات کو باطل اور غلط قرار دیا گیا ہے،مثلا: جوئے‌کے آلات ،مائع نشہ آورچیزوں کی خرید و فروخت ، بیع منابذہ([۱])، ملامسہ([۲]) اور ان جیسے دیگر معاملات جن کی خصوصیات احادیث میں‌بیان ہوئی ہیں ۔

لہذا احادیث کو ملاحظہ کئے بغیر "احل اللہ البیع " (بقرہ ،۲۷۵) کی تفسیر کرنا صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح"اوفوا بالعقود" (مائدہ ، ۵) کی تفسیر کے لیے بھی ان روایات کو ملاحظہ کرنا ضروری ہے جن میں بعض شرطوں اور ‌عہد و پیمان کو کالعدم اور باطل قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

"اِلاَّ شرطاً احلَّ حراما و حرَّم حلالا"

(یعنی: ہر عہد وپیمان کا ایفا کرنا ضروری ہے) سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے۔قرآنی شواہد
گزشتہ مطالب ایسے حقائق ہیں جنہیں ہر مفسر آسانی سے محسوس کر سکتا ہے اور ہر حقیقت پسند انسان کو قائل کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی واضح گواہی بھی ہے کہ خدا کی کتاب کے لیے رسول خدا کی وضاحت درکار ہے، کیونکہ رسول اکرم ؐکی ذمہ داری لوگوں‌کو قرآن سنانے کے علاوہ اس کے مقاصد اور اہداف کو بیان کرنا بھی ہے۔اس سلسلے میں ہم قرآن سے کچھ مثالیں‌اختصار کے ساتھ پیش کرینگے‌:
ا۔"وَأَنْزَلْنَا إِلَیكَ الذِّكْرَ لِتُبَینَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیھمْ وَلَعَلَّھمْ یتَفَكَّرُونَ" (نحل، ۴۴)

ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا تاکہ جو لوگوں پر نازل ہوا ہے وہ آپ ان کو بیان کریں تاکہ وہ لوگ فکر کریں۔
یہ آیت اس وقت ہمارے مدعا کی دلیل بنے گی جب یہ معلوم ہو کہ پیغمبر اکرم ؐ کی ذمہ داری"لِتُبَینَ" کے ذریعے بیان کی گئی ہے، جو " لِتقراء" کے مفہوم سے جدا ہے ۔یعنی: پیغمبر اکرمؐ کی دو ذمہ داریاں ہیں:
1۔ قرآن کی آیات کا پڑھنا؛
2۔ قرآنی آیات کے مفہوم کو بیان کرنا۔

البتہ اس کا مطلب قرآن مجید کی ساری آیتوں کے مفاہیم کو بیان کرنا نہیں،‌بلکہ قرآن کی وہ آیتیں مراد ہیں جن کے مضامین رسول اکرم ؐ اور آنحضرت ؐ کے معصوم جانشینوں کے فرامین کے بغیر واضح اور روشن نہیں ہو سکتے۔جیسے: احکام کے متعلق مجمل آیات ، یا وہ آیتیں جن کی تشریح اور استثناء بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ب) "لَا تُحَرِّكْ بِہ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہ إِنَّ عَلَینَا جَمْعَہ وَقُرْآنَہ فَإِذَا قَرَأْنَاہ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہ ثُمَّ إِنَّ عَلَینَا بَیانَہ" (۱۹-۱۶)

(اے نبی) آپ وحی کو جلدی (حفظ) کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو پھر آپ (بھی) اسی طرح پڑھا کریں۔پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔
خدا وند عالم نے اس آیت میں تین چیزیں اپنے ذمے لی ہیں:
۱۔قرآن کی تلاوت ،
۲۔ آیات کی جمع آوری ،
۳۔ آیتوں کے معنی بیان کرنا۔

ظاہر ہے کہ قرآن کے مفہوم کا بیان پیغمبر اکرم ؐ پر وحی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ لوگوں‌پر تو کوئی وحی نازل نہیں ہوتی۔وحی الہی کے مضامین یاتو قرآن مجید کی شکل میں یا سنت رسول ؐکی صورت میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا قرآن کی تفسیر کرتے وقت ان دونوں میں سے صرف ایک پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ دونوں‌سے‌مدد لینی چاہئے۔دوسرے لفظوں میں‌اس آیت میں اللہ تعالی، اپنے رسول کو تلاوت میں عجلت برتنے سے‌منع کرتا ہے،‌پھر اس کی جمع آوری اور آنحضرت ؐ پر اس کی تلاوت کو بھی اپنے ذمے داری لیتے ہوئے حکم دیتا ہے کہ آپ ؐ فرشتے کی تلاوت کی پیروی کریں۔ اس کے بعد (قرآنی مضامین) کی وضاحت اور تفسیر کی ذمہ دارے بھی لیتا ہے۔ جیسا کہ آیت تصریح کر رہی ہے:

" ثُمَّ إِنَّ عَلَینَا بَیانَہ"
اس مقام پر اللہ تعالی نے جس چیز کے بیان کی ذمہ داری لی ہے، اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیزہے !؟

کوئی یہ تصور نہ کرے کہ یہاں الفاظ کا بیان مراد ہے ، کیونکہ اس بابت پہلے

"إِنَّ عَلَینَا جَمْعَہ وَقُرْآنَہ"

میں کہا جا چکا ہے ، لہٰذا اسے دوبارہ بیان کرنے ضرورت نہیں ہے۔اس مقام پر بیان سے مراد مسلّماً ان آیات کے مضامین کی وضاحت کرنا ہے جن کےلئے وحی الٰہی کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہؐ یا آنحضرتؐ کے برحق جانشین ، وحی کے ذریعے ان مطالب کو حاصل کرنے کے‌بعد امت کو بیان کرتے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر آیت کو وضاحت کی ضرورت پیش آئے اور یہ کہا جائے کہ :"ان اللہ علی کلی شیء قدیر" کو بھی وضاحت کی ضرورت ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد سے اجمالی طور پر آگاہی کے‌لئے وحی کے ذریعے وضاحت کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن اس ضرورت کی مقدار کتنی ہے ؟

اس پر فی الحال ہم بات نہیں کررہے۔البتہ واضح رہے کہ جس طرح شأن نزول کے ذیل میں بتایا گیاہے اسی طرح ہر روایت کو قرآن کی تفسیر کے لئے انتخاب نہیں‌کیا جا سکتا، بلکہ سند اور دلالت کے اعتبار سے پرکھنے اور تمام شرائط کے پائے جانے کا یقین حاصل کرنے کے بعد کسی حدیث اور روایت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

6۔قرآنی آیات کی مجموعی ہم آہنگی کا لحاظ رکھنا
جو کچھ بیان ہوا وہ سب تفسیر قرآن میں بنیادی کردار کے‌حامل ہیں۔لیکن تفسیر کے صحیح ،مستحکم اور مضبوط ہونے کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ مفسر ہر آیت کو دوسری آیتوں‌سے،یا دوسرے لفظوں میں قرآن مجید کے پورے مجموعے سے جدا نہ سمجھے، بلکہ اس بات پر یقین رکھے‌کہ ساری آیتیں ایک مقصد کے درپے ہیں‌اور سب ایک وسیع ہدف کا نچوڑ ہیں ۔
تفسیر کے عمل میں سب سے زیادہ غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے کہ جب عربی ادب سے آشنائی پر بھروسہ کرکے ایک آیت کی تفسیر کی جائے، جبکہ اسی سلسلے کی دوسری تمام آیتوں سے مکمل چشم پوشی کی جائے۔ یہی غلطی مختلف مذاہب اور فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بنی ہے اور ہر مذہب کو اپنے عقیدے کے اثبات کے‌لئے قرآن سے دلیل دستیاب ہوئی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ تمام مذاہب (جیسے مجبرہ ، معتزلہ ، مشبہہ ، مجسمہ ، مرجئہ یا دوسرے مذاہب اور عقائد کے حامل افراد)اپنے‌عقیدے اور نظریے‌کے اثبات کے لئے قرآن کی مختلف آیتوں سے‌دلیل لاتے‌ہیں‌اور اپنے‌آپ کو قرآن کے پیروکار سمجھتے ہیں‌؟

جبکہ ان تمام مذاہب میں سے‌صرف ایک مذہب قرآن کا حقیقی پیروکار ہے باقی سب قرآن سے کوسوں‌دور ہیں۔
ان مذاہب کے‌وجود میں آنے کی وجوہات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے‌کہ مختلف مذاہب کے وجود میں آنے‌کے علل و اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ ہر فرقہ ایک آیت کو لے کر اسی پر مکمل بھروسہ کئے بیٹھا ہے ، جبکہ اس سے مربوط دوسری آیتوں سے اس نے بے توجہی برتی ہے جو اس آیت کی تفسیر اور تشریح کرتی ہیں ۔
اس میں دو رائے نہیں‌کہ قرآن میں‌ایسی آیتیں‌بھی ہیں‌کہ جن سے مربوط دوسری آیتوں کو مد نظر رکھے‌بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائیں‌تو ایسی تفسیر مختلف افکار (جیسے جبر ، اختیار ، تشبیہ ، تنزیہ اور تجسیم و غیرہ )میں سرگرداں ہونے کا سبب بنتی ہے اور ان متضاد عقائد و افکار کے بارے میں ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ ان سب کا سرچشمہ وحی ہے اور یہ سب قرآن کریم کے مقاصد میں شامل ہیں، جبکہ قرآن خود کہتا ہے‌کہ :

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیرِ اللَّہ لَوَجَدُوا فِیہ اخْتِلَافًا كَثِیرًا (نساء، ۸۲)

اگر قرآن خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
یہ گتھی تب سلجھے‌گی جب قرآنی آیات کی باہمی ہماہنگی اور ربط کا لحاظ رکھا جائے اور اس نکتے پر توجہ دی جائے کہ قرآن مجید اپنی دو صفات بیان کرتا ہے کہ :"اللَّہ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ كِتَابًا مُتَشَابِھا مَثَانِی " (زمر، ۲۳)
۱۔"مُتَشَابِھا" یعنی: ایک دوسرے سے ملتا جلتا؛
۲۔ "مَثَانِی"یعنی: مضامین کے لحاظ سے مکرر۔
ظاہر ہے کہ دو مشابہ چیزوں میں جہاں مختلف پہلوؤں سے اختلافات کا امکان رہتا ہے وہاں ان میں مشترک پہلو بھی پائے جاتے ہیں، لہٰذا ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس سے مربوط دوسری آیتوں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے‌ مجموعی طور پر نتیجہ اخذ کرنا چاہئے اوریہی معاملہ ان مضامین کے ساتھ بھی ہونا چاہیے جو ایک واقعے سے متعلق مکرر بیان ہوئے ہیں۔
یہاں سے تفسیر موضوعی کی اہمیت اور اس کو رائج کرنے ‌کی ضرورت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس طرح کی تفسیر موضوعی کا مطلب یہ ہے کہ ایک موضوع سے متعلق تمام آیتوں‌کو حتی الامکان جمع کیا جائے ، پھر آیات کے قرینے اور باہمی موازنے کے ذریعے اس مجموعے سے ایک نظرئیے کا انتخاب کیا جائے، جبکہ تفسیر موضوعی کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے جس میں قرآن مجید کی سورتوں کے لحاظ سے تفسیر کی جاتی ہے ،وہ طریقہ بھی فائدے سے‌خالی نہیں ہے، بلکہ ایک طبقے کے لیے تفسیر موضوعی کے علاوہ کوئی طریقہ مفید نہیں ہو سکتا، کیونکہ تفسیر موضوعی میں قرآنی آیات کی باہمی ہماہنگی اور ربط و تعلق پر توجہ دی جاتی ہے ،

لہٰذا اسی کے ذریعے ہی قرآن کے ہمہ جہت اہداف و مقاصد روشن ہو سکتے ہیں۔ یہی روش ہم نے اپنی کتاب "منشور جاوید قرآن" اور "مفاہیم القرآن" میں اپنائی ہے۔ظاہر ہے کہ ہماری یہ کاوشیں اشکالات سے خالی نہیں‌ہیں، لیکن آنے والی نسلوں سے توقع ہے کہ وہ اس روش کی بہتری پر توجہ دیں گی۔

۷۔آیتوں‌کے‌سیاق و سباق پر توجہ دینا
آیت کے‌سیا ق سباق (یعنی :ماقبل اور مابعد)پر توجہ دینا در اصل اس سے پہلے والی شرط کی ایک قسم ہے۔جب قرآن کسی ایک موضوع پر کچھ آیتیں بیان کرتا ہے‌تو تفسیر کے وقت صرف ایک آیت پر توجہ دینے اور اس کو دوسری آیتوں سے ‌الگ شمار کرنے سے قرآن کے اہداف سے دوری کے علاوہ کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکتا۔سیاق و سباق کا لحاظ صرف قرآن کی تفسیر کی بہ نسبت ضروری نہیں، بلکہ کسی بھی عقلمند اور باشعور شخص کی بات پر تبصرہ کرنا ہو تو اسی روش کا انتخاب کیا جانا ضروری ہے۔اس موضوع کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے کچھ مثالیں پیش کریں گے:
ارشاد ہوتا ہے:

"یا بَنِی آدَمَ إِمَّا یأْتِینَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ یقُصُّونَ عَلَیكُمْ آیاتِی فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیھمْ وَلَا ھُمْ یحْزَنُونَ"(اعراف :۳۵)

اے اولاد آدم!

اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔
اگر ہم اس آیت کی تفسیر کرتے‌ہوئے‌سیاق و سباق کو مد نظر نہ رکھیں تو اس آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ :

قرآن مجید، پیغمبر اکرم ؐ کے بعد بھی رسولوں کی نوید سنا رہا ہے‌اور نبوت کا دروازہ کھلا ہے،جبکہ کسی دوسری آیت میں آنحضرت ؐکا تعارف خاتم النبیین کے عنوان سے کرا تے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرارہا ہے کہ آنحضرتؐ کے‌ساتھ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے، لہٰذا قیامت تک کوئی دوسرا پیغمبر نہیں آئے گا:

"مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّہ وَخَاتَمَ النَّبِیینَ وَكَانَ اللَّہ بِكُلِّ شَیءٍ عَلِیمًا" (احزاب ، ۴۰)

محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
مذکورہ دو متضاد تصورات کی جڑ یہ ہے‌کہ پہلی آیت کی تفسیر میں سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت کی اس سے پہلی اور بعد والی آیت سے کاٹ‌کر تفسیر کی گئی ہے،جبکہ قرآن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت سورہ اعراف کی ۲۶ آیتوں (۱۱ تا۳۶)کے مجموعے‌کا ‌ایک حصہ ہے جس میں انسان کی ابتدائے خلقت کے واقعات بیان ہوئے ہیں، ‌یعنی: یہ آیتیں حضرت آدمؑ کی خلقت ، بہشت سے نکالے جانے‌اور آدم کے بچوں سمیت روئے‌زمین پر سکونت اختیار کرنے کے‌زمانے سے متعلق ہیں۔اس موقع پر خداوند عالم ، آدم کی اولاد سے‌مخاطب ہو کرفرماتا ہے‌کہ

اے‌آدم کی اولادو!

جب تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئےجس کے نتیجے میں جو شخص تقویٰ اختیار کرے‌اور سیدھے‌رستے پر چلے تو اس کے‌لئے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
بلاشبہ حضرت آدم ؑ کی زمین پر سکونت کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے بہت سے رسل آئے ہیں ان سب کا پیغام یہی تھا کہ:

"فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیھمْ وَلَا ھُمْ یحْزَنُونَ"
خلقت کے ابتدائی دور میں‌اس طرح خطاب کرنے سے سول اکرم ؐ کے خاتم النبیین ہونے اور آپ ؐ کے مبعوث ہوتے ہی سالہا سال بنی نوع انسان کی ہدایت کے‌لئے‌کھلے دروازۂ نبوت کے بوجوہ بند ہو نے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ یعنی قرآن مجید اپنے زمانہ نزول کے ما بعد والے زمانے کی بات نہیں کررہا، بلکہ گزشتہ دور میں انجام پانے والے واقعےکی حکایت کر رہا ہے۔یہ بات اس وقت عیاں ہو گی جب ہم یہ جان لیں‌کہ قرآن نے ان ۲۶ آیتوں‌میں حضرت آدم ؑکی اولاد کو تین بار "یا بَنِی آدَمَ " کے ذریعے خطاب کیا ہے:
1۔ "یا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیكُمْ لِبَاسًا۔۔۔"(اعراف، ۲۶)
2۔ "یا بَنِی آدَمَ لَا یفْتِنَنَّكُمُ الشَّیطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیكُمْ۔۔۔"(اعراف، ۲۷)
3۔ "یا بَنِی آدَمَ إِمَّا یأْتِینَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ۔۔۔ " (اعراف، ۳۵)

ایک اور مقام پر قرآن ، خلقت کے‌ابتدائی دور کے‌بارے میں بھی اسی لفظ سے استفادہ کرتا ہے:

"أَلَمْ أَعْھدْ إِلَیكُمْ یا بَنِی آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیطَانَ۔۔۔ "(یس، ۶۰)
یہ طرز تخاطب رسول اکرمؐ کے دور سے نہیں ہے، بلکہ خلقت کے ابتدائی زمانے سے زیادہ تناسب رکھتا ہے۔اس سے واضح ہو گیا کہ مد نظر آیت کا مخاطب، خلقت کے‌ابتدائی دور کے افراد ہیں، جس کا ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لہٰذا اس آیت کے‌سیاق و سباق کو نظر انداز کرنا غلطی کا باعث بنتا ہے

8۔احادیث متواترہ اور سیاق و سباق آیات
اگرچہ سیاق و سباق کا لحاظ رکھنا درست تفسیر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ اس کے خلاف کوئی قطعی دلیل نہ ہو، لہٰذا اگر کسی قطعی دلیل کے ذریعے ثابت ہو کہ فلاں آیت سیاق و سباق سے علیحدہ ہے تو پھر تفسیر میں سیاق و سباق کا کوئی کردار نہیں رہے گا۔
قرآنی آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات قرآن مجید ایک موضوع پر گفتگو کے درمیان کسی مناسبت کی وجہ سے کوئی نیا موضوع چھیڑ تا ہے‌اور اس کی بحث کو سمیٹنے کے بعد دوبارہ پہلے‌موضوع کی جانب پلٹتا ہے۔یہ انداز گفتگو، قرآن کی خصوصیتوں‌میں‌سے ایک خصوصیت ہے جو بسااوقات دیگر صاحبان بلاغت کی گفتگو میں بھی پائی جاتی ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن ایک موضوع پر گفتگو کے دوران کسی قسم کی مناسبت کے بغیر دوسرے موضوع کا رخ کرتا ہو ، یا کسی آیت کو اس سے غیر مربوط آیات کے بیچ میں گھسا دیتا ہو، بلکہ تناسب کا بالکل خیال رکھتے ہوئے پہلے موضوع کے ضمن میں ایک نئے موضوع کو اٹھاتا ہے اور اسے اختتام تک پہنچا کر دوبارہ سابقہ ‌موضوع پر گفتگو کرنے لگتا ہے۔۸۔ مسلم مفسرین کے نظریات سے آگاہی
جن مسلمان مفسرین کی زندگی قرآنی موضوعات پر غور وفکر کرتے ہوئے‌گزری ہے اور وہ صحیح معنوں میں فن تفسیر کے استاد کہلانے کے مستحق ہیں، ان کے نظریات سے‌واقفیت بھی قرآن کی تفسیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نزول قرآن کے زمانے میں قرائن و شواہد اور قرآنی مفاہیم کے ماحول سے آشنائی کی وجہ سے لوگوں پر اکثر آیات کا مفہوم واضح روشن تھا اور انہیں قرآن کےمعانی اور مقاصد کو سمجھنے کے لئے ان آراء و ‌نظریات کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، لیکن آج نزول قرآن کے زمانے سے دوری اور اس وقت دستیاب قرائن کی عدم موجودگی کی وجہ سے گزشتہ آراء و نظریات سے مدد لینا ضروری ہوجاتا ہے جو سابقہ زمانے میں پائے جانے والے قرائن کی ترجمانی کرتے ہیں۔

لہٰذا ان آراء و نظریات کے بغیر تفسیر کی کبھی کوشش نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ ایک شخص کے نتیجہ فکر کے مقابلے میں چند افراد کے مجموعی نتیجہ فکر کی حیثیت زیادہ ہوتی ہے اور مجموعی فکر میں انفرادی فکر کی بہ نسبت غلطی کی گنجائش بھی بہت کم ہوتی ہے۔البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود کو دوسروں‌کے افکار کا غلام بنایا جائے اور اپنی فکری آزادی کو گنوا دیا جائے، کیونکہ اس طرح کی پیروی کا مطلب خود کشی ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے‌دوسروں‌کے نظریات سے غافل نہیں‌رہنا چاہئے، کیونکہ بسا اوقات دوسروں کے نظریات سے آشنائی ہمیں درست نتیجہ اخذ کرکے اپنا نظریہ پیش کرنے اور اپنی غلطیوں کی جانب متوجہ ہونے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اس مقام پر ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ مفسر کو دوسروں کے نظریات کا مطالعہ کرنا کب ضروری ہے؟

کیا اس کو سب سے پہلے دوسروں کے‌نظریات کا مطالعہ کرنا، پھر اپنی علمی و فکری کوشش کے ذریعے صحیح اور غلط کو جدا کرنا چاہیے؟

یا یہ کہ پہلے‌خود تفسیر کرے اور بعد میں دوسروں کے اقوال و نظریات کی طرف رجوع کرکے ایک حتمی نتیجہ اخذ کرے؟
تفسیر کے میدان میں پہلی بار قدم رکھنے والے افراد کے‌لئے پہلا طریقہ مناسب ہے،

لیکن ‌دوسرا طریقہ ایک محقق کے شایان شان ہے، کیونکہ ممکن ہے‌کہ دوسروں‌کے نظریات کا مطالعہ کرنے‌سے‌تحقیق کا عمل رک جائے.

۹۔ ہر قسم کے تعصبات سے اجتناب
تفسیر قرآن کی ایک بہت بڑی آفت یہ ہے کہ اپنی ذہنی اور فکری وابستگی کی بنیاد پر تفسیر کی جائے، کیونکہ جب کوئی اپنے سابقہ عقائد اور پہلے سے تیار کردہ افکار و نظریات کو لے کر قرآن کا رخ کرے گا اور اس کا مقصد اپنے عقائد کے اثبات کے لئے قرآن سے دلیل لانا ہوگا تو وہ قرآن کے اصل پیغام کو حاصل نہ کرپائے گا۔اس لیے مفسر کو چاہئے کہ اپنے خود ساختہ عقائد کو چھوڑ کر غیر جانب داری سے قرآن پر غور و فکر کرے تاکہ وہ قرآن کے اصل پیغام سے فیضیاب ہو۔کسی بھی قسم کا سابقہ عقیدہ اور نظریہ ایک ایسا پردہ ہے جو مفسر اور قرآن کے اصل پیغام کے درمیان حائل ہوتا ہے جس کے سبب مفسر ، قرآن کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کی بجائے‌قرآن کو اپنی رائے کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور قرآن سے سیکھنے کی بجائے قرآن کو سکھانا شروع کرتا ہے۔
مسلمان محدثین نے متفقہ طور پر رسول اکرم ؐ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ :

"من فسر القرآن بر‌ایہ فلیتبوء مقعدہ من النار"

یعنی :جو شخص اپنی رائے (تعصب اور سابقہ عقائد) کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو گویا اس نے اپنے لئے جہنم میں جگہ بنائی ۔ تفسیر بالرائے کا مطلب وہی ہےجو بیان ہوچکا۔
ایک آیت کی دوسری آیت کے ذریعے‌ ، جیسے متَشابہات کی محکمات کے ذریعے، تفسیر کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس طرح کی تاویلات کو تفسیر بالرائے نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ قرآن کے ذریعے ، قرآن کی تاویل کہلائے گی۔ (اس سلسلے میں ہم نے " تاویل در قرآن کے ذیل میں الگ گفتگو کی ہے۔)لیکن جس کام سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی آیت یا حدیث کی روشنی میں‌تفسیر کرنے کی بجائے کسی آیت کو اپنے عقیدےپر یوں اطلاق کیا جائے کہ اگر پہلے سے وہ عقیدہ مد نظر نہ ہوتا تو اس طرح کی تفسیر سامنے نہ آتی۔
یہ روش تاریخ میں کچھ باطنی فرقوں ،بعض صوفیا اور گمراہ فرقوں نے اپنائی تھی ، جبکہ آج کل بھی بعض افراطی افراد نے اسی طرز عمل کے ذریعے قرآن کا مذاق اڑا رکھا ہے اور اپنے اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق قرآن کی تفسیریں پیش کرکے نہ صرف خود گمراہ ہوئے‌ہیں بلکہ دوسروں کی گمراہی کے بھی سبب بنے ہیں۔
اس مختصر مقالے میں ہم ایک مثال پیش کرنے پر اکتفا کریں گے، جبکہ اس کی تفصیل کسی اور وقت کے لئے‌رکھیں گے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

"مَرَجَ الْبَحْرَینِ یلْتَقِیانِ بَینَھُمَا بَرْزَخٌ لَا یبْغِیانِ فَبِأَی آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ یخْرُجُ مِنْہمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ "(الرحمن،۱۹-۲۲)

اس نے دو سمندروں کو جاری کیا کہ آپس میں‌مل جائیں‌۔تاہم ان دونوں‌کے درمیان ایک آڑ‌ہے‌جس سے وہ تجاوز نہیں‌کرتے‌۔پس تم دونوں‌خدا کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں‌سمندروں سے موتی اور مونگا نکلتے ہیں‌۔
اس آیت میں‌جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔دو سمندر آپس میں ملتے‌ہیں۔
۲۔ دونوں‌سمندروں‌کے درمیان ایک آڑ‌ہے جس سے‌وہ تجاوز کرتے ہیں۔
۳۔ ان دونوں سمندروں سے‌موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔

موتی اور مونگے نکلنے کے قرینے سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان دو سمندروں سے مراد د مختلف پانیوں کی دو قسمیں ہیں جو دنیا کے کسی مقام پر آپس میں مل جاتی‌ہیں، لیکن کبھی ایک دوسرے میں مخلوط نہیں ہوتیں۔قدرتی طور پر ان دونوں سمندروں کے پانیوں میں مٹھاس اور کھارا پن ، شیرینی اور تلخی اسی طرح شفاف اور گدلاپن کے لحاظ سے فرق ہے۔ اب یہ دونوں‌قدرتی مظاہر دنیا کی کس جگہ اور کس سمندر میں واقع ہیں ، فی الحال ہمارے لئے واضح نہیں ہے، لیکن فلسفہ اور تصوف کے مسائل میں غرق محی الدین عربی، جب اس آیت کی تفسیر کرنے بیٹھتا ہے تو اسی فلسفی اور صوفی ذہنیت کے مطابق کہتا ہے کہ: کھارے اور کڑوے پانی کے سمندر سے مراد مادی اور جسمانی امور ہیں اور میٹھے‌پانی کے سمندر سے مراد روح ہے کہ دونوں‌انسان کے‌وجود میں‌ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور ان ‌کے درمیان رکاوٹ سے مراد "نفس حیوانی"ہے جو طہارت و شفافیت میں روح انسانی کے مقام تک نہیں‌پہنچ پاتا، جبکہ ناپاکی اور گدلاپن کے لحاظ سے انسان کے جسم سے بھی آگے‌نکل جاتا ہے۔اس کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے کے حدود سے آگے‌نہیں نکلتے‌، نہ روح ، جسم کو مجرد بناتی ہے اور نہ ہی جسم ، روح کو ‌مادی چیزوں کی صف میں لا کر پست کرتا ہے۔
اسی ایک مثال سے تفسیر بالرائے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ تفسیر قرآن پر ، پہلے سے طے شدہ اور تیار شدہ ذہنیت کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

10۔ سائنسی اورفلسفی نظریات سے آگاہی
سائنسی اور فلسفی نظریات سے آشنائی، وسعتِ ذہنی اور قرآن مجید سے بہتر نتائج پانے کا سبب بنتی ہے۔یعنی جہاں ہر طرح کی تفسیر بالرائے سے بچنا اوراپنے‌سابقہ عقائد کے اثبات کے لئے قرآن کی آیات سے‌استفادہ کرنے سے اجتناب ضروری ہے وہاں توحید ، صفات الٰہی اور افعال الٰہی سمیت آغاز و انجام سے وابستہ مسائل کے‌بارے میں اسلام کے بڑے‌بڑے دانشوروں کے‌نظریات سے آگاہی بھی ضروری ہے ، اسی طرح انسان اور کائنات کے بارے میں سائنسی معلومات سے بہرہ مند ہونا چاہیے کہ جن کے باعث انسان کی علمی سطح بلندہو جاتی ہے اور نتیجتاً وہ قرآن مجید کی تعلیمات سے بہتر انداز میں‌فائدہ اٹھا سکتا ہے‌۔
آج کی دنیا میں سائنس نے زمین ،حیوانات،انسان اور پوری کائنات کے‌بارے میں بڑی پیشرفت کی ہے اور نفسیات و سماجیات کے میدانوں میں‌نئے نئے‌افق دریافت کئے ہیں۔ اگرچہ ان کے متعلق دی گئی ساری معلومات کو صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لیکن ایسے علمی انکشافات سے آگاہی، انسان کے علمی و فلسفی دماغ کی تقویت اور اس کی وسیع النظری کا باعث بنتی ہے اور اسے ایک خاص قوت عطا کرتی ہے جس کی بدولت وہ قرآن کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔
اس بارے میں ایک مثال سورہ حدید کی پہلی چھ آیتیں ہیں جو ہمارے اس مدعا کی واضح دلیل بن سکتی ہیں۔ البتہ ہم صرف دو آیتوں کے‌ترجمے‌پر اکتفا کرتے ہیں:
"ھُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاھرُ وَالْبَاطِنُ وَھوَ بِكُلِّ شَیءٍ عَلِیمٌ ھوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ یعْلَمُ مَا یلِجُ فِی الْأَرْضِ وَمَا یخْرُجُ مِنْھا وَمَا ینْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یعْرُجُ فِیھا وَھوَ مَعَكُمْ أَینَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ"

وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔وہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق کیا پھر عرش پر مستقر ہوا اللہ کے علم میں ہے جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے باہر نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے (حدید، ۳-۴)
ان آیتوں سمیت باقی چار آیتوں میں ‌پوشیدہ فلسفی اور عقیدتی مسائل اس قدر اہمیت کے حامل ہیں‌کہ جن کے بارے میں حضرت امام سجاد ؑ فرماتے ہیں:"نزلت للمتعمّقین فی آخرالزمان"یہ چھ آیتیں آخری زمانے‌کے مفکرین کے لئے نازل ہوئی ہیں۔
کوئی بھی منصف یہ دعوی نہیں‌کر سکتا کہ صرف عربی زبان سے واقفیت کی بنیاد پر ان آیتوں‌کی تفسیر کی جا سکتی ہے، کیونکہ جب ہم ان آیتوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں‌تو ان میں اجمال اور ابہام کی ایک حالت پھر بھی باقی رہتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے علمی اور وجودی احاطے کے متعلق اسلامی محققین کی کاوشوں کے مطالعے سے انسان کا ذہن کھل جاتا ہے اور ان آیتوں کے واضح ہونے میں مدد ملتی ہے۔
کوئی ان پڑھ شخص جس نے کسی استاد سے کسب فیض نہ کیا ہو ، کیا وہ "و ھو معکم اینما کنتم "کی گہرائی تک جاسکتا ہے؟اسی طرح جو شخص معارف الٰہی اور عقائد میں‌پختہ نہ ہو ، کیا وہ "ھو الاول و الآخر و ھو الظاھر و الباطن" کو سمجھ سکتا ہے؟
دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کی تفسیر ، یونانی اوراسلامی فلسفہ اور جدید علوم کی روشنی میں کی جائے اور ان غلطی پذیر افکار کی کسوٹی پر قرآن مجید کو پرکھا جائے، کیونکہ اس طرح کی تفسیریں صرف تفسیربالرائے کہلا سکتی ہیں جو شرعا اور عقلا ممنوع ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی آگاہی، انسان کے ذہن کو قوت بخشتی ہے جس کے ذریعے قرآن کریم کے مفاہیم اور مقاصد پر زیادہ غور و فکر کیا جا سکتا ہے اور خدا وند عالم کے مقصود کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔
آج انسان کے بارے میں ماہرین نفسیات اور عمرانیات کی بحث و تحقیق‌، اسی طرح زمین اور کائنات کے بارے میں سائنسدانوں‌کی تحقیقات نے قرآن کے حوالے سے نئے آفاق کھولے ہیں اور انسان کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ نت نئے زاویوں سے قرآن پر نگاہ کرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امام رضاؑ کے فرمان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ:

"ما بالُ القرآنِ لا یزدادُ علَى النَّشرِ و الدَّرسِ إلاّ غَضاضَةً؟"

قرآن کی آیتوں پر بحث کرنے سے ان کی تازگی اور نیاپن میں اضافہ کیوں ہوتا ہے؟

آپ ؑ نے فرمایا :

"لأنَّ اللہَ تباركَ و تعالى لم یجعَلْہ لِزمانٍ دونَ زَمانٍ ، و لا لِناسٍ دونَ ناسٍ ، فھو فی كلِّ زَمانٍ جَدیدٌ ، و عِند كُلِّ قَومٍ غَضٌّ إلى یومِ القِیامَةِ۔"

اس لیے کہ خدا وند عالم نے قرآن کو کسی مخصوص وقت یا خاص افراد کے‌لئے‌نازل نہیں کیا، بلکہ قرآن ہر زمانے اور ساری اقوام کے لئے ہے ، لہذا قیامت تک اس کی تازگی برقرار رہے گی۔
شاید اسی لئے ابن عباس نے کہا تھا کہ: "القرآن یفسرہ الزمان" یعنی زمانہ اور وقت، قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔
وقت اور زمانہ سے مراد وہی جدید علوم اورسائنسی انکشافات ہیں جو مختلف شعبوں میں ایجاد ہوتی ہیں جن کے ذریعے مفسر کو نئی بصیرت عطا ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ ‌قرآن سے‌ایسے نئے مطالب کا استخراج کرتا ہے جو گزشتہ زمانے کے مفسرین کے ذہنوں میں ہر گز نہیں آسکتے تھے۔

۱۱۔ ابتدائے اسلام کی تاریخ سے واقفیت
تاریخ اسلام سے مراد، نبی اکرم ؐ بعثت اور خصوصا آپ ؐ کی ہجرت کے بعد پیش آنے والے واقعات ہیں جن کی جانب بعض آیتیں اشارہ کرتی ہیں۔ اس حوالے سے "غزوات" اور "سریات" کی تاریخ سے آگاہی ،‌قرآن کی بعض آیتوں کی تفسیر میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔
قرآنی آیات کا ایک قابل قدر حصہ جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ بنی مصطلق ،صلح حدیبیہ ، فتح مکہ اور غزوہ بنی نضیر کے بارے میں ہے جو یہودیوں کا ایک گروہ تھا۔ قرآن مجید نے ان واقعات کے بارے میں خاص گفتگو کی ہے، لہٰذا ان کی وسیع تاریخ سے آگاہی، ان غزوات اور سریات سے متعلق قرآنی مفاہیم کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ معاملہ ہر مفسر پر واضح ہے۔
اس سلسلے میں غیر جانب داراور ہر قسم کے لالچ سے پاک مؤرخین کے مضبوط قلم سے لکھی گئی تاریخ کا مطالعہ ناگزیر ہے،اسی طرح مستند اور غیر معتبر تاریخ کے درمیانی فرق کو علمی انداز میں پہچاننے کی ضرورت ہے، کیونکہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں‌میں کچھ ایسی بے بنیاد باتیں‌بھی پائی جاتی ہیں ‌جو نہ اسلامی عقائد سے‌میل کھاتی ہیں اور نہ قرآن کی آیتوں‌سے ان کا کوئی تناسب پایا جاتا ہے، لیکن ایک محقق ،تاریخ نگاری کے اصولوں‌کی روشنی میں حق کو باطل سے جدا کر سکتا ہے۔اس حوالے‌سے ہماری تجویز یہ ہے‌کہ سیرہ ابن ہشام، مروج الذہب مسعودی، امتاع الاسماع مقریزی اور کامل ابن اثیر سے مدد لی جائے۔البتہ ان کتابوں کے مندرجات ‌کی سو فیصد ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی، کیونکہ ان کتابوں میں بھی کچھ‌ایسی باتیں‌پائی جاتی ہیں‌جو عقل اور نقل کی رو سے بے بنیاد اور غلط ہیں۔مثال کے طور پر "الکامل" میں‌ابن اثیر نے زید اور اس کی بیوی "زینب" کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ، ایسی من گھڑت بات نقل کی ہے جو کسی عقل مند دشمن کے علاوہ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا۔ (ملاحظہ ہو: الکامل فی التاریخ، ابن اثیر:ج ۲، ص ۱۲۱)

اسی طرح ہاتھیوں کے لشکر کے حملے اور "ابابیلوں" ‌کے ذریعے اس لشکر کی پسپائی کے بارے میں ایسی تاریخ بیان کی ہے جو قرآن کی نص کے ساتھ بالکل متصادم اور قرآن کے خلاف ہے۔(ملاحظہ ہو: الکامل فی التاریخ، ابن اثیر: ج1، ص 263)
رسول اکرم ؐکی سیرت پر لکھی گئی ایک بہترین کتاب "سیرہ ابن ہشام" ہے، جو" سیرہ ابن اسحاق" کا خلاصہ ہے ، لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے ۔اگر مسلم محققین دنیا کی مختلف لائبریریوں میں چھان بین کر کے اس کتاب کے نسخے ڈھونڈ نکالیں اور تصحیح و تحقیق کے بعد شائع کریں تو ممکن ہے کہ رسول گرامیؐ کی سیرت کے ایسے ایسے گوشے نمایاں ہوں جن کا " سیرہ ابن ہشام" میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ خصوصا اس بات کے پیش نظر کہ "ابن اسحاق" شیعہ تھے، لیکن ان کی کتاب کی تلخیص کرنے والا "ابن ہشام" سنی تھا، لہٰذا مختلف مسائل کے حوالے سے دونوں کے درمیان نظریاتی اور عقیدتی اختلاف پایا جاتا تھا۔

۱۲۔ انبیاء ؑکی حیات طیبہ اور ان کی تاریخ سے واقفیت
قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ گزشتہ انبیاء کی تاریخ سے متعلق ہے جو ہمیں جابر سلاطین کے مقابلے میں ان کی استقامت اور مقابلے کی روش سے آگاہ کراتی ہیں۔
مختلف اقوام مثلا عاد اور ثمود کی تاریخ سے آگاہی ، یا شیطانی قوتوں جیسے بابل اور مصر کے فرعونوں کی تاریخ سے آگاہی کے ذریعے حضرت ہود ، صالح ، ابراہیم اور موسی علیہم السلام کی جدوجہد سے متعلق آیتوں کو واضح کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔
انبیائے بنی اسرائیل خصوصا حضرت داود اور سلیمان علیہما السلام کی زندگی سے واقفیت کے ذریعے بہت ساری آیتیں واضح ہو جاتی ہیں اور ان ہستیوں سے متعلق آیات کے ذریعے ہمارے موقف کی حقانیت ثابت ہوجاتی ہے۔ البتہ اس بارے میں ضروری ہے کہ احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے اور قابل اعتماد اور درست تاریخ کو ناقابل بھروسہ اور غیر معتبر تاریخ سے ہمیشہ الگ اور جدا رکھے۔ خاص طور پر انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں"اسرائیلیات" یعنی: یہودیوں کی من گھڑت روایتیں بہت زیادہ ہیں، لہٰذا ان پر اعتماد کرنے سے باز رہا جائے

13۔نزول قرآن کے‌ماحول اور زمانے سے آگاہی
قرآن مجید کا نزول ایک ایسے ماحول میں ہوا ہے ، جہاں لوگوں کے رہن سہن کا ایک خاص انداز تھا۔ اسی لیے قرآن مجید نے موقع اور محل کی مناسبت سے لوگوں کے طرزِ زندگی، آداب و اطوار اور ان کی رسم و رواج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام سے پہلے‌اور اسلام کے بعد عربوں کے رہن سہن سے متعلق کسی حد تک معلومات رکھتا ہو ، تاکہ ان معاملات میں نازل شدہ آیتوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔مثلا قرآن مجید نےمختلف موضوعات جیسے " ازلام" (مائدہ ، ۳ اور ۹۰) "ود، سواغ، یغوث ، اور نسر" جیسے بت، (نوح ۲۳) عرب کے آداب و اطوار جیسے واد البنات(تکویر ،۸)اور یتیموں کے ساتھ ان کے برتاؤ سمیت عرب معاشرے کے رہن سہن سے متعلق سینکڑوں موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ ان موضوعات سے مربوط آیات کی مکمل تفسیر ،ان لوگوں کے طرز زندگی سے آگاہی پر منحصر ہے جن کے ماحول میں قرآن نازل ہوا ہے۔
بعض اوقات قرآن حقائق کو بیان کرنے کے لئے تمثیل سے مدد لیتا ہے ، لیکن ان تمثیلوں‌کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جو صحرائی زندگی کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو، یا اس نے خشک اور بنجر زمین پر زندگی بسر کی ہو۔ مثلا قرآن مجید میں حقیقت اور سراب کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَالَّذِینَ كَفَرُوا أَعْمَالُھمْ كَسَرَابٍ بِقِیعَةٍ یحْسَبُہ الظَّمْآنُ مَاءً"

ان لوگوں کے اعمال جنہوں نے کفر اختیار کئے ہیں ، ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب ، جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے۔
اس مثال کی حقیقت کو ایک صحرا نشین یا صحرائی زندگی سے واقف فرد ہی جان سکتا ہے۔ سمندر کے کنارے زندگی گزارنے والوں اور سرسبز علاقوں میں بسنے والوں کے لیے ابتدائی طور پر ایسی مثالیں‌واضح نہیں ہوتیں۔

۱۴۔ مکی اور مدنی آیات کی پہچان
زمانہ نزول کے لحاظ سے قرآنی آیتوں کی دو قسمیں ہیں:
1۔وہ آیتیں جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں، جنہیں مکی کہا جاتا ہے؛
2۔ وہ آیتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں، جنہیں مدنی کہا جاتا ہے۔([۳])
مکی اور مدنی آیتوں کا اپنا اپنا اسلوب ہے۔ مکی آیتیں ایسی حالت میں نازل ہوئی ہیں جب مسلمان ایک مخفی گروہ کی صورت میں زندگی بسر کر رہے تھے‌اور دشمن سے مقابلے کی سکت نہ رکھتے تھے۔اس وقت کی زندگی نماز ، روزہ ، زکات ، خمس اور جہاد وغیرہ جیسے احکام بیان کرنے کی متحمل نہیں تھی، لہٰذااس زمانے میں اکثر آیات کا تعلق مشرکین سے ہے اور ان میں عقائد اور بلند معارف کے بیان کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، جبکہ مدینے کی حالت اس سے مختلف تھی ۔ وہاں کے حالات کی بہتری کے سبب مسلمان ایک عظیم طاقت کی شکل میں ظاہر ہوئے اور شریعت کے احکام بیان کرنے کا بہتر ماحول میسر آیا، لہٰذا نماز ، روزہ اور خمس و زکات وغیرہ کے احکام پر مشتمل آیتیں مدینے میں نازل ہوئیں۔مکی اور مدنی آیتوں کی پہچان کے ذریعے قرآنی مقاصد کو بہتر طور پرسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مکی اور مدنی آیتوں کی درست شناخت نہ رکھنے‌کی وجہ سے ایک لکھاری کا کہنا ہے کہ آیہ مودّت

(قُل لا اسئلکم علیہ اجرا الّا المودة فی القربی)

خاندان نبوت کی شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، کیونکہ جس سورے میں یہ آیت پائی جاتی ہے وہ مکی ہے، لہٰذا یہ آیت بھی مکہ میں نازل ہوئی ہے‌اور مکہ میں اس قسم کی طلب، بلاغت سے تناسب نہیں رکھتی۔ درحالیکہ اگر وہ مکی اور مدنی آیتوں کی پہچان سے متعلق لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ ایک سورے کے مکی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی ساری آیتیں بھی مکی ہوں ، کیونکہ بسا اوقات مدنی سوروں کے درمیان میں مکی آیتیں پائی جاتی ہیں یا اس کے برعکس۔اس پر مستزاد یہ کہ جن مفسرین کی نظر میں سورہ شوریٰ مکی ہے، ان کے ہاں بھی آیہ مودّت سمیت اس سورے کی کچھ دوسری آیتیں مدنی شمار ہوتی ہیں۔
مذکورہ چودہ شرائط ، قرآن کی صحیح تفسیر کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن میں‌سے‌بعض کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

اگرچہ ان میں سے‌کچھ‌شرائط کو دوسری شرائط کے‌ساتھ ضم کیا جاسکتا ہے ، جیسے : انبیاء ؑکی حیات طیبہ اور ان کی تاریخ سے واقفیت کو ایک لحاظ سے شأن نزول کے ساتھ ضم کیا جاسکتا ہے، لیکن بہتر وضاحت کے‌لئےہم نے ‌ہر ایک کوجداگانہ طور پر مورد تحقیق قرار دیا ہے۔

منابعابن اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، بیروت، 1399قابن عربی، تفسیر ابن عربی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1422قبحرانی، السید ہاشم، تفسیر البرہان، مؤسسۃ الاعلمی، بیروت، 1419ق۔


[۱] ۔ منابذہ ایک قسم کا معاملہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔معاملہ یوں انجام پاتا تھا کہ خریدار یا بیچنے والا یہ کہتے کہ جب میں یا تو جنس کو زمین پر پھینکوں تو معاملہ انجام پائے گا یا یوں کہے‌کہ جنس کو میری طرف پھینکو یا میں تمہاری طرف پھینکوں گا اس طرح معاملہ انجام پاتا۔اس قسم کے معاملے‌کی حدیث میں ممانعت ہوئی ہے۔
[۲] ۔ملامسہ: یہ بھی زمانہ جاہلیت میں انجام پانے والا ایک قسم کا معاملہ ہے ۔اس کی کئی صورتیں ہیں ۔ا۔خریدار جنس کو چھونے پر معاملہ انجام پاتا ۔ ب۔ معاملہ انجام پانے کے بعد طرفین جنس پر ہاتھ پھیرتے اس طرح معاملہ لازم قرار پاتا۔ ج۔ جنس کی قسم کو معین کئے بغیر معاملہ کرتے بعد میں جنس کو معین کرنے کے لئے جنس پر ہاتھ‌ پھیرتے‌اور معاملہ انجام پاتا ۔ اس معاملے کی رسول اللہؐ نے ممانعت فرمائی ہے۔
[۳] ۔ مکی اور مدنی آیات کے بارے میں یہی رائج اصطلاح ہے ، وگرنہ اس سلسلے میں کئی دوسری اصطلاحیں بھی پائی جاتی ہیں ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک